ﰡ
____________________
* یہ فَوَاتِحُ سُوَرٌ، ان متشابہات میں سے ہیں جن کا علم صرف اللہ کو ہے، اس لئے ان کے معانی ومطالب میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم ان کے دو فائدے بعض مفسرین نے بیان کیے ہیں، جنہیں ہم سورۂ لقمان کے شروع میں بیان کر آئے ہیں۔
____________________
* یعنی آسمان وزمین کی پیدائش کا ایک خاص مقصد بھی ہے اور وہ ہے انسانوں کی آزمائش۔ دوسرا، اس کے لئے ایک وقت بھی مقرر ہے۔ جب وہ وقت موعود آجائے گا تو آسمان وزمین کا یہ موجودہ نظام سارا بکھر جائے گا۔ نہ آسمان، یہ آسمان ہوگا، نہ زمین، یہ زمین ہوگی۔«يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ» (سورة إبراهيم: 48)
**- یعنی عدم ایمان کی صورت میں بعث، حساب اور جزا سے جو انہیں ڈرایا جاتا ہے، وہ اس کی پرواہی نہیں کرتے، اس پر ایمان لاتے ہیں، نہ عذاب اخروی سے بچنے کی تیاری کرتے ہیں۔
____________________
* أَرَأَيْتُمْ بمعنی أَخْبِرُونِي یا أَرُونِي یعنی اللہ کو چھوڑ کر جن بتوں یا شخصیات کی تم عبادت کرتے ہو، مجھے بتلاؤ یا دکھلاؤ کہ انہوں نے زمین وآسمان کی پیدائش میں کیا حصہ لیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ جب آسمان وزمین کی پیدائش میں بھی ان کا کوئی حصہ نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر ان سب کا خالق صرف ایک اللہ ہے تو پھر تم ان غیر حق معبودوں کو اللہ کی عبادت میں کیوں شریک کرتے ہو؟
**- یعنی کسی نبی پر نازل شدہ کتاب میں یا کسی منقول روایت میں یہ بات لکھی ہو تو وہ لاکر دکھاؤ تاکہ تمہاری صداقت واضح ہو سکے۔ بعض نے أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ کے معنی واضح علمی دلیل کے کئے ہیں، اس صورت میں کتاب سے نقلی دلیل اور أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ سے عقلی دلیل مراد ہوگی۔ یعنی کوئی عقلی اور نقلی دلیل پیش کرو۔ پہلے معنی اس کے اثر سے ماخوذ ہونے کی بنیاد پر روایت کے کیے گئے ہیں یا بَقِيَّةٍ مِنْ عِلْمٍ پہلے انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کا باقی ماندہ حصہ جو قابل اعتماد ذریعے سے نقل ہوتا آیا ہو، اس میں یہ بات ہو۔
____________________
* یعنی یہی سب سے بڑے گمراہ ہیں جو پتھر کی مورتیوں کو یا فوت شدہ اشخاص کو مدد کے لئے پکارﺗے ہیں جو قیامت تک جواب دینے سے قاصر ہیں۔ اور قاصر ہی نہیں، بلکہ بالکل بےخبر ہیں۔
____________________
* یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ یونس: 29۔ سورۂ مریم: 81۔ 82۔ سورۂ عنکبوت: ، 25 وغیرھا من الآیات۔ دنیا میں ان معبودوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو غیر ذی روح جمادات ونباتات اور مظاہر قدرت (سورج، آگ وغیرہ) ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو زندگی اور قوت گویائی عطا فرمائے گا، اور یہ چیزیں بول کر بتلائیں گی کہ ہمیں قطعاً اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ ہماری عبادت کرتے اور ہمیں تیری خدائی میں شریک گردانتے تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ زبان قال سے نہیں، زبان حال سے وہ اپنے جذبات کا اظہار کریں گی۔ واللہ اعلم۔ معبودوں کی دوسری قسم وہ ہے جو انبیا علیہم السلام، ملائکہ اور صالحین میں سے ہیں۔ جیسے عیسیٰ، حضرت عزیر علیہما السلام اور دیگر عباد اللہ الصالحین ہیں، یہ اللہ کی بارگاہ میں اسی طرح کا جواب دیں گے جیسے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کا جواب قرآن کریم میں منقول ہے۔ علاوہ ازیں شیطان بھی انکار کریں گے۔ جیسے قرآن میں ان کا قول نقل کیا گیا ہے۔ «تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ» (القصص: 63) ”ہم تیرے سامنے (اپنے عابدین سے) اظہار براء ت کرتے ہیں، یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے“۔
____________________
* اس حق سے مراد، جو ان کےپاس آیا، قرآن کریم ہے، اس کے اعجاز اور قوت تاثیر کو دیکھ کر وہ اسے جادو سے تعبیر کرتے، پھر اس سے بھی انحراف کرکے یا اس سے بھی بات نہ بنتی تو کہتے کہ یہ تو محمد ( (صلى الله عليه وسلم) ) کااپنا گھڑا ہوا کلام ہے۔
**- یعنی اگر تمہاری یہ بات صحیح ہو کہ میں اللہ کا بنایا ہوا رسول نہیں ہوں اور یہ کلام بھی میرا اپنا گھڑا ہوا ہے، پھر تو یقیناً میں بڑا مجرم ہوں، اللہ تعالیٰ اتنے بڑے جھوٹ پر مجھے پکڑے بغیر تو نہیں چھوڑے گا۔ اور اگر ایسی کوئی گرفت ہوئی تو پھر سمجھ لینا کہ میں جھوٹا ہوں اور میری کوئی مدد بھی مت کرنا۔ بلکہ ایسی حالت میں مجھے مواخذہ الٰہی سے بچانے کا تمہیں کوئی اختیار ہی نہیں ہوگا۔ اسی مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے «وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الأَقَاوِيلِ، لأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ، فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ» (الحاقة، 44۔ 47)۔
***- یعنی جس جس انداز سے بھی تم قرآن کی تکذیب کرتے ہو، کبھی اسے جادو، کبھی کہانت اور کبھی گھڑا ہوا کہتے ہو، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ یعنی وہی تمہاری ان مزموم حرکتوں کا تمہیں بدلہ دے گا۔
****- وہ اس بات کی گواہی کے لئے کافی ہے کہ یہ قرآن اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے اور وہی تمہاری تکذیب ومخالفت کا بھی گواہ ہے۔ اس میں بھی ان کے لئے سخت وعید ہے۔
*****- اس کے لئے جو توبہ کرلے، ایمان لے آئے اور قرآن کو اللہ تعالیٰ کا سچا کلام مان لے۔ مطلب ہے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ توبہ کرکے اللہ کی مغفرت ورحمت کے مستحق بن جاؤ۔
____________________
* یعنی پہلا اور انوکھا رسول تو نہیں ہوں، بلکہ مجھ سے پہلے بھی متعدد رسول آچکے ہیں۔
**- یعنی دنیا میں۔ میں مکے میں ہی رہوں گا یا یہاں سے نکلنے پر مجھے مجبور ہونا پڑے گا۔ مجھے موت طبعی آئے گی یا تمہارے ہاتھوں میرا قتل ہوگا؟ تم جلد ہی سزا سے دوچار ہو گے یا لمبی مہلت تمہیں دی جائے گی؟ ان تمام باتوں کا علم صرف اللہ کو ہے، مجھے نہیں معلوم کہ میرے ساتھ یا تمہارے ساتھ کل کیا ہوگا؟ تاہم آخرت کے بارے میں یقینی علم ہے کہ اہل ایمان جنت میں اور کافر جہنم میں جائیں گے۔ اور حدیث میں جو آتا ہے کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بعض صحابہ (رضي الله عنهم) کی وفات پر، جب ان کے بارے میں حسن ظن کا اظہار کیا گیا، تو فرمایا ”وَاللهِ مَا أَدْرِي -وَأَنَا رَسُولُ اللهِ- مَا يُفْعَلُ بِي وَلا بِكُمْ“ (صحيح بخاري، مناقب الأنصار، باب مقدم النبي وأصحابه إلى المدينة) اللہ کی قسم، مجھے اللہ کا رسول ہونے کے باوجود علم نہیں کہ قیامت کو میرے اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا؟ اس سے کسی ایک معین شخص کے قطعی انجام کے علم کی نفی ہے۔ الا یہ کہ ان کی بابت بھی نص موجود ہو۔ جیسے عشرہ مبشرہ اور اصحاب بدر وغیرہ۔
____________________
* اس شاہد بنی اسرائیل سے کون مراد ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ یہ بطور جنس کے ہے۔ بنی اسرائیل میں سے ہر ایمان لانے والا اس کا مصداق ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مکے میں رہنے والا کوئی بنی اسرائیلی مراد ہے، کیونکہ یہ سورت مکی ہے۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد عبداللہ بن سلام ہیں اور وہ اس آیت کو مدنی قرار دیتے ہیں۔ صحیحین کی روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (صحيح بخاري، مناقب الأنصار، باب مناقب عبد الله بن سلام - مسلم، فضائل الصحابة) اسی لئے امام شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ عَلَى مِثْلِهِ(اسی جیسی کتاب کی گواہی) کا مطلب ہے تورات کی گواہی جو قرآن کے منزل من اللہ ہونے کو مستلزم ہے۔ کیونکہ قرآن بھی توحید ومعاد کے اثبات میں تورات ہی کی مثل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب کی گواہی اور ان کے ایمان لانے کے بعد اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ہے۔ اس لئے اس کے بعد تمہارے انکار واستکبار کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ تمہیں اپنے اس رویے کا انجام سوچ لینا چاہئے۔
____________________
* کفار مکہ، حضرت بلال، عمار، صہیب اور خباب (رضي الله عنهم) جیسے مسلمانوں کو، جو غریب وقلاش قسم کے لوگ تھے، لیکن اسلام قبول کرنے سے انہیں سابقیت کا شرف حاصل ہوا، دیکھ کر کہتے کہ اگر اس دین میں بہترین ہوتی تو ہم جیسے ذی عزت وذی مرتبہ لوگ سب سے پہلے اسے قبول کرتے نہ کہ یہ لوگ پہلے ایمان لاتے۔ یعنی اپنے طور پر انہوں نے اپنی بابت یہ فرض کر لیا کہ اللہ کے ہاں ان کا بڑا مقام ہے، اس لئے اگر یہ دین بھی اللہ کی طرف سے ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے قبول کرنے میں پیچھے نہ چھوڑتا، اور جب ہم نے اسے نہیں اپنایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک پرانا جھوٹ ہے۔ یعنی قرآن کو انہوں نے پرانا جھوٹ قرار دیا ہے۔ جیسے وہ اسے أَسَاِطِيرُ الأوَّلِينَ بھی کہتے تھے، حالانکہ دنیوی مال ودولت میں ممتاز ہونا، عند اللہ مقبولیت کی دلیل نہیں۔ ”جیسے ان کو مغالطہٰ ہوا یا شیطان نے مغالطے میں ڈالا“ عند اللہ مقبولیت کے لئے تو ایمان واخلاص کی ضرورت ہے۔ اور اس دولت ایمان واخلاص سے وہ جس کو چاہتا ہے، نوازتا ہے، جیسے وہ مال ودولت آزمائش کے طور پر جس کو چاہتا ہے، دیتا ہے۔
