کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اتارتا ہے اور اسے زمین کی سوتوں میں پہنچاتا* ہے، پھر اسی کے ذریعہ سے مختلف قسم کی کھیتیاں اگاتا** ہے پھر وه خشک ہو جاتی ہیں اور آپ انہیں زرد رنگ دیکھتے ہیں پھر انہیں ریزه ریزه کر دیتا ہے***، اس میں عقل مندوں کے لئے بہت زیاده نصیحت ہے.****
____________________
* يَنَابِيعُ يَنْبُوعٌ کی جمع ہے، سوتے، چشمے، یعنی بارش کے ذریعے سےپانی آسمان سےاترتا ہے، پھر وہ زمین میں جذب ہو جاتا ہے اور پھر چشموں کی صورت میں نکلتا ہے یا تالابوں اور نہروں میں جمع ہو جاتا ہے۔
**- یعنی اس پانی سے، جو ایک ہوتا ہے، انواع واقسام کی چیزیں پیدا فرماتا ہے، جن کا رنگ، ذائقہ، خوشبو ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔
***- یعنی شادابی اور تروتازگی کے بعد وہ کھیتیاں سوکھ جاتی اور زرد ہو جاتی ہیں اور پھر ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں۔ جس طرح لکڑی کی ٹہنیاں خشک ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔
****- یعنی اہل دانش اس سے سمجھ لیتے ہیں کہ دنیا کی مثال بھی اسی طرح ہے، وہ بہت جلد زوال وفنا سے ہمکنار ہو جائے گی۔ اس کی رونق وبہجت، اس کی شادابی وزینت اور اس کی لذتیں اور آسائشیں عارضی ہیں، جن سے انسان کو دل نہیں لگانا چاہئیے۔ بلکہ اس موت کی تیاری میں مشغول رہنا چاہئیے جس کے بعد کی زندگی دائمی ہے، جسے زوال نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ قرآن اور اہل ایمان کے سینوں کی مثال ہے اور مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے قرآن اتارا، جسے وہ مومنوں کے دلوں میں داخل فرماتا ہے، پھر اس کے ذریعے سے دین باہر نکلتا ہے جو ایک دوسرے سے بہتر ہوتا ہے، پس مومن تو ایمان ویقین میں زیادہ ہو جاتا ہے اور جس کے دل میں روگ ہوتا ہے، وہ اس طرح خشک ہو جاتا ہے جس طرح کھیتی خشک ہو جاتی ہے۔(فتح القدیر)۔