جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی* اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا** ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا***، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.****
____________________
* یہ ان کافروں کے بارے میں ہدایات دی جارہی ہیں جو مسلمانوں سے محض دین اسلام کی وجہ سے بغض وعداوت نہیں رکھتے اور اس بنیاد پر مسلمانوں سے نہیں لڑتے، یہ پہلی شرط ہے۔
**- یعنی تمہارے ساتھ ایسا رویہ بھی اختیار نہیں کیا کہ تم ہجرت پر مجبور ہو جاؤ۔ یہ دوسری شرط ہے۔ ایک تیسری شرط یہ ہے جو اگلی آیت سے واضح ہوتی ہے، کہ وہ مسلمانوں کے خلاف دوسرے کافروں کو کسی قسم کی مدد بھی نہ پہنچائیں۔ مشورے اور رائے سے اور نہ ہتھیاروں وغیرہ کے ذریعے سے۔
***- یعنی ایسے کافروں سے احسان اور انصاف کا معاملہ کرنا ممنوع نہیں ہے۔ جیسے حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق (رضي الله عنه) ما نے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سے اپنی مشرکہ ماں کی بابت صلہ رحمی یعنی حسن سلوک کرنے کا پوچھا، آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا : صِلِي أُمَّكِ (صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب فضل النفقة والصدقة على الأقربين.... بخاري كتاب الأدب، باب صلة الوالد المشرك) ”اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو“۔
****- اس میں انصاف کرنے کی ترغیب ہے حتیٰ کہ کافروں کے ساتھ بھی۔ حدیث میں انصاف کرنے والوں کی فضیلت یوں بیان ہوئی ہے «إَنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللهِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ، عَنْ يَمِينِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ - وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ - الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ، وَمَا وَلُوا»(صحيح مسلم، كتاب الإمارة، باب فضيلة الإمام العادل ) ”انصا ف کرنے والے نور کے منبروں پر ہوں گے جو رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے اور رحمٰن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، جو اپنے فیصلوں میں، اپنے اہل میں اور اپنی رعایا میں انصاف کا اہتمام کرتے ہیں“۔