ﰡ
____________________
* جو دنیا کی فصیح ترین زبان ہے، دوسرے، اس کے اولین مخاطب بھی عرب تھے، انہی کی زبان میں قرآن اتارا تاکہ وہ سمجھنا چاہیں تو آسانی سے سمجھ سکیں۔
____________________
* اس میں قرآن کریم کی اس عظمت اور شرف کا بیان ہے جو ملا اعلیٰ میں اسے حاصل ہے تاکہ اہل زمین بھی اس کے شرف وعظمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کو قرار واقعی اہمیت دیں اور اس سے ہدایت کا وہ مقصد حاصل کریں جس کے لیے اسے دنیا میں اتارا گیا ہے أُمُّ الْكِتَابِ سے مراد لوح محفوظ ہے۔
____________________
* اس کے مختلف معنی کیے گئے ہیں مثلاً 1۔ تم چونکہ گناہوں میں بہت منہمک اور ان پر مصر ہو، اس لیے کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم تمہیں وعظ ونصیحت کرنا چھوڑ دیں گے؟ 2۔ یا تمہارے کفر اور اسراف پر ہم تمہیں کچھ نہ کہیں گے اور تم سے درگزر کرلیں گے۔ 3۔ یا ہم تمہیں ہلاک کردیں اور کسی چیز کا تمہیں حکم دیں نہ منع کریں۔ 4۔ چونکہ تم قرآن پر ایمان لانے والے نہیں ہو، اس لیے ہم انزال قرآن کا سلسلہ ہی بند کردیں۔ پہلے مفہوم کو امام طبری نے اور آخری مفہوم کو امام ابن کثیر نے زیادہ پسند کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اللہ کا لطف وکرم ہے کہ اس نے خیر اور ذکر حکیم (قرآن) کی طرف دعوت دینے کا سلسلہ موقوف نہیں فرمایا، اگرچہ وہ اعراض وانکار میں حد سے تجاوز کررہے تھے، تاکہ جس کے لیے ہدایت مقدر ہے وہ اس کے ذریعے سے ہدایت اپنا لے اور جن کے لیے شقاوت لکھی جاچکی ہے ان پر حجت قائم ہوجائے۔
____________________
* یعنی اہل مکہ سے زیادہ زور آور تھے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا كَانُوا أَكْثَرَ مِنْهُمْ وَأَشَدَّ قُوَّةً (المؤمن: 82) ”وہ ان سے تعداد اور قوت میں کہیں زیادہ تھے“۔
**- یعنی قرآن مجید میں ان قوموں کا تذکرہ یا وصف متعدد مرتبہ گزر چکا ہے۔ اس میں اہل مکہ کے لیے تہدید ہے کہ پچھلی قومیں رسولوں کی تکذیب کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔ اگریہ بھی تکذیب رسالت پر مصر رہے تو ان کی مثل یہ بھی ہلاک کردیے جائیں گے۔
____________________
* لیکن اس اعتراف کے باوجود انہی مخلوقات میں سے بہت سوں کو ان نادانوں نے اللہ کا شریک ٹھہرالیا ہے۔ اس میں ان کے جرم کی شناعت وقباحت کا بھی بیان ہے اور ان کی سفاہت وجہالت کا اظہار بھی۔
____________________
* ایسا بچھونا، جس میں ثبات وقرار ہے، تم اس پر چلتے ہو، کھڑے ہوتے اور سوتے ہو اور جہاں چاہتے ہو، پھرتے ہو، اس نے اس کو پہاڑوں کے ذریعے سے جمادیا تاکہ اس میں حرکت وجنبش نہ ہو۔
**- یعنی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لیے راستے بنادیئے تاکہ کاروباری، تجارتی اور دیگر مقاصد کے لیے تم آجاسکو۔
____________________
* جس سے تمہاری ضرورت پوری ہوسکے، کیونکہ قدر حاجت سے کم بارش ہوتی تو وہ تمہارے لیے مفید ثابت نہ ہوتی اور زیادہ ہوتی تو وہ طوفان بن جاتی، جس میں تمہارے ڈوبنے اور ہلاک ہونے کا خطرہ ہوتا۔
**- یعنی جس طرح بارش سے مردہ زمین شاداب ہوجاتی ہے، اسی طرح قیامت والے دن تمہیں بھی زندہ کرکے قبروں سے نکال لیا جائے گا۔
____________________
* یعنی ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا، نر اور مادہ، نباتات، کھیتیاں، پھل، پھول اور حیوانات سب میں نر اور مادہ کا سلسلہ ہے۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد ایک دوسرے کی مخالف چیزیں ہیں جیسے روشنی اور اندھیرا، مرض اور صحت، انصاف اور ظلم، خیر اور شر، ایمان اور کفر، نرمی اور سختی وغیرہ۔ بعض کہتے ہیں ازواج، اصناف کے معنی میں ہے۔ تمام انواع و اقسام کا خالق اللہ ہے۔
____________________
* لِتَسْتَوُوا بِمَعْنَى لِتَسْتَقِرُّوا یا لِتَسْتَعْلُوا جم کر بیٹھ جاو یا چڑھ جاؤ۔ ظُهُورِهِ میں ضمیر واحد باعتبار جنس کے ہے۔
