ﰡ
____________________
* یعنی آسمان وزمین کی ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی ہر نقص وعیب سے تنزیہ وتقدیس بیان کرتی ہے۔ زبان حال سے بھی اور زبان مقال سے بھی۔ جیسا کہ پہلے گزرا۔
**- یعنی یہ دونوں خوبیاں بھی اسی کے ساتھ خاص ہیں۔ اگر کسی کو کوئی اختیار حاصل ہے تو وہ اسی کا عطا کردہ ہے جو عارضی ہے، کسی کے پاس کچھ حسن وکمال ہے تو اسی مبدا فیض کی کرم گستری کا نتیجہ ہے، اس لیے اصل تعریف کا مستحق بھی صرف وہی ہے۔
____________________
* یعنی انسان کے لیے خیر وشر، نیکی اور بدی اور کفر وایمان کے راستوں کی وضاحت کے بعد اللہ نے انسان کو ارادہ واختیار کی جو آزادی دی ہے۔ اس کی رو سے کسی نے کفر کا اور کسی نے ایمان کا راستہ اپنایا ہے۔ اس نے کسی پر جبر نہیں کیا۔ اگر وہ جبر کرتا تو کوئی شخص بھی کفر ومعصیت کا راستہ اختیار کرنے پر قادر ہی نہ ہوتا۔ لیکن اس طرح انسان کی آزمائش ممکن نہیں تھی، جب کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت انسان کو آزمانا تھا۔ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلا (سورة الملك:2) بنا بریں جس طرح کافر کا خالق اللہ ہے، کفر کا خالق بھی اللہ ہے لیکن یہ کفر اس کافر کا عمل وکسب ہے جس نے اسے اپنے ارادے سے اختیار کیا ہے۔ اسی طرح مومن اور ایمان کا خالق بھی اللہ ہے لیکن ایمان اس مومن کا کسب وعمل ہے جس نے اسے اختیار کیا ہے اور اس کسب وعمل پر دونوں کو ان کے عملوں کے مطابق جزا ملے گی، کیونکہ وہ سب کے عمل دیکھ رہا ہے۔
____________________
* اور وہ عدل وحکمت یہی ہے کہ محسن کو اس کے احسان کی اور بدکار کو اس کی بدی کی جزا دے، چنانچہ وہ اس عدل کا مکمل اہتمام قیامت والے دن فرمائے گا۔
**- تمہاری شکل وصورت، قد وقامت اور خد وخال نہایت خوب صورت بنائے، جس سے اللہ کی دوسری مخلوق محروم ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا، «يَا أَيُّهَا الإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ، الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ، فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ» (سورة الانفطار:6- 8) «وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ» (سورۂ مومن: 64)۔
***- کسی اور کی طرف نہیں، کہ اللہ کے محاسبے اور مواخذے سے بچاؤ ہو جائے۔
____________________
* یعنی اس کا علم کائنات ارضی وسماوی سب پر محیط ہے بلکہ تمہارے سینوں کے رازوں تک سے وہ واقف ہے۔ اس سے قبل جو وعدے اور وعیدیں بیان ہوئی ہیں، یہ ان کی تاکید ہے۔
____________________
* یہ اہل مکہ سے بالخصوص اور کفار عرب سے بالعموم خطاب ہے۔ اور ماقبل کافروں سے مراد قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود وغیرہ ہیں۔ جنہیں ان کے کفر ومعصیت کی وجہ سے دنیا میں عذاب سے دو چار کرکے تباہ وبرباد کر دیا گیا۔
**- یعنی دنیوی عذاب کے علاوہ آخرت میں۔
____________________
* ذَلِكَ، یہ اشارہ ہے اس عذاب کی طرف، جو دنیا میں انہیں ملا اور آخرت میں بھی انہیں ملے گا۔
**- یہ ان کے کفر کی علت ہے کہ انہوں نے یہ کفر، جو ان کے عذاب دارین کا باعث بنا، اس لیے اختیار کیا کہ انہوں نے ایک بشر کو اپنا ہادی ماننے سے انکار کر دیا۔ یعنی ایک انسان کا رسول بن کر لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کے لیے آنا، ان کے لیے ناقابل قبول تھا جیسا کہ آج بھی اہل بدعت کے لیے رسول کو بشر ماننا نہایت گراں ہے۔ هَدَاهُمُ اللهُ تَعَالَى۔
***- چنانچہ اس بنا پر انہوں نے رسولوں کو رسول ماننے سے اور ان پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔
****- یعنی ان سے اعراض کیا اور جو دعوت وہ پیش کرتے تھے، اس پر انہوں نے غور وتدبر ہی نہیں کیا۔
