ﰡ
____________________
* آیت میں تقویٰ پر مداومت اور تبلیغ ودعوت سے استقامت کا حکم ہے۔ طلق بن حبیب کہتے ہیں، تقویٰ کا مطلب ہے کہ تو اللہ کی اطاعت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق کرے اور اللہ سے ثواب کی امید رکھے اور اللہ کی معصیت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق ترک کر دے، اللہ کےعذاب سے ڈرتے ہوئے۔ (ابن کثیر)
**- پس وہی اس بات کا حق دار ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اس لئے کہ عواقب کو وہی جانتا ہے اور اپنے اقوال وافعال میں وہ حکیم ہے۔
____________________
* یعنی قرآن کی اور احادیث کی بھی، اس لئے کہ احادیث کے الفاظ گو نبی (صلى الله عليه وسلم) کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہیں لیکن ان کے معانی ومفاہیم من جانب اللہ ہی ہیں۔ اسی لئے ان کو وحی خفی یا وحی غیر متلو کہا جاتا ہے۔
**- پس اس سے تمہاری کوئی بات مخفی نہیں رہ سکتی۔
____________________
- اپنے تمام معاملات اور احوال میں۔
**- ان لوگوں کے لئے جو اس پر بھروسہ رکھتے، اور اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
____________________
* بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک منافق یہ دعویٰ کرتا تھا کہ اس کے دو دل ہیں۔ ایک دل مسلمانوں کے ساتھ ہے اور دوسرا دل کفر اور کافروں کے ساتھ ہے۔ (مسند احمد ا / 267) یہ آیت اس کی تردید میں نازل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک دل میں اللہ کی محبت اور اس کے دشمنوں کی اطاعت جمع ہو جائے۔ بعض کہتے ہیں کہ مشرکین مکہ میں سے ایک شخص جمیل بن معمر فہری تھا، جو بڑا ہشیار، مکار اور نہایت تیز طرار تھا، اس کا دعویٰ تھا کہ میرے تو دو دل ہیں جن سے میں سوچتا سمجھتا ہوں۔ جب کہ محمد (صلى الله عليه وسلم) کا ایک ہی دل ہے۔ یہ آیت اس کے رد میں نازل ہوئی۔ (ایسر التفاسیر) بعض مفسرین کہتے ہیں کہ آگے جو دو مسئلے بیان کیے جا رہے ہیں، یہ ان کی تمہید ہے یعنی جس طرح ایک شخص کے دو دل نہیں ہو سکتے، اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کر لے یعنی یہ کہہ دے کہ تیری پشت میرے لئے ایسے ہی ہے جیسے میری ماں کی پشت۔ تو اس طرح کہنے سے اس کی بیوی، اس کی ماں نہیں بن جائے گی۔ یوں اس کی دو مائیں نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح کوئی شخص کسی کو اپنا بیٹا (لے پالک) بنالے تو وہ اس کا حقیقی بیٹا نہیں بن جائے گا، بلکہ وہ بیٹا تو اپنے باپ ہی کا رہے گا، اس کے دو باپ نہیں ہو سکتے۔ (ابن کثیر)۔
**- یہ مسئلۂ ظہار کہلاتا ہے، اس کی تفصیل سورۂ مجادلہ میں آئے گی۔
***- اس کی تفصیل اسی سورت میں آگے چل کر آئے گی۔ أَدْعِياءُ، دَعِيٌّ کی جمع ہے۔ منہ بولا بیٹا۔
****- یعنی کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جائے گی، نہ بیٹا کہنے سے وہ بیٹا بن جائے گا، یعنی ان پر امومت اور بنوت کے شرعی احکام جاری نہیں ہوں گے۔
*****- اس لئے اس کا اتباع کرو اور ظہار والی عورت کو ماں اور لے پالک کو بیٹا مت کہو، خیال رہے کہہ کسی کو پیار اور محبت میں بیٹا کہنا اور بات ہے اور لے پالک کو حقیقی بیٹا تصور کرکے بیٹا کہنا اور بات ہے۔ پہلی بات جائز ہے، یہاں مقصود دوسری بات کی ممانعت ہے۔
____________________
* اس حکم سے اس رواج کی ممانعت کر دی گئی جو زمانۂ جاہلیت سے چلا آرہا تھا اور ابتدائے اسلام میں بھی رائج تھا کہ لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ صحابہ کرام (رضي الله عنهم) بیان فرماتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ ! کو (جنہیں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ) نے آزاد کرکے بیٹا بنا لیا تھا) زید بن محمد ( (صلى الله عليه وسلم) ) کہہ کر پکارﺗے تھے، حتیٰ کہ قرآن کریم کی آیت ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ نازل ہوگئی۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ الاحزاب) اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابو حذیفہ ! کے گھر میں بھی ایک مسئلہ پیدا ہو گیا، جنہوں نے سالم کو بیٹا بنایا ہوا تھا جب منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھنے سے روک دیا گیا تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہوگیا نبی (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت ابو حذیفہ ! کی بیوی کو کہا کہ اسےدودھ پلا کر اپنا رضاعی بیٹا بنالو کیونکہ اس طرح تم اس پر حرام ہو جاؤ گی۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ (صحيح مسلم، كتاب الرضاع، باب رضاعة الكبير، أبو داود، كتاب النكاح، باب فيمن حرم به)۔
**- یعنی جن کے حقیقی باپوں کا علم ہے، اب دوسری نسبت ختم کرکے انہیں کی طرف انہیں منسوب کرو، البتہ جن کے باپوں کا علم نہ ہو سکے تو تم انہیں اپنا بھائی اور دوست سمجھو، بیٹا مت سمجھو۔
***- اس لئے کہ خطا ونسیان معاف ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی صراحت ہے۔
****- یعنی جو جان بوجھ کر غلط انتساب کرے گا، وہ سخت گناہ گار ہوگا۔ حدیث میں آتاہے۔ جس نے جانتے بوجھتے اپنے کو غیر باپ کی طرف منسوب کیا۔ اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔ (صحيح بخاري، كتاب المناقب، باب، نسبة اليمن إلى إسماعيل عليه السلام)
____________________
* نبی (صلى الله عليه وسلم) اپنی امت کے لئے جتنے شفیق اور خیر خواہ تھے، محتاج وضاحت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کی اس شفقت اور خیر خواہی کو دیکھتے ہوئے اس آیت میں آپ (صلى الله عليه وسلم) کو مومنوں کے اپنے نفسوں سے بھی زیادہ حق دار، آپ (صلى الله عليه وسلم) کی محبت کو دیگر تمام محبتوں سے فائق تر اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کے حکم کو اپنی تمام خواہشات سے اہم تر قرار دیا ہے۔ اس لئے مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) ان کے جن مالوں کا مطالبہ۔ اللہ کے لئے کریں، وہ آپ (صلى الله عليه وسلم) پر نچھاور کر دیں چاہے انہیں خود کتنی ہی ضرورت ہو، آپ (صلى الله عليه وسلم) سے اپنے نفسوں سے بھی زیادہ محبت کریں۔ (جیسے حضرت عمر ! کا واقعہ ہے) آپ (صلى الله عليه وسلم) کے حکم کو سب پر مقدم اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کی اطاعت کو سب سے اہم سمجھیں۔ جب تک یہ خود سپردگی نہیں ہوگی «فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ» (النساء: 65) کے مطابق آدمی مومن نہیں ہوگا۔ اسی طرح جب تک آپ کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں ہوگی «لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِه».. کی رو سے مومن نہیں، ٹھیک اسی طرح اطاعت رسول (صلى الله عليه وسلم) میں کوتاہی بھی «لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ..» کا مصداق بنا دے گی۔
**- یعنی احترام وتکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی مائیں بھی ہیں۔
***- یعنی اب مہاجرت، اخوت اور موالات کی وجہ سے وراثت نہیں ہوگی۔ اب وراثت صرف قریبی رشتہ کی بنیاد پر ہوگی۔
****- ہاں تم غیر رشتے داروں کے لئے احسان اور بر وصلہ کا معاملہ کر سکتے ہو، نیز ان کے لئے ایک تہائی مال میں سے وصیت بھی کر سکتے ہو۔
*****- یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے، گو عارضی طور پر مصلحتاً دوسروں کو بھی وارث قرار دے دیا گیا تھا، لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ اسے منسوخ کرکے پہلا حکم بحال کر دیا گیا ہے۔
____________________
* اس عہد سے کیا مراد ہے؟ بعض کے نزدیک یہ وہ عہد ہے جو ایک دوسرے کی مدد اور تصدیق کا انبیا علیہم السلام سے لیا گیا تھا جیسا کہ سورۂ آل عمران کی آیت 81 میں ہے۔ بعض کے نزدیک یہ وہ عہد ہے، جس کا ذکر شوریٰ کی ایت 13 میں ہے کہ دین قائم کرنا اور اس میں تفرقہ مت ڈالنا۔ یہ عہد اگرچہ تمام انبیا علیہم السلام سے لیا گیا تھا لیکن یہاں بطور خاص پانچ انبیا علیہم السلام کا نام لیا گیا ہے جن سے ان کی اہمیت وعظمت واضح ہے اور ان میں بھی نبی (صلى الله عليه وسلم) کا ذکر سب سے پہلے ہے دراں حالیکہ نبوت کے لحاظ سے آپ (صلى الله عليه وسلم) سب سے متاخر ہیں، اس سے آپ (صلى الله عليه وسلم) کی عظمت اور شرف کا جس طرح اظہار ہو رہا ہے، محتاج وضاحت نہیں۔
____________________
- یہ لام كَيْ ہے۔ یعنی یہ عہد اس لئے لیا تاکہ اللہ سچے نبیوں سے پوچھے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام اپنی قوموں تک ٹھیک طریقے سے پہنچا دیا تھا؟ یا دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ انبیا سے پوچھے کہ تمہاری قوموں نے تمہاری دعوت کا جواب کس طرح دیا؟ مثبت انداز میں یا منفی طریقے سے؟ جس طرح کہ دوسرے مقام پر ہے کہ ہم ان سے بھی پوچھیں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور رسولوں سے بھی پوچھیں گے۔ (الاعراف۔ 6) اس میں داعیان حق کے لئے بھی تنبیہ ہے کہ وہ دعوت حق کا فریضہ پوری تن دہی اور اخلاص سے ادا کریں تاکہ بارگاہ الٰہی میں سرخرو ہو سکیں، اور ان لوگوں کے لئے بھی وعید ہے جن کو حق کی دعوت پہنچائی جائے کہ اگر وہ اسے قبول نہیں کریں گے تو عنداللہ مجرم اور مستوجب سزا ہوں گے۔
____________________
* ان آیات میں غزوۂ احزاب کی کچھ تفصیل ہے جو 5 ہجری میں پیش آیا اسے احزاب اس لئے کہتے ہیں کہ اس موقعے پر تمام اسلام دشمن گروہ جمع ہو کر مسلمانوں کے مرکز مدینہ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ احزاب حزب (گروہ) کی جمع ہے۔ اسے جنگ خندق بھی کہتے ہیں، اس لئے کہ مسلمانوں نے اپنے بچاؤ کے لئے مدینے کے اطراف میں خندق کھودی تھی تاکہ دشمن مدینے کے اندر نہ آسکیں۔ اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے کہ یہودیوں کے قبیلے بنو نضیر، جس کو رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے اس کی مسلسل بدعہدی کی وجہ سے مدینہ سے جلا وطن کردیا تھا، یہ قبیلہ خیبر میں جا آباد ہوا، اس نے کفار مکہ کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے لئے تیار کیا، اسی طرح غطفان وغیرہ قبائل نجد کو بھی امداد کا یقین دلا کر آمادۂ قتال کیا اور یوں یہ یہودی اسلام اور مسلمانوں کے تمام دشمنوں کو اکھٹا کرکے مدینے پر حملہ آور ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ مشرکین مکہ کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی، انہوں نے احد کے آس پاس پڑاؤ ڈال کر تقریباً مدینے کا محاصرہ کر لیا، ان کی مجموعی تعداد 10 ہزار تھی، جب کہ مسلمان تین ہزار تھے۔ علاوہ ازیں جنوبی رخ پر یہودیوں کا تیسرا قبیلہ بنو قریظہ آباد تھا، جس سے ابھی تک مسلمانوں کا معاہدہ قائم اور وہ مسلمانوں کی مدد کرنے کا پابند تھا۔ لیکن اسے بھی بنو نضیر کے یہودی سردار حیی بن اخطب نےورغلا کر مسلمانوں پر کاری ضرب لگانے کے حوالے سے، اپنے ساتھ ملا لیا، یوں مسلمان چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں گھر گئے۔ اس موقع پر حضرت سلمان فارسی ! کے مشورے سے خندق کھودی گئی، جس کی وجہ سے دشمن کا لشکر مدینے سے اندر نہیں آسکا اور مدینے کے باہر قیام پذیر رہا۔ تاہم مسلمان اس محاصرے اور دشمن کی متحدہ یلغارسے سخت خوفزدہ تھے۔ کم وبیش ایک مہینے تک یہ محاصرہ قائم رہا اور مسلمان سخت خوف اور اضطراب کے عالم میں مبتلا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے پردۂ غیب سے مسلمانوں کی مدد فرمائی ان آیات میں ان ہی سراسیمہ حالات اور امداد غیبی کا تذکرہ فرمایا گیا ہے۔ پہلے جُنُودٌ سے مراد کفار کی فوجیں ہیں، جو جمع ہو کر آئی تھیں۔ تیز وتند ہوا سے مراد وہ ہوا ہے جو سخت طوفان اور آندھی کی شکل میں آئی، جس نے ان کے خیموں کو اکھاڑ پھینکا، جانور رسیاں تڑا کر بھاگ کھڑے ہوئے، ہانڈیاں الٹ گئیں اور سب بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ وہی ہوا تھی جس کی بابت حدیث میں آتا ہے، نُصِرْتُ بِالصَّبَا وَأُهْلِكَتْ عَادٌ بِالدَّبُورِ (صحيح بخاري، كتاب الاستسقاء، باب نصرت بالصبا مسلم، باب في ريح الصبا والدبور) میری مدد صبا (مشرقی ہوا) سےکی گئی اور عاد دبور (پچھمی) ہوا سے ہلاک کیے گئے۔ وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا سے مراد فرشتے ہیں، جو مسلمانوں کی مدد کے لئے آئے۔ انہوں نے دشمن کےدلوں پر ایسا خوف اور دہشت طاری کر دی کہ انہوں نے وہاں سے جلد بھاگ جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔
____________________
* اس سے مراد یہ ہے کہ ہر طرف سے دشمن آگئے یا اوپر سے مراد غطفان، ہوا زن اور دیگر نجد کے مشرکین ہیں اور نیچے کی سمت سے قریش اور ان کے اعوان وانصار۔
**- یہ مسلمانوں کی اس کیفیت کا اظہار ہے جس سے اس وقت دوچار تھے۔
____________________
* یعنی مسلمانوں کو خوف، قتال، بھوک اور محاصرے میں مبتلا کرکے ان کو جانچا پرکھا گیا تاکہ منافق الگ ہو جائیں۔
____________________
* یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کا وعدہ ایک فریب تھا۔ یہ تقریباً ستر منافقین تھے جن کی زبانوں پر وہ بات آگئی جو دلوں میں تھی۔
____________________
* یثرب اس پورے علاقے کا نام تھا، مدینہ اسی کا ایک حصہ تھا، جسے یہاں یثرب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا نام یثرب اس لئے پڑا کہ کسی زمانے میں عمالقہ میں سے کسی نے یہاں پڑاو کیا تھا جس کا نام یثرب بن عمیل تھا۔ (فتح القدیر)۔
**- یعنی مسلمانوں کے لشکر میں رہنا تو سخت خطرناک ہے، اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاؤ۔
***- یعنی بنو قریظہ کی طرف سے حملے کا خطرہ ہے یوں اہل خانہ کی جان ومال اور آبرو خطرے میں ہے۔
****- یعنی جو خطرہ وہ ظاہر کر رہے ہیں، نہیں ہے وہ اس بہانے سے راہ فرار چاہتے ہیں۔ عَوْرَةٌ کے لغوی اور معروف معنی کے لئے دیکھئے، سورۂ نور، آیت 58 کا حاشیہ۔
____________________
* یعنی مدینے یا ان کے گھروں میں چاروں طرف سے دشمن داخل ہو جائیں اور ان سے مطالبہ کریں کہ تم کفر وشرک کی طرف دوبارہ واپس آجاؤ، تو یہ ذرا توقف نہ کریں گے اور اس وقت گھروں کے غیر محفوظ ہونے کا عذر بھی نہیں کریں گے بلکہ فوراً مطالبۂ شرک کے سامنے جھک جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ کفر وشرک ان کو مرغوب ہے اور اس کی طرف یہ لپکتے ہیں۔
____________________
* بیان کیا جاتا ہے کہ منافقین جنگ بدر تک مسلمان نہیں ہوئے۔ لیکن جب مسلمان فاتح ہوکر اور مال غنیمت لے کر واپس آئے تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ اسلام کا اظہار کیا بلکہ یہ عہد بھی کیا کہ آئندہ جب بھی کفار سے معرکہ پیش آیا تو وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ضرور لڑیں گے، یہاں ان کو وہی عہد یاد کرایا گیا ہے۔
**- یعنی اسےپورا کرنے کا ان سے مطالبہ کیا جائے گا اور عدم وفا پر سزا کے وہ مستحق ہوں گے۔
____________________
* یعنی موت سے تو کوئی صورت مفر نہیں ہے۔ اگر میدان جنگ سے بھاگ کر آبھی جاؤ گے، تو کیا فائدہ؟ کچھ عرصے بعد موت کا پیالہ تو پھر بھی پینا ہی پڑے گا۔
____________________
* یعنی تمہیں ہلاک کرنا، بیمار کرنا، یا مال وجائیداد میں نقصان پہنچانا یا قحط سالی میں مبتلا کرنا چاہے، تو کون ہے جو تمہیں اس سے بچا سکے؟ یا اپنا فضل وکرم کرنا چاہے تو وہ روک سکے؟
____________________
* یہ کہنے والے منافقین تھے، جو اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہونے سے روکتے تھے۔
**- کیوں کہ وہ موت کے خوف سے پیچھے ہی رہتے تھے۔
____________________
* یعنی تمہارے ساتھ خندق کھود کر تم سے تعاون کرنے میں یا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں یا تمہارے ساتھ مل کرلڑنے میں بخیل ہیں۔
**- یہ ان کی بزدلی اور پست ہمتی کی کیفیت کا بیان ہے۔
***- یعنی اپنی شجاعت ومردانگی کی بابت ڈینگیں مارتے ہیں، جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں، یا غنیمت کی تقسیم کے وقت اپنی زبان کی تیزی وطراری سے لوگوں کو متاثر کرکے زیادہ سے زیادہ مال حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت قتادہ (رضي الله عنه) فرماتے ہیں، غنیمت کی تقسیم کے وقت یہ سب سے زیادہ بخیل اور سب سے زیادہ برا حصہ لینے والے اور لڑائی کے وقت سب سے زیادہ بزدل اور ساتھیوں کو بےیارو مددگار چھوڑ کر بھاگ جانے والے ہیں۔
****- یادوسرا مفہوم ہے کہ خیر کا جذبہ بھی ان کےاندر نہیں ہے۔ یعنی مذکورہ خرابیوں اور کوتاہیوں کے ساتھ خیر اور بھلائی سے بھی وہ محروم ہیں۔
*****- یعنی دل سے، بلکہ یہ منافق ہیں، کیوں کہ ان کے دل کفر وعناد سے بھرے ہوئے ہیں۔
******- اس لئے کہ وہ مشرک اور کافر ہیں اور کافر ومشرک کے اعمال باطل ہیں، جن پر کوئی اجر وثواب نہیں۔ یا أَحْبَطَ أَظْهَرَ کے معنی میں ہے، یعنی ان کے عملوں کے بطلان کو ظاہر کر دیا، اس لیے کہ ان کے اعمال ایسے ہیں ہی نہیں کہ وہ ثواب کے مقتضی ہوں اور اللہ ان کو باطل کر دے۔ (فتح القدیر)۔
*******- ان کے اعمال کا برباد کر دینا، یا ان کا نفاق۔
____________________
* یعنی ان منافقین کی بزدلی، دوں ہمتی اور خوف ودہشت کا یہ حال ہے کہ کافروں کے گروہ اگرچہ ناکام ونامراد واپس جا چکے ہیں۔ لیکن یہ اب تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ابھی تک اپنے مورچوں اور خیموں میں موجود ہیں۔
**- یعنی بالفرض اگر کفار کی ٹولیاں دوبارہ لڑائی کی نیت سے واپس آجائیں تو منافقین کی خواہش یہ ہوگی کہ وہ مدینہ شہر کے اندر رہنے کے بجائے، باہر صحرا میں بادیہ نشینوں کے ساتھ ہوں اور وہاں لوگوں سے تمہاری بابت پوچھتے رہیں کہ محمد (صلى الله عليه وسلم) اور اس کے ساتھی ہلاک ہوئے یا نہیں؟ یا لشکر کفار کامیاب رہا یا ناکام؟
***- محض عار کے ڈر سے یاہم وطنی کی حمیت کی وجہ سے۔ اس میں ان لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو جہاد سے گریز کرتے یا اس سے پیچھے رہتے ہیں۔
____________________
* یعنی اے مسلمانو ! اور منافقو ! تم سب کے لئے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی ذات کے اندر بہترین نمونہ ہے، پس تم جہاد میں اور صبر وثبات میں اسی کی پیروی کرو۔ ہمارا یہ پیغمبر جہاد میں بھوکا رہا حتیٰ کہ اسے پیٹ پر پتھر باندھنے پڑے، اس کا چہرہ زخمی ہو گیا، اس کا رباعی دانت ٹوٹ گیا، خندق اپنے ہاتھوں سے کھودی اور تقریباً ایک مہینہ دشمن کے سامنے سینہ سپر رہا۔ یہ آیت اگرچہ جنگ احزاب کے ضمن میں نازل ہوئی ہے جس میں جنگ کے موقعے پر بطور خاص رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھنے اور اس کی اقتدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن یہ حکم عام ہے یعنی آپ (صلى الله عليه وسلم) کے تمام اقوال، افعال اور احوال میں مسلمانوں کے لئے آپ (صلى الله عليه وسلم) کی اقتدا ضروری ہے چاہے ان کا تعلق عبادات سے ہو یا معاشرت سے، معیشت سے، یا سیاست سے، زندگی کے ہر شعبے میں آپ کی ہدایات واجب الاتباع ہیں۔ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ الآية (الحشر) اور إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ الآية (آل عمران: 31) کا مفاد بھی یہی ہے۔
**- اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اسوۂ رسول (صلى الله عليه وسلم) کو وہی اپنائے گا جو آخرت میں اللہ کی ملاقات پر یقین رکھتا اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ آج مسلمان بھی بالعموم ان دونوں وصفوں سے محروم ہیں، اس لئے اسوۂ رسول (صلى الله عليه وسلم) کی بھی کوئی اہمیت ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ ان میں جو اہل دین ہیں ان کے پیشوا، پیر اور مشائخ ہیں اور جو اہل دنیا واہل سیاست ہیں ان کے مرشد ورہنما آقایان مغرب ہیں۔ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سےعقیدت کے زبانی دعوے بڑے ہیں، لیکن آپ (صلى الله عليه وسلم) کو مرشد اور پیشوا ماننے کے لئے ان میں سے کوئی بھی آمادہ نہیں ہے۔ فَإِلَى اللهِ الْمُشْتَكَى۔
____________________
* یعنی منافقین نے تو دشمن کی کثرت تعداد اور حالات کی سنگینی دیکھ کر کہا تھا کہ اللہ اور رسول ( (صلى الله عليه وسلم) ) کے وعدے فریب تھے، ان کے برعکس اہل ایمان نے کہا کہ اللہ اور رسول نے جو وعدہ کیا ہے کہ ابتلا وامتحان سے گزرنے کے بعد تمہیں فتح ونصرت سے ہمکنار کیا جائے گا، وہ سچا ہے۔
**- یعنی حالات کی شدت اور ہولناکی نےان کے ایمان کو متزلزل نہیں کیا، بلکہ ان کے ایمان میں جذبۂ اطاعت وانقیاد اور تسلیم ورضا میں مزید اضافہ کر دیا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں اور ان کے مختلف احوال کے اعتبار سے ایمان اور اس کی قوت میں کمی بیشی ہوتی ہے جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے۔
____________________
- یہ آیت ان بعض صحابہ (رضي الله عنهم) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جنہوں نے اس موقع پر جاں نثاری کےعجیب وغریب جوہر دکھائے تھے اور انہیں میں وہ صحابہ (رضي الله عنهم) بھی شامل ہیں جو جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے لیکن انہوں نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ اب آئندہ کوئی معرکہ پیش آیا، تو جہاد میں بھرپور حصہ لیں گے، جیسے نضربن انس وغیرہ (رضي الله عنهم)، جو بالآخر لڑتے ہوئے جنگ احد میں شہید ہوئے۔ ان کے جسم پر تلوار، نیزے اور تیروں کے 80 سے اوپر زخم تھے، شہادت کے بعد ان کی ہمشیرہ نے انہیں ان کی انگلی کے پورے سے پہچانا، (مسند احمد، ج۔4، ص - 193)۔
**- نَحْبٌ کی معنی عہد، نذر اور موت کے کیے گئے ہیں، مطلب ہے کہ ان صادقین میں سے کچھ نے تو اپنا عہد یا نذر پوری کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر لیا ہے۔
***- اور دوسرے وہ ہیں جو ابھی تک عروس شہادت سے ہمکنار نہیں ہوئے ہیں تاہم اس کے شوق میں شریک جہاد ہوتے ہیں اور شہادت کی سعادت کے آرزو مند ہیں، اپنی اس نذر یا عہد میں انہوں نے تبدیلی نہیں کی۔
____________________
* یعنی انہیں قبول اسلام کی توفیق دے دے۔
____________________
* یعنی مشرک جو مختلف جہات سے جمع ہو کرآئے تھے تاکہ مسلمانوں کا نشان مٹا دیں۔ اللہ نے انہیں اپنے غیظ وغضب سمیت واپس لوٹا دیا۔ نہ دنیا کا مال ومتاع ان کے ہاتھ لگا اور نہ آخرت میں وہ اجر وثواب کے مستحق ہوں گے، کسی بھی قسم کی خیر انہیں حاصل نہیں ہوئی۔
**- یعنی مسلمانوں کو ان سے لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہوا اور فرشتوں کے ذریعے سے اپنے مومن بندوں کی مدد کا سامان بہم پہنچا دیا۔ اسی لئے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا «لا إِلهَ إِلا اللهُ وَحْدَهُ، صَدَقَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ، فَلا شَيْءَ بَعْدَهُ» (صحيح بخاري، كتاب العمرة، باب ما يقول إذا رجع من الحج أو العمرة أو الغزو - مسلم باب ما يقول إذا قفل من سفر الحج وغيره) ”ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے اپنا وعدہ سچ کردکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اپنے لشکر کو سرخرو کیا، اور تمام گروہوں کو اکیلے اس نے ہی شکست دے دی، اس کے بعد کوئی شے نہیں“ یہ دعا حج، عمرہ، جہاد اور سفر سے واپسی پر بھی پڑھنی چاہئے۔
____________________
* اس میں غزوۂ بنی قریظہ کا ذکر ہے جیسا کہ پہلے گزرا کہ اس قبیلے نے نقض عہد کرکے جنگ احزاب میں مشرکوں اور دوسرے یہودیوں کا ساتھ دیا تھا۔ چنانچہ جنگ احزاب سے واپس آکر رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ابھی غسل ہی فرما سکے تھے کہ حضرت جبرائیل (عليه السلام) آگئے اور کہا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے ہتھیار رکھ دیے؟ ہم فرشتوں نے تو نہیں رکھے ہیں۔ چلئے، اب بنو قریظہ کے ساتھ نمٹنا ہے، مجھے اللہ نے اسی لئے آپ (صلى الله عليه وسلم) کی طرف بھیجا ہے۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں میں اعلان فرما دیا بلکہ ان کو تاکید کر دی کہ عصر کی نماز وہاں جا کر پڑھنی ہے۔ ان کی آبادی مدینے سے چند میل کے فاصلے پر تھی۔ یہ اپنے قلعوں میں بند ہو گئے، باہر سے مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کر لیا جو کم وبیش پچیس روز جاری رہا۔ بالآخر انہوں نے سعد بن معاذ (رضي الله عنه) کو اپنا حکم (ثالث) تسلیم کر لیا کہ وہ جو فیصلہ بابت دیں گے، ہمیں منظور ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ ان سے لڑنے والے لوگوں کو قتل اور بچوں، عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کا مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے یہ فیصلہ سن کر فرمایا کہ یہی فیصلہ آسمانوں کے اوپر االلہ تعالیٰ کا بھی ہے۔ اس کے مطابق ان کے جنگ جو افراد کی گردنیں اڑا دی گئیں۔ اور مدینے کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کر دیا گیا۔ (دیکھئے صحیح بخاری، باب غزوۂ خندق) أَنْزَلَ قلعوں سے نیچے اتار دیا، ظَاهَرُوهُمْ کافروں کی انہوں نے مدد کی۔
**- بعض نے اس سے خیبر کی زمین مراد لی ہے کیونکہ اس کے بعد ہی 6 ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں نے خیبر فتح کیا ہے۔ بعض نے کہا کہ مکہ ہے اور بعض نے ارض فارس وروم کو اس کا مصداق قرار دیا ہے اور بعض کے نزدیک تمام وہ زمینیں ہیں جو قیامت تک مسلمان فتح کریں گے۔ (فتح القدیر)۔
____________________
* فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوگئی تو انصار ومہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان نفقہ میں اضافہ کا مطالبہ کر دیا۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) چونکہ نہایت سادگی پسند تھے، اس لئے ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئے اور بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی جو ایک مہینے تک جاری رہی بالآخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی۔ اس کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کو یہ آیت سنا کر انہیں اختیار دیا تاہم انہیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کے بجائے اپنے والدین سے مشورے کے بعد کوئی اقدام کرنا۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) نے فرمایا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں آپ کے بارے میں مشورہ کروں؟ بلکہ میں اللہ اور رسول (صلى الله عليه وسلم) کو پسند کرتی ہوں. یہی بات دیگر ازواج مطہرات (رضي الله عنه) ن نے بھی کہی اور کسی نے بھی رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کو چھوڑ کر دنیا کی عیش وآرام کو ترجیح نہیں دی (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ الاحزاب) اس وقت آپ (صلى الله عليه وسلم) کے حبالۂ عقد میں 9 بیویاں تھیں، پانچ قریش میں سے تھیں۔ حضرت عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، سودہ اور ام سلمہ۔ (رضي الله عنه) ن اور چار ان کے علاوہ، یعنی حضرت صفیہ، میمونہ، زینب اور جویریہ تھیں۔ (رضي الله عنهن)۔ بعض لوگ مرد کی طرف سے اختیار علیحدگی کو طلاق قرار دیتے ہیں، لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اختیار علیحدگی کے بعد اگر عورت علیحدگی کو پسند کر لے، پھر تو یقیناً طلاق ہوجائے گی (اور یہ طلاق بھی رجعی ہوگی نہ کہ بائنہ، جیسا کہ بعض علما کا مسلک ہے) تاہم اگر عورت علیحدگی کو اختیار نہیں کرتی تو پھر طلاق نہیں ہوگی، جیسے ازواج مطہرات (رضي الله عنه) ن نے علیحدگی کے بجائے حرم رسول (صلى الله عليه وسلم) میں ہی رہنا پسند کیا تو اس اختیار کو طلاق شمار نہیں کیا گیا۔ (صحيح بخاري، كتاب الطلاق، باب من خير نساءه، مسلم باب بيان أن تخيير امرأته لا يكون طلاقا إلا بالنية)۔
