ترجمة سورة القصص

الترجمة الأردية
ترجمة معاني سورة القصص باللغة الأردية من كتاب الترجمة الأردية .
من تأليف: محمد إبراهيم جوناكري .

طٰسم.
یہ آیتیں ہیں روشن کتاب کی.*
ہم آپ کے سامنے موسیٰ اور فرعون کا صحیح واقعہ بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں.*
____________________
* یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں کیونکہ وحی الٰہی کے بغیر صدیوں قبل کے واقعات بالکل اس طریقے سے بیان کر دینا جس طرح وہ پیش آئے، ناممکن ہے۔ تاہم اس کے باوجود اس سے فائدہ اہل ایمان ہی کو ہوگا، کیونکہ وہی آپ کی باتوں کی تصدیق کریں گے۔
یقیناً فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی* اور وہاں کے لوگوں کو گروه گروه بنا رکھا تھا** اور ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور کر رکھا تھا*** اور ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا**** اور ان کی لڑکیوں کو زنده چھوڑ دیتا تھا۔ بیشک وشبہ وه تھا ہی مفسدوں میں سے.
____________________
* یعنی ظلم وستم کا بازار گرم کر رکھا تھا اور اپنے کو بڑا معبود کہلاتا تھا۔
**- جن کے ذمے الگ الگ کام اور ڈیوٹیاں تھیں۔
***- اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں، جو اس وقت کی افضل ترین قوم تھی لیکن ابتلا وآزمائش کے طور پر فرعون کی غلام اور اس کی ستم رانیوں کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی۔
****- جس کی وجہ بعض نجومیوں کی یہ پیش گوئی تھی کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ایک بچے کے ہاتھوں فرعون کی ہلاکت اور اس کی سلطنت کا خاتمہ ہوگا۔ جس کا حل اس نے یہ نکالا کہ ہر پیدا ہونے والا اسرائیلی بچہ قتل کر دیا جائے۔ حالانکہ اس احمق نے یہ نہیں سوچا کہ اگر کاﮨﻦ سچا ہے تو ایسا یقیناً ہوکر رہے گا چاہے وہ بچے قتل کرواتا رہے۔ اور اگر وہ جھوٹا ہے تو قتل کروانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ (فتح القدیر) بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی طرف سے یہ خوشخبری منتقل ہوتی چلی آرہی تھی کہ ان کی نسل سے ایک بچہ ہوگا جس کے ہاتھوں سلطنت مصر کی تباہی ہوگی۔ قبطیوں نے یہ بشارت بنی اسرائیل سے سنی اور فرعون کو اس سے آگاہ کر دیا جس پر اس نے بنی اسرائیل کے بچوں کو مروانا شروع کر دیا۔ (ابن کثیر)
پھر ہماری چاہت ہوئی کہ ہم ان پر کرم فرمائیں جنہیں زمین میں بےحد کمزور کر دیا گیا تھا، اور ہم انہیں کو پیشوا اور (زمین) کا وارث بنائیں.*
____________________
* چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس کمزور اور غلام قوم کو مشرق ومغرب کا وارث (مالک وحکمران) بنا دیا (الاعراف: 137) نیز انہیں دین کا پیشوا اور امام بھی بنا دیا۔
اور یہ بھی کہ ہم انہیں زمین میں قدرت واختیار دیں* اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وه دکھائیں جس سے وه ڈر رہے ہیں.**
____________________
* یہاں زمین سے مراد ارض شام ہے جہاں وہ کنعانیوں کی زمین کے وارث بنے کیونکہ مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل مصر واپس نہیں گئے، واللهُ أَعْلَمُ۔
**- یعنی انہیں جو اندیشہ تھا کہ ایک اسرائیلی کے ہاتھوں فرعون کی اور اس کے ملک ولشکر کی تباہی ہوگی، ان کے اس اندیشے کو ہم نے حقیقت کر دکھایا۔
ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو وحی کی* کہ اسے دودھ پلاتی ره اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو تو اسے دریا میں بہا دینا اور کوئی ڈر خوف یا رنج غم نہ کرنا**، ہم یقیناً اسے تیری طرف لوٹانے والے ہیں*** اور اسے اپنے پیغمبروں میں بنانے والے ہیں.
____________________
* وحی سے مراد یہاں دل میں بات ڈالنا ہے، وہ وحی نہیں ہے، جو انبیا پر فرشتے کے ذریعے سے نازل کی جاتی تھی اور اگر فرشتے کے ذریعے سے بھی آئی ہو، تب بھی اس ایک وحی سے ام موسیٰ (عليه السلام) کا نبی ہونا ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ فرشتے بعض دفعہ عام انسانوں کے پاس بھی آجاتے ہیں۔ جیسے حدیث میں اقرع، ابرص اور اعمی کے پاس فرشتوں کا آنا ثابت ہے۔ (متفق علیہ، بخاری، کتاب احادیث الانبیاء)
**- یعنی دریا میں ڈوب جانے یا ضائع ہو جانے سے نہ ڈرنا اور اس کی جدائی کا غم نہ کرنا۔
***- یعنی ایسے طریقے سے کہ جس سے اس کی نجات یقینی ہو، کہتے ہیں کہ جب قتل اولاد کا یہ سلسلہ زیادہ ہوا تو فرعون کی قوم کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں بنی اسرائیل کی نسل ہی ختم نہ ہو جائے اور پھر مشقت والے کام ہمیں نہ کرنے پڑیں۔ اس اندیشے کا ذکر انہوں نے فرعون سے کیا، جس پر نیا حکم جاری کر دیا گیا کہ ایک سال بچے قتل کئے اور ایک سال چھوڑ دیئے جائیں۔ حضرت ہارون (عليه السلام) اس سال پیدا ہوئے جس میں بچے قتل نہیں کیے جاتے تھے، جب کہ موسیٰ (عليه السلام) قتل والے سال میں پیدا ہوئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا سروسامان اس طرح پیدا فرمایا کہ ایک تو ان کی والدہ پر حمل کے آثار اس طرح ظاہر نہیں فرمائے، جس سے وہ فرعون کی چھوڑی ہوئی دائیوں کی نگاہ میں آجائیں۔ اس لیے ولادت کا مرحلہ تو خاموشی کے ساتھ ہوگیا اور یہ واقعہ حکومت کے منصوبہ بندوں کے علم میں نہیں آیا، لیکن ولادت کے بعد قتل کا اندیشہ موجود تھا، جس کا حل خود اللہ تعالیٰ نے وحی والقا کے ذریعے سے موسیٰ (عليه السلام) کی ماں کو سمجھا دیا۔ چنانچہ انہوں نے اسے تابوت میں لٹا کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔ (ابن کثیر)
آخر فرعون کے لوگوں نے اس بچے کو اٹھا لیا* کہ آخرکار یہی بچہ ان کا دشمن ہوا اور ان کے رنج کا باعﺚ بنا**، کچھ شک نہیں کہ فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر تھے ہی خطاکار.***
____________________
* یہ تابوت بہتا بہتا فرعون کے محل کے پاس پہنچ گیا، جو لب دریا ہی تھا اور وہاں فرعون کے نوکروں چاکروں نے پکڑ کر باہر نکال لیا۔
**- یہ لام عاقبت کے لیے ہے۔ یعنی انہوں نے تو اسے اپنا بچہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنا کر لیا تھا نہ کہ دشمن سمجھ کر۔ لیکن انجام ان کے اس فعل کا یہ ہوا کہ وہ ان کا دشمن اور رنج وغم کا باعث، ثابت ہوا۔
***- یہ ماقبل کی تعلیل ہے کہ موسیٰ (عليه السلام) ان کے لیے دشمن کیوں ثابت ہوئے؟ اس لیے کہ وہ سب اللہ کے نافرمان اور خطاکار تھے، اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان کے پروردہ کوہی ان کی ہلاکت کا ذریعہ بنا دیا۔
اور فرعون کی بیوی نے کہا یہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو*، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں کوئی فائده پہنچائے یا ہم اسے اپنا ہی بیٹا بنا لیں** اور یہ لوگ شعور ہی نہ رکھتے تھے.***
____________________
* یہ اس وقت کہا جب تابوت میں ایک حسین وجمیل بچہ انہوں نے دیکھا۔ بعض کے نزدیک یہ اس وقت کا قول ہے جب موسیٰ (عليه السلام) نے فرعون کی داڑھی کے بال نوچ لیے تھے تو فرعون نے ان کو قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ (ایسر التفاسیر) جمع کا صیغہ یا تو اکیلے فرعون کے لیے بطور تعظیم کے کہا یا ممکن ہے وہاں اس کے کچھ درباری موجود رہے ہوں۔
**- کیوں کہ فرعون اولاد سے محروم تھا۔
***- کہ یہ بچہ، جسے وہ اپنا بچہ بنا رہے ہیں، یہ تو وہی بچہ ہے جس کو مارنے کے لیے سینکڑوں بچوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے۔
موسیٰ (علیہ السلام) کی والده کا دل بے قرار ہوگیا*، قریب تھیں کہ اس واقعہ کو بالکل ﻇاہر کر دیتیں اگر ہم ان کے دل کو ڈھارس نہ دے دیتے یہ اس لیے کہ وه یقین کرنے والوں میں رہے.**
____________________
* یعنی ان کا دل ہر چیز اور فکر سے فارغ (خالی) ہوگیا اور ایک ہی فکر یعنی موسیٰ (عليه السلام) کا غم دل میں سما گیا، جس کو اردو میں بےقراری سے تعبیر کیا گیا ہے۔
**- یعنی شدت غم سے یہ ظاہر کر دیتیں کہ یہ ان کا بچہ ہے لیکن اللہ نے ان کے دل کو مضبوط کر دیا جس پر انہوں نے صبر کیا اور یقین کر لیا کہ اللہ نے اس موسیٰ (عليه السلام) کو بخیریت واپس لوٹانے کا جو وعدہ کیا ہے، وہ پورا ہوگا۔
موسیٰ (علیہ السلام) کی والده نے اس کی بہن* سے کہا کہ تو اس کے پیچھے پیچھے جا، تو وه اسے دور ہی دور سے دیکھتی رہی** اور فرعونیوں کو اس کا علم بھی نہ ہوا.
____________________
* خواہر موسیٰ (عليه السلام) کا نام مریم بنت عمران تھا جس طرح حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی والدہ مریم بنت عمران تھیں۔ نام اور ولدیت دونوں میں اتحاد تھا۔
**- چنانچہ وہ دریا کے کنارے کنارے، دیکھتی رہی تھی، حتیٰ کہ اس نے دیکھ لیا کہ اس کا بھائی فرعون کے محل میں چلا گیا ہے۔
ان کے پہنچنے سے پہلے ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) پر دائیوں کا دودھ حرام کر دیا تھا*۔ یہ کہنے لگی کہ کیا میں تمہیں** ایسا گھرانا بتاؤں جو اس بچہ کی تمہارے لیے پرورش کرے اور ہوں بھی وه اس بچے کے خیر خواه.
