ﯫ
surah.translation
.
من تأليف:
محمد إبراهيم جوناكري
.
ﰡ
(ساری چیزیں) جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہیں (جو) بادشاه نہایت پاک (ہے) غالب وباحکمت ہے.
وہی ہے جس نے ناخوانده لوگوں* میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے.
____________________
* أُمِّيِّينَ سے مراد عرب ہیں جن کی اکثریت ان پڑھ تھی۔ ان کے خصوصی ذکر کا یہ مطلب نہیں کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت دوسروں کے لیے نہیں تھی، لیکن چونکہ اولین مخاطب وہ تھے، اس لیے اللہ کا ان پر یہ زیادہ احسان تھا۔
____________________
* أُمِّيِّينَ سے مراد عرب ہیں جن کی اکثریت ان پڑھ تھی۔ ان کے خصوصی ذکر کا یہ مطلب نہیں کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت دوسروں کے لیے نہیں تھی، لیکن چونکہ اولین مخاطب وہ تھے، اس لیے اللہ کا ان پر یہ زیادہ احسان تھا۔
اور دوسروں کے لیے بھی انہیں میں سے جو اب تک ان سے نہیں* ملے۔ اور وہی غالب باحکمت ہے.
____________________
* یہ أُمِّيِّينَ پر عطف ہے یعنی بَعَثَ فِي آخَرِينَ مِنْهُمْ آخَرِينَ سے فارس اور دیگر غیر عرب لوگ ہیں جو قیامت تک آپ (صلى الله عليه وسلم) پر ایمان لانے والے ہوں گے۔ بعض کہتے ہیں کہ عرب وعجم کے وہ تمام لوگ ہیں جو عہد صحابہ (رضي الله عنهم) کے بعد قیامت تک ہوں گے چنانچہ اس میں فارس، روم، بربر، سوڈان، ترک، مغول، کرد، چینی اور اہل ہند وغیرہ سب آجاتے ہیں۔ یعنی آپ (صلى الله عليه وسلم) کی نبوت سب کے لیے ہے چنانچہ یہ سب ہی آپ (صلى الله عليه وسلم) پر ایمان لائے۔ اور اسلام لانے کے بعد یہ بھی مِنْهُمْ کا مصداق یعنی اولین اسلام لانے والے أُمِّيِّينَ میں سے ہوگئے کیونکہ تمام مسلمان امت واحدہ ہیں۔ اسی ضمیر کی وجہ سے بعض کہتے ہیں کہ آخرین سے مراد بعد میں ہونے والے عرب ہیں کیونکہ مِنْهُمْ کی ضمیر کا مرجع أُمِّيِّين َ ہیں۔ (فتح القدیر)۔
____________________
* یہ أُمِّيِّينَ پر عطف ہے یعنی بَعَثَ فِي آخَرِينَ مِنْهُمْ آخَرِينَ سے فارس اور دیگر غیر عرب لوگ ہیں جو قیامت تک آپ (صلى الله عليه وسلم) پر ایمان لانے والے ہوں گے۔ بعض کہتے ہیں کہ عرب وعجم کے وہ تمام لوگ ہیں جو عہد صحابہ (رضي الله عنهم) کے بعد قیامت تک ہوں گے چنانچہ اس میں فارس، روم، بربر، سوڈان، ترک، مغول، کرد، چینی اور اہل ہند وغیرہ سب آجاتے ہیں۔ یعنی آپ (صلى الله عليه وسلم) کی نبوت سب کے لیے ہے چنانچہ یہ سب ہی آپ (صلى الله عليه وسلم) پر ایمان لائے۔ اور اسلام لانے کے بعد یہ بھی مِنْهُمْ کا مصداق یعنی اولین اسلام لانے والے أُمِّيِّينَ میں سے ہوگئے کیونکہ تمام مسلمان امت واحدہ ہیں۔ اسی ضمیر کی وجہ سے بعض کہتے ہیں کہ آخرین سے مراد بعد میں ہونے والے عرب ہیں کیونکہ مِنْهُمْ کی ضمیر کا مرجع أُمِّيِّين َ ہیں۔ (فتح القدیر)۔
یہ اللہ کا فضل ہے* جسے چاہے اپنا فضل دے اور اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل کا مالک ہے.