____________________
* اس مشقت وتکلیف کا ذکر، والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حکم میں مزید تاکید کے لئے ہے۔ جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماں، اس حکم احسان میں، باپ سے مقدم ہے، کیونکہ نوماہ تک مسلسل حمل کی تکلیف اور پھر زچگی (وضح حمل) کی تکلیف، صرف تنہا ماں ہی اٹھاتی ہے، باپ کی اس میں شرکت نہیں، اسی لئے حدیث میں بھی ماں کے ساتھ حسن سلوک کو اولیت دی گئی ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتلایا گیا ہے۔ ایک صحابی (رضي الله عنه) نے نبی (صلى الله عليه وسلم) سے پوچھا میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا تمہاری ماں، اس نے پھر یہی پوچھا، آپ (صلى الله عليه وسلم) نے یہی جواب دیا، تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا، پھر تمہارا باپ (صحيح مسلم، كتاب البر والصلة، باب أول)۔
**- فِصَالٌ کے معنی، دودھ چھڑانا ہیں۔ اس سے بعض صحابہ (رضي الله عنهم) نے استدلال کیا ہے کہ کم از کم مدت حمل چھ مہینے یعنی چھ مہینے کے بعد اگر کسی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے تو وہ بچہ حلال ہی کا ہوگا، حرام کا نہیں۔ اس لئے کہ قرآن نے مدت رضاعت دو سال (24 مہینے) بتلائی ہے (سورۂ لقمان: 14، سورۂ بقرۃ: 233) اس حساب سے مدت حمل صرف چھ مہینے ہی باقی رہ جاتی ہے۔
***- کمال قدرت (أَشُدَّهُ) کے زمانے سے مراد جوانی ہے، بعض نے اسے 18 سال سے تعبیر کیا ہے، حتیٰ کہ پھر بڑھتے بڑھتے چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا۔ یہ عمر قوائے عقلی کے مکمل بلوغ کی عمر ہے۔ اسی لئے مفسرین کی رائے ہے کہ ہر نبی کو چالیس سال کے بعد ہی نبوت سے سرفراز کیا گیا (فتح القدیر)۔
****- أَوْزِعْنِي بمعنی أَلْهِمْنِي ہے، مجھے توفیق دے، اس سے استدلال کرتے ہوئے علما نے کہا ہے کہ اس عمر کے بعد انسان کو یہ دعا کثرت سے پڑھتے رہنا چاہئے۔ یعنی رَبِّ أَوْزِعْنِي سے مِنَ الْمُسْلِمِينَ تک۔
____________________
* مذکورہ آیت میں سعادت مند اولاد کا تذکرہ تھا، جو ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک بھی کرتی ہے اور ان کے حق میں دعائے خیر بھی۔ اب اس کے مقابلے میں بدبخت اور نافرمان او لاد کا ذکر کیا جا رہا ہے جو ماں باپ کے ساتھ گستاخی سے پیش آتی ہے۔ أُفٍّ لَكُمَا افسوس ہے تم پر، اف کا کلمہ، ناگواری کے اظہار کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی نافرمان اولاد، باپ کی ناصحانہ باتوں پر یا دعوت ایمان وعمل صالح پر ناگواری اور شدت غیظ کا اظہار کرتی ہے جس کی اولاد کو قطعاً اجازت نہیں ہے۔ یہ آیت عام ہے، ہر نافرمان اولاد اس کی مصداق ہے۔
**- مطلب ہے کہ وہ تودوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں نہیں آئے۔ حالانکہ دوبارہ زندہ ہونے کا مطلب قیامت والے دن زندہ ہونا ہے جس کے بعد حساب ہوگا۔
***- ماں باپ مسلمان ہوں اور اولاد کافر، تو وہاں اولاد اور والدین کے درمیان اسی طرح تکرار اور بحث ہوتی ہے جس کا ایک نمونہ اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔
____________________
* جو پہلے ہی اللہ کے علم میں تھا، یا شیطان کے جواب میں جو اللہ نے فرمایا تھا «لأَمْلأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ» (سورۃ ص:85)
