یہی وه ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو یہاں تک کہ وه ادھر ادھر ہو جائیں* اور آسمان وزمین کے کل خزانے اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں** لیکن یہ منافق بے سمجھ ہیں.***
____________________
* ایک غزوے میں (جسے اہل سیر غزوۂ مریسیع یا غزوۂ بنی المصطلق کہتے ہیں) ایک مہاجر اور ایک انصاری کا جھگڑا ہوگیا، دونوں نے اپنی اپنی حمایت کے لیے انصار اور مہاجرین کو پکارا، جس پر عبداللہ بن ابی (منافق) نے انصار سے کہا کہ تم نے مہاجرین کی مدد کی اور اور ان کو اپنے ساتھ رکھا، اب دیکھ لو، اس کا نتیجہ سامنے آرہا ہے یعنی یہ اب تمہارا کھا کر تمہیں پر غرا رہے ہیں۔ ان کا علاج تو یہ ہے کہ ان پر خرچ کرنا بند کر دو، یہ اپنے آپ تتر بتر ہو جائیں گے۔ نیز اس نے یہ بھی کہا کہ ہم (جو عزت والے ہیں) ان ذلیلوں (مہاجروں) کو مدینے سے نکال دیں گے۔ حضرت زید بن ارقم (رضي الله عنه) نے یہ کلمات خبیثہ سن لیے اور انہوں نے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کو آکر بتلایا، آپ (صلى الله عليه وسلم) نے عبداللہ بن ابی کو بلا کر پوچھا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ جس پر حضرت زید بن ارقم (رضي الله عنه)، کو سخت ملال ہوا، اللہ تعالیٰ نے حضرت زید بن ارقم (رضي الله عنه)، کی صداقت کے اظہار کے لیے سورۂ منافقون نازل فرما دی، جس میں ابن ابی کے کردار کو پوری طرح طشت ازبام کر دیا گیا۔ (صحيح البخاري، تفسير سورة المنافقين)۔
**- مطلب یہ ہے کہ مہاجرین کا رازق اللہ تعالیٰ ہے اس لیے کہ رزق کے خزانے اسی کے پاس ہیں، وہ جس کو جتنا چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے۔
***- منافق اس حقیقت کو نہیں جانتے، اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ انصار اگر مہاجرین کی طرف دست تعاون دراز نہ کریں تو وہ بھوکے مر جائیں گے۔


الصفحة التالية
Icon