surah.translation .
من تأليف: محمد إبراهيم جوناكري .

یہ لوگ کس چیز کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں.*
____________________
* جب رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کو خلعت نبوت سے نوازا گیا اور آپ نےتوحید، قیامت وغیرہ کا بیان فرمایا اور قرآن کی تلاوت فرمائی تو کفار ومشرکین باہم ایک دوسرے سے پوچھتے کہ یہ قیامت کیا واقعی ممکن ہے؟ جیسا کہ یہ شخص دعویٰ کر رہا ہے یا یہ قرآن واقعی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جیسا کہ محمد (صلى الله عليه وسلم) کہتا ہے۔ استفہام کے ذریعے سے اللہ نے پہلے ان چیزوں کی وہ حیثیت نمایاں کی جو ان کی ہے۔ پھر خود ہی جواب دیا کہ۔۔۔
اس بڑی خبر کے متعلق.
جس کے بارے میں یہ اختلاف کر رہے ہیں.*
____________________
* یعنی جس بڑی خبر کی بابت ان کے درمیان اختلاف ہے، اس کے متعلق استفسار ہے۔ اس بڑی خبر سے بعض نے قرآن مجید مراد لیا ہے کافر اس کے بارے میں مختلف باتیں کرتے تھے، کوئی اسے جادو، کوئی کہانت، کوئی شعر اور کوئی پہلوں کی کہانیاں بتلاتا تھا۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد قیامت کا برپا ہونا اور دوبارہ زندہ ہونا ہے۔ اس میں بھی ان کے درمیان کچھ اختلاف تھا۔ کوئی بالکل انکار کرتا تھا کوئی صرف شک کا اظہار۔ بعض کہتے ہیں کہ سوال کرنے والےمومن وکافر دونوں ہی تھے، مومنین کا سوال تو اضافہ یقین اور ازدیاد بصیرت کے لئے تھا اور کافروں کا استہزا اور تمسخر کے طور پر۔
یقیناً یہ عنقریب جان لیں گے.*
پھر بالیقین انہیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا.*
____________________
* یہ ڈانٹ اور زجر ہےکہ عنقریب سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ آگے اللہ تعالیٰ اپنی کاریگری اور عظیم قدرت کا تذکرہ فرما رہا ہے تاکہ توحید کی حقیقت ان کے سامنے واضح ہو اور اللہ کا رسول انہیں جس چیز کی دعوت دے رہا تھا، اس پر ایمان لانا ان کے لئے آسان ہو جائے۔
کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا؟*
____________________
* یعنی فرش کی طرح تم زمین پر چلتے پھرتے، اٹھتے، بیٹھتے، سوتے اور سارے کام کاج کرتے ہو۔ زمین کوڈولتا ہوا نہیں رہنے دیا۔
اور پہاڑوں کو میخیں (نہیں بنایا؟)*
____________________
* أَوْتَادٌ، وَتَدٌ کی جمع ہے میخیں۔ یعنی پہاڑوں کو زمین کے لئے میخیں بنایا تاکہ زمین ساکن رہے، حرکت نہ کرے، کیوں کہ حرکت واضطراب کی صورت میں زمین رہائش کے قابل ہی نہ ہوتی۔
اور ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا.*
____________________
* یعنی مذکر اور مونث۔ نراور مادہ یا ازواج بمعنی اصناف والوان ہے۔ یعنی مختلف شکلوں اور رنگوں میں پیدا کیا، خوب صورت، بدصورت، دراز قد، کوتاہ قد، سفید اور سیاہ وغیرہ۔
اور ہم نے تمہاری نیند کو آرام کا سبب بنایا.*
____________________
* سُبَاتٌ کے معنی قطع کرنے کے ہیں۔ رات بھی انسان وحیوان کی ساری حرکتیں منقطع کر دیتی ہے تاکہ سکون ہو جائے اور لوگ آرام کی نیند سو لیں۔ یا مطلب ہے کہ رات تمہارے اعمال کاٹ دیتی ہے یعنی عمل کے سلسلے کو ختم کر دیتی ہے۔ عمل ختم ہونے کا مطلب آرام ہے۔
اور رات کو ہم نے پرده بنایا.*
____________________
* یعنی رات کا اندھیرا اور سیاہی ہر چیز کو اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے، جس طرح لباس انسان کے جسم کو چھپا لیتا ہے۔
اور دن کو ہم نے وقت روزگار بنایا.*
____________________
* مطلب ہے کہ دن کو روشن بنایا تاکہ لوگ کسب معاش کے لئے جد وجہد کر سکیں۔
