وه آسمان سے لے کر زمین تک (ہر) کام کی تدبیر کرتا ہے*۔ پھر (وه کام) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازه تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے.**
____________________
* آسمان سے، جہاں اللہ کا عرش اور لوح محفوظ ہے، اللہ تعالیٰ زمین پر احکام نازل فرماتا یعنی تدبیر کرتا اور زمین پر ان کا نفاذ ہوتا ہے۔ جیسے موت اور زندگی، صحت اور مرض، عطا اور منع، غنا اور فقر، جنگ اور صلح، عزت اور ذلت، وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر سے اپنی تقدیر کے مطابق یہ تدبیریں اور تصرفات کرتا ہے۔
**- یعنی پھر اس کی یہ تدبیر یا امر اس کی طرف واپس لوٹتا ہے ایک ہی دن میں، جسےفرشتے لے کر جاتے ہیں اور صعود (چڑھنے) کا یا آنےجانے کا فاصلہ اتنا ہے کہ غیر فرشتہ ہزار سال میں طے کرے۔ یا اس سے قیامت کا دن مراد ہے کہ اس دن انسانوں کے سارے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔ اس (یوم) کی تعیین وتفسیر میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے 16،15 اقوال اس ضمن میں ذکر کیے ہیں اس لئے حضرت ابن عباس نے اس کے بارے میں توقف کو پسند فرمایا اور اس کی حقیقت کو اللہ کے سپرد کر دیا ہے۔ صاحب ایسر التفاسیر کہتے ہیں کہ قرآن میں یہ تین مقامات پر آیا ہے اور تینوں جگہ الگ الگ دن مراد ہے۔ سورۂ حج (آیت۔ 47) میں ”یوم“ کا لفظ عبارت ہے اس زمانہ اور مدت سے جو اللہ کے ہاں ہے اور سورۂ معارج میں، جہاں یوم کی مقدار پچاس ہزار سال بتلائی گئی ہے، یوم حساب مراد ہے اور اس مقام (زیر بحث) میں یوم سے مراد دنیا کا آخری دن ہے، جب دنیا کے تمام معاملات فنا ہو کر اللہ کی طرف لوٹ جائیں گے۔


الصفحة التالية
Icon