فرما دیا گیا کہ اے نوح! ہماری جانب سے سلامتی اور ان برکتوں کے ساتھ اتر*، جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کی بہت سی جماعتوں پر** اور بہت سی وه امتیں ہوں گی جنہیں ہم فائده تو ضرور پہنچائیں گے لیکن پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔***
____________________
* یہ اترنا کشتی سے یا اس پہاڑ سے ہے جس پر کشتی جا کر ٹھہر گئی تھی۔
**- اس سے مراد یا تو وہ گروہ ہیں جو حضرت نوح (عليه السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار تھے، یا آئندہ ہونے والے وہ گروہ ہیں جو ان کی نسل سے ہونے والے تھے، اگلے فقرے کے پیش نظر یہی دوسرا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔
***- یہ وہ گروہ ہیں جو کشتی میں بچ جانے والوں کی نسل سے قیامت تک ہوں گے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کافروں کو دنیا کی چند روزہ زندگی گزارنے کے لئے ہم دنیا کا سازو سامان ضرور دیں گے لیکن بالآخر عذاب الیم سے دو چار ہوں گے۔