surah.translation .
من تأليف: محمد إبراهيم جوناكري .

جب آسمان پھٹ جائے گا.*
____________________
* یعنی جب قیامت برپا ہوگی۔
اور اپنے رب کے حکم پر کان لگائے گا* اور اسی کے ﻻئق وه ہے.**
____________________
* یعنی اللہ اس کوپھٹنے کا جو حکم دے گا، اسے سنے گا اور اطاعت کرے گا۔
**- یعنی اس کے یہی لائق ہے کہ سنے اور اطاعت کرے، اس لئے کہ وہ سب پرغالب ہے اور سب اس کے ماتحت ہیں، اس کے حکم سے سرتابی کرنے کی کس کو مجال ہو سکتی ہے ؟
اور جب زمین (کھینچ کر) پھیلا دی جائے گی.*
____________________
* یعنی اس کے طول وعرض میں مزید وسعت کر دی جائےگی۔ یا یہ مطلب ہے کہ اس پر جو پہاڑ وغیرہ ہیں، سب کو ریزہ ریزہ کر کے زمین کو صاف اور ہموار کرکے بچھا دیا جائے گا۔ اس میں کوئی اونچ نیچ نہیں رہے گی۔
اور اس میں جو ہے اسے وه اگل دے گی اور خالی ہو جائے گی.*
____________________
* یعنی اس میں جو مردے دفن ہیں، سب زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے جو خزانے اس کے بطن میں موجود ہیں، وہ انہیں ظاہر کر دے گی، اور خود بالکل خالی ہو جائے گی۔
اور اپنے رب کے حکم پر کان لگائے گی* اور اسی کے ﻻئق وه ہے.
____________________
* یعنی القا اور تخلی کا جو حکم اسے دیا جائے گا، وہ اس کے مطابق عمل کرے گی ۔
اے انسان! تو اپنے رب سے ملنے تک یہ کوشش اور تمام کام اور محنتیں کرکے اس سے ملاقات کرنے واﻻ ہے.*
____________________
- یہاں انسان بطور جنس کے ہے جس میں مومن اور کافر دونوں شامل ہیں۔ کدح، سخت محنت کو کہتے ہیں، وہ محنت خیر کے کاموں کے لئے ہو یا شر کےلئے۔ مطلب یہ ہے کہ جب مذکورہ چیزیں ظہور پذیر ہوں گی یعنی قیامت آجائے گی تو اے انسان تو نے جو بھی، اچھا یا برا عمل کیا ہوگا، وہ تو اپنے سامنے پالے گا اور اسی کے مطابق تجھے اچھی یا بری جزا بھی ملے گی۔ آگے اس کی مزید تفصیل ووضاحت ہے۔
تو (اس وقت) جس شخص کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا.
اس کا حساب تو بڑی آسانی سے لیا جائے گا.*
____________________
* آسان حساب یہ ہے کہ مومن کا اعمال نامہ پیش ہوگا۔ اس کی غلطیاں بھی اس کے سامنے لائی جائیں گی، پھر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور فضل وکرم سے انہیں معاف فرما دے گا۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”جس کا حساب لیا گیا وہ ہلاک ہوگیا“۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا، جس کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیا گیا، اس کا حساب آسان ہوگا۔ مطلب حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کا یہ تھا کہ اس آیت کی رو سے حساب تو مومن کا بھی ہوگا لیکن وہ ہلاکت سےدوچار نہیں ہوگا۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے وضاحت فرمائی ”یہ تو پیشی ہے“۔ یعنی مومن کے ساتھ معاملہ حساب کا نہیں ہوگا، ایک سرسری سی پیشی ہوگی مومن رب کے سامنے پیش کیے جائیں گے، جس کا مناقشہ ہوا یعنی پوچھ گچھ ہوئی وہ مارا گیا۔ ( صحيح البخاري، تفسير سورة انشقاق ) ایک اور روایت میں حضرت عائشہ (رضی الله عنها) فرماتی ہیں۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) اپنی بعض نماز میں یہ دعا پڑھتے تھے۔ ”اللَّهُمَّ حَاسِبْنِي حِسَابًا يَسِيرًا“ (اے اللہ میرا حساب آسان فرمانا) نماز سے فراغت کے بعد میں نے پوچھا، حسابا یسیرا ”آسان حساب“ کا کیا مطلب ہے ؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا، اللہ تعالیٰ اس کا اعمال نامہ دیکھے گا اور پھر اسے معاف فرما دے گا۔۔۔ ( مسند احمد،6 / 48 ) ۔
اور وه اپنے اہل کی طرف ہنسی خوشی لوٹ آئے گا.*
____________________
* یعنی جو اس کے گھر والوں میں سے جنتی ہوں گے۔ یا اس سے مراد وہ حورعین اور ولدان ہیں جو جنتیوں کو ملیں گے۔
ہاں جس شخص کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا.
