surah.translation .
من تأليف: محمد إبراهيم جوناكري .

ا ل م رٰ۔ یہ قرآن کی آیتیں ہیں، اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے، سب حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں ﻻتے.
اللہ وه ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کر رکھا ہے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ پھر وه عرش پر قرار پکڑے ہوئے ہے*، اسی نے سورج اور چاند کو ماتحتی میں لگا رکھا ہے۔ ہر ایک میعاد معین پر گشت کر رہا ہے**، وہی کام کی تدبیر کرتا ہے وه اپنے نشانات کھول کھول کر بیان کر رہا ہے کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کر لو.
____________________
* ”اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ“ کا مفہوم اس سے قبل بیان ہو چکا ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالٰی کا عرش پر قرار پکڑنا ہے۔ محدثین کا یہی مسلک ہے وہ اس کی تاویل نہیں کرتے، جیسے بعض دوسرے گروہ اس میں اور دیگر صفات الٰہی میں تاویل کرتے ہیں۔ تاہم محدثین کہتے ہیں کہ اس کی کیفیت نہ بیان کی جاسکتی ہے اور نہ اسے کسی چیز سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ «لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ»(الشورى: 11)
**- اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ ایک وقت مقرر تک یعنی قیامت تک اللہ کے حکم سے چلتے رہیں گے جیسا کہ فرمایا «وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ» (يٰس: 38)۔ ”اور سورج اپنے ٹھہرنے کے وقت تک چل رہا ہے“۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ چاند اور سورج دونوں اپنی اپنی منزلوں پر رواں دواں رہتے ہیں سورج اپنا دورہ ایک سال میں اور چاند ایک ماہ میں مکمل کر لیتا ہے جس طرح فرمایا «وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ» (يٰس: 39)۔ ”ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کر دی ہیں“ سات بڑے بڑے سیارے ہیں جن میں سے دو چاند اور سورج ہیں یہاں صرف ان دو کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہی دو سب سے زیادہ بڑے اور اہم ہیں جب یہ دونوں بھی اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو دوسرے سیارے تو بطریق اولی اس کے تابع ہونگے اور جب یہ اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو یہ معبود نہیں ہو سکتے معبود تو وہی ہے جس نے ان کو مسخر کیا ہوا ہے اس لیے فرمایا «لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ» (فصلت: 37) ”سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا اگر تم صرف اس کی عبادت کرنا چاہتے ہو“۔ «وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ» (الأعراف: 54) ”سورج چاند اور تارے سب اس کے حکم کے تابع ہیں“۔
اسی نے زمین پھیلا کر بچھا دی ہے اور اس میں پہاڑ اور نہریں پیدا کردی ہیں*۔ اور اس میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے دوہرے دوہرے پیدا کردیئے ہیں**، وه رات کو دن سے چھپا دیتا ہے۔ یقیناً غور وفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں.
____________________
* زمین میں طول و عرض کا اندازہ بھی عام لوگوں کے لئے مشکل ہے اور بلند و بالا پہاڑوں کے ذریعے سے زمین میں گویا میخیں گاڑی ہیں، نہروں دریاؤں اور چشموں کا ایسا سلسلہ قائم کیا کہ جس سے انسان خود بھی سیراب ہوتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو بھی سیراب کرتے ہیں جن سے انواع و اقسام کے غلے اور پھل پیدا ہوتے ہیں، جن کی شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف اور ذائقے بھی جداگانہ ہوتے ہیں۔
**- اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ نر مادہ دونوں بنائے، جیسا کہ موجودہ تحقیقات نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے۔ دوسرا مطلب (جوڑے جوڑے کا) یہ ہے میٹھا اور کھٹا، سرد اور گرم، سیاہ اور سفید اور ذائقہ، اس طرح ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد قسمیں پیدا کیں۔
اور زمین میں مختلف ٹکڑے ایک دوسرے سے لگتے لگاتے ہیں* اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیت ہیں اور کھجوروں کے درخت ہیں، شاخ دار اور بعض ایسے ہیں** جو بے شاخ ہیں سب ایک ہی پانی پلائے جاتے ہیں۔ پھر بھی ہم ایک کو ایک پر پھلوں میں برتری دیتے ہیں*** اس میں عقل مندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں.
____________________
* ”مُتَجَٰوِرَاتٌ“ ایک دوسرے کے قریب اور متصل یعنی زمین کا ایک حصہ شاداب اور زرخیز ہے۔ خوب پیداوار دیتا ہے اس کے ساتھ ہی زمین شور ہے، جس میں کسی قسم کی بھی پیدا نہیں ہوتی۔
**- ”صِنْوانٌ“ کے ایک معنی ملے ہوئے اور ”غَيْرُ صِنْوانٍ۔“ کے جدا جدا کیے گئے ہیں دوسرا معنی صِنْوانٌ ایک درخت، جس کی کئی شاخیں اور تنے ہوں، جیسے انار، انجیر اور بعض کھجوریں۔ اور غَيْرُ صِنْوانٍ جو اس طرح نہ ہو بلکہ ایک ہی تنے والا ہو۔
***- یعنی زمین بھی ایک، پانی، ہوا بھی ایک۔ لیکن پھل اور غلہ مختلف قسم اور ان کے ذائقے اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف۔
اگر تجھے تعجب ہو تو واقعی ان کا یہ کہنا عجیب ہے کہ کیا جب ہم مٹی ہو جائیں گے۔ تو کیا ہم نئی پیدائش میں ہوں گے*؟ یہی وه لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار سے کفر کیا۔ یہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور یہی ہیں جو جہنم کے رہنے والے ہیں جو اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے.
