ﰡ
____________________
* یہ تسبیح زبان حال سے نہیں، بلکہ زبان مقال سے ہے اسی لیے فرمایا گیا ہے، وَلَكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ (بني إسرائيل: 44) ”تم ان کی تسبیح نہیں سمجھ سکتے“۔ حضرت داود (عليه السلام) کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے ساتھ پہاڑ بھی تسبیح کرتےتھے۔ (الانبیا:79) اگر یہ تسبیح حال یا تسبیح دلالت ہوتی تو حضرت داود (عليه السلام) کے ساتھ اس کو خاص کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔
____________________
* اس لیے وہ ان میں جس طرح چاہتا ہے تصرف فرماتاہے، اس کے سوا ان میں کسی کا حکم اور تصرف نہیں چلتا۔ یا مطلب ہے کہ بارش، نباتات اور روزیوں کے سارے خزانے اسی کی ملک میں ہیں۔
____________________
* وہی اول ہے یعنی اس سے پہلے کچھ نہ تھا، وہی آخر ہے، اس کے بعد کوئی چیز نہیں ہوگی، وہی ظاہر ہے یعنی وہ سب پر غالب ہے، اس پر کوئی غالب نہیں۔ وہی باطن ہے، یعنی باطن کی ساری باتوں کو صرف وہی جانتا ہے یا لوگوں کی نظروں اور عقلوں سےمخفی ہے۔ (فتح القدیر) نبی ﹲ نے اپنی صاحبزادی فاطمہ (رضی الله عنها) کو یہ دعا پڑھنے کی تاکید فرمائی تھی۔ «اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ، مُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ وَالْفُرْقَانِ، فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَى، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَيْءٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِه، اللَّهُمَّ أَنْتَ الأوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ البَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ، اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ وَاغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ» (صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء باب ما يقول عند النوم وأخذ المضجع) اس دعا میں، جو ادائیگی قرض کے لیے مسنون ہے، اول و آخر اور ظاہر وباطن کی تفسیر بیان فرما دی گئی ہے۔
____________________
* اسی مفہوم کی آیات سورۂ اعراف 54، سورۂ یونس، 3، اور الم السجدۃ،4 وغیرھا من الآیات میں گزر چکی ہیں۔ ان کےحواشی ملاحظہ فرمالیے جائیں۔
**- یعنی زمین میں بارش کےجو قطرے اور غلہ جات ومیوہ جات کے جو بیج داخل ہوتے ہیں، ان کی کمیت وکیفیت کو وہ جانتا ہے۔
***- جو درخت، چاہے وہ پھلوں کےہوں یا غلوں کے یا زینت وآرائش اور خوشبو والے پھولوں کے بوٹے ہوں، یہ جتنے بھی اور جیسے بھی باہر نکلتے ہیں، سب اللہ کے علم میں ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا «وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لا يَعْلَمُهَا إِلا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلا يَعْلَمُهَا وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الأَرْضِ وَلا رَطْبٍ وَلا يَابِسٍ إِلا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ» (سورة الأنعام :59) اور اللہ تعالیٰ ہی کےپاس ہیں تمام مخفی اشیا کے خزانے، ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے، اور وہ تمام چیزوں کو جانتاہے جو کچھ خشکی میں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں۔ کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتاہے، اور کوئی دانہ کوئی زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اورنہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے، مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں۔
****- بارش، اولے، برف، تقدیر اور وہ احکام، جو فرشتے لے کر اترتے ہیں۔
*****- فرشتے انسانوں کے جو عمل لے کر چڑھتے ہیں جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ اللہ کی طرف رات کے عمل دن سے پہلے اور دن کے عمل رات سے پہلے چڑھتے ہیں۔ (صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب إن الله لا ينام)۔
******- یعنی تم خشکی میں ہو یا تری میں، رات ہو یا دن، گھروں میں ہو یا صحراؤں میں، ہرجگہ ہروقت وہ اپنے علم وبصر کے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہے یعنی تمہارے ایک ایک عمل کو دیکھتا ہے، تمہاری ایک ایک بات کو جانتا اور سنتا ہے۔ یہی مضمون سورۂ ھود:3۔ سورۂ رعد: 10 اور دیگر آیات میں بیان کیا گیا ہے۔
____________________
* یعنی تمام چیزوں کا مالک وہی ہے، وہ جس طرح چاہتا ہے، ان میں تصرف فرماتا ہے، اس کے حکم وتصرف سے کبھی رات لمبی، دن چھوٹا اور کبھی اس کے برعکس دن لمبا اور رات چھوٹی ہو جاتی ہے اور کبھی دونوں برابر۔ اسی طرح کبھی سردی، کبھی گرمی، کبھی بہار اور کبھی خزاں۔ موسموں کا تغیر وتبدل بھی اس کے حکم ومشیت سے ہوتا ہے۔
____________________
* یعنی یہ مال اس سے پہلے کسی دوسرے کےپاس تھا۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمہارے پاس بھی یہ مال نہیں رہے گا، دوسرے اس کے وارث بنیں گے، اگر تم نے اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا تو بعد میں اس کے وارث بننے والے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر کے تم سے زیادہ سعادت حاصل کر سکتے ہیں اور اگروہ اسے نافرمانی میں خرچ کریں گے تو تم بھی معاونت کے جرم میں ماخوذ ہو سکتے ہو۔ (ابن کثیر) حدیث میں آتا ہے کہ ”انسان کہتا ہے، میرا مال، میرا مال، حالانکہ تیرا مال، ایک تو وہ ہے جو تو نے کھا پی کر فنا کر دیا، دوسرا وہ ہے جسے پہن کر بوسیدہ کر دیا اور تیسرا وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کر کے آخرت کے لیے ذخیرہ کرلیا۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ سب دوسرے لوگوں کے حصے میں آئے گا“۔ (صحيح مسلم، كتاب الزهد ومسند أحمد، 4 / 24)۔
____________________
* ابن کثیر نے اخذ کافاﻋل الرسول کو بنایا ہے اور مراد وہ بعیت لی جو رسول ﹲ صحابہ کرام (رضي الله عنهم) سے لیتے تھےکہ خوشی اور ناخوشی ہر حالت میں سمع وطاعت کرنی ہے اور امام ابن جریر کےنزدیک اس کا فاعل اللہ ہے اور مراد وہ عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں سے اس وقت لیا تھا جب انہیں آدم (عليه السلام) کی پشت سے نکالا تھا، جو عہد الست کہلاتا ہے، جس کا ذکر سورۃ الاعراف: 172 میں ہے۔