____________________
* یعنی ہم نے اپنی قدرت اور تکوینی حکم کے ذریعے سے موسیٰ (عليه السلام) کو اپنی ماں کے علاوہ کسی اور انا کا دودھ پینے سے منع کر دیا، چنانچہ بسیار کوشش کے باوجود کوئی انا انہیں دودھ پلانے اور چپ کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
**- یہ سب منظر ان کی ہمشیرہ خاموشی کے ساتھ دیکھ رہی تھیں، بالآخر بول پڑیں کہ میں تمہیں (ایسا گھرانا بتاؤں جو اس بچے کی تمہارے لیے پرورش کرے)۔
پس ہم نے اسے اس کی ماں کی طرف واپس پہنچایا*، تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور آزرده خاطر نہ ہو اور جان لے کہ اللہ تعالی کا وعده سچا ہے** لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے.***
____________________
* چنانچہ انہوں نے ہمشیرہ موسیٰ (عليه السلام) سے کہا کہ جا اس عورت کو لے آ، چنانچہ وہ دوڑی دوڑی گئی اور اپنی ماں کو، جو موسیٰ (عليه السلام) کی بھی ماں تھی، ساتھ لے آئی۔
**- جب حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے اپنی والدہ کا دودھ پی لیا، تو فرعون نے والدۂ موسیٰ سے محل میں رہنے کی استدعا کی تاکہ بچے کی صحیح پرورش اور نگہداشت ہوسکے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ میں اپنے خاوند اور بچوں کو چھوڑ کر یہاں نہیں رہ سکتی۔ بالآخر یہ طے پایا کہ بچے کو وہ اپنے ساتھ ہی اپنے گھر لے جائیں اور وہیں اس کی پرورش کریں اور اس کی اجرت انہیں شاہی خزانے سے دی جائے گی، سبحان اللہ ! اللہ کی قدرت کے کیا کہنے، دودھ اپنے بچے کو پلائیں اور تنخواہ فرعون سے وصول کریں، رب نے موسیٰ (عليه السلام) کو واپس لوٹانے کا وعدہ کس احسن طریقے سے پورا فرمایا۔ فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ ایک مرسل روایت میں ہے ”اس کاریگر کی مثال جو اپنی بنائی ہوئی چیز میں ثواب اور خیر کی نیت بھی رکھتا ہے، موسیٰ (عليه السلام) کی ماں کی طرح ہے جو اپنے ہی بچے کو دودھ پلاتی ہے اور اس کی اجرت بھی وصول کرتی ہے“ (مراسیل أبی داود)
***- یعنی بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے انجام کی حقیقت سے اکثر لوگ بےعلم ہوتے ہیں لیکن اللہ کو اس کے حسن انجام کا علم ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا ”ہوسکتا ہے جس چیز کو تم برا سمجھو، اس میں تمہارے لیے خیر ہو اور جس چیز کو تم پسند کرو، اس میں تمہارے لیے شرکا پہلو ہو“ (البقرۃ: 216) دوسرے مقام پر فرمایا ”ہوسکتا ہے تم کسی چیز کو برا سمجھو، اور اللہ اس میں تمہارے لیے خیر کثیر پیدا فرما دے“ (النساء: 19) اس لیے انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنی پسند وناپسند سے قطع نظر ہر معاملے میں اللہ اور رسول کے احکام کی پابندی کرلے کہ اسی میں اس کے لیے خیر اور حسن انجام ہے۔
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور پورے توانا ہوگئے ہم نے انہیں حکمت وعلم عطا فرمایا*، نیکی کرنے والوں کو ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں.
____________________
* حکم اور علم سے مراد اگر نبوت ہے تو اس مقام تک کس طرح پہنچے، اس کی تفصیل اگلی آیات میں ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد نبوت نہیں بلکہ عقل ودانش اور وہ علوم ہیں جو انہوں نے اپنے آبائی اور خاندانی ماحول میں رہ کر سیکھے۔
اور موسیٰ (علیہ السلام) ایک ایسے وقت شہر میں آئے جبکہ شہر کے لوگ غفلت میں تھے*۔ یہاں دو شخصوں کو لڑتے ہوئے پایا، یہ ایک تو اس کے رفیقوں میں سے تھا اور یہ دوسرا اس کے دشمنوں میں سے**، اس کی قوم والے نے اس کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا اس سے فریاد کی، جس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو مکا مارا جس سے وه مر گیا موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے یہ تو شیطانی کام ہے***، یقیناً شیطان دشمن اور کھلے طور پر بہکانے واﻻ ہے.****
____________________
* اس سے بعض نے مغرب اور عشا کے درمیان کا وقت اور بعض نے نصف النہار مراد لیا ہے۔ جب لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں۔
**- یعنی فرعون کی قوم قبط میں سے تھا۔
***- اسے شیطانی فعل اس لیے قرار دیا کہ قتل ایک نہایت سنگین جرم ہے اور حضرت موسیٰ (عليه السلام) کا مقصد اسے ہر گز قتل کرنا نہیں تھا۔
****- جس کی انسان سے دشمنی بھی واضح ہے اور انسان کو گمراہ کرنے کے لیے وہ جو جو جتن کرتا ہے، وہ بھی مخفی نہیں۔
پھر دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار! میں نے خود اپنے اوپر ﻇلم کیا، تو مجھے معاف فرما دے*، اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا، وه بخشش اور بہت مہربانی کرنے واﻻ ہے.
____________________
* یہ اتفاقیہ قتل اگرچہ کبیرہ گناہ نہیں تھا، کیونکہ کبائر سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی حفاظت فرماتا ہے۔ تاہم یہ بھی ایسا گناہ نظر آتا تھا جس کے لیے بہت بخشش انہوں نے ضروری سمجھی۔ دوسرے، انہیں خطرہ تھا کہ فرعون کو اس کی اطلاع ملی تو اس کے بدلے انہیں قتل نہ کر دے۔
کہنے لگے اے میرے رب! جیسے تو نے مجھ پر یہ کرم فرمایا میں بھی اب ہرگز کسی گنہگار کا مددگار نہ بنوں گا.*
____________________
* یعنی جو کافر اور تیرے حکموں کا مخالف ہوگا، تو نے مجھ پر جو انعام کیا ہے، اس کے سبب میں اس کا مددگار نہیں ہوں گا۔ بعض نے اس انعام سے مراد اس گناہ کی معافی لی ہے جو غیر ارادی طور پر قبطی کے قتل کی صورت میں ان سے صادر ہوا۔
صبح ہی صبح ڈرتے* اندیشہ کی حالت میں خبریں لینے کو شہر میں گئے، کہ اچانک وہی شخص جس نے کل ان سے مدد طلب کی تھی ان سے فریاد کر رہا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے کہا کہ اس میں شک نہیں تو تو صریح بے راه ہے.**
____________________
* خَائِفًا کے معنی ڈرتے ہوئے يَتَرَقَّبُ، ادھر ادھر جھانکتے اور اپنے بارے میں اندیشوں میں مبتلا۔
**- یعنی حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے اس کو ڈانٹا کہ تو کل بھی لڑتا ہوا پایا گیا تھا اور آج پھر تو کسی سے دست بہ گریبان ہے، تو تو صریح بےراہ یعنی جھگڑالو ہے۔
پھر جب اپنے اور اس کے دشمن کو پکڑنا چاہا* وه فریادی کہنے لگا کہ** موسیٰ (علیہ السلام) کیا جس طرح تو نے کل ایک شخص کو قتل کیا ہے مجھے بھی مار ڈالنا چاہتا ہے، تو تو ملک میں ﻇالم وسرکش ہونا ہی چاہتا ہے اور تیرا یہ اراده ہی نہیں کہ ملاپ کرنے والوں میں سے ہو.
____________________
* یعنی حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے چاہا کہ قبطی کو پکڑ لیں، کیونکہ وہی حضرت موسیٰ (عليه السلام) اور بنی اسرائیل کا دشمن تھا، تاکہ لڑائی زیادہ نہ بڑھے۔
**- فریادی (اسرائیلی) سمجھا کہ موسیٰ (عليه السلام) شاید اسے پکڑنے لگے ہیں تو وہ بول اٹھا کہ اے موسیٰ ! أَتُرِيدُ أَنْ تَقْتُلَنِي...... جس سے قبطی کے علم میں یہ بات آگئی کہ کل جو قتل ہوا تھا، اس کا قاتل موسیٰ (عليه السلام) ہے، اس نے جاکر فرعون کو بتلا دیا جس پر فرعون نے اس کے بدلے میں موسیٰ (عليه السلام) کو قتل کرنے کا عزم کرلیا۔
شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا* اور کہنے لگا اے موسیٰ! یہاں کے سردار تیرے قتل کا مشوره کر رہے ہیں، پس تو بہت جلد چلا جا مجھے اپنا خیر خواه مان.