____________________
* یعنی جس ذات نے پہلی مرتبہ پیدا کیا، اس کے لئے دوبارہ اس چیز کا بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔ لیکن کفار یہ عجیب بات کہتے ہیں کہ دوبارہ ہم کیسے پیدا کئے جائیں گے؟۔
اور جو تجھ سے (سزا کی طلبی میں) جلد کر رہے ہیں راحت سے پہلے ہی، یقیناً ان سے پہلے سزائیں (بطور مثال) گزر چکی ہیں*، اور بیشک تیرا رب البتہ بخشنے واﻻ ہے لوگوں کے بے جا ﻇلم پر بھی**۔ اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ تیرا رب بڑی سخت سزا دینے واﻻ بھی ہے.***
____________________
* یعنی عذاب الٰہی سے قوموں اور بستیوں کی تباہی کی کئی مثالیں پہلے گزر چکی ہیں، اس کے باوجود یہ عذاب جلدی مانگتے ہیں؟ یہ کفار کے جواب میں کہا گیا جو کہتے تھے کہ اے پیغمبر! اگر تو سچا ہے تو عذاب ہم پر لے آ۔ جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے۔
**- یعنی لوگوں کے ظلم و معصیت کے باوجود وہ عذاب میں جلدی نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا ہے اور بعض دفعہ تو اتنی تاخیر کرتا ہے کہ معاملہ قیامت پر چھوڑ دیتا ہے، یہ اس کے حلم و کرم اور عفو و درگزر کا نتیجہ ہے ورنہ وہ فوراً مواخذہ کرنے اور عذاب دینے پر آجائے تو روئے زمین پر کوئی انسان ہی باقی نہ رہے۔ «وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰي ظَهْرِهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ» (فاطر:45) ”اور اگر اللہ تعالٰی لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب پکڑ دھکڑ فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک تنفس کو نہ چھوڑتا“۔
***- یہ اللہ کی دوسری صفت کا بیان ہے تاکہ انسان صرف ایک ہی پہلو پر نظر نہ رکھے اس کے دوسرے پہلو کو بھی دیکھتا رہے کیونکہ ایک ہی رخ اور ایک ہی پہلو کو مسلسل دیکھنے رہنے سے بہت سی چیزیں اوجھل رہ جاتی ہیں اسی لیے قرآن کریم میں جہاں اللہ کی صفت رحیمی وغفوری کا بیان ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی دوسری صفت قہاری و جباری کا بیان بھی ملتا ہے جیسا کہ یہاں بھی ہے تاکہ رجاء امید اور خوف دونوں پہلو سامنے رہیں کیونکہ اگر امید ہی امید سامنے رہے تو انسان معصیت الہی پر دلیر ہو جاتا ہے اور اگر خوف ہی خوف ہر وقت دل ودماغ پر مسلط رہے تو اللہ کی رحمت سے مایوسی ہو جاتی ہے اور دونوں ہی باتیں غلط اور انسان کے لیے تباہ کن ہیں اسی لیے کہا جاتا ہے«الإِيمَانُ بَيْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاءِ» ”ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے“ یعنی دونوں باتوں کے درمیان اعتدال وتوازن کا نام ایمان ہے انسان اللہ کے عذاب کے خوف سے بےپروا ہو اور نہ اس کی رحمت سے مایوس۔ اس مضمون کے ملاحظہ کے لیے دیکھئے (سورۃ الانعام:47، سورۃ الاعراف:167، سورۃ الحجر:49، 50)
اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی (معجزه) کیوں نہیں اتاری گئی۔ بات یہ ہے کہ آپ تو صرف آگاه کرنے والے ہیں.*۔ اور ہر قوم کے لئے ہادی ہے.**
____________________
* ہر نبی کو اللہ نے حالات و ضروریات اور اپنی مشیت و مصلحت کے مطابق کچھ نشانیاں اور معجزات عطا فرمائے لیکن کافر اپنے حسب منشا معجزات کے طالب ہوتے رہے ہیں۔ جیسے کفار مکہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کو کہتے کہ کوہ صفا کو سونے کا بنا دیا جائے یا پہاڑوں کی جگہ نہریں اور چشمے جاری ہوجائیں، وغیرہ وغیرہ جب ان کی خواہش کے مطابق معجزہ صادر کر کے نہ دکھایا جاتا تو کہتے کہ اس پر کوئی نشان (معجزہ) نازل کیوں نہیں کیا گیا؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا، اے پیغمبر! تیرا کام صرف تبلیغ ہے۔ وہ تو کرتا رہ کوئی مانے نہ مانے، اس سے تجھے کوئی غرض نہیں، اس لئے کہ ہدایت دینا یہ ہمارا کام ہے۔ تیرا کام راستہ دکھانا ہے، اس راستے پر چلا دینا، یہ تیرا کام نہیں، ہمارا کام ہے۔
**- یعنی ہر قوم کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ تعالٰی نے ہادی ضرور بھیجا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قوموں نے ہدایت کا راستہ اپنایا یا نہیں اپنایا۔ لیکن سیدھے راستے کی نشان دہی کرنے کے لئے پیغمبر ہر قوم کے اندر ضرور آیا۔ «وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلا خَلا فِيهَا نَذِيرٌ» ( فاطر:24)۔ ”ہر امت میں ایک نذیر ضرور آیا ہے“۔
ماده اپنے شکم میں جو کچھ رکھتی ہے اسے اللہ بخوبی جانتا ہے* اور پیٹ کا گھٹنا بڑھنا بھی**، ہر چیز اس کے پاس اندازے سے ہے.***
____________________
* رحم مادر میں کیا ہے، نر یا مادہ، خوبصورت یا بد صورت، نیک ہے یا بد، طویل العمر ہے یا قصیر العمر؟ یہ سب باتیں صرف اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے۔
**- اس سے مراد حمل مدت ہے جو عام طور پر ٩ مہینے ہوتی ہے لیکن گھٹتی بڑھتی بھی ہے، کسی وقت یہ مدت 10مہینے اور کسی وقت 7،8 مہینے ہو جاتی ہے، اس کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔
***- یعنی کسی کی زندگی کتنی ہے؟ اسے رزق سے کتنا حصہ ملے گا؟ اس کا پورا اندازہ اللہ کو ہے۔
ﻇاہر وپوشیده کا وه عالم ہے (سب سے) بڑا اور (سب سے) بلند وباﻻ.
تم میں سے کسی کا اپنی بات کو چھپا کر کہنا اور بﺂواز بلند اسے کہنا اور جو رات کو چھپا ہوا ہو اور جو دن میں چل رہا ہو، سب اللہ پر برابر ویکساں ہیں.
اس کے پہرے دار* انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔ کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا جب تک کہ وه خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے**۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی سزا کا اراده کر لیتا ہے تو وه بدﻻ نہیں کرتا اور سوائے اس کے کوئی بھی ان کا کارساز نہیں.