____________________
* یہ اشارہ نبوت محمدی (عَلَى صَاحِبِهَا الصَّلاةُ وَالتَّحِيَّةُ) کی طرف بھی ہوسکتا ہے اور اس پر ایمان لانے والوں کی طرف بھی۔
____________________
* یہ اشارہ نبوت محمدی (عَلَى صَاحِبِهَا الصَّلاةُ وَالتَّحِيَّةُ) کی طرف بھی ہوسکتا ہے اور اس پر ایمان لانے والوں کی طرف بھی۔
جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں ﻻدے ہو*۔ اللہ کی باتوں کو جھٹلانے والوں کی بڑی بری مثال ہے اور اللہ (ایسے) ﻇالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا.
____________________
* أَسْفَارٌ، سِفْرٌ کی جمع ہے۔ معنی ہیں بڑی کتاب۔ کتاب جب پڑھی جاتی ہے تو انسان اس کے معنوں میں سفر کرتا ہے۔ اس لیے کتاب کو بھی سفر کہا جاتا ہے (فتح القدیر) یہ بےعمل یہودیوں کی مثال بیان کی گئی ہے کہ جس طرح گدھے کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی کمر پر جو کتابیں لدی ہوئی ہیں، ان میں کیا لکھا ہوا ہے؟ یا اس پر کتابیں لدی ہوئی ہیں یا کوڑا کرکٹ۔ اسی طرح یہ یہودی ہیں یہ تورات کو تو اٹھائے پھرتے ہیں، اس کو پڑھنے اور یاد کرنے کے وعدے بھی کرتے ہیں، لیکن اسے سمجھتے ہیں نہ اس کے مقتضا پر عمل کرتے ہیں، بلکہ اس میں تاویل وتحریف اور تغیر وتبدل سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے یہ حقیقت میں گدھے سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ گدھا تو پیدائشی طور پر فہم وشعور سے ہی عاری ہوتا ہے، جب کہ ان کے اندر فہم وشعور ہے لیکن یہ اسے صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتے۔ اسی لیے آگے فرمایا کہ ان کی بڑی بری مثال ہے۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا، «أُولَئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ» (الأعراف: 179) ”یہ چوپائے کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ“۔ یہی مثال مسلمانوں کی اور بالخصوص علما کی ہے جو قرآن پڑھتے ہیں، اسے یاد کرتے ہیں اور اس کے معانی ومطالب کو سمجھتے ہیں، لیکن اس کے مقتضا پر عمل نہیں کرتے۔
____________________
* أَسْفَارٌ، سِفْرٌ کی جمع ہے۔ معنی ہیں بڑی کتاب۔ کتاب جب پڑھی جاتی ہے تو انسان اس کے معنوں میں سفر کرتا ہے۔ اس لیے کتاب کو بھی سفر کہا جاتا ہے (فتح القدیر) یہ بےعمل یہودیوں کی مثال بیان کی گئی ہے کہ جس طرح گدھے کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی کمر پر جو کتابیں لدی ہوئی ہیں، ان میں کیا لکھا ہوا ہے؟ یا اس پر کتابیں لدی ہوئی ہیں یا کوڑا کرکٹ۔ اسی طرح یہ یہودی ہیں یہ تورات کو تو اٹھائے پھرتے ہیں، اس کو پڑھنے اور یاد کرنے کے وعدے بھی کرتے ہیں، لیکن اسے سمجھتے ہیں نہ اس کے مقتضا پر عمل کرتے ہیں، بلکہ اس میں تاویل وتحریف اور تغیر وتبدل سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے یہ حقیقت میں گدھے سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ گدھا تو پیدائشی طور پر فہم وشعور سے ہی عاری ہوتا ہے، جب کہ ان کے اندر فہم وشعور ہے لیکن یہ اسے صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتے۔ اسی لیے آگے فرمایا کہ ان کی بڑی بری مثال ہے۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا، «أُولَئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ» (الأعراف: 179) ”یہ چوپائے کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ“۔ یہی مثال مسلمانوں کی اور بالخصوص علما کی ہے جو قرآن پڑھتے ہیں، اسے یاد کرتے ہیں اور اس کے معانی ومطالب کو سمجھتے ہیں، لیکن اس کے مقتضا پر عمل نہیں کرتے۔
