تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وه تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کابدلہ ہے، اور وه تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے.*
____________________
* اس کا خطاب اگر اہل ایمان سے ہو تو مطلب ہوگا کہ تمہارے بعض گناہوں کا کفارہ تو وہ مصائب بن جاتے ہیں جو تمہیں گناہوں کی پاداش میں پہنچتے ہیں اور کچھ گناہ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ یوں ہی معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کی ذات بڑی کریم ہے، معاف کرنے کےبعد آخرت میں اس پر مواخذہ نہیں فرمائے گی۔
حدیث میں بھی آتا ہے کہ مومن کو جو بھی تکلیف اور ہم وحزن پہنچتا ہے حتیٰ کہ اس کے پیر میں کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ (صحيح بخاري، كتاب المرضى، باب ما جاء في كفارة المرض - مسلم، كتاب البر، باب ثواب المؤمن فيما يصيبه من مرض) اگر خطاب عام ہو تو مطلب ہوگا کہ تمہیں جو مصائب دنیا پہنچتے ہیں، یہ تمہارے اپنے گناہوں کانتیجہ ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ بہت سے گناہوں سے تو درگزر ہی فرما دیتا ہے یعنی یا تو ہمیشہ کے لیے معاف کردیتا ہے۔ یا ان پر فوری سزا نہیں دیتا۔ (اور عقوبت و تعزیر میں تاخیر، یہ بھی ایک گونہ معافی ہی ہے) جیسے دوسرے مقام پر فرمایا «وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ» (فاطر: 45) ”اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے کرتوتوں پر فوراً مواخذہ فرما دے تو زمین پر کوئی چلنے والا ہی باقی نہ رہے“۔ اسی مفہوم کی آیت النحل 61 بھی ہے۔