تو کیا یہ قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وه ان کے پاس اچانک آجائے یقیناً اس کی علامتیں تو آچکی ہیں*، پھر جبکہ ان کے پاس قیامت آجائے انہیں نصیحت کرنا کہاں ہوگا؟**
____________________
* یعنی نبی (صلى الله عليه وسلم)کی بعثت بجائے خود قرب قیامت کی ایک علامت ہے، جیسا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے بھی فرمایا بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ (صحيح بخاري تفسير سورة النازعات”میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہے“۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے اشارہ کرکے واضح فرمایا کہ جس طرح یہ دونوں انگلیاں باہم ملی ہوئی ہیں، اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان فاصلہ نہیں ہے یا یہ کہ جس طرح ایک انگلی دوسری انگلی سے ذرا سا آگے ہے اسی طرح قیامت میرے ذرا سا بعد ہے۔
**- یعنی جب قیامت اچانک آجائے گی تو کافر کس طرح نصیحت حاصل کر سکیں گے؟ مطلب ہے کہ اس وقت اگر وہ توبہ کریں گے بھی تو وہ مقبول نہیں ہوگی۔ اس لئے اگر توبہ کرنی ہے تو یہی وقت ہے۔ ورنہ وہ وقت بھی آسکتا ہے کہ ان کی توبہ بھی غیر مفید ہوگی۔