کہہ دیجئے کہ اے یہودیو! اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم اللہ کے دوست ہو دوسرے لوگوں کے سوا تو تم موت کی تمنا کرو* اگر تم سچے ہو.**
____________________
* جیسے وہ کہا کرتے تھے کہ (ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں)۔ (المائدۃ: 18) اور دعویٰ کرتے تھے کہ (جنت میں صرف وہی جائے گا جو یہودی یا نصرانی ہوگا) (البقرۃ: 111)
**- تاکہ تمہیں وہ اعزاز واکرام حاصل ہو جو تمہارے زعم کے مطابق تمہارے لیے ہونا چاہیے۔
***- اس لیے کہ جس کو یہ علم ہو کہ مرنے کے بعد اس کے لیے جنت ہے، وہ تو وہاں جلد پہنچنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اس کی تفسیر دعوت مباہلہ سے کی ہے۔ یعنی اس میں ان سے کہا گیا ہے کہ اگر تم نبوت محمدیہ کے انکار اور اپنے دعوائے ولایت ومحبوبیت میں سچے ہو تو مسلمانوں کے ساتھ مباہلہ کر لو۔ یعنی مسلمانوں اور یہودی دونوں مل کر بارگاہ الٰہی میں دعا کریں کہ یااللہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے، اسے موت سے ہمکنار فرما دے۔ دیکھئے سورۂ بقرۃ آیت 94 کا حاشیہ)۔
____________________
* جیسے وہ کہا کرتے تھے کہ (ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں)۔ (المائدۃ: 18) اور دعویٰ کرتے تھے کہ (جنت میں صرف وہی جائے گا جو یہودی یا نصرانی ہوگا) (البقرۃ: 111)
**- تاکہ تمہیں وہ اعزاز واکرام حاصل ہو جو تمہارے زعم کے مطابق تمہارے لیے ہونا چاہیے۔
***- اس لیے کہ جس کو یہ علم ہو کہ مرنے کے بعد اس کے لیے جنت ہے، وہ تو وہاں جلد پہنچنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اس کی تفسیر دعوت مباہلہ سے کی ہے۔ یعنی اس میں ان سے کہا گیا ہے کہ اگر تم نبوت محمدیہ کے انکار اور اپنے دعوائے ولایت ومحبوبیت میں سچے ہو تو مسلمانوں کے ساتھ مباہلہ کر لو۔ یعنی مسلمانوں اور یہودی دونوں مل کر بارگاہ الٰہی میں دعا کریں کہ یااللہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے، اسے موت سے ہمکنار فرما دے۔ دیکھئے سورۂ بقرۃ آیت 94 کا حاشیہ)۔
یہ کبھی بھی موت کی تمنا نہ کریں گے بوجہ ان اعمال کے جو اپنے آگے اپنے ہاتھوں بھیج رکھے ہیں* اور اللہ ﻇالموں کو خوب جانتا ہے.**
____________________
* یعنی کفر ومعاصی اور کتاب الٰہی میں تحریف وتغیر کا جو ارتکاب یہ کرتے رہے ہیں، ان کے باعث کبھی بھی یہ موت کی آرزو نہیں کریں گے۔
____________________
* یعنی کفر ومعاصی اور کتاب الٰہی میں تحریف وتغیر کا جو ارتکاب یہ کرتے رہے ہیں، ان کے باعث کبھی بھی یہ موت کی آرزو نہیں کریں گے۔
کہہ دیجئے! کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وه تو تمہیں پہنچ کر رہے گی پھر تم سب چھپے کھلے کے جاننے والے (اللہ) کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وه تمہیں تمہارے کیے ہوئے تمام کام بتلا دے گا.
اے وه لوگو جو ایمان ﻻئے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو*۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو.