**- یعنی اگر ان جانوروں کو ہمارے تابع اور ہمارے بس میں نہ کرتا تو ہم انہیں اپنے قابو میں رکھ کر ان کو سواری، بار برداری اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرسکتے تھے، مُقْرِنِينَ بمعنی مُطِيقِينَ ہے۔
____________________
* نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) جب سواری پر سوار ہوتے تو تین مرتبہ اللهُ أَكْبَرُ کہتے اور سُبْحَانَ الَّذِي... سے لَمُنْقَلِبُونَ تک آیت پڑھتے۔ علاوہ ازیں خیروعافیت کی دعا مانگتے، جو دعاؤں کی کتابوں میں دیکھ لی جائے (صحيح مسلم، كتاب الحج، باب ما يقول إذا ركب)۔
____________________
* عِبَادٌ سے مراد فرشتے اور جُزْءٌ سے مراد بیٹیاں یعنی فرشتے، جن کو مشرکین اللہ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کی عبادت کرتے تھے۔ یوں وہ مخلوق کو اللہ کا شریک اور اس کا جزء مانتے تھے، حالانکہ وہ ان چیزوں سے پاک ہے۔ بعض نے جزء سے یہاں نذر نیاز کے طور پر نکالے جانے والے وہ جانور مراد لیے ہیں جن کا ایک حصہ مشرکین اللہ کے نام پر اور ایک حصہ بتوں کے نام پر نکالا کرتے تھے جس کا ذکر سورۃ الانعام: 136 میں ہے۔
____________________
* اس میں ان کی جہالت اور سفاہت کا بیان ہے جو انہوں نے اللہ کے لیے اولاد بھی ٹھہرائی ہوئی ہے جسے یہ خود ناپسند کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کی اولاد ہوتی تو کیا ایسا ہی ہوتا کہ خود تو اس کی لڑکیاں ہوتیں اور تمہیں وہ لڑکوں سے نوازتا۔
____________________
* يُنَشَّؤُا نُشُوءٌ سے ہے، بمعنی تربیت اور نشوونما۔ عورتوں کی دو صفات کا تذکرہ بطور خاص یہاں کیا گیا ہے۔ 1۔ ان کی تربیت اور نشوونما زیورات اور زینت میں ہوتی ہے، یعنی شعور کی آنکھیں کھولتے ہی ان کی توجہ حسن افزا اور جمال افروز چیزوں کی طرف ہوجاتی ہے۔ مقصد اس وضاحت سے یہ ہے کہ جن کی حالت یہ ہے، وہ تو اپنے ذاتی معاملات کے درست کرنے کی بھی استعداد وصلاحیت نہیں رکھتیں۔ 2۔ اگر کسی سے بحث وتکرار ہو تو وہ اپنی بات بھی صحیح طریقے سے (فطری حجاب کی وجہ سے) واضح نہیں کرسکتیں نہ فریق مخالف کے دلائل کا توڑ ہی کرسکتی ہیں۔ یہ عورت کی وہ دو فطری کمزوریا ں ہیں جن کی بنا پر مرد حضرات عورتوں پر ایک گونہ فضیلت رکھتے ہیں۔ سیاق سے بھی مرد کی یہ برتری واضح ہے، کیوں کہ گفتگو اسی ضمن میں یعنی مرد و عورت کے درمیان جو فطری تفاوت ہے، جس کی بنا پر بچی کے مقابلے میں بچے کی ولادت کو زیادہ پسند کیا جاتا تھا، ہو رہی ہے۔
____________________
* یعنی جزا کے لیے۔ کیونکہ فرشتوں کے بنات اللہ ہونے کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہوگی۔
____________________
* یعنی اپنے طور پر اللہ کی مشیت کا سہارا، یہ ان کی ایک بڑی دلیل ہے کیونکہ ظاہراً یہ بات صحیح ہے کہ اللہ کی مشیت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، نہ ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ اس کی مشیت، اس کی رضا سے مختلف چیز ہے۔ ہر کام یقیناً اس کی مشیت ہی سے ہوتا ہے لیکن راضی وہ انہی کاموں سے ہوتا ہے جن کا اس نے حکم دیا ہے نہ کہ ہر اس کام سے جو انسان اللہ کی مشیت سے کرتا ہے، انسان چوری، بدکاری، ظلم اور بڑے بڑے گناہ کرتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کسی کو یہ گناہ کرنے کی قدرت ہی نہ دے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لے، اس کے قدموں کو روک دے اس کی نظر سلب کرلے۔ لیکن یہ جبر کی صورتیں ہیں جب کہ اس نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے تاکہ اسے آزمایا جائے، اسی لیے اس نے دونوں قسم کے کاموں کی وضاحت کردی ہے، جن سے وہ راضی ہوتا ہے ان کی بھی اور جن سے ناراض ہوتا ہے، ان کی بھی۔ انسان دونوں قسم کے کاموں میں سے جو کام بھی کرے گا، اللہ اس کا ہاتھ نہیں پکڑے گا، لیکن اگر وہ کام جرم ومعصیت کا ہوگا تو یقیناً وہ اس سے ناراض ہوگا کہ اس نے اللہ کے دیئے ہوئے اختیار کا استعمال غلط کیا۔ تاہم یہ اختیار اللہ دنیا میں اس سے واپس نہیں لے گا، البتہ اس کی سزا قیامت والے دن دے گا۔
____________________
* یعنی قرآن سے پہلے کوئی کتاب، جس میں ان کو غیراللہ کی عبادت کرنے کا اختیار دیا گیا ہے جسے انہوں نے مضبوطی سے تھام رکھا ہے؟ یعنی ایسا نہیں ہے بلکہ تقلید آبا کے سوا ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔
____________________
* یعنی اپنے آبا کی تقلید میں اتنے پختہ تھے کہ پیغمبر کی وضاحت اور دلیل بھی انہیں اس سے نہیں پھیر سکی۔ یہ آیت اندھی تقلید کے بطلان اور اس کی قباحت پر بہت بڑی دلیل ہے (تفصیل کے لیے دیکھئے فتح القدیر، للشوکانی)۔
____________________
* یعنی جس نے مجھے پیدا کیا ہے وہ مجھے اپنے دین کی سمجھ بھی دے اور اس پر ثابت قدم بھی رکھے گا، میں صرف اسی کی عبادت کروں گا۔
____________________
* یعنی اس کلمۂ لا إِلَهَ إِلا الله ُ کی وصیت اپنی اولاد کو کر گئے۔ جیسے فرمایا وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ (البقرة: 132) بعض نے جَعَلَهَا میں فاعل اللہ کو قرار دیا ہے۔ یعنی اللہ نے اس کلمے کو ابراہیم (عليه السلام) کے بعد ان کی اولاد میں باقی رکھا اور وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے رہے۔
**- یعنی اولاد ابراہیم میں یہ موحدین اس لیے پیدا کیے تاکہ ان کے توحید کے وعظ سے لوگ شرک سے باز آتے رہیں۔ لَعَلَّهُمْ میں ضمیر کا مرجع اہل مکہ ہیں یعنی شاید اہل مکہ اس دین کی طرف لوٹ آئیں جو حضرت ابراہیم (عليه السلام) کا دین تھا جو خالص توحید پر مبنی تھا نہ کہ شرک پر۔
____________________
* یہاں سے پھر ان نعمتوں کا ذکر ہو رہا ہے جو اللہ نے انہیں عطا کی تھیں اور نعمتوں کے بعد عذاب میں جلدی نہیں کی بلکہ انہیں پوری مہلت دی، جس سے وہ دھوکے میں مبتلا ہوگئے اور خواہشات کے بندے بن گئے۔
**- حق سے قرآن اور رسول سے حضرت محمد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) مراد ہیں۔ مُبِينٌ رسول کی صفت ہے، کھول کر بیان کرنے والا یا جن کی رسالت واضح اور ظاہر ہے، اس میں کوئی اشتباہ اور خفا نہیں۔
____________________
* قرآن کو جادو قرار دے کر اس کا انکار کردیا، اور اگلے الفاظ میں حضرت نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی تحقیر وتنقیص کی۔
____________________
* دونوں بستیوں سے مراد مکہ اور طائف ہے اور بڑے آدمی سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک مکے کا ولید بن مغیرہ اور طائف کا عروہ بن مسعود ثقفی ہے۔ بعض نے کچھ اور لوگوں کے نام ذکر کیے ہیں تاہم مقصد اس سے ایسے آدمی کا انتخاب ہے جو پہلے سے ہی عظیم جاہ ومنصب کا حامل، کثیر المال اور اپنی قوم میں مانا ہوا ہو، یعنی قرآن اگر نازل ہوتا تو دونوں بستیوں میں سے کسی ایسی ہی شخصیت پر نازل ہوتا نہ کہ محمد (صلى الله عليه وسلم) پر، جن کا دامن دولت دنیا سے بھی خالی ہے، اور اپنی قوم میں قیادت وسیادت کے منصب پر بھی فائز نہیں ہیں۔
____________________
* رحمت، نعمت کے معنی میں ہے، اور یہاں سب سے بڑی نعمت، نبوت، مراد ہے۔ استفہام انکار کے لیے ہے۔ یعنی یہ کام ان کا نہیں ہے کہ رب کی نعمتیں بالخصوص نعمت نبوت یہ اپنی مرضی سے تقسیم کریں، بلکہ یہ صرف رب کا کام ہے کیونکہ وہی ہر بات کا علم اور ہر شخص کے حالات سے پوری واقفیت رکھتا ہے، وہی بہتر سمجھتا ہے کہ انسانوں میں سے نبوت کا تاج کس کے سر پر رکھنا ہے اور اپنی وحی ورسالت سے کس کو نوازنا ہے۔
**- یعنی مال ودولت، جاہ ومنصب اور عقل وفہم میں ہم نے یہ فرق وتفاوت اس لیے رکھا ہے تاکہ زیادہ مال والا، کم مال والے سے، اونچے منصب والا چھوٹے منصب داروں سے، اور عقل وفہم میں حظ وافر رکھنے والا، اپنے سے کم تر عقل وشعور رکھنے والے سے کام لے سکے۔ اللہ تعالیٰ کی اس حکمت بالغہ سے کائنات کا نظام بحسن وخوبی چل رہا ہے۔ ورنہ اگر سب مال میں، منصب میں، علم وفہم میں، عقل وشعور میں اور دیگر اسباب دنیا میں برابر ہوتے تو کوئی کسی کا کام کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا، اسی طرح کم تر اور حقیر سمجھے جانے والے کام بھی کوئی نہ کرتا۔ یہ احتیاج انسانی ہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرق وتفاوت کے اندر رکھ دی ہے جس کی وجہ سے ہر انسان دوسرے انسان بلکہ انسانوں کا محتاج ہے، تمام حاجات وضروریات انسانی، کوئی ایک شخص، چاہے وہ ارب پتی ہی کیوں نہ ہو، دیگر انسانوں کی مدد حاصل کیے بغیر خود فراہم کر ہی نہیں سکتا۔
***- اس رحمت سے مراد آخرت کی وہ نعمتیں ہیں جو اللہ نے اپنے نیک بندوں کے لیے تیار کر رکھی ہیں۔
____________________
* یعنی دنیا کے مال و اسباب میں رغبت کرنے کی وجہ سے طالب دنیا ہی ہوجائیں گے اور رضائے الٰہی اور آخرت کی طلب سب فراموش کردیں گے۔