____________________
* مُعَقِّبَاتٌ، مُعَقِّبَةٌ۔ کی جمع ہے ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے، مراد فرشتے ہیں جو باری باری ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں۔ دن کے فرشتے جاتے ہیں تو شام کے آجاتے ہیں شام کے جاتے ہیں تو دن کے آجاتے ہیں۔
**- اس کی تشریح کے لئے دیکھئے سورہ انفال آیت 53 کا حاشیہ۔
وه اللہ ہی ہے جو تمہیں بجلی کی چمک ڈرانے اور امید دﻻنے کے لئے دکھاتا ہے* اور بھاری بادلوں کو پیدا کرتا ہے.**
____________________
* جس سے راہ گیر مسافر ڈرتے ہیں اور گھروں میں مقیم کسان اور کاشت کار اس کی برکت و منفعت کی امید رکھتے ہیں۔
**- بھاری بادلوں سے مراد، وہ بادل ہیں جس میں بارش کا پانی ہوتا ہے۔
گرج اس کی تسبیح وتعریف کرتی ہے اور فرشتے بھی، اس کے خوف سے*۔ وہی آسمان سے بجلیاں گراتا ہے اور جس پر چاہتا ہے اس پر ڈالتا ہے** کفار اللہ کی بابت لڑ جھگڑ رہے ہیں اور اللہ سخت قوت والا ہے.***
____________________
* جیسے دوسرے مقام پر فرمایا «وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ» ( بني إسرائيل:44) ”ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے“۔
**- یعنی اس کے ذریعے جس کو چاہتا ہے، ہلاک کر ڈالتا ہے۔
***- مِحَالٌ ۔ کے معنی قوت مواخذہ اور تدبیر وغیرہ کے کیے گئے ہیں یعنی وہ بڑی قوت والا، نہایت مواخذہ کرنے والا اور تدبیر کرنے والا ہے۔
اسی کو پکارنا حق ہے*۔ جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں وه ان (کی پکار) کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے مگر جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منھ میں پڑ جائے حاﻻنکہ وه پانی اس کے منھ میں پہنچنے واﻻ نہیں**، ان منکروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی میں ہے.***
____________________
* یعنی خوف اور امید کے وقت اسی ایک اللہ کو پکارنا صحیح ہے کیونکہ وہی ہر ایک کی پکار سنتا ہے اور قبول فرماتا ہے یا دعوت۔ عبادت کے معنی میں ہے یعنی، اسی کی عبادت حق اور صحیح ہے اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، کیونکہ کائنات کا خالق، مالک اور مدبر صرف وہی ہے اس لئے عبادت صرف اسی کا حق ہے۔
**- یعنی جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو مدد کے لئے پکارتے ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص دور سے پانی کی طرف اپنی دونوں ہتھلیاں پھیلا کر پانی سے کہے کہ میرے منہ تک آجا، ظاہر بات ہے کہ پانی جامد چیز ہے، اسے پتہ ہی نہیں کہ ہتھیلیاں پھیلانے والے کی حاجت کیا ہے، اور نہ اسے پتہ ہے کہ وہ مجھ سے اپنے منہ تک پہنچنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اور نہ اس میں یہ قدرت ہے کہ اپنی جگہ سے حرکت کر کے اس کے ہاتھ یا منہ تک پہنچ جائے اسی طرح یہ مشرک اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں نہ یہ پتہ ہے کہ کوئی انہیں پکار رہا ہے اور اس کی فلاں حاجت ہے اور نہ اس حاجت روائی کی ان میں قدرت ہی ہے۔
***- اور بےفائدہ بھی ہے، کیونکہ اس سے ان کو کئی نفع نہیں ہوگا۔
اللہ ہی کے لئے زمین اور آسمانوں کی سب مخلوق خوشی اور ناخوشی سے سجده کرتی ہے اور ان کے سائے بھی صبح وشام.*
____________________
* اس میں اللہ تعالٰی کی عظمت و قدرت کا بیان ہے کہ ہرچیز پر اس کا غلبہ ہے اور ہرچیز اس کے ما تحت اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہے، چاہے مومنوں کی طرح خوشی سے کریں یا مشرکوں کی طرح ناخوشی سے۔ اور ان کے سائے بھی صبح و شام سجدہ کرتے ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ «اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ» (النحل:48) ”کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے ان کے سائے داہنے اور بائیں سے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتے ہیں اور وہ عاجزی کرتے ہیں“۔ اس سجدے کی کیفیت کیا ہے؟ یہ اللہ تعالٰی بہتر جانتا ہے یا دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ کافر سمیت تمام مخلوق اللہ کے حکم کے تابع ہے کسی میں اسی سے سرتابی کی مجال نہیں اللہ تعالٰی کسی کو صحت دے بیمار کرے غنی کر دے یا فقیر بنا دے زندگی دے یا موت سے ہمکنار کرے ان تکوینی احکام میں کسی کافر کو بھی مجال انکار نہیں۔
آپ پوچھئے کہ آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے؟ کہہ دیجئے! اللہ*۔ کہہ دیجئے! کیا تم پھر بھی اس کے سوا اوروں کو حمایتی بنا رہے ہو جو خود اپنی جان کے بھی بھلے برے کا اختیار نہیں رکھتے**۔ کہہ دیجئے کہ کیا اندھا اور بینا برابر ہو سکتا ہے؟ یا کیا اندھیریاں اور روشنی برابر ہو سکتی ہے***۔ کیا جنہیں یہ اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہیں انہوں نے بھی اللہ کی طرح مخلوق پیدا کی ہے کہ ان کی نظر میں پیدائش مشتبہ ہوگئی ہو، کہہ دیجئے کہ صرف اللہ ہی تمام چیزوں کا خالق ہے وه اکیلا ہے**** اور زبردست غالب ہے.
