ﰡ
____________________
* الْكَافِرُونَ میں الف لام جنس کے لئے ہے۔ لیکن یہاں بطور خاص صرف ان کافروں سے خطاب ہے جن کی بابت اللہ کو علم تھا کہ ان کا خاتمہ کفر وشرک پر ہوگا۔ کیوں کہ اس سورت کے نزول کے بعد کئی مشرک مسلمان ہوئے اور انہوں نے اللہ کی عبادت کی۔ ( فتح القدیر ) ۔
____________________
* بعض نے پہلی آیت کو حال کے اوردوسری کو استقبال کے مفہوم میں لیا ہے، لیکن امام شوکانی نے کہا ہے کہ ان تکلفات کی ضرورت نہیں ہے۔ تاکید کے لئے تکرار، عربی زبان کا عام اسلوب ہے، جسے قرآن کریم میں کئی جگہ اختیار کیا گیا ہے۔ جیسے سورۂ رحمٰن، سورۂ مرسلات میں ہے۔ اسی طرح یہاں بھی تاکید کے لئے یہ جملہ دہرایا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ کبھی ممکن نہیں کہ میں توحید کا راستہ چھوڑ کر شرک کا راستہ اختیار کر لوں، جیسا کہ تم چاہتے ہو۔ اور اگر اللہ نے تمہاری قسمت میں ہدایت نہیں لکھی ہے، تو تم بھی اس توحید اور عبادت الٰہی سے محروم ہی رہو گے۔ یہ بات اس وقت فرمائی گئی، جب کفار نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک سال ہم آپ (صلى الله عليه وسلم) کے معبود کی اور ایک سال آپ (صلى الله عليه وسلم) ہمارے معبودوں کی عبادت کریں۔
____________________
* یعنی اگر تم اپنے دین پر راضی ہو اور اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہو، تو میں اپنے دین پر راضی ہوں، میں اسے کیوں چھوڑ وں؟ «لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ» (القصص:55) ۔