____________________
* قرآن میں الْفَاحِشَةُ (مُعَرَّفٌ بِاللامِ) کو زنا کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے لیکن فَاحِشَةٌ (نکرہ) کو برائی کے لئے، جیسے یہاں ہے۔ یہاں اس کے معنی بداخلاقی اور نامناسب رویے کے ہیں۔ کیونکہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ بداخلاقی اور نامناسب رویہ، آپ (صلى الله عليه وسلم) کو ایذا پہنچانا ہے جس کا ارتکاب کفر ہے۔ علاوہ ازیں ازواج مطہرات (رضي الله عنه) ن خود بھی مقام بلند کی حامل تھیں اور بلند مرتبت لوگوں کی معمولی غلطیاں بھی بڑی شمار ہوتی ہیں، اس لئے انہیں دوگنے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
____________________
- یعنی جس طرح گناہ کا وبال دگنا ہوگا، نیکیوں کا اجر بھی دوہرا ہوگا۔ جس طرح نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا إِذًا لأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ (بني إسرائيل۔75) (پھر تو ہم بھی آپ کو دوہرا عذاب دنیا کا کرتے اور دوہرا ہی موت کاﹿ۔
____________________
* یعنی تمہاری حیثیت اور مرتبہ عام عورتوں کا سا نہیں ہے۔ بلکہ اللہ نے تمہیں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی زوجیت کا جو شرف عطا فرمایا ہے، اس کی وجہ سے تمہیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے اور رسول (صلى الله عليه وسلم) کی طرح تمہیں بھی امت کے لئے ایک نمونہ بننا ہے چنانچہ انہیں ان کے مقام و مرتبے سے آگاہ کرکے انہیں کچھ ہدایات دی جا رہی ہیں۔ اس کی مخاطب اگرچہ ازواج مطہرات ہیں جنہیں امہات المومنین قرار دیا گیا ہے، لیکن انداز بیان سے صاف ظاہر ہے کہ مقصد پوری امت مسلمہ کی عورتوں کو سمجھانا اور متنبہ کرنا ہے۔ اس لئے یہ ہدایات تمام مسلمان عورتوں کے لئے ہیں۔
**- اللہ تعالیٰ نے جس طرح عورت کے وجود کے اندر مرد کے لئے جنسی کشش رکھی ہے (جس کی حفاظت کے لئے بھی خصوصی ہدایات دی گئی ہیں تاکہ عورت مرد کے لئے فتنے کا باعث نہ بنے) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی آواز میں بھی فطری طور پر دلکشی، نرمی اور نزاکت رکھی ہے جو مرد کو اپنی طرف کھیچنتی ہے۔ بنابریں اس آواز کے لئے بھی یہ ہدایت دی گئی کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت قصداً ایسا لب و لہجہ اختیار کرو کہ نرمی اور لطافت کی جگہ قدرے سختی اور روکھا پن ہو۔ تاکہ کوئی بدباطن تمہاری طرف مائل نہ ہو اور اس کے دل میں برا خیال پیدا نہ ہو۔
***- یعنی یہ روکھاپن، صرف لہجے کی حد تک ہی ہو، زبان سے ایسا لفظ نہ نکالنا جو معروف قاعدے اور اخلاق کے منافی ہو۔ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ کہہ کر اشارہ کردیا کہ یہ بات اور دیگر ہدایات، جو آگے آ رہی ہیں، متقی عورتوں کے لئے ہیں، کیونکہ انہیں ہی یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کی آخرت برباد نہ ہوجائے۔ جن کے دل خوف الٰہی سے عاری ہیں، انہیں ان ہدایات سے کیا تعلق؟ اور وہ کب ان ہدایات کی پروا کرتی ہیں؟
____________________
* یعنی ٹک کر رہو اور بغیر ضروری حاجت کے گھر سے باہر نہ نکلو۔ اس میں وضاحت کردی گئی ہے کہ عورت کا دائرہ عمل امور سیاست وجہاں بانی نہیں، معاشی جھمیلے بھی نہیں، بلکہ گھر کی چاردیواری کے اندر رہ کر امور خانہ داری سرانجام دینا ہے۔
**- اس میں گھر سے باہر نکلنے کے آداب بتلا دیئے کہ اگر باہر جانے کی ضرورت پیش آئے تو بناؤ سنگھار کرکے یا ایسے انداز سے، جس سے تمہارا بناؤ سنگھار ظاہر ہو، مت نکلو۔ جیسے بےپردہ ہو کر، جس سے تمہارا سر، چہرہ، بازو اور چھاتی وغیرہ لوگوں کو دعوت نظارہ دے۔ بلکہ بغیر خوشبو لگائے، سادہ لباس میں ملبوس اور باپردہ باہر نکلو تَبَرُّجٌ بےپردگی اور زیب وزینت کے اظہار کو کہتے ہیں۔ قرآن نے واضح کردیا ہے کہ یہ تبرج، جاہلیت ہے، جو اسلام سے پہلے تھی اور آئندہ بھی، جب کبھی اسے اختیار کیا جائے گا، یہ جاہلیت ہی ہوگی، اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، چاہے اس کا نام کتنا ہی خوش نما، دل فریب رکھ لیا جائے۔
***- پچھلی ہدایات، برائی سے اجتناب سے متعلق تھیں، یہ ہدایات نیکی اختیار کرنے سے متعلق ہیں۔
****- اہل بیت سے کون مراد ہیں؟ اس کی تعیین میں کچھ اختلاف ہے۔ بعض نے ازواج مطہرات کو مراد لیا ہے، جیسا کہ یہاں قرآن کریم کے سیاق سے واضح ہے۔ قرآن نے یہاں ازواج مطہرات ہی کو اہل البیت کہا ہے۔ قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی بیوی کو اہل بیت کہا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ ھود، آیت 73 میں۔ اس لئے ازواج مطہرات کا اہل بیت ہونا نص قرآنی سے واضح ہے۔ بعض حضرات، بعض روایات کی رو سے اہل بیت کا مصداق صرف حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرت حسن وحسین (رضي الله عنهم) کو مانتے ہیں اور ازواج مطہرات کو اس سے خارج سمجھتے ہیں، جب کہ اول الذکر، ان اصحاب اربعہ کو اس سے خارج سمجھتے ہیں۔ تاہم اعتدال کی راہ اور نقطہ متوسط یہ ہے کہ دونوں ہی اہل بیت ہیں۔ ازواج مطہرات تو اس نص قرانی کی وجہ سے اور داماد واولاد ان روایات کی رو سے جو صحیح سند سے ثابت ہیں جن میں نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے ان کو اپنی چادر میں لے کر فرمایا کہ اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ بھی میرے اہل بیت سے ہیں یا یہ دعا ہے کہ یا اللہ ان کوبھی ازواج مطہرات کی طرح، میرے اہل بیت میں شامل فرما دے۔ اس طرح یہ تمام دلائل میں بھی تطبیق ہوجاتی ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھئے فتح القدیر، للشوکانی)۔
____________________
* یعنی ان پر عمل کرو۔ حکمت سے مراد، احادیث ہیں۔ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے بعض علما نے کہا ہے کہ حدیث بھی قرآن کی طرح ثواب کی نیت سے پڑھی جاسکتی ہے۔علاوہ ازیں یہ آیت بھی ازواج مطہرات کے اہل بیت ہونے پر دلالت کرتی ہے، اس لئے وحی کا نزول، جس کا ذکر اس آیت میں ہے، ازواج مطہرات کے گھروں میں ہی ہوتا تھا، بالخصوص حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کے گھر میں۔ جیسا کہ احادیث میں ہے۔
____________________
* حضرت ام سلمہ (رضی الله عنها) اور بعض دیگر صحابیات نے کہا کہ کیا بات ہے، اللہ تعالیٰ ہر جگہ مردوں سے ہی خطاب فرماتا ہے، عورتوں سے نہیں، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسند احمد 6 / 301، ترمذی، نمبر3211) اس میں عورتوں کی دل داری کا اہتمام کردیا گیا ہے ورنہ تمام احکام میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں سوائے ان مخصوص احکام کے جو صرف عورتوں کے لئے ہیں۔ اس آیت اور دیگر آیات سے واضح ہے کہ عبادت واطاعت الٰہی اور اخروی درجات و فضائل میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔ دونوں کے لئے یکساں طور پر یہ میدان کھلا ہے اور دونوں زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور اجر وثواب کما سکتے ہیں۔ جنس کی بنیاد پر اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جائے گی۔ علاوہ ازیں مسلمان اور مومن کا الگ الگ ذکر کرنے سے واضح ہے کہ ان دونوں میں فرق ہے۔ ایمان کا درجہ اسلام سے بڑھ کر ہے جیسا کہ قرآن وحدیث کے دیگر دلائل بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔
____________________
* یہ آیت حضرت زینب (رضی الله عنها) کے نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی۔ حضرت زید بن حارثہ (رضي الله عنه)، جو اگرچہ اصلاً عرب تھے، لیکن کسی نے انہیں بچپن میں زبردستی پکڑ کر بطور غلام بیچ دیا تھا۔ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) سے حضرت خدیجہ (رضی الله عنها) کے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ (رضی الله عنها) نے انہیں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کو ہبہ کردیا تھا۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے انہیں آزاد کرکے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے ان کے نکاح کے لئے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب (رضی الله عنها) کو نکاح کا پیغام بھیجا، جس پر انہیں اور ان کے بھائی کو خاندانی وجاہت کی بناء پر تامل ہوا، کہ زید (رضي الله عنه) ایک آزاد کردہ غلام ہیں اور ہمارا تعلق ایک اونچے خاندان سے ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول کے فیصلے کے بعد کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنا اختیار بروئےکار لائے۔ بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سر تسلیم خم کردے۔ چنانچہ یہ آیت سننے کے بعد حضرت زینب (رضی الله عنها) وغیرہ نے اپنی رائے پر اصرار نہیں کیا اور ان کا باہم نکاح ہوگیا۔