____________________
* فتح سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک فتح مکہ ہے۔ بعض نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین کا مصداق سمجھ کر اسے مرادلیا ہے۔ بہرحال صلح حدیبیہ یا فتح مکہ سے قبل مسلمان تعداد اور قوت کےلحاظ سے بھی کم ترتھے اور مسلمانوں کی مالی حالت بھی بہت کمزور تھی۔ ان حالات میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اورجہاد میں حصہ لینا، دونوں کام نہایت مشکل اور بڑے دل گردے کا کام تھا، جب کہ فتح مکہ کے بعد یہ صورت حال بدل گئی۔ مسلمان قوت وتعداد میں بڑھتے چلے گئے اوران کی مالی حالت بھی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہو گئی۔ اس میں اللہ تعالی نے دونوں ادوار کے مسلمانوں کی بابت فرمایا کہ یہ اجر میں برابرنہیں ہو سکتے۔
**- کیونکہ پہلوں کا انفاق اورجہاد، دونوں کام نہایت کٹھن حالات میں ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل فضل وعزم کو دیگر لوگوں کے مقابلے میں مقدم رکھنا چاہیے۔ اسی لیے اہل سنت کےنزدیک شرف وفضل میں حضرت ابوبکر صدیق (رضي الله عنه) سب سے مقدم ہیں، کیونکہ مومن اول بھی وہی ہیں اور منفق اول اور مجاہد اول بھی وہی۔ اس لیے رسول اللہ ﹲ نے حضرت صدیق اکبر (رضي الله عنه) کواپنی زندگی اورموجودگی میں نماز کے لیے آگے کیا، اور اسی بنیاد پر مومنوں (صحابہ کرام) نے انہیں استحقاق خلافت میں مقدم رکھا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ۔
***- اس میں وضاحت فرما دی کہ صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کے درمیان شرف وفضل میں تفاوت تو ضرور ہے لیکن تفاوت درجات کا مطلب یہ نہیں کہ بعد میں مسلمان ہونے والے صحابہ کرام (رضي الله عنهم) ایمان واخلاق کے اعتبار سے بالکل ہی گئے گزرے تھے، جیساکہ بعض حضرات، حضرت معاویہ (رضي الله عنه)، ان کے والد حضرت ابوسفیان (رضي الله عنه) اور دیگر بعض ایسے ہی جلیل القدر صحابہ کے بارے میں ہرزہ سرائی یا انہیں طلقاء کہہ کر ان کی تنقیص واہانت کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کے بارے میں فرمایا ہے کہ لا تَسُبُّوا أَصْحَابِي میرے صحابہ پر سب وشتم نہ کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو وہ میرے صحابی کے خرچ کیےہوئے ایک مد بلکہ نصف مد کے بھی برابر نہیں۔ (صحيح بخاري، وصحيح مسلم، كتاب فضائل الصحابة)۔
____________________
* اللہ کو قرض حسن دینے کا مطلب ہے، اللہ کی راہ میں صدقہ وخیرات کرنا۔ یہ مال، جو انسان اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ ہی کا دیا ہوا ہے، اس کے باوجود اسے قرض قرار دینا، یہ اللہ کا فضل واحسان ہے کہ وہ اس انفاق پر اسی طرح اجر دے گا جس طرح قرض کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔
____________________
* یہ عرصہ محشر میں پل صراط میں ہوگا، یہ نور ان کے ایمان اور عمل صالح کا صلہ ہوگا، جس کی روشنی میں وہ جنت کا راستہ آسانی سے طے کرلیں گے۔ امام ابن کثیر اور امام ابن جریر وغیر ہ ما نے وَبِأَيْمَانِهِمْ کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ان کے دائیں ہاتھوں میں ان کے اعمال نامے ہوں گے۔
**- یہ وہ فرشتے کہیں گے جو ان کے استقبال اور پیشوائی کےلیے وہاں ہوں گے۔
____________________
* یہ منافقین کچھ فاصلے تک اہل ایمان کے ساتھ ان کی روشنی میں چلیں گے، پھر اللہ تعالیٰ منافقین پر اندھیرا مسلط فرما ئےگا، اس وقت وہ اہل ایمان سے یہ کہیں گے۔
**- اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جا کر اسی طرح ایمان اور عمل صالح کی پونجی لے کر آؤ، جس طرح ہم لائے ہیں۔ یا استہزا کے طور پراہل ایمان کہیں گےکہ پیچھے جہاں سے ہم یہ نور لائے تھے وہیں جا کر اسے تلاش کرو۔
***- یعنی مومنین اور منافقین کے درمیان۔
****- اس سے مراد جنت ہے جس میں اہل ایمان داخل ہو چکےہوں گے۔
*****- یہ وہ حصہ ہے جس میں جہنم ہوگی۔
____________________
* یعنی دیوارحائل ہونے پر منافقین مسلمانوں سے کہیں گے کہ دنیا میں ہم تمہارے ساتھ نمازیں نہیں پڑھتے تھے، اور جہاد وغیرہ میں حصہ نہیں لیتے تھے؟
**- کہ تم نے اپنے دلوں میں کفر اور نفاق چھپا رکھا تھا۔
***- کہ شایدمسلمان کسی گردش کا شکار ہو جائیں۔
****- دین کے معاملے میں، اسی لیے قرآن کو مانا نہ دلائل ومعجزات کو۔
*****- جس میں تمہیں شیطان نے مبتلا کیے رکھا۔
******- یعنی تمہیں موت آ گئی، یا مسلمان بالآخر غالب رہے اور تمہاری آرزوں پر پانی پھیر گیا۔
*******- یعنی اللہ کے حلم اور اس کے قانون امہال (مہلت دینے) کی وجہ سے تمہیں شیطان نےدھوکےمیں ڈالے رکھا۔
____________________
* مولیٰ اسے کہتے ہیں جوکسی کے کاموں کا متولی یعنی ذمےدار بنے۔ گویا اب جہنم ہی اس بات کی ذمےدار ہے کہ انہیں سخت سے سخت تر عذاب کا مزا چکھائے۔ بعض کہتے ہیں کہ ہمیشہ ساتھ رہنے والے کو بھی مولیٰ کہہ لیتے ہیں، یعنی اب جہنم کی آگ ہی ان کی ہمیشہ کی ساتھی اور رفیق ہوگی۔ بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جہنم کو بھی عقل وشعور عطا فرمائے گا پس وہ کافروں کے خلاف غیظ وغضب کا اظہار کرے گی۔ یعنی ان کی والی بنے گی اور انہیں عذاب الیم سے دو چار کرے گی۔
____________________
* خطاب اہل ایمان کو ہے۔ اور مطلب ان کو اللہ کی یاد کی طرف مزید متوجہ اور قرآن کریم سے کسب ہدایت کی تلقین کرنا ہے۔ خشوع کے معنی ہیں، دلوں کا نرم ہو کر اللہ کی طرف جھک جانا، حق سے مراد قرآن کریم ہے۔
**- جیسے یہود ونصاریٰ ہیں۔ یعنی تم ان کی طرح نہ ہو جانا۔
***- چنانچہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف اور تبدیلی کر دی، اس کے عوض دنیاکا ثمن قلیل حاصل کرنے کو انہوں نے شعار بنا لیا، اس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا، اللہ کے دین میں لوگوں کی تقلید اختیار کرلی اور ان کو اپنا رب بنا لیا، مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تم یہ کام مت کرو ورنہ تمہارے دل بھی سخت ہو جائیں گے اور پھر یہی کام جو ان پر لعنت الٰہی کا سبب بنے، تمہیں اچھے لگیں گے۔
****- یعنی ان کے دل فاسد اوراعمال باطل ہیں۔ دوسرے مقام پر اللہ نےفرمایا: «فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ» (المائدة: 13)۔
____________________
* یعنی ایک کے بدلے میں کم از کم دس گنا اور اس سے زیادہ سات سو گناہ بلکہ اس سے بھی زیادہ تک۔ یہ زیادتی اخلاص نیت، حاجت وضرورت اور مکان وزمان کی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔ جیسے پہلے گزرا کہ جن لوگوں نے فتح مکہ سےقبل خرچ کیا، وہ اجر وثواب میں ان سے زیادہ ہوں گے، جنہوں نے اس کے بعد خرچ کیا۔
