یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے*، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے.**
____________________
* یعنی اے مسلمانو ! اور منافقو ! تم سب کے لئے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی ذات کے اندر بہترین نمونہ ہے، پس تم جہاد میں اور صبر وثبات میں اسی کی پیروی کرو۔ ہمارا یہ پیغمبر جہاد میں بھوکا رہا حتیٰ کہ اسے پیٹ پر پتھر باندھنے پڑے، اس کا چہرہ زخمی ہو گیا، اس کا رباعی دانت ٹوٹ گیا، خندق اپنے ہاتھوں سے کھودی اور تقریباً ایک مہینہ دشمن کے سامنے سینہ سپر رہا۔ یہ آیت اگرچہ جنگ احزاب کے ضمن میں نازل ہوئی ہے جس میں جنگ کے موقعے پر بطور خاص رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھنے اور اس کی اقتدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن یہ حکم عام ہے یعنی آپ (صلى الله عليه وسلم) کے تمام اقوال، افعال اور احوال میں مسلمانوں کے لئے آپ (صلى الله عليه وسلم) کی اقتدا ضروری ہے چاہے ان کا تعلق عبادات سے ہو یا معاشرت سے، معیشت سے، یا سیاست سے، زندگی کے ہر شعبے میں آپ کی ہدایات واجب الاتباع ہیں۔ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ الآية (الحشر) اور إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ الآية (آل عمران: 31) کا مفاد بھی یہی ہے۔
**- اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اسوۂ رسول (صلى الله عليه وسلم) کو وہی اپنائے گا جو آخرت میں اللہ کی ملاقات پر یقین رکھتا اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ آج مسلمان بھی بالعموم ان دونوں وصفوں سے محروم ہیں، اس لئے اسوۂ رسول (صلى الله عليه وسلم) کی بھی کوئی اہمیت ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ ان میں جو اہل دین ہیں ان کے پیشوا، پیر اور مشائخ ہیں اور جو اہل دنیا واہل سیاست ہیں ان کے مرشد ورہنما آقایان مغرب ہیں۔ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سےعقیدت کے زبانی دعوے بڑے ہیں، لیکن آپ (صلى الله عليه وسلم) کو مرشد اور پیشوا ماننے کے لئے ان میں سے کوئی بھی آمادہ نہیں ہے۔ فَإِلَى اللهِ الْمُشْتَكَى۔


الصفحة التالية
Icon