اور تمہارے اوپر ہم نے سات مضبوط آسمان بنائے.*
____________________
* ان میں سے ہر ایک کا فاصلہ پانچ سو سال کی مسافت جتنا ہے، جو اس کے استحکام اور مضبوطی کی دلیل ہے۔
اور ایک روشن چراغ (سورج) بنایا.*
____________________
* اس سے مراد سورج ہے اور جَعَلَ بمعنی خَلَقَ ہے۔
اور بدلیوں سے ہم نے بکثرت بہتا ہوا پانی برسایا.*
____________________
* مُعْصِرَاتٌ وہ بدلیاں جو پانی سے بھری ہوئی ہے لیکن ابھی برسی نہ ہوں۔ جیسے الْمَرْأَةُ الْمُعْتَصِرَةُ، اس عورت کو کہتے ہیں جس کی ماہواری قریب ہو، ثَجَّاجًا کثرت سے بہنے والا پانی۔
تاکہ اس سے اناج اور سبزه اگائیں.*
____________________
* حَبٌّ ( دانا ) وہ اناج جسے خوراک کے لئے ذخیرہ کر لیا جاتا ہے، جیسے گندم، چاول، جو، مکئی وغیرہ اور نبات، سبزیاں اور چارہ وغیرہ جو جانور کھاتے ہیں۔
اور گھنے باغ (بھی اگائیں).*
____________________
* أَلْفَافًا شاخوں کی کثرت کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملے ہوئے درخت یعنی گھنے باغ۔
بیشک فیصلہ کے دن کا وقت مقرر ہے.*
____________________
* یعنی اولین اور آخرین سب کے جمع ہونے اور وعدے کا دن۔ اسے فیصلے کا دن اس لئے کہا کہ اس دن جمع ہونے کا مقصد ہی تمام انسانوں کا ان کے اعمال کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہے۔
جس دن کہ صور میں پھونکا جائے گا۔ پھر تم فوج در فوج چلے آؤ گے.*
____________________
* بعض نے اس کا مفہوم یہ بھی بیان کیا ہے کہ ہر امت اپنے رسول کے ساتھ میدان محشر میں آئے گی۔ یہ دوسرا نفخہ ہوگا، جس میں سب لوگ قبروں سے زندہ اٹھ کر نکل آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ آسمان سےپانی نازل فرمائے گا، جس سے انسان کھیتی کی طرح اگ آئے گا۔ انسان کی ہر چیز بوسیدہ ہو جائے گی، سوائے ریڑھ کی ہڈی کے آخری سرے کے۔ اسی سے قیامت والے دن تمام مخلوقات کی دوبارہ ترکیب ہوگی۔ ( صحیح بخاری، تفسیر سورۂ عم ) ۔
اور آسمان کھول دیا جائے گا تو اس میں دروازے ہی دروازے ہو جائیں گے.*
____________________
* یعنی فرشتوں کے نزول کے لئے راستے بن جائیں گے اور وہ زمین پر اتر آئیں گے۔
اور پہاڑ چلائے جائیں گے پس وه سراب ہو جائیں گے.*
____________________
* سَرَابٌ، وہ ریت جو دور سے پانی محسوس ہوتی ہو۔ پہاڑ بھی سراب کی طرح صرف دور سے نظر آنے والی چیز بن کر رہ جائیں گے۔ اور اس کے بعد بالکل ہی معدوم ہو جائیں گے، ان کا کوئی نشان باقی نہیں رہے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ قرآن میں پہاڑوں کی مختلف حالتیں بیان کی گئی ہیں، جن میں جمع وتطبیق کی صورت یہ ہے کہ پہلے انہیں ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً ( الحاقة: 14 ) 2- وہ دھنی ہوئی روئی کی طرح ہو جائیں گے۔ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ ( القارعة: 5) 3- وہ گرد وغبار ہو جائیں گے۔ فَكَانَتْ هَبَاءً مُنْبَثًّا ( الواقعة :6)۔ 4- ان کو اڑا دیا جائے گا يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا (طه:105) اور پانچویں حالت یہ ہے کہ وہ سراب ہو جائیں گے۔ یعنی لا شَيْءَ جیسا کہ اس مقام پر ہے۔ ( فتح القدیر ) ۔
بیشک دوزخ گھات میں ہے.*
____________________
* گھات ایسی جگہ کو کہتے ہیں، جہاں چھپ کر دشمن کا انتظار کیا جاتا ہے تاکہ وہاں سے گزرے تو فوراً اس پر حملہ کر دیا جائے۔ جہنم کے داروغے بھی جہنمیوں کے انتظار میں اسی طرح بیٹھے ہیں یا خود جہنم اللہ کے حکم سے کفار کے لئے گھات لگائے بیٹھی ہے۔
سرکشوں کا ٹھکانہ وہی ہے.