____________________
* یعنی بعض چیزیں چاندی کی اور بعض سونے کی، کیونکہ تنوع میں حسن زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا کا مال ہماری نظر میں اتنا بے وقعت ہے کہ اگر مذکورہ خطرہ نہ ہوتا تو اللہ کے سب منکروں کو خوب دولت دی جاتی لیکن اس میں خطرہ یہی تھا کہ پھر سب لوگ ہی دنیا کے پرستار نہ بن جائیں۔ دنیا کی حقارت اس حدیث سے بھی واضح ہے جس میں فرمایا گیا ہے۔ ”لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَزِنُ عِنْدَ اللهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى مِنْهَا كَافِرًا شُرْبَةَ مَاءٍ“ (ترمذي، ابن ماجه، كتاب الزهد ) ”اگر دنیا کی اللہ کے ہاں اتنی حیثیت بھی ہوتی جتنی ایک مچھر کے پر کی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو اس دنیا سے ایک گھونٹ پانی بھی پینے کو نہ دیتا“۔
**- جو شرک و معاصی سے اجتناب اور اللہ کی اطاعت کرتے رہے، ان کے لیے آخرت اور جنت کی نعمتیں ہیں جن کو زوال وفنا نہیں۔
____________________
* عَشَا يَعْشُو کے معنی ہیں آنکھوں کی بیماری رتوندیا اس کی وجہ سے جو اندھا پن ہوتا ہے۔ یعنی جو اللہ کے ذکر سے اندھا ہوجائے۔
**- وہ شیطان، اللہ کی یاد سے غافل رہنے والے کا ساتھی بن جاتا ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا اور نیکیوں سے روکتا ہے۔ یا انسان خود اسی شیطان کا ساتھی بن جاتا ہے اوراس سے جدا نہیں ہوتا بلکہ تمام معاملات میں اسی کی پیروی اور اس کے تمام وسوسوں میں اس کی اطاعت کرتا ہے۔
____________________
* یعنی وہ شیطان ان کے حق کے راستے کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں اور اس سے انہیں روکتے ہیں اور انہیں برابر سمجھاتے رہتے ہیں کہ تم حق پر ہو، حتیٰ کہ وہ واقعی اپنے بارے میں یہی گمان کرنے لگ جاتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں۔ یا کافر شیطانوں کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہیں اور ان کی اطاعت کرتے رہتے ہیں۔ (فتح القدیر)۔
____________________
* مَشْرِقَيْنِ (تثنیہ ہے) مراد مشرق اور مغرب ہیں۔ فَبِئْسَ الْقَرِينُ کا مخصوص بالذم محذوف ہے۔ أَنْتَ أَيُّهَا الشَّيْطَانُ! اے شیطان تو بہت برا ساتھی ہے۔ یہ کافر قیامت والے دن کہے گا۔ لیکن اس دن اس اعتراف کا کیا فائدہ؟
____________________
* یعنی جس کے لیے شقاوت ابدی لکھ دی گئی ہے، وہ وعظ ونصیحت کے اعتبار سے بہرہ اور اندھا ہے، تیری دعوت وتبلیغ سے وہ راہ راست پر نہیں آسکتا۔ یہ استفہام انکاری ہے۔ جس طرح بہرہ سننے سے، نابینا دیکھنے سے محروم ہے، اسی طرح کھلی گمراہی میں مبتلا حق کی طرف آنے سے محروم ہے۔ یہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کو تسلی ہے تاکہ ایسے لوگوں کے کفر سے آپ زیادہ تشویش محسوس نہ کریں۔
____________________
* یعنی تجھے موت آجائے، قبل اس کے کہ ان پر عذاب آئے، یا تجھے مکے سے نکال لے جائیں۔
**- دنیا میں ہی، اگر ہماری مشیت متقاضی ہوئی، بصورت دیگر عذاب اخروی سے تو وہ کسی صورت نہیں بچ سکتے۔
____________________
* یعنی تیری موت سے قبل ہی، یا مکے میں ہی تیرے رہتے ہوئے ان پر عذاب بھیج دیں۔
**- یعنی ہم جب چاہیں ان پر عذاب نازل کرسکتے ہیں، کیونکہ ہم ان پر قادر ہیں۔ چنانچہ آپ کی زندگی میں ہی بدر کی جنگ میں کافر عبرت ناک شکست، اور ذلت سے دوچار ہوئے۔
____________________
* یعنی قرآن کریم کو، چاہے کوئی بھی اسے جھٹلاتا رہے۔