**- یعنی جنت اور اس کی نعمتیں، جن کو کبھی زوال اورفنا نہیں۔ آیت میں مُصَّدِّقِينَ اصل میں مُتَصَدِّقِينَ ہے۔ تاکوصادمیں مدغم کر دیا گیا۔
____________________
* بعض مفسرین نے یہاں وقف کیا ہے۔ اور آگے وَالشُّهَدَاءُ کو الگ جملہ قرار دیا ہے صدیقیت کمال ایمان اور کمال صدق و صفا کا نام ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ (آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچ ہی کی تلاش اور کوشش میں رہتا ہے۔ حتیٰ کہ اللہ کے ہاں اسے صدیق لکھ دیا جاتا ہے (متفق عليه، مشكاة، كتاب الآداب، باب حفظ اللسان) ایک اور حدیث میں صدیقین کا وہ مقام بیان کیا گیا ہے جو جنت میں انہیں حاصل ہوگا۔ فرمایا ”جنتی، اپنے سے اوپر کے بالاخانے والوں کو اس طرح دیکھیں گے، جیسے چمکتے ہوئے مشرقی یامغربی ستارے کو تم آسمان کے کنارے پر دیکھتے ہو، یعنی ان کے درمیان درجات کا اتنا فرق ہوگا“، صحابہ نےپوچا: یہ انبیاء کے درجات ہوں گے جن کو دوسرے حاصل نہیں کر سکیں گے؟ آپ ﹲ نے فرمایا ”ہاں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور پیغمبروں کی تصدیق کی“۔(صحيح بخاري، كتاب بدء الخلق، باب ما جاء في صفة الجنة وأنها مخلوقة) یعنی ایمان اور تصدیقی کا حق ادا کیا۔ (فتح الباری)۔
____________________
* كُفَّارٌ، کسانوں کو کہا گیا ہے، اس لیے کہ اس کے لغوی معنی ہیں چھپانے والے۔ کافروں کے دلوں میں اللہ کا اور آخرت کا انکار چھپا ہوتا ہے، اس لیے انہیں کافر کہا جاتا ہے۔ اور کاشﺖ کاروں کے لیے یہ لفظ بولا گیا ہے کہ وہ بھی زمین میں بیج بوتے یعنی انہیں چھپا دیتے ہیں۔
**- یہاں دنیا کی زندگی کو سرعت زوال میں کھیتی سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح کھیتی جب شاداب ہوتی ہے تو بڑی بھلی لگتی ہے، کاشﺖ کار اسے دیکھ کر بڑے خوش ہوتےہیں۔ لیکن وہ بہت ہی جلد خشک اور زرد رو ہوکر چورا چورا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح دنیا کی زیب وزینت، مال اور اولاد دیگر چیزیں انسان کاﺩل لبھاتی ہیں۔ لیکن یہ زندگی چند روزہ ہی ہے۔ اس کو بھی ثبات و قرار نہیں۔
***- یعنی اہل کفر وعصیان کےلیے، جو دنیا کےکھیل کود میں ہی مصروف رہے اور اسی کو انہوں نے حاصل زندگی سمجھا۔
****- یعنی اہل ایمان وطاعت کے لیے، جنہوں نے دنیاکو ہی سب کچھ نہیں سمجھا، بلکہ اسے عارضی، فانی اور دارالامتحان سمجھتے ہوئے اللہ کی ہدایات کے مطابق اس میں زندگی گزاری۔
*****- لیکن اس کے لیے جواس کےدھوکے میں مبتلا رہا اور آخرت کے لیے کچھ نہیں کیا۔ لیکن جس نے اس حیات دنیا کو طلب آخرت کے لیے استعمال کیا تو اس لیے یہی دنیا، اس سے بہتر زندگی حاصل کرنے کا ذریعہ ثابت ہو گی۔
____________________
* یعنی اعمال صالحہ اور توبہ النصوح کی طرف کیونکہ یہی چیزیں مغفرت رب کا ذریعہ ہیں
**- اور جس کا عرض اتنا ہو، اس کا طول کتنا ہو گا؟ کیونکہ طول، عرض سے زیادہ ہی ہوتا ہے۔
***- ظاہر ہے اس کی چاہت اسی کے لیے ہوتی ہے جو کفرومعصیت سے توبہ کرکے ایمان وعمل صالح کی زندگی اختیار کر لیتاہے، اسی لیے وہ ایسےلوگوں کو ایمان اور اعمال صالحہ کی توفیق سے بھی نواز دیتا ہے۔
****- وہ جس پر چاہتا ہے، اپنا فضل فرماتا ہے، جس کو وہ کچھ دے، کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے روک لے، اسے کوئی دے نہیں سکتا، تمام خیر اسی کے ہاتھ میں ہے، وہی کریم مطلق اور جواد حقیقی ہے جس کے ہاں بخل کا تصور نہیں۔
____________________
* مثلاً قحط، سیلاب اور دیگر آفات ارضی وسماوی۔
