تاکہ جو کچھ تیرے گناه آگے ہوئے اور جو پیچھے سب کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے*، اور تجھ پر اپنا احسان پورا کر دے** اور تجھے سیدھی راه چلائے.***
____________________
* اس سے مراد ترک اولیٰ والے معاملات یا وہ امور ہیں جو آپ (صلى الله عليه وسلم)پنے اپنی فہم واجتہاد سے کیے، لیکن اللہ نے انہیں ناپسند فرمایا، جیسے عبداللہ بن ام مکتوم (رضي الله عنه) وغیرہ کا واقعہ ہے جس پر سورۂ عبس کا نزول ہوا، یہ معاملات وامور اگرچہ گناہ اور منافی عصمت نہیں، لیکن آپ(صلى الله عليه وسلم) کی شان ارفع کے پیش نظر انہیں بھی کوتاہیاں شمار کر لیا گیا، جس پر معافی کا اعلان فرمایا جا رہا ہے۔ لِيَغْفِرَ میں لام تعلیل کے لئے ہے۔ یعنی یہ فتح مبین ان تین چیزوں کا سبب ہے جو آیت میں مذکور ہیں۔ اور یہ مغفرت ذنوب کا سبب، اس اعتبار سے ہے کہ اس صلح کے بعد قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد میں بکثرت اضافہ ہوا، جس سے آپ(صلى الله عليه وسلم) کے اجر عظیم میں بھی خوب اضافہ ہوا اور حسنات، وبلندی درجات میں بھی۔
**- اس دین کو غالب کرکے جس کی تم دعوت دیتے ہو۔ یا فتح وغلبہ عطا کرکے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ مغفرت اور ہدایت پر استقامت یہی اتمام نعمت ہے (فتح القدیر)۔
***- یعنی اس پر استقامت نصیب فرمائے۔ ہدایت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجات سے نوازے۔