**- یہ فَاسْتَمْسِكْ کی علت ہے۔
____________________
* اس تخصیص کا یہ مطلب نہیں کہ دوسروں کے لیے نصیحت نہیں۔ بلکہ اولین مخاطب چونکہ قریش تھے، اس لیے ان کا ذکر فرمایا، ورنہ قرآن تو پورے جہان کے لیے نصیحت ہے۔ وَمَا هُوَ إِلا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ (سورة القلم :52) جیسے آپ کو حکم دیا گیا کہ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ (الشعراء: 214) (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کا پیغام صرف رشتے داروں کو ہی پہنچانا ہے۔ بلکہ مطلب ہے تبلیغ کی ابتدا اپنے ہی خاندان سے کریں بعض نے یہاں ذکر بمعنی شرف لیا ہے۔ یعنی یہ قرآن تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے شرف وعزت کا باعث ہے کہ یہ ان کی زبان میں اترا، اس کو وہ سب سے زیادہ سمجھنے والے ہیں اور اس کے ذریعے سے وہ پوری دنیا پر فضل وبرتری پاسکتے ہیں، اس لیے ان کو چاہیئے کہ اس کو اپنائیں اور اس کے مقتضا پر سب سے زیادہ عمل کریں۔
____________________
* پیغمبروں سے یہ سوال یا تو اسرار و معراج کے موقعے پر، بیت المقدس یا آسمان پر کیا گیا، جہاں انبیا علیہم السلام سے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی ملاقاتیں ہوئیں۔ یا أَتْبَاعَ کا لفظ محذوف ہے۔ یعنی ان کے پیروکاروں (اہل کتاب، یہود ونصاریٰ) سے پوچھو، کیونکہ وہ ان کی تعلیمات سے آگاہ ہیں اور ان پر نازل شدہ کتابیں ان کے پاس موجود ہیں۔
**- جواب یقیناً نفی میں ہے۔ اللہ نے کسی بھی نبی کو یہ حکم نہیں دیا۔ بلکہ اس کے برعکس ہر نبی کی دعوت توحید ہی کا حکم دیا گیا۔
____________________
* قریش مکہ نے کہا تھا کہ اگر اللہ کسی کو نبی بناکر بھیجتا ہی تو مکے اور طائف کے کسی ایسے شخص کو بھیجتا جو صاحب مال وجاہ ہوتا۔ جیسے فرعون نے بھی حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے مقابلے میں کہا تھا کہ میں موسیٰ سے بہتر ہوں (اور یہ مجھ سے کمتر ہے، یہ تو صاف بول بھی نہیں سکتا) جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ غالباً اسی مشابہت احوال کی وجہ سے یہاں حضرت موسیٰ (عليه السلام) وفرعون کا قصہ دہرایا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں حضرت نبی کریم (عليه السلام) کے لیے بھی تسلی کا پہلو ہے کہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) کو بھی بہت سی آزمائشوں سے گزرنا پڑا، انہوں نے صبر اور عزم سے کام لیا، اسی طرح آپ بھی کفار مکہ کی ایذاؤں اور ناروا رویوں سے دل برداشتہ نہ ہوں، صبر اور حوصلے سے کام لیں۔ حضرت موسیٰ (عليه السلام) ہی کی طرح بالآخر فتح وکامرانی آپ ہی کی ہے اور یہ اہل مکہ فرعون ہی کی طرح ناکام ونامراد ہوں گے۔
____________________
* یعنی جب حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دعوت توحید دی تو انہوں نے ان کے رسول ہونے کی دلیل طلب کی، جس پر انہوں نے وہ دلائل ومعجزات پیش کیے جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے تھے۔ جنہیں دیکھ کر انہوں نے استہزا اور مذاق کیا اور کہا کہ یہ کون سی ایسی چیزیں ہیں۔ یہ تو جادو کے ذریعے ہم بھی پیش کرسکتے ہیں۔
____________________
* ان نشانیوں سے وہ نشانیاں مراد ہیں جو طوفان ٹڈی دل، جوئیں، مینڈک اور خون وغیرہ کی شکل میں یکے بعد دیگرے انہیں دکھائی گئیں، جن کا تذکرہ سورۂ اعراف، آیات 133۔ 135 میں گزر چکا ہے۔ بعد میں آنے والی ہر نشانی پہلی نشانی سے بڑی چڑھی ہوتی، جس سے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی صداقت واضح سے واضح تر ہوجاتی۔
**- مقصد ان نشانیوں یا عذاب سے یہ ہوتا تھا کہ شاید وہ تکذیب سے باز آجائیں۔
____________________
* کہتے ہیں اس زمانے میں جادو مذموم چیز نہیں تھی اور عالم فاضل شخص کو جادوگر کے لفظ سے ہی بطور تعظیم خطاب کیا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں معجزات اور نشانیوں کے بارے میں بھی ان کا خیال تھا کہ یہ موسیٰ (عليه السلام) کے فن جادوگری کا کمال ہے۔ اس لیے انہوں نے موسیٰ کو جادوگر کے لفظ سے مخاطب کیا۔
**- (اپنے رب سے) کے الفاظ اپنی مشرکانہ ذہنیت کی وجہ سے کہے کیونکہ مشرکوں میں مختلف رب اور الٰہ ہوتے تھے، موسیٰ (صلى الله عليه وسلم) اپنے رب سے یہ کام کر والو !
