لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی* ہے۔ پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو وه تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں**، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناه نہیں***، البتہ گناه وه ہے جس کا تم اراده دل سے کرو****۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے واﻻ مہربان ہے.
____________________
* اس حکم سے اس رواج کی ممانعت کر دی گئی جو زمانۂ جاہلیت سے چلا آرہا تھا اور ابتدائے اسلام میں بھی رائج تھا کہ لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ صحابہ کرام (رضي الله عنهم) بیان فرماتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ ! کو (جنہیں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ) نے آزاد کرکے بیٹا بنا لیا تھا) زید بن محمد ( (صلى الله عليه وسلم) ) کہہ کر پکارﺗے تھے، حتیٰ کہ قرآن کریم کی آیت ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ نازل ہوگئی۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ الاحزاب) اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابو حذیفہ ! کے گھر میں بھی ایک مسئلہ پیدا ہو گیا، جنہوں نے سالم کو بیٹا بنایا ہوا تھا جب منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھنے سے روک دیا گیا تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہوگیا نبی (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت ابو حذیفہ ! کی بیوی کو کہا کہ اسےدودھ پلا کر اپنا رضاعی بیٹا بنالو کیونکہ اس طرح تم اس پر حرام ہو جاؤ گی۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ (صحيح مسلم، كتاب الرضاع، باب رضاعة الكبير، أبو داود، كتاب النكاح، باب فيمن حرم به)۔
**- یعنی جن کے حقیقی باپوں کا علم ہے، اب دوسری نسبت ختم کرکے انہیں کی طرف انہیں منسوب کرو، البتہ جن کے باپوں کا علم نہ ہو سکے تو تم انہیں اپنا بھائی اور دوست سمجھو، بیٹا مت سمجھو۔
***- اس لئے کہ خطا ونسیان معاف ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی صراحت ہے۔
****- یعنی جو جان بوجھ کر غلط انتساب کرے گا، وہ سخت گناہ گار ہوگا۔ حدیث میں آتاہے۔ جس نے جانتے بوجھتے اپنے کو غیر باپ کی طرف منسوب کیا۔ اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔ (صحيح بخاري، كتاب المناقب، باب، نسبة اليمن إلى إسماعيل عليه السلام)


الصفحة التالية
Icon