____________________
* لیکن چونکہ ان کے مزاج میں فرق تھا، بیوی کے مزاج میں خاندانی نسب وشرف رچا ہوا تھا، جب کہ زید (رضي الله عنه) کے دامن پر غلامی کا داغ تھا، ان کی آپس میں ان بن رہتی تھی جس کا تذکرہ حضرت زید (رضي الله عنه) نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) سے کرتے رہتے تھے اور طلاق کا عندیہ بھی ظاہر کرتے۔ لیکن نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) ان کو طلاق دینے سے روکتے اور نباہ کرنے کی تلقین فرماتے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو اس پیش گوئی سے بھی آگاہ فرما دیا تھا کہ زید (رضي الله عنه) کی طرف سےطلاق واقع ہو کر رہے گی اور اس کے بعد زینب (رضی الله عنها) کا نکاح آپ سے کردیا جائے گا تاکہ جاہلیت کی اس رسم تبنیت پر ا یک کاری ضرب لگا کر واضح کردیا جائے کہ منہ بولا بیٹا، احکام شرعیہ میں حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے اور اس کی مطلقہ سے نکاح جائز ہے۔ اس آیت میں ان ہی باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ حضرت زید (رضي الله عنه) پر اللہ کا انعام یہ تھا کہ انہیں قبول اسلام کی توفیق دی اور غلامی سے نجات دلائی، نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کا احسان ان پر یہ تھا کہ ان کی دینی تربیت کی۔ ان کو آزاد کرکے اپنا بیٹا قرار دیا اور اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی لڑکی سے ان کا نکاح کرادیا۔ دل میں چھپانے والی بات یہی تھی جو آپ کو حضرت زینب (رضی الله عنها) سے نکاح کی بابت بذریعہ وحی بتلائی گئی تھی، آپ (صلى الله عليه وسلم) ڈرتے اس بات سے تھے کہ لوگ کہیں گے اپنی بہو سے نکاح کرلیا۔ حالانکہ جب اللہ کو آپ کے ذریعے سے اس رسم کا خاتمہ کرنا تھا تو پھر لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) کا یہ خوف اگرچہ فطری تھا، اس کے باوجود آپ (صلى الله عليه وسلم) کو تنبیہ فرمائی گئی۔ ظاہر کرنے سے مراد یہی ہے کہ یہ نکاح ہوگیا، جس سے یہ بات سب کے ہی علم میں آجائے گی۔
**- یعنی نکاح کے بعد طلاق دی اور حضرت زینب (رضی الله عنها) عدت سے فارغ ہوگئیں۔
***- یعنی یہ نکاح معروف طریقے کے برعکس صرف اللہ کے حکم سے نکاح قرار پاگیا، نکاح خوانی، ولایت، حق مہر اور گواہوں کے بغیر ہی۔
****- یہ حضرت زینب (رضی الله عنها) سے، نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے نکاح کی علت ہے کہ آئندہ کوئی مسلمان اس بارے میں تنگی محسوس نہ کرے اور حسب ضرورت اقتضا لےپالک بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیا جاسکے۔
*****- یعنی پہلے سے ہی تقدیر الٰہی میں تھا جو بہرصورت ہو کر رہنا تھا۔
____________________
* یہ اسی واقعہ نکاح زینب (رضی الله عنها) کی طرف اشارہ ہے، چونکہ یہ نکاح آپ (صلى الله عليه وسلم) کے لئے حلال تھا، اس لئے اس میں کوئی گناہ اور تنگی والی بات نہیں ہے۔
**- یعنی گزشتہ انبیا علیہم السلام بھی ایسے کاموں کے کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے جو اللہ کی طرف سے ان پر فرض قرار دیئے جاتے تھے چاہے قومی اور عوامی رسم ورواج ان کے خلاف ہی ہوتے۔
***- یعنی خاص حکمت ومصلحت پر مبنی ہوتے ہیں، دنیوی حکمرانوں کی طرح وقتی اور فوری ضرورت پر مشتمل نہیں ہوتے، اسی طرح ان کا وقت بھی مقرر ہوتا ہے جس کے مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
____________________
* اس لئے کسی کا ڈر یا سطوت انہیں اللہ کا پیغام پہچانے میں مانع بنتا تھا نہ طعن وملامت کی انہیں پروا ہوتی تھی۔
**- یعنی ہر جگہ وہ اپنے علم اور قدرت کے لحاظ سے موجود ہے، اس لئے وہ اپنے بندوں کی مدد کے لئے کافی ہے اور اللہ کے دین کی تبلیغ ودعوت میں انہیں جو مشکلات آتی ہیں، ان میں وہ ان کی چارہ سازی فرماتا اور دشمنوں کے مذموم ارادوں اور سازشوں سے انہیں بچاتا ہے۔
____________________
* اس لئے وہ زید بن حارثہ (رضي الله عنه) کے بھی باپ نہیں ہیں، جس پر انہیں مورد طعن بنایا جاسکے کہ انہوں نے اپنی بہو سے نکاح کیوں کرلیا؟ ایک زید (رضي الله عنه) ہی کیا، وہ تو کسی بھی مرد کے باپ نہیں ہیں۔ کیونکہ زید (رضي الله عنه) تو حارثہ کے بیٹے تھے، آپ (صلى الله عليه وسلم) نے تو انہیں منہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا اور جاہلی دستور کے مطابق انہیں زید بن محمد کہا جاتا تھا، حقیقتاً وہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے صلبی بیٹے نہیں تھے۔ اس لئے ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ کے نزول کے بعد انہیں زید بن حارثہ (رضي الله عنه) ہی کہا جاتا تھا، علاوہ ازیں حضرت خدیجہ (رضی الله عنها) سے آپ (صلى الله عليه وسلم) کے تین بیٹے، قاسم، طاہر، طیب ہوئے اور ایک ابراہیم بچہ ماریہ قبطیہ (رضی الله عنها) کے بطن سے ہوا۔ لیکن یہ سب کے سب بچپن میں ہی فوت ہوگئے، ان میں سے کوئی بھی عمر رجولیت کو نہیں پہنچا۔ بنابریں آپ (صلى الله عليه وسلم) کی صلبی اولاد میں سے بھی کوئی مرد نہیں بنا کہ جس کے آپ باپ ہوں (ابن کثیر)۔
**- خَاتَمٌ مہر کو کہتے ہیں اور مہر آخری عمل ہی کو کہا جاتا ہے۔ یعنی آپ (صلى الله عليه وسلم) پر نبوت ورسالت کا خاتمہ کردیا گیا، آپ (صلى الله عليه وسلم) کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا، وہ نبی نہیں کذاب و دجال ہوگا۔ احادیث میں اس مضمون کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اس پر پوری امت کا اجماع واتفاق ہے۔ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کا نزول ہوگا، جو صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے، تو وہ نبی کی حیثیت سے نہیں آئیں گے بلکہ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے امتی بن کر آئیں گے، اس لئے ان کا نزول عقیدہ آخرت نبوت کے منافی نہیں ہے۔
____________________
* یعنی جنت میں فرشتے اہل ایمان کو یا مومن آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں گے۔
____________________
* بعض لوگ شاہد کے معنی حاضر وناظر کے کرتے ہیں جو قرآن کی تحریف معنوی ہے۔ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) اپنی امت کی گواہی دیں گے، ان کی بھی جو آپ (صلى الله عليه وسلم) پر ایمان لائے اور ان کی بھی جنہوں نے تکذیب کی۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) قیامت والے دن اہل ایمان کو ان کے اعضائے وضو سے پہنچان لیں گے جو چمکتے ہوں گے، اسی طرح آپ (صلى الله عليه وسلم) دیگر انبیا علیہم السلام کی گواہی دیں گے کہ ا نہوں نے اپنی اپنی قوموں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور یہ گواہی اللہ کے دیئے ہوئے یقینی علم کی بنیاد پر ہوگی۔ اس لئے نہیں کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) تمام انبیا علیہم السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے ہیں، یہ عقیدہ تو نصوص قرآنی کے خلاف ہے۔
____________________
* جس طرح چراغ سے اندھیرے دور ہوجاتے ہیں، اسی طرح آپ (صلى الله عليه وسلم) کے ذریعے سے کفروشرک کی تاریکیاں دور ہوئیں۔ علاوہ ازیں اس چراغ سے کسب ضیا کرکے جو کمال وسعادت حاصل کرنا چاہے، کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ یہ چراغ قیامت تک روشن ہے۔
____________________
* نکاح کے بعد جن عورتوں سے ہم بستری کی جاچکی ہو اور وہ ابھی جوان ہوں، ایسی عورتوں کو طلاق مل جائے تو ان کی عدت تین حیض ہے۔ (البقرۃ: 228) یہاں ان عورتوں کو حکم بیان کیا جا رہا ہے کہ جن سے نکاح ہوا ہے لیکن میاں بیوی کے درمیان ہم بستری نہیں ہوئی۔ ان کو اگر طلاق ہوجائے تو کوئی عدت نہیں ہے یعنی ایسی غیر مدخولہ مطلقہ بغیر عدت گزارے فوری طور پر کہیں نکاح کرنا چاہے، تو کر سکتی ہے، البتہ اگر ہم بستری سے قبل خاوند فوت ہوجائے تو پھر اسے 4 مہینے 10 دن ہی عدت گزارنی پڑے گی۔ (فتح القدیر، ابن کثیر) چھونا یا ہاتھ لگانا، یہ کنایہ ہے جماع (ہم بستری) سے۔ نکاح کا لفظ خاص جماع اور عقد زواج دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں عقد کے معنی میں ہے۔ اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہاں نکاح کے بعد طلاق کا ذکر ہے۔ اس لئے جو فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں عورت سے میں نے نکاح کیا تو اسے طلاق، تو ان کے نزدیک اس عورت سے نکاح ہوتے ہی طلاق واقع ہوجائے گی۔ اسی طرح بعض جو یہ کہتے ہیں کہ اگر وہ یہ کہے کہ میں نے کسی بھی عورت سے نکاح کیا تو اسے طلاق، تو جس عورت سے بھی نکاح کرے گا، طلاق واقع ہوجائے گی۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ حدیث میں بھی وضاحت ہے۔ ”لا طَلاقَ قَبْلَ نِكَاحٍ“ (ابن ماجه) ”لا طَلاقَ لابْنِ آدَمَ فِيمَا لا يَمْلِكُ“ (أبو داود، باب في الطلاق قبل النكاح، ترمذي، ابن ماجه ومسند أحمد 2 /189) اس سے واضح ہے کہ نکاح سے قبل طلاق، ایک فعل عبث ہے جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔
**- یہ متعہ، اگر مہر مقرر کیا گیا ہو تو نصف مہر ہے ورنہ حسب توفیق کچھ دے دیا جائے۔
***- یعنی انہیں عزت و احترام سے، بغیر کوئی ایذاء پہنچائے علیحدہ کردیا جائے۔
____________________
* بعض احکام شرعیہ میں نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کو امیتاز حاصل تھا، جنہیں آپ (صلى الله عليه وسلم) کی خصوصیات کہا جاتا ہے۔ مثلاً اہل علم کی ایک جماعت کے بقول قیام اللیل (تہجد) آپ (صلى الله عليه وسلم) پر فرض تھا، صدقہ آپ (صلى الله عليه وسلم) پر حرام تھا، اسی طرح کی بعض خصوصیات کا ذکر قرآن کریم کے اس مقام پر کیا گیا ہے جن کا تعلق نکاح سے ہے۔ 1. جن عورتوں کو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے مہر دیا ہے، وہ حلال ہیں چاہے تعداد میں وہ کتنی ہی ہوں اور آپ (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت صفیہ (رضی الله عنها) اور جویریہ (رضی الله عنها) کا مہر ان کی آزادی کو قرار دیا تھا، ان کے علاوہ بصورت نقد سب کو مہر ادا کیا تھا۔ صرف ام حبیبہ (رضی الله عنها) کا مہر نجاشی نے اپنی طرف سے دیا تھا۔
**- چنانچہ حضرت صفیہ (رضی الله عنها) اور جویریہ (رضی الله عنها) ملکیت میں آئیں جنہیں آپ (صلى الله عليه وسلم) نے آزاد کرکے نکاح کرلیا، اور ریحانہ (رضی الله عنها) اور ماریہ قبطیہ (رضی الله عنها) یہ بطور لونڈی آپ کےپاس رہیں۔
***- اس کا مطلب ہے کہ جس طرح آپ (صلى الله عليه وسلم) نے ہجرت کی، اسی طرح انہوں نے بھی مکے سے مدینہ ہجرت کی۔ کیونکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ تو کسی عورت نے بھی ہجرت نہیں کی تھی۔
****- یعنی اپنے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو ہبہ کرنے والی عورت، اگر آپ (صلى الله عليه وسلم) اس سے نکاح کرنا پسند فرمائیں تو بغیر مہر کے آپ (صلى الله عليه وسلم) کے لئے اسے اپنے نکاح میں رکھنا جائزہے۔
*****- یہ اجازت صرف آپ (صلى الله عليه وسلم) کے لئے ہے۔ دیگر مومنوں کے لئے تو ضروری ہے کہ وہ حق مہر، ادا کریں، تب نکاح جائز ہوگا۔
******- یعنی عقد کے جو شرائط اور حقوق ہیں جو ہم نے فرض کئے ہیں کہ مثلاً چار سے زیادہ عورتیں بیک وقت کوئی شخص اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا، نکاح کے لئے ولی، گواہ اور حق مہر ضروری ہے۔ البتہ لونڈیاں جتنی کوئی چاہے، رکھ سکتا ہے، تاہم آج کل لونڈیوں کا مسئلہ تو ختم ہے۔
____________________
* اس کا تعلق إِنَّا أَحْلَلْنَا سے ہے یعنی مذکورہ تمام عورتوں کی آپ (صلى الله عليه وسلم) کے لئے حلت اس لئے ہے تاکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کو تنگی محسوس نہ ہو اور آپ (صلى الله عليه وسلم) ان میں سے کسی کے ساتھ نکاح میں گناہ نہ سمجھیں۔
**- یعنی جن بیویوں کی باریاں موقوف کر رکھی تھیں اگر آپ (صلى الله عليه وسلم) چاہیں کہ ان سے بھی مباشرت کا تعلق قائم کیا جائے، تو یہ اجازت بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) کو حاصل ہے۔
***- یعنی باری موقوف ہونے اور ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کے باوجود وہ خوش ہوں گی، غمگین نہیں ہوں گی اور جتنا کچھ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی طرف سے انہیں مل جائے گا، اس پر مطمئن رہیں گی۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہیں معلوم ہے کہ پیغمبر (صلى الله عليه وسلم) یہ سب کچھ اللہ کے حکم اور اجازت سے کر رہے ہیں اور یہ ازواج مطہرات اللہ کے فیصلہ پر راضی اور مطمئن ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کو یہ اختیار ملنے کے باوجود آپ (صلى الله عليه وسلم) نے اسے استعمال نہیں کیا اور سوائے حضرت سودہ (رضی الله عنها) کے (کہ انہوں نے اپنی باری خود ہی حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کے لئے ہبہ کردی تھی) آپ (صلى الله عليه وسلم) نے تمام ازواج مطہرات کی باریاں برابر برابر مقرر کر رکھی تھیں، اس لئے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے مرض الموت میں ازواج مطہرات سے اجازت لے کر بیماری کے ایام حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کے پاس گزارے ”أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ“ کا تعلق آپ (صلى الله عليه وسلم) کے اسی طرز عمل سے ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) پر تقسیم اگرچہ (دوسرے لوگوں کی طرح) واجب نہیں تھی، اس کے باوجود آپ (صلى الله عليه وسلم) نے تقسیم کو اختیار فرمایا، تاکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی بیویوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کے اس حسن سلوک اور عدل وانصاف سے خوش ہوجائیں کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے خصوصی اختیار استعمال کرنے کے بجائے ان کی دلجوئی اور دلداری کا اہتمام فرمایا۔
****- یعنی تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے، ان میں یہ بات بھی یقیناً ہے کہ سب بیویوں کی محبت دل میں یکساں نہیں ہے۔ کیوں کہ دل پر انسان کا اختیار ہی نہیں ہے۔ اس لئے بیویوں کے درمیان مساوات باری میں، نان و نفقہ اور دیگر ضروریات زندگی اور آسائشوں میں ضروری ہے، جس کا اہتمام انسان کرسکتا ہے۔ دلوں کے میلان میں مساوات چونکہ اختیار ہی میں نہیں ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اس پر گرفت بھی نہیں فرمائے گا بشرطیکہ دلی محبت کسی ایک بیوی سے امتیازی سلوک کا باعث نہ ہو۔ اسی لئے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) فرمایا کرتے تھے یااللہ یہ میری تقسیم ہے جو میرے اختیار میں ہے، لیکن جس چیز پر تیرا اختیار ہے، میں اس پر اختیار نہیں رکھتا، اس میں مجھے ملامت نہ کرنا۔ (أبو داود، باب القسم في النساء، ترمذي، نسائي، ابن ماجه، مسند أحمد 6 / 144)۔
____________________
* آیت تخییر کے نزول کے بعد ازواج مطہرات نے دنیا کے اسباب عیش و راحت کے مقابلے میں عسرت کے ساتھ، نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ رہنا پسند کیا تھا، اس کا صلہ اللہ نے یہ دیا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کو ان ازواج کے علاوہ (جن کی تعداد اس وقت 9 تھی) دیگر عورتوں سے نکاح کرنے یا اس میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ اور سے نکاح کرنے سے منع فرمایا دیا۔ بعض کہتے ہیں کہ بعد میں آپ (صلى الله عليه وسلم) کو یہ اختیار دے دیا گیا تھا، لیکن آپ (صلى الله عليه وسلم) نے کوئی نکاح نہیں کیا۔ (ابن کثیر)۔
**- یعنی لونڈیاں رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ بعض نے اس کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ کافر لونڈی بھی رکھنے کی آپ (صلى الله عليه وسلم) کو اجازت تھی اور بعض نے وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ (الممتحنة: 10) کے پیش نظر اسے آپ (صلى الله عليه وسلم) کے حلال نہیں سمجھا۔ (فتح القدیر)۔
____________________
* اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی دعوت پر حضرت زینب (رضی الله عنها) کے ولیمے میں صحابہ کرام (رضي الله عنهم) تشریف لائے جن میں سے بعض کھانے کے بعد بیٹھے ہوئے باتیں کرتے رہے جس سے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو خاص تکلیف ہوئی، تاہم حیا واخلاق کی وجہ سے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے انہیں جانے کے لئے کہا نہیں۔ (صحيح بخاري، تفسير سورة الأحزاب) چنانچہ اس آیت میں دعوت کے آداب بتلا دیئے گئے کہ ایک تو اس وقت جاؤ، جب کھانا تیار ہوچکا ہو، پہلے سے ہی جا کر دھرنا مار کر نہ بیٹھ جاؤ۔ دوسرا، کھاتے ہی اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ، وہاں بیٹھے ہوئے باتیں مت کرتے رہو، کھانے کا ذکر تو سبب نزول کی وجہ سے ہے، ورنہ مطلب یہ ہے کہ جب بھی تمہیں بلایا جائے چاہے کھانے کے لئے یا کسی اور کام کے لئے، اجازت کے بغیر گھر کے اندر داخل مت ہو۔
**- یہ حکم حضرت عمر (رضي الله عنه) کی خواہش پر نازل ہوا۔ حضرت عمر (رضي الله عنه) نے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) سے عرض کیا، یا رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)! آپ کے پاس اچھے برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، کاش آپ امہات المومنین کو پردے کا حکم دیں تو کیا اچھا ہو۔ جس پر اللہ نے یہ حکم نازل فرما دیا۔ (صحيح بخاري، كتاب الصلاة، وتفسير سورة البقرة، مسلم باب فضائل عمر بن الخطاب)۔
***- یہ پردے کی حکمت اور علت ہے کہ اس سے مرد اور عورت دونوں کے دل ریب وشک سے اور ایک دوسرے کے ساتھ فتنے میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں گے۔
****- چاہے وہ کسی بھی لحاظ سے ہو۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونا، آپ (صلى الله عليه وسلم) کی خواہش کے بغیر گھر میں بیٹھے رہنا اور بغیر حجاب کے ازواج مطہرات سے گفتگو کرنا، یہ امور بھی ایذا کے باعث ہیں، ان سے بھی اجتناب کرو۔
*****- یہ حکم ان ازواج مطہرات کے بارے میں ہے جو وفات کے وقت نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے حبالۂ عقد میں تھیں۔ تاہم جن کو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے ہم بستری کے بعد زندگی میں طلاق دے کر اپنے سےعلیحدہ کردیا ہو، وہ اس کے عموم میں داخل ہیں یا نہیں؟ اس میں دو رائے ہیں۔ بعض ان کو بھی شامل سمجھتے ہیں اور بعض نہیں۔ لیکن آپ (صلى الله عليه وسلم) کی ایسی کوئی بیوی تھی ہی نہیں۔ اس لئے یہ محض ایک فرضی شکل ہے۔ علاوہ ازیں ایک تیسری قسم ان عورتوں کی ہے جن سے آپ (صلى الله عليه وسلم) نکاح ہوا لیکن ہم بستری سے قبل ہی ان کو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے طلاق دے دی۔ ان سے دوسرے لوگوں کا نکاح درست ہونے میں کوئی نزاع معلوم نہیں۔ (تفسیر ابن کثیر)
____________________
* جب عورتوں کے لئے پردے کا حکم نازل ہوا تو پھر گھر میں موجود اقارب یا ہر وقت آنے والے جانےوالے رشتے داروں کی بابت سوال ہوا کہ ان سے پردہ کیا جائے یا نہیں؟ چنانچہ اس آیت میں ان اقارب کا ذکر کردیا گیا جن سے پردے کی ضرورت نہیں؟ اس کی تفصیل سورۂ نور کی آیت 31 ”وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ“ میں بھی گزرچکی ہے، اسے ملاحظہ فرما لیا جائے۔