____________________
* یہ آدمی کون تھا؟ بعض کے نزدیک یہ فرعون کی قوم سے تھا جو درپردہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) کا خیر خواہ تھا۔ اور ظاہر ہے سرداروں کے مشورے کی خبر ایسے ہی آدمی کے ذریعے آنا زیادہ قرین قیاس ہے۔ بعض کے نزدیک یہ موسیٰ (عليه السلام) کا قریبی رشتے دار اور اسرائیلی تھا۔ اور اقصائے شہر سے مراد منف ہے جہاں فرعون کا محل اور دارالحکومت تھا اور یہ شہر کے آخری کنارے پر تھا۔
پس موسیٰ (علیہ السلام) وہاں سے خوفزده ہوکر دیکھتے بھالتے نکل کھڑے ہوئے*، کہنے لگے اے پروردگار! مجھے ﻇالموں کے گروه سے بچا لے.**
____________________
* جب حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے علم میں یہ بات آئی تو وہاں سے نکل کھڑے ہوئے تاکہ فرعون کی گرفت میں نہ آسکیں۔
**- یعنی فرعون اور اس کے درباریوں سے، جنہوں نے باہم حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے قتل کا مشورہ کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) کو کوئی علم نہ تھا کہ کہاں جانا ہے؟ کیوں کہ مصر چھوڑنے کا یہ حادثہ بالکل اچانک پیش آیا، پہلے سے کوئی خیال یا منصوبہ نہیں تھا، چنانچہ اللہ نے گھوڑے پر ایک فرشتہ بھیج دیا، جس نے انہیں راستے کی نشاندہی کی، وَاللهُ أَعْلَمُ۔ (ابن کثیر)
اور جب مدین کی طرف متوجہ ہوئے تو کہنے لگے مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راه لے چلے گا.*
____________________
* چنانچہ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور ایسے سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی فرما دی جس سے ان کی دنیا بھی سنور گئی اور آخرت بھی یعنی وہ ہادی بھی بن گئے اور مہدی بھی، خود بھی ہدایت یافتہ اور دوسروں کو بھی ہدایت کا راستہ بتلانے والے۔
مدین کے پانی پر جب آپ پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت وہاں پانی پلا رہی ہے* اور دو عورتیں الگ کھڑی اپنے (جانوروں کو) روکتی ہوئی دکھائی دیں، پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے**، وه بولیں کہ جب تک یہ چرواہے واپس نہ لوٹ جائیں ہم پانی نہیں پلاتیں*** اور ہمارے والد بہت بڑی عمر کے بوڑھے ہیں.****
____________________
* یعنی جب مدین پہنچے تو اس کے کنویں پر دیکھا کہ لوگوں کا ہجوم ہے جو اپنے جانوروں کو پانی پلا رہا ہے۔ مدین یہ قبیلے کا نام تھا اور حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی اولاد سے تھا، جب کہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) حضرت یعقوب (عليه السلام) کی نسل سے تھے جو حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے پوتے (حضرت اسحاق عليه السلام کے بیٹے) تھے۔ یوں اہل مدین اور موسیٰ (عليه السلام) کے درمیان نسبی تعلق بھی تھا (ایسر التفاسیر) اور یہی حضرت شعیب (عليه السلام) کا مسکن ومبعث بھی تھا۔
**- دو عورتوں کو اپنے جانور روکے، کھڑے دیکھ کر حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے دل میں رحم آیا اور ان سے پوچھا، کیا بات ہے تم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلاتیں؟
***- تاکہ مردوں سے ہمارا اختلاط نہ ہو۔ رُعَاءٌ، رَاعٍ (چرواہا) کی جمع ہے۔
****- اس لیے وہ خود گھاٹ پر پانی پلانے کے لیے نہیں آسکتے۔
پس آپ نے خود ان جانوروں کو پانی پلا دیا پھر سائے کی طرف ہٹ آئے اور کہنے لگے اے پروردگار! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں.*
____________________
* حضرت موسیٰ (عليه السلام) اتنا لمبا سفر کرکے مصر سے مدین پہنچے تھے، کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا، جب کہ سفر کی تکان اور بھوک سے نڈھال تھے۔ چنانچہ جانورو ں کو پانی پلا کر ایک درخت کے سائے تلے آکر مصروف دعا ہوگئے۔ خیر کئی چیزوں پر بولا جاتا ہے، کھانے پر، امور خیر اور عبادات پر، قوت وطاقت پر اور مال پر (ایسر التفاسیر) یہاں اس کا اطلاق کھانے پر ہوا ہے۔ یعنی میں اس وقت کھانے کا ضرورت مند ہوں۔
اتنے میں ان دونوں عورتوں میں سے ایک ان کی طرف شرم وحیا سے چلتی ہوئی آئی*، کہنے لگی کہ میرے باپ آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے (جانوروں) کو جو پانی پلایا ہے اس کی اجرت دیں**، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس پہنچے اور ان سے اپنا سارا حال بیان کیا تو وه کہنے لگے اب نہ ڈر تو نے ﻇالم قوم سے نجات پائی.***
____________________
* اللہ نے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی دعا قبول فرما لی اور دونوں میں سے ایک لڑکی انہیں بلانے آگئی۔ لڑکی کی شرم وحیا کا قرآن نے بطور خاص ذکر کیا ہے کہ یہ عورت کا اصل زیور ہے۔ اور مردوں کی طرح حیا وحجاب سے بے نیازی اور بے باکی عورت کے لیے شرعاً ناپسندیدہ ہے۔
**- بچیوں کا باپ کون تھا؟ قرآن کریم نے صراحت سے کسی کا نام نہیں لیا ہے۔ مفسرین کی اکثریت نے اس سے مراد حضرت شعیب (عليه السلام) کو لیا ہے جو اہل مدین کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ امام شوکانی نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت شعیب (عليه السلام) کا زمانہ نبوت، حضرت موسیٰ (عليه السلام) سے بہت پہلے کا ہے۔ اس لیے یہاں حضرت شعیب (عليه السلام) کا برادر زادہ یا کوئی اور قوم شعیب (عليه السلام) کا شخص مراد ہے، واللہ اعلم۔ بہرحال حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے بچیوں کے ساتھ جو ہمدردی اور احسان کیا، وہ بچیوں نے جاکر بوڑھے باپ کو بتلایا، جس سے باپ کے دل میں بھی داعیہ پیدا ہوا کہ احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دیا جائے یا اس کی محنت کی اجرت ہی ادا کر دی جائے۔
***- یعنی اپنے مصر کی سرگزشت اور فرعون کے ظلم وستم کی تفصیل سنائی جس پر انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ فرعون کی حدود حکمرانی سے باہر ہے اس لیے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نے ظالموں سے نجات عطا فرما دی ہے۔
ان دونوں میں سے ایک نے کہا کہ ابا جی! آپ انہیں مزدوری پر رکھ لیجئے، کیونکہ جنہیں آپ اجرت پر رکھیں ان میں سے سب سے بہتر وه ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو.*
____________________
* بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ باپ نے بچیوں سے پوچھا تمہیں کس طرح معلوم ہے کہ یہ طاقت ور بھی ہے اور امانت دار بھی۔ جس پر بچیوں نے بتلایا کہ جس کنویں سے پانی پلایا، اس پر اتنا بھاری پتھر رکھا ہوتا ہے کہ اسے اٹھانے کے لیے دس آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ اس شخص نے وہ پتھر اکیلے ہی اٹھا لیا اور پھر بعد میں رکھ دیا۔ اسی طرح جب میں اس کو بلا کر اپنے ساتھ لا رہی تھی، تو چونکہ راستے کا علم مجھے ہی تھا، میں آگے آگے چل رہی تھی اور یہ پیچھے پیچھے۔ لیکن ہوا سے میری چادر اڑ جاتی تھی تو اس شخص نے کہا کہ تو پیچھے چل، میں آگے آگے چلتا ہوں تاکہ میری نگاہ تیرے جسم کے کسی حصے پر نہ پڑے۔ راستے کی نشاندہی کے لیے پیچھے سے پتھر، کنکری مار دیا کر، وَاللهُ أَعْلَمُ بِحَالِ صِحَّتِهِ۔ (ابن کثیر)
اس بزرگ نے کہا میں اپنی ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کو آپ کے نکاح میں دینا چاہتا ہوں* اس (مہر پر) کہ آپ آٹھ سال تک میرا کام کاج کریں**۔ ہاں اگر آپ دس سال پورے کریں تو یہ آپ کی طرف سے بطور احسان کے ہے میں یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ آپ کو کسی مشقت میں ڈالوں***، اللہ کو منظور ہے تو آگے چل کر آپ مجھے بھلا آدمی پائیں گے.****
____________________
* ہمارے ملک میں کسی لڑکی والے کی طرف سے نکاح کی خواہش کا اظہار معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن شریعت الٰہیہ میں یہ مذموم نہیں ہے۔ صفات محمودہ کا حامل لڑکا اگر مل جائے تو اس سے یا اس کے گھر والوں سے اپنی لڑکی کے لیے رشتے کی بابت بات چیت کرنا برا نہیں ہے، بلکہ محمود اور پسندیدہ ہے۔ عہد رسالت مآب (صلى الله عليه وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی یہی طریقہ تھا۔
**- اس سے علما نے اجارے کے جواز پر استدلال کیا ہے یعنی کرائے اور اجرت پر مرد کی خدمات حاصل کرنا جائز ہے۔
***- یعنی مزید دو سال کی خدمت میں مشقت اور ایذا محسوس کریں تو آٹھ سال کے بعد جانے کی اجازت ہوگی۔
****- نہ جھگڑا کروں گا نہ اذیت پہنچاؤں گا، نہ سختی سے کام لوں گا۔
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا، خیر تو یہ بات میرے اور آپ کے درمیان پختہ ہوگئی، میں ان دونوں مدتوں میں سے جسے پورا کروں مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو*، ہم یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر اللہ (گواه اور) کارساز ہے.**
____________________
* یعنی آٹھ سال کے بعد یا دس سال کے بعد جانا چاہوں تو مجھ سے مزید رہنے کا مطالبہ نہ کیا جائے۔
**- یہ بعض کے نزدیک شعیب (عليه السلام) یا برادر زادہ شعیب (عليه السلام) کا قول ہے اور بعض کے نزدیک حضرت موسیٰ (عليه السلام) کا۔ ممکن ہے دونوں ہی کی طرف سے ہو۔ کیونکہ جمع کا صیغہ ہے گویا دونوں نے اس معاملے پر اللہ کو گواہ ٹھہرایا۔ اور اس کے ساتھ ہی ان کی لڑکی اور موسیٰ (عليه السلام) کے درمیان رشتہ ازدواج قائم ہوگیا۔ باقی تفصیلات اللہ نے ذکر نہیں کی ہیں۔ ویسے اسلام میں طرفین کی رضامندی کے ساتھ صحت نکاح کے لیے دو عادل گواہ بھی ضروری ہیں۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدت* پوری کرلی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلے** تو کوه طور کی طرف آگ دیکھی۔ اپنی بیوی سے کہنے لگے ٹھہرو! میں نے آگ دیکھی ہے بہت ممکن ہے کہ میں وہاں سے کوئی خبر ﻻؤں یا آگ کا کوئی انگاره ﻻؤں تاکہ تم سینک لو.
____________________
* حضرت ابن عباس ٰ (رضي الله عنه) ما نے اس مدت سے دس سالہ مدت مراد لی ہے، کیونکہ یہی اکمل اور اطیب (یعنی خسر موسیٰ عليه السلام کے لیے خوشگوار اور مرغوب) تھی اور حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے کریمانہ اخلاق نے اپنے بوڑھے خسر کی دلی خواہش کے خلاف کرناپسند نہیں کیا (فتح الباري كتاب الشهادات، باب من أمر بإنجاز الوعد)
**- اس سے معلوم ہوا کہ خاوند اپنی بیوی کو جہاں چاہے لے جاسکتا ہے۔
پس جب وہاں پہنچے تو اس بابرکت زمین کے میدان کے دائیں کنارے کے درخت میں سے آواز دیئے گئے* کہ اے موسیٰ! یقیناً میں ہی اللہ ہوں سارے جہانوں کا پروردگار.**
____________________
* یعنی آواز وادی کے کنارے سے آرہی تھی، جو مغربی جانب سے پہاڑ کے دائیں طرف تھی، یہاں درخت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے جو دراصل رب کی تجلی کا نور تھا۔
**- یعنی اے موسیٰ! تجھ سے جو اس وقت مخاطب اور ہم کلام ہے، وہ میں اللہ ہوں رب العالمین۔
اور یہ (بھی آواز آئی) کہ اپنی ﻻٹھی ڈال دے۔ پھر جب اسے دیکھا کہ وه سانﭗ کی طرح پھن پھنا رہی ہے تو پیٹھ پھیر کر واپس ہوگئے اور مڑ کر رخ بھی نہ کیا، ہم نے کہا اے موسیٰ! آگے آ ڈر مت، یقیناً تو ہر طرح امن واﻻ ہے.*
____________________
* یہ موسیٰ (عليه السلام) کا وہ معجزہ ہے جو کوہ طور پر، نبوت سے سرفراز کیے جانے کے بعد ان کو ملا۔ چونکہ معجزہ خرق عادت معاملے کو کہا جاتا ہے یعنی جو عام عادات اور اسباب ظاہری کے خلاف ہو۔ ایسا معاملہ چونکہ اللہ کے حکم اور مشیت سے ظاہر ہوتا ہے کسی بھی انسان کے اختیار سے نہیں۔ چاہے وہ جلیل القدر پیغمبر اور نبی مقرب ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے جب موسیٰ (عليه السلام) کے اپنے ہاتھ کی لاٹھی، زمین پر پھینکنے سے حرکت کرتی اور دوڑتی پھنکارتی سانپ بن گئی، تو حضرت موسیٰ (عليه السلام) بھی ڈر گئے۔ جب اللہ تعالیٰ نے بتلایا اور تسلی دی تو حضرت موسیٰ (عليه السلام) کا خوف دور ہوا اور یہ واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی صداقت کے لیے بطور دلیل یہ معجزہ انہیں عطا فرمایا ہے۔
اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں ڈال وه بغیر کسی قسم کے روگ کے چمکتا ہوا نکلے گا بالکل سفید* اور خوف سے (بچنے کے لیے) اپنے بازو اپنی طرف ملا لے**، پس یہ دونوں معجزے تیرے لیے تیرے رب کی طرف سے ہیں فرعون اور اس کی جماعت کی طرف، یقیناً وه سب کے سب بےحکم اور نافرمان لوگ ہیں.***
____________________
* یہ يَدٌ بَيْضَاءُ دوسرا معجزہ تھا جو انہیں عطا کیا گیا۔ كَمَا مَرَّ۔
**- لاٹھی کے اژدھا بن جانے کی صورت میں جو خوف حضرت موسیٰ (عليه السلام) کو لاحق ہوتا تھا، اس کا حل بتلا دیا گیا کہ اپنا بازو اپنی طرف ملا لیا کر یعنی بغل میں دبا لیا کر، جس سے خوف جاتا رہا کرے گا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ عام ہے کہ جب بھی کسی سے کوئی خوف محسوس ہو تو اس طرح کرنے سے خوف دور ہو جائے گا۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی اقتدا میں جو شخص بھی گھبراہٹ کے موقع پر اپنے دل پر ہاتھ رکھے گا، تو اس کے دل سے خوف جاتا رہے گا یا کم از کم ہلکا ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
***- یعنی فرعون اور اس کی جماعت کے سامنے یہ دونوں معجزے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرو۔ یہ لوگ اللہ کی اطاعت سے نکل چکے ہیں اور اللہ کے دین کے مخالف ہیں۔
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا پروردگار! میں نے ان کا ایک آدمی قتل کر دیا تھا۔ اب مجھے اندیشہ ہے کہ وه مجھے بھی قتل کر ڈالیں.*
____________________
* یہ وہ خطرہ تھا جو واقعی حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی جان کو لاحق تھا، کیونکہ ان کے ہاتھوں ایک قبطی کا قتل ہوچکا تھا۔
اور میرا بھائی ہارون (علیہ السلام) مجھ سے بہت زیاده فصیح زبان واﻻ ہے تو اسے بھی میرا مددگار بنا کر میرے ساتھ بھیج* کہ وه مجھے سچا مانے، مجھے تو خوف ہے کہ وه سب مجھے جھٹلا دیں گے.