____________________
* یہ اذان کس طرح دی جائے اس کے الفاظ کیا ہوں؟ یہ قرآن میں کہیں نہیں ہے۔ البتہ حدیث میں ہے جس سے معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن ہے نہ اس پر عمل کرنا ہی۔ جمعہ کو، جمعہ اس لیے کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالیٰ ہر چیز کی پیدائش سے فارغ ہوگیا تھا، یوں گویا تمام مخلوقات کا اس دن اجتماع ہوگیا، یا نماز کے لیے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اس بنا پر کہتے ہیں۔ (فتح القدیر) فَاسْعَوْا کا مطلب یہ نہیں کہ دوڑ کر آؤ، بلکہ یہ ہےکہ اذان کے فوراً بعد آجاؤ اور کاروبار بند کر دو۔ کیونکہ نماز کے لیے دوڑ کر آنا ممنوع ہے، وقار اور سکینت کے ساتھ آنے کی تاکید کی گئی ہے۔ (صحيح بخاري، كتاب الأذان وصحيح مسلم، كتاب المساجد) بعض حضرات نے ذَرُوا الْبَيْعَ (خرید وفروخت چھوڑ دو) سے استدلال کیا ہے کہ جمعہ صرف شہروں میں فرض ہے، اہل دیہات پر نہیں۔ کیونکہ کاروبار اور خرید وفروخت شہروں میں ہی ہوتی ہے، دیہاتوں میں نہیں۔ حالانکہ اول تو دنیا میں کوئی گاؤں ایسا نہیں جہاں خرید وفروخت اور کاروبار نہ ہوتا ہو، اس لیے یہ دعویٰ ہی خلاف واقعہ ہے۔ دوسرا بیع اور کاروبار سے مطلب، دنیا کے مشاغل ہیں، وہ جیسے بھی اور جس قسم کے بھی ہوں۔ اذان جمعہ کے بعد انہیں ترک کر دیا جائے۔ کیا اہل دیہات کے مشاغل دنیا نہیں ہوتے؟ کیا کھیتی باڑی، کاروبار اور مشاغل دنیا سے مختلف چیز ہے؟
____________________
* یہ اذان کس طرح دی جائے اس کے الفاظ کیا ہوں؟ یہ قرآن میں کہیں نہیں ہے۔ البتہ حدیث میں ہے جس سے معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن ہے نہ اس پر عمل کرنا ہی۔ جمعہ کو، جمعہ اس لیے کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالیٰ ہر چیز کی پیدائش سے فارغ ہوگیا تھا، یوں گویا تمام مخلوقات کا اس دن اجتماع ہوگیا، یا نماز کے لیے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اس بنا پر کہتے ہیں۔ (فتح القدیر) فَاسْعَوْا کا مطلب یہ نہیں کہ دوڑ کر آؤ، بلکہ یہ ہےکہ اذان کے فوراً بعد آجاؤ اور کاروبار بند کر دو۔ کیونکہ نماز کے لیے دوڑ کر آنا ممنوع ہے، وقار اور سکینت کے ساتھ آنے کی تاکید کی گئی ہے۔ (صحيح بخاري، كتاب الأذان وصحيح مسلم، كتاب المساجد) بعض حضرات نے ذَرُوا الْبَيْعَ (خرید وفروخت چھوڑ دو) سے استدلال کیا ہے کہ جمعہ صرف شہروں میں فرض ہے، اہل دیہات پر نہیں۔ کیونکہ کاروبار اور خرید وفروخت شہروں میں ہی ہوتی ہے، دیہاتوں میں نہیں۔ حالانکہ اول تو دنیا میں کوئی گاؤں ایسا نہیں جہاں خرید وفروخت اور کاروبار نہ ہوتا ہو، اس لیے یہ دعویٰ ہی خلاف واقعہ ہے۔ دوسرا بیع اور کاروبار سے مطلب، دنیا کے مشاغل ہیں، وہ جیسے بھی اور جس قسم کے بھی ہوں۔ اذان جمعہ کے بعد انہیں ترک کر دیا جائے۔ کیا اہل دیہات کے مشاغل دنیا نہیں ہوتے؟ کیا کھیتی باڑی، کاروبار اور مشاغل دنیا سے مختلف چیز ہے؟
پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو* اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پالو.