***- یعنی ہمارے ایمان لانے پر عذاب ٹالنے کا وعدہ۔
****- اگر یہ عذاب ٹل گیا تو ہم تجھے اللہ کا سچا رسول مان لیں گے اور تیرے ہی رب کی عبادت کریں گے۔ لیکن ہر دفعہ وہ اپنا یہ عہد توڑ دیتے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے اور سورۂ اعراف میں بھی گزرا۔
____________________
* جب حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے ایسی کئی نشانیاں پیش کردیں جو ایک سے بڑھ کر ایک تھیں تو فرعون کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں میری قوم موسیٰ کی طرف مائل نہ ہوجائے۔ چنانچہ اس نے اپنی ہزیمت کے داغ کو چھپانے اور قوم کو مسلسل دھوکے اور فریب میں مبتلا رکھنے کے لیے یہ نئی چال چلی کہ اپنے اختیار واقتدار کے حوالے سے موسیٰ (عليه السلام) کی بےتوقیری اور کمتری کو نمایاں کیا جائے تاکہ قوم میری سلطنت وسطوت سے ہی مرعوب رہے۔
**- اس سے مراد دریائے نیل یا اس کی بعض شاخیں ہیں جو اس کے محل کے نیچے سے گزرتی تھیں۔
____________________
* أَمْ اضراب کے لیے یعنی بَلْ (بلکہ) کے معنی میں ہے، بعض کے نزدیک استفہامیہ ہی ہے۔
**- یہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی لکنت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ سورۂ طٰہ میں گزرا۔
____________________
* اس دور میں مصر اور فارس کے بادشاہ اپنی امتیازی شان اور خصوصی حیثیت کو نمایاں کرنے کے لیے سونے کے کڑے پہنتے تھے، اسی طرح قبیلوں کے سرداروں کے ہاتھوں میں بھی سونے کے کڑے اور گلے میں سونے کے طوق اور زنجیریں ڈال دی جاتی تھیں جو ان کی سرداری کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ اسی اعتبار سے فرعون نے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے بارے میں کہا کہ اگر اس کی کوئی حیثیت اور امتیازی شان ہوتی تو اس کے ہاتھ میں سونے کے کڑے ہونے چاہیے تھے۔
**- جو اس بات کی تصدیق کرتے کہ یہ اللہ کا رسول ہے یا بادشاہوں کی طرح اس کی شان کو نمایاں کرنے کے لیے اس کے ساتھ ہوتے۔
____________________
* یعنی اسْتَخَفَّ عُقُولَهُم (ابن کثیر) اس نے اپنی قوم کی عقل کو ہلکا سمجھایا کر دیا اور انہیں اپنی جہالت وضلالت پر قائم رہنے کی تاکید کی، اور قوم اس کے پیچھے لگ گئی۔
____________________
* آسَفُونَا بمعنی أَسْخَطُونَا یا أَغْضَبُونَا، سَلَفٌ سَالِفٌ کی جمع ہے جیسے خَدَمٌ، خَادِمٌ کی اور حَرَسٌ، حَارِسٌ کی ہے۔ معنی جو اپنے وجود میں دوسرے سے پہلے ہو۔ یعنی ان کو بعد میں آنے والوں کے لیےنصیحت اور مثال بنادیا۔ کہ وہ اس طرح کفر وظلم اور علو وفساد نہ کریں جس طرح فرعون نے کیا تاکہ وہ اس جیسے عبرت ناک حشر سے محفوظ رہیں۔
____________________
* شرک کی تردید اور جھوٹے معبودوں کی بےوقعتی کی وضاحت کے لیے جب مشرکین مکہ سے کہا جاتا کہ تمہارے ساتھ تمہارے معبود بھی جہنم میں جائیں گے تو اس سے مراد وہ پتھر کی مورتیاں ہوتی ہیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے، نہ کہ وہ نیک لوگ، جو اپنی زندگیوں میں لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے، مگر ان کی وفات کے بعد ان کے معتقدین نے انہیں بھی معبود سمجھنا شروع کردیا۔ ان کی بابت تو قرآن کریم نے ہی واضح کردیا ہے کہ یہ جہنم سے دور رہیں گے۔ إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ (الأنبياء: 101) کیونکہ اس میں ان کا اپنا کوئی قصور نہیں تھا۔ اسی لیے قرآن نے اس کے لیے جو لفظ استعمال کیا ہے، وہ لفظ ما ہے جو غیر عاقل کے لیے استعمال ہوتا ہے إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ (الأنبياء: 98) اس سے انبیا علیہم السلام اور وہ صالحین نکل گئے، جن کو لوگوں نے اپنے طور پر معبود بنائے رکھا ہوگا۔ یعنی یہ تو ممکن ہے کہ دیگر مورتیوں کے ساتھ ان کی شکلوں کی بنائی ہوئی مورتیاں بھی اللہ تعالیٰ جہنم میں ڈال دے لیکن یہ شخصیات تو بہرحال جہنم سے دور ہی رہیں گی۔ لیکن مشرکین نبی (صلى الله عليه وسلم) کی زبان مبارک سے حضرت میح (عليه السلام) کا ذکر خیر سن کر یہ کٹ حجتی اور مجادلہ کرتے کہ جب حضرت عیسیٰ (عليه السلام) قابل مدح ہیں دراں حالیکہ عیسائیوں نے انہیں معبود بنایا ہوا ہے، تو پھر ہمارے معبود کیوں برے؟ کیا وہ بھی بہتر نہیں؟ یا اگر ہمارے معبود جہنم میں جائیں گے تو حضرت عیسیٰ (عليه السلام) اور حضرت عزیر (عليه السلام) بھی پھر جہنم میں جائیں گے۔ اللہ نے یہاں فرمایا، ان کا خوشی سے چلانا، ان کا جدل محض ہے۔ جدل کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ جھگڑنے والا جانتا ہے کہ اس کے پاس دلیل کوئی نہیں ہے لیکن محض اپنی بات کی پچ میں بحث وتکرار سے گریز نہیں کرتا۔
