آپ پر ہم نے حق کے ساتھ یہ کتاب لوگوں کے لیے نازل فرمائی ہے، پس جو شخص راه راست پر آجائے اس کے اپنے لیے نفع ہے اور جو گمراه ہوجائے اس کی گمراہی کا (وبال) اسی پر ہے، آپ ان کے ذمہ دار نہیں.*
____________________
* نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل مکہ کاکفر پر اصرار بڑاگراں گزرتا تھا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام صرف اس کتاب کو بیان کر دیناہے جو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہے، ان کی ہدایت کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکلف نہیں ہیں۔ اگر وہ ہدایت کا راستہ اپنالیں گے تو اس میں انہی کا فائدہ ہے اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو خود ہی نقصان اٹھائیں گے۔ وکیل کے معنی مکلف اور ذمےدار کےہیں۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ہدایت کے ذمے دار نہیں ہیں۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی ایک قدرت بالغہ اور صنعت عجیبہ کا تذکرہ فرمارہا ہے جس کا مشاہدہ ہر روز انسان کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب وہ سو جاتا ہے تو اس کی روح اللہ کے حکم سے گویا نکل جاتی ہے، کیونکہ اس کےاحساس و ادراک کی قوت ختم ہو جاتی ہے۔ اور جب وہ بیدار ہوتا ہے تو روح اس میں گویا دوبارہ بھیج دی جاتی ہے، جس سے اس کے حواس بحال ہو جاتے ہیں۔ البتہ جس کی زندگی کےدن پورے ہو چکے ہوتے ہیں، اس کی روح واپس نہیں آتی اور وہ موت سے ہمکنارہو جاتا ہے۔ اس کو بعض مفسرین نے وفات کبریٰ اور وفات صغریٰ سے بھی تعبیر کیا ہے۔