____________________
* اسرائیلی روایات کی رو سے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی زبان میں لکنت تھی، جس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے سامنے آگ کا انگارہ اور کھجور یا موتی رکھے گئے تو آپ نے انگارہ اٹھا کر منہ میں رکھ لیا تھا جس سے آپ کی زبان جل گئی۔ یہ وجہ صحیح ہے یا نہیں۔ تاہم قرآن کریم کی اس نص سے یہ تو ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے مقابلے میں حضرت ہارون (عليه السلام) فصیح اللسان تھے اور حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی زبان میں گرہ تھی۔ جس کے کھولنے کی دعا انہوں نے نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد کی۔ رِدْءًا کے معنی ہیں معین، مددگار، تقویت پہنچانے والا۔ یعنی ہارون (عليه السلام) اپنی فصاحت لسانی سے مجھے مدد اور تقویت پہنچائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو مضبوط کردیں گے* اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے فرعونی تم تک پہنچ ہی نہ سکیں گے**، بسبب ہماری نشانیوں کے، تم دونوں اور تمہاری تابعداری کرنے والے ہی غالب رہیں گے.***
____________________
* یعنی حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی دعا قبول کرلی گئی اور ان کی سفارش پر حضرت ہارون (عليه السلام) کو بھی نبوت سے سرفراز فرما کر ان کا ساتھی اور مددگار بنا دیا گیا۔
**- یعنی ہم تمہاری حفاظت فرمائیں گے، فرعون اور اس کے حوالی موالی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔
***- یہ وہی مضمون ہے جو قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا مثلاً المائدۃ: 67، الاحزاب: 39، المجادلۃ: 21، المومن: 51، 52۔
پس جب ان کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے دیے ہوئے کھلے معجزے لے کر پہنچے تو وه کہنے لگے یہ تو صرف گھڑا گھڑایا جادو ہے ہم نے اپنے اگلے باپ دادوں کے زمانہ میں کبھی یہ نہیں سنا.*
____________________
* یعنی یہ دعوت کہ کائنات میں صرف ایک ہی اللہ اس کے لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ ہمارے لیے بالکل نئی ہے۔ یہ ہم نے سنی ہے نہ ہمارے باپ دادا اس توحید سے واقف تھے۔ مشرکین مکہ نے بھی نبی (صلى الله عليه وسلم) کی بابت کہا تھا «أَجَعَلَ الآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ» (ص: 5) ”اس نے تو تمام معبودوں کو (ختم کرکے) ایک ہی معبود بنا دیا ہے؟ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے“۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے میرا رب تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے جو اس کے پاس کی ہدایت لے کر آتا ہے* اور جس کے لیے آخرت کا (اچھا) انجام ہوتا ہے**۔ یقیناً بے انصافوں کا بھلا نہ ہوگا.***
____________________
* یعنی مجھ سے اور تم سے زیادہ ہدایت کا جاننے والا اللہ ہے، اس لیے جو بات اللہ کی طرف سے آئے گی، وہ صحیح ہوگی یا تمہارے اور تمہارے باپ دادوں کی؟۔
**- اچھے انجام سے مراد آخرت میں اللہ کی رضامندی اور اس کی رحمت ومغفرت کا مستحق قرار پا جانا ہے اور یہ استحقاق صرف اہل توحید کے حصے میں آئے گا۔
فرعون کہنے لگا اے درباریو! میں تو اپنے سوا کسی کو تمہارا معبود نہیں جانتا۔ سن اے ہامان! تو میرے لیے مٹی کو آگ سے پکوا* پھر میرے لیے ایک محل تعمیر کر تو میں موسیٰ کے معبود کو جھانک لوں** اسے میں تو جھوٹوں میں سے ہی گمان کر رہا ہوں.***
____________________
* ظالم سے مراد مشرک اور کافر ہیں۔ کیونکہ ظلم کے معنی ہیں ”وَضْعُ الشَّيْءِ فِي غَيْرِ مَحَلِّهِ“ کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی اور جگہ رکھ دینا۔ مشرک بھی چونکہ الوہیت کے مقام پر ایسے لوگوں کو بٹھا دیتے ہیں جو اس کے مستحق نہیں ہوتے۔ اسی طرح کافر بھی رب کے اصل مقام سے ناآشنا ہی رہتے ہیں۔ اس لیے یہ لوگ سب سے بڑے ظالم ہیں اور یہ کامیابی سے یعنی آخرت میں اللہ کی رحمت ومغفرت سے محروم رہیں گے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ دنیا میں خوش حالی اور مال واسباب کی فراوانی حقیقی کامیابی نہیں ہے، اس لیے کہ یہ عارضی کامیابی اہل کفر وشرک کو بھی دنیا میں مل جاتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان سے کامیابی کی نفی فرما رہا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حقیقی کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے نہ کہ دنیا کی چند روزہ عارضی خوش حالی وفراوانی۔
**- یعنی مٹی کو آگ میں تپا کر اینٹیں تیار کر۔ ہامان، فرعون کا وزیر، مشیر اور اس کے معاملات کا انتظام کرنے والا تھا۔
***- یعنی ایک اونچا اور مضبوط محل تیار کر، جس پر چڑھ کر میں آسمان پر یہ دیکھ سکوں کہ وہاں میرے سوا کوئی اور رب ہے؟
****- یعنی موسیٰ (عليه السلام) جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آسمانوں پر رب ہے جو ساری کائنات کا پالنہار ہے، میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔
اس نے اور اس کے لشکروں نے ناحق طریقے پر ملک میں تکبر کیا* اور سمجھ لیا کہ وه ہماری جانب لوٹائے ہی نہ جائیں گے.
____________________
* زمین سے مراد ارض مصر ہے جہاں فرعون حکمران تھا اور استکبار کا مطلب، بغیر استحقاق کے اپنے کو بڑا سمجھنا ہے۔ یعنی ان کے پاس کوئی دلیل ایسی نہیں تھی جو موسیٰ (عليه السلام) کے دلائل ومعجزات کا رد کر سکتی لیکن استکبار بلکہ عدوان کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے ہٹ دھرمی اور انکار کا راستہ اختیار کیا۔
بالﺂخر ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑ لیا اور دریا برد کر دیا*، اب دیکھ لے کہ ان گنہگاروں کا انجام کیسا کچھ ہوا؟
____________________
* یعنی جب ان کا کفروطغیان حد سے بڑھ گیا اور کسی طرح بھی وہ ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوئے تو بالآخر ایک صبح ہم نے انہیں دریا میں غرق کر دیا (جس کی تفصیل سورۂ شعراء میں گزر چکی ہے)۔
اور ہم نے انہیں ایسے امام بنا دیئے کہ لوگوں کو جہنم کی طرف بلائیں* اور روز قیامت مطلق مدد نہ کیے جائیں.
____________________
* یعنی جو بھی ان کے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو اللہ کی توحید یا اس کے وجود کے منکر ہوں گے، تو ان کا امام وپیشوا یہی فرعونی سمجھے جائیں گے جو جہنم کے داعی ہیں۔
اور ہم نے اس دنیا میں بھی ان کے پیچھے اپنی لعنت لگا دی اور قیامت کے دن بھی وه بدحال لوگوں میں سے ہوں گے.*
____________________
* یعنی دنیا میں بھی ذلت ورسوائی ان کا مقدر بنی اور آخرت میں بھی وہ بدحال ہوں گے۔ یعنی چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلگوں۔ جیسا کہ جہنمیوں کے تذکرے میں آتا ہے۔
اور ان اگلے زمانہ والوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسی کتاب عنایت فرمائی* جو لوگوں کے لیے دلیل اور ہدایت ورحمت ہوکر آئی تھی تاکہ وه نصیحت حاصل کرلیں.**
____________________
* یعنی فرعون اور اس کی قوم یا قوم نوح وعاد وثمود وغیرہ کی ہلاکت کے بعد موسیٰ (عليه السلام) کو کتاب (تورات) دی۔
**- جس سے وہ حق کو پہچان لیں اور اسے اختیار کریں اور اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں۔
***- یعنی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور اللہ پر ایمان لائیں اور اس کے پیغمبروں کی اطاعت کریں جو انہیں خیر ورشد اور فلاح حقیقی کی طرف بلاتے ہیں۔
اور طور کے مغربی جانب جب کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم احکام کی وحی پہنچائی تھی، نہ تو تو موجود تھا اور نہ تو دیکھنے والوں میں سے تھا.*
____________________
* یعنی کوہ طور پر جب ہم نے موسیٰ (عليه السلام) سے کلام کیا اور اسے وحی ورسالت سے نوازا، اے محمد! (صلى الله عليه وسلم) تو نہ وہاں موجود تھا اور نہ یہ منظر دیکھنے والوں میں سے تھا۔ بلکہ یہ غیب کی وہ باتیں ہیں جو ہم وحی کے ذریعے سے تجھے بتلا رہے ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ تو اللہ کا سچا پیغمبر ہے۔ کیونکہ نہ تو نے یہ باتیں کسی سے سیکھی ہیں نہ خود ہی ان کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ مضمون اور بھی متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ آل عمران:44 سورہ ھود: 49،100، سورہ یوسف:102 سورہ طہ:99 وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ۔
لیکن ہم نے بہت سی نسلیں پیدا کیں* جن پر لمبی مدتیں گزر گئیں**، اور نہ تو مدین کے رہنے والوں میں سے تھا*** کہ ان کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتا بلکہ ہم ہی رسولوں کے بھیجنے والے رہے.****
____________________
* قُرُونٌ، قَرْنٌ کی جمع ہے، زمانہ۔ لیکن یہاں امتوں کے معنی میں ہے یعنی اے محمد! (صلى الله عليه وسلم) آپ کے اور موسی، (عليه السلام) کے درمیان جو زمانہ ہے اس میں ہم نے کئی امتیں پیدا کیں۔
**- یعنی مرور ایام سے شرائع واحکام بھی متغیر ہوگئے اور لوگ بھی دین کو بھول گئے، جس کی وجہ سے انہوں نے اللہ کے حکموں کو پس پشت ڈال دیا اور اس کے عہد کو فراموش کر دیا اور یوں اس کی ضرورت پیدا ہوگئی کہ ایک نئے نبی کو مبعوث کیا جائے یا یہ مطلب ہے کہ طول زمان کی وجہ سے عرب کے لوگ نبوت ورسالت کو بالکل ہی بھلا بیٹھے، اس لیے آپ کی نبوت پر انہیں تعجب ہورہا ہے اور اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
***- جس سے آپ خود اس واقعے کی تفصیلات سے آگاہ ہو جاتے۔
****- اور اسی اصول سے ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور پچھلے حالات وواقعات سے آپ کو باخبر کر رہے ہیں۔
اور نہ تو طور کی طرف تھا جب کہ ہم نے آواز دی* بلکہ یہ تیرے پروردگار کی طرف سے ایک رحمت ہے**، اس لیے کہ تو ان لوگوں کو ہوشیار کر دے جن کے پاس تجھ سے پہلے کوئی ڈرانے واﻻ نہیں پہنچا***، کیا عجب کہ وه نصیحت حاصل کرلیں.