____________________
* یہاں تو پیغمبر کی زبان سے اقرار ہے۔ لیکن قرآن کے دوسرے مقامات سے واضح ہے کہ مشرکین کا جواب بھی یہی ہوتا تھا۔
**- یعنی جب تمہیں اقرار و اعتراف ہے کہ آسمان و زمین کا رب اللہ ہے جو تمام اختیارات کا بلا شرکت غیر مالک ہے پھر تم اسے چھوڑ کر ایسوں کو کیوں دوست اور حمائتی سمجھتے ہو جو اپنی بابت بھی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔
***- یعنی جس طرح اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح موحد اور مشرک برابر نہیں ہو سکتے اس لئے کہ موحد توحید کی بصیرت سے معمور ہے جب کہ مشرک اس سے محروم ہے۔ موحد کی آنکھیں ہیں، وہ توحید کا نور دیکھتا ہے اور مشرک کو یہ نور توحید نظر نہیں آتا، اس لئے وہ اندھا ہے۔ اسی طرح، جس طرح اندھیریاں اور روشنی برابر نہیں ہو سکتی۔ ایک اللہ کا پجاری، جس کا دل نورانیت سے بھرا ہوا ہے، اور ایک مشرک، جو جہالت و توہمات کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے، برابر نہیں ہو سکتے۔
****- یعنی ایسی بات نہیں ہے کہ یہ کسی شبے کا شکار ہوگئے ہوں بلکہ یہ مانتے ہیں کہ ہرچیز کا خالق صرف اور صرف اللہ ہی ہے۔
اسی نے آسمان سے پانی برسایا پھر اپنی اپنی وسعت کے مطابق نالے بہہ نکلے*۔ پھر پانی کے ریلے نے اوپر چڑھے جھاگ کو اٹھا لیا**، اور اس چیز میں بھی جس کو آگ میں ڈال کر تپاتے ہیں زیور یا ساز وسامان کے لئے اسی طرح کے جھاگ ہیں***، اسی طرح اللہ تعالیٰ حق وباطل کی مثال بیان فرماتا ہے****، اب جھاگ تو ناکاره ہو کر چلا جاتا ہے***** لیکن جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے وه زمین میں ٹھہری رہتی ہے******، اللہ تعالیٰ اسی طرح مثالیں بیان فرماتا ہے.*******
____________________
* بِقَدَرِهَا (وسعت کے مطابق) کا مطلب ہے نالے یعنی وادی (دو پہاڑوں کے درمیان کی جگہ) تنگ ہو تو کم پانی کشادہ ہو تو زیادہ پانی اٹھاتی ہے یعنی نزول قرآن کو جو ہدایت اور بیان کا جاع ہے بارش کے نزول سے تشبیہ دی ہے اس لیے کہ قرآن کا نفع بھی بارش کے نفع کی طرح عام ہے اور وادیوں کو تشبیہ دی ہے دلوں کے ساتھ اس لیے کہ وادیوں نالوں میں پانی جا کر ٹھہرتا ہے جس طرح قرآن قرآن کا اور ایمان مومنوں کے دلوں میں قرار پکڑتا ہے۔
**- اس جھاگ سے جب پانی اوپر آجاتا ہے اور جو ناکارہ ہو ختم ہو جاتا ہے اور ہوائیں جسے اڑا لے جاتی ہیں کفر مراد ہے، جو جھاگ ہی کی طرح اڑ جانے والا اور ختم ہو جانے والا ہے۔
***- یہ دوسری شکل ہے کہ تانبے پیتل، سیسے یا سونے چاندی کو زیور یا سامان وغیرہ بنانے کے لئے آگ میں تپایا جاتا ہے تو اس پر بھی جھاگ کی شکل میں اوپر آجاتا ہے۔ پھر یہ جھاگ دیکھتے دیکھتے ختم ہو جاتا ہے اور دھات اصلی شکل میں باقی رہ جاتی ہے۔
****- یعنی جب حق اور باطل کا آپس میں اجتماع اور ٹکراؤ ہوتا ہے تو باطل کو اسی طرح اثبات اور دوام نہیں ہوتا، جس طرح سیلابی ریلے کا جھاگ پانی کے ساتھ، دھاتوں کا جھاگ، جن کو آگ میں تپایا جاتا ہے دھاتوں کے ساتھ باقی نہیں رہتا بلکہ مضمحل اور ختم ہو جاتا ہے۔
*****- یعنی اس سے کوئی نفع نہیں ہوتا، کیونکہ جھاگ پانی یا دھات کے باقی رہتا ہی نہیں بلکہ آہستہ آہستہ بیٹھ جاتا ہے یا ہوائیں اسے اڑا لے جاتی ہیں۔ باطل کی مثال بھی جھاگ ہی کی طرح ہے۔
******- یعنی پانی اور سونا، چاندی، تانبا، پیتل وغیرۃ یہ چیزیں باقی رہتی ہیں جن سے لوگ فائدہ اٹھاتے اور فیض یاب ہوتے ہیں، اسی طرح حق باقی رہتا ہے جس کے وجود کو بھی زوال نہیں اور جس کا نفع بھی دائمی ہے۔
*******- یعنی بات کو سمجھانے اور ذہن نشین کرانے کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے، جیسے یہیں دو مثالیں بیان فرمائیں اور اسی طرح سورہ بقرہ کے آغاز میں منافقین کے لئے مثالیں بیان فرمائیں۔ اسی طرح سورہ نور، آیات 39،40 میں کافروں کے لئے دو مثالیں بیان فرمائیں۔ اور احادیث میں بھی نبی (صلى الله عليه وسلم) نے مثالوں کے ذریعے سے لوگوں کو بہت سی باتیں سمجھائیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے تفسیر ابن کثیر)
جن لوگوں نے اپنے رب کے حکم کی بجا آوری کی ان کے لئے بھلائی ہے اور جن لوگوں نے اس کی حکم برداری نہ کی اگر ان کے لئے زمین میں جو کچھ ہے سب کچھ ہو اور اسی کے ساتھ ویسا ہی اور بھی ہو تو وه سب کچھ اپنے بدلے میں دے دیں*۔ یہی ہیں جن کے لئے برا حساب ہے** اور جن کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بہت بری جگہ ہے.
____________________
* یہ مضمون اس سے قبل بھی دو تین جگہ گزر چکا ہے۔
**- کیونکہ ان سے ہر چھوٹے بڑے عمل کا حساب لیا جائے گا اور ان کا معاملہ ”مَنْ نُوقِشَ الحِسَابَ عُذِّبَ“ (جس سے حساب میں جرح کی گئی اس کا بچنا مشکل ہوگا، وہ عذاب سے دو چار ہو کر ہی رہے گا) کا آئینہ دار ہوگا۔ اسی لئے آگے فرمایا اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔
کیا وه ایک شخص جو یہ علم رکھتا ہو کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو اتارا گیا ہے وه حق ہے، اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو* نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہوں.**
____________________
* یعنی ایک وہ شخص جو قرآن کی حقانیت و صداقت پر یقین رکھتا ہو اور دوسرا اندھا ہو یعنی اسے قرآن کی صداقت میں شک ہوگیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ استفہام انکار کے لیے ہے یعنی یہ دونوں اسی طرح برابر نہیں ہو سکتے جس طرح جھاگ اور پانی یا سونا تانبا اور اس کی میل کچیل برابر نہیں ہو سکتے۔
**- یعنی جن کے پاس قلب سلیم اور عقل صحیح نہ ہو اور جنہوں نے اپنے دلوں کو گناہوں کے زنگ سے آلودہ اور اپنی عقلوں کو خراب کر لیا ہو، وہ اس قرآن سے نصیحت حاصل نہیں کر سکتے۔
جو اللہ کے عہد (وپیمان) کو پورا کرتے ہیں *اور قول وقرار کو توڑتے نہیں.**
____________________
* یہ اہل دانش کی صفات بیان کی جا رہی ہیں، اللہ کے عہد سے مراد، اس کے احکام (اوامر و نواہی) ہیں جنہیں بجا لاتے ہیں۔ یا وہ عہد ہے، جو عَھْدِ الَسْت کہلاتا ہے، جس کی تفصیل سورہ اعراف میں گزر چکی ہے۔
**- اس سے مراد وہ باہمی معاہدے اور وعدے ہیں جو وہ آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں یا وہ جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہیں۔
اور اللہ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے وه اسے جوڑتے ہیں* اور وه اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا اندیشہ رکھتے ہیں.
