surah.translation .
من تأليف: محمد إبراهيم جوناكري .

ایک سوال کرنے والے* نے اس عذاب کا سوال کیا جو واضح ہونے واﻻ ہے.
____________________
* کہتے ہیں نضر بن حارث تھا یا ابو جہل تھا جس نے کہا تھا «اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ» الآية (الأنفال: 32) چنانچہ یہ شخص جنگ بدر میں مارا گیا۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ہیں۔ جنہوں نے اپنی قوم کے لئے بد دعا کی تھی اور اس کے نتیجے میں اہل مکہ پر قحط سالی مسلط کی گئی تھی۔
کافروں پر، جسے کوئی ہٹانے واﻻ نہیں.
اس اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں واﻻ ہے.*
____________________
* یا درجات والا، بلندیوں والا ہے، جس کی طرف فرشتے چڑھتے ہیں۔
جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں* ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے.**
____________________
* روح سے مراد حضرت جبرائیل (عليه السلام) ہیں، ان کی عظمت شان کے پیش نظر ان کا الگ خصوصی ذکر کیا گیا ہے ورنہ فرشتوں میں وہ بھی شامل ہیں۔ یا روح سے مراد انسانی روحیں ہیں جو مرنے کے بعد آسمان پر لے جاتی ہیں جیسا کہ بعض روایات میں ہے۔
پس تو اچھی طرح صبر کر.
بیشک یہ اس (عذاب) کو دور سمجھ رہے ہیں.
____________________
* اس یوم کی تعریف میں بہت اختلاف ہے جیسا کہ الم سجدہ کے آغاز میں ہم بیان کر آئے ہیں۔ یہاں امام ابن کثیر نے چار اقوال نقل فرمائےہیں۔ پہلا قول ہے کہ اس سے وہ مسافت مراد ہے جو عرش عظیم سے اسفل سافلین (زمین کے ساتویں طبقے) تک ہے۔ یہ مسافت 50 ہزار سال میں طے ہونے والی ہے۔ دوسرا قول ہے کہ یہ دنیا کی کل مدت ہے۔ ابتدائے آفرینش سے وقوع قیامت تک، اس میں سے کتنی مدت گزر گئی اور کتنی باقی ہے، اسے صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ تیسرا قول ہے کہ یہ دنیا و آخرت کے درمیان فاصلہ ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ یہ قیامت کے دن کی مقدار ہے۔ یعنی کافروں پر یہ یوم حساب پچاس ہزار سال کی طرح بھاری ہوگا۔ لیکن مومن کے لئے دنیا میں ایک فرض نماز پڑھنے سے بھی مختصر ہوگا۔ (مسند احمد، 3/75) امام ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے کیوں کہ احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کو قیامت والے دن جو عذاب دیا جائے گا اس کی تفصیل بیان فرماتے ہوئے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: «حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِى يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ»۔ (صحیح مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب اثم مانع الزکوٰۃ)، ”یہاں تک کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرمائے گا، ایسے دن میں، جس کی مدت تمہاری گنتی کے مطابق پچاس ہزار سال ہوگی“۔ اس تفسیر کی رو سے فی یوم کا تعلق عذاب سے ہوگا، یعنی وہ واقع ہونے والا عذاب قیامت والے دن ہوگا جو کافروں پر پچاس ہزار سال کی طرح بھاری ہوگا۔
اور ہم اسے قریب ہی دیکھتے ہیں.*
____________________
* دور سے مراد ناممکن اور قریب سے اس کا یقینی واقع ہونا ہے۔ یعنی کافر قیامت کو ناممکن سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ وہ ضرور آکر رہے گیاس لئے کہ کل ما ھوا آت فھوا قریب"ہر آبت واکئ چیز قریب ہے۔
جس دن آسمان مثل تیل کی تلچھٹ کے ہو جائے گا.*
اور پہاڑ مثل رنگین اون کے ہو جائیں گے.*
____________________
* یعنی دھنی ہوئی روئی کی طرح، جیسے سورہ القارعۃ میں ہے۔(كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ)
اور کوئی دوست کسی دوست کو نہ پوچھے گا.
(حاﻻنکہ) ایک دوسرے کو دکھا دیئے جائیں گے*، گناهگار اس دن کے عذاب کے بدلے فدیے میں اپنے بیٹوں کو.
____________________
* لیکن سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی، اس لئے تعارف اور شناخت کے باوجود ایک دوسرے کو نہیں پوچھیں گے۔
اپنی بیوی کو اور اپنے بھائی کو.
اور اپنے کنبے کو جو اسے پناه دیتا تھا.
اور روئے زمین کے سب لوگوں کو دینا چاہے گا تاکہ یہ اسے نجات دﻻ دے.*
____________________
* یعنی اولاد، بیوی، بھائی اور خاندان یہ ساری چیزیں انسان کو نہایت عزیز ہوتی ہیں، لیکن قیامت والے دن مجرم چاہے گا کہ اس سے فدیے میں یہ عزیز چیزیں قبول کر لی جائیں اور اسے چھوڑ دیا جائے۔فصيلةٌ، خاندان کو کہتے ہیں، کیوں کہ وہ قبیلے سے جدا ہوتا ہے۔
(مگر) ہرگز یہ نہ ہوگا، یقیناً وه شعلہ والی (آگ) ہے.*
____________________
* یعنی وہ جہنم، یہ اس کی شدت حرارت کا بیان ہے۔
جو منھ اور سر کی کھال کھینچ ﻻنے والی ہے.*
____________________
* یعنی گوشت اور کھال کو جلا کر رکھ دے گی۔ انسان صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ جائے گا۔
وه ہر اس شخص کو پکارے گی جو پیچھے ہٹتا اور منھ موڑتا ہے.
اور جمع کرکے سنبھال رکھتا ہے.*
____________________
* یعنی دنیا میں حق سے پیٹھ پھیرتا اور منہ موڑتا تھا اور مال جمع کرکے خزانوں میں سنبھال سنبھال کر رکھتا تھا، اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا تھا نہ اس میں سے زکوۃ نکالتا تھا۔ اللہ تعالٰی جہنم کو قوت گویائی عطا فرمائے گا اور جہنم بزبان قال خود ایسے لوگوں کو پکارے گی، بعض کہتے ہیں، پکارنے والے فرشتے ہی ہونگے اسے منسوب جہنم کی طرف کر دیا گیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کوئی نہیں پکارے گا، یہ صرف تمثیل کے طور پر ایسا کہا گیا ہے۔ مطلب ہے کہ مذکورہ افراد کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔
بیشک انسان بڑے کچے دل واﻻ بنایا گیا ہے.*
____________________
* سخت حریص اور بہت جزع فزع کرنے والے کو ھلوع کہا جاتا ہے۔ جس کو ترجمے میں انسان کچے دل والا سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ ایسا شخص ہی بخیل و حریص اور زیادہ گریہ جاری کرنے والا ہوتا ہے۔آگےاس کی صفت بیان کی گئی ہے۔
جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑبڑا اٹھتا ہے.
اور جب راحت ملتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے.
مگر وه نمازی.
جو اپنی نماز پر ہمیشگی کرنے والے ہیں.*
____________________
* مراد ہیں مومن کامل اور اہل توحید، ان کے اندر مذکورہ اخلاقی کمزوریاں نہیں ہوتیں بلکہ اس کے برعکس وہ صفات محمودہ کے پیکر ہوتے ہیں۔ ہمیشہ نماز پڑھنے کا مطلب ہے کہ نماز میں کوتاہی نہیں کرتے ہر نماز اپنے وقت پر نہایت پابندی اور التزام سے پڑھ لیتے ہیں۔ کوئی مشغولیت انہیں نماز سے نہیں روکتی اور دنیا کا کوئی فائدہ انہیں نماز سے غافل نہیں کرتا۔
اور جن کے مالوں میں مقرره حصہ ہے.*
____________________
* یعنی زکوۃ مفروضۃ، بعض کے نزدیک یہ عام ہے، صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں اس میں شامل ہیں۔
مانگنے والوں کا بھی اور سوال سے بچنے والوں کا بھی.*
____________________
* محروم میں وہ شخص بھی داخل ہے جو رزق سے ہی محروم ہے وہ بھی جو کسی آفت سماوی وارضی کی زد میں آکر اپنی پونجی سے محروم ہوگیا اور وہ بھی جو ضرورت مند ہونے کے باوجود اپنی صفت تعفف کی وجہ سے لوگوں کی عطا اور صدقات سے محروم رہتا ہے۔
اور جو انصاف کے دن پر یقین رکھتے ہیں.*
____________________
* یعنی وہ اس کا انکار کرتے ہیں نہ اس میں شک وشبہ کا اظہار۔
اور جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں.*
____________________
* یعنی اطاعت اور اعمال صالحہ کے باوجود اللہ کی عظمت وجلالت کے پیش نظر اس کی گرفت سے لرزاں وترساں رہتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ جب تک اللہ کی رحمت ہمیں اپنے دامن میں نہیں ڈھانک لے گی ہمارے یہ اعمال نجات کے لیے کافی نہیں ہوں گے جیسا کہ اس مفہوم کی حدیث پہلے گزر چکی ہے۔
بیشک ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں.*
____________________
* یہ سابقہ مضمون ہی کی تاکید ہے کہ اللہ کے عذاب سے کسی کو بھی بےخوف نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر وقت اس سے ڈرتے رہنا اور اس سے بچاؤ کی ممکنہ تدابیر اختیار کرتے رہنا چاہیے۔
اور جو لوگ اپنی شرم گاہوں کی (حرام سے) حفاﻇت کرتے ہیں.
ہاں ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جن کے وه مالک ہیں انہیں کوئی ملامت نہیں.*
____________________
* یعنی انسان کے جنسی تسکین کے لئے اللہ نے دو جائز ذرائع رکھے ہیں ایک بیوی اور دوسری (لونڈی) بہرحال اہل ایمان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ جنسی خواہش کی تکمیل و تسکین کے لئے ناجائز ذریعہ اختیار نہیں کرتے۔
اب جو کوئی اس کے علاوه (راه) ڈھونڈے گا توایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہوں گے.
اور جو اپنی امانتوں کا اور اپنے قول و قرار کا پاس رکھتے ہیں.*
____________________
* یعنی ان کے پاس جو لوگوں کی امانتیں ہیں اس میں وہ خیانت نہیں کرتے اور لوگوں سے جو عہد کرتے ہیں انہیں توڑتے نہیں بلکہ ان کی پاسداری کرتے ہیں۔
اور جو اپنی گواہیوں پر سیدھے اور قائم رہتے ہیں.*
____________________
* یعنی اسے صحیح صحیح ادا کرتے ہیں چاہے اس کی زد میں ان کے قریبی عزیز ہی آجائیں علاوہ ازیں اسے چھپاتے بھی نہیں، نہ اس میں تبدیلی ہی کرتے ہیں۔
اور جو اپنی نمازوں کی حفاﻇت کرتے ہیں.
یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہوں گے.
پس کافروں کو کیاہو گیا ہے کہ وه تیری طرف دوڑتے آتے ہیں.
دائیں اور بائیں سے گروه کے گروه..*
____________________
* یہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کے زمانے کے کفار کا ذکر ہے کہ وہ آپ کی مجلس میں دوڑتے دوڑتے آتے، لیکن آپ کی باتیں سن کر عمل کرنے کی بجائے ان کا مذاق اڑاتے اور ٹولیوں میں بٹ جاتے۔ اور دعویٰ یہ کرتے کہ اگر مسلمان جنت میں گئے تو ہم ان سے پہلے جنت میں جائیں گے۔ اللہ نے اگلی آیت میں ان کے اس زعم باطل کی تردید فرمائی۔
کیا ان میں سے ہر ایک کی توقع یہ ہے کہ وه نعمتوں والی جنت میں داخل کیا جائے گا؟
(ایسا) ہرگز نہ ہوگا*۔ ہم نے انہیں اس (چیز) سے پیدا کیا ہے جسے وه جانتے ہیں.**
____________________
* یعنی یہ کس طرح ممکن ہے کہ مومن اور کافر دونوں جنت میں جائیں؟ رسول کو ماننے والے اور اس کی تکذیب کرنے والے دونوں کو اخروی نعمتیں ملیں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔
**- یعنی ماءٍ مَّهِين (حقیر قطرے) سے۔ جب یہ بات ہے تو کیا تکبر اس انسان کو زیب دیتا ہے؟ جس تکبر کی وجہ سے ہی یہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب بھی کرتا ہے۔
پس مجھے قسم ہے مشرقوں اور مغربوں* کے رب کی (کہ) ہم یقیناً قادر ہیں.
____________________
* ہر روز سورج ایک الگ جگہ سے نکلتا اور الگ مغرب میں غروب ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے مشرق بھی بہت ہیں اور مغرب بھی اتنے ہی۔ مزید تفصیل کے لئے سورۂ صافات، 5 دیکھئے۔
اس پر کہ ان کے عوض ان سے اچھے لوگ لے آئیں* اور ہم عاجز نہیں ہیں.**
____________________
* یعنی ان کو ختم کرکے ایک نئی مخلوق آباد کر دینے پر ہم پوری طرح قادر ہیں۔
**- جب ایسا ہے تو کیا ہم قیامت والے دن ان کو دوبارہ نہیں اٹھا سکیں گے۔
پس تو انہیں جھگڑتا کھیلتا چھوڑ دے* یہاں تک کہ یہ اپنے اس دن سے جاملیں جس کا ان سے وعده کیا جاتا ہے.
____________________
* یعنی فضول اور لایعنی بحثوں میں پھنسے اور اپنی دنیا میں مگن رہیں تاہم آپ اپنی تبلیغ کا کام جاری رکھیں ان کا رویہ آپ کو اپنے منصب سے غافل یا بد دل نہ کر دے۔
جس دن یہ قبروں سے دوڑتے ہوئے نکلیں گے، گویا کہ وه کسی جگہ کی طرف تیز تیز جا رہے ہیں.*
____________________
* اجداث جمع ہے ۔جدث کے معنی ہیں قبر۔ نصب تھانے جہاں بتوں کے نام پر جانور ذبح کیے جاتے ہیں اور بتوں کے معنی میں بھی استعمال ہے۔ بتوں کے پجاری جب سورج طلوع ہوتا تھا تو نہایت تیزی سے اپنے بتوں کی طرف دوڑتے کہ کون پہلے اسے بوسہ دیتا ہے۔ اسی طرح قیامت والے دن اپنی قبروں سے برق رفتاری سے نکلیں گے۔یوفضون یسرعون کے معنی میں ہے۔
ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی*، ان پر ذلت چھا رہی ہوگی**، یہ ہے وه دن جس کا ان سے وعده کیا جاتا تھا.***
____________________
- جس طرح مجرموں کی آنکھیں جھکی ہوتی ہیں کیونکہ انہیں اپنے کرتوتوں کا علم ہوتا ہے۔
**- یعنی سخت ذلت انہیں اپنی لپیٹ میں لے رہی ہوگی اور ان کے چہرے مارے خوف کے سیاہ ہوں گے۔
***- یعنی رسولوں کی زبانی اور آسمانی کتابوں کے ذریعے سے۔