**- یعنی یہ بھی ان کافروں میں شامل ہوگئے جو انسانوں اور جنوں میں سے قیامت والے دن نقصان اٹھانے والے ہوں گے۔
____________________
* مومن اور کافر، دونوں کا، ان کے عملوں کے مطابق اللہ کے ہاں مرتبہ ہوگا۔ مومن مراتب عالیہ سے سرفراز ہوں گے اور کافر جہنم کےپست ترین درجوں میں ہوں گے۔
**- گناہ گار کو اس کے جرم سےزیادہ سزا دی جائے گی اور نیکو کار کے صلے میں کمی نہیں ہوگی۔ بلکہ ہر ایک کو خیر یا شر میں سے وہی کچھ ملے گا جس کا وہ مستحق ہوگا۔
____________________
* یعنی اس وقت کو یاد کرو، جب کافروں کی آنکھوں سے پردے ہٹا دیئے جائیں گے اور وہ جہنم کی آگ دیکھ رہے یا اس کے قریب ہوں گے۔ بعض نے يُعْرَضُونَ کے معنی يُعَذَّبُونَ کے کیے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کلام میں قلب ہے۔ مطلب ہے جب آگ ان پر پیش کی جائے گی تُعْرَضُ النَّارُ عَلَيْهِمْ (فتح القدير)۔
**- طَيِّبَاتٌ سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان ذوق وشوق سے کھاتے پیتے اور استعمال کرتے اور لذت وفرحت محسوس کرتے ہیں۔ لیکن آخرت کی فکر کے ساتھ ان کا استعمال ہو تو بات اور ہے، جیسے مومن کرتا ہے۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ احکام الٰہی کی اطاعت کرکے شکر الٰہی کا بھی اہتمام کرتا رہتا ہے۔ لیکن فکر آخرت سے بے نیازی کےساتھ ان کا استعمال انسان کو سرکش اور باغی بنا دیتا ہے جیسے کافر کرتا ہے اور یوں وہ اللہ کی ناشکری کرتا ہے۔ چنانچہ مومن کو تو اس کے شکر واطاعت کی وجہ سے یہ نعمتیں بلکہ اس سے بدر جہا بہتر نعمتیں آخرت میں پھر مل جائیں گی۔
جب کہ کافروں کو وہی کچھ کہا جائے گا جو یہاں آیت میں مذکور ہے۔ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ.... کا دوسرا ترجمہ ہے دنیا کی زندگی میں تم نے اپنے مزے اڑا لیے اور خوب فائدہ اٹھا لیا۔
***- ان کے عذاب کے دو سبب بیان فرمائے، ناحق تکبر، جس کی بنیاد پر انسان حق کا اتباع کرنے سے گریز کرتا ہے اور دوسرا فسق۔ بے خوفی کے ساتھ معاصی کا ارتکاب۔ یہ دونوں باتیں تمام کافروں میں مشترکہ ہوتی ہیں۔ اہل ایمان کو ان دونوں باتوں سے اپنا دامن بچانا چاہئے۔
ملحوظة۔ بعض صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کےبارے میں آتا ہے کہ ان کے سامنے عمدہ وغیرہ آتی تو یہ آیت انہیں یاد آجاتی اور وہ اسے ڈر سےاسے ترک کر دیتے کہ کہیں آخرت میں ہمیں بھی یہ نہ کہہ دیا جائے کہ تم نے اپنے مزے دنیا میں لوٹ لیے۔ تو یہ ا ن کی وہ کیفیت ہے جو غایت ورع اور زہد وتقویٰ کی مظہر ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اچھی نعمتوں کا استعمال وہ جائز نہیں سمجھتے تھے۔
____________________
* أَحْقَافٌ، حِقْفٌ کی جمع ہے۔ ریت کا بلند مستطیل ٹیلہ، بعض نے اس کے معنی پہاڑ اور غار کےکیے ہیں۔ یہ حضرت ہود (عليه السلام) کی قوم عاد اولیٰ۔ کے علاقے کا نام ہے، جو حضر موت (یمن) کے قریب تھا۔ کفار مکہ کی تکذیب کے پیش نظر نبی (صلى الله عليه وسلم) کی تسلی کے لئے گزشتہ انبیا علیہم السلام کے واقعات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
**- یوم عظیم سےمراد قیامت کا دن ہے، جسےاس کی ہولناکی کی وجہ سے بجا طور پر بڑا دن کہا گیا ہے۔
____________________
* لِتَأْفِكَنَا لِتَصْرِفَنَا یا لِتَمْنَعَنَا یا لِتُزِلَنَا، سب متقارب المعنی ہیں۔ تاکہ تو ہمیں ہمارے معبودوں کی پرستش سےپھیر دے، روک دے، ہٹا دے۔