____________________
* یعنی اگر آپ رسول برحق نہ ہوتے تو موسیٰ (عليه السلام) کے اس واقعے کا علم بھی آپ کو نہ ہوتا۔
**- یعنی آپ کا یہ علم، مشاہدہ و رویت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو نبی بنایا اور وحی سے نوازا۔
***- اس سے مراد، اہل مکہ اور عرب ہیں جن کی طرف نبی (صلى الله عليه وسلم) سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا، کیونکہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے بعد نبوت کا سلسلہ خاندان ابراہیمی ہی میں رہا اور ان کی بعثت بنی اسرائیل کی طرف ہی ہوتی رہی۔ بنی اسماعیل یعنی عربوں میں نبی (صلى الله عليه وسلم) پہلے نبی تھے اور سلسلۂ نبوت کے خاتم تھے۔ ان کی طرف نبی بھیجنے کی ضرورت اس لیے نہیں سمجھی گئی ہوگی کہ دوسرے انبیا کی دعوت اور ان کا پیغام ان کو پہنچتا رہا ہوگا۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کے لیے کفروشرک پر جمے رہنے کا عذر موجود رہے گا اور یہ عذر اللہ نے کسی کے لیے باقی نہیں چھوڑا ہے۔
اگر یہ بات نہ ہوتی کہ انہیں ان کے اپنے ہاتھوں آگے بھیجے ہوئے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچتی تو یہ کہہ اٹھتے کہ اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا؟ کہ ہم تیری آیتوں کی تابعداری کرتے اور ایمان والوں میں سے ہو جاتے.*
____________________
* یعنی ان کے اسی عذر کو ختم کرنے کے لیے ہم نے آپ کو ان کی طرف نبی بنا کر بھیجا ہے۔ کیونکہ طول زمانی کی وجہ سے گزشتہ انبیا کی تعلیمات مسخ اور ان کی دعوت فراموش ہوچکی ہے اور ایسے ہی حالات کسی نئے نبی کی ضرورت کے متقاضی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰ (صلى الله عليه وسلم) کی تعلیمات (قرآن وحدیث) کو مسخ ہونے اور تغییر وتحریف سے محفوظ رکھا ہے اور ایسا تکوینی انتظام فرما دیا ہے جس سے آپ کی دعوت دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی ہے اور مسلسل پہنچ رہی ہے تاکہ کسی نئے نبی کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ اور جو شخص اس (ضرورت) کا دعویٰ کرکے نبوت کا ڈھونگ رچاتا ہے، وہ جھوٹا اور دجال ہے۔
پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آپہنچا تو کہتے ہیں کہ یہ وه کیوں نہیں دیا گیا جیسے دیئے گئے تھے موسیٰ (علیہ السلام)* اچھا تو کیا موسیٰ (علیہ السلام) کو جو کچھ دیا گیا تھا اس کے ساتھ لوگوں نے کفر نہیں کیا تھا**، صاف کہا تھا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ہم تو ان سب کے منکر ہیں.***
____________________
* یعنی حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے سے معجزات، جیسے لاٹھی کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا چمکنا وغیرہ۔
**- یعنی مطلوبہ معجزات، اگر دکھا بھی دیئے جائیں تو کیا فائدہ؟ جنہیں ایمان نہیں لانا ہے، وہ ہر طرح کی نشانیاں دیکھنے کے باوجود بھی ایمان سے محروم ہی رہیں گے۔ کیا موسیٰ (عليه السلام) کے مذکورہ معجزات دیھ کر فرعونی مسلمان ہوگئے تھے، انہوں نے کفر نہیں کیا؟ یا يَكْفُرُوا کی ضمیر قریش مکہ کی طرف ہے یعنی کیا انہوں نے نبوت محمدیہ سے پہلے موسیٰ (عليه السلام) کے ساتھ کفر نہیں کیا؟
***- پہلے مفہوم کے اعتبار سے دونوں سے مراد حضرت موسیٰ وہارون علیہماالسلام ہوں گے اور سِحْرَانِ بمعنی سَاحِرَانِ ہوگا۔ اور دوسرے مفہوم میں اس سے قرآن اور تورات مراد ہوں گے یعنی دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ہم سب کے یعنی موسیٰ (عليه السلام) اور محمد (صلى الله عليه وسلم) کے منکر ہیں۔ (فتح القدیر)
کہہ دے کہ اگر سچے ہو تو تم بھی اللہ کے پاس سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیاده ہدایت والی ہو میں اسی کی پیروی کروں گا.*
____________________
* یعنی اگر تم اس دعوے میں سچے ہو کہ قرآن مجید اور تورات دونوں جادو ہیں، تو تم کوئی اور کتاب الٰہی پیش کر دو، جو ان سے زیادہ ہدایت والی ہو، میں اس کی پیروی کر لوں گا۔ کیونکہ میں تو ہدایت کا طالب اور پیرو ہوں۔
پھر اگر یہ تیری نہ مانیں* تو تو یقین کرلے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہو** بغیر اللہ کی رہنمائی کے، بیشک اللہ تعالیٰ ﻇالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا.***
____________________
* یعنی قرآن وتورات سے زیادہ ہدایت والی کتاب پیش نہ کرسکیں اور یقیناً نہیں کرسکیں گے۔
**- یعنی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہدایت کو چھوڑ کر خواہش نفس کی پیروی کرنا یہ سب سے بڑی گمراہی ہے اور اس لحاظ سے یہ قریش مکہ سب سے بڑے گمراہ ہیں جو اسی حرکت کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
***- اس میں اللہ کی اسی سنت (طریقے) کا بیان ہے جو ظالموں کے لیے اس کے ہاں مقرر ہے کہ وہ ہدایت سے محروم رہتے ہیں۔ اس لیے کہ انبیا کہ تکذیب، آیات الٰہی سے اعراض اور مسلسل کفروعناد ایسا جرم ہے کہ جس سے قبول حق کی استعداد اور اثر پذیری کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد انسان ظلم وعصیان اور کفروشرک کی تاریکیوں میں ہی بھٹکتا پھرتا ہے، اسے ایمان کی روشنی نصیب نہیں ہوتی۔
اور ہم برابر پے درپے لوگوں کے لیے اپنا کلام بھیجتے رہے* تاکہ وه نصیحت حاصل کرلیں.**
____________________
* یعنی ایک رسول کے بعد دوسرا رسول، ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب ہم بھیجتے رہے اور اس طرح مسلسل، لگاتار ہم اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے رہے۔
**- مقصد اس سے یہ تھا کہ لوگ پچھلے لوگوں کے انجام سے ڈر کر اور ہماری باتوں سے نصیحت حاصل کرکے ایمان لے آئیں۔
جس کو ہم نے اس سے پہلے کتاب عنایت فرمائی وه تو اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں.*
____________________
* اس سے مراد وہ یہودی ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے، جیسے عبداللہ بن سلام (رضي الله عنه) وغیرہ۔ یا وہ عیسائی ہیں جو حبشہ سے نبی (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں آئے تھے اور آپ کی زبان مبارک سے قرآن کریم سن کر مسلمان ہوگئے تھے۔ (ابن کثیر)
اور جب اس کی آیتیں ان کے پاس پڑھی جاتی ہیں تو وه کہہ دیتے ہیں کہ اس کے ہمارے رب کی طرف سے حق ہونے پر ہمارا ایمان ہے ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان ہیں.*
____________________
* یہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے جسے قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر دور میں اللہ کے پیغمبروں نے جس دین کی دعوت دی، وہ اسلام ہی تھا او ر ان نبیوں کی دعوت پر ایمان لانے والے مسلمان ہی کہلاتے تھے۔ یہود یا نصاریٰ وغیرہ کی اصطلاحیں لوگوں کی اپنی خود ساختہ ہیں جو بعد میں ایجاد ہوئیں۔ اسی اعتبار سے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) پر ایمان لانے والے اہل کتاب (یہود یا عیسائیوں) نے کہا کہ ہم تو پہلے سے ہی مسلمان چلے آرہے ہیں۔ یعنی سابقہ انبیا کے پیروکار اور ان پر ایمان رکھنے والے ہیں۔
یہ اپنے کیے ہوئے صبر کے بدلے دوہرا دوہرا اجر دیئے جائیں گے*۔ یہ نیکی سے بدی کو ٹال دیتے ہیں** اور ہم نے جو انہیں دے رکھا ہے اس میں سے دیتے رہتے ہیں.
____________________
* صَبْرٌ سے مراد ہر قسم کے حالات میں انبیاء اور کتاب الٰہی پر ایمان اور اس پر ثابت قدمی سے قائم رہنا ہے۔ پہلی کتاب آئی تو اس پر، اس کے بعد دوسری پر ایمان رکھا۔ پہلے نبی پر ایمان لائے، اس کے بعد دوسرا نبی آگیا تو اس پر ایمان لائے۔ ان کے لیے دوہرا اجر ہے، حدیث میں بھی ان کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا، تین آدمیوں کے لیے دوہرا اجر ہے، ان میں ایک وہ اہل کتاب ہے جو اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر مجھ پر ایمان لے آیا۔ (صحيح بخاري، كتاب العلم، باب تعليم الرجل أمته وأهله- مسلم، كتاب الإيمان، باب وجوب الإيمان برسالة نبينا)
**- یعنی برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے، بلکہ معاف کر دیتے اور درگزر سےکام لیتے ہیں۔
اور جب بیہوده بات* کان میں پڑتی ہے تو اس سے کناره کر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے عمل ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم پر سلام ہو**، ہم جاہلوں سے (الجھنا) نہیں چاہتے.