____________________
* یعنی رشتوں اور قرابتوں کو توڑتے نہیں ہیں، بلکہ ان کو جوڑتے اور صلہ رحمی کرتے ہیں۔
اور وه اپنے رب کی رضا مندی کی طلب کے لئے صبر کرتے ہیں*، اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں **اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں*** اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں، ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے.****
____________________
* اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے بچتے ہیں۔ یہ صبر کی ایک قسم ہے۔ تکلیفوں اور آزمائشوں پر صبر کرتے ہیں، یہ دوسری قسم ہے۔ اہل دانش دونوں قسم کا صبر کرتے ہیں۔
**- ان کی حدود و مواقیت، خشوع و خضوع اور اعتدال ارکان کے ساتھ۔ نہ کہ اپنے من مانے طریقے سے۔
***- یعنی جہاں جہاں اور جب بھی، خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے، اپنوں اور بیگانوں میں اور خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔
****- یعنی ان کے ساتھ کوئی برائی سے پیش آتا ہے تو وہ اس کا جواب اچھائی سے دیتے ہیں، یا عفو و درگزر اور صبر جمیل سے کام لیتے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے فرمایا :«اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ» (حم السجدۃ:34) ”برائی کا جواب ایسے طریقے سے دو جو اچھا ہو (اگر تم ایسا کرو گے) تو وہ شخص جو تمہارا دشمن ہے، ایسا ہو جائے گا گویا وہ تمہارا گہرا دوست ہے“۔
*****- یعنی جو اعلٰی اخلاق کے حامل اور مزکورہ خوبیوں سے متصف ہوں گے، ان کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔
ہمیشہ رہنے کے باغات* جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اوﻻدوں میں سے بھی جو نیکو کار ہوں گے**، ان کے پاس فرشتے ہر ہر دروازے سے آئیں گے.
____________________
* عدن کے معنی ہیں اقامت۔ یعنی ہمیشہ رہنے والے باغات۔
**- یعنی اس طرح نیک قرابت داروں کو آپس میں جمع کر دے گا تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں حتٰی کہ ادنٰی درجے کے جنتی کو اعلٰی درجہ عطا فرما دے گا تاکہ وہ اپنے قرابت دار کے ساتھ جمع ہو جائے۔ فرمایا :
«وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ» (الطور:21)
”اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی تو ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ان کی اولاد کو اور ان کے عملوں سے ہم کچھ گھٹائیں گے نہیں“۔ اس سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ نیک رشتے داروں کو اللہ تعالٰی جنت میں جمع فرما دے گا، وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی کے پاس ایمان اور عمل صالح کی پونجی نہیں ہوگی، تو وہ جنت میں نہیں جائے گا، چاہے اس کے دوسرے نہایت قریبی رشتے دار جنت میں چلے گئے ہوں۔ کیونکہ جنت میں داخلہ حسب نسب کی بنیاد پر نہیں، ایمان و عمل کی بنیاد پر ہوگا۔«مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ»، (صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء، باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن)۔ جسے اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھائے گا۔
کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو، صبر کے بدلے، کیا ہی اچھا (بدلہ) ہے اس دار آخرت کا.
اور جو اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جن چیزوں کےجوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں توڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، ان کے لئے لعنتیں ہیں اور ان کے لئے برا گھر ہے.*
____________________
* یہ نیکوں کے ساتھ بروں کا حشر بیان فرما دیا تاکہ انسان اس حشر سے بچنے کی کوشش کرے۔
اللہ تعالیٰ جس کی روزی چاہتا ہے بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ہے* یہ تو دنیا کی زندگی میں مست ہو گئے**۔ حاﻻنکہ دنیا آخرت کے مقابلے میں نہایت (حقیر) پونجی ہے.***
____________________
* جب کافروں اور مشرکوں کے لئے یہ کہا کہ ان کے لئے برا گھر ہے، تو ذہن میں یہ اشکال آ سکتا ہے کہ دنیا میں تو انہیں ہر طرح کی آسائشیں اور سہولتیں مہیا ہیں۔ اس کے ازالے کے لئے فرمایا کہ دنیاوی اسباب اور رزق کی کمی بیشی یہ اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت، جس کو صرف وہی جانتا ہے، کے مطابق کسی کو زیادہ دیتا ہے کسی کو کم رزق کی فروانی، اس بات کی دلیل؛ نہیں کہ اللہ تعالٰی اس سے خوش ہے اور کمی کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالٰی اس پر ناراض ہے۔
**- کسی کو اگر دنیا کا مال زیادہ مل رہا ہے، باوجودیکہ وہ اللہ کا نافرمان ہے تو یہ مقام فرحت و مسرت نہیں، کیونکہ یہ استدراج ہے، مہلت ہے پتہ نہیں کب یہ مہلت ختم ہو جائے اور اللہ کی پکڑ کے شکنجے میں آجائے۔
***- حدیث میں آتا ہے کہ دنیا کی حیثیت، آخرت کے مقابلے میں اس طرح ہے جیسے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر نکالے، تو دیکھے سمندر کے پانی کے مقابلے میں اس کی انگلی میں کتنا پانی آیا ہے؟ (صحيح مسلم، كتاب الجنة، باب فناء الدنيا وبيان الحسر يوم القيامة) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کا گزر بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے ہوا، تو اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا، اللہ کی قسم دنیا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر ہے جتنا یہ مردہ، اپنے مالکوں کے نزدیک اس وقت حقیر تھا جب انہوں نے اسے پھینکا (صحيح مسلم، كتاب الزهد والرقاق)
کافر کہتے ہیں کہ اس پر کوئی نشانی (معجزه) کیوں نازل نہیں کیا گیا؟ جواب دے دیجئے کہ جسے اللہ گمراه کرنا چاہے کر دیتا ہے اور جو اس کی طرف جھکے اسے راستہ دکھا دیتا ہے.
جو لوگ ایمان ﻻئے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے.*
____________________
* اللہ کا ذکر سے مراد، اس کی توحید کا بیان ہے، جس سے مشرکوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا ہو جاتا ہے، یا اس کی عبادت، تلاوت قرآن، نوافل اور دعا و مناجات ہے جو اہل ایمان کے دلوں کی خوراک ہے یا اس کے احکام و فرامین کی اطاعت و بجا آوری ہے، جس کے بغیر اہل ایمان و تقویٰ بےقرار رہتے ہیں۔
جو لوگ ایمان ﻻئے اور جنہوں نے نیک کام بھی کئے ان کے لئے خوشحالی ہے* اور بہترین ٹھکانا.
