ﰡ
____________________
* یا تَنْزِيلٌ، مُنَزَّلٌ، منزل کے معنی میں ہے، یعنی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جس میں جھوٹ نہیں۔
**- جو غالب ہے، اس کی قوت اور غلبے کے سامنے کوئی پر نہیں مار سکتا۔ علیم ہے، اس سے کوئی ذرہ تک پوشیدہ نہیں چاہے وہ کتنے بھی کثیف پردوں میں چھپا ہو۔
____________________
* گزشتہ گناہوں کو معاف کرنے والا اورمستقبل میں ہونے والی کوتاہیوں پر توبہ قبول کرنے والاہے۔ یا اپنے دوستوں کے لیے غافر ہے اور کافر ومشرک اگر توبہ کریں تو ان کی توبہ قبول کرنےوالا ہے۔
**- ان کے لیے جو آخرت پر دنیا کو ترجیح دیں اور تمرد وطغیان کا راستہ اختیار کریں یہ اللہ کے اس قول کی طرح ہی ہے۔ نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ * وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمُ (الحجر: 49۔ 50) ”میرے بندوں کوبتلا دو کہ میں غفورورحیم ہوں اورمیرا عذاب بھی نہایت درد ناک ہے“ قرآن کریم میں اکثر جگہ یہ دونوں وصف ساتھ ساتھ بیان کیےگئے ہیں تاکہ انسان خوف اور رجا کے درمیان رہے۔ کیونکہ محض خوف ہی، انسان کو رحمت و مغفرت الٰہی سے مایوس کر سکتا ہے اورنری امید گناہوں پر دلیرکردیتی ہے۔
***- طَوْلٌ کے معنی فراخی اور تونگری کے ہیں، یعنی وہی فراخی اور توانگری عطاکرنےوالا ہے۔ بعض کہتےہیں اس کےمعنی ہیں، انعام اور تفضل۔ یعنی اپنے بندوں پر انعام اور فضل کرنے والا ہے۔
____________________
* اس جھگڑے سےمراد ناجائز اور باطل جھگڑا (جدال) ہے جس کامقصد حق کی تکذیب اور اس کی تردید و تغلیظ ہے ورنہ جس جدال (بحث و مناظرہ) کامقصد ایضاح حق، ابطال باطل اور منکرین و معترضین کے شبہات کا ازالہ ہو، وہ مذموم نہیں نہایت محمود ومستحسن ہے۔ بلکہ اہل علم کو تو اس کی تاکید کی گئی ہے، لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلا تَكْتُمُونَهُ (آل عمران: 187) ”تم اسے لوگوں کے سامنے ضرور بیان کرنا، اسے چھپانا نہیں“۔ بلکہ اللہ کی نازل کردہ کتاب کے دلائل و براہین کوچھپانا اتنا سخت جرم ہے کہ اس پرکائنات کی ہر چیز لعنت کرتی ہے، (البقرۃ: 159)۔
**- یعنی یہ کافر و مشرک جو تجارت کرتے ہیں، اس کے لیے مختلف شہروں میں آتے جاتے اور کثیر منافع حاصل کرتے ہیں، یہ اپنے کفر کی وجہ سے جلد ہی مواخذۂ الٰہی میں آجائیں گے، یہ مہلت ضروردیئے جارہےہیں لیکن انہیں مہمل نہیں چھوڑاجائے گا۔
____________________
* تاکہ اسے قید یا قتل کردیں یا سزا دیں۔
**- یعنی اپنے رسولوں سے انہوں نے جھگڑاکیا، جس سے مقصود حق بات میں کیڑے نکالنا اور اسے کمزور کرنا تھا۔
***- چنانچہ میں نے ان حامیان باطل کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیا، پس تم دیکھ لو ان کےحق میں میرا عذاب کس طرح آیا اور کیسے انہیں حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا یا نہیں نشان عبرت بنا دیا گیا۔
____________________
* مقصد اس سے اس بات کا اظہار ہے کہ جس طرح پچھلی امتوں پر تیرے رب کا عذاب ثابت ہوا اور وہ تباہ کردی گئیں، اگر یہ اہل مکہ بھی تیری تکذیب اور مخالفت سے باز نہ آئے اور جدال بالباطل کو ترک نہ کیا تو یہ بھی اسی طرح عذاب الٰہی کی گرفت میں آ جائیں گے، پھرکوئی انہیں بچانے والا نہیں ہوگا۔
____________________
* اس میں ملائکہ مقربین کے ایک خاص گروہ کا تذکرہ اور وہ جو کچھ کرتے ہیں، اس کی وضاحت ہے، یہ گروہ ہے ان فرشتوں کا جو عرش کو اٹھائے ہوئےہیں اور وہ جو عرش کے اردگرد ہیں۔ ان کا ایک کام یہ ہے کہ یہ اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں، یعنی نقائص سے اس کی تنزیہ، کمالات اور خوبیوں کا اس کے لیے اثبات اور اس کے سامنے عجز و تذلل یعنی (ایمان) کا اظہار کرتے ہیں۔ دوسرا کام ا ن کا یہ ہے کہ یہ اہل ایمان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں، کہا جاتا ہےکہ عرش کو اٹھانے والے فرشتے چار ہیں، مگر قیامت والے دن ان کی تعداد آٹھ ہو گی۔ (ابن کثیر)۔
____________________
* یعنی ان سب کو جنت میں جمع فرما دے تاکہ ایک دوسرےکو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ اس مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے «وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ» (الطور: 21) ”وہ لوگ جو ایمان لائےاور ان ہی کی پیروی ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ کی۔ ملا دیا ہم نے ان کے ساتھ ان کی اولاد کو اورہم نے ان کے عملوں میں سے کچھ کم نہیں کیا“۔ یعنی سب کو جنت میں اس طرح یکساں مرتبہ دے دیا کہ ادنیٰ کو بھی اعلیٰ مقام عطا کر دیا۔ یہ نہیں کیا کہ اعلیٰ مقام میں کمی کر کے انہیں ادنیٰ مقام پر لے آئے، بلکہ ادنیٰ کو اٹھا کر اعلیٰ کردیا اور اس کےعمل کی کمی کو اپنے فضل و کرم سے پورا کر دیا۔
____________________
* سیئات سے مرادیہاں عقوبات ہیں یا پھر جزا محذوف ہے یعنی انہیں آخرت کی سزاوں سے یا برائیوں سےبچانا۔
**- یعنی آخرت کے عذاب سے بچ جانا اور جنت میں داخل ہو جانا، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس لیے کہ اس جیسی کوئی کامیابی نہیں اور اس کے برابر کوئی نجات نہیں۔ ان آیات میں اہل ایمان کے لیے دو عظیم خوش خبریاں ہیں، ایک تویہ کہ فرشتے ان کے لیےغائبانہ دعاکرتے ہیں۔ (جس کی حدیث میں بڑی فضیلت واردہے) دوسری، یہ کہ اہل ایمان کے خاندان جنت میں اکٹھے ہو جائیں گے۔ جَعَلَنَا اللهُ مِنَ الَّذِينَ يُلْحِقُهُمُ اللهُ بِآبَائِهِمُ الصَّالِحِينَ۔
____________________
* مَقْتٌ، سخت ناراضی کو کہتے ہیں۔ اہل کفر جو اپنے کو جہنم کی آگ میں جھلستے دیکھیں گے، تو اپنے آپ پر سخت ناراض ہوں گے، اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں جب تمہیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم انکار کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہیں زیادہ تم پر ناراض ہوتا تھا جتنا تم آج اپنے آپ پر ہو رہے ہو۔ یہ اللہ کی اس ناراضی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج تم جہنم میں ہو۔
____________________
* جمہور مفسرین کی تفسیر کے مطابق، دو موتوں میں سے پہلی موت تو وہ نطفہ ہے جو باپ کی پشت میں ہوتا ہے۔ یعنی اس کے وجود (ہست) سے پہلےاس کے عدم وجود (نیست) کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور دوسری موت وہ ہے جس سے انسان اپنی زندگی گزار کر ہمکنار ہوتا اور اس کے بعد قبر میں دفن ہوتا ہے اور دو زندگیوں میں سے پہلی زندگی، یہ دینوی زندگی ہے، جس کا آغاز ولادت سے اور اختتام، وفات پرہوتا ہے۔ اور دوسری زندگی وہ ہے جو قیامت والے دن قبروں سے اٹھنے کے بعد حاصل ہوگی۔ انہی دو موتوں اور دو زندگیوں کاتذکرہ، «وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ» (البقرة: 28) میں بھی کیا گیا ہے۔
**- یعنی جہنم میں اعتراف کریں گے، جہاں اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں اور وہاں پشیمان ہوں گے جہاں پشیمانی کی کوئی حیثیت نہیں۔
***- یہ وہی خواہش ہے جس کا تذکرہ قرآن مجیدمیں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے کہ ہمیں دوبارہ زمین پر بھیج دیا جائے، تاکہ ہم نیکیاں کما کر لائیں۔
____________________
* یہ ان کے جہنم سے نہ نکالےجانے کا سبب بیان فرمایا ہے کہ تم دنیا میں اللہ کی توحید کے منکر تھے اور شرک تمہیں مرغوب تھا، اس لیے اب جہنم کے دائمی عذاب کے سوا تمہارے لیے کچھ نہیں۔
**- اسی ایک اللہ کا حکم ہے کہ اب تمہارےلیے جہنم کا عذاب ہمیشہ کےلیے ہے اور اس سے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں۔ جو عَلِيٌّ، یعنی ان باتوں سے بلند ہے کہ اس کی ذات یا صفات میں کوئی اس جیسا ہو اور كَبِيرٌ یعنی ان باتوں سے بہت بڑا ہےکہ اس کی کوئی مثل ہو یا بیوی اور اولاد ہو یا شریک ہو۔
____________________
* یعنی پانی جو تمہارےلیے تمہاری روزیوں کا سبب ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے اظہار آیات کو انزال رزق کے ساتھ جمع فرما دیا ہے۔ اس لیے کہ آیات قدرت کا اظہار، ادیان کی بنیاد ہے اور روزیاں ابدان کی بنیاد ہیں۔ یوں یہاں دونوں بنیادوں کو جمع فرما دیا گیا ہے۔ (فتح القدیر)۔
**- اللہ کی اطاعت کی طرف، جس سے ان کے دلوں میں آخرت کا خوف پیدا ہوتا ہے اور احکام و فرائض الٰہی کی پابندی کرتے ہیں۔
____________________
* یعنی جب سب کچھ اللہ ہی اکیلا کرنے والا ہے تو کافروں کو چاہے، کتنا بھی ناگوار گزرے، صرف اسی ایک اللہ کو پکارو، اس کے لیے عبادت و اطاعت کو خالص کرتےہوئے۔
____________________
* رُوحٌ سے مراد وحی ہے جو وہ بندوں میں سے ہی کسی کو رسالت کے لیے چن کر، اس پر نازل فرماتا ہے، وحی کو روح سے اس لیے تعبیر فرمایا کہ جس طرح روح میں انسانی زندگی کی بقا و سلامتی کا راز مضمر ہے۔ اس طرح وحی سے بھی ان انسانی قلوب میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے جو پہلے کفروشک کی وجہ سے مردہ ہوتے ہیں۔
____________________
* یعنی زندہ ہوکر قبروں سے باہر نکل کھڑے ہوں گے۔
**- یہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ پوچھے گا، جب سارے انسان اس کے سامنے میدان محشر میں جمع ہوں گے، اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، اور کہے گا میں بادشاہ ہوں، زمین کے بادشاہ کہاں ہیں؟ (صحیح بخاری، سورۂ زمر)۔
***- جب کوئی نہیں بولے گا تو یہ جواب اللہ تعالیٰ خود ہی دے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک فرشتہ منادی کرے گا، جس کے ساتھ ہی تمام کافر اور مسلمان بیک آواز یہی جواب دیں گے۔ (فتح القدیر)۔
____________________
* اس لیے کہ اسے بندوں کی طرح غورفکر کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔
____________________
* آزِفَةٌ کے معنی ہیں قریب آنے والی۔ یہ قیامت کا نام ہے، اس لیے کہ وہ بھی قریب آنے والی ہے۔
**- یعنی اس دن خوف کی وجہ سے دل اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے۔ كَاظِمِينَ غم سے بھرے ہوئے، یا روتے ہوئے، یا خاموش، اس کےتینوں معنی کیے گئے ہیں۔
____________________
* اس میں اللہ تعالیٰ کے علم کامل کا بیان ہے کہ اسے تمام اشیا کا علم ہے۔ چھوٹی ہو یا بڑی، باریک ہو یا موٹی، اعلیٰ مرتبے کی ہو یا چھوٹے مرتبے کی۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ جب اس کے علم واحاطہ کا یہ حال ہے تو اس کی نافرمانی سے اجتناب اور صحیح معنوں میں اس کا خوف اپنےاندر پیدا کرے۔ آنکھوں کی خیانت یہ ہے کہ دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا جائے۔ جیسے راہ چلتے کسی حسین عورت کو کنکھیوں سےدیکھنا۔ (سینوں کی باتوں میں) وہ وسوسے سےبھی آجاتے ہیں جوانسان کے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں، وہ جب تک وسوسےہی رہتےہیں یعنی ایک لمحۂ گزراں کی طرح آتے اور ختم ہو جاتے ہیں، تب تک تو وہ قابل مواخدہ نہیں ہوں گے۔ لیکن جب وہ عزائم کا روپ دھارلیں تو پھر ان کا مواخدہ ہو سکتا ہے، چاہےان پر عمل کرنے کا انسان کوموقع نہ ملے۔
____________________
* اس لیے کہ انہیں کسی چیز کا علم ہے نہ کسی پر قدرت، وہ بےخبر بھی ہیں اور بےاختیار بھی، جب کہ فیصلے کے لیے علم و اختیار دونوں چیزوں کی ضرورت ہے اور یہ دونوں خوبیاں صرف اللہ کےپاس ہیں، اس لیے صرف اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کرے اور وہ یقیناً حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا، کیونکہ اسےکسی کا خوف نہ ہوگا نہ کسی سے حرص وطمع۔
____________________
* گزشتہ آیات میں احوال آخرت کا بیان تھا، اب دنیا کے احوال سے انہیں ڈرایا جارہاہے کہ یہ لوگ ذرا زمین میں چل پھر کران قوموں کا انجام دیکھیں، جو ان سے پہلے اس جرم تکذیب میں ہلاک کی گئیں، جس کا ارتکاب یہ کر رہے ہیں درآں حالیکہ گزشتہ قومیں قوت وآثار میں ان سے کہیں بڑھ کر تھیں، لیکن جب ان پر اللہ کا عذاب آیا تو انہیں کوئی نہیں بچا سکا۔ اسی طرح تم پر بھی عذاب آسکتا ہے، اور اگر یہ آگیا تو پھر کوئی تمہارا پشت پناہ نہ ہوگا۔
____________________
* یہ ان کی ہلاکت کی وجہ بیان کی گئی ہے، اور وہ ہے اللہ کی آیتوں کا انکار اور پیغمبروں کی تکذیب۔ اب سلسلۂ نبوت و رسالت تو بند ہے تاہم آفاق وانفس میں بے شمار آیات الٰہی بکھری اور پھیلی ہوئی ہیں۔ علاوہ ازیں وعظ و تذکیر اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے علما اور داعیان حق ان کی وضاحت اور نشان دہیں کے لیے موجود ہیں۔ اس لیے آج بھی جو آیات الٰہی سے اعراض اور دین و شریعت سے غفلت کرے گا، اس کا انجام مکذبین اور منکرین رسالت سے مختلف نہیں ہوگا۔