*****- یعنی ان کے ایمان اور ان کی عبادت سے۔
******- اس کو کسی کی عبادت سے کیا فائدہ اور اس کی عبادت سے انکار کرنے سے کیا نقصان؟
*******- یا محمود ہے (تعریف کیا گیا) تمام مخلوقات کی طرف سے۔ یعنی ہر مخلوق زبان حال وقال سے اس کی حمد وتعریف میں رطب اللسان ہے۔
____________________
* یعنی یہ عقیدہ کہ قیامت والے دن دوبارہ زندہ نہیں کیے جائیں گے، یہ کافروں کا محض گمان ہے، جس کی پشت پر دلیل کوئی نہیں۔ زعم کا اطلاق کذب پر بھی ہوتا ہے۔
**- قرآن مجید میں تین مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے رب کی قسم کھا کر یہ اعلان کرے کہ اللہ تعالیٰ ضرور دوبارہ زندہ فرمائے گا۔ ان میں سے ایک یہ مقام ہے اس سے قبل ایک مقام سورۂ یونس، آیت 53 اور دوسرا مقام سورۂ سبا، آیت 3 ہے۔
***- یہ وقوع قیامت کی حکمت ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو کیوں دوبارہ زندہ کرےگا؟ اس لیے تاکہ وہاں ہر ایک کو اس کے عمل کی پوری جزا دی جائے۔ کیونکہ دنیا میں ہم دیکھتے کہ یہ جزا مکمل شکل میں بالعموم نہیں ملتی۔ نیک کو نہ بد کو۔ اب اگر قیامت والے دن بھی مکمل جزا کا اہتمام نہ ہو تو دنیا ایک کھلنڈرے کا کھیل اور فعل عبث ہی قرار پائے گی، جب کہ اللہ کی ذات ایسی باتوں سے بہت بلند ہے۔ اس کا تو کوئی فعل عبث نہیں، چہ جائیکہ جن وانس کی تخلیق کو بےمقصد اور ایک کھیل سمجھ لیا جائے۔ تَعَالَى اللهُ عَنْ ذَلِكَ عُلُوًّا كَبِيرًا۔
****- یہ دوبارہ زندگی، انسانوں کو کتنی ہی مشکل یا مستبعد نظر آتی ہو، لیکن اللہ کے لیے بالکل آسان ہے۔
____________________
* فَآمِنُوا میں فافصیحہ ہے جو شرط مقدر پر دلالت کرتی ہے۔ أَيْ: إِذَا كَانَ الأَمْرُ هَكَذَا فَصَدِّقُوا بِاللهِ یعنی جب معاملہ اس طرح ہے جو بیان ہوا، تو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اس کی تصدیق کرو۔
**- آپ (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ نازل ہونے والا یہ نور قرآن مجید ہے جس سے گمراہی کی تاریکیاں چھٹتی ہیں اور ایمان کی روشنی پھیلتی ہے۔
____________________
*- قیامت کو یوم الجمع اس لیے کہا کہ اس دن اول وآخر سب ایک ہی میدان میں جمع ہوں گے۔ فرشتہ پکارﮮ گا تو سب اس کی آواز سنیں گے، ہر ایک کی نگاہ آخر تک پہنچ جائے گی، کیونکہ درمیان میں کوئی چیز حائل نہ ہوگی۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: «ذَلِكَ يَوْمٌ مَجْمُوعٌ لَهُ النَّاسُ وَذَلِكَ يَوْمٌ مَشْهُودٌ» (هود: 103) ”وہ دن جس میں سب لوگ جمع کیے جائیں گے اور وہ، وہ دن ہے جس میں سب حاضر کیے جائیں گے“۔ «قُلْ إِنَّ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ * لَمَجْمُوعُونَ إِلَى مِيقَاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ» (الواقعة: 49-50)۔
**- یعنی ایک گروہ جیت جائے گا اور ایک ہار جائے گا، اہل حق اہل باطل پر، ایمان والے اہل کفر پر اور اہل طاعت اہل معصیت پر جیت جائیں گے، سب سے بڑی جیت اہل ایمان کو یہ حاصل ہوگی کہ وہ جنت میں داخل ہو جائیں گے اور وہاں ان گھروں کے بھی وہ مالک بن جائیں گے جو جہنمیوں کے لیے تھے۔ اگر وہ جہنم میں جانے والے کام نہ کرتے۔ اور سب سے بڑی ہار جہنمیوں کے حصے میں آئے گی جو جہنم میں داخل ہوں گے، جنہوں نے خیر کو شر سے، عمدہ چیز کو ردی سے اور نعمتوں کو عذاب سے بدل لیا۔ غبن کے معنی نقصان اور خسارے کے بھی ہیں، یعنی نقصان کا دن۔ اس دن کافروں کو تو خسارے کا احساس ہوگا ہی۔ اہل ایمان کو بھی اس اعتبار سے خسارے کا احساس ہوگا کہ انہوں نے اور زیادہ نیکیاں کرکے مزید درجات کیوں نہ حاصل کیے۔
____________________
* یعنی اس کی تقدیر اور مشیت سے ہی اس کا ظہور ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں اس کے نزول کا سبب کفار کا یہ قول ہے۔ کہ اگر مسلمان حق پر ہوتے تو دنیا کی مصیبتیں انہیں نہ پہنچتیں۔ (فتح القدیر)۔