____________________
* یعنی عذاب کب آئے گا؟ یا دنیا میں نہیں آئے گا، بلکہ آخرت میں تمہیں عذاب دیا جائے گا، اس کا علم صرف اللہ کو ہے، وہی اپنی مشیت کے مطابق فیصلہ فرماتا ہے، میرا کام تو صرف پیغام پہنچانا ہے۔
**- کہ ایک تو کفر پر اصرار کر رہےہو، دوسرے، مجھ سے ایسی چیز کا مطالبہ کر رہے ہو جو میرے اختیار میں نہیں ہے۔
____________________
* عرصہ دراز سے ان کے ہاں بارش نہیں ہوئی تھی، امنڈتے بادل دیکھ کر خوش ہوئے کہ اب بارش ہوگی۔ بادل کو عارض اس لئے کہا ہے کہ بادل عرض آسمان پر ظاہر ہوتا ہے۔
**- یہ حضرت ہود (عليه السلام) نے انہیں کہا کہ یہ محض بادل نہیں ہے، جیسے تم سمجھ رہے ہو۔ بلکہ یہ وہ عذاب ہے۔ جسے تم جلد لانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
***- یعنی وہ ہوا، جس سے اس قوم کی ہلاکت ہوئی، ان بادلوں سے ہی اٹھی اور نکلی اور اللہ کی مشیت سے ان کو اور ان کی ہر چیز کو تباہ کر گئی۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے، حضرت عائشہ (رضی الله عنها) نے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سےپوچھا کہ لوگ تو بادل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہوگی، لیکن آپ (صلى الله عليه وسلم) کے چہرے پر اس کے برعکس تشویش کے آثار نظر آتے ہیں؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نےفرمایا : عائشہ (رضی الله عنها) اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس بادل میں عذاب نہیں ہوگا، جب کہ ایک قوم ہوا کے عذاب سے ہی ہلاک کر دی گئی، اس قوم نے بھی بادل دیکھ کر کہا تھا یہ بادل ہےجو ہم پر بارش برسائے گا۔ (البخاري، تفسير سورة الأحقاف، مسلم، كتاب صلاة الاستسقاء باب التعوذ عند رؤية الريح والغيم والفرح بالمطر) ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب باد تند چلتی تو آپ (صلى الله عليه وسلم) یہ دعا پڑھتے «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا، وَخَيْرَ مَا فِيهَا، وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا، وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ» اور جب آسمان پر بادل گہرے ہو جاتے تو آپ (صلى الله عليه وسلم) کا رنگ متغیر ہو جاتا اور خوف کی سی ایک کیفیت آپ (صلى الله عليه وسلم) پر طاری ہو جاتی جس سے آپ (صلى الله عليه وسلم) بے چین رہتے، کبھی باہر نکلتے، کبھی اندر داخل ہوتے، کبھی آگے ہوتے اور کبھی پیچھے پھر بارش ہو جاتی تو آپ (صلى الله عليه وسلم) اطمینان کا سانس لیتے۔ (صحیح مسلم، باب مذکور)۔
____________________
* یعنی مکین (گھر والے) سب تباہ ہوگئے اور صرف مکانات (گھر) نشان عبرت کے طور پر باقی رہ گئے۔
____________________
* یہ اہل مکہ کو خطاب کرکے کہا جا رہا ہے کہ تم کیا چیز ہو؟ تم سے پہلی قومیں، جنہیں ہم نے ہلاک کیا، قوت وشوکت میں تم سے کہیں زیادہ تھیں، لیکن جب انہوں نے اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں (آنکھ، کان اور دل) کو حق کے سننے، دیکھنے اور اسے سمجھنے کے لئے استعمال نہیں کیا، تو بالآخر ہم نے انہیں تباہ کر دیا اور یہ چیزیں ان کے کچھ کام نہ آسکیں۔
