ﰡ
____________________
* یعنی جس طرح سر پر عمامہ لپیٹا جاتا ہے، اس طرح سورج کے وجود کو لپیٹ کر پھینک دیا جائے گا۔ جس سے اس کی روشنی از خود ختم ہو جائے گی۔ حدیث میں ہے الشمس والقمر مكوران بوم القيامة ۔ ( صحيح بخاري، بدء الخلق، باب صفة الشمس والقمر بحسبان) (قیامت والے دن چاند اور سورج لپیٹ دیئے جائیں گے)۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ لپیٹ کر ان دونوں کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا تاکہ مشرکین مزید ذلیل وخوار ہوں جو ان کی عبادت کرتے تھے۔ (فتح الباری، باب مذکور) ۔
**- دوسرا ترجمہ ہےجھڑ کر گر جائیں گے۔ یعنی آسمان پر ان کا وجود ہی نہیں رہے گا۔
____________________
* یعنی انہیں زمین سے اکھیڑ کر ہواؤں میں چلا دیا جائے گا اور وہ دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑیں گے۔
____________________
- عِشَارٌ، عُشَراءُ کی جمع ہے، حمل والیاں یعنی گابھن اونٹیناں، جب ان کا حمل دس مہینوں کا ہو جاتا ہےتو عربوں میں یہ بہت نفیس اور قیمتی سمجھیں جاتی تھیں۔ جب قیامت برپا ہوگی تو ایسا ہولناک منظر ہوگا کہ اگر کسی کے پاس اس قسم کی قیمتی اونٹنی بھی ہوں گی تو وہ ان کی بھی پروا نہیں کرے گا۔
____________________
* یعنی انہیں بھی قیامت والے دن جمع کیا جائے گا۔
____________________
* یعنی ان میں اللہ کے حکم سے آگ بھڑک اٹھے گی۔
____________________
* اس کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ زیادہ قرین قیاس یہ معلوم ہوتاہے کہ ہر انسان کو اس کے ہم مذہب وہم مشرب کےساتھ ملا دیا جائے گا۔ مومن کو مومنوں کےساتھ اور بدکو بدوں کے ساتھ، یہودی کو یہودیوں کے ساتھ اور عیسائی کو عیسائیوں کے ساتھ، وَعَلَى هَذَا الْقِيَاسِ ۔
____________________
* اس طرح دراصل قاتل کو سرزنش کی جائے گی کیونکہ اصل مجرم تو وہی ہوگا نہ کہ موءدۃ جس سے بظاہر سوال ہوگا۔
____________________
* موت کے وقت یہ صحیفے لپیٹ دیئے جاتے ہیں، پھر قیامت والے دن حساب کےلئے کھول دیئے جائیں گے، جنہیں ہر شخص دیکھ لے گا بلکہ ہاتھوں میں پکڑا دیئے جائیں گے ۔
____________________
* یعنی وہ اس طرح ادھیڑ دیئے جائیں گےجس طرح چھت ادھیڑ دی جاتی ہے۔
____________________
* یہ جواب ہے یعنی جب مذکورہ امور ظہور پذیر ہوں گے، جن میں سے پہلے چھ امور کا تعلق دنیا سے ہے اور دوسرے چھ امور کا آخرت سے۔ اس وقت ہر ایک کے سامنے اس کی حقیقت آجائے گی۔
____________________
* اس سے مراد ستارے خُنَّسٌ، خَنَسَ سے ہے جس کے معنی پیچھےہٹنے کے ہیں۔ یہ ستارے دن کے وقت اپنے منظر سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور نظر نہیں آتے۔ اور یہ زخل، مشتری، مریخ، زہرہ، عطارد ہیں، یہ خاص طور پر سورج کے رخ پر ہوتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ سارے ہی ستارےمراد ہیں، کیوں کہ سب ہی اپنے غائب ہونے کی جگہ پر غائب ہو جاتے ہیں یا دن کو چھپے رہتے ہیں الْجَوَارِ چلنے والے، الْكُنَّسِ چھپ جانے والے، جیسے ہرن اپنے مکان اور مسکن میں چھپ جاتا ہے۔
____________________
* عَسْعَسَ، اضداد میں سے ہے، یعنی آنے اور جانے دونوں معنوں میں اس کا استعمال ہوتا ہے، تاہم یہاں جانے کے معنی میں ہے۔
____________________
* یعنی جب اس کا ظہور وطلوع ہو جائے، یا وہ پھٹ اور نکل آئے۔
____________________
* اس لئے وہ اسے اللہ کی طرف لے کر آیا ہے۔ مراد حضرت جبرائیل (عليه السلام) ہیں۔
____________________
* یعنی جو کام اس کےسپرد کیاجائے، اسے پوری قوت سے کرتا ہے۔
____________________
* یعنی فرشتوں کے درمیان اس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ وہ فرشتوں کا مرجع اور مطاع ہے نیز وحی کےسلسلے میں امین ہے۔
____________________
* یہ خطاب اہل مکہ سے ہے اور صاحب مراد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ہیں۔ یعنی تم جو گمان رکھتے ہو کہ تمہارا ہم نسب اور ہم وطن ساتھ ساتھی، ( محمد صلى الله عليه وسلم) دیوانہ ہے ۔ نعوذ باللہ ۔ ایسا نہیں ہے، ذرا قرآن پڑھ کر تو دیکھوکہ کیا کوئی دیوانہ ایسے معارف وحقائق بیان کر سکتا ہے اور گزشتہ قوموں کے صحیح صحیح حالات بتلا سکتا ہے جو اس قرآن میں بیان کئے گئے ہیں۔
____________________
* یہ پہلے ذکر گزر چکا ہے کہ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت جبرائیل کو دو مرتبہ ان کی اصل حالت میں دیکھا ہے، جن میں سے ایک کا یہاں ذکر ہے۔ یہ ابتدائے نبوت کا واقعہ ہے، اس وقت حضرت جبرائیل (عليه السلام) کے چھ سو پر تھے، جنہوں نے آسمان کے کناروں کو بھر دیا تھا۔ دوسری مرتبہ معراج کے موقعے پر دیکھا۔ جیسا کہ سورۂ نجم میں تفصیل گزر چکی ہے۔
____________________
* یہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی بابت وضاحت کی جا رہی ہے کہ آپ کو جن باتوں کی اطلاع دی جاتی ہے، جو احکام وفرائض آپ کو بتلائے جاتے ہیں، ان میں سےکوئی بات آپ اپنے پاس نہیں رکھتے بلکہ فریضۂ رسالت کی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے ہر بات اور ہر حکم لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں۔
____________________
* جس طرح نجومیوں کے پاس شیطان آتے ہیں اور آسمانوں کی بعض چوری چھپی باتیں ادھوری شکل میں انہیں بتلا دیتے ہیں۔ قرآن ایسا نہیں ہے۔
____________________
* یعنی کیوں اس سےاعراض کرتے ہو ؟ اور اس کی اطاعت نہیں کرتے ؟
____________________
* یعنی تمہاری چاہت، اللہ کی توفیق پر منحصر ہے، جب تک تمہاری چاہت کے ساتھ اللہ کی مشیت اور اس کی توفیق بھی شامل نہیں ہوگی، اس وقت تک تم سیدھا راستہ بھی اختیار نہیں کر سکتے۔ یہ وہی مضمون ہے جو إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ (القصص: 56) وغیرہ آیات میں بیان ہوا ہے۔