____________________
* اس سے مراد کاروبار اور تجارت ہے۔ یعنی نماز جمعہ سے فارغ ہوکر تم پھر اپنے اپنے کاروبار اور دنیا کے مشاغل میں مصروف ہو جاؤ۔ مقصد اس امر کی وضاحت ہے کہ جمعہ کے دن کاروبار بند رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف نماز کے وقت ایسا کرنا ضروری ہے۔
____________________
* اس سے مراد کاروبار اور تجارت ہے۔ یعنی نماز جمعہ سے فارغ ہوکر تم پھر اپنے اپنے کاروبار اور دنیا کے مشاغل میں مصروف ہو جاؤ۔ مقصد اس امر کی وضاحت ہے کہ جمعہ کے دن کاروبار بند رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف نماز کے وقت ایسا کرنا ضروری ہے۔
اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشا نظر آجائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں*۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہے** وه کھیل اور تجارت سے بہتر ہے***۔ اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے.****
____________________
* ایک مرتبہ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) جمعے کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک قافلہ آگیا، لوگوں کو پتہ چلا تو خطبہ چھوڑ کر باہر خرید وفروخت کے لیے چلے گئے کہ کہیں سامان فروخت ختم نہ ہو جائے صرف 12 آدمی مسجد میں رہ گئے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی (صحيح بخاري، تفسير سورة الجمعة وصحيح مسلم، كتاب الجمعة، باب وإذا رأوا تجارة أو لهوا...) انْفِضَاضٌ کے معنی ہیں، مائل اور متوجہ ہونا، دوڑ کر منتشر ہو جانا۔ إِلَيْهَا میں ضمیر کا مرجع تِجَارَةً ہے۔ یہاں صرف ضمیر تجارت پر اکتفا کیا، اس لیے کہ جب تجارت بھی، باوجود جائز اور ضروری ہونے کے، دوران خطبہ مذموم ہے تو کھیل وغیرہ کے مذموم ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے؟ علاوہ ازیں (قآئماً) سے معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر دینا سنت ہے۔ چنانچہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے دو خطبے ہوتے تھے، جن کے درمیان آپ (صلى الله عليه وسلم) بیٹھتے تھے، قرآن پڑھتے اور لوگوں کو وعظ ونصیحت فرماتے۔ (صحيح مسلم، كتاب الجمعة)۔
**- یعنی اللہ اور رسول (صلى الله عليه وسلم) کے احکام کی اطاعت کی جو جزائے عظیم ہے۔
***- جس کی طرف تم دوڑ کر گئے اور مسجد سے نکل گئے اور خطبہ جمعہ کی سماعت بھی نہیں کی۔
****- پس اسی سے روزی طلب کرو اور اطاعت کے ذریعے سے اسی کی طرف وسیلہ پکڑو۔ اس کی اطاعت اور اس کی طرف انابت تحصیل رزق کا بہت بڑا سبب ہے۔
____________________
* ایک مرتبہ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) جمعے کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک قافلہ آگیا، لوگوں کو پتہ چلا تو خطبہ چھوڑ کر باہر خرید وفروخت کے لیے چلے گئے کہ کہیں سامان فروخت ختم نہ ہو جائے صرف 12 آدمی مسجد میں رہ گئے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی (صحيح بخاري، تفسير سورة الجمعة وصحيح مسلم، كتاب الجمعة، باب وإذا رأوا تجارة أو لهوا...) انْفِضَاضٌ کے معنی ہیں، مائل اور متوجہ ہونا، دوڑ کر منتشر ہو جانا۔ إِلَيْهَا میں ضمیر کا مرجع تِجَارَةً ہے۔ یہاں صرف ضمیر تجارت پر اکتفا کیا، اس لیے کہ جب تجارت بھی، باوجود جائز اور ضروری ہونے کے، دوران خطبہ مذموم ہے تو کھیل وغیرہ کے مذموم ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے؟ علاوہ ازیں (قآئماً) سے معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر دینا سنت ہے۔ چنانچہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے دو خطبے ہوتے تھے، جن کے درمیان آپ (صلى الله عليه وسلم) بیٹھتے تھے، قرآن پڑھتے اور لوگوں کو وعظ ونصیحت فرماتے۔ (صحيح مسلم، كتاب الجمعة)۔
**- یعنی اللہ اور رسول (صلى الله عليه وسلم) کے احکام کی اطاعت کی جو جزائے عظیم ہے۔
***- جس کی طرف تم دوڑ کر گئے اور مسجد سے نکل گئے اور خطبہ جمعہ کی سماعت بھی نہیں کی۔
****- پس اسی سے روزی طلب کرو اور اطاعت کے ذریعے سے اسی کی طرف وسیلہ پکڑو۔ اس کی اطاعت اور اس کی طرف انابت تحصیل رزق کا بہت بڑا سبب ہے۔