____________________
* طُوْبٰی کے مختلف معانی بیان کئے گئے ہیں مثلاً خیر، حسنٰی، کرامت، رشک، جنت میں مخصوص درخت یا مخصوص مقام وغیرہ مفہوم سب کا ایک ہی ہے یعنی جنت میں اچھا مقام اور اس کی نعمتیں اور لذتیں۔
اسی طرح ہم نے آپ کو اس امت میں بھیجا ہے* جس سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں کہ آپ انہیں ہماری طرف سے جو وحی آپ پر اتری ہے پڑھ کر سنایئے یہ اللہ رحمٰن کے منکر ہیں**، آپ کہہ دیجئے کہ میرا پالنے واﻻ تو وہی ہے اس کے سوا درحقیقت کوئی بھی ﻻئق عبادت نہیں***، اسی کے اوپر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی جانب میرا رجوع ہے.
____________________
* جس طرح ہم نے آپ کو تبلیغ رسالت کے لئے بھیجا ہے، اسی طرح آپ سے پہلی امتوں میں بھی رسول بھیجے تھے، ان کی بھی اسی طرح تکذیب کی گئی جس طرح آپ کی کی گئی اور جس طرح تکذیب کے نتیجے میں وہ قومیں عذاب الٰہی سے دو چار ہوئیں، انہیں بھی اس انجام سے بےفکر نہیں رہنا چاہیے۔
**- مشرکین مکہ رحمٰن کے لفظ سے بڑا بدکتے تھے، صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی جب بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے الفاظ لکھے گئے تو انہوں نے کہا یہ رحمٰن رحیم کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے۔ (ابن کثیر)
***- یعنی رحمٰن، میرا وہ رب ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
اگر (بالفرض) کسی قرآن (آسمانی کتاب) کے ذریعے پہاڑ چلا دیئے جاتے یا زمین ٹکڑے ٹکڑے کر دی جاتی یا مردوں سے باتیں کرا دی جاتیں (پھر بھی وه ایمان نہ ﻻتے)، بات یہ ہے کہ سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہے*، تو کیا ایمان والوں کو اس بات پر دل جمعی نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمام لوگوں کو ہدایت دے دے۔ کفار کو تو ان کے کفر کے بدلے ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی سخت سزا پہنچتی رہے گی یا ان کے مکانوں کے قریب نازل ہوتی رہے گی** تاوقتیکہ وعدہٴ الٰہی آپہنچے***۔ یقیناً اللہ تعالیٰ وعده خلافی نہیں کرتا.
____________________
* امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ہر آسمانی کتاب کو قرآن کہا جاتا ہے، جس طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ "حضرت داؤد علیہ السلام، جانور کو تیار کرنے کا حکم دیتے اور اتنی دیر میں ایک مرتبہ قرآن کا ورد کر لیتے "۔ (صحيح بخاري كتاب الأنبياء، باب قول الله تعالى: وآتينا داود زبورا) یہاں ظاہر بات ہے قرآن سے مراد زبور ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ اگر پہلے کوئی آسمانی کتاب ایسی نازل ہوئی ہوتی کہ جسے سن کر پہاڑ رواں دواں ہو جاتے یا زمین کی مسافت طے ہو جاتی یا مردے بول اٹھتے تو قرآن کریم کے اندر یہ خصوصیت بدرجہ اولیٰ موجود ہوتی، کیونکہ یہ اعجاز و بلاغت میں پچھلی کتابوں سے فائق ہے۔ اور بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اگر اس قرآن کے ذریعے سے معجزات ظاہر ہوتے، تب بھی کفار ایمان نہ لاتے، کیونکہ ایمان لانا نہ لانا یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، معجزوں پر نہیں۔ اسی لئے فرمایا، سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔
**- جو ان کے مشاہدے یا علم میں ضرور آئے گا تاکہ وہ عبرت پکڑ سکیں۔
***- یعنی قیامت واقعہ ہو جائے، یا اہل اسلام کو قطعی فتح و غلبہ حاصل ہو جائے۔
یقیناً آپ سے پہلے کے پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا تھا اور میں نے بھی کافروں کو ڈھیل دی تھی پھر انہیں پکڑ لیا تھا، پس میرا عذاب کیسا رہا؟*
____________________
* حدیث میں آتا ہے «إِنَّ اللهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ»، ”اللہ ظالم کو مہلت دیئے جاتا ہے حتٰی کہ جب اسے پکڑتا ہے تو پھر چھوڑتا نہیں“۔اس کے بعد نبی (صلى الله عليه وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ» (سورۂ ھود:102) ”اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ ظلم کی مرتکب بستیوں کو پکڑتا ہے۔ یقینا اس کی پکڑ بہت ہی الم ناک اور سخت ہے“۔ (صحيح بخاري تفسير سورة هود ومسلم، كتاب البر، باب تحريم الظلم)۔
آیا وه اللہ جو نگہبانی کرنے واﻻ ہے ہر شخص کی، اس کے کئے ہوئے اعمال پر*، ان لوگوں نے اللہ کے شریک ٹھہرائے ہیں کہہ دیجئے ذرا ان کے نام تو لو**، کیا تم اللہ کو وه باتیں بتاتے ہو جو وه زمین میں جانتا ہی نہیں، یا صرف اوپری اوپری باتیں بتا رہے*** ہو، بات اصل یہ ہے کہ کفر کرنے والوں کے لئے ان کے مکر سجا دیئے گئے ہیں****، اور وه صحیح راه سے روک دیئے گئے ہیں، اور جس کو اللہ گمراه کر دے اس کو راه دکھانے واﻻ کوئی نہیں.*****
____________________
* یہاں اس کا جواب محذوف ہے یعنی کیا رب العزت اور وہ معبودان باطل برابر ہو سکتے ہیں جن کی یہ عبادت کرتے ہیں، جو کسی کو نفع پہنچانے پرقادر ہیں نہ نقصان پہنچانے پر، نہ وہ دیکھتے ہیں اور نہ عقل وشعور سے بہرہ ور ہیں۔
**- یعنی ہمیں بھی تو بتاؤ تاکہ انہیں پہچان سکیں اس لئے کہ ان کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔ اس لئے آگے فرمایا، کیا تم اللہ کو وہ باتیں بتاتے ہو جو وہ زمین میں جانتا ہی نہیں، یعنی ان کا وجود ہی نہیں۔ اس لئے کہ اگر زمین میں ان کا وجود ہوتا تو اللہ تعالٰی کے علم میں ضرور ہوتا، اس پر تو کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔
***- یہاں ظاہر ظن کے معنی میں ہے یعنی یا یہ صرف ان کی ظنی باتیں ہیں، مطلب یہ ہے کہ تم ان بتوں کی عبادت اس گمان پر کرتے ہو کہ یہ نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں اور تم ان کے نام بھی معبود رکھے ہوئے ہیں، حالانکہ، "یہ تمہارے اور تمہارے باپوں کے رکھے ہوئے نام ہیں، جن کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اتاری۔ یہ صرف گمان اور خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں"۔ (النجم۔23)
****- مکر سے مراد، ان کے وہ غلط عقائد و اعمال ہیں جن میں شیطان نے ان کو پھنسا رکھا ہے، شیطان نے گمراہیوں پر بھی حسین غلاف چڑھا رکھے ہیں۔
*****- جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا، «وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا»(المائدہ:41)۔ ”جس کو اللہ گمراہ کرنے کا ارادہ کر لے تو اللہ اس کے لئے کچھ اختیار نہیں رکھتا“، اور فرمایا۔ «اِنْ تَحْرِصْ عَلٰي هُدٰىهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ يُّضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ» ( النحل:37)۔ ”اگر تم ان کی ہدایت کی خواہش رکھتے ہو تو (یاد رکھو) اللہ تعالٰی اسے ہدایت نہیں دیتا جسے وہ گمراہ کرتا ہے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا“۔
ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے*، اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی زیاده سخت ہے**، انہیں اللہ کے غضب سے بچانے واﻻ کوئی بھی نہیں.
