جن لوگوں نے ﻇلم برداشت کرنے کے بعد اللہ کی راه میں ترک وطن کیا ہے* ہم انہیں بہتر سے بہتر ٹھکانا دنیا میں عطا فرمائیں گے** اور آخرت کا ﺛواب تو بہت ہی بڑا ہے***، کاش کہ لوگ اس سے واقف ہوتے.
____________________
* ہجرت کا مطلب ہے اللہ کے دین کے لئے اللہ کی رضا کی خاطر اپنا وطن، اپنے رشتہ دار اور دوست احباب چھوڑ کر ایسے علاقے میں چلے جانا جہاں آسانی سے اللہ کے دین پر عمل ہو سکے۔ اس آیت میں ان ہی مہاجرین کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے، یہ آیت عام ہے جو تمام مہاجرین کو شامل ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ ان مہاجرین کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنی قوم کی ایذاؤں سے تنگ آ کر حبشہ ہجرت کر گئے تھے۔ ان کی تعداد عورتوں سمیت ایک سو یا اس سے زیادہ تھی، جن میں حضرت عثمان غنی (رضي الله عنه) اور ان کی زوجہ، دختر رسول (صلى الله عليه وسلم) حضرت رقیہ (رضی الله عنها) بھی تھیں۔
**- اس سے رزق طیب اور بعض نے مدینہ مراد لیا ہے، جو مسلمانوں کا مرکز بنا، امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دونوں قولوں میں منافات نہیں ہے۔ اس لئے کہ جن لوگوں نے اپنے کاروبار اور گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی تھی، اللہ تعالٰی نے دنیا میں ہی انہیں نعم البدل عطا فرما دیا۔ رزق طیب بھی دیا اور پورے عرب پر انہیں اقتدار و تمکن عطا فرمایا۔
***- حضرت عمر (رضي الله عنه) نے جب مہاجرین و انصار کے وظیفے مقرر کئے تو ہر مہاجر کو وظیفہ دیتے ہوئے فرمایا۔ «هَذَا مَا وَعَدَكَ اللهُ فِي الدُّنْيَا» ”یہ وہ ہے جس کا اللہ نے دنیا میں وعدہ کیا ہے“۔ « وَمَا ادَّخَرَ لَكَ فِي الآخِرَةِ أَفْضَلُ» ”اور آخرت میں تیرے لیے جو ذخیرہ ہے وہ اس سے کہییں بہتر ہے“۔ (ابن کثیر)


الصفحة التالية
Icon