اس قرآن میں موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر بھی کر، جو چنا ہوا* اور رسول اور نبی تھا.
____________________
* لِسَانَ صِدْقٍ سے مراد ثنائے حسن اور ذکر جمیل ہے لسان کی اضافت صدق کی طرف کی اور پھر اس کا وصف علو بیان کیا جس سے اس طرف اشارہ کر دیا کہ بندوں کی زبانوں پر جو ان کا ذکر جمیل رہتا ہے، تو وہ واقعی اس کے مستحق ہیں۔ چنانچہ دیکھ لیجئے کہ تمام ادیان سماویہ کو ماننے والے بلکہ مشرکین بھی حضرت ابراہیم (عليه السلام) اور ان کی اولاد کا تذکرہ بڑے اچھے الفاظ میں اور نہایت ادب واحترام سے کرتے ہیں۔ یہ نبوت واولاد کے بعد ایک اور انعام ہے جو ہجرت فی سبیل اللہ کی وجہ سے انہیں حاصل ہوا۔
**- مُخْلَصٌ، مُصْطَفَى، مُجْتَبَى اور مُخْتَارٌ، چاروں الفاظ کا مفہوم ایک ہے۔ یعنی رسالت وپیامبری کے لیے چنا ہوا پسندیدہ شخص، رسول بمعنی مرسل ہے (بھیجا ہوا) اور نبی کے معنی اللہ کا پیغام لوگوں کو سنانے والا یا وحی الہٰی کی خبر دینے والا تاہم مفہوم دونوں کا ایک ہے کہ اللہ جس بندے کو لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے چن لیتا ہے اور اسے اپنی وحی سے نوازتا ہے، اسے رسول اور نبی کہا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم سے اہل علم میں ایک بحث یہ چلی آ رہی ہے کہ آیا کہ ان دونوں میں فرق ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ فرق کرنے والے بالعموم کہتے ہیں کہ صاحب شریعت یا صاحب کتاب کو رسول اور نبی کہا جاتا ہے اور جو پیغمبر اپنی سابقہ پیغمبر کی کتاب یا شریعت کے مطابق ہی لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچاتا رہا، وہ صرف نبی ہے، رسول نہیں۔ تاہم قرآن کریم میں ان کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوا ہے اور بعض جگہ متقابل بھی آئے ہیں، مثلاً سورۃ الحج آیت 52 میں۔


الصفحة التالية
Icon