اس میں وه مدتوں تک پڑے رہیں گے.*
____________________
* أَحْقَابٌ، حُقُبٌ کی جمع ہے، بمعنی زمانہ۔ مراد ابد اور ہمیشگی ہے۔ ابد الاباد تک وہ جہنم میں ہی رہیں گے۔ یہ سزا کافروں اور مشرکوں کے لئے ہے۔
نہ کبھی اس میں خنکی کا مزه چکھیں گے، نہ پانی کا.
سوائے گرم پانی اور (بہتی) پیپ کے.*
____________________
* جو جہنمیوں کے جسموں سے نکلے گی۔
(ان کو) پورا پورا بدلہ ملے گا.*
____________________
* یعنی یہ سزا ان کے ان اعمال کےمطابق ہے جو وہ دنیا میں کرتے رہے ہیں۔
انہیں تو حساب کی توقع ہی نہ تھی.*
____________________
* یہ پہلے جملے کی تعلیل ہے۔ یعنی وہ مذکورہ سزا کے اس لئے مستحق قرار پائے کہ عقیدۂ بعث بعدالموت کے وہ قائل ہی نہیں تھے کہ حساب کتاب کی وہ امید رکھتے۔
اور بے باکی سے ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے تھے.
ہم نے ہر ایک چیز کو لکھ کر شمار کر رکھا ہے.*
____________________
* یعنی لوح محفوظ میں۔ یا وہ ریکارڈ مراد ہے جو فرشتے لکھتے رہے۔ پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ ( يس:12) ۔
اب تم (اپنے کیے کا) مزه چکھو ہم تمہارا عذاب ہی بڑھاتے رہیں گے.*
____________________
* عذاب بڑھانے کا مطلب ہے کہ اب یہ عذاب دائمی ہے۔ جب ان کے چمڑے گل جائیں گے تو دوسرے بدل دیئے جائیں گے۔ ( النساء:56 ) جب آگ بجھنے لگے گی، تو پھر بھڑ کا دی جائے گی۔ بنی اسرائیل:97)۔
یقیناً پرہیزگار لوگوں کے لئے کامیابی ہے.*
____________________
* اہل شقاوت کےتذکرے کے بعد، یہ اہل سعادت کا تذکرہ اور ان نعمتوں کا بیان ہے جن سے حیات اخروی میں وہ بہرہ ور ہوں گے۔ یہ کامیابی اور نعمتیں انہیں تقویٰ کی بدولت حاصل ہوں گی۔ تقویٰ، ایمان واطاعت کے تقاضوں کی تکمیل کا نام ہے، خوش قسمت ہیں وہ لوگ، جو ایمان لانے کے بعد تقویٰ اور عمل صالح کا اہتمام کرتے ہیں۔ جَعَلَنَا اللهُ مِنْهُمْ ۔
باغات ہیں اور انگور ہیں.*
____________________
* یہ مفازاً سے بدل ہے ۔
اور نوجوان کنواری ہم عمر عورتیں ہیں.*
____________________
* كَوَاعِبَ كَاعِبةٌ کی جمع ہے، یہ كَعْبٌ ( ٹخنہ ) سے ہے، جس طرح ٹخنہ ابھرا ہوا ہوتا ہے، ان کی چھاتیوں میں بھی ایسا ہی ابھار ہوگا، جو ان کے حسن وجمال کا ایک مظہر ہے۔ أَتْرَابٌ ہم عمر۔
اور چھلکتے ہوئے جام ہیں.*
____________________
* دِهَاقًا، بھرے ہوئے، یا لگاتار، ایک کے بعد ایک۔ یا صاف شفاف۔ كَأْسٌ، ایسے جام کو کہتے ہیں جو لبالب بھرا ہوا ہو۔
وہاں نہ تو وه بیہوده باتیں سنیں گے اور نہ جھوٹی باتیں سنیں گے.*
____________________
* یعنی کوئی بے فائدہ اور بے ہودہ بات وہاں نہیں ہوگی، نہ ایک دوسرے سے جھوٹ بولیں گے۔
(ان کو) تیرے رب کی طرف سے (ان کے نیک اعمال کا)یہ بدلہ ملے گا جو کافی انعام ہوگا.*
