اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے*، جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں** آخر میں ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں***، یہ ہے اللہ تعالیٰ کی ہدایت جس کے ذریعہ جسے چاہے راه راست پر لگا دیتا ہے۔ اور جسے اللہ تعالیٰ ہی راه بھلا دے اس کا ہادی کوئی نہیں.
____________________
* أَحْسَنُ الْحَدِيثِ سے مراد قرآن مجید ہے، ملتی جلتی کا مطلب، اس کے سارے حصےحسن کلام، اعجازوبلاغت، صحت معانی وغیرہ خوبیوں میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ یا یہ بھی سابقہ کتب آسمانی سے ملتا ہے یعنی ان کی مشابہ ہے۔ مثانی، جس میں قصص وواقعات اور مواعظ واحکام کو بار بار دہرایا گیا ہے۔
**- کیونکہ وہ ان وعیدوں کو اور تخویف وتہدید کو سمجھتے ہیں جو نافرمانوں کے لئے اس میں ہے۔
***- یعنی جب اللہ کی رحمت اور اس کے لطف وکرم کی امید ان کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے تو ان کے اندر سوز وگداز پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اللہ کے ذکر میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ حضرت قتادہ (رضي الله عنه) فرماتے ہیں کہ اس میں اولیاء اللہ کی صفت بیان کی گئی ہے کہ اللہ کے خوف سے ان کے دل کانﭗ اٹھتے، ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں اور ان کے دلوں کو اللہ کے ذکر سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ وہ مدہوش اور حواس باختہ ہو جائیں اور عقل و ہوش باقی نہ رہے، کیونکہ یہ بدعتیوں کی صفت ہے اور اس میں شیطان کا دخل ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) جیسے آج بھی بدعتیوں کی قوالی میں اس طرح کی شیطانی حرکتیں عام ہیں، جسے وہ وجد وحال یا سکر ومستی سے تعبیر کرتے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں، اہل ایمان کا معاملہ اس بارے میں کافروں سے بوجوہ مختلف ہے۔ ایک یہ کہ اہل ایمان کا سماع، قرآن کریم کی تلاوت ہے، جب کہ کفار کا سماع، بے حیا مغنیات کی آوازوں میں گانا بجانا، سننا ہے۔ (جیسے اہل بدعت کا سماع مشرکانہ غلو پر مبنی قوالیاں اور نعتیں ہیں) دوسرے، یہ کہ اہل ایمان قرآن سن کر ادب وخشیت سے رجا ومحبت سے اور علم وفہم سے رو پڑتے ہیں اور سجدہ ریز ہو جاتے ہیں، جب کہ کفار شور کرتے اور کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں۔ تیسرے، اہل ایمان سماع قرآن کے وقت ادب وتواضع اختیار کرتے ہیں، جیسے صحابہ کرام کی عادت مبارکہ تھی، جس سے ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور ان کے دل اللہ کی طرف جھک جاتے تھے۔ (ابن کثیر)۔