**- اس مقام پر عورتوں کو تقویٰ کا حکم دے کر واضح کردیا کہ اگر تمہارے دلوں میں تقویٰ ہوگا تو پردے کا جو اصل مقصد، قلب ونظر کی طہارت اور عصمت کی حفاظت ہے، وہ یقیناً تمہیں حاصل ہوگا، ورنہ حجاب کی ظاہری پابندیاں تمہیں گناہ میں ملوث ہونے سے نہیں بچا سکیں گی۔
____________________
* اس آیت میں نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے اس مرتبہ و منزلت کا بیان ہے جو ملأ اعلیٰ (آسمانوں) میں آپ (صلى الله عليه وسلم) کو حاصل ہے اور وہ یہ کہ اللہ تبارک تعالیٰ فرشتوں میں آپ (صلى الله عليه وسلم) کی ثناو تعریف کرتا اور آپ (صلى الله عليه وسلم) پر رحمتیں بھیجتا ہے اور فرشتے بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) کی بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے عالم سفلی (اہل زمین) کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) پر صلوٰۃ وسلام بھیجیں تاکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی تعریف میں علوی اورسفلی دونوں عالم متحد ہوجائیں۔ حدیث میں آتا ہے، صحابہ کرام (رضي الله عنهم) نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! سلام کا طریقہ تو ہم جانتے ہیں (یعنی التحیات میں السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ ! پڑھتے ہیں) ہم درود کس طرح پڑھیں؟ اس پر آپ (صلى الله عليه وسلم) نے وہ درود ابراہیمی بیان فرمایا جو نمازمیں پڑھا جاتا ہے۔ (صحيح بخاري، تفسير سورة الأحزاب) علاوہ ازیں احادیث میں درود کے اور بھی صیغے آتے ہیں، جو پڑھے جاسکتے ہیں۔ نیز مختصراً صلی اللہ علیٰ رسول اللہ وسلم بھی پڑھا جاسکتا ہے تاہم الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ ! پڑھنا اس لئے صحیح نہیں کہ اس میں نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) سے خطاب ہے اور یہ صیغہ نبی کریم سے عام درود کے وقت منقول نہیں ہے اور تحیات میں السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ ! چونکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) سے منقول ہے اس وجہ سے اس وقت میں پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں مزید برآں اس کا پڑھنے والا اس فاسد عقیدے سے پڑھتا ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) اسے براہ راست سنتے ہیں۔ یہ عقیدہ فاسدہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے اور اس عقیدے سے مذکورہ خانہ ساز درود پڑھنا بھی غیر صحیح ہے۔ اسی طرح اذان سے قبل اسے پڑھنا بھی بدعت ہے، جو ثواب نہیں، گناہ ہے۔ احادیث میں درود کی بڑی فضیلت وارد ہے۔ نماز میں اس کا پڑھنا واجب ہے یا سنت؟ جمہور علما اسے سنت سمجھتے ہیں اور امام شافعی اور بہت سے علما واجب۔ اور احادیث سے اس کے وجوب ہی کی تائید ہوتی ہے۔ اسی طرح احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آخری تشہد میں درود پڑھنا واجب ہے، پہلے تشہد میں بھی درود پڑھنے کی وہی حیثیت ہے۔ اس لئے نماز کے دونوں تشہد میں درود پڑھنا ضروری ہے۔
اس کے دلائل مختصراً حسب ذیل ہیں۔
ایک دلیل یہ ہے کہ مسند احمد میں صحیح سند سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) سے سوال کیا، یا رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) آپ (صلى الله عليه وسلم) پر سلام کس طرح پڑھنا ہے، یہ تو ہم نے جان لیا (کہ ہم تشہد میں السَّلامُ عَلَيْكَ پڑھتے ہیں) لیکن جب ہم نماز میں ہوں تو آپ (صلى الله عليه وسلم) پر درود کس طرح پڑھیں؟ تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے درود ابراہیمی کی تلقین فرمائی (الفتح الربانی، ج 4، ص 20۔21) مسند احمد کے علاوہ یہ روایت صحیح ابن حبان، سنن کبری بیہقی، مستدرک حاکم اور ابن خزیمہ میں بھی ہے۔ اس میں صراحت ہے کہ جس طرح سلام نماز میں پڑھا جاتا ہے یعنی تشہد میں، اسی طرح یہ سوال بھی نماز کے اندر درود پڑھنے سے متعلق تھا، نبی (صلى الله عليه وسلم) نے درود ابراہیمی پڑھنے کا حکم فرمایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ نماز میں سلام کے ساتھ درود بھی پڑھنا چاہیئے، اور اس کا مقام تشہد ہے۔ اور حدیث میں یہ عام ہے، اسے پہلے یا دوسرے تشہد کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا ہے جس سے یہ استدلال کرنا صحیح ہے کہ (پہلے اور دوسرے) دونوں تشہد میں سلام اور درود پڑھا جائے۔ اور جن روایات میں تشہد اول کا بغیر درود کے ذکر ہے، انہیں سورۂ احزاب کی آیت صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا کے نزول سے پہلے پر محمول کیا جائے گا۔ لیکن اس آیت کے نزول یعنی 5 ہجری کے بعد جب نبی (صلى الله عليه وسلم) نے صحابہ (رضي الله عنهم) کے استفسار پر درود کے الفاظ بھی بیان فرما دیئے تو اب نماز میں سلام کے ساتھ صلوٰۃ (درود شریف) کا پڑھنا بھی ضروری ہوگیا، چاہے وہ پہلا تشہد ہو یا دوسرا۔ اس کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) نے بیان فرمایا کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) (بعض دفعہ) رات کو 9 رکعات ادا فرماتے، آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھتے تو اس میں اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے پیغمبر (صلى الله عليه وسلم) پر درود پڑھتے، پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہوجاتے اور نویں رکعت پوری کرکے تشہد میں بیٹھتےتو اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے پیغمبر پر درود پڑھتے اور پھر دعا کرتے، پھر سلام پھیر دیتے (السنن الكبرى للبيهقي، ج2 ص704 طبع جديد سنن النسائي، مع التعليقات السلفية، كتاب قيام الليل، ج1 ص202۔ مزید ملاحظہ ہو، صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم للألباني صفحة 145) اس میں بالکل صراحت ہے کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے اپنی رات کی نماز میں پہلے اور آخری دونوں تشہد میں درود پڑھا ہے۔ یہ اگرچہ نفلی نماز کا واقعہ ہے لیکن مذکورہ عمومی دلائل کی آپ (صلى الله عليه وسلم) کے اس عمل سے تائید ہوجاتی ہے، اس لئے اسے صرف نفلی نماز تک محدود کردینا صحیح نہیں ہوگا۔
____________________
* اللہ کا ایذا دینے کا مطلب ان افعال کا ارتکاب ہے جسے وہ ناپسند فرماتا ہے۔ ورنہ اللہ کو ایذا پہنچانے پر کون قادر ہے؟ جیسے مشرکین، یہود اور نصاریٰ وغیرہ اللہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں۔ یا جس طرح حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے، زمانے کو گالی دیتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں اس کے رات اور دن کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے۔ (صحيح بخاري، تفسير سورة الجاثية ومسلم، كتاب الألفاظ من الأدب، باب النهي عن سب الدهر) یعنی یہ کہنا کہ زمانے نے یا فلک کج رفتار نے ایسا کردیا، یہ صحیح نہیں، اس لئے کہ افعال اللہ کے ہیں، زمانے یا فلک کے نہیں۔ اللہ کے رسول (صلى الله عليه وسلم) کو ایذا پہنچانا، آپ (صلى الله عليه وسلم) کی تکذیب، آپ (صلى الله عليه وسلم) کو شاعر، کذاب، ساحر وغیرہ کہنا ہے۔ علاوہ ازیں بعض احادیث میں صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کو ایذا پہنچانے اور ان کی تنقیص واہانت کو بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) نے ایذا قرار دیا ہے۔ لعنت کا مطلب، اللہ کی رحمت سے دوری اور محرومی ہے۔
____________________
* یعنی ان کو بدنام کرنے کے لئے ان پر بہتان باندھنا، ان کی ناجائز تنقیص و توہین کرنا۔ جیسے روافض صحابہ کرام (رضي الله عنهم) پر سب وشتم کرتے اور ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا ارتکاب انہوں نے نہیں کیا۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں رافضی منکوس القلوب ہیں، ممدوح اشخاص کی مذمت کرتے اور مذموم لوگوں کی مدح کرتے ہیں۔
