زناکار عورت و مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ*۔ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیئے، اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو**۔ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیئے.***
____________________
* بدکاری کی ابتدائی سزا جو اسلام میں عبوری طور پر بتائی گئی تھی، وہ سورۃ النساء آیت۔15میں گزر چکی ہے، اس میں کہا گیا تھا کہ اس کے لئے جب تک مستقل سزا مقرر نہ کی جائے، ان بدکار عورتوں کو گھروں میں بند رکھو، پھر جب سورہ نور کی یہ آیت نازل ہوئی تو نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے جو وعدہ فرمایا تھا، اس کے مطابق بدکار مرد و عورت کی مستقل سزا مقرر کر دی گئی ہے، وہ تم مجھ سے سیکھ لو، اور وہ ہے کنوارے (غیر شادی شدہ) مرد اور عورت کے لئے سو سو کوڑے اور شادی شدہ مرد اور عورت کو سو سو کوڑے اور سنگساری کے ذریعے مار دینا۔ (صحيح مسلم، كتاب الحدود باب حد الزنى- والسنن) پھر آپ نے شادی شدہ زانیوں کو عملا سزائے رجم دی اور سو کوڑے (جو چھوٹی سزا ہے) بڑی سزا میں مدغم ہوگئے اور اب شادی شدہ زانیوں کے لئے سزا صرف رجم (سنگساری) ہے۔ عہد رسالت مآب (صلى الله عليه وسلم) کے بعد خلفائے راشدین اور عہد صحابہ (رضي الله عنهم) میں بھی یہی سزا دی گئی اور بعد میں تمام امت کے فقہاء و علماء بھی اسی کے قائل رہے اور آج تک قائل ہیں۔ صرف خوارج نے اس سزا کا انکار کیا۔ برصغیر میں اس وقت بھی کچھ ایسے افراد ہیں جو اس سزا کے منکر ہیں۔ اس انکار کی اصل بنیاد ہی انکار حدیث پر ہے۔ کیونکہ رجم کی سزا صحیح اور نہایت قوی احادیث سے ثابت ہے۔ اور اس کے روایت کرنے والے بھی اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ علماء نے اسے متواتر روایات میں شمار کیا ہے۔ اسلیئے حدیث کی حجیت کا اور دین میں اس کے ماخذ شرعی ہونے کا قائل شخص رجم کا انکار نہیں کرسکتا۔
**- اس کا مطلب یہ ہے کہ ترس کھا کر سزا دینے سے گریز مت کرو، ورنہ طبعی طور پر ترس کا آنا، ایمان کے منافی نہیں، منجملہ خواص طبائع انسانی میں سے ہے۔
***- تاکہ سزا کا اصل مقصد کہ لوگ اس سے عبرت پکڑیں، زیادہ وسیع پیمانے پر حاصل ہو سکے۔ بد قسمتی سے آج کل برسر عام سزا کو انسانی حقوق کے خلاف باور کرایا جا رہا ہے۔ یہ سراسر جہالت، احکام الٰہی سے بغاوت اور بزم خویش اللہ سے بھی زیادہ انسانوں کا ہمدرد اور خیرخواہ بننا ہے۔ درانحالیکہ اللہ سے زیادہ رؤف رحیم کوئی نہیں۔