تو وه موت کو بلانے لگے گا.*
____________________
* ثُبُورًا ہلاکت، خسارہ۔ یعنی وہ چیخے گا، پکارے گا، واویلا کرے گا کہ میں تو مارا گیا، ہلاک ہوگیا۔
اور بھڑکتی ہوئی جہنم میں داخل ہوگا.
یہ شخص اپنے متعلقین میں (دنیا میں) خوش تھا.*
____________________
* یعنی دنیا میں اپنی خواہشات میں مگن اور اپنے گھر والوں کےدرمیان بڑا خوش تھا۔
اس کا خیال تھا کہ اللہ کی طرف لوٹ کر ہی نہ جائے گا.*
____________________
* یہ اس کے خوش ہونے کی علت ہے۔ یعنی آخرت پر اس کا عقیدہ ہی نہیں تھا ۔ حور کےمعنی ہیں، لوٹنا۔ جس طرح نبی (صلى الله عليه وسلم) کی دعا ہے اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْحَورِ بَعْدَ الْكَورِ(صحيح مسلم، الحج، باب ما يقول إذا ركب إلى سفر الحج وغيره، ترمذي، ابن ماجه ) مسلم میں بعد الكون ہے۔ مطلب ہے، اس بات سے میں پناہ مانگتا ہوں کہ ایمان کے بعد کفر، اطاعت کے بعد معصیت یاخیر کے بعد شر کی طرف لوٹوں۔
کیوں نہیں*، حاﻻنکہ اس کا رب اسے بخوبی دیکھ رہا تھا.**
____________________
* ایک ترجمہ اس کا یہ بھی ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ نہ لوٹے اور دوبارہ زندہ نہ ہو، یا بَلَى، کیوں نہیں، یہ ضرور اپنے رب کی طرف لوٹے گا۔
**- یعنی اس سے اس کا کوئی عمل مخفی نہیں تھا۔
مجھے شفق کی قسم*! اور رات کی!
____________________
* شَفَقٌ، اس سرخی کو کہتے ہیں جو سورج غروب ہونے کے بعد آسمان پر ظاہر ہوتی ہے اور عشا کا وقت شروع ہونے تک رہتی ہے۔
اور اس کی جمع کرده* چیزوں کی قسم.
____________________
* اندھیرا ہوتے ہی ہر چیز اپنےماویٰ اور مسکن کی طرف جمع اور سمٹ آتی ہے یعنی رات کا اندھیرا جن چیزوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔
اور چاند کی جب کہ وه کامل ہو جاتا ہے.*
____________________
* إِذَا اتَّسَقَ کے معنی ہیں، جب وہ مکمل ہو جائے جیسے وہ تیرھویں کی رات سے سولھویں تاریخ کی رات تک رہتا ہے۔
یقیناً تم ایک حالت سے دوسری حالت پر پہنچو گے.*
____________________
* طَبَقٌ کے اصل معنی شدت کے ہیں۔ یہاں مراد وہ شدائد ہیں جو قیامت والے دن واقع ہوں گے۔ یعنی اس روز ایک سے بڑھ کر ایک حالت طاری ہوگی۔ (فتح الباري، تفسير سورة انشقاق) یہ جواب قسم ہے۔
انہیں کیا ہو گیا کہ ایمان نہیں ﻻتے.
اور جب ان کے پاس قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجده نہیں کرتے.*
____________________
* احادیث سے یہاں نبی (صلى الله عليه وسلم) اور صحابہ کرام کا سجدہ کرنا ثابت ہے۔
بلکہ جنہوں نے کفر کیا وه جھٹلا رہے ہیں.*
____________________
* یعنی ایمان لانے کےبجائے جھٹلاتے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں رکھتے ہیں.*
____________________
* یعنی تکذیب، یاجو افعال وہ چھپ کر کرتے ہیں۔
انہیں المناک عذابوں کی خوشخبری سنا دو.
ہاں ایمان والوں اور نیک اعمال والوں کو بے شمار اور نہ ختم ہونے واﻻ اجر ہے.