ترجمة سورة الإسراء

الترجمة الأردية
ترجمة معاني سورة الإسراء باللغة الأردية من كتاب الترجمة الأردية .
من تأليف: محمد إبراهيم جوناكري .

پاک ہے* وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے** کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ*** تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے**** رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں*****، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے واﻻ ہے.
____________________
* سُبْحَانَ, سَبَحَ يَسْبَحُ کا مصدر ہے۔ معنی ہیں أُنَزِّهُ اللهَ تَنْزِيهًا یعنی میں اللہ کی ہر نقص سے تنزیہ اور براءت کرتا ہوں۔ عام طور پر اس کا استعمال ایسے موقع پر ہوتا ہے جب کسی عظیم الشان واقعے کا ذکر ہو۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک ظاہری اسباب کے اعتبار سے یہ واقعہ کتنا محال ہو، اللہ کے لئے مشکل نہیں، اس لئے کہ وہ اسباب کا پابند نہیں، وہ لفظ كُنْ سے پلک جھپکنے میں جو چاہے کر سکتا ہے۔ اسباب تو انسانوں کے لئے ہیں۔ اللہ تعالٰی ان پابندیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے۔
**- إِسْرَاءٌ کے معنی ہوتے ہیں، رات کو لے جانا۔ آگے لَيْلا اس لیے ذکر کیا گیا تاکہ رات کی قلت واضح ہو جائے۔ یعنی رات ایک حصے یا تھوڑے سے حصے میں۔ یعنی چالیس راتوں کا دور دراز کا سفر، پوری رات میں بھی نہیں بلکہ رات کے ایک قلیل حصے میں طے ہوا۔
***- أَقْصَى ٰ دور کو کہتے ہیں بیت المقدس، جو القدس یا ایلیاء (قدیم نام) شہر میں اور فلسطین میں واقع ہے، مکے سے القدس تک مسافت ”40“ دن کی ہے، اس اعتبار سے مسجد حرام کے مقابلے میں بیت المقدس کو مسجد اقصٰی (دور کی مسجد) کہا گیا ہے۔
****- یہ علاقہ قدرتی نہروں اور پھلوں کی کثرت اور انبیاء کا مسکن و مدفن ہونے کے لحاظ سے ممتاز ہے، اس لئے اسے بابرکت قرار دیا گیا ہے۔
*****- یہ اس سیر کا مقصد ہے تاکہ ہم اپنے بندے کو عجائبات اور آیات کبریٰ دکھائیں۔ جن میں سے ایک آیت اور معجزہ یہ سفر بھی ہے کہ اتنا لمبا سفر رات کے ایک قلیل حصے میں ہو گیا نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کو جو معراج ہوئی یعنی آسمانوں پر لے جایا گیا، وہاں مختلف آسمانوں پر انبیاء (عليهم السلام) سے ملاقاتیں ہوئیں اور سدرۃ المنتہٰی پر، جو عرش سے نیچے ساتویں آسمان پر ہے، اللہ تعالٰی نے وحی کے ذریعے سے نماز اور دیگر بعض چیزیں عطا کیں۔ جس کی تفصیلات صحیح احادیث میں بیان ہوئی ہیں اور صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک امت کے اکثر علماء فقہاء اس بات کے قائل چلے آرہے ہیں کہ یہ معراج بِجَسَدِهِ الْعُنْصُرِيِّ‌ حالت بیداری میں ہوئی ہے۔ یہ خواب یا روحانی سیر اور مشاہدہ نہیں ہے، بلکہ عینی مشاہدہ ہے جو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اپنے پیغمبر کو کرایا ہے۔ اس معراج کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ اسراء کہلاتا ہے، جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اور جو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کا نام ہے، یہاں پہنچنے کے بعد نبی (صلى الله عليه وسلم) نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ بیت المقدس سے پھر آپ کو آسمانوں پر لے جایا گیا، یہ سفر کا دوسرا حصہ ہے جسے معراج کہا جاتا ہے۔ اس کا تذکرہ سورہ نجم میں کیا گیا ہے اور باقی تفصیلات احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ عام طور پر اس پورے سفر کو ”معراج“ سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔ معراج سیڑھی کو کہتے ہیں یہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ عُرِجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ (مجھے آسمان پر لے جایا یا چڑھایا گیا) سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ اس سفر کا یہ دوسرا حصہ پہلے سے بھی زیادہ اہم اور عظیم الشان ہے، اس لئے معراج کا لفظ ہی زیادہ مشہور ہو گیا۔ اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ تاہم اس میں اتفاق ہے کہ یہ ہجرت سے قبل کا واقعہ ہے۔ بعض کہتے ہیں ایک سال قبل اور بعض کہتے ہیں کئی سال قبل یہ واقعہ پیش آیا۔ اسی طرح مہینے اور اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ کوئی ربیع الاول کی 17 یا 27، کوئی رجب کی 27 اور بعض کوئی اور مہینہ اس کی تاریخ بتلاتے ہیں۔ (فتح القدیر)
ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لئے ہدایت بنا دیا کہ تم میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا.
اے ان لوگوں کی اوﻻد! جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کردیا تھا، وه ہمارا بڑا ہی شکرگزار بنده تھا.*
____________________
* طوفان نوح (عليه السلام) کے بعد نسل انسانی نوح (عليه السلام) کے ان بیٹوں کی نسل سے ہے جو کشتیئ نوح (عليه السلام) میں سوار ہوئے تھے اور طوفان سے بچ گئے تھے۔ اس لئے بنو اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا کہ تمہارا باپ، نوح علیہ السلام، اللہ کا بہت شکر گزار بندہ تھا۔ تم بھی اپنے باپ کی طرح شکر گزاری کا راستہ اختیار کرو اور ہم نے جو محمد (صلى الله عليه وسلم) کو رسول بنا کر بھیجا ہے، ان کا انکار کر کے کفران نعمت مت کرو۔
ہم نے بنی اسرائیل کے لئے ان کی کتاب میں صاف فیصلہ کردیا تھا کہ تم زمین میں دوبار فساد برپا کرو گے اور تم بڑی زبردست زیادتیاں کرو گے.
ان دونوں وعدوں میں سے پہلے کے آتے ہی ہم نے تمہارے مقابلہ پر اپنے بندے بھیج دیئے جو بڑے ہی لڑاکے تھے۔ پس وه تمہارے گھروں کے اندر تک پھیل گئے اور اللہ کا یہ وعده پورا ہونا ہی تھا.*
____________________
* یہ اشارہ ہے اس ذلت اور تباہی کی طرف جو بابل کے فرمان روا بخت نصر کے ہاتھوں، حضرت مسیح (عليه السلام) سے تقریبًا چھ سو سال قبل، یہودیوں پر یروشلم میں نازل ہوئی۔ اس نے بے دریغ یہودیوں کو قتل کیا اور ایک بڑی تعداد کو غلام بنا لیا اور یہ اس وقت ہوا جب انہوں نے اللہ کے نبی حضرت شعیب (عليه السلام) کو قتل کیا یا حضرت ارمیا (عليه السلام) کو قید کیا اور تورات کے احکام کی خلاف ورزی اور معصیات کا ارتکاب کر کے فساد فی الارض کے مجرم بنے۔ بعض کہتے ہیں کہ بخت نصر کے بجائے جالوت کو اللہ تعالٰی نے بطور سزا ان پر مسلط کیا، جس نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ حتیٰ کہ طالوت کی قیادت میں حضرت داود (عليه السلام) نے جالوت کو قتل کیا۔
پھر ہم نے ان پر تمہارا غلبہ دے کر تمہارے دن پھیرے اور مال اور اوﻻد سے تمہاری مدد کی اور تمہیں بڑے جتھے واﻻ بنا دیا.*
____________________
* یعنی بخت نصر یا جالوت کے قتل کے بعد ہم نے تمہیں پھر مال اور دولت، بیٹوں اور جاہ حشمت سے نوازا، جب کہ یہ ساری چیزیں تم سے چھن چکی تھیں۔ اور تمہیں پھر زیادہ جتھے والا اور طاقتور بنا دیا۔
اگر تم نے اچھے کام کئے تو خود اپنے ہی فائده کے لئے، اور اگر تم نے برائیاں کیں تو بھی اپنے ہی لئے، پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا (تو ہم نے دوسرے بندوں کو بھیج دیا تاکہ) وه تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور پہلی دفعہ کی طرح پھر اسی مسجد میں گھس جائیں۔ اور جس جس چیز پر قابو پائیں توڑ پھوڑ کر جڑ سے اکھاڑ دیں.*
____________________
* یہ دوسری مرتبہ انہوں نے فساد برپا کیا کہ حضرت زکریا (عليه السلام) کو قتل کر دیا اور حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو بھی قتل کرنے کے درپے رہے، جنہیں اللہ تعالٰی نے زندہ آسمان پر اٹھا کر ان سے بچا لیا۔ اس کے نتیجے میں پھر رومی بادشاہ ٹیٹس کو اللہ نے ان پر مسلط کر دیا، اس نے یروشلم پر حملہ کر کے ان کے کشتے کے پشتے لگا دیئے اور بہت سوں کو قیدی بنا لیا، ان کے اموال لوٹ لئے، مذہبی صحیفوں کو پاؤں تلے روندا اور بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کو غارت کیا اور انہیں ہمیشہ کے لئے بیت المقدس سے جلا وطن کر دیا۔ اور یوں ان کی ذلت و رسوائی کا خوب خوب سامان کیا۔ یہ تباہی 70ء میں ان پر آئی۔
امید ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے۔ ہاں اگر تم پھر بھی وہی کرنے لگے تو ہم بھی دوباره ایسا ہی کریں* گے اور ہم نے منکروں کا قید خانہ جہنم کو بنا رکھا ہے.**
____________________
* یہ انہیں تنبیہ کی کہ اگر تم نے اصلاح کر لی تو اللہ کی رحمت کے مستحق ہو گے۔ جس کا مطلب دنیا وآخرت کی سرخ روئی اور کامیابی ہے اور اگر دوبارہ اللہ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کر کے تم نے فساد فی الارض کا ارتکاب کیا تو ہم پھر تمہیں اسی طرح ذلت و رسوائی سے دو چار کر دیں گے۔ جیسے اس سے قبل دو مرتبہ ہم تمہارے ساتھ یہ معاملہ کر چکے ہیں چنانچہ ایسا ہی ہوا یہ یہود اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے اور وہی کردار رسالت محمدیہ کے بارے میں دہرایا جو رسالت موسوی اور رسالت عیسوی میں ادا کر چکے تھے جس کے نتیجے میں یہ یہودی تیسری مرتبہ مسلمانوں کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہوئے اور بصد رسوائی انہیں مدینے اور خیبر سے نکلنا پڑا۔
**- یعنی اس دنیا کی رسوائی کے بعد آخرت میں جہنم کی سزا اور اس کا عذاب الگ ہے جو وہاں انہیں بھگتنا ہو گا۔
یقیناً یہ قرآن وه راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے.
اور یہ کہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے.
اور انسان برائی کی دعائیں مانگنے لگتا ہے بالکل اس کی اپنی بھلائی کی دعا کی طرح، انسان ہے ہی بڑا جلد باز.*
____________________
* انسان چونکہ جلد باز اور بے حوصلہ ہے اس لیے جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو اپنی ہلاکت کے لیے اسی طرح بد دعا کرتا ہے جس طرح بھلائی کے لیے اپنے رب سے دعائیں کرتا ہے یہ تو رب کا فضل و کرم ہے کہ وہ اس کی بد دعاؤں کو قبول نہیں کرتا یہی مضمون سورۂ یونس آیت 11 میں گزر چکا ہے۔
ہم نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنائی ہیں، رات کی نشانی کو تو ہم نے بےنور کردیا ہے اور دن کی نشانی کو روشن بنایا ہے تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور اس لئے بھی کہ برسوں کا شمار اور حساب معلوم کرسکو* اور ہر ہر چیز کو ہم نے خوب تفصیل سے بیان فرما دیا ہے.**
____________________
* یعنی رات کو بے نور یعنی تاریک کر دیا تاکہ تم آرام کر سکو اور تمہاری دن بھر کی تھکاوٹ دور ہو جائے اور دن کو روشن بنایا تاکہ کسب معاش کے ذریعے سے تم رب کا فضل تلاش کرو۔ علاوہ ازیں رات اور دن کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح ہفتوں، مہینوں اور برسوں کا شمار اور حساب تم کر سکو، اس حساب کے بھی بیشمار فوائد ہیں۔ اگر رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات نہ آتی بلکہ ہمیشہ رات ہی رات یا دن ہی دن رہتا تو تمہیں آرام اور سکون کا یا کاروبار کرنے کا موقع نہ ملتا اور اسی طرح مہینوں اور سالوں کا حساب بھی ممکن نہ رہتا۔
**- یعنی انسان کے لئے دین اور دنیا کی ضروری باتیں سب کھول کر ہم نے بیان کر دی ہیں تاکہ ان سے انسان فائدہ اٹھائیں، اپنی دنیا سنواریں اور آخرت کی بھی فکر اور اس کے لئے تیاری کریں۔
ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے* اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہٴ اعمال نکالیں گے جسے وه اپنے اوپر کھلا ہوا پالے گا.
____________________
* طَائِرٌ کے معنی پرندے کے ہیں اور عُنُقٌ کے معنی گردن کے۔ امام ابن کثیر نے طائر سے مراد انسان کے عمل کے لئے ہیں۔ فِي عُنُقِهِ کا مطلب ہے اس کے اچھے یا برے عمل، جس پر اس کو اچھی یا بری جزا دی جائے گی، گلے کے ہار کی طرح اس کے ساتھ ہوں گے۔ یعنی اس کا ہر عمل لکھا جا رہا ہے، اللہ کے ہاں اس کا پورا ریکارڈ محفوظ ہو گا۔ قیامت والے دن اس کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اور امام شوکانی نے طائر سے مراد انسان کی قسمت لی ہے، جو اللہ تعالٰی نے اپنے علم کے مطابق پہلے سے لکھ دی ہے، جسے سعادت مند اور اللہ کا مطیع ہونا تھا وہ اللہ کو معلوم تھا اور جسے نافرمان ہونا تھا، وہ بھی اس کے علم میں تھا، یہی قسمت (سعادت مندی یا بد بختی) ہر انسان کے ساتھ گلے کے ہار کی طرح چمٹی ہوئی ہو گی۔ اسی کے مطابق اس کے عمل ہوں گے اور قیامت والے دن اسی کے مطابق فیصلے ہوں گے۔
لے! خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے۔ آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے.
جو راه راست حاصل کرلے وه خود اپنے ہی بھلے کے لئے راه یافتہ ہوتا ہے اور جو بھٹک جائے اس کا بوجھ اسی کے اوپر ہے، کوئی بوجھ واﻻ کسی اور کا بوجھ اپنے اوپر نہ ﻻدے گا اور ہماری سنت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب کرنے لگیں.*
____________________
* البتہ جو ضال (گمراہ) مُضل (گمراہ کرنے والے) بھی ہوں گے، انہیں اپنی گمراہی کے بوجھ کے ساتھ، ان کے گناہوں کا بار بھی (بغیر ان کے گناہوں میں کمی کیے) اٹھانا پڑے گا جو ان کی کوششوں سے گمراہ ہوئے ہوں گے، جیسا کہ قرآن کے دوسرے مقامات اور احادیث میں واضح ہے۔ یہ دراصل ان کے اپنے ہی گناہوں کا بھار ہوگا جو دوسروں کو گمراہ کر کے انہوں نے کمایا ہوگا۔
**- بعض مفسرین نے اس سے صرف دنیوی عذاب مراد لیا ہے۔ یعنی آخرت کے عذاب سے مستثنٰی نہیں ہوں گے، لیکن قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے واضح ہے کہ اللہ تعالٰی لوگوں سے پوچھے گا کہ تمہارے پاس میرے رسول نہیں آئے تھے؟ جس پر اثبات میں جواب دیں گے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ارسال رسل اور انزال کتب کے بغیر وہ کسی کو عذاب نہیں دے گا۔ تاہم اس کا فیصلہ کہ کس قوم یا فرد تک اس کا پیغام نہیں پہنچا، قیامت والے دن وہ خود ہی فرمائے گا، وہاں یقینا کسی کے ساتھ ظلم نہیں ہو گا۔ اسی طرح بہرا پاگل فاترالعقل اور زمانہ فترت یعنی دو نبیوں کے درمیانی زمانے میں فوت ہونے والے لوگوں کا مسئلہ ہے ان کی بابت بعض روایات میں آتا ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالٰی ان کی طرف فرشتے بھیجے گا اور وہ انہیں کہیں گے کہ جہنم میں داخل ہو جاؤ اگر وہ اللہ کے اس حکم کو مان کر جہنم میں داخل ہو جائیں گے تو جہنم ان کے لیے گل وگلزار بن جائے گی بصورت دیگر انہیں گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسند أحمد، ج 4، ص 24، وابن حبان، ج 9، ص 226۔ علامہ البانی نے صحيح الجامع الصغير (نمبر 881) میں اسے ذکر کیا ہے) چھوٹے بچوں کی بابت اختلاف ہے مسلمانوں کے بچے تو جنت میں ہی جائیں گے البتہ کفار و مشرکین کے بچوں میں اختلاف ہے کوئی توقف کا کوئی جنت میں جانے کا اور کوئی جہنم میں جانے کا قائل ہے، امام ابن کثیر نے کہا ہے کہ میدان محشر میں ان کا امتحان لیا جائے گا جو اللہ کے حکم کی اطاعت اختیار کرے گا وہ جنت میں اور جو نافرمانی کرے گا جہنم میں جائے گا امام ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ اس سے متضاد روایات میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔ تفصیل کے لیے (تفسیر ابن کثیر ملاحظہ کیجئے)۔ مگر صحیح بخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے بچے بھی جنت میں جائیں گے۔ دیکھئے صحیح بخاری (3: 251، 12: 348) مع الفتح
اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا اراده کرلیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو (کچھ) حکم دیتے ہیں اور وه اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب کی) بات ﺛابت ہوجاتی ہے پھر ہم اسے تباه وبرباد کردیتے ہیں.*
____________________
* اس میں وہ اصول بتلایا گیا ہے جس کی روح سے قوموں کی ہلاکت کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور یہ کہ ان کا خوش حال طبقہ اللہ کے حکموں کی نافرمانی شروع کر دیتا ہے اور انہی کی تقلید پھر دوسرے لوگ کرتے ہیں، یوں اس قوم میں اللہ کی نافرمانی عام ہو جاتی ہے اور وہ مستحق عذاب قرار پا جاتی ہے۔
ہم نے نوح کے بعد بھی بہت سی قومیں ہلاک کیں* اور تیرا رب اپنے بندوں کے گناہوں سے کافی خبردار اور خوب دیکھنے بھالنے واﻻ ہے.
____________________
* وہ بھی اسی اصول ہلاکت کے تحت ہی ہلاک ہوئیں۔
جس کا اراده صرف اس جلدی والی دنیا (فوری فائده) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں بالﺂخر اس کے لئے ہم جہنم مقرر کردیتے ہیں جہاں وه برے حالوں دھتکارا ہوا داخل ہوگا.*
____________________
* یعنی دنیا کے ہر طالب کو دنیا نہیں ملتی، صرف اسی کو ملتی ہے جس کو ہم چاہیں، پھر اس کو بھی اتنی دنیا نہیں جتنی وہ چاہتا ہے بلکہ اتنی ہی ملتی ہے جتنی ہم اس کے لئے فیصلہ کریں۔ لیکن اس دنیا طلبی کا نتیجہ جہنم کا دائمی عذاب اور اس کی رسوائی ہے۔
اور جس کا اراده آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہیئے، وه کرتا بھی ہو اور وه باایمان بھی ہو، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدردانی کی جائے گی.*
____________________
* اللہ تعالٰی کے ہاں قدر دانی کے لئے تین چیزیں یہاں بیان کی گئی ہیں: (1)۔ ارادہ آخرت، یعنی اخلاص اور اللہ کی رضا جوئی، (2)۔ ایسی کوشش جو اس کے لائق ہو، یعنی سنت کے مطابق، (3)۔ ایمان کیونکہ اس کے بغیر تو کوئی عمل بھی قابل التفات نہیں۔ یعنی قبولیت عمل کے لئے ایمان کے ساتھ اخلاص اور سنت نبوی کے مطابق ہونا ضروری ہے۔
ہر ایک کو ہم بہم پہنچائے جاتے ہیں انہیں بھی اور ا نہیں بھی تیرے پروردگار کے انعامات میں سے۔ تیرے پروردگار کی بخشش رکی ہوئی نہیں ہے.*
____________________
* یعنی دنیا کا رزق اور اس کی آسائشیں ہم بلا تفریق مومن اور کافر، طالب دنیا اور طالب آخرت سب کو دیتے ہیں۔ اللہ کی نعمتیں کسی سے بھی روکی نہیں جاتیں۔
دیکھ لے کہ ان میں ایک کو ایک پر ہم نے کس طرح فضیلت دے رکھی ہے اور آخرت تو درجوں میں اور بھی بڑھ کر ہے اور فضیلت کے اعتبار سے بھی بہت بڑی ہے.*
____________________
* تاہم دنیا کی چیزیں کسی کو کم، کسی کو زیادہ ملتی ہیں، اللہ تعالٰی اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق یہ روزی تقسیم فرماتا ہے۔ تاہم آخرت میں درجات کا یہ تفاضل زیادہ واضح اور نمایاں ہوگا اور وہ اس طرح کہ اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر جہنم میں جائیں گے۔
اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہرا کہ آخرش تو برے حالوں بےکس ہو کر بیٹھ رہے گا.
اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا.*s
____________________
* اس آیت میں اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت، ان کی خدمت اور ان کے ادب و احترام کی اہمیت واضح ہے۔ گویا ربوبیت الٰہی کے تقاضوں کے ساتھ اطاعت والدین کے تقاضوں کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ احادیث میں بھی اس کی اہمیت اور تاکید کو خوب واضح کر دیا گیا ہے، پھر بڑھاپے میں بطور خاص ان کے سامنے ”ہوں“ تک کہنے اور ان کو ڈانٹنے ڈپٹنے سے منع کیا ہے، کیونکہ بڑھاپے میں والدین تو کمزور، بے بس اور لا چار ہوجاتے ہیں، جب کہ اولاد جوان اور وسائل معاش پر قابض و متصرف ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں جوانی کے دیوانے جذبات اور بڑھاپے کے سرد و گرم چشیدہ تجربات میں تصادم ہوتا ہے۔ ان حالات میں والدین کے ادب و احترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ تاہم اللہ کے ہاں سرخ رو وہی ہوگا جو ان تقاضوں کو ملحوظ رکھے گا۔
اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا* اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے.
____________________
* پرندہ جب اپنے بچوں کو اپنے سایۂ شفقت میں لیتا ہے تو ان کے لئے اپنے بازو پست کر دیتا ہے، یعنی تو بھی والدین کے ساتھ اسی طرح اچھا اور پُرشفقت معاملہ کرنا اور ان کی اسی طرح کفالت کر جس طرح انہوں نے بچپن میں تیری کی۔ یا یہ معنی ہیں کہ جب پرندہ اڑنے اور بلند ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو اپنے بازو پھیلا لیتا ہے اور جب نیچے اترتا ہے تو بازؤں کو پست کر لیتا ہے۔ اس اعتبار سے بازوؤں کے پست کرنے کے معنی، والدین کے سامنے تواضع اور عاجزی کا اظہار کرنے کے ہوں گے۔
جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وه تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے واﻻ ہے.
اور رشتے داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو* اور اسراف اور بیجا خرچ سے بچو.
____________________
* قرآن کریم کے ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ غریب رشتہ داروں، مساکین اور ضرورت مند مسافروں کی امداد کر کے، ان پر احسان نہیں جتلانا چاہیے کیونکہ یہ ان پر احسان نہیں ہے، بلکہ مال کا وہ حق ہے جو اللہ تبارک و تعالٰی نے اصحاب مال کے مالوں میں مذکورہ ضرورت مندوں کا رکھا ہے، اگر صاحب مال یہ حق ادا نہیں کرے گا تو عند اللہ مجرم ہوگا۔ گویا یہ حق کی ادائیگی ہے، نہ کہ کسی پر احسان ۔علاوہ ازیں رشتے داروں کے پہلے ذکر سے ان کی اولیت اور اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو، صلہ رحمی کہا جاتا ہے، جس کی اسلام میں بڑی تاکید ہے۔
بیجا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔ اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے.*
____________________
* تَبْذِيرٌ کی اصل بذر (بیج) ہے، جس طرح زمین میں بیج ڈالتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ صحیح جگہ پر پڑ رہا ہے یا اس سے ادھر اُدھر، بلکہ کسان بیج ڈالے چلا جاتا ہے۔ تَبْذِيرٌ (فضول خرچی) بھی یہی ہے کہ انسان اپنا مال بیج کی طرح اڑاتا پھرے اور خرچ کرنے میں حد شرع سے تجاوز کرے اور بعض کہتے ہیں کہ تبذیر کے معنی ناجائز امور میں خرچ کرنا ہیں چاہے تھوڑا ہی ہو۔ ہمارے خیال میں دونوں ہی صورتیں تبذیر میں آجاتی ہیں۔ اور یہ اتنا برا عمل ہے کی اس کے مرتکب کو شیطان سے مماثلت تامہ ہے اور شیطان کی مماثلت سے بچنا، چاہے وہ کسی ایک ہی خصلت میں ہو، انسان کے لئے واجب ہے، پھر شیطان کو كَفُورٌ (بہت ناشکرا) کہہ کر مزید بچنے کی تاکید کر دی ہے اگر شیطان کی مشابہت اختیار کرو گے تو تم بھی اس کی طرح كَفُورٌ قرار دئیے جاؤ گے۔ (فتح القدیر)
اور اگر تجھے ان سے منھ پھیر لینا پڑے اپنے رب کی اس رحمت کی جستجو میں، جس کی تو امید رکھتا ہے تو بھی تجھے چاہیئے کہ عمدگی اور نرمی سے انہیں سمجھا دے.*
____________________
* یعنی مالی استطاعت کے فقدان کی وجہ سے، جس کے دور ہونے کی اور کشائش رزق کی تو اپنے رب سے امید رکھتا ہے۔ اگر تجھے غریب رشتے داروں، مسکینوں اور ضرورت مندوں سے اعراض کرنا یعنی اظہار معذرت کرنا پڑے تو نرمی اور عمدگی کے ساتھ معذرت کر، یعنی جواب بھی دیا جائے تو نرمی اور پیار و محبت کے لہجے میں نہ کہ ترشی اور بد اخلاقی کے ساتھ، جیسا کہ عام طور پر لوگ ضرورت مندوں اور غریبوں کے ساتھ کرتے ہیں۔
اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت کیا ہوا درمانده بیٹھ جائے.*
____________________
* گزشتہ آیت میں انکار کرنے کا ادب بیان فرمایا اب انفاق کا ادب بیان کیا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان بخل کرے کہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر بھی خرچ نہ کرے اور نہ فضول خرچی ہی کرے کہ اپنی وسعت اور گنجائش دیکھے بغیر ہی بےدریغ خرچ کرتا رہے۔ بخل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان، قابل ملامت و ندمت قرار پائے گا اور فضول خرچی کے نتیجے میں محسور (تھکا ہارا اور پچھتانے والا) محسور اس جانور کو کہتے ہیں جو چل چل کر تھک چکا اور چلنے سے عاجز ہو چکا ہو۔ فضول خرچی کرنے والا بھی بالآخر خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ، یہ کنایہ ہے بخل سے اور ”نہ اسے بالکل ہی کھول دے“ یہ کنایہ ہے فضول خرچی سے۔ مَلُومًا مَّحْسُورًا لَفُّ نَشْرٍ مُرَتَّبٌ ہے، یعنی ملوم بخل کا اور محسور فضول خرچی کا نتیجہ ہے۔
یقیناً تیرا رب جس کے لئے چاہے روزی کشاده کردیتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ*۔ یقیناً وه اپنے بندوں سے باخبر اور خوب دیکھنے واﻻ ہے.
____________________
* اس میں اہل ایمان کے لئے تسلی ہے کہ ان کے پاس وسائل رزق کی فروانی نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے اللہ کے ہاں ان کا مقام نہیں ہے بلکہ یہ رزق کی وسعت یا کمی، اس کا تعلق اللہ کی حکمت و مصلحت سے ہے جسے صرف وہی جانتا ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کو قارون بنا دے اور اپنوں کو اتنا ہی دے کہ جس سے یہ مشکل وہ اپنا گذارہ کر سکیں۔ یہ اس کی مشیت ہے۔ جس کو وہ زیادہ دے، وہ اس کا محبوب نہیں، اور وہ قوت لا یموت کا مالک اس کا مبغوض نہیں۔
اور مفلسی کے خوف سے اپنی اوﻻد کو نہ مار ڈالو، ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں۔ یقیناً ان کا قتل کرنا کبیره گناه ہے.*
____________________
* یہ آیت سورۃ الا نعام 151 میں بھی گزر چکی ہے، حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے شرک کے بعد جس گناہ کو سب سے بڑا قرار دیا وہ یہی ہے کہ «أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْيَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ» ۔ (صحيح بخاري- تفسير سورة البقرة، وكتاب الأدب، مسلم، كتاب التوحيد، باب فلا تجعلوا لله أندادا) ”کہ تو اپنی اولاد اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی“۔ آج کل قتل اولاد کا گناہ عظیم طریقے سے خاندانی منصوبہ بندی کے حسین عنوان سے پوری دنیا میں ہو رہا ہے اور مرد حضرات ”بہتر تعلیم و تربیت“ کے نام پر اور خواتین اپنے ”حسن“ کو برقرار رکھنے کے لئے اس جرم کا عام ارتکاب کر رہی ہیں۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ۔
خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیوں کہ وه بڑی بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راه ہے.*
____________________
* اسلام میں زنا چونکہ بہت بڑا جرم ہے، اتنا بڑا کہ کوئی شادی شدہ مرد یا عورت اس کا ارتکاب کر لے تو اسے اسلامی معاشرے میں زندہ رہنے کا ہی حق نہیں ہے۔ پھر اسے تلوار کے ایک وار سے مار دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پتھر مار مار کر اس کی زندگی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ معاشرے میں نشان عبرت بن جائے۔ اس لئے یہاں فرمایا کہ زنا کے قریب مت جاؤ، یعنی اس کے دواعی و اسباب سے بھی بچ کر رہو، مثلًا غیر محرم عورت کو دیکھنا، ان سے اختلاط، کلام کی راہیں پیدا کرنا، اسی طرح عورتوں کا بے پردہ اور بن سنور کر گھروں سے باہر نکلنا، وغیرہ ان تمام امور سے پرہیز ضروری ہے تاکہ اس بےحیائی سے بچا جا سکے۔
اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کردیا ہے ہرگز ناحق قتل نہ کرنا* اور جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مار ڈاﻻ جائے ہم نے اس کے وارث کو طاقت دے رکھی ہے پس اسے چاہیئے کہ مار ڈالنے میں زیادتی نہ کرے بےشک وه مدد کیا گیا ہے.**
____________________
* حق کے ساتھ قتل کرنے کا مطلب قصاص میں قتل کرنا ہے، جس کو انسانی معاشرے کی زندگی اور امن و سکون کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح شادی شدہ زانی اور مرتد کو قتل کرنے کا حکم ہے۔
**- یعنی مقتول کے وارثوں کو یہ حق یا غلبہ یا طاقت دی گئی ہے کہ وہ قاتل کو حاکم وقت کے شرعی فیصلہ کے بعد قصاص میں قتل کر دیں یا اس سے دیت لے لیں یا معاف کر دیں اور اگر قصاص ہی لینا ہے تو اس میں زیادتی نہ کریں کہ ایک کے بدلے میں دو یا تین چار کو مار دیں، یا اس کا مثلہ کر کے یا عذاب دے کر ماریں، مقتول کا وارث، مدد دیا گیا ہے، یعنی امرا وحکام کو اس کی مدد کرنے کی تاکید کی گئی ہے، اس لئے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ یہ کہ زیادتی کا ارتکاب کر کے اللہ کی ناشکری کرے۔
اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ بجز اس طریقہ کے جو بہت ہی بہتر ہو، یہاں تک کہ وه اپنی بلوغت کو پہنچ جائے* اور وعدے پورے کرو کیونکہ قول وقرار کی باز پرس ہونے والی ہے.*
____________________
* کسی کی جان کو ناجائز طریقے سے ضائع کرنے کی ممانعت کے بعد، اتلاف مال (مال کے ضائع کرنے) سے روکا جا رہا ہے اور اس میں یتیم کا مال سب سے زیادہ اہم ہے، اس لئے فرمایا کہ یتیم کے بالغ ہونے تک اس کے مال کو ایسے طریقے سے استعمال کرو، جس میں اس کا فائدہ ہو۔ یہ نہ ہو کہ سوچے سمجھے بغیر ایسے کاروبار میں لگا دو کہ وہ ضائع یا خسارے سے دو چار ہو جائے۔ یا عمرِ شعور سے پہلے تم اسے اڑا ڈالو۔
**- عہد سے وہ میثاق بھی مراد ہے جو اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہے اور وہ بھی جو انسان آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ دونوں قسم کے عہدوں کا پورا کرنا ضروری ہے اور نقص عہد کی صورت میں باز پرس ہوگی۔
اور جب ناپنے لگو تو بھر پور پیمانے سے ناپو اور سیدھی ترازو سے توﻻ کرو۔ یہی بہتر ہے* اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے.
____________________
* اجر و ثواب کے لحاظ سے بہتر ہے، علاوہ ازیں لوگوں کے اندر اعتماد پیدا کرنے میں ناپ تول میں دیانت داری مفید ہے۔
جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ*۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے.**
____________________
* قَفَا يَقْفُوکے معنی ہیں پیچھے لگنا، یعنی جس چیز کا علم نہیں، اس کے پیچھے مت لگو، یعنی بدگمانی مت کرو، کسی کی ٹوہ میں مت رہو، اسی طرح جس چیز کا علم نہیں، اس پر عمل مت کرو۔
**- یعنی جس چیز کے پیچھے تم پڑو گے اس کے متعلق کان سے سوال ہوگا کہ کیا اس نے سنا تھا، آنکھ سے سوال ہوگا کیا اس نے دیکھا تھا اور دل سے سوال ہوگا کیا اس نے جانا تھا؟ کیونکہ یہی تینوں علم کا ذریعہ ہیں۔ یعنی ان اعضا کو اللہ تعالٰی قیامت والے دن قوت گویائی عطا فرمائے گا اور ان سے پوچھا جائیگا۔
اور زمین میں اکڑ کر نہ چل کہ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے.*
____________________
* اترا کر اور اکڑ کر چلنا، اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ قارون کو اسی بنا پر اس کے گھر اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا (القصص:81) حدیث میں آتا ہے ”ایک شخص دو چادریں پہنے اکڑ کر چل رہا تھا کہ اس کو زمین میں دھنسا دیا گیا اور وہ قیامت تک دھنستا چلا جائے گا“۔ (صحيح مسلم، كتاب اللباس، باب تحريم التبختر في المشي مع إعجابه بثيابه) اللہ تعالٰی کو تواضع اور عاجزی پسند ہے۔
ان سب کاموں کی برائی تیرے رب کے نزدیک (سخت) ناپسند ہے.*
____________________
* یعنی جو باتیں مذکور ہوئیں، ان میں جو بھی بری ہیں، جن سے منع کیا گیا، وہ ناپسندیدہ ہیں۔
یہ بھی منجملہ اس وحی کے ہے جو تیری جانب تیرے رب نے حکمت سے اتاری ہے تو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بنانا کہ ملامت خورده اور راندہٴ درگاه ہو کر دوزخ میں ڈال دیا جائے.
کیا بیٹوں کے لئے تو اللہ نے تمہیں چھانٹ لیا اور خود اپنے لئے فرشتوں کو لڑکیاں بنالیں؟ بےشک تم بہت بڑا بول بول رہے ہو.
ہم نے تو اس قرآن میں ہر ہر طرح بیان* فرما دیا کہ لوگ سمجھ جائیں لیکن اس سے انہیں تو نفرت ہی بڑھتی ہے.
____________________
* ہر ہر طرح کا مطلب ہے، وعظ و نصیحت، دلائل و بینات، ترغیب و ترہیب اور امثال و واقعات، ہر طریقے سے بار بار سمجھایا گیا ہے تاکہ وہ سمجھ جائیں، لیکن وہ کفر شرک کی تاریکیوں میں اس طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ وہ حق کے قریب ہونے کی بجائے، اور زیادہ دور ہوگئے ہیں۔ اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ قرآن جادو، کہانت اور شاعری ہے، پھر وہ اس قرآن سے کس طرح راہ یاب ہوں؟ کیونکہ قرآن کی مثال بارش کی ہے کہ اچھی زمین پر پڑے تو وہ بارش سے شاداب ہو جاتی ہے اور اگر وہ گندی ہے تو بارش سے بدبو میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
کہہ دیجیئے! کہ اگر اللہ کے ساتھ اور معبود بھی ہوتے جیسے کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو ضرور وه اب تک مالک عرش کی جانب راه ڈھونڈ نکالتے.*
____________________
* اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جس طرح ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ پر لشکر کشی کر کے غلبہ و قوت حاصل کر لیتا ہے، اسی طرح دوسرے معبود بھی اللہ پر غلبے کی کوئی راہ ڈھونڈ نکالتے۔ اور اب تک ایسا نہیں ہوا، جب کہ ان معبودوں کو پوجتے ہوئے صدیاں گزر گئی ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود ہی نہیں، کوئی با اختیار ہی نہیں، دوسرے معنی ہیں کہ وہ اب تک اللہ کا قرب حاصل کر چکے ہوتے اور یہ مشرکین جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے ذریعے سے وہ اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں، انہیں بھی وہ اللہ کے قریب کر چکے ہوتے۔
جو کچھ یہ کہتے ہیں اس سے وه پاک اور باﻻتر، بہت دور اور بہت بلند ہے.*
____________________
* یعنی واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی بابت جو کہتے ہیں کہ اس کے شریک ہیں، اللہ تعالٰی ان باتوں سے پاک اور بلند ہے۔
ساتوں آسمان اور زمین اور جو بھی ان میں ہے اسی کی تسبیح کر رہے ہیں۔ ایسی کوئی چیز نہیں جو اسے پاکیزگی اور تعریف کے ساتھ یاد نہ کرتی ہو۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ تم اس کی تسبیح سمجھ نہیں سکتے*۔ وه بڑا بردبار اور بخشنے واﻻ ہے.
____________________
* یعنی سب اسی کے مطیع اور اپنے اپنے انداز میں اس کی تسبیح و تحمید میں مصروف ہیں۔ گو ہم ان کی تسبیح و تحمید کو نہ سمجھ سکیں۔ اس کی تائید بعض آیات قرآنی سے بھی ہوتی ہے مثلًا حضرت داؤد (عليه السلام) کے بارے میں آتا ہے «اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ» (ص:18) ”ہم نے پہاڑوں کو داؤد (عليه السلام) کے تابع کر دیا، بس وہ شام کو اور صبح کو اس کے ساتھ اللہ کی تسبیح (پاکی) بیان کرتے ہیں“۔ بعض پتھروں کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا «وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْـيَةِ اللّٰهِ»( البقرۃ:74) ”اور بعض اللہ تعالٰی کے ڈر سے گر پڑتے ہیں“، بعض صحابہ (رضي الله عنهم) بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ انہوں نے کھانے سے تسبیح کی آواز سنی۔ ( صحيح بخاري- كتاب المناقب نمبر 1759)، ایک اور حدیث سے ثابت ہے کہ چیونٹیاں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں (بخاري، نمبر:3019 مسلم: نمبر1759)، اسی طرح جس تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، جب لکڑی کا منبر بن گیا اور اسے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے چھوڑ دیا تو بچے کی طرح اس سے رونے کی آواز آتی تھی (بخاری نمبر3583) مکے میں ایک پتھر تھا جو رسول (صلى الله عليه وسلم) کو سلام کیا کرتا تھا (صحیح مسلم 1782) ان آیات و صحیح حدیث سے واضح ہے کہ جمادات و نباتات کے اندر بھی ایک مخصوص قسم کا شعور موجود ہے، جسے گو ہم نہ سمجھ سکیں، مگر وہ اس شعور کی بنا پر اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد تسبیح دلالت ہے یعنی یہ چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تمام کائنات کا خالق اور ہرچیز پر قادر صرف اللہ تعالٰی ہے۔
وَفِي كُلِّ شَيْءٍ لَهُ آيَةٌ
تَدُلُّ عَلَى أَنَّهُ وَاحِدٌ
”ہرچیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالٰی ایک ہے، لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے کہ تسبیح اپنے حقیقی معنی میں ہے“۔
تو جب قرآن پڑھتا ہے ہم تیرے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ایک پوشیده حجاب ڈال دیتے ہیں.*
____________________
* مَسْتُورٌ بمعنی سَاترٍ(مانع اور حائل) ہے مستور عن الابصار (آنکھوں سے اوجھل) پس وہ اسے دیکھتے ہیں۔ اس کے باوجود، ان کے اور ہدایت کے درمیان حجاب ہے۔
اور ان کے دلوں پر ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں کہ وه اسے سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ اور جب تو صرف اللہ ہی کا ذکر اس کی توحید کے ساتھ، اس قرآن میں کرتا ہے تو وه روگردانی کرتے پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں.*
____________________
- أَكِنَّةً، كِنَانٌ کی جمع ہے ایسا پردہ جو دلوں پر پڑ جائے۔ وَقْرٌ کانوں میں ایسا ثقل یا ڈاٹ جو قرآن کے سننے میں مانع ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے دل قرآن کے سمجھنے سے قاصر اور کان قرآن سن کر ہدایت قبول کرنے سے عاجز ہیں، اور اللہ کی توحید سے انہیں اتنی نفرت ہے کہ اسے سن کر تو بھاگ ہی کھڑے ہوتے ہیں، ان افعال کی نسبت اللہ کی طرف، بہ اعتبار خلق کے ہے۔ ورنہ ہدایت سے محرومی ان کے جمود و عناد ہی کا نتیجہ تھا۔
جس غرض سے وه لوگ اسے سنتے ہیں ان (کی نیتوں) سے ہم خوب آگاه ہیں، جب یہ آپ کی طرف کان لگائے ہوئے ہوتے ہیں تب بھی اور جب یہ مشوره کرتے ہیں تب بھی جب کہ یہ ﻇالم کہتے ہیں کہ تم اس کی تابعداری میں لگے ہوئے ہو جن پر جادو* کردیا گیا ہے.
____________________
* یعنی نبی (صلى الله عليه وسلم) کو یہ سحر زدہ سمجھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہوئے قرآن سنتے اور آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں، اس لئے ہدایت سے محروم ہی رہتے ہیں۔
دیکھیں تو سہی، آپ کے لئے کیا کیا مثالیں بیان کرتے ہیں، پس وه بہک رہے ہیں۔ اب تو راه پانا ان کے بس میں نہیں رہا.*
____________________
* کبھی ساحر، کبھی مسحور، کبھی مجنون اور کبھی کاہن کہتے ہیں، پس اس طرح گمراہ ہو رہے ہیں، ہدایت کا راستہ انہیں کس طرح ملے۔
انہوں نے کہا کیا جب ہم ہڈیاں اور (مٹی ہو کر) ریزه ریزه ہوجائیں گے تو کیا ہم ازسرنو پیدا کر کے پھر دوباره اٹھا کر کھڑے کر دیئے جائیں گے.
جواب دیجیئے کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا.*
____________________
* جو مٹی اور ہڈیوں سے زیادہ سخت ہے اور جس میں زندگی کے آثار پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے۔
یا کوئی اور ایسی خلقت جو تمہارے دلوں میں بہت ہی سخت معلوم ہو*، پھر وه پوچھیں کہ کون ہے جو دوباره ہماری زندگی لوٹائے؟ آپ جواب دے دیں کہ وہی اللہ جس نے تمہیں اول بار پیدا کیا، اس پر وه اپنے سر ہلا ہلا** کر آپ سے دریافت کریں گے کہ اچھا یہ ہے کب؟ تو آپ جواب دے دیں کہ کیا عجب کہ وه (ساعت) قریب ہی آن لگی ہو.***
____________________
* یعنی اس سے بھی زیادہ سخت چیز، جو تمہارے علم میں ہو، وہ بن جاؤ اور پھر پوچھو کہ کون زندہ کرے گا؟۔
**- أَنْغَضَ يُنْغِضُ کے معنی ہیں سر ہلانا۔ یعنی استہزاء کے طور پر سر ہلا کر وہ کہیں گے کہ یہ دوبارہ زندگی کب ہوگی؟۔
***- قریب کا مطلب ہے، ہونے والی چیز «كُلُّ مَا هُوَ آتٍ فَهُوَ قَرِيبٌ» ”ہر وقوع پذیر ہونے والی چیز قریب ہے“۔ اور ”عسی“ بھی قرآن میں یقین اور واجب الوقوع کے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی قیامت کا وقوع یقینی اور ضروری ہے۔
جس دن وه تمہیں* بلائے گا تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے اور گمان کرو گے کہ تمہارا رہنا بہت ہی تھوڑا ہے.**
____________________
* ”بلائے گا“ کا مطلب ہے قبروں سے زندہ کر کے اپنی بارگاہ میں حاضر کرے گا، تم اس کی حمد کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے یا اسے پہچانتے ہوئے اس کے پاس حاضر ہو جاؤ گے۔
**- وہاں یہ دنیا کی زندگی بالکل تھوڑی معلوم ہوگی۔ «كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا»۔ (النازعات:46) ۔ ”جب قیامت کو دیکھ لیں گے، تو دنیا کی زندگی انہیں ایسے لگے گی گویا اس میں ایک شام یا ایک صبح رہے ہیں“، اسی مضمون کو دیگر مقامات میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ طہٰ102، 104۔ الروم 55۔ المؤمنون 112، 114۔ بعض کہتے ہیں کہ پہلا نفخہ ہوگا تو سب مردے قبروں میں زندہ ہو جائیں گے۔ پھر دوسرے نفخے پر میدان محشر میں حساب کتاب کے لئے اکٹھے ہونگے۔ دونوں نفخوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہوگا اور اس فاصلے میں انہیں کوئی عذاب نہیں دیا جائے گا، وہ سو جائیں گے۔ دوسرے صور پر اٹھیں گے تو کہیں گے ”افسوس، ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایاہے؟“ (سورۂ یس:52) (فتح القدیر) پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔
اور میرے بندوں سے کہہ دیجیئے کہ وه بہت ہی اچھی بات منھ سے نکالا کریں* کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے**۔ بےشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے.
____________________
* یعنی آپس میں گفتگو کرتے وقت زبان کو احتیاط سے استعمال کریں، اچھے کلمات بولیں، اسی طرح کفار و مشرکین اور اہل کتاب سے اگر مخاطبت کی ضرورت پیش آئے تو ان سے مشفقانہ اور نرم لہجے میں گفتگو کریں۔
**- زبان کی ذرا سی بے اعتدالی سے شیطان، جو تمہارا کھلا دشمن ہے، تمہارے درمیان آپس میں فساد ڈلوا سکتا ہے، یا کفار یا مشرکین کے دلوں میں تمہارے لئے زیادہ بغض و عناد پیدا کر سکتا ہے۔ حدیث میں ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار کے ساتھ اشارہ نہ کرے اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ شیطان شاید اس کے ہاتھ سے وہ ہتھیار چلوا دے اور وہ اس مسلمان بھائی کو جا لگے جس سے اس کی موت واقع ہو جائے پس وہ جہنم کے گڑھے میں جا گرے“۔ ( صحيح بخاري كتاب الفتن، باب من حمل علينا السلاح فليس منا- صحيح مسلم، كتاب البر، باب النهي عن الإشارة بالسلاح )
تمہارا رب تم سے بہ نسبت تمہارے بہت زیاده جاننے واﻻ ہے، وه اگر چاہے تو تم پر رحم کردے یا اگر وه چاہے تمہیں عذاب دے*۔ ہم نے آپ کو ان کا ذمہ دار ٹھہرا کر نہیں بھیجا.**
____________________
* اگر خطاب مشرکین سے ہو تو رحم کے معنی قبول اسلام کی توفیق کے ہونگے اور عذاب سے مراد شرک پر ہی موت ہے، جس پر وہ عذاب کے مستحق ہوں گے۔ اور اگر خطاب مومنین سے ہو تو رحم کے معنی ہوں گے کہ وہ کفار سے تمہاری حفاظت فرمائے گا اور عذاب کا مطلب ہے کفار کا مسلمانوں پر غلبہ و تسلط۔
**- کہ آپ انہیں ضرور کفر کی دلدل سے نکالیں یا ان کے کفر پر جمے رہنے پر آپ سے باز پرس ہو۔
آسمانوں وزمین میں جو بھی ہے آپ کا رب سب کو بخوبی جانتا ہے۔ ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر بہتری اور برتری دی ہے* اور داؤد کو زبور ہم نے عطا فرمائی ہے.
____________________
* یہ مضمون «تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ»(البقرۃ:253) بھی گزر چکا ہے۔ یہاں دوبارہ کفار مکہ کے جواب میں یہ مضمون دہرایا گیا ہے، جو کہتے تھے کہ کیا اللہ کو رسالت کے لئے یہ محمد (صلى الله عليه وسلم) ہی ملا تھا؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا کسی کو رسالت کے لئے منتخب کرنا اور کسی ایک نبی کو دوسرے پر فضیلت دینا، یہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
کہہ دیجیئے کہ اللہ کے سوا جنہیں تم معبود سمجھ رہے ہو انہیں پکارو لیکن نہ تو وه تم سے کسی تکلیف کو دور کرسکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں.
جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وه اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیاده نزدیک ہوجائے وه خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوفزده رہتے ہیں*، (بات بھی یہی ہے) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہی ہے.
____________________
* مذکورہ آیت میں ”مِنْ دُونِ اللهِ“ سے مراد فرشتوں اور بزرگوں کی وہ تصویریں اور مجسمے ہیں جن کی عبادت کرتے تھے، یا حضرت عزیر و مسیح علہما السلام ہیں جنہیں یہودی اور عیسائی ابن اللہ کہتے ہیں اور انہیں الوہی صفات کا حامل مانتے تھے، یا وہ جنات ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے اور مشرکین ان کی عبادت کرتے تھے۔ اس لئے کہ اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ یہ تو خود اپنے رب کا قرب تلاش کرنے کی جستجو میں رہتے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور یہ صفت جمادات (پتھروں) میں نہیں ہو سکتی۔ اس آیت سے واضح ہو جاتا ہے کہ مِنْ دُونِ اللهِ (اللہ کے سوا جن کی عبات کی جاتی رہی ہے) وہ صرف پتھر کی مورتیاں ہی نہیں تھیں، بلکہ اللہ کے وہ بندے بھی تھے جن میں سے کچھ فرشتے، کچھ صالحین، کچھ انبیاء اور کچھ جنات تھے۔ اللہ تعالٰی نے سب کی بابت فرمایا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے، نہ کسی کی تکلیف دور کر سکتے ہیں نہ کسی کی حالت بدل سکتے ہیں ”اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں“ کا مطلب اعمال صالحہ کے ذریعے سے اللہ کا قرب ڈھونڈتے ہیں۔ یہی الوسیلۃ ہے جسے قرآن نے بیان کیا ہے۔ وہ نہیں ہے جسے قبر پرست بیان کرتے ہیں کہ فوت شدہ اشخاص کے نام کی نذر نیاز دو، ان کی قبروں پر غلاف چڑھاؤ اور میلے ٹھیلے جماؤ اور ان سے استمداد و استغاثہ کرو ۔کیونکہ یہ وسیلہ نہیں یہ تو ان کی عبادت ہے جو شرک ہے۔ اللہ تعالٰی ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے۔
جتنی بھی بستیاں ہیں ہم قیامت کے دن سے پہلے پہلے یا تو انہیں ہلاک کردینے والے ہیں یا سخت تر سزا دینے والے ہیں۔ یہ تو کتاب میں لکھا جاچکا ہے.*
____________________
* کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ بات طے شدہ ہے، جو لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے کہ ہم کافروں کی ہر بستی کو یا تو موت کے ذریعے سے ہلاک کر دیں گے اور بستی سے مراد، بستی کے باشندگان ہیں اور ہلاکت کی وجہ ان کا کفر و شرک اور ظلم و طغیان ہے۔ علاوہ ازیں یہ ہلاکت قیامت سے قبل وقوع پذیر ہوگی، ورنہ قیامت کے دن تو بلا تفریق ہر بستی ہی شکست و ریخت کا شکار ہو جائے گی۔
ہمیں نشانات (معجزات) کے نازل کرنے سے روک صرف اسی کی ہے کہ اگلے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں*۔ ہم نے ﺛمودیوں کو بطور بصیرت کے اونٹنی دی لیکن انہوں نے اس پر ﻇلم کیا** ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لئے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں.
____________________
* یہ آیت اس وقت اتری جب کفار مکہ نے مطالبہ کیا کوہ صفا کو سونے کا بنا دیا جائے یا مکے کے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دیئے جائیں تاکہ وہاں کاشت کاری ممکن ہو سکے، جس پر اللہ تعالٰی نے جبرائیل کے ذریعے سے پیغام بھیجا کہ ان کے مطالبات ہم پورے کرنے کے لئے تیار ہیں، لیکن اگر اس کے بعد بھی وہ ایمان نہ لائے تو پھر ان کی ہلاکت یقینی ہے۔ پھر انہیں مہلت نہیں دی جائے گی۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی اسی بات کو پسند فرمایا کہ ان کا مطالبہ پورا نہ کیا جائے تاکہ یہ یقینی ہلاکت سے بچ جائیں (مسند أحمد, ج 1، ص 258وقال أحمد شاكر في تعليقه على المسند (2333) إسناده صحيح)، اس آیت میں بھی اللہ تعالٰی نے یہی مضمون بیان فرمایا کہ ان کی خواہش کے مطابق نشانیاں اتار دینا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں۔ لیکن ہم اس سے گریز اس لئے کر رہے ہیں کہ پہلی قوموں نے بھی اپنی خواہش کے مطابق نشانیاں مانگیں جو انہیں دکھا دی گئیں، لیکن اس کے باوجود انہوں نے تکذیب کی اور ایمان نہ لائے، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک کر دی گئیں۔
**- قوم ثمود کا بطور مثال تذکرہ کیا کیونکہ ان کی خواہش پر پتھر کی چٹان سے اونٹنی ظاہر کر کے دکھائی گئی تھی، لیکن ان ظالموں نے، ایمان لانے کی بجائے، اس اونٹنی ہی کو مار ڈالا، جس پر تین دن کے بعد ان پر عذاب آگیا۔
اور یاد کرو جب کہ ہم نے آپ سے فرما دیا کہ آپ کے رب نے لوگوں کو گھیر لیا* ہے۔ جو رویا (عینی رؤیت) ہم نے آپ کو دکھائی تھی وه لوگوں کے لئے صاف آزمائش ہی تھی اور اسی طرح وه درخت بھی جس سے قرآن میں اﻇہار نفرت کیا گیا ہے**۔ ہم انہیں ڈرا رہے ہیں لیکن یہ انہیں اور بڑی سرکشی میں بڑھا رہا ہے.***
____________________
* یعنی لوگ اللہ کے غلبہ و تصرف میں ہیں اور جو اللہ چاہے گا وہی ہوگا نہ کہ جو وہ چاہیں گے، یا مراد اہل مکہ ہیں کہ وہ اللہ کے زیر اقتدار ہیں، آپ بےخوفی سے تبلیغ رسالت کیجئے، وہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، ہم ان سے آپ کی حفاظت فرمائیں گے۔ یا جنگ بدر اور فتح مکہ کے موقع پر جس طرح اللہ نے کفار مکہ کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا، اس کو واضح کیا جارہا ہے۔
**- صحابہ و تابعین(رضي الله عنهم) نے اس رویا کی تفسیر عینی رؤیت سے کی ہے اور مراد اس سے معراج کا واقعہ ہے، جو بہت سے کمزور لوگوں کے لئے فتنے کا باعث بن گیا اور وہ مرتد ہوگئے۔ اور درخت سے مراد زَقُّومٌ (تھوہر) کا درخت ہے، جس کا مشاہدہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے شب معراج، جہنم میں کیا۔ الْمَلْعُونَةَ سے مراد، کھانے والوں پر یعنی جہنمیوں پر لعنت۔ جیسے دوسرے مقام پر ہے کہ «إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ، طَعَامُ الأَثِيمِ» ( الدخان:44,43)۔ ”زقوم کا درخت، گناہ گاروں کا کھانا ہے“۔
***- یعنی کافروں کے دلوں میں جو خبث و عناد ہے، اس کی وجہ سے، نشانیاں دیکھ کر ایمان لانے کی بجائے، ان کی سرکشی و طغیانی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔
جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجده کرو تو ابلیس کے سوا سب نے کیا، اس نے کہا کہ کیا میں اسے سجده کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے.
اچھا دیکھ لے اسے تو نے مجھ پر بزرگی تو دی ہے، لیکن اگر مجھے بھی قیامت تک تو نے ڈھیل دی تو میں اس کی اوﻻد کو بجز بہت تھوڑے لوگوں کے، اپنے بس* میں کرلوں گا.
____________________
* یعنی اس پر غلبہ حاصل کرلوں گا اور اسے جس طرح چاہوں گا، گمراہ کرلوں گا۔ البتہ تھوڑے سے لوگ میرے داؤ سے بچ جائیں گے۔ آدم (عليه السلام) و ابلیس کا یہ قصہ اس سے قبل سورہ بقرہ، اعراف اور حجر میں گزر چکا ہے۔ یہاں چوتھی مرتبہ اسے بیان کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں سورہ کہف طٰہٰ اور سورہ صٓ میں بھی اس کا ذکر آئے گا۔
ارشاد ہوا کہ جا ان میں سے جو بھی تیرا تابعدار ہوجائے گا تو تم سب کی سزا جہنم ہے جو پورا پورا بدلہ ہے.
ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے بہکا* لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا ﻻ** اور ان کے مال اور اوﻻد میں سے اپنا بھی ساجھا لگا*** اور انہیں (جھوٹے) وعدے دے لے****۔ ان سے جتنے بھی وعدے شیطان کے ہوتے ہیں سب کے سب سراسر فریب ہیں.*****
____________________
* آواز سے مراد پر فریب دعوت یا گانے، موسیقی اور لہو و لعب کے دیگر آلات ہیں، جن کے ذریعے سے شیطان بکثرت لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔
**- ان لشکروں سے مراد، انسانوں اور جنوں کے وہ سوار اور پیادے لشکر ہیں جو شیطان کے چیلے اور اس کے پیروکار ہیں اور شیطان ہی کی طرح انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں، یا مراد ہے ہر ممکن ذرائع جو شیطان گمراہ کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔
***- مال میں شیطان کی مشارکت کا مطلب حرام ذریعے سے مال کمانا اور حرام طریقے سے خرچ کرنا ہے اور اسی طرح مویشیوں کو بتوں کے ناموں پر وقف کر دینا مثلًا بحیرہ، سائبہ وغیرہ اور اولاد میں شرکت کا مطلب، زنا کاری، عبدالات، عبدالعزیٰ وغیرہ نام رکھنا، غیر اسلامی طریقے سے ان کی تربیت کرنا کہ برے اخلاق و کردار کے حامل ہوں، ان کو تنگ دستی کے خوف سے ہلاک یا زندہ درگور کر دینا، اولاد کو مجوسی، یہودی و نصرانی وغیرہ بنانا اور بغیر مسنون دعا پڑھے بیوی سے ہم بستری کرنا وغیرہ وغیرہ ہے۔ ان تمام صورتوں میں شیطان کی شرکت ہو جاتی ہے۔
****- کہ کوئی جنت و دوزخ نہیں ہے، یا مرنے کے بعد دوبارہ زندگی نہیں ہے وغیرہ۔
*****- غُرُورٌ (فریب) کا مطلب ہوتا ہے غلط کام کو اس طرح مزین کرکے دکھانا کہ وہ اچھا اور درست لگے۔
میرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نہیں*۔ تیرا رب کارسازی کرنے واﻻ کافی ہے.**
____________________
* بندوں کی نسبت اپنی طرف کی، بطور شرف اور اعزاز کے ہے، جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے خاص بندوں کو شیطان بہکانے میں ناکام رہتا ہے۔
**- یعنی جو صحیح معنوں میں اللہ کا بندہ بن جاتا ہے، اسی پر اعتماد اور توکل کرتا ہے تو اللہ بھی اس کا دوست اور کار ساز بن جاتا ہے۔
تمہارا پروردگار وه ہے جو تمہارے لئے دریا میں کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔ وه تمہارے اوپر بہت ہی مہربان ہے.*
____________________
* یہ اس کا فضل اور رحمت ہی ہے کہ اس نے سمندر کو انسانوں کے تابع کر دیا اور وہ اس پر کشتیاں اور جہاز چلا کر ایک ملک سے دوسرے ملک میں آتے جاتے اور کاروبار کرتے ہیں، نیز اس نے ان چیزوں کی طرف رہنمائی بھی فرمائی جن میں بندوں کے لئے منافع اور مصالح ہیں۔
اور سمندروں میں مصیبت پہنچتے ہی جنہیں تم پکارتے تھے سب گم ہوجاتے ہیں صرف وہی اللہ باقی ره جاتا ہے۔ پھر جب وه تمہیں خشکی کی طرف بچا ﻻتا ہے تو تم منھ پھیر لیتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے.*
____________________
* یہ مضموں پہلے بھی کئی جگہ گزر چکا ہے۔
تو کیا تم اس سے بےخوف ہوگئے ہو کہ تمہیں خشکی کی طرف (لے جاکر زمین) میں دھنسا دے یا تم پر پتھروں کی آندھی بھیج دے*۔ پھر تم اپنے لئے کسی نگہبان کو نہ پاسکو.
____________________
* یعنی سمندر سے نکلنے کے بعد تم جو اللہ کو بھول جاتے ہو تو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ خشکی میں بھی تمہاری گرفت کر سکتا ہے، تمہیں وہ زمین میں دھنسا سکتا ہے یا پتھروں کی بارش کر کے تمہیں ہلاک کر سکتا ہے، جس طرح بعض گزشتہ قوموں کو اس نے اس طرح ہلاک کیا۔
کیا تم اس بات سے بےخوف ہوگئے ہو کہ اللہ تعالیٰ پھر تمہیں دوباره دریا کے سفر میں لے آئے اور تم پر تیز وتند ہواؤں کے جھونکے بھیج دے اور تمہارے کفر کے باعﺚ تمہیں ڈبو دے۔ پھر تم اپنے لئے ہم پر اس کا دعویٰ (پیچھا) کرنے واﻻ کسی کو نہ پاؤ گے.*
____________________
* قَاصِفٌ، ایسی تند تیز سمندری ہوا جو کشتیوں کو توڑ دے اور انہیں ڈبو دے، تَبِيعًا انتقام لینے والا، پیچھا کرنے والا، یعنی تمہارے ڈوب جانے کے بعد ہم سے پوچھے کہ تو نے ہمارے بندوں کو کیوں ڈبویا؟ مطلب یہ ہے کہ ایک مرتبہ سمندر سے بخریت نکلنے کے بعد، کیا تمہیں دوبارہ سمندر میں جانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی؟ اور وہاں وہ تمہیں گرداب بلا میں نہیں پھنسا سکتا؟۔
یقیناً ہم نے اوﻻد آدم کو بڑی عزت دی* اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں** دیں اور انہیں پاکیزه چیزوں کی روزیاں*** دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی.****
____________________
* یہ شرف اور فضل، بحیثیت انسان کے، ہر انسان کو حاصل ہے چاہے مومن ہو یا کافر۔ کیونکہ یہ شرف دوسری مخلوقات، حیوانات، جمادات و نباتات وغیرہ کے مقابلے میں ہے۔ اور یہ شرف متعدد اعتبار سے ہے جس طرح کی شکل و صورت، قد وقامت اور ہیئت اللہ تعالٰی نے انسان کو عطا کی ہے، وہ کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں، جو عقل انسان کو دی گئی ہے، جس کے ذریعے سے اس نے اپنے آرام و راحت کے لئے بیشمار چیزیں ایجاد کیں۔ حیوانات وغیرہ اس سے محروم ہیں۔ علاوہ ازیں اسی عقل سے صحیح، مفید و مضر اور حسین قبیح کے درمیان تمیز کرنے پر قادر ہے۔ علاوہ ازیں کائنات کی تمام چیزوں کو اللہ تعالٰی نے انسان کی خدمت پر لگا رکھا ہے۔ چاند سورج، ہوا پانی اور دیگر بیشمار چیزیں ہیں جن سے انسان فیض یاب ہو رہا ہے۔
**- خشکی میں گھوڑوں، خچروں، گدھوں، اونٹوں اور اپنی تیار کردہ سواریوں (ریلیں، گاڑیاں، بسیں، ہوائی جہاز، سائیکل اور موٹر سائیکل وغیرہ) پر سوار ہوتا ہے اور اسی طرح سمندر میں کشتیاں اور جہاز ہیں جن پر وہ سوار ہوتا ہے اور سامان لاتا لے جاتا ہے۔
***- انسان کی خوراک کے لئے جو غلہ جات، میوے اور پھل ہیں سب اسی نے پیدا کئے اور ان میں جو جو لذتیں، ذائقے اور قوتیں رکھیں ہیں۔ انواع اقسام کے کھانے، یہ لذیذ و مرغوب پھل اور یہ قوت بخش اور مفرح مرکبات و مشروبات اور خمیرے اور معجونات، انسان کے علاوہ اور کس مخلوق کو حاصل ہیں؟۔
****- مذکورہ تفصیل سے انسان کی، بہت سی مخلوقات پر، فضیلت اور برتری واضح ہے۔
جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے پیشوا سمیت* بلائیں گے۔ پھر جن کا بھی اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دے دیا گیا وه تو شوق سے اپنا نامہٴ اعمال پڑھنے لگیں گے اور دھاگے کے برابر (ذره برابر) بھی ﻇلم نہ کئے جائیں گے.**
____________________
* إِمَامٌ کے معنی پیشوا، لیڈر اور قائد کے ہیں، یہاں اس سے کیا مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد پیغمبر ہے یعنی ہر امت کو اس کے پیغمبر کے حوالے سے پکارا جائے گا، بعض کہتے ہیں، اس سے آسمانی کتاب مراد ہے جو انبیاء کے ساتھ نازل ہوتی رہیں۔ یعنی اے اہل تورات! اے اہل انجیل! اور اے اہل قرآن! وغیرہ کہہ کر پکارا جائے گا بعض کہتے ہیں یہاں ”امام“ سے مراد نامہ اعمال ہے یعنی ہر شخص کو جب بلایا جائے گا تو اس کا نامہ اعمال اس کے ساتھ ہوگا اور اس کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اسی رائے کو امام ابن کثیر اور امام شوکانی نے ترجیح دی ہے۔
**- فَتِيلٌ اس جھلی یا تاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی میں ہوتا ہے یعنی ذرہ برابر ظلم نہیں ہوگا۔
اور جو کوئی اس جہان میں اندھا رہا، وه آخرت میں بھی اندھا اور راستے سے بہت ہی بھٹکا ہوا رہے گا.*
____________________
* أَعْمَى (اندھا) سے مراد دل کا اندھا ہے یعنی جو دنیا میں حق کے دیکھنے، سمجھنے اور اسے قبول کرنے سے محروم رہا، وہ آخرت میں اندھا، اور رب کے خصوصی فضل و کرم سے محروم رہے گا۔
یہ لوگ آپ کو اس وحی سے جو ہم نے آپ پر اتاری ہے بہکانا چاہتے کہ آپ اس کے سوا کچھ اور ہی ہمارے نام سے گھڑ گھڑالیں، تب تو آپ کو یہ لوگ اپنا ولی دوست بنا لیتے.
اگر ہم آپ کو ﺛابت قدم نہ رکھتے تو بہت ممکن تھا کہ ان کی طرف قدرے قلیل مائل ہو ہی جاتے.*
____________________
* اس میں اس عصمت کا بیان ہے جو اللہ کی طرف سے انبیاء (عليهم السلام) کو حاصل ہوتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مشرکین اگرچہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتے تھے، لیکن اللہ نے آپ کو ان سے بچایا اور آپ (صلى الله عليه وسلم) ذرا بھی ان کی طرف نہیں جھکے۔
پھر تو ہم بھی آپ کو دوہرا عذاب دنیا کا کرتے اور دوہرا ہی موت کا*، پھر آپ تو اپنے لئے ہمارے مقابلے میں کسی کو مددگار بھی نہ پاتے.
____________________
* اس سے معلوم ہوا کہ سزا قدرو منزلت کے مطابق ہوتی ہے۔
یہ تو آپ کے قدم اس سرزمین سے اکھاڑنے ہی لگے تھے کہ آپ کو اس سے نکال دیں*۔ پھر یہ بھی آپ کے بعد بہت ہی کم ٹھہر پاتے.**
____________________
* یہ اس سازش کی طرف اشارہ ہے جو نبی (صلى الله عليه وسلم) کو مکے سے نکالنے کے لئے قریش مکہ نے تیار کی تھی، جس سے اللہ نے آپ کو بچا لیا۔
**- یعنی اگر اپنے منصوبے کے مطابق یہ آپ کو مکے سے نکال دیتے تو یہ بھی اس کے بعد زیادہ دیر نہ رہتے یعنی عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاتے۔
ایسا ہی دستور ان کا تھا جو آپ سے پہلے رسول ہم نے بھیجے* اور آپ ہمارے دستور میں کبھی ردوبدل نہ پائیں گے.**
____________________
* یعنی یہ دستور پرانا چلا آرہا ہے جو آپ (صلى الله عليه وسلم) سے پہلے رسولوں کے لئے بھی برتا جاتا رہا ہے کہ جب ان قوموں نے انہیں اپنے وطن سے نکال دیا یا انہیں نکلنے پر مجبور کر دیا تو پھر وہ قومیں بھی اللہ کے عذاب سے محفوظ نہ رہیں۔
**- چنانچہ اہل مکہ کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ رسول اللہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد ہی میدان بدر میں وہ عبرت ناک ذلت و شکست سے دو چار ہوئے اور چھ سال بعد ٨ ہجری میں مکہ ہی فتح ہوگیا اور اس ذلت و ہزیمیت کے بعد وہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہے۔
نماز کو قائم کریں آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک* اور فجر کا قرآن پڑھنا بھی یقیناً فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے.**
____________________
* دُلُوكٌ کے معنی زوال کے اور غَسَق کے معنی تاریکی کے ہیں۔ آفتاب کے ڈھلنے کے بعد، ظہر اور عصر کی نماز اور رات کی تاریکی تک سے مراد مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اور قرآن الفجر سے مراد فجر کی نماز ہے۔ قرآن، نماز کے معنی میں ہے۔ اس کو قرآن سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ فجر میں قراءت لمبی ہوتی ہے۔ اس طرح اس آیت میں پانچوں فرض نمازوں کا اجمالی ذکر آجاتا ہے۔ جن کی تفیصلات احادیث میں ملتی ہیں اور جو امت کے لئے عملی تواتر سے بھی ثابت ہیں۔
**- یعنی اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں بلکہ دن کے فرشتوں اور رات کے فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے (صحیح بخاری، تفسیر بنی اسرائیل) ایک اور حدیث میں ہے کہ رات والے فرشتے جب اللہ کے پاس جاتے ہیں تو اللہ تعالٰی ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ خود خوب جانتا ہے ”تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟“ فرشتے کہتے ہیں ”جب ہم ان کے پاس گئے تھے، اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس سے آئے ہیں تو انہیں نماز پڑھتے ہوئے ہی چھوڑ کر آئے ہیں“۔ ( البخاري كتاب المواقيت، باب فضل صلاة العصر ومسلم باب فضل صلاتي الصبح والعصر والمحافظة عليهما )
رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں* یہ زیادتی آپ کے لئے ہے** عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا.***
____________________
* بعض کہتے ہیں ”تھجد“ اضداد میں سے ہے جس کے معنی سونے کے بھی ہیں اور نیند سے بیدار ہونے کے بھی۔ اور یہاں یہی دوسرے معنی ہیں کہ رات کو سو کر اٹھیں اور نوافل پڑھیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ”ھجود“ کے اصل معنی تو رات کو سونے کے ہی ہیں، لیکن باب تفعّل میں جانے سے اس میں تجنّب کے معنی پیدا ہوگئے جیسے تأثم کے معنی ہیں اس نے گناہ سے اجتناب کیا، یا بچا، اس طرح تھجد کے معنی ہونگے، سونے سے بچنا جو رات کو سونے سے بچا اور قیام کیا۔ بہرحال تھجد کا مفہوم رات کے پچھلے پہر اٹھ کر نوافل پڑھنا۔ ساری رات قیام اللیل کرنا خلاف سنت ہے۔ نبی رات کے پہلے حصے میں سوتے اور پچھلے حصے میں اٹھ کر تہجد پڑھتے۔ یہی طریقہ سنت ہے۔
**- بعض نے اس کے معنی کئے ہیں یہ ایک زائد فرض ہے جو آپ کے لئے خاص ہے، اس طرح وہ کہتے ہیں کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) پر تہجد بھی اسی طرح فرض تھی، جس طرح پانچ نمازیں فرض تھیں۔ البتہ امت کے لئے تہجد کی نماز فرض نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تہجد آپ پر فرض تھی نہ آپ کی امت پر۔ یہ ایک زائد عبادت ہے جس کی فضیلت یقینا بہت ہے اور اس وقت اللہ اپنی عبادت سے بڑا خوش ہوتا ہے۔ تاہم یہ نماز فرض و واجب نہ نبی (صلى الله عليه وسلم) پر تھی اور نہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی امت پر ہی فرض ہے۔
***- یہ وہ مقام ہے جو قیامت والے دن اللہ تعالٰی نبی کو عطا فرمائے گا اور اس مقام پر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ شفاعت عظمٰی فرمائیں گے، جس کے بعد لوگوں کا حساب کتاب ہوگا۔
اور دعا کیا کریں کہ اے میرے پروردگار مجھے جہاں لے جا اچھی طرح لے جا اور جہاں سے نکال اچھی طرح نکال اور میرے لئے اپنے پاس سے غلبہ اور امداد مقرر فرما دے.*
____________________
* بعض کہتے ہیں کہ یہ ہجرت کے موقع پر نازل ہوئی جب آپ کو مدینے میں داخل ہونے اور مکہ سے نکلنے کا مسئلہ درپیش تھا، بعض کہتے ہیں اس کے معنی ہیں مجھے سچائی کے ساتھ موت دینا اور سچائی کے ساتھ قیامت والے دن اٹھانا۔ بعض کہتے ہیں کہ مجھے قبر میں سچا داخل کرنا اور قیامت کے دن جب قبر سے اٹھائے تو سچائی کے ساتھ قبر سے نکالنا وغیرہ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ چونکہ یہ دعا ہے اس لئے اس کے عموم میں سب باتیں آجاتی ہیں۔
اور اعلان کردے کہ حق آچکا اور ناحق نابود ہوگیا۔ یقیناً باطل تھا بھی نابود ہونے واﻻ.*
____________________
* حدیث میں آتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب نبی (صلى الله عليه وسلم) خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں تین سو ساٹھ بت تھے، آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی، آپ چھڑی کی نوک سے ان بتوں کو مارتے جاتے اور «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ» (الاسراء:81)۔ اور «جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ» پڑھتے جاتے۔ (صحيح بخاري، تفسير بني إسرائيل وكتاب المظالم، باب هل تكسر الدنان التي فيها الخمر ومسلم- الجهاد، باب إزالة الأصنام من حول الكعبة )
یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔ ہاں ﻇالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی.*
____________________
* اس مفہوم کی آیت سورۂ یونس:57 میں گزر چکی ہے، اس کا حاشیہ ملاحظہ فرما لیا جائے۔
اور انسان پر جب ہم اپنا انعام کرتے ہیں تو وه منھ موڑ لیتا ہے اور کروٹ بدل لیتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وه مایوس ہوجاتا ہے.*
____________________
* اس میں انسان کی حالت و کیفیت کا ذکر ہے جس میں وہ عام طور پر خوش حالی کے وقت اور تکلیف کے وقت مبتلا ہوتا ہے، خوشحالی میں وہ اللہ کو بھول جاتا ہے اور تکلیف میں مایوس ہو جاتا ہے، لیکن اہل ایمان کا معاملہ دونوں حالتوں میں اس سے مختلف ہوتا ہے۔ دیکھئے سورۂ ھود کی آیات 9-11 کے حواشی۔
کہہ دیجئیے! کہ ہر شخص اپنے طریقہ پر عامل ہے جو پوری ہدایت کے راستے پر ہیں انہیں تمہارا رب ہی بخوبی جاننے* واﻻ ہے.
____________________
* اس میں مشرکین کے لئے تہدید ووعید ہے اور اس کا وہی مفہوم ہے جو سورہ ھود کی آیت 121-122 کا ہے۔ «وَقُلْ لِلَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ»... شَاكِلَةٌ کے معنی نیت، دین، طریقے اور مزاج وطبیعت کے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس میں کافر کے لیے ذم اور مومن کے لیے مدح کا پہلو ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان ایسا عمل کرتا ہے جو اس کے اخلاق و کردار پر مبنی ہوتا ہے جو اس کی عادت و طبیعت ہوتی ہے۔
اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ جواب دے دیجئیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے.*
____________________
* روح وہ لطیف شے ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی لیکن ہر جاندار کی قوت و توانائی اسی روح کے اندر مضمر ہے اس کی حقیقت و ماہیت کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ یہودیوں نے بھی ایک مرتبہ نبی (صلى الله عليه وسلم) سے اس کی بابت پوچھا تو یہ آیت اتری ( صحيح بخاري، تفسير سورة بني إسرائيل ومسلم، كتاب صفة القيامة والجنة- والنار، باب سؤال اليهود النبي صلى الله عليه وسلم عن الروح ) آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا علم، اللہ کے علم کے مقابلے میں قلیل ہے، اور یہ روح، جس کے بارے میں تم سے پوچھ رہے ہو، اس کا علم تو اللہ نے انبیاء سمیت کسی کو بھی نہیں دیا ہے اتنا سمجھو کہ یہ میرے رب کا امر (حکم) ہے۔ یا میرے رب کی شان میں سے ہے، جس کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے۔
اور اگر ہم چاہیں تو جو وحی آپ کی طرف ہم نے اتاری ہے سب سلب کرلیں*، پھر آپ کو اس کے لئے ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی میسر نہ آسکے.**
____________________
* یعنی وحی کے ذریعے سے جو تھوڑا بہت علم دیا گیا ہے اگر اللہ تعالٰی چاہے تو اسے بھی سلب کرلے یعنی دل سے محو کر دے یا کتاب سے ہی مٹا دے۔
**- جو دوبارہ اس وحی کو آپ کی طرف لوٹا دے۔
سوائے آپ کے رب کی رحمت کے*، یقیناً آپ پر اس کا بڑا ہی فضل ہے.
____________________
* کہ اس نے نازل کردہ وحی کو سلب نہیں کیا یا وحی سے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو مشرف فرمایا۔
کہہ دیجیئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل ﻻنا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل ﻻنا ناممکن ہے گو وه (آپس میں) ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں.*
____________________
* قرآن مجید سے متعلق یہ چلینج اس سے قبل بھی کئی جگہ گزر چکا ہے۔ یہ چلینج آج تک تشنہ جواب ہے۔
ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں کے سمجھنے کے لئے ہر طرح سے تمام مثالیں بیان کردی ہیں، مگر اکثر لوگ انکار سے باز نہیں *
____________________
* یہ آیت اسی سورت کے شروع میں بھی گزر چکی ہے۔
انہوں نے کہا* کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان ﻻنے کے نہیں تاوقتیکہ آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری نہ کردیں.
____________________
* ایمان لانے کے لئے قریش مکہ نے یہ مطالبات پیش کئے۔
یا خود آپ کے لئے ہی کوئی باغ ہو کھجوروں اور انگوروں کا اور اس کے درمیان آپ بہت سی نہریں جاری کر دکھائیں.
یا آپ آسمان کو ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کرکے گرا دیں جیسا کہ آپ کا گمان ہے یا آپ خود اللہ تعالیٰ کو اور فرشتوں کو ہمارے سامنے ﻻکھڑا کریں.*
____________________
* یعنی ہمارے روبرو آکر کھڑے ہو جائیں اور ہم انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔
یا آپ کے اپنے لئے کوئی سونے* کا گھر ہوجائے یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم تو آپ کے چڑھ جانے کا بھی اس وقت تک ہرگز یقین نہیں کریں گے جب تک کہ آپ ہم پر کوئی کتاب نہ اتار ﻻئیں جسے ہم خود پڑھ لیں**، آپ جواب دے دیں کہ میرا پروردگار پاک ہے میں تو صرف ایک انسان ہی ہوں جو رسول بنایا گیا ہوں.***
____________________
* زُخْرُف کے اصل معنی زینت کے ہیں، مُزَخْرَفٌ مزین چیز کو کہتے ہیں۔ لیکن یہاں اسکے معنی سونے کے ہیں۔
**- یعنی ہم میں سے ہر شخص اسے صاف صاف خود پڑھ سکتا ہو۔
***- مطلب یہ ہے کہ میرے رب کے اندر تو ہر طرح کی طاقت ہے، وہ چاہے تو تمہارے مطالبے آن واحد میں لفظ ”کُنْ“ سے پورے فرما دے۔ لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو (تمہاری طرح) ایک بشر ہوں۔ کیا کوئی بشر ان چیزوں پر قادر ہے؟ جو مجھ سے مطالبہ کرتے ہو۔ ہاں، اس کے ساتھ میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔ لیکن رسول کا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا ہے، اور وہ میں نے پہنچا دیا اور پہنچا رہا ہوں۔ لوگوں کے مطالبات پر معجزات ظاہر کر کے دکھانا یہ رسالت کا حصہ نہیں ہے۔ البتہ اگر اللہ چاہے تو صدق رسالت کے لئے ایک آدھا معجزہ دکھا دیا جاتا ہے لیکن لوگوں کی خواہشات پر اگر معجزے دکھانے شروع کر دیئے جائیں تو یہ سلسلہ کہیں بھی جا کر نہیں رک سکے گا ہر آدمی اپنی خواہش کے مطابق نیا معجزہ دیکھنے کا آرزو مند ہوگا اور رسول پھر اسی کام پر لگا رہے گا تبلیغ ودعوت کا اصل کام ٹھپ ہو جائے گا اس لیے معجزات کا صدور صرف اللہ کی مشیت سے ہی ممکن ہے اور میں بھی اس کی مشیت میں دخل اندازی کا مجاز نہیں۔
لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکنے کے بعد ایمان سے روکنے والی صرف یہی چیز رہی کہ انہوں نے کہا کیا اللہ نے ایک انسان کو ہی رسول بنا کر بھیجا؟*
____________________
* یعنی کسی انسان کا رسول ہونا، کفار و مشرکین کے لئے سخت تعجب کی بات تھی، وہ یہ بات مانتے ہی نہ تھے کہ ہمارے جیسا انسان، جو ہماری طرح چلتا پھرتا ہے، ہماری طرح کھاتا پیتا ہے، ہماری طرح انسانی رشتوں میں منسلک ہے، وہ رسول بن جائے۔ یہی تعجب ان کے ایمان میں مانع رہا۔
آپ کہہ دیں کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے.*
____________________
* اللہ تعالٰی نے فرمایا جب زمین میں انسان بستے ہیں تو ان کی ہدایت کے لئے رسول بھی انسان ہی ہوں گے۔ غیر انسان رسول، انسانوں کی ہدایت کا فریضہ انجام دے ہی نہیں سکتا۔ ہاں اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے تو ان کے لئے رسول بھی یقینا فرشتے ہی ہوتے۔
کہہ دیجئیے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کا گواه ہونا کافی ہے*۔ وه اپنے بندوں سے خوب آگاه اور بخوبی دیکھنے واﻻ ہے.
____________________
* یعنی میرے ذمے جو تبلیغ و دعوت تھی، وہ میں نے پہنچا دی، اس بارے میرے اور تمہارے درمیان اللہ کا گواہ ہونا کافی ہے، کیونکہ ہرچیز کا فیصلہ اسی کو کرنا ہے۔
اللہ جس کی رہنمائی کرے تو وه ہدایت یافتہ ہے اور جسے وه راه سے بھٹکا دے ناممکن ہے کہ تو اس کا مددگار اس کے سوا کسی اور کو پائے*، ایسے لوگوں کا ہم بروز قیامت اوندھے منھ حشر کریں گے**، دراں حالیکہ وه اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے***، ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ جب کبھی وه بجھنے لگے گی ہم ان پر اسے اور بھڑکا دیں گے.
____________________
* میری تبلیغ و دعوت سے کون ایمان لاتا ہے، کون نہیں، یہ بھی اللہ کے اختیار میں ہے، میرا کام صرف تبلیغ ہی ہے۔
**- حدیث میں آتا ہے کہ صحابہ کرام (رضي الله عنهم) نے تعجب کا اظہار کیا کہ اوندھے منہ کس طرح حشر ہوگا؟ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا، جس اللہ نے ان کو پیروں سے چلنے کی قوت عطا کی ہے، وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ انہیں منہ کے بل چلا دے۔ ( صحيح بخاري، سورة الفرقان، مسلم، صفة القيامة والجنة والنار، باب يحشر الكافر على وجهه )۔
***- یعنی جس طرح وہ دنیا میں حق کے معاملے میں اندھے، بہرے اور گونگے بنے رہے، قیامت والے دن بطور جزا اندھے، بہرے اور گونگے ہوں گے۔
یہ سب ہماری آیتوں سے کفر کرنے اور اس کہنے کا بدلہ ہے کہ کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزے ریزے ہوجائیں گے پھر ہم نئی پیدائش میں اٹھا کھڑے کئے جائیں* گے؟
____________________
* یعنی جہنم کی یہ سزا ان کو اس لئے دی جائیگی کہ انہوں نے ہماری نازل کردہ آیات کی تصدیق نہیں کی اور کائنات میں پھیلی ہوئی تکوینی آیات پر غور و فکر نہیں کیا، جس کی وجہ سے انہوں نے و قوع قیامت اور بعث بعد الموت کو محال خیال کیا اور کہا کہ ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جانے کے بعد ہمیں نئی پیدائش کس طرح مل سکتی ہے؟۔
کیا انہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ جس اللہ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ہے وه ان جیسوں کی پیدائش پر پورا قادر ہے*، اسی نے ان کے لئے ایک ایسا وقت مقرر کر رکھا ہے جو شک شبہ سے یکسر خالی ہے**، لیکن ﻇالم لوگ انکار کئے بغیر رہتے ہی نہیں.
____________________
* اللہ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ جو اللہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے، وہ ان جیسوں کی پیدائش یا دوبارہ انہیں زندگی دینے پر بھی قادر ہے، کیونکہ یہ تو آسمان و زمین کی تخلیق سے زیادہ آسان ہے۔ «لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ» ( المؤمن:57)۔ ”آسمان اور زمین کی پیدائش انسانوں کی تخلیق سے زیادہ بڑا اور مشکل کام ہے“۔ اسی مضمون کو اللہ تعالٰی نے سورۃ الاحقاف33 میں اور سورہ یٰسین81-82 میں بھی بیان فرمایا ہے۔
**- اس اجل (وقت مقرر) سے مراد موت یا قیامت ہے۔ یہاں سیاق کلام کے اعتبار سے قیامت مراد لینا زیادہ صحیح ہے یعنی ہم نے انہیں دوبارہ زندہ کر کے قبروں سے اٹھانے کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ «وَمَا نُؤَخِّرُهُ إِلا لأَجَلٍ مَعْدُودٍ» ( هود ۔104)۔ ”ہم ان کے معاملے کو ایک وقت مقرر تک کے لیے ہی مؤخر کر رہے ہیں“۔
کہہ دیجیئے کہ اگر بالفرض تم میرے رب کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک بن جاتے تو تم اس وقت بھی اس کے خرچ ہوجانے* کے خوف سے اس کو روکے رکھتے اور انسان ہے ہی تنگ دل.
____________________
* خَشْيَةَ الإنْفَاقِ کا مطلب ہے۔ خَشْيَةَ أَنْ يُنْفِقُوا فَيَفْتَقِرُوا۔ اس خوف سے کہ خرچ کر کے ختم کر ڈالیں گے، اس کے بعد فقیر ہو جائیں گے۔ حالانکہ یہ خزانہ الٰہی جو ختم ہونے والا نہیں لیکن چونکہ انسان تنگ دل واقع ہوا ہے، اس لئے بخل سے کام لیتا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے فرمایا «اَمْ لَهُمْ نَصِيْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا يُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِيْرًا» (النساء:53)۔ یعنی ان کو اگر اللہ کی بادشاہی میں سے کچھ حصہ مل جائے تو یہ لوگوں کو کچھ نہ دیں۔ نقیر کھجور کی گٹھلی میں جو گڑھا ہوتا ہے اس کو کہتے ہیں یعنی تل برابر بھی کسی کو نہ دیں یہ تو اللہ کی مہربانی اور اس کا فضل وکرم ہے کہ اس نے اپنے خزانوں کے منہ لوگوں کے لیے کھولے ہوئے ہیں جس طرح حدیث میں ہے اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں وہ رات دن خرچ کرتا ہے لیکن اس میں کوئی کمی نہیں آتی ذرا دیکھو تو سہی جب سے آسمان و زمین اس نے پیدا کیے ہیں کس قدر خرچ کیا ہوگا لیکن اس کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کمی نہیں۔ ”وہ بھرے کے بھرے ہیں“۔ ( البخاري- كتاب التوحيد، باب وكان عرشه على الماء- مسلم، كتاب الزكاة، باب الحث على النفقة وتبشير المنفق بالخلف )۔
ہم نے موسیٰ کو نو معجزے* بالکل صاف صاف عطا فرمائے، تو خود ہی بنی اسرائیل سے پوچھ لے کہ جب وه ان کے پاس پہنچے تو فرعون بوﻻ کہ اے موسیٰ میرے خیال میں تو تجھ پر جادو کردیا گیا ہے.
____________________
* وہ نو معجزے ہیں۔ ہاتھ، لاٹھی، قحط سالی، نقص ثمرات، طوفان، جراد (ٹڈی دل) قُمّل (کھٹمل، جوئیں) ضفادع (مینڈک) اور خون، امام حسن بصری کہتے ہیں، کہ قحط سالی اور نقص ثمرات ایک ہی چیز ہے اور نواں معجزہ لاٹھی کا جادو گروں کی شعبدہ بازی کو نگل جانا ہے۔ حضرت موسیٰ (عليه السلام) کو ان کے علاوہ بھی معجزات دیئے گئے تھے مثلًا لاٹھی کا پتھر پر مارنا، جس سے بارہ چشمے ظاہر ہوگئے تھے، بادلوں کا سایہ کرنا، من و سلوی وغیرہ۔ لیکن یہاں آیات تسعہ سے صرف وہی نو معجزات مراد ہیں، جن کا مشاہدہ فرعون اور اس کی قوم نے کیا۔ اسی لیے حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) نے انْفِلاقُ بَحْرٍ (سمندر کا پھٹ کر راستہ بن جانے) کو بھی ان نو معجزات میں شمار کیا ہے اور قحط سالی اور نقص ثمرات کو ایک معجزہ شمار کیا ہے، ترمذی کی ایک روایت میں آیات تسعہ کی تفصیل اس سے مختلف بیان کی گئی ہے لیکن سنداً وہ روایت ضعیف ہے اس لیے آیات تسعہ سے مراد یہی مذکورہ معجزات ہیں۔
موسیٰ نے جواب دیا کہ یہ تو تجھے علم ہوچکا ہے کہ آسمان وزمین کے پروردگار ہی نے یہ معجزے دکھانے، سمجھانے کو نازل فرمائے ہیں، اے فرعون! میں تو سمجھ رہا ہوں کہ تو یقیناً برباد وہلاک کیا گیا ہے.
آخر فرعون نے پختہ اراده کر لیا کہ انہیں زمین سے ہی اکھیڑ دے تو ہم نے خود اسے اور اس کے تمام ساتھیوں کو غرق کر دیا.
اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرما دیا کہ اس سرزمین* پر تم رہو سہو۔ ہاں جب آخرت کا وعده آئے گا ہم تم سب کو سمیٹ اور لپیٹ کر لے آئیں گے.
____________________
* بظاہر اس سرزمین جس سے فرعون نے موسیٰ (عليه السلام) اور ان کی قوم کو نکالنے کا ارادہ کیا تھا۔ مگر تاریخ بنی اسرائیل کی شہادت یہ ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد دوبارہ مصر نہیں گئے، بلکہ چالیس سال میدان تیہ میں گزار کر فلسطین میں داخل ہوئے۔ اس کی شہادت سورہ اعراف وغیرہ میں قرآن کے بیان سے ملتی ہے۔ اس لئے صحیح یہی ہے کہ اس سے مراد فلسطین کی سرزمین ہے۔
اور ہم نے اس قرآن کو حق کے ساتھ اتارا اور یہ بھی حق کے ساتھ اترا*۔ ہم نے آپ کو صرف خوشخبری سنانے واﻻ اور ڈرانے واﻻ** بنا کر بھیجا ہے.
____________________
* یعنی با حفاظت آپ تک پہنچ گیا، اس میں راستے میں کوئی کمی بیشی اور کوئی تبدیلی اور آمیزش نہیں کی گئی اس لئے کہ اس کو لانے والا فرشتہ۔ شَدِيدُ الْقُوَى، الأَمِينُ، الْمَكِينُ اور الْمُطَاعُ فِي الْمَلإِ الأَعْلَى ہے۔ یہ وہ صفات ہیں جو حضرت جبرائیل (عليه السلام) کے متعلق قرآن میں بیان کی گئی ہیں۔
**- مُبَشِّرٌ اطاعت گزار مومن کے لئے اور نَذِيرٌ نافرمان کے لئے۔
قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے اس لئے اتارا* ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا.
____________________
* فَرَقْنَاهُ کے ایک دوسرے معنی بَيَّنَّاهُ وَأَوْضَحْنَاهُ (ہم نے اسے کھول کر وضاحت سے بیان کر دیا) بھی کئے گئے ہیں۔
کہہ دیجئیے! تم اس پر ایمان ﻻؤ یا نہ ﻻؤ جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وه ٹھوڑیوں کے بل سجده میں گر پڑتے ہیں.*
____________________
* یعنی وہ علماء جنہوں نے نزول قرآن سے قبل کتب سابقہ پڑھی ہیں اور وہ وحی کی حقیقت اور رسالت کی علامات سے واقف ہیں، وہ سجدہ ریز ہوتے ہیں، اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ انہیں آخری رسول (صلى الله عليه وسلم) کی پہچان کی توفیق دی اور قرآن و رسالت پر ایمان لانے کی سعادت نصیب فرمائی۔
اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے، ہمارے رب کا وعده بلاشک وشبہ پورا ہو کر رہنے* واﻻ ہی ہے.
____________________
* مطلب یہ ہے کہ یہ کفار مکہ جو ہرچیز سے ناواقف ہیں اگر یہ ایمان نہیں لاتے تو آپ پروا نہ کریں اس لیے کہ جو اہل علم ہیں اور وحی ورسالت کی حقیقت سے آشنا ہیں وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں بلکہ قرآن سن کر وہ بارگاہ الہی میں سجدہ ریز ہوگئے ہیں اور اس کی پاکیزگی بیان کرتے اور رب کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں۔
وه اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجده میں گر پڑ تے ہیں اور یہ قرآن ان کی عاجزی اور خشوع اور خضوع بڑھا دیتا ہے.*
____________________
* ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑنے کا دوبارہ ذکر کیا، کیونکہ پہلا سجدہ اللہ کی تعظیم کے لئے اور بطور شکر تھا اور قرآن سن کر جو خشیت و رقت ان پر طاری ہوئی اور اس کی تاثیر و اعجاز سے جس درجہ وہ متأثر ہوئے، اس نے دوبارہ انہیں سجدہ ریز کر دیا۔
کہہ دیجئیے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں*۔ نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیده بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کرلے.**
____________________
* جس طرح کہ پہلے گزر چکا ہے کہ مشرکین مکہ کے لئے اللہ کا صفتی نام ”رحمٰن“ یا ”رحیم“ نامانوس تھا اور بعض آثار میں آتا ہے کہ بعض مشرکین نے نبی (صلى الله عليه وسلم) کی زبان مبارک سے یا رحمٰن و رحیم کے الفاظ سنے تو کہا کہ ہمیں تو یہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ کو پکارو اور خود دو معبودوں کو پکار رہا ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر)
**- اس کی شان نزول میں حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) بیان فرماتے ہیں کہ مکے میں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) چھپ کر رہتے تھے، جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تو آواز قدرے بلند فرما لیتے، مشرکین قرآن سن کر قرآن کو اور اللہ کو گالی گلوچ کرتے، اللہ تعالٰی نے فرمایا، اپنی آواز کو اتنا اونچا نہ کرو کہ مشرکین سن کر قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ آواز اتنی پست کرو کہ صحابہ (رضي الله عنهم) بھی نہ سن سکیں( البخاري- التوحيد، باب قول الله تعالى أنزله بعلمه والملائكة يشهدون- ومسلم، الصلاة، باب التوسط في القراءة )، خود نبی (صلى الله عليه وسلم) کا واقعہ ہے کہ ایک رات نبی (صلى الله عليه وسلم) کا گزر حضرت ابو بکر صدیق (رضي الله عنه) کی طرف سے ہوا تو وہ پست آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں، پھر حضرت عمر (رضي الله عنه) کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تو وہ اونچی آواز سے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے دونوں سے پوچھا تو حضرت ابو بکر صدیق (رضي الله عنه)نے فرمایا میں جس سے مصروف مناجات تھا، وہ میری آواز سن رہا تھا، حضرت عمر (رضي الله عنه) نے جواب دیا کہ میرا مقصد سوتوں کو جگانا اور شیطان کو بھگانا تھا۔ آپ نے صدیق اکبر (رضي الله عنه) سے فرمایا ”اپنی آواز قدرے بلند کرو“ اور حضرت عمر (رضي الله عنه) سے کہا ”اپنی آواز کچھ پست رکھو“ ( مشكاة باب صلاة الليل، بحواله أبو داود ترمذي )۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (بخاری و مسلم، بحوالہ فتح القدیر)
اور یہ کہہ دیجیئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو نہ اوﻻد رکھتا ہے نہ اپنی بادشاہت میں کسی کو شریک وساجھی رکھتا ہے اور نہ وه کمزور ہے کہ اسے کسی حمایتی کی ضرورت ہو اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا ره.
Icon