____________________
* اس سے مراد قتل اور اسیری ہے جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں ان کافروں کے حصے آتی ہے۔
**- جس طرح نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی لعنت ملامت کرنے والے جوڑے سے فرمایا تھا «إِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الآخِرَةِ»۔ (صحيح مسلم كتاب اللعان) «دنیا کا عذاب، آخرت سے بہت ہلکا ہے » علاوہ ازیں دنیا کا عذاب (جیسا کچھ اور جتنا کچھ بھی ہو) عارضی اور فانی ہے اور آخرت کا عذاب دائمی ہے، اسے زوال و فنا نہیں، مزید برآں جہنم کی آگ، دنیا کی آگ کی نسبت 69 گنا تیز ہے، اور اس طرح دوسری چیزیں ہیں۔ اس لئے عذاب کے سخت ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔
اس جنت کی صفت، جس کا وعده پرہیزگاروں کو دیا گیا ہے یہ ہے کہ اس کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اس کا میوه ہمیشگی واﻻ ہے اور اس کا سایہ بھی۔ یہ ہے انجام پرہیزگاروں کا*، اور کافروں کا انجام کار دوزخ ہے.
____________________
* اہل کفار کے انجام بد کے ساتھ اہل ایمان کا حسن انجام بیان فرما دیا تاکہ جنت کے حصول میں رغبت اور شوق پیدا ہو، اس مقام پر امام ابن کثیر نے جنت کی نعمتوں، لذتوں اور ان کی خصوصی کیفیات پر مشتمل احادیث بیان فرمائی ہیں۔ جنہیں وہاں ملاحظہ کر لیا جائے۔
جنہیں ہم نے کتاب دی ہے* وه تو جو کچھ آپ پر اتارا جاتا ہے اس سے خوش ہوتے ہیں** اور دوسرے فرقے اس کی بعض باتوں کے منکر ہیں***۔ آپ اعلان کر دیجئے کہ مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ شریک نہ کروں، میں اسی کی طرف بلا رہا ہوں اور اسی کی جانب میرا لوٹنا ہے.
____________________
* اس سے مراد مسلمان ہیں اور مطلب ہے جو قرآن کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔
**- یعنی قرآن کے صدق کے دلائل و شواہد دیکھ کر مزید خوش ہوتے ہیں۔
***- اس سے مراد یہود و نصاریٰ اور کفار و مشرکین ہیں۔ بعض کے نزدیک کتاب سے مراد تورات وانجیل ہے، ان میں سے جو مسلمان ہوئے، وہ خوش ہوتے ہیں اور انکار کرنے والے وہ یہود و انصاریٰ ہیں جو مسلمان نہیں ہوئے۔
اسی طرح ہم نے اس قرآن کو عربی زبان کا فرمان اتارا ہے*۔ اگر آپ نے ان کی خواہشوں** کی پیروی کر لی اس کے بعد کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے*** تو اللہ (کے عذابوں) سے آپ کو کوئی حمایتی ملے گا اور نہ بچانے واﻻ.****
____________________
* یعنی جس طرح آپ سے پہلے رسولوں پر کتابیں مقامی زبانوں میں نازل کیں، اسی طرح آپ پر قرآن ہم نے عربی زبان میں اتارا، اس لئے کہ آپ کے مخاطب اولین اہل عرب ہیں، جو صرف عربی زبان ہی جانتے ہیں۔ اگر قرآن کسی اور زبان میں نازل ہوتا تو ان کی سمجھ سے بالا ہوتا اور قبول ہدایت میں ان کے لئے عذر بن جاتا۔ ہم نے قرآن کو عربی میں اتار کر یہ عذر بھی دور کر دیا۔
**- اس سے مراد اہل کتاب کی بعض وہ خواہشیں ہیں جو وہ چاہتے تھے کہ پیغمبر آخر الزماں انہیں اختیار کریں۔ مثلاً بیت المقدس کو ہمیشہ کے لئے قبلہ بنائے رکھنا اور ان کے معتقدات کی مخالفت نہ کرنا وغیرہ۔
***- اس سے مراد علم ہے جو وحی کے ذریعے سے آپ کو عطا کیا گیا، جس میں اہل کتاب کے معتقدات کی حقیقت بھی آپ پر واضح کر دی گئی۔
****- یہ دراصل امت کے اہل علم کو تنبیہ ہے کہ وہ دنیا کے عارضی مفادات کی خاطر قرآن و حدیث کے واضح احکام کے مقابلے میں لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ لگیں، اگر وہ ایسا کریں گے تو انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔
ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں واﻻ بنایا تھا*، کسی رسول سے نہیں ہو سکتا کہ کوئی نشانی بغیر اللہ کی اجازت کے لے آئے**۔ ہر مقرره وعدے کی ایک لکھت ہے.***
____________________
* یعنی آپ سمیت جتنے بھی رسول اور نبی آئے، سب بشر ہی تھے، جن کا اپنا خاندان اور قبیلہ تھا اور بیوی بچے تھے وہ فرشتے تھے نہ انسانی شکل میں کوئی نوری مخلوق بلکہ جنس بشر ہی میں سے تھے کیونکہ اگر وہ فرشتے ہوتے تو انسانوں کے لیے ان سے مانوس ہونا اور ان کے قریب ہونا ناممکن تھا جس سے ان کو بھیجنے کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا اور اگر وہ فرشتے بشری جامے میں آتے تو دنیا میں نہ ان کا خاندان اور قبیلہ ہوتا اور نہ ان کے بیوی بچے ہوتے جس سے یہ معلوم ہوا کہ تمام انبیاء بحثییت جنس کے بشر ہی تھے بشری شکل میں فرشتے یا کوئی نوری مخلوق نہیں تھے مزکورہ آیت میں ازواجا سے رہبانیت کی تردید اور ذریۃ سے خاندانی منصوبہ بندی کی تردید بھی ہوتی ہے کیونکہ ذریۃ جمع ہے کم از کم تین ہوں گے۔