____________________
* یہا ں لغو سے مراد وہ سب وشتم اور دین کے ساتھ استہزا ہے جو مشرکین کرتے تھے۔
**- یہ سلام، سلام تحیہ نہیں بلکہ سلام متارکہ ہے یعنی ہم تم جیسے جاہلوں سے بحث اور گفتگو کے روادار ہی نہیں۔ جیسے اردو میں بھی کہتے ہیں، جاہلوں کو دور ہی سے سلام، ظاہر ہے سلام سے مراد ترک مخاطبت ہی ہے۔
آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے.*
____________________
* یہ آیت اس وقت نازل ہوئی، جب نبی (صلى الله عليه وسلم) کے ہمدرد اور غم گسار چچا جناب ابو طالب کا انتقال ہونے لگا تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے کوشش فرمائی کہ چچا اپنی زبان سے ایک مرتبہ لا إِلَهَ إِلا اللهُ کہہ دیں تاکہ قیامت والے دن میں اللہ سے ان کی مغفرت کی سفارش کرسکوں۔ لیکن وہاں دوسرے روسائے قریش کی موجودگی کی وجہ سے ابو طالب قبول ایمان کی سعادت سے محروم رہے اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہوگیا۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) کو اس بات کا بڑا قلق اور صدمہ تھا۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر نبی (صلى الله عليه وسلم) پر واضح کیا کہ آپ کا کام صرف تبلیغ ودعوت اور رہنمائی ہے۔ لیکن ہدایت کے راستے پر چلا دینا، یہ ہمارا کام ہے، ہدایت اسے ہی ملے گی جسے ہم ہدایت سے نوازنا چاہیں نہ کہ اسے جسے آپ ہدایت پر دیکھنا پسند کریں۔ (صحيح بخاري، تفسير سورة القصص- مسلم، كتاب الإيمان، باب أول الإيمان- قول لا إله إلا الله)
کہنے لگے اگر ہم آپ کے ساتھ ہوکر ہدایت کے تابع دار بن جائیں تو ہم تو اپنے ملک سے اچک لیے جائیں*، کیا ہم نے انہیں امن وامان اور حرمت والے حرم میں جگہ نہیں دی**؟ جہاں تمام چیزوں کے پھل کِھچے چلے آتے ہیں جو ہمارے پاس بطور رزق کے ہیں***، لیکن ان میں سے اکثر کچھ نہیں جانتے.
____________________
* یعنی ہم جہاں ہیں، وہاں ہمیں رہنے نہ دیا جائے گا اور ہمیں اذیتوں سے یا مخالفین سے جنگ وپیکار سے دو چار ہونا پڑے گا۔ یہ بعض کفار نے ایمان نہ لانے کا عذر پیش کیا۔ اللہ نے جواب دیا... ۔
**- یعنی ان کا یہ عذر غیر معقول ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو، جس میں یہ رہتے ہیں، امن والا بنایا ہے۔ جب یہ شہر ان کے کفروشرک کی حالت میں ان کے لیے امن کی جگہ ہے تو کیا اسلام قبول کر لینے کے بعد وہ ان کے لیے امن کی جگہ نہیں رہے گا؟
***- یہ مکے کی وہ خصوصیت ہے جس کا مشاہدہ لاکھوں حاجی اور عمرہ کرنے والے ہر سال کرتے ہیں کہ مکے میں پیداوار نہ ہونے کے باوجود نہایت فراوانی سے ہر قسم کا پھل بلکہ دنیا بھر کا سامان ملتا ہے۔
اور ہم نے بہت سی وه بستیاں تباه کر دیں جو اپنی عیش و عشرت میں اترانے لگی تھیں، یہ ہیں ان کی رہائش کی جگہیں جو ان کے بعد بہت ہی کم آباد کی گئیں* اور ہم ہی ہیں آخر سب کچھ کے وارث.**
____________________
* یہ اہل مکہ کو ڈرایا جارہا ہے کہ تم دیکھتے نہیں کہ اللہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوکر اللہ کی ناشکری کرنے اور سرکشی کرنے والوں کا انجام کیا ہوا؟ آج ان کی بیشتر آبادیاں کھنڈر بنی ہوئی ہیں یا صرف صفحات تاریخ پر ان کا نام رہ گیا ہے۔ اور اب آتے جاتے مسافر ہی ان میں کچھ دیر کے لیےسستا لیں تو سستا لیں، ان کی نحوست کی وجہ سے کوئی بھی ان میں مستقل رہنا پسند نہیں کرتا۔
**- یعنی ان میں سے تو کوئی بھی باقی نہ رہا جو ان کے مکانوں اور مال و دولت کا وارث ہوتا۔
تیرا رب کسی ایک بستی کو بھی اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ ان کی کسی بڑی بستی میں اپنا کوئی پیغمبر نہ بھیج دے جو انہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سنا دے* اور ہم بستیوں کو اسی وقت ہلاک کرتے ہیں جب کہ وہاں والے ﻇلم وستم پر کمر کس لیں.**
____________________
* یعنی اتمام حجت کے بغیر کسی کو ہلاک نہیں کرتا۔ أُمِّهَا (بڑی بستی) کے لفظ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر چھوٹے بڑے علاقے میں نبی نہیں آیا، بلکہ مرکزی مقامات پر نبی آتے رہے اور چھوٹے علاقے اس کے ذیل میں آجاتے رہے ہیں۔
**- یعنی نبی بھیجنے کے بعد وہ بستی والے ایمان نہ لاتے اور کفروشرک پر اپنا اصرار جاری رکھتے تو پھر انہیں ہلاک کر دیا جاتا۔ یہی مضمون سورہ ھود: 117 میں بھی بیان کیا گیا ہے۔
اور تمہیں جو کچھ دیا گیا ہے وه صرف زندگی دنیا کا سامان اور اسی کی رونق ہے، ہاں اللہ کے پاس جو ہے وه بہت ہی بہتر اور دیرپا ہے۔ کیا تم نہیں سمجھتے.*
____________________
* یعنی کیا اس حقیقت سے بھی تم بےخبر ہو کہ یہ دنیا اور اس کی رونقیں عارضی بھی ہیں اور حقیر بھی، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے اپنے پاس جو نعمتیں، آسائشیں اور سہولتیں تیار کر رکھی ہیں، وہ دائمی بھی ہیں اور عظیم بھی۔ حدیث میں ہے ”اللہ کی قسم دنیا، آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبو کر نکال لے، دیکھے کہ سمندر کے مقابلے میں انگلی میں کتنا پانی ہوگا؟“ (صحيح مسلم، كتاب الجنة، باب فناء الدنيا وبيان الحشر)
کیا وه شخص جس سے ہم نے نیک وعده کیا ہے جسے وه قطعاً پانے واﻻ ہے مثل اس شخص کے ہوسکتا ہے؟ جسے ہم نے زندگانیٴ دنیا کی کچھ یونہی سی منفعت دے دی پھر بالﺂخر وه قیامت کے روز پکڑا باندھا حاضر کیا جائے گا.*
____________________
* یعنی سزا اور عذاب کا مستحق ہوگا۔ مطلب ہے اہل ایمان، وعدہ الٰہی کے مطابق نعمتوں سے بہرہ ور اور نافرمان عذاب سے دوچار۔ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟
اور جس دن اللہ تعالیٰ انہیں پکار کر فرمائے گا کہ تم جنہیں اپنے گمان میں میرا شریک ٹھہرا رہے تھے کہاں ہیں.*
____________________
* یعنی وہ اصنام یا اشخاص ہیں، جن کو تم دنیا میں میری الوہیت میں شریک گردانتے تھے، انہیں مدد کے لیے پکارتے تھے اور ان کے نام کی نذر نیاز دیتے تھے، آج کہاں ہیں؟ کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے اور تمہیں میرے عذاب سے چھڑا سکتے ہیں؟ یہ تقریع وتوبیخ کے طور پر اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا، ورنہ وہاں اللہ کے سامنے کس کو مجال دم زدنی ہوگی؟ یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت 194 اور دیگر بہت سے مقامات پر بیان فرمایا ہے۔
جن پر بات آچکی وه جواب دیں گے* کہ اے ہمارے پروردگار! یہی وه ہیں جنہیں ہم نے بہکا رکھا تھا**، ہم نے انہیں اسی طرح بہکایا جس طرح ہم بہکے تھے***، ہم تیری سرکار میں اپنی دست برداری کرتے ہیں****، یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے.*****
____________________
* یعنی جو عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا چکے ہوں گے، مثلاً سرکش شیاطین اور داعیان کفروشرک وغیرہ، وہ کہیں گے۔
**- یہ ان جاہل عوام کی طرف اشارہ ہے جن کو داعیان کفر وضلال نے اور شیاطین نے گمراہ کیا تھا۔
***- یعنی ہم تو تھے ہی گمراہ لیکن ان کو بھی اپنے ساتھ گمراہ کیے رکھا۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نےان پر کوئی جبر نہیں کیا تھا، بس ہمارے ادنیٰ سے اشارے پر ہماری طرح ہی انھوں نے بھی گمراہی اختیار کر لی۔
****- یعنی ہم ان سے بیزار اور الگ ہیں، ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہاں یہ تابع اور متبوع، چیلے اور گرو ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔
*****- بلکہ درحقیقت اپنی ہی خواہشات کی پیروی کرتے تھے۔ یعنی وہ معبودین، جن کی لوگ دنیا میں عبادت کرتے تھے، اس بات سے ہی انکار کر دیں گے کہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلا ً سورة الأنعام: 49 سورة مريم: 82،81، سورة الأحقاف: 5-6، سورة العنكبوت:25 سورة القمر: 167-166 وغيرها من الآيات۔
کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ*، وه بلائیں گے لیکن انہیں وه جواب تک نہ دیں گے اور سب عذاب دیکھ لیں گے**، کاش یہ لوگ ہدایت پا لیتے.***
____________________
* یعنی ان سے مدد طلب کرو، جس طرح دنیا میں کرتے تھے۔ کیا وہ تمہاری مدد کرتے ہیں؟ پس وہ پکاریں گے۔ لیکن وہاں کس کو یہ جرات ہوگی کہ جو یہ کہے کہ ہاں ہم تمہاری مدد کرتے ہیں؟
**- یعنی یقین کرلیں گے کہ ہم سب جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔
***- یعنی عذاب دیکھ لینے کے بعد آرزو کریں گے کہ کاش دنیا میں ہدایت کا راستہ اپنا لیتے تو آج وہ اس حشر سے بچ جاتے۔ سورۃ الکہف: 53-52 میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔
اس دن انہیں بلا کر پوچھے گا کہ تم نے نبیوں کو کیا جواب دیا؟*
____________________
* اس سے پہلے کی آیات میں توحید سے متعلق سوال تھا، یہ ندائے ثانی رسالت کے بارے میں ہے، یعنی تمہاری طرف ہم نے رسول بھیجے تھے، تم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا، ان کی دعوت قبول کی تھی؟ جس طرح قبر میں سوال ہوتا ہے، تیرا پیغمبر کون ہے؟ اور تیرا دین کون سا ہے؟ مومن تو صحیح جواب دے دیتا ہے۔ لیکن کافر کہتا ہے هَاهْ هَاهْ لا أَدْرِي مجھے تو کچھ معلوم نہیں، اسی طرح قیامت والے دن انہیں اس سوال کا کوئی جواب نہیں سوجھے گا۔ اسی لیے آگے فرمایا ”ان پر تمام خبریں اندھی ہو جائیں گی“۔ یعنی کوئی دلیل ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی جسے وہ پیش کرسکیں۔ یہاں دلائل کو اخبار سے تعبیر کرکے اس طرف اشارہ فرما دیا کہ ان کے باطل عقائد کے لیے حقیقت میں ان کے پاس کوئی دلیل ہے ہی نہیں، صرف قصص وحکایات ہیں۔ جیسے آج بھی قبر پرستوں کے پاس من گھڑت کراماتی قصوں کے سوا کچھ نہیں۔
پھر تو اس دن ان کی تمام دلیلیں گم ہو جائیں گی اور ایک دوسرے سے سوال تک نہ کریں گے.*
____________________
* کیونکہ انہیں یقین ہوچکا ہوگا کہ سب جہنم میں داخل ہونے والے ہیں۔
ہاں جو شخص توبہ کرلے ایمان لے آئے اور نیک کام کرے یقین ہے کہ وه نجات پانے والوں میں سے ہو جائے گا.
اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے، ان میں سے کسی کو کوئی اختیار نہیں*، اللہ ہی کے لیے پاکی ہے وه بلند تر ہے ہر اس چیز سے کہ لوگ شریک کرتے ہیں.
____________________
* یعنی اللہ تعالیٰ مختار کل ہے۔ اس کے مقابلے میں کسی کو سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں، چہ جائیکہ کوئی مختار کل ہو۔
ان کے سینے جو کچھ چھپاتے اور جو کچھ ﻇاہر کرتے ہیں آپ کا رب سب کچھ جانتا ہے.
وہی اللہ ہے اس کے سوا کوئی ﻻئق عبادت نہیں، دنیا اور آخرت میں اسی کی تعریف ہے۔ اسی کے لیے فرمانروائی ہے اور اسی کی طرف تم سب پھیرے جاؤ گے.
کہہ دیجئے! کہ دیکھو تو سہی اگر اللہ تعالیٰ تم پر رات ہی رات قیامت تک برابر کر دے تو سوائے اللہ کے کون معبود ہے جو تمہارے پاس دن کی روشنی ﻻئے؟ کیا تم سنتے نہیں ہو؟
پوچھئے! کہ یہ بھی بتا دو کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ قیامت تک دن ہی دن رکھے تو بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی معبود ہے جو تمہارے پاس رات لے آئے؟ جس میں تم آرام حاصل کرو، کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو؟
اسی نے تو تمہارے لیے اپنے فضل وکرم سے دن رات مقرر کر دیے ہیں کہ تم رات میں آرام کرو اور دن میں اس کی بھیجی ہوئی روزی تلاش کرو*، یہ اس لیے کہ تم شکر ادا کرو.**
____________________
* دن اور رات، یہ دونوں اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ رات کو تاریک بنایا تاکہ سب لوگ آرام کرسکیں۔ اس اندھیرے کی وجہ سے ہر مخلوق سونے اور آرام کرنے پر مجبور ہے۔ ورنہ اگر آرام کرنے اور سونے کے اپنے اپنے اوقات ہوتے تو کوئی بھی مکمل طریقے سے سونے کا موقع نہ پاتا، جب کہ معاشی تگ ودو اور کاروبار جہاں کے لیے نیند کا پورا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر توانائی بحال نہیں ہوتی۔ اگر کچھ لوگ سو رہے ہوتے اور کچھ جاگ کر مصروف تگ وتاز ہوتے، تو سونے والوں کے آرام وراحت میں خلل پڑتا، نیز لوگ ایک دوسرے کے تعاون سے بھی محروم رہتے، جب کہ دنیا کا نظام ایک دوسرے کے تعاون وتناصر کا محتاج ہے اس لیے اللہ نے رات کو تاریک کر دیا تاکہ ساری مخلوق بیک وقت آرام کرے اور کوئی کسی کی نیند اور آرام میں مخل نہ ہوسکے۔ اسی طرح دن کو روشن بنایا تاکہ روشنی میں انسان اپنا کاروبار بہتر طریقے سے کرسکے۔ دن کی یہ روشنی نہ ہوتی تو انسان کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا، اسے ہر شخص بآسانی سمجھتا اور اس کا ادراک رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی ان نعمتوں کے حوالے سے اپنی توحید کا اثبات فرمایا ہے کہ بتلاؤ اگر اللہ تعالیٰ دن اور رات کا یہ نظام ختم کرکے ہمیشہ کے لیے تم پر رات ہی مسلط کر دے۔ تو کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ایسا ہے جو تمہیں دن کی روشنی عطا کر دے؟ یا اگر وہ ہمیشہ کے لیے دن ہی دن رکھے تو کیا کوئی تمہیں رات کی تاریکی سے بہرہ ور کرسکتا ہے، جس میں تم آرام کرسکو؟ نہیں۔ یقیناً نہیں۔ یہ صرف اللہ کی کمال مہربانی ہے کہ اس نے دن اور رات کا ایسا نظام قائم کر دیا ہے کہ رات آتی ہے تو دن کی روشنی ختم ہو جاتی ہے اور تمام مخلوق آرام کر لیتی ہے اور رات جاتی ہے تو دن کی روشنی سے کائنات کی ہر چیز نمایاں اور واضح تر ہو جاتی ہے اور انسان کسب ومحنت کے ذریعے سے اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرتا ہے۔
**- یعنی اللہ کی حمدوثنا بھی بیان کرو (یہ زبانی شکر ہے) اور اللہ کی دی ہوئی دولت، صلاحیتوں اور توانائیوں کو اس کے احکام وہدایات کے مطابق استعمال کرو۔ (یہ عملی شکر ہے)
اور جس دن انہیں پکار کر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جنہیں تم میرے شریک خیال کرتے تھے وه کہاں ہیں؟
اور ہم ہر امت میں سے ایک گواه الگ کرلیں* گے کہ اپنی دلیلیں پیش کرو** پس اس وقت جان لیں گے کہ حق اللہ تعالیٰ کی طرف ہے***، اور جو کچھ افترا وه جوڑتے تھے سب ان کے پاس سے کھو جائے گا.****
____________________
* اس گواہ سے مراد پیغمبر ہے۔ یعنی ہر امت کے پیغمبر کو اس امت سے الگ کھڑا کر دیں گے۔
**- یعنی دنیا میں میرے پیغمبروں کی دعوت توحید کے باوجود تم جو میرے شریک ٹھہراتے تھے اور میرے ساتھ ان کی بھی عبادت کرتے تھے، اس کی دلیل پیش کرو۔
***- یعنی وہ حیران اور ساکت کھڑے ہوں گے، کوئی جواب اور دلیل انہیں نہیں سوجھے گی۔
****- یعنی ان کے کام نہیں آئے گا۔
قارون تھا تو قوم موسیٰ سے، لیکن ان پر ﻇلم کرنے لگا تھا* ہم نے اسے (اس قدر) خزانے دے رکھے تھے کہ کئی کئی طاقت ور لوگ بہ مشکل اس کی کنجیاں اٹھا سکتے تھے**، ایک بار اس کی قوم نے اس سے کہا کہ اترا مت***! اللہ تعالیٰ اترانے والوں سے محبت نہیں رکھتا.****
____________________
* اپنی قوم بنی اسرائیل پر اس کا ظلم یہ تھا کہ اپنے مال ودولت کی فراوانی کی وجہ سے ان کا استخفاف کرتا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ فرعون کی طرف سے یہ اپنی قوم بنی اسرائیل پر عامل مقرر تھا اور ان پر ظلم کرتا تھا۔
**- تَنُوءُ کے معنی ہیں تَمِيلُ (جھکنا) یعنی جس طرح کوئی شخص بھاری چیز اٹھاتا ہے تو بوجھ کی وجہ سے ادھر ادھر لڑکھڑاتا ہے، اس کی چابیوں کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ ایک طاقت ور جماعت بھی اسے اٹھاتے ہوئے دقت اور گرانی محسوس کرتی تھی۔
***- یعنی مال ودولت پر فخر اور غرور مت کرو، بعض نے بخل، معنی کیے ہیں، بخل مت کر۔
****- یعنی تکبر اور غرور کرنے والوں کو یا بخل کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
اور جو کچھ اللہ تعالی نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ* اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول** اور جیسے کہ اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر*** اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو****، یقین مان کہ اللہ مفسدوں کو ناپسند رکھتا ہے.
____________________
* یعنی اپنے مال کو ایسی جگہوں اور راہوں پر خرچ کر، جہاں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے، اس سے تیری آخرت سنورے گی اور وہاں اس کا تجھے اجر وثواب ملے گا۔
**- یعنی دنیا کے مباحات پر بھی اعتدال کے ساتھ خرچ کر۔ مباحات دنیا کیا ہیں؟ کھانا پینا، لباس، گھر اور نکاح وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح تجھ پر تیرے رب کا حق ہے، اسی طرح تیرے اپنے نفس کا، بیوی بچوں کا اور مہمانوں وغیرہ کا بھی حق ہے، ہر حق والے کو اس کا حق دے۔
***- اللہ نے تجھے مال دے کر تجھ پر احسان کیا ہے تو مخلوق پر خرچ کرکے ان پر احسان کر۔
****- یعنی تیرا مقصد زمین میں فساد پھیلانا نہ ہو۔ اسی طرح مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کے بجائے بدسلوکی مت کر، نہ معصیتوں کا ارتکاب کر کہ ان تمام باتوں سے فساد پھیلتا ہے۔
قارون نے کہا یہ سب کچھ مجھے میری اپنی سمجھ کی بنا پر ہی دیا گیا ہے*، کیا اسے اب تک یہ نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سے بستی والوں کو غارت کر دیا جو اس سے بہت زیاده قوت والے اور بہت بڑی جمع پونجی والے تھے**۔ اور گنہگاروں سے ان کے گناہوں کی باز پرس ایسے وقت نہیں کی جاتی.***
____________________
* ان نصیحتوں کے جواب میں اس نے یہ کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے کسب وتجارت کا جو فن آتا ہے، یہ دولت تو اس کا نتیجہ اور ثمر ہے، اللہ کے فضل وکرم سے اس کا کیا تعلق ہے؟ دوسرے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ اللہ نے مجھے یہ مال دیا ہے تو اس نے اپنے علم کی وجہ سے دیا ہے کہ میں اس کا مستحق ہوں اور میرے لیے اس نے یہ پسند کیا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر انسانوں کا ایک اور قول اللہ نے نقل فرمایا ہے (جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی نعمت سے نواز دیتے ہیں تو کہتا ہے «إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ» (القصص۔ 78) أَيْ: عَلَى عِلْمٍ مِنَ اللهِ یعنی ”مجھے یہ نعمت اس لیے ملی ہے کہ اللہ کے علم میں میں اس کا مستحق تھا“۔ ایک مقام پر ہے جب ہم انسان پر تکلیف کے بعد اپنی رحمت کرتے ہیں تو کہتا ہے هَذَا لِي (حم السجدة: 50) أَيْ: هَذَا أَسْتَحِقُّهُ یہ تو میرا استحقاق ہے (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں کہ قارون کو کیمیا (سونا بنانے کا) علم آتا تھا، یہاں یہی مراد ہے اسی کیمیا گری سے اس نے اتنی دولت کمائی تھی۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ علم سراسر جھوٹ، فریب اور دھوکہ ہے۔ کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کی ماہیت تبدیل کر دے۔ اس لیے قارون کے لیے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ دوسری دھاتوں کو تبدیل کر کے سونا بنا لیا کرتا اور اس طرح دولت کے انبار جمع کر لیتا۔
**- یعنی قوت اور مال کی فراوانی، یہ فضیلت کا باعث نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پچھلی قومیں تباہ وبرباد نہ ہوتیں۔ اس لیے قارون کا اپنی دولت پر گھمنڈ کرنے اور اسے باعث فضیلت گرداننے کا کوئی جواز نہیں۔
***- یعنی جب گناہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوں کہ ان کی وجہ سے وہ مستحق عذاب قرار دے دیئے گئے ہوں تو پھر ان سے باز پرس نہیں ہوتی، بلکہ اچانک ان کا مواخذہ کر لیا جاتا ہے۔
پس قارون پوری آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے مجمع میں نکلا*، تو دنیاوی زندگی کے متوالے کہنے لگے** کاش کہ ہمیں بھی کسی طرح وه مل جاتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ یہ تو بڑا ہی قسمت کا دھنی ہے.
