تم میں سے جو مرد عورت بےنکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو* اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی**۔ اگر وه مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا***۔ اللہ تعالیٰ کشادگی واﻻ اور علم واﻻ ہے.
____________________
* ۔أَيَامَى، أَيِّمٌ کی جمع ہے، أَيِّمٌ ایسی عورت کو کہا جاتا ہے جس کا خاوند نہ ہو، جس میں کنواری، بیوہ اور مطلقہ تینوں آجاتی ہیں۔ اور ایسے مرد کو بھی أَيِّمٌ کہتے ہیں جس کی بیوی نہ ہو۔ آیت میں خطاب اولیاء سے ہے کہ نکاح کر دو، یہ نہیں فرمایا کہ نکاح کر لو، کہ مخاطب نکاح کرنے والے مردو عورت ہوتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورت ولی کی اجازت اور رضامندی کے بغیر از خود اپنا نکاح نہیں کرسکتی۔ جس کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح امر کے صیغے سے بعض نے استدلال کیا ہے کہ نکاح کرنا واجب ہے، جب کہ بعض نے اسے مباح اور بعض نے مستحب قرار دیا ہے۔ تاہم استطاعت رکھنے والے کے لئے یہ سنت موکدہ بلکہ بعض حالات میں واجب ہے اور اس سے اعراض سخت وعید کا باعث ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) کا فرمان ہے «وَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي» (البخاري نمبر 50 63، ومسلم، نمبر 1020 ) "جس نے میری سنت سے اعراض کیا، وہ مجھ سے نہیںL۔
**- یہاں صالحیت سے مراد ایمان ہے، اس میں اختلاف ہے کہ مالک اپنے غلام اور لونڈیوں کو نکاح کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں یا نہیں؟ بعض اکراہ کے قائل ہیں، بعض نہیں۔ تاہم اندیشہ ضرر کی صورت میں شرعاً مجبور کرنا جائز ہے۔ بصورت دیگر غیر مشروع (ایسرالتفاسیر)۔
***- یعنی محض غربت اور تنگ دستی نکاح میں مانع نہیں ہونی چاہیئے۔ ممکن ہے نکاح کے بعد اللہ ان کی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت وفراخی میں بدل دے۔ حدیث میں آتا ہے۔ تین شخص ہیں جن کی اللہ ضرور مدد فرماتا ہے۔ 1۔ نکاح کرنے والا، جو پاک دامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے۔ 2۔ مکاﺗب غلام، جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہے۔ 3۔ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔ (ترمذي- أبواب فضائل الجهاد، باب ما جاء في المجاهد، والمكاتب والنكاح)۔