**- یعنی معجزات کا صدور، رسولوں کے اختیار میں نہیں کہ جب ان سے مطالبہ کیا جائے تو وہ صادر کر کے دکھا دیں بلکہ یہ اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت کے مطابق فیصلہ کرتا ہے کہ معجزے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کس طرح اور کب دکھایا جائے۔
***- یعنی اللہ نے جس چیز کا وعدہ کیا، اس کا ایک وقت مقرر ہے، اس وقت موعود پر یہ واقع ہو کر رہے گا اس لئے کہ اللہ کا وعدہ خلاف نہیں ہوتا۔اور بعض کہتے ہیں کہ کلام میں تقدیم و تاخیر ہے۔ اصل عبارت ہر وہ امر، جسے اللہ نے لکھ رکھا ہے، اس کا ایک وقت مقرر ہے، یعنی معاملہ، کفار کے ارادے اور منشاء پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔
اللہ جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے ﺛابت رکھے، لوح محفوظ اسی کے پاس ہے.*
____________________
* اس کے ایک معنی تو یہ ہیں وہ جس حکم کو چاہے منسوخ کردے اور جسے چاہے باقی رکھے۔ دوسرے معنی یہ ہیں اس نے جو تقدیر لکھ رکھی ہے، اس میں محو و اثبات کرتا رہتا ہے، اس کے پاس لوح محفوط ہے۔ اس کی تائید بعض احادیث و آثار سے ہوتی ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں آتا ہے کہ ”آدمی گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے، دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے اور صلہ رحمی سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے“ (مسند احمد جلد۔5 ص۔277) بعض صحابہ سے یہ دعا منقول ہے «اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنَا أَشْقِيَاءَ فَامْحُنَا وَاكْتُبْنَا سُعَدَاءَ، وَإِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنَا سُعَدَاءَ فَأَثْبِتْنَا، فَإِنَّكَ تَمْحُو مَا تَشَاءُ وَتُثْبِتُ وَعِنْدَكَ أُمُّ الْكِتَابِ» حضرت عمر (رضي الله عنه) سے منقول ہے کہ وہ دوران طواف روتے ہوئے یہ دعا پڑھتے ـ«اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ كَتَبْتَ عَلَيّ شِقْوَةً أَوْ ذَنْبًا فَامْحُهُ، فَإِنَّكَ تَمْحُو مَا تَشَاءُ وَتُثْبِتُ وَعِنْدَكَ أُمُّ الْكِتَابِ فَاجْعَلْهُ سَعَادَةً وَمَغْفِرَةً»۔( ابن کثیر)۔ ”اے اللہ اگر تو نے مجھ پر بدبختی اور گناہ لکھا ہے تو اسے مٹا دے، اس لئے کہ تو جو چاہے مٹائے اور جو چاہے باقی رکھے، تیرے پاس ہی لوح محفوظ ہے، پس تو بدبختی کو سعادت اور مغفرت سے بدل دے“۔ اس مفہوم پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ حدیث میں تو آتا ہے «جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا هُوَ كَائِنٌ»۔ (صحیح بخاری نمبر 5076)۔ ”جو کچھ ہونے والا ہے قلم اسے لکھ کر خشک ہو چکا ہے“ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ محو واثبات بھی منجملہ قضاء وتقدیر ہی کے ہے۔( فتح القدیر)۔
ان سے کیے ہوئے وعدوں میں سے کوئی اگر ہم آپ کو دکھا دیں یا آپ کو ہم فوت کر لیں تو آپ پر تو صرف پہنچا دینا ہی ہے۔ حساب تو ہمارے ذمہ ہی ہے.
کیا وه نہیں دیکھتے؟ کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں*، اللہ حکم کرتا ہے کوئی اس کے احکام پیچھے ڈالنے واﻻ نہیں**، وه جلد حساب لینے واﻻ ہے.
____________________
* یعنی عرب کی سرزمین مشرکین پر بتدریج تنگ ہو رہی ہے اور اسلام کو غلبہ عروج حاصل ہو رہا ہے۔
**- یعنی کوئی اللہ کے حکموں کو رد نہیں کر سکتا۔
ان سے پہلے لوگوں نے بھی اپنی مکاری میں کمی نہ کی تھی*، لیکن تمام تدبیریں اللہ ہی کی ہیں، جو شخص جو کچھ کر رہا ہے اللہ کے علم میں ہے**۔عنقريب کافروں کو معلوم ہو جائے گا کہ (اس) جہان کی جزا کس کے لئے ہے؟
____________________
* یعنی مشرکین مکہ سے قبل بھی لوگ رسولوں کے مقابلے میں مکر کرتے رہے ہیں، لیکن اللہ کی تدبیر کے مقابلے میں ان کی کوئی تدبیر اور حیلہ کارگر نہیں ہوا، اسی طرح آئندہ بھی ان کا کوئی مکر اللہ کی مشیت کے سامنے نہیں ٹھر سکے گا۔
**- وہ اس کے مطابق جزا اور سزا دے گا، نیک کو اس کی نیکی کی جزا اور بد کو اس کی بد کی سزا ۔
یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں۔ آپ جواب دیجئے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ گواہی دینے واﻻ کافی ہے* اور وه جس کے پاس کتاب کا علم ہے.**
____________________
* پس وہ جانتا ہے کہ میں اس کا سچا رسول اور اس کے پیغام کا داعی ہوں اور تم جھوٹے ہو۔
**- کتاب سے مراد جنس کتاب ہے اور مراد تورات اور انجیل کا علم ہے۔ یعنی اہل کتاب میں سے وہ لوگ جو مسلمان ہوگئے ہیں، جیسے عبد اللہ بن اسلام، سلمان فارسی اور تمیم داری وغیرہم (رضي الله عنه) م یعنی یہ بھی جانتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ عرب کے مشرکین اہم معاملات میں اہل کتاب کی طرف رجوع کرتے اور ان سے پوچھتے تھے، اللہ تعالٰی نے ان کی رہنمائی فرمائی کہ اہل کتاب جانتے ہیں، ان سے تم پوچھ لو۔ بعض کہتے ہیں کہ کتاب سے مراد قرآن ہے اور حاملین علم کتاب، مسلمان ہیں۔ اور بعض نے کتاب سے مراد لوح محفوظ لی ہے۔ یعنی جس کے پاس لوح محفوظ کا علم ہے یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ، مگر پہلا مفہوم زیادہ درست ہے۔