**- یعنی جس عذاب کو وہ انہونا سمجھ کر بطور استہزا کہا کرتے تھے کہ لے آ اپنا عذاب ! جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے، وہ عذاب آیا اور اس نے انہیں گھیرا کہ پھر اس سے نکل نہ سکے۔
____________________
* آس پاس سے عاد، ثمود اور لوط کی وہ بستیاں مراد ہیں جو حجاز کےقریب ہی تھیں اور یمن اور شام وفلسطین کی طرف آتے جاتے ان سے ان کا گزر ہوتا تھا۔
**- یعنی ہم نے مختلف انداز سے اور مختلف نوع کے دلائل ان کے سامنے پیش کیے کہ شاید وہ توبہ کر لیں۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔
____________________
* یعنی جن معبودوں کو وہ تقرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے تھے، انہوں نے ان کی کوئی مدد نہیں کی، بلکہ وہ اس موقعےپر آئے ہی نہیں، بلکہ گم رہے۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ مشرکین مکہ بتوں کو الہٰ نہیں سمجھتےبلکہ انہیں بارگاہ الٰہی میں قرب کا ذریعہ اور وسیلہ سمجھتے تھے۔ اللہ نے اس وسیلےکو یہاں افک (جھوٹ) اور افترا (بہتان) قرار دے کر واضح فرما دیا کہ یہ ناجائز اور حرام ہے۔
____________________
* صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکہ کے قریب نخلہ وادی میں پیش آیا، جہاں آپ (صلى الله عليه وسلم) صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جنوں کو تجسس تھا کہ آسمان پر بہت زیادہ سختی کر دی گئی ہے اور اب ہمارا وہاں جانا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے، کوئی بہت ہی اہم واقعہ رونما ہوا ہے جس کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے۔ چنانچہ مشرق ومغرب کے مختلف اطراف میں جنوں کی ٹولیاں واقعے کا سراغ لگانے کے لئے پھیل گئیں۔ ان ہی میں سے ایک ٹولی نے یہ قرآن سنا اور بات سمجھ لی کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی بعثت کا یہ واقعہ ہی ہم پر آسمان کی بندش کا سبب ہے۔ اور جنوں کی یہ ٹولی آپ پر ایمان لے آئی اور جاکر اپنی قوم کو بھی بتلایا (مسلم، كتاب الصلاة، باب الجهر بالقراءة في الصبح والقراءة على الجن - صحيح بخاري میں بھی بعض باتوں کا تذکرہ ہے۔ كتاب مناقب الأنصار، باب ذكر الجن) بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد آپ (صلى الله عليه وسلم) جنوں کی دعوت پر ان کے ہاں بھی تشریف لے گئے اور انہیں جاکر اللہ کا پیغام سنایا، اور متعدد مرتبہ جنوں کا وفد آپ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ (فتح الباری، تفسیر ابن کثیر وغیرہ)۔
**- یعنی آپ (صلى الله عليه وسلم) کی طرف سے تلاوت قرآن ختم ہوگئی۔
____________________
* یہ جنوں نے اپنی قوم کو نبی (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ اس سے قبل قرآن کریم کے متعلق بتلایا کہ یہ تورات کے بعد ایک اور آسمانی کتاب ہے جو سچے دین اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
