کہہ دیجیئے کہ حق آچکا باطل نہ تو پہلے کچھ کرسکا ہے اور نہ کرسکے گا.*
____________________
* حق سے مراد قرآن اور باطل سے مراد کفرو شرک ہے۔ مطلب ہے اللہ کی طرف سے اللہ کا دین اور اس کا قرآن آگیا ہے، جس سے باطل مضمحل اور ختم ہوگیا ہے، اب وہ سراٹھانے کے قابل نہیں رہا، جس طرح فرمایا «بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ» (سورة الأنبياء: 18) حدیث میں آتا ہے کہ جس دن مکہ فتح ہوا، نبی (صلى الله عليه وسلم) خانہ کعبہ میں داخل ہوئے، چاروں طرف بت نصب تھے، آپ (صلى الله عليه وسلم) کمان کی نوک سے ان بتوں کو مارتے جاتے اور یہ آیت اور سورۂ بنی اسرائیل کی آیت «وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ» پڑھتے جاتے۔ (صحيح بخاري، كتاب الجهاد، باب إزالة الأصنام من حول الكعبة)۔