____________________
* جَلابِيبُ، جِلْبَابٌ کی جمع ہے، جو ایسی بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا بدن ڈھک جائے۔ اپنے اوپر چادر لٹکانے سے مراد اپنے چہرے پر اس طرح گھونگٹ نکالنا ہے کہ جس سے چہرے کا بیشتر حصہ بھی چھپ جائے اور نظر جھکا کر چلنے سے راستہ بھی نظر آتا جائے۔ پاک وہند یا دیگر اسلامی ممالک میں برقعے کی جو مختلف صورتیں ہیں، عہد رسالت میں یہ برقعے عام نہیں تھے، پھربعد میں معاشرت میں وہ سادگی نہ رہی جو عہد رسالت اور صحابہ و تابعین کے دور میں تھی، عورتیں نہایت سادہ لباس پہنتی تھیں، بناؤ سنگھار اور زیب وزینت کاکوئی جذبہ ان کے اندر نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے ایک بڑی چادر سے بھی پردے کے تقاضے پورے ہو جاتے تھے۔ لیکن بعد میں یہ سادگی نہ رہی، اس کی جگہ تجمل اور زینت لے لی اور عورتوں کے اندر زرق برق لباس اور زیورات کی نمائش عام ہو گئی، جس کی وجہ سے چادر سے پردہ کرنا مشکل ہوگیا اور اس کی جگہ مختلف انداز کے برقعے عام ہو گئے۔ گو اس سے بعض دفعہ عورت کو، بالخصوص سخت گرمی میں، کچھ دقت بھی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یہ ذرا سی تکلیف شریعت کے تقاضوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ تاہم جو عورت برقعے کے بجائے پردے کے لئے بڑی چادر استعمال کرتی ہے اور پورے بدن کو ڈھانپتی اور چہرے پر صحیح معنوں میں گھونگٹ نکالتی ہے، وہ یقیناً پردے کے حکم کو بجا لاتی ہے، کیونکہ برقعہ ایسی لازمی شئی نہیں ہے جسے شریعت نے پردے کے لئے لازمی قرار دیا ہو۔ لیکن آج کل عورتوں نے چادر کو بےپردگی اختیار کرنے کا ذریعے بنا لیا ہے۔ پہلے وہ برقعے کی جگہ چادر اوڑھنا شروع کرتی ہیں۔ پھر چادر بھی غائب ہوجاتی ہے، صرف دوپٹہ رہ جاتا ہے اور بعض عورتوں کے لئے اس کا لینا بھی گراں ہوتا ہے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ اب برقع کا استعمال ہی صحیح ہے کیوں کہ جب سے برقعے کی جگہ چادر نے لی ہے، بےپردگی عام ہوگئی ہے بلکہ عورتیں نیم برہنگی پر بھی فخر کرنے لگی ہیں فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، بہرحال اس آیت میں نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی بیویوں، بیٹیوں اور عام مومن عورتوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت پردے کا حکم دیا گیا ہے، جس سے واضح ہے کہ پردے کا حکم علما کا ایجاد کردہ نہیں ہے، جیسا کہ آج کل بعض لوگ باور کراتے ہیں، یا اس کو قرار واقعی اہمیت نہیں دیتے، بلکہ یہ اللہ کا حکم ہے جو قرآن کی نص سے ثابت ہے، اس سے اعراض، انکار اور بےپردگی پر اصرار کفر تک پہنچا سکتا ہے۔ دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی ایک بیٹی نہیں تھی جیسا کہ رافضیوں کا عقیدہ ہے، بلکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی ایک سے زائد بیٹیاں تھیں جیسا کہ نص قرآنی سے واضح ہے اور یہ چار تھیں جیسا کہ تاریخ وسیر اور احادیث کی کتابوں سے ثابت ہے۔
**- یہ پردے کی حکمت اور اس کے فائدے کا بیان ہے کہ اس سے ایک شریف زادی اور باحیا عورت اور بےشرم اور بدکار عورت کے درمیان پہچان ہوگی۔ پردے سے معلوم ہوگا کہ یہ خاندانی عورت ہے جس سے چھیڑ چھاڑ کی جرات کسی کو نہیں ہوگی، اس کے برعکس بےپردہ عورت اوباشوں کی نگاہوں کا مرکز اور ان کی بوالہوسی کا نشانہ بنے گی۔
____________________
* مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لئے منافقین افواہیں اڑاتے رہتے تھے کہ مسلمان فلاں علاقے میں مغلوب ہوگئے، یا دشمن کا لشکر جرار حملہ آور ہونے کے لئے آرہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
____________________
* یہ حکم نہیں ہے کہ ان کو پکڑ کر مار ڈالا جائے، بلکہ بد دعا ہے کہ اگر وہ اپنے نفاق اور ان حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان کا نہایت عبرت ناک حشر ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حکم ہے۔ لیکن یہ منافقین نزول آیت کے بعد اپنی حرکتوں سے باز آگئے تھے، اس لئے ان کے خلاف یہ کارروائی نہیں کی گئی جس کا حکم اس آیت میں دیا گیا تھا۔ (فتح القدیر)۔
____________________
* یعنی ہم نے تیرے پیغمبروں اور داعیان دین کے بجائے اپنے ان بڑوں اور بزرگوں کی پیروی کی، لیکن آج ہمیں معلوم ہوا کہ انہوں نے ہمیں تیرے پیغمبروں سے دور رکھ کر راہ راست سے بھٹکائے رکھا۔ آباپرستی اور تقلید اکابر آج بھی لوگوں کی گمراہی کا باعث ہے۔ کاش مسلمان آیات الٰہی پر غور کرکے ان پگڈنڈیوں سے نکلیں اور قرآن وحدیث کی صراط مستقیم کو اختیار کرلیں کہ نجات صرف اور صرف اللہ اور رسول کی پیروی میں ہی ہے۔ نہ کہ مشائخ واکابر کی تقلید میں یا آباواجداد کے فرسودہ طریقوں کے اختیار کرنے میں۔
____________________
* اس کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) نہایت باحیا تھے، چنانچہ اپنا جسم انہوں نے کبھی لوگوں کے سامنے ننگا نہیں کیا۔ بنی اسرائیل کہنے لگے کہ شاید موسیٰ (عليه السلام) کے جسم میں برص کے داغ یا کوئی اس قسم کی آفت ہے جس کی وجہ سے یہ ہر وقت لباس میں ڈھکا چھپا رہتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) تنہائی میں غسل کرنے لگے، کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیئے، پتھر (اللہ کے حکم سے) کپڑے لے بھاگ کھڑا ہوا۔ حضرت موسی (عليه السلام) اس کے پیچھے پیچھے دوڑے، حتیٰ کہ بنی اسرائیل کی ایک مجلس میں پہنچ گئے، انہوں نے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کو ننگا دیکھا تو ان کے سارے شبہات دور ہوگئے۔ موسیٰ (عليه السلام) نہایت حسین وجمیل اور ہر قسم کے داغ اور عیب سے پاک تھے۔ یوں اللہ تبارک وتعالیٰ نے معجزانہ طور پر پتھر کے ذریعے سے ان کی اس الزام اور شبہے سے براءت کردی جو بنی اسرائیل کی طرف سے ان پر کیا جاتا تھا (صحيح بخاري كتاب الأنبياء) حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے حوالے سے اہل ایمان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تم ہمارے پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) کو بنی اسرائیل کی طرح ایذا مت پہنچاؤ اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کی بابت ایسی بات مت کرو جسے سن کر آپ (صلى الله عليه وسلم) قلق اور اضطراب محسوس کریں، جیسے ایک موقعے پر مال غنیمت کی تقسیم میں ایک شخص نے کہا کہ اس میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیا گیا۔ جب آپ (صلى الله عليه وسلم) تک یہ الفاظ پہنچے تو غضب ناک ہوئے حتیٰ کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”موسیٰ (عليه السلام) پر اللہ کی رحمت ہو، انہیں اس سے کہیں زیادہ ایذا پہنچائی گئی، لیکن انہوں نے صبر کیا“۔ (بخاري كتاب الأنبياء، مسلم، كتاب الزكاة، باب إعطاء المؤلفة قلوبهم على الإسلام..)۔
____________________
* یعنی ایسی بات جس میں کجی اور انحراف ہو، نہ دھوکہ اور فریب۔ بلکہ سچ اور حق ہو۔ سَدِيدٌ يَعْنِي تَسْدِيدُ السَّهْمِ سے ہے، یعنی جس طرح تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے تاکہ ٹھیک نشانے پر لگے، اسی طرح تمہاری زبان سےنکلی ہوئی بات اور تمہارا کردار راستی پر مبنی ہو، حق وصداقت سے بال برابر انحراف نہ ہو۔
____________________
* یہ تقویٰ اور قول سدید کا نتیجہ ہے کہ تمہارے عملوں کی اصلاح ہوگی اور مزید توفیق مرضیات سے نوازے جاؤ گے اور کچھ کمی کوتاہی رہ جائے گی، تو اسے اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔
____________________
* جب اللہ تعالیٰ نے اہل اطاعت کا اجر وثواب اور اہل معصیت کا وبال اور عذاب بیان کردیا تو اب شرعی احکام اور اس کی صعوبت کا تذکرہ فرما رہا ہے۔ امانت سے وہ احکام شرعیہ اور فرائض وواجبات مراد ہیں جن کی ادائیگی پر ثواب اور ان سے اعراض وانکار پر عذاب ہوگا۔ جب یہ تکالیف شرعیہ آسمان وزمین اور پہاڑوں پر پیش کی گئیں تو وہ ان کے اٹھانے سے ڈر گئے۔ لیکن جب انسان پر یہ چیز پیش کی گئی تو وہ اطاعت الٰہی (امانت) کے اجر وثواب اور اس کی فضیلت کو دیکھ کر اس بار گراں کو اٹھانے پر آمادہ ہوگیا۔ احکام شرعیہ کو امانت سے تعبیر کرکے اشارہ فرما دیا کہ ان کی ادائیگی انسانوں پر اسی طرح واجب ہے، جس طرح امانت کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔ پیش کرنے کا مطلب کیا ہے؟ اور آسمان وزمین اور پہاڑوں نے کس طرح اس کا جواب دیا؟ اور انسان نے اسے کس وقت قبول کیا؟ اس کی پوری کیفیت نہ ہم جان سکتے ہیں نہ اسے بیان کرسکتے ہیں۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ نے اپنی ہر مخلوق میں ایک خاص قسم کا احساس وشعور رکھا ہے، گو ہم اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ تو ان کی بات سمجھنے پر قادر ہے، اس نے ضرور اس امانت کو ان پر پیش کیا ہوگا جسے قبول کرنے سے انہوں نے انکار کردیا۔ اور یہ ا نکار انہوں نے سرکشی وبغاوت کی بنا پر نہیں کیا بلکہ اس میں یہ خوف کار فرما تھا کہ اگر ہم اس امانت کے تقاضے پورے نہ کرسکے تو اس کی سخت سزا ہمیں بھگتنی ہوگی۔ انسان چونکہ جلد باز ہے، اس نے عقوبت وتعزیر کے پہلو پر زیادہ غور نہیں کیا اور حصول فضیلت کے شوق میں اس ذمے داری کو قبول کرلیا۔
____________________
* یعنی یہ بار گراں اٹھا کر اس نے اپنے نفس پر ظلم کا ارتکاب کیا اور اس کے مقتضیات سے اعراض یا اس کی قدر وقیمت سے غفلت کرکے جہالت کا مظاہرہ پیش کیا۔
**- اس کا تعلق حَمَلَهَا سے ہے یعنی انسان کو اس امانت کا ذمے دار بنانے سے مقصد یہ ہے کہ اہل نفاق واہل شرک کا نفاق وشرک اور اہل ایمان کا ایمان ظاہر ہوجائے اور پھر اس کے مطابق جزا وسزا دی جائے۔