____________________
* ایک اس اعتبار سے کہ بغیر باپ کے ان کی ولادت ہوئی، دوسرے، خود انہیں جو معجزات دیے گئے، احیائے موتی وغیرہ، اس لحاظ سے بھی۔
____________________
* یعنی تمہیں ختم کرکے تمہاری جگہ زمین پر فرشتوں کو آباد کردیتے، جو تمہاری ہی طرح ایک دوسرے کی جانشینی کرتے، مطلب یہ ہے کہ فرشتوں کا آسمان پر رہنا ایسا شرف نہیں ہے کہ ان کی عبادت کی جائے یہ تو ہماری مشیت اور قضا ہے کہ فرشتوں کو آسمان پر اور انسانوں کو زمین پر آباد کیا، ہم چاہیں تو فرشتوں کو زمین پر بھی آباد کرسکتے ہیں۔
____________________
* عِلْمٌ بمعنی علامت ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے قریب ان کا آسمان سے نزول ہوگا، جیسا کہ صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ یہ نزول اس بات کی علامت ہوگا کہ اب قیامت قریب ہے اسی لیے بعض نے اسے عین اور لام کے زبر کے ساتھ (عَلَمٌ) پڑھا ہے، جس کے معنی ہی نشانی اور علامت کے ہیں۔ اور بعض کے نزدیک انہیں قیامت کی نشانی قرار دینا، ان کی معجزانہ ولادت کی بنیاد پر ہے۔ یعنی جس طرح اللہ نے ان کو بغیر باپ کے پیدا کیا۔ ان کی یہ پیدائش اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ فرما دےگا، اس لیے قدرت الٰہی کو دیکھتے ہوئے وقوع قیامت میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ إِنَّهُ میں ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ (عليه السلام) ہیں۔
____________________
* اس کے لیے دیکھئے آل عمران، آیت۔ 5 کا حاشیہ۔
____________________
* اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں، یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی تنقیص کی اور انہیں نعوذباللہ ولد الزنا قرار دیا، جب کہ عیسائیوں نے غلو سے کام لے کر انہیں معبود بنالیا۔ یا مراد عیسائیوں ہی کے مختلف فرقے ہیں جو حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے بارے میں ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھتے ہیں۔ ایک انہیں ابن اللہ، دوسرا اللہ اور ثالث ثلاثہ کہتا ہے اور ایک فرقہ مسلمانوں کی طرح انہیں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول تسلیم کرتا ہے۔
____________________
* کیوں کہ کافروں کی دوستی، کفر وفسق کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے اور یہی کفر وفسق ان کے عذاب کاباﻋﺚ ہوں گے، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائیں گے اور ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔ اس کے برعکس اہل ایمان و تقویٰ کی باہمی محبت، چونکہ دین اور رضائے الٰہی کی بنیاد پر ہوتی ہے اور یہی دین وایمان خیروثواب کا باعث ہے۔ ان سے ان کی دوستی میں کوئی انقطاع نہیں ہوگا۔ وہ اسی طرح برقرار رہے گی جس طرح دنیا میں تھی۔
____________________
* یہ قیامت والے دن ان متقین کو کہا جائے گا جو دنیا میں صرف اللہ کی رضا کے لیے ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے۔ جیسا کہ احادیث میں بھی اس کی فضیلت وارد ہے۔ بلکہ اللہ کے لیے بغض اور اللہ کے لیے محبت کو کمال ایمان کی بنیاد بتلایا گیا ہے۔
____________________
* أَزْوَاجُكُمْ سے بعض نے مومن بیویاں، بعض نے مومن ساتھی اور بعض نے جنت میں ملنے والی حورعین بیویاں مراد لی ہے۔ یہ سارے ہی مفہوم صحیح ہیں کیونکہ جنت میں یہ سب کچھ ہی ہوگا۔ تُحْبَرُونَ حَبْرٌ سے ماخوذ ہے یعنی وہ فرحت ومسرت جو انہیں جنت کی نعمت وعزت کی وجہ سے ہوگی۔
____________________
- صِحَافٌ، صَحْفَةٌ کی جمع ہے۔ رکابی۔ سب سے بڑے برتن کو جَفْنَةٌ کہا جاتا ہے، اس سے چھوٹا قَصْعَةٌ (جس سے دس آدمی شکم سیر ہوجاتے ہیں) پھر صَحْفَةٌ (قَصْعَةٌ سے نصف) پھر مِكِيلَةٌ ہے۔ مطلب ہے کہ اہل جنت کو جو کھانے ملیں گے، وہ سونے کی رکابیوں میں ہوں گے (فتح القدیر)۔
**- یعنی جس طرح ایک وارث، میراث کا مالک ہوتا ہے، اسی طرح جنت بھی ایک میراث ہے جس کے وارث وہ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں ایمان اور عمل صالح کی زندگی گزاری ہوگی۔
____________________
* یعنی نجات سے مایوس۔
____________________
* مالک، داروغۂ جہنم کا نام ہے۔