**- مثلاً بیماریاں، تعب وتکان اور تنگ دستی وغیرہ۔
***- یعنی اللہ نے اپنے علم کے مطابق تمام مخلوقات کی پیدائش سے پہلے ہی سب باتیں لکھ دیں ہیں۔ جیسے حدیث میں ہے۔ نبی کریم ﹲ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا : قَدَّرَ اللهُ الْمَقَادِيرَ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالأرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنةٍ (صحيح مسلم، كتاب القدر، باب حجاج آدم وموسى عليهما السلام) ”اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل ہی ساری تقدیریں لکھ دی تھیں“۔
____________________
* یہاں جس حزن اور فرح سے روکا گیا ہے، وہ وہ غم اور خوشی ہے جو انسان کو ناجائز کاموں تک پہنچا دیتی ہے، ورنہ تکلیف پر رنجیدہ اور راحت پرخوش ہونا، یہ ایک فطری عمل ہے۔ لیکن مومن تکلیف پر صبر کرتا ہے کہ اللہ کی مشیت اور تقدیر ہے۔ جزع فزع کرنے سے اس میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اور راحت پر، اتراتا نہیں ہے، اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ یہ صرف اس کی اپنی سعی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اللہ کا فضل وکرم اور اس کا احسان ہے۔
____________________
* یعنی انفاق فی سبیل اللہ سے، کیونکہ اصل بخل یہی ہے۔
____________________
* میزان سے مرد انصاف ہے اور مطلب ہے کہ ہم نے لوگوں کو انصاف کرنےکا حکم دیا ہے۔ بعض نے اس کاﺗرجمہ ترازو کیا ہے، ترازو کے اتارنے کا مطلب ہے، ہم نے ترازو کی طرف لوگوں کی رہنمائی کی کہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو تول کر پورا پورا حق دو۔
**- یہاں بھی اتارا، پیدا کرنے اور اس کی صنعت سکھانے کے معنی میں ہے۔ لوہے سے بےشمار چیزیں بنتی ہیں، یہ سب اللہ کے اس الہام اور ارشاد کا نتیجہ ہے جو اس نے انسان کوکیا ہے۔
***- یعنی لوہے سے جنگی ہتھیار بنتے ہیں۔ جیسے تلوار، نیزہ، بندوق اور اب ایٹم، توپین، جنگی جہاز، آبدوزیں، گنیں، راکٹ اورٹینک وغیرہ بیشمار چیزیں۔ جن سے دشمن پروار بھی کیا جاتا ہے اور اپنا دفاع بھی۔
****- یعنی جنگی ہتھیاروں کے علاوہ لوہے سے اوربھی بہت سی چیزیں بنتی ہیں، جو گھروں میں اور مختلف صنعتوں میں کام میں آتی ہیں، جیسے چھریاں، چاقو، قینچی، ہتھوڑا، سوئی، زراعت، نجارت (بڑھئی) اورعمارت وغیرہ کا سامان اورچھوٹی بڑی بےشمار مشینیں اورسازوسامان۔
*****- یہ ليِقَوُمَ پر عطف ہے۔ یعنی رسولوں کواس لیے بھی بھیجا ہے تاکہ وہ جان لے کہ کون اس کے رسولوں پر اللہ کو دیکھے بغیر، ایمان لاتا اور ان کی مدد کرتا ہے۔
******- اس کو اس بات کی حاجت نہیں ہے کہ لوگ اس کے دین کی اور اس کے رسولوں کی مدد کریں، بلکہ وہ چاہے تو اس کے بغیر ہی ان کو غالب فرمادے۔ لوگوں کو تو ان کی مدد کرنے کا حکم ان کی اپنی ہی بھلائی کے لیے دیا گیا ہے، تاکہ اس طرح وہ اپنے اللہ کو راضی کرکے اس کی مغفرت ورحمت کے مستحق بن جائیں۔
____________________
* رَأْفَةٌ کےمعنی نرمی اور رحمت کے معنی شفقت کے ہیں۔ پیروکاروں سےمراد حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے حواری ہیں۔ یعنی ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پیار اور محبت کے جذبات پیدا کر دیے۔ جیسے صحابہ کرام (رضي الله عنهم) ایک دوسرے کے لیے رحیم وشفیق تھے۔ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ - یہود، آپس میں اس طرح ایک دوسرے کے ہمدرد اور غم خوار نہیں، جیسے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے پیروکار تھے۔
