اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے* اور پہلو کے ساتھی سے** اور راه کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں، (غلام کنیز)*** یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔****
____________________
* الْجَارِ الْجُنُبِ قرابت دار پڑوسی کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں ایسا پڑوسی جس سے قرابت داری نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ پڑوسی سے بہ حیثیت پڑوسی کے حسن سلوک کیا جائے، وہ رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار جس طرح کہ احادیث میں بھی اس کی بڑی تاکید بیان کی گئی ہے۔
**- اس سے مراد رفیق سفر، شریک کار، بیوی اور وہ شخص جو فائدے کی امید پر کسی کی قربت وہم نشینی اختیار کرے۔ بلکہ اس کی تعریف میں وہ لوگ بھی آسکتے ہیں جنہیں تحصیل علم، تعلم صناعت (کوئی کام سیکھنے) کے لئے یا کسی کاروبارﯼ سلسلے میں آپ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملے۔ (فتح القدیر)
***- اس میں گھر، دوکان اور کارخانوﮞ، ملوں کے ملازم اور نوکر چاکر بھی آجاتے ہیں، غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید احادیث میں آئی ہے۔
****- فخر وغرور اور تکبر اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے بلکہ ایک حدیث میں یہاں تک آتا ہے کہ ”وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا۔“ (صحیح مسلم کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ حدیث نمبر 19) یہاں کبر کی بطور خاص مذمت سے یہ مقصد ہے کہ اللہ تعال۔ کی عبادت اور جن جن لوگوں سے حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ اس پر عمل وہی شخص کر سکتا ہے جس کا دل کبر سے خالی ہوگا۔ متکبر اور مغرورشخص صحیح معنوں مین نہ حق عبادت ادا کر سکتا ہے اور نہ اپنوں اور بیگانوں کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام۔


الصفحة التالية
Icon