**- یعنی ہمیں موت ہی دے دے تاکہ عذاب سے جان چھوٹ جائے۔
***- یعنی وہاں موت کہاں؟ لیکن یہ عذاب کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوگی، تاہم اس کے بغیر چارہ بھی نہیں ہوگا۔
____________________
* یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے یا فرشتوں کا ہی قول بطور نیابت الٰہی ہے۔ جیسے کوئی افسر مجاز (ہم) کا استعمال حکومت کے مفہوم میں کرتا ہے۔ اکثر سے مراد کل ہے، یعنی سارے ہی جہنمی، یا پھر اکثر سے مراد روسا اور لیڈر ہیں۔ باقی جہنمی ان کے پیروکار ہونے کی حیثیت سے اس میں شامل ہوں گے۔ حق سے مراد، اللہ کا وہ دین اور پیغام ہے جو وہ پیغمبروں کے ذریعے سے ارسال کرتا رہا۔ آخری حق قرآن اور دین اسلام ہے۔
____________________
* إِبْرَامٌ کے معنی ہیں، اتقان واحکام۔ پختہ اور مضبوط کرنا۔ أَمْ اضراب کے لیے ہے بَلْ کے معنی میں۔ یعنی ان جہنمیوں نے حق کو ناپسند ہی نہیں کیا بلکہ یہ اس کے خلاف منظم تدبیریں اور سازشیں کرتے رہے۔ جس کے مقابلے میں پھر ہم نے بھی اپنی تدبیر کی اور ہم سے زیادہ مضبوط تدبیر کس کی ہوسکتی ہے؟ اس کے ہم معنی یہ آیت ہے۔ أَمْ يُرِيدُونَ كَيْدًا فَالَّذِينَ كَفَرُوا هُمُ الْمَكِيدُونَ (الطور: 42)
____________________
* یعنی جو پوشیدہ باتیں وہ اپنے نفسوں میں چھپائے پھرتے ہیں یا خلوت میں آہستگی سے کرتے ہیں یا آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں، کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم وہ نہیں سنتے؟ مطلب ہے ہم سب سنتے اور جانتے ہیں۔
**- یعنی یقیناً سنتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے الگ ان کی ساری باتیں نوٹ کرتے ہیں۔
____________________
* کیونکہ میں اللہ کا مطیع اور فرماں بردار ہوں۔ اگر واقعی اس کی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں ان کی عبادت کرنے والا ہوتا۔ مطلب مشرکین کے عقیدے کا ابطال اور رد ہے جو اللہ کی اولاد ثابت کرتے ہیں۔
____________________
* یہ اللہ کا کلام ہے جس میں اس نے اپنی تنزیہ وتقدیس بیان کی ہے، یارسول (صلى الله عليه وسلم) کا کلام ہے اور آپ (صلى الله عليه وسلم) نے بھی اللہ کے حکم سے اللہ کی ان چیزوں سے تنزیہ وتقدیس بیان کی جن کا انتساب مشرکین اللہ کی طرف کرتے تھے۔
____________________
* یعنی اگر یہ ہدایت کا راستہ نہیں اپناتے تو اب انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیں اور دنیا کے کھیل کود میں لگا رہنے دیں۔ یہ تہدید وتنبیہ ہے۔
**- ان کی آنکھیں اسی دن کھلیں گی جب ان کے اس روئیے کا انجام ان کے سامنے آئے گا۔
____________________
* یہ نہیں ہے کہ آسمانوں کا معبود کوئی اور ہو اور زمین کا کوئی اور۔ بلکہ جس طرح ان دونوں کا خالق ایک ہے، معبود بھی ایک ہی ہے۔ اسی کے ہم معنی یہ آیت ہے۔ وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الأَرْضِ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ ۔ (سورة الأنعام: 3) ”آسمان وزمین میں وہی اللہ ہے، وہ تمہاری پوشیدہ اور جہری باتوں کو جانتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو، وہ بھی اس کے علم میں ہے“۔
____________________
* ایسی ذات کو، جس کے پاس سارے اختیارات اور زمین و آسمان کی بادشاہت ہو، اسے بھلا اولاد کی کیاضرورت؟
**- جس کو وہ اپنے وقت پر ظاہر فرمائے گا۔
***- جہاں وہ ہر ایک کو اس کے عملوں کے مطابق جزا و سزا دے گا۔
____________________
* یعنی دنیا میں جن بتوں کی یہ عبادت کرتے ہیں، یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے۔ ان معبودوں کو شفاعت کا قطعاً کوئی اختیار نہیں ہوگا۔
**- حق بات سے مراد کلمہ توحید لاالٰہ الااللہ ہے اور یہ اقرار بھی علم و بصیرت کی بنیاد پر ہو، محض رسمی اور تقلیدی نہ ہو۔ یعنی زبان سے کلمۂ توحید ادا کرنے والے کو پتہ ہو کہ اس میں صرف ایک اللہ کا اثبات اور دیگر تمام معبودوں کی نفی ہے، پھر اس کے مطابق اس کا عمل ہو۔ ایسے لوگوں کے حق میں اہل شفاعت کی شفاعت مفید ہوگی۔ یا مطلب ہے کہ شفاعت کرنے کا حق صرف ایسے لوگوں کو ملے گا جو حق کا اقرار کرنے والے ہوں گے، یعنی انبیا وصالحین اور فرشتے۔ نہ کہ معبود ان باطل کو، جنہیں مشرکین اپنا شفاعت کنندہ خیال کرتے ہیں۔
____________________
* وَقِيلِهِ اس کا عطف وَعِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ پر ہے یعنی وَعِلمُ قِيلِهِ، اللہ کے پاس ہی قیامت اور اپنے پیغمبر کے شکوے کا علم کا ہے۔
____________________
* یہ سلام متارکہ ہے، جیسے۔ سَلامٌ عَلَيْكُمْ لا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ (القصص: 55) قَالُوا سَلامًا (الفرقان: 63) میں ہے۔ یعنی دین کے معاملے میں میری اور تمہاری راہ الگ الگ ہے، تم اگر باز نہیں آتے تو اپنا عمل کیے جاؤ، میں اپنا کام کیے جارہا ہوں، عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون؟