ان لوگوں کو جو بڑے گناہوں سے بچتے ہیں اور بے حیائی سے بھی*۔ سوائے کسی چھوٹے سے گناه کے**۔ بیشک تیرا رب بہت کشاده مغفرت واﻻ ہے، وه تمہیں بخوبی جانتا ہے جبکہ اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جبکہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے***۔ پس تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو****، وہی پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے.
____________________
* كَبَائِرُ، كَبِيرَةٌ کی جمع ہے۔ کبیرہ گناہ کی تعریف میں اختلاف ہے۔ زیادہ اہل علم کے نزدیک ہروہ گناہ کبیرہ ہے جس پر جہنم کی وعیدہے، یا جس کے مرتکب کی سخت مذمت قرآن و حدیث میں مذکور ہے اور اہل علم یہ بھی کہتے ہیں کہ چھوٹے گناہ پر اصرار و دوام بھی اسے کبیرہ گنا ہ بنا دیتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے معنی اور ماہیت کی تحقیقی میں الکبائر للذہبی اور الزواجر وغیرہ۔ فَوَاحِشُ، فَاحِشَةٌ کی جمع ہے، بےحیائی پر مبنی کام، جیسے زنا، لواطت وغیرہ۔ بعض کہتے ہیں، جن گناہوں میں حد ہے، وہ سب فواحش میں داخل ہیں۔ آج کل بے حیائی کے مظاہر چونکہ بہت عام ہو گئے ہیں، اس لیے بےحیائی کو تہذیب سمجھ لیا گیا ہے، حتیٰ کہ اب مسلمانوں نے بھی اب اس تہذیب بے حیائی کو اپنا لیا ہے۔ چنانچہ گھروں میں ٹی وی، وی سی آر وغیرہ عام ہیں، عورتوں نے نہ صرف پردے کو خیرباد کہہ دیا ہے، بلکہ بن سنورکر اور حسن وجمال کا مجسم اشتہار بن کر باہر نکلنے کو اپنا شعار اور وطیرہ بنا لیا ہے۔ مخلوط تعلیم، مخلوط ادارے، مخلوط مجلسیں اور دیگر بہت سے موقعوں پر مرد وزن کا بےباکانہ اختلاط اور بےمحابا گفتگو روز افزوں ہے، دراں حالیکہ یہ سب فواحش میں داخل ہیں۔ جن کی بابت یہاں بتلایا جا رہاہے کہ جن لوگوں کی مغفرت ہونی ہے، وہ کبائر وفواحش سے اجتناب کرنے والے ہوں گے نہ کہ ان میں مبتلا۔
**- لَمَمٌ کےلغوی معنی ہیں، کم اورچھوٹا ہونا، اسی سے اس کے یہ استعمالات ہیں أَلَمَّ بِالْمَكَانِ(مکان میں تھوڑی دیر ٹھہرا) أَلَمَّ بِالطَّعَامِ (تھوڑسا کھایا)، اسی طرح کسی چیز کو محض چھو لینا، یا اس کے قریب ہونا، یا کسی کام کو ایک مرتبہ یا دو مرتبہ کرنا، اس پر دوام و استمرار نہ کرنا، یا محض دل میں خیال کا گزرنا، یہ سب صورتیں لَمَمٌ کہلاتی ہیں، (فتح القدیر) اس کے اس مفہوم اور استعمال کی رو سے اس کے معنی صغیرہ گناہ کیے جاتےہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بڑے گناہ کےمبادیات کا ارتکاب، لیکن بڑےگناہ سے اجتناب کرنا، یا کسی گناہ کا ایک دو مرتبہ کرنا پھر ہمیشہ کے لیے اسے چھوڑ دینا، یا کسی گناہ کامﺤﺾ دل میں خیال کرنا لیکن عملاً اس کے قریب نہ جانا، یہ سارے صغیرہ گناہ ہوں گے، جو اللہ تعالیٰ کبائر سے اجتناب کی برکت سے معاف فرمادےگا۔
***- أَجِنَّةٌ، جَنِينٌ کی جمع ہے جو پیٹ کے بچےکو کہا جاتا ہے، اس لیے کہ یہ لوگوں کی نظروں سےمستور ہوتا ہے۔
****- یعنی جب اس سے تمہاری کوئی کیفیت اور حرکت مخفی نہیں، حتیٰ کہ جب تم ماں کے پیٹ میں تھے، جہاں تمہیں کوئی دیکھنے پرقادر نہیں تھا، وہاں بھی تمہارے تمام احوال سے وہ واقف تھا، تو پھر اپنی پاکیزگی بیان کرنے کی اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی کیا ضرورت ہے؟ مطلب یہ ہے کہ ایسا نہ کرو تاکہ ریاکاری سے تم بچو۔