____________________
* یعنی زینت وآرائش اور خدم وحشم کے ساتھ۔
**- یہ کہنے والے کون تھے؟ بعض کے نزدیک ایمان والے ہی تھے جو اس کی امارت وشوکت کے مظاہر سے متاثر ہوگئے تھے اور بعض کے نزدیک کافر تھے۔
ذی علم لوگ انہیں سمجھانے لگے کہ افسوس! بہتر چیز تو وه ہے جو بطور ﺛواب انہیں ملے گی جو اللہ پر ایمان ﻻئیں اور نیک عمل کریں* یہ بات انہی کے** دل میں ڈالی جاتی ہے جو صبر وسہارا والے ہوں.
____________________
* یعنی جن کے پاس دین کا علم تھااور دنیا اور اس کے مظاہر کی اصل حقیقت سے باخبر تھے، انہوں نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ اللہ نے اہل ایمان اور اعمال صالح بجا لانے والوں کے لیے جو اجر وثواب رکھا ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ جیسے حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :”میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور نہ کسی کے وہم وگمان میں ان کا گزر ہوا“۔ (البخاري، كتاب التوحيد، باب قول الله تعالى يريدون أن يبدلوا كلام الله، ومسلم، كتاب الإيمان، باب أدنى أهل الجنة منزلة)
**- یعنی يُلَقَّاهَا میں ”ھا“ کا مرجع، کلمہ ہے اور یہ قول اللہ کا ہے۔ اور اگر اسے اہل علم ہی کے قول کا تتمہ قرار دیا جائے تو ھا کا مرجع جنت ہوگی یعنی جنت کے مستحق وہ صابر ہی ہوں گے جو دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش اور آخرت کی زندگی میں رغبت رکھنے والے ہوں گے۔
(آخرکار) ہم نے اسے اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا* اور اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کی مدد کے لیے تیار نہ ہوئی نہ وه خود اپنے بچانے والوں میں سے ہو سکا.
____________________
* یعنی قارون کو اس کے تکبر کی وجہ سے اس کے محل اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”ایک آدمی اپنی ازار زمین میں لٹکائے جارہا تھا (اللہ کو اس کا یہ تکبر پسند نہیں آیا) اور اسے زمین میں دھنسا دیا گیا، پس وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا“ (البخاري، كتاب اللباس، باب من جر ثوبه من الخيلاء)
اور جو لوگ کل اس کے مرتبہ پر پہنچنے کی آرزو مندیاں کر رہے تھے وه آج کہنے لگے کہ کیا تم نہیں دیکھتے* کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہے روزی کشاده کر دیتا ہے اور تنگ بھی؟ اگر اللہ تعالیٰ ہم پر فضل نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا**، کیا دیکھتے نہیں ہو کہ ناشکروں کو کبھی کامیابی نہیں ہوتی؟***
____________________
* مکان سے مراد وہ دنیاوی مرتبہ ومنزلت ہے جو دنیا میں کسی کو عارضی طور پر ملتا ہے۔ جیسے قارون کو ملا تھا، امس، گزشتہ کل کو کہتے ہیں۔ مطلب زمانہ قریب ہے۔ وَيْكَأَنَّ، اصل میں ”وَيْلَكَ اعْلَمْ أَنَّ“ ہے اس کو مخفف کرکے وَيْكَأَنَّ، بنا دیا گیا ہے، یعنی وَيْكَ أَنَّ۔ یعنی افسوس یا تعجب ہے، تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ.... بعض کے نزدیک یہ أَلَمْ تَرَ کے معنی میں ہے، (ابن کثیر) جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قارون کی سی دولت وحشمت کی آرزو کرنے والوں نے جب قارون کا عبرت ناک حشر دیکھا تو کہا کہ مال و دولت، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس صاحب مال سے راضی بھی ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو مال زیادہ دے دیتا ہے اور کسی کو کم۔ اس کا تعلق اس کی مشیت اور حکمت بالغہ سے ہے جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، مال کی فراوانی اس کی رضا کی اور مال کی کمی اس کی ناراضی کی دلیل نہیں ہے نہ یہ معیار فضیلت ہی ہے۔
**- یعنی ہم بھی اسی حشر سے دوچار ہوتے جس سے قارون دو چار ہوا۔
***- یعنی قارون نے دولت پاکر شکر گزاری کے بجائے ناشکری اور معصیت کا راستہ اختیار کیا تو دیکھ لو اس کا انجام بھی کیسا ہوا؟ دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو۔
آخرت کا یہ بھلا گھر ہم ان ہی کے لیے مقرر کر دیتے ہیں جو زمین میں اونچائی بڑائی اور فخر نہیں کرتے نہ فساد کی چاہت رکھتے ہیں۔ پرہیزگاروں کے لیے نہایت ہی عمده انجام ہے.*
____________________
* عُلُوٌّ کا مطلب ہے ظلم وزیادتی، لوگوں سے اپنے کو بڑا اور برتر سمجھنا اور باور کرانا، تکبر اور فخر وغرور کرنا اور فساد کے معنی ہیں ناحق لوگوں کا مال ہتھیانا یا نافرمانیوں کا ارتکاب کرنا کہ ان دونوں باتوں سے زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ فرمایا کہ متقین کا عمل واخلاق ان برائیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہوتا ہے اور تکبر کے بجائے ان کے اندر تواضع، فروتنی اور معصیت کیشی کی بجائے اطاعت کیشی ہوتی ہے اور آخرت کا گھر یعنی جنت اور حسن انجام انہی کے حصے میں آئے گا۔
جو شخص نیکی ﻻئے گا اسے اس سے بہتر ملے گا* اور جو برائی لے کر آئے گا تو ایسے بداعمالی کرنے والوں کو ان کے انہی اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو وه کرتے تھے.**
____________________
* یعنی کم ازکم ہر نیکی کا بدلہ دس گنا تو ضرور ہی ملے گا، اور جس کے لیے اللہ چاہے گا، اس سے بھی زیادہ، کہیں زیادہ، عطا فرمائے گا۔
**- یعنی نیکی کا بدلہ تو بڑھا چڑھا کر دیا جائے گا لیکن برائی کا بدلہ برائی کے برابر ہی ملے گا۔ یعنی نیکی کی جزا میں اللہ کے فضل وکرم کا اور بدی کی جزا میں اس کے عدل کا مظاہرہ ہوگا۔
جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے* وه آپ کو دوباره پہلی جگہ ﻻنے واﻻ ہے**، کہہ دیجئے! کہ میرا رب اسے بھی بخوبی جانتا ہے جو ہدایت ﻻیا ہے اور اسے بھی جو کھلی گمراہی میں ہے.***
____________________
* یا اس کی تلاوت اور اس کی تبلیغ ودعوت آپ پر فرض کی ہے۔
**- یعنی آپ کے مولد مکہ، جہاں سے آپ نکلنے پر مجبور کر دیئے گئے تھے۔ حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) سے صحیح بخاری میں اس کی یہی تفسیر نقل ہوئی ہے۔ چنانچہ ہجرت کے آٹھ سال بعد اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوگیا اور آپ 8 ہجری میں فاتحانہ طور پر مکے میں دوبارہ تشریف لے گئے۔ بعض نے معاد سے مراد قیامت لی ہے۔ یعنی قیامت والے دن آپ کو اپنی طرف لوٹائے گا اور تبلیغ رسالت کے بارے میں پوچھے گا۔
***- یہ مشرکین کے اس جواب میں ہے جو وہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کو ان کے آبائی اور روایتی مذہب سے انحراف کی بنا پر گمراہ سمجھتے تھے۔ فرمایا میرا رب خوب جانتا ہے کہ گمراہ میں ہوں، جو اللہ کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہوں یا تم ہو، جو اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو قبول نہیں کر رہے ہو؟
آپ کو تو کبھی اس کا خیال بھی نہ گزرا تھا کہ آپ کی طرف کتاب نازل فرمائی جائے گی* لیکن یہ آپ کے رب کی مہربانی سے اترا**۔ اب آپ کو ہرگز کافروں کا مددگار نہ ہونا چاہیئے.***
____________________
* یعنی نبوت سے قبل آپ کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ آپ کو رسالت کے لیے چنا جائے گا اور آپ پر کتاب الٰہی کا نزول ہوگا۔
**- یعنی یہ نبوت وکتاب سے سرفرازی، اللہ کی خاص رحمت کا نتیجہ ہے جو آپ پر ہوئی۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ نبوت کوئی کسبی چیز نہیں ہے، جسے محنت اور سعی وکاوش سے حاصل کیا جاسکتا رہا ہو۔ بلکہ یہ سراسر ایک وہبی چیز تھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا رہا، نبوت ورسالت سے مشرف فرماتا رہا۔ حتیٰ کہ حضرت محمد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کو اس سلسلہ الذہب کی آخری کڑی قرار دے کر اسے موقوف فرما دیا گیا۔
***- اب اس نعمت اور فضل الٰہی کا شکر آپ اس طرح ادا کریں کہ کافروں کی مدد اور ہمنوائی نہ کریں۔
خیال رکھیئے کہ یہ کفار آپ کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تبلیﻎ سے روک نہ دیں* اس کے بعد کہ یہ آپ کی جانب اتاری گئیں، تو اپنے رب کی طرف بلاتے رہیں اور شرک کرنے والوں میں سے نہ ہوں.
____________________
* یعنی ان کافروں کی باتیں، ان کی ایذا رسانی اور ان کی طرف سے تبلیغ ودعوت کی راہ میں رکاوٹیں، آپ کو قرآن کی تلاوت اور اس کی تبلیغ سے نہ روک دیں۔ بلکہ آپ پوری تن دہی اور یکسوئی سے رب کی طرف بلانے کا کام کرتے رہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارنا* بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی اور معبود نہیں، ہر چیز فنا ہونے والی ہے مگر اسی کا منھ **(اور ذات) ۔ اسی کے لیے فرمانروائی ہے*** اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے.****
____________________
* یعنی کسی اور کی عبادت نہ کرنا، نہ دعا کے ذریعے سے، نہ نذر ونیاز کے ذریعے سے، نہ ہی قربانی کے ذریعے سے کہ یہ سب عبادات ہیں جو صرف ایک اللہ کے لیے خاص ہیں۔ قرآن میں ہر جگہ غیر اللہ کی عبادت کو پکارنے سے تعبیر کیا گیا ہے، جس سے مقصود اسی نکتے کی وضاحت ہے کہ غیر اللہ کو مافوق الاسباب طریقے سے پکارنا، ان سے استمداد واستغاثہ کرنا، ان سے دعائیں اور التجائیں کرنا یہ ان کی عبادت ہی ہے جس سے انسان مشرک بن جاتا ہے۔
**- وَجْهَهُ (اس کا منہ) سے مراد اللہ کی ذات ہے جو وجہ (چہرہ) سے متصف ہے۔ یعنی اللہ کے سوا ہر چیز ہلاک اور فنا ہو جانے والی ہے۔ «كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ، وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ» (الرحمن۔ 26- 27)
***- یعنی اسی کا فیصلہ، جو وہ چاہے، نافذ ہوتا ہے اور اسی کا حکم، جس کا وہ ارادہ کرے، چلتا ہے۔
****- تاکہ وہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا اور بدوں کو ان کی بدیوں کی سزا دے۔
Icon