**- رَهْبَانِيَّةٌ، رَهْبٌ (خوف) سے ہے یا رُهْبَانٌ (درویش) کی طرف منسوب ہے اس صورت میں ”رے“ پر پیش رہے گا، یا اسے رہبنہ کی طرف منسوب مانا جائے تو اس صورت میں ”رے“ پر زبر ہوگا۔ رہبانیت کا مفہوم ترک دنیا ہے یعنی دنیا اور علائق دنیا سے منقطع ہو کر کسی جنگل، صحراء میں جا کر اللہ کی عبادت کرنا، اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے بعد ایسے بادشاہ ہوئے جنہوں نےتورات اور انجیل میں تبدیلی کر دی، جسے ایک جماعت نےقبول نہیں کیا۔ انہوں نے بادشاہوں کے ڈر سے پہاڑوں اور غاروں میں پناہ حاصل کرلی۔ یہ اس کا آغاز تھا، جس کی بنیاد اضطرار پر تھی۔ لیکن ان کے بعد آنے والے بہت سے لوگوں نے اپنے بزرگوں کو اندھی تقلید میں اس شہربدری کو عبادت کا ایک طریقہ بنا لیا اور اپنے آپ کو گرجاؤں اور معبدوں میں محبوس کر لیا اور اس کے لیے علائق دنیا سے انقطاع کو ضروری قراردے لیا۔ اسی کو اللہ نے ابتداع (خود گھڑنے) سے تعبیر فرمایا ہے۔
***- یہ پچھلی بات ہی کی تاکید ہے کہ یہ رہبانیت ان کی اپنی ایجاد تھی، اللہ نے اس کاﺣﻜﻢ نہیں دیا تھا۔
****- یعنی ہم نے تو ان پر صرف رضا جوئی فرض کی تھی۔ دوسرا ترجمہ اس کا ہے کہ انہوں نے یہ کام اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لیے کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرما دی کہ اللہ کی رضا، دین میں اپنی طرف سے بدعات ایجاد کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتی، چاہے وہ کتنی ہی خوش نما ہو۔ اللہ کی رضا تو اس کی اطاعت سے ہی حاصل ہو گی۔
*****- یعنی گو انہوں نے مقصد اللہ کی رضاجوئی بتلایا، لیکن اس کی انہوں نے پوری رعایت نہیں کی، ورنہ وہ ابتداع (بدعت ایجاد کرنے) کے بجائے اتباع کا راستہ اختیار کرتے۔
******- یہ وہ لوگ ہیں جو دین عیسیٰ پر قائم رہے تھے۔
____________________
* یہ دگنا اجر ان اہل ایمان کو ملے گا جونبی ﹲ سے قبل پہلےکسی رسول پر ایمان رکھتے تھے پھر نبی ﹲ پر بھی ایمان لے آئے جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ (صحيح البخاري، كتاب العلم، باب تعليم الرجل أمته وأهله وصحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب وجوب الإيمان برسالة نبينا) ایک دوسری تفسیر کے مطابق جب اہل کتاب نے اس بات پر فخر کا اظہارکیا کہ انہیں دو گنا اجر ملے گا، تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے حق میں یہ آیت نازل فرمائی۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے، تفسیر ابن کثیر)۔
____________________
* لِئَلا میں لا زائد ہے اور معنی ہیں لِيَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَنَّهُمْ لا يَقْدِرُونَ عَلَى أَنْ يَنَالُوا شَيْئًا مِنْ فَضْلِ اللهِ (فتح القدير)۔