**- یعنی وہ جان لیتا ہے کہ اسے جو کچھ پہنچا ہے۔ اللہ کی مشیت اور اس کے حکم سے ہی پہنچا ہے، پس وہ صبر اور رضا بالقضا کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ابن عباس (رضي الله عنه) ما فرماتے ہیں، اس کے دل میں یقین راسخ کر دیتا ہے جس سے وہ جان لیتا ہے کہ اس کو پہنچنے والی چیز اس سے چوک نہیں سکتی اور جو اس سے چوک جانے والی ہے، وہ اسے پہنچ نہیں سکتی۔ (ابن کثیر)۔
____________________
* یعنی ہمارے رسول کا اس سے کچھ نہیں بگڑے گا، کیونکہ اس کا کام صرف تبلیغ ہے۔ امام زہری فرماتے ہیں، اللہ کا کام رسول بھیجنا ہے، رسول کا کام تبلیغ اور لوگوں کا کام تسلیم کرنا ہے۔ (فتح القدیر)۔
____________________
* یعنی تمام معاملات اسی کو سونپیں، اسی پر اعتماد کریں اور صرف اسی سے دعا والتجا کریں، کیونکہ اس کے سوا کوئی حاجت روا اور مشکل کشا ہے ہی نہیں۔
____________________
* یعنی جو تمہیں عمل صالح اور اطاعت الٰہی سے روکیں، سمجھ لو وہ تمہارے خیر خواہ نہیں، دشمن ہیں۔
**- یعنی ان کے پیچھے لگنے سے بچو۔ بلکہ انہیں اپنے پیچھے لگاؤ تاکہ وہ بھی اطاعت الٰہی اختیار کریں، نہ کہ تم ان کے پیچھے لگ کر اپنی عاقبت خراب کرلو۔
***- اس کا سبب نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ مکے میں مسلمان ہونے والے بعض مسلمانوں نے مکہ چھوڑ کر مدینہ آنے کا ارادہ کیا، جیسا کہ اس وقت ہجرت کا حکم نہایت تاکید کے ساتھ دیا گیا تھا۔ لیکن ان کے بیوی بچے آڑے آگئے اور انہوں نے انہیں ہجرت نہیں کرنے دی۔ پھر بعد میں جب وہ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے پاس آ گئے تو دیکھا کہ ان سے پہلے آنے والوں نے دین میں بہت زیادہ سمجھ حاصل کرلی ہے تو انہیں اپنے بیوی بچوں پر غصہ آیا، جنہوں نے انہیں ہجرت سے روکے رکھا تھا، چنانچہ انہوں نے ان کو سزا دینے کا ارادہ کیا۔ اللہ نے اس میں انہیں معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کی تلقین فرمائی۔ (سنن الترمذي، تفسير سورة التغابن)۔
____________________
* جو تمہیں کسب حرام پر اکساتے اور اللہ کے حقوق ادا کرنے سے روکتے ہیں، پس اس آزمائش میں تم اسی وقت سرخ رو ہوسکتے ہو، جب تم اللہ کی معصیت میں ان کی اطاعت نہ کرو۔ مطلب یہ ہوا کہ مال واولاد جہاں اللہ کی نعمت ہیں، وہاں یہ انسان کی آزمائش کا ذریعہ بھی ہیں۔ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ میرا اطاعت گزار کون ہے اور نافرمان کون؟
**- یعنی اس شخص کے لیے جو مال واولاد کی محبت کے مقابلے میں اللہ کی اطاعت کو ترجیح دیتا ہے اور اس کی معصیت سے اجتناب کرتا ہے۔
____________________
* یعنی اللہ اور رسول (صلى الله عليه وسلم) کی باتوں کو توجہ اور غور سے سنو اور ان پر عمل کرو۔ اس لیے کہ صرف سن لینا بے فائدہ ہے، جب تک عمل نہ ہو۔
**- خَيْرًا أَيْ: إِنْفَاقًا خَيْرًا، يَكُن الإِنْفَاقُ خَيْرًا انفاق عام ہے، صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں کو شامل ہے۔
____________________
* یعنی اخلاص نیت اور طیب نفس کے ساتھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے۔
**- یعنی کئی کئی گنا بڑھانے کے ساتھ وہ تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا۔
***- وہ اپنے اطاعت گزاروں کو أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً اجر وثواب سے نوازتا ہے اور معصیت کاروں کا فوری مواخذہ نہیں فرماتا۔