**- یہ ایمان لانے کے وہ فائدے بتلائے جو آخرت میں انہیں حاصل ہوں گے۔ مِنْ ذُنُوبِكُمْ میں مِنْ تبعیض کے لئے ہے یعنی بعض گناہ معاف فرما دے گا اور یہ وہ گناہ ہوں گے جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہوگا۔ کیوں کہ حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ثواب وعقاب اور اوامر ونواہی میں جنات کے لئے بھی وہی حکم ہے جو انسانوں کے لئے ہے۔ اس امر میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنات میں جنوں میں سے رسول بھیجے یا نہیں؟ ظاہر آیات قرآنیہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جنات میں کوئی رسول نہیں ہوا، تمام انبیاء ورسل علیہم السلام انسان ہی ہوئے ہیں:«وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلا رِجَالا نُوحِي إِلَيْهِمْ» (النحل: 43) «وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الأَسْوَاقِ» (سورة الفرقان: 20) ان آیات قرآنیہ سے واضح ہے کہ جتنے بھی رسول ہوئے، وہ انسان تھے۔ اسی لئے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) جس طرح انسانوں کے لئے رسول تھے اور ہیں، اسی طرح جنات کے رسول بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) ہی ہیں اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کے پیغام کو بھی جنات تک پہنچانے کا انتظام کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم کے اس مقام سے ظاہر ہے۔
____________________
* یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ زمین کی وسعتوں میں اس طرح گم ہو جائے کہ اللہ کی گرفت میں نہ آسکے۔
**- جو اسے اللہ کے عذاب سے بچالیں۔ مطلب یہ ہوا کہ نہ وہ خود اللہ کی گرفت سے بچنے پر قادر ہے نہ کسی دوسرے کی مدد سے ایسا ممکن ہے۔
____________________
* رأی سے، رؤیت قلبی مراد ہے، یعنی کیا انہوں نے نہیں جانا۔ أَلَمْ يَعْلَمُوا یا أَلَمْ يَتَفَكَّرُوا، کہ جو اللہ آسمان وزمین کو پیدا کرنے والا ہے، جن کی وسعت و بے کرانی کی انتہا نہیں ہے اور وہ ان کو بنا کر تھکا بھی نہیں۔ کیا وہ مردوں کودوبارہ زندہ نہیں کر سکتا؟ یقیناً کر سکتا ہے، اس لئے کہ وہ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ کی صفت سے متصف ہے۔
____________________
* وہاں اعتراف ہی نہیں کریں گے بلکہ اپنے اس اعتراف پر قسم کھا کر اسے موکد کریں گے۔ لیکن اس وقت کا یہ اعتراف بے فائدہ ہے، کیونکہ مشاہدے کے بعد اعتراف کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟ آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد اعتراف نہیں تو، کیا انکار کریں گے؟
**- اس لئے کہ جب ماننے کا وقت تھا، اس وقت مانا نہیں، یہ عذاب اسی کفر اور انکار کا بدلہ ہے، جو اب تمہیں بھگتنا ہی بھگتنا ہے۔
____________________
* یہ کفار مکہ کے رویے کے مقابلے میں نبی (صلى الله عليه وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے اور صبر کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔
**- قیامت کاہولناک عذاب دیکھنے کے بعد انہیں دنیا کی زندگی ایسے معلوم ہوگی جیسے دن کی صرف ایک گھڑی یہاں گزار کر گئے ہیں۔
***- یہ متبدا محذوف کی خبرہے۔ أَيْ : هَذَا الَّذِي وَعَظْتَهَمْ بِهِ بَلاغٌ یہ وہ نصیحت یا پیغام ہے جس کا پہنچانا تیرا کام ہے۔
****- اس آیت میں بھی اہل ایمان کے لئے خوش خبری اور حوصلہ افزائی ہے کہ ہلاکت اخروی صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو اللہ کےنافرمان اور اس کی حدود پامال کرنے والے ہیں۔