جب وہاں پہنچے تو آواز دی گئی کہ بابرکت ہے وه جو اس آگ میں ہے اور برکت دیاگیا ہے وه جس کے آس پاس ہے* اور پاک ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پالنے واﻻ ہے.**
____________________
* دور سے جہاں آگ کے شعلے لپکتے نظر آئے، وہاں پہنچے یعنی کوہ طور پر، تو دیکھا کہ ایک سرسبز درخت سے آگ کے شعلےبلند ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت میں آگ نہیں تھی، اللہ کا نور تھا، جس کی تجلی آگ کی طرح محسوس ہوتی تھی مَنْ فِي النَّارِ میں مَنْ سے مراد اللہ تبارک و تعالی اور نار سے مراد اس کا نور ہے اور وَمَنْ حَوْلَهَا (اس کے ارد گرد) سے مراد موسیٰ اور فرشتے، حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے حجاب، (پردے) کو نور (روشنی) اور ایک روایت میں نار (آگ) سے تعبیر کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ ”اگر اپنی ذات کو بےنقاب کردے تو اس کا جلال تمام مخلوقات کو جلا کر رکھ دے“۔ (صحيح مسلم كتاب الإيمان، باب إن الله لا ينام.. ۔ تفصیل کے لیے دیکھیں فتاوى ابن تيمية ج 5 ص459۔ 464)۔
**- یہاں اللہ کی تنزیہ وتقدیس کا مطلب یہ ہے کہ اس ندائے غیبی سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اس آگ یا درخت میں اللہ حلول کئے ہوئے ہے، جس طرح کہ بہت سے مشرک سمجھتے ہیں بلکہ یہ مشاہدۂ حق کی ایک صورت ہے جس سے نبوت کے آغاز میں انبیاء علیہم السلام کو بالعموم سرفراز کیا جاتا ہے۔ کھبی فرشتے کےذریعے سے اور کبھی خود اللہ تعالیٰ اپنی تجلی اور ہمکلامی سے جیسے یہاں موسیٰ (عليه السلام) کے ساتھ معاملہ پیش آیا۔