____________________
* عَطَاءً کے ساتھ حِسَابٌ مبالغے کے لئے آتا ہے، یعنی اللہ کی داد ودہش کی وہاں فراوانی ہوگی۔
(اس رب کی طرف سے ملے گا جو کہ) آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا پروردگار ہے اور بڑی بخشش کرنے واﻻ ہے۔ کسی کو اس سے بات چیت کرنے کا اختیار نہیں ہوگا.*
____________________
* یعنی اس کی عظمت، ہیبت اور جلالت اتنی ہوگی کہ ابتداءً اس سےکسی کو بات کرنے کی ہمت نہ ہوگی، اسی لئے اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کے لئے بھی لب کشائی نہیں کر سکے گا۔
جس دن روح اور فرشتے صفیں باندھ کر کھڑے ہوں گے* تو کوئی کلام نہ کر سکے گا مگر جسے رحمٰن اجازت دے دے اور وه ٹھیک بات زبان سے نکالے.**
____________________
* یہاں جبرائیل (عليه السلام) سمیت رُوحٌ کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں، امام ابن کثیر نے بنو آدم ( انسان ) کو اشبہ ( قرین قیاس ) قرار دیا ہے۔
**- یہ اجازت اللہ تعالیٰ ان فرشتوں کو اور اپنے پیغمبروں کو عطا فرمائے گا اور وہ جو بات کریں گی حق وصواب ہی ہوگی، یا یہ مفہوم ہے کہ، اجازت صرف اسی کےبارے میں دی جائے گی جس نے درست بات کہی ہو۔ یعنی کلمہ توحید کا اقراری رہا ہو۔
یہ دن حق ہے* اب جو چاہے اپنے رب کے پاس (نیک اعمال کر کے) ٹھکانا بنالے.**
____________________
* یعنی لا محالہ آنے والا ہے۔
**- یعنی اس آنے والے دن کو سامنےرکھتے ہوئے ایمان وتقویٰ کی زندگی اختیار کرے تاکہ اس روز وہاں اس کو اچھا ٹھکانہ مل جائے۔
ہم نے تمہیں عنقریب آنے والے عذاب سے ڈرا دیا (اور چوکنا کر دیا) ہے*۔ جس دن انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی کو دیکھ لے گا** اور کافر کہے گا کہ کاش! میں مٹی ہو جاتا.***
____________________
* یعنی قیامت والے دن کے عذاب سے جو قریب ہی ہے۔ کیوں کہ اس کا آنا یقینی ہے اور ہر آنے والے چیز قریب ہی ہے، کیونکہ بہر صورت اسے آکر ہی رہنا ہے۔
**- یعنی اچھا یا برا، جو عمل بھی اس نے دنیا میں کیا وہ اللہ کے ہاں پہنچ گیا ہے، قیامت والے دن وہ اس کے سامنے آجائے گا اور اس کا مشاہدہ کر لے گا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا (الكهف، 49) يُنَبَّأُ الإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ( القيامة، 13) ۔
***- یعنی جب وہ اپنے لئے ہولناک عذاب دیکھے گا تو یہ آرزو کرے گا۔ بعض کہتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ حیوانات کے درمیان بھی عدل وانصاف کے مطابق فیصلہ فرمائے گا، حتیٰ کہ ایک سینگ والی بکری نے بے سینگ کے جانور پر کوئی زیادتی کی ہوگی، تو اس کا بھی بدلہ دلائے گا اس سے فراغت کے بعد اللہ تعالیٰ جانوروں کو حکم دے گا کہ مٹی ہو جاو۔ چنانچہ وہ مٹی ہو جائیں گے۔ اس وقت کافر بھی آرزو کریں گے کہ کاش وہ بھی حیوان ہوتے اور آج مٹی بن جاتے۔ ( تفسیر ابن کثیر ) ۔