اور یتیموں کو ان کے بالﻎ ہو جانے تک سدھارتے اور آزماتے رہو پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ تو انہیں ان کے مال سونﭗ دو اور ان کے بڑے ہو جانے کے ڈر سے ان کے مالوں کو جلدی جلدی فضول خرچیوں میں تباه نہ کر دو، مال داروں کو چاہئے کہ (ان کے مال سے) بچتے رہیں، ہاں مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق واجبی طور سے کھالے، پھر جب انہیں ان کے مال سونپو تو گواه بنا لو، دراصل حساب لینے واﻻ اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے۔*
____________________
* یتیموں کے مال کے بارے میں ضروری ہدایت دینے کے بعد یہ فرمانے کا مطلب یہ ہےکہ جب تک یتیم کا مال تمہارے پاس رہا، تم نے اس کی کس طرح حفاظت کی اور جب مال کے سپرد کیا تو اس میں کوئی کمی بیشی یا کسی قسم کی تبدیلی کی یا نہیں ؟ عام لوگوں کو تو تمہاری امانت داری یا خیانت کا شاید پتہ نہ چلے۔ لیکن اللہ سے تو کوئی چیز مخفی نہیں۔ وہ یقیناً جب تم اس کی بارگاہ میں جاؤ گے تو تم سے حساب لے گا۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت ابو ذر (رضي الله عنه) سے فرمایا ابوذر! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور تمہارے لئے وہی چیز پسند کرتا ہوں، جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں، تم دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بننا نہ کسی یتیم کا مال کا والی اور سرپرست (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ)