surah.translation .
من تأليف: محمد إبراهيم جوناكري .

میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی.*
____________________
* لا اقسم میں لا زائد ہے جو عربی زبان کا ایک اسلوب ہے جیسے ”مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ“ (الاعراف: 12) اور ”لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ“ (الحدید: 29) اور دیگر بہت سے مقامات میں ہے بعض کہتے ہیں کہ قسم سے پہلے کفار کے کلام کا رد ہے وہ کہتے تھے مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں۔لا کے زیعے سے کہا گیا، جس طرح کہتے ہو معاملہ اس طرح نہیں ہے میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں، قیامت کے دن کی قسم کھانے کا مقصد اس کی اہمیت اور عظمت کو واضح کرنا ہے۔
اور قسم کھاتا ہوں اس نفس کی جو ملامت کرنے واﻻ ہو.*
____________________
* یعنی بھلائی پر بھی کرتا ہے کہ زیادہ کیوں نہیں کی۔ اور برائی پر بھی، کہ اس سے باز کیوں نہیں آتا؟ دنیا میں بھی جن کے ضمیر بیدار ہوتے ہیں ان کے نفس انہیں ملامت کرتے ہیں، تاہم آخرت میں تو سب کے ہی نفس ملامت کریں گے۔
کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع کریں گے ہی نہیں.*
____________________
* یہ جواب قسم ہے انسان سے مراد یہاں کافر اور بےدین انسان ہے جو قیامت کو نہیں مانتا۔ اس کا گمان غلط ہے، اللہ تعالٰی یقینا انسانوں کے اجزا کو جمع فرمائے گا یہاں ہڈیوں کا بطور خاص ذکر ہے، اس لیئے کہ ہڈیاں ہی پیدائش کا اصل ڈھانچہ اور قالب ہیں۔
ہاں ضرور کریں گے ہم تو قادر ہیں کہ اس کی پور پور تک درست کردیں.*
____________________
* بَنَان (پور پور) جوڑوں، ناخن، لطیف رگوں اور باریک ہڈیوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جب یہ باریک اور لطیف چیزیں ہم بالکل صحیح صحیح جوڑ دیں گے تو بڑے حصے کو جوڑ دینا ہمارے لئے کیا مشکل ہوگا۔
بلکہ انسان تو چاہتا ہے کہ آگے آگے نافرمانیاں کرتا جائے.*
____________________
* یعنی اس امید پر نافرمانی اور حق کا انکار کرتا ہے کہ کون سی قیامت آنی ہے۔
پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئے گا.*
____________________
* یہ سوال اس لئے نہیں کرتا کہ گناہوں سے تائب ہو جائے، بلکہ قیامت کو ناممکن الو قوع سمجھتے ہوئے پوچھتا ہے۔ اسی لیے فسق وفجور سے باز نہیں آتا۔ تاہم اگلی ٓآیت میں اللہ تعالٰی قیامت کے آنے کا وقت بیان فرما رہاہے۔
پس جس وقت کہ نگاه پتھرا جائے گی.*
____________________
* دہشت اور حیرانی سے برق، تحیر و اندھش جیسے موت کے وقت عام طور پر ہوتا ہے۔
اور چاند بے نور ہو جائے گا.*
____________________
* جب چاند کو گرہن لگ جاتا ہے تو اس وقت بھی وہ بےنور ہو جاتا ہے۔ لیکن جو علامات قیامت میں سے ہے، جب ہوگا تو اس کے بعد اس میں روشنی نہیں آئے گی۔
اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے.*
____________________
* یعنی بےنوری میں۔ مطلب ہے کہ چاند کی طرح سورج کی روشنی بھی ختم ہو جائے گی۔
اس دن انسان کہے گا کہ آج بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟*
____________________
* یعنی جب یہ واقعات ظہور پذیر ہونگے تو پھر اللہ سے یا جہنم کے عذاب سے راہ فرار ڈھونڈے گا، لیکن اس وقت راہ فرار کہاں ہوگی؟
نہیں نہیں کوئی پناہ گاه نہیں.*
____________________
* وَزَرَ پہاڑ یا قعلے کو کہتے ہیں جہاں انسان پناہ حاصل کرلے۔ وہاں ایسی کوئی پناہ گاہ نہیں ہوگی۔
آج تو تیرے پروردگار کی طرف ہی قرار گاه ہے.*
____________________
* جہاں وہ بندوں کے درمیان فیصلے فرمائے گا۔ یہ ممکن نہیں ہوگا کہ کوئی اللہ کی اس عدالت سے چھپ جائے۔
آج انسان کو اس کے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے سے آگاه کیا جائے گا.*
____________________
* یعنی اس کے تمام اعمال سے آگاہ کیا جائے گا قدیم ہو یا جدید، اول ہو یا آخر چھوٹا ہو یا بڑا۔ ”وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا“ (الکھف:49)
بلکہ انسان خود اپنے اوپر آپ حجت ہے.*
____________________
* یعنی اس کے اپنے ہاتھ، پاؤں، زبان اور دیگر اعضاء گواہی دیں گے، یا یہ مطلب ہے کہ انسان اپنے عیوب خود جانتا ہے۔
اگر چہ کتنے ہی بہانے پیش کرے.*
____________________
* یعنی لڑے جھگڑے، ایک سے ایک بہانہ کرے، لیکن ایسا کرنا نہ اس کے لئے مفید ہے اور نہ وہ اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکتا ہے۔
(اے نبی) آپ قرآن کو جلدی (یاد کرنے) کے لیے اپنی زبان کو حرکت* نہ دیں.
____________________
* حضرت جبرائیل (عليه السلام) جب وحی لے کر آتے نبی (صلى الله عليه وسلم) بھی ان کے ساتھ جلدی سے پڑھتے جاتے کہ کہیں کوئی لفظ بھول نہ جائے۔ اللہ نے اپنے فرشتے کے ساتھ ساتھ اس طرح پڑھنے سے منع فرمایا۔ (صحیح بخاری' تفسہر سورۃ القیامہ) یہ مضمون پہلے بھی گزر چکا ہے ”وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ“ (سورۃ طٰہٰ:114) چنانچہ اس حکم کے بعد آپ خاموشی سے سنتے۔
اس کا جمع کرنا اور (آپ کی زبان سے) پڑھنا ہمارے ذمہ ہے.*
____________________
* یعنی آپ کے سینے میں اس کا جمع کر دینا اور آپ کی زبان پر اس کی قرأت کو جاری کر دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ تاکہ اس کا کوئی حصہ آپ کی یاداشت سے نہ نکلے اور آپ کے ذہن سے محو نہ ہو۔
ہم جب اسے پڑھ* لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں.**
____________________
* یعنی فرشتے کے ذریعے سے جب ہم اس کی قرأت آپ پوری کرلیں۔
**- یعنی اس کے شرائع و احکام لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور ان کی پیروی بھی کریں۔
پھر اس کا واضح کر دینا ہمارے ذمہ ہے.*
____________________
* یعنی اس کے مشکل مقامات کی تشریح اور حلال وحرام کی توضیح یہ بھی ہمارے ذمے ہے اس کا صاف مطلب ہے کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے قرآن کے مجملات کی توضیح جو تخصیص بیان فرمائی ہے جسے حدیث کہاجاتا ہے یہ بھی اللہ کی طرف سے ہی الہام اور سمجھائی ہوئی باتیں ہیں اس لیے انہیں بھی قرآن کی طرح ماننا ضروری ہے۔
نہیں نہیں تم جلدی ملنے والی (دنیا) کی محبت رکھتے ہو.
اور آخرت کو چھوڑ بیٹھے ہو.*
____________________
* یعنی یوم قیامت کو جھٹلانا اور حق سے اعراض، اسلئے ہے کہ تم نے دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا ہے اور آخرت تمہیں بالکل فراموش ہے۔
اس روز بہت سے چہرے تروتازه اور بارونق ہوں گے.
اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے.*
____________________
* یہ اہل ایمان کے چہرے ہونگے جو اپنے حسن انجام کی وجہ سے مطمئن، مسرور اور منور ہونگے۔ مذید دیدار الٰہی سے بھی لطف اندوز ہونگیں۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے اور اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے۔
اور کتنے چہرے اس دن (بد رونق اور) اداس ہوں گے.*
____________________
* یہ کافروں کے چہرے ہونگے سیاہ اور بےرونق۔
سمجھتے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ دینے واﻻ معاملہ* کیا جائے گا.
____________________
* اور وہ یہی ہے کہ جہنم میں ان کو پھینک دیا جائے گا۔
نہیں نہیں* جب روح ہنسلی تک** پہنچے گی.
____________________
* یعنی یہ ممکن نہیں کہ کافر قیامت پر ایمان لے آئیں۔
**- تراقی، ترقوہ کی جمع ہے ۔یہ گردن کے قریب، سینے اور کندھے کے درمیان ایک ہڈی ہے، یعنی جب موت آئے گی آہنی پنجہ تمہیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔
اور کہا جائے گا کہ کوئی جھاڑ پھونک* کرنے واﻻ ہے؟
____________________
* یعنی حاضرین میں سے کوئی ہے جو جھاڑ پھونک کے ذریعہ سے تمہیں موت کے پنجے سے چھڑا لے۔ بعض نے اس کا ترجمہ یہ بھی کیا ہے کہ اس کی روح کون لے کر چڑھے گا ملائکہ رحمت یا ملائکہ عذاب؟ اس صورت میں یہ قول فرشتوں کا ہے۔
اور جان لیا اس نے کہ یہ وقت جدائی ہے.*
____________________
* یعنی وہ شخص یقین کر لے گا جس کی روح ہنسلی تک پہنچ گئی ہے کہ اب، مال، اولاد اور دنیا کی ہرچیز سے جدائی کا مرحلہ آگیا ہے۔
اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی.*
____________________
* اس سے یا تو موت کے وقت پنڈلی کا پنڈلی کے ساتھ مل جانا مراد ہے یا پے درپے تکلیفیں، بہت سے مفسرین نے دوسرے معنی کئے ہیں۔ (فتح القدیر)
آج تیرے پروردگار کی طرف چلنا ہے.
اس نے نہ تو تصدیق کی نہ نماز ادا کی.*
____________________
* یعنی اس انسان نے رسول اور قرآن کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی یعنی اللہ کی عبادت نہیں کی۔
بلکہ جھٹلایا اور روگردانی کی.*
____________________
* یعنی رسول کو جھٹلایا اور ایمان و اطاعت سے روگردانی کی۔
پھر اپنے گھر والوں کے پاس اتراتا ہوا گیا.*
____________________
* یَتَمَطَّیٰ اتراتا اور اکڑاتا ہوا۔
افسوس ہے تجھ پر حسرت ہے تجھ پر.
وائے ہے اور خرابی ہے تیرے لیے.*
____________________
* یہ کلمہ وعید سے کہا جاتا ہے کہ اس کی اصل ہے، اللہ تجھے ایسی چیز سے دو چار کرے جسے تو ناپسند کرے۔
کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے بیکار چھوڑ دیا جائے گا.*
____________________
* یعنی اس کو کسی چیز کا حکم دیا جائے گا، نہ کسی چیز سے منع کیا جائے گا، نہ اس کا محاسبہ ہوگا۔ یا اس کی قبر میں ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا جائے گا، وہاں سے اسے دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔
کیا وه ایک گاڑھے پانی کا قطره نہ تھا جو ٹپکایا گیا تھا؟
پھر وه لہو کا لوتھڑا ہوگیا پھر اللہ نے اسے پیدا کیا اور درست بنا دیا.*
____________________
* فَسَوَّیٰ، یعنی اسے ٹھیک ٹھاک کیا اور اس کی تکمیل کی اور اس میں روح پھونکی۔
پھر اس سے جوڑے یعنی نر وماده بنائے.
کیا (اللہ تعالیٰ) اس (امر) پر قادر نہیں کہ مردے کو زنده کردے.*
____________________
* یعنی جواللہ انسان کو اس طرح مختلف اطوار سے گزار کر پیدا فرماتا ہے کیا مرنے کے بعد دوبارہ اسے زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے؟