____________________
* آیات سے مراد وہ نو نشانیاں بھی ہو سکتی ہیں جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے، یا عصا اور ید بیضا والے دو بڑے واضح معجزات بھی سُلْطَانٍ مُبِينٍ سے مراد قوی دلیل اور حجت واضحہ، جس کا کوئی جواب ان کی طرف سے ممکن نہیں تھا، بجز ڈھٹائی اور بےشرمی کے۔
____________________
* فرعون، مصر میں آباد قبط کا بادشاہ تھا، بڑا ظالم و جابر اور رب اعلیٰ ہونے کا دعوےدار۔ اس نے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی قوم بنی اسرائیل کوغلام بنارکھا تھا اور اس پر طرح طرح کی سختیاں کرتا تھا، جیساکہ قرآن کے متعدد مقامات پر اس کی تفصیل ہے۔ ہامان، فرعون کا وزیر اورمشیر خاص تھا۔ قارون اپنے وقت کامال دار ترین آدمی تھا، ان سب نے پہلے لوگوں کی طرح حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی تکذیب کی اور انہیں جادوگر اور کذاب کہا۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا گیا «َذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ، أَتَوَاصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ» (سورة الذاريات: 53-52) ”اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں، ان کے پاس جو بھی نبی آیا۔ انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔ کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے گئے ہیں؟ نہیں بلکہ یہ سب کی سب سرکش ہیں“۔
____________________
* فرعون یہ کام پہلے بھی کر رہا تھا تاکہ وہ بچہ پیدا نہ ہو، جو نجومیوں کی پیش گوئی کےمطابق، اس کی بادشاہ کےلیے خطرے کا باعث تھا۔ یہ دوبارہ حکم اس نے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی تذلیل و اہانت کے لیے دیا، نیز تاکہ بنی اسرائیل موسیٰ (عليه السلام) کے وجود کو اپنے لیے مصیبت اور نحوست کاباعث سمجھیں، جیساکہ فی الواقع انہوں نے کہا، «أُوذِينَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَأْتِيَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا» (الأعراف: 129) ”اے موسیٰ (عليه السلام) تیرے آنے سے قبل بھی ہم اذیتوں سے دوچار تھے اور تیرے آنے کے بعد بھی ہمارا یہی حال ہے“۔
____________________
* یعنی اس سے جو مقصد وہ حاصل کرنا چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل کی قوت میں اضافہ اور اس کی عزت میں کمی نہ ہو۔ یہ اسے حاصل نہیں ہوا، بلکہ اللہ نے فرعون اور اس کی قوم کو ہی غرق کر دیا اور بنی اسرائیل کو بابرکت زمین کا وارث بنا دیا۔
**- یہ غالباً فرعون نے ان لوگوں سے کہا جو اسے موسیٰ (عليه السلام) کوقتل کرنے سے منع کرتے تھے۔
***- یہ فرعون کی دیدہ دلیری کااظہارہے کہ میں دیکھوں گا، اس کارب اسے کیسے بچاتا ہے، اسے پکار کر دیکھ لے۔ یارب ہی کا انکار ہے کہ اس کا کون سا رب ہے جو بچالے گا، کیونکہ رب تو وہ اپنے آپ کو کہتا تھا۔
****- یعنی غیر اللہ کی عبادت سے ہٹا کر ایک اللہ کی عبادت پر نہ لگا دے یا اس کی وجہ سے فساد نہ پیدا ہوجائے۔ مطلب یہ تھا کہ اس کی دعوت اگر میری قوم کے کچھ لوگوں نے قبول کرلی، تو وہ نہ قبول کرنے والوں سے بحث و تکرار کریں گے جس سے ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ہو گا جو فساد کا ذریعہ بنے گا یوں دعوت توحید کو اس نے فساد کا سبب اور اہل توحید کو فسادی قرار دیا۔ دراں حالیکہ فسادی وہ خودتھا اور غیر اللہ کی عبادت ہی فساد کی جڑ ہے۔
____________________
* حضرت موسیٰ (عليه السلام) کےعلم میں جب یہ بات آئی کہ فرعون مجھے قتل کرنےکا ارادہ رکھتا ہے تو انہوں نے اللہ سے اس کے شر سے بچنے کے لیے دعا مانگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دشمن کا خوف ہوتا تو یہ دعا پڑھتے ”اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهُمْ وَنعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ“ (مسند أحمد 4 /415) ”اے اللہ ! ہم تجھ کو ان کے مقابلے میں کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ طلب کرتےہیں“۔
____________________
* یعنی اللہ کی ربوبیت پر وہ ایمان یوں ہی نہیں رکھتا، بلکہ اس کے پاس اپنے اس موقف کی واضح دلیلیں ہیں۔
**- یہ اس نے بطور تنزل کے کہا، کہ اگر اس کے دلائل سے تم مطمئن نہیں اور اس کی صداقت اور اس کی دعوت کی صحت تم پر واضح نہیں ہوئی، تب بھی عقل و دانش اور احتیاط کا تقاضا ہے کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے، اس سے تعرض نہ کیا جائے۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے اس جھوٹ کی سزا دنیا و آخرت میں دے دے گا۔ اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ایذائیں پہنچائیں تو پھر یقیناًوہ تمہیں جن عذابوں سے ڈراتا ہے، تم پران میں سے کوئی عذاب آ سکتا ہے۔
***- اس کا مطلب ہے کہ اگروہ جھوٹا ہوتا (جیساکہ تم باور کراتے ہو) تو اللہ تعالیٰ اسےدلائل و معجزات سے نہ نوازتا، جب کہ اس کے پاس یہ چیزیں موجود ہیں۔ دوسرا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے ذلیل اور ہلاک کر دے گا، تمہیں اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
____________________
* یعنی یہ اللہ کاتم پر احسان ہے کہ تمہیں زمین پر غلبہ عطا فرمایا اس کاشکر ادا کرو ! اور اس کے رسول کی تکذیب کر کے اللہ کی ناراضی مول نہ لو۔
**- یہ فوجی اور لشکر تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے، نہ اللہ کے عذاب ہی کو ٹال سکیں گے اگر وہ آ گیا۔ یہاں تک اس مومن کا کلام تھا جو ایمان چھپائے ہوئے تھا۔
***- فرعون نے اپنے دنیوی جاہ و جلال کی بنیاد پر جھوٹ بولا اور کہا کہ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں، وہی تمہیں بتلا رہا ہوں اور میری بتلائی ہوئی راہ ہی صحیح ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ (هود: 97)۔
____________________
* یہ اس مومن آدمی نے دوبارہ اپنی قوم کو ڈرایا کہ اگر اللہ کے رسول کی تکذیب پر ہم اڑے رہے، تو خطرہ ہے کہ گزشتہ قوموں کی طرح عذاب الٰہی کی گرفت میں آجائیں گے۔
**- یعنی اللہ نے جن کوبھی ہلاک کیا، ان کے گناہوں کی پاداش میں اور رسولوں کی تکذیب و مخالفت کی وجہ سے ہی ہلاک کیا، ورنہ وہ شفیق و رحیم رب اپنے بندوں پر ظلم کرنے کا ارادہ ہی نہیں کرتا۔ گویا قوموں کی ہلاکت، یہ ان پر اللہ کا ظلم نہیں ہے بلکہ قانون مکافات کا ایک لازمی نتیجہ ہے جس سے کوئی قوم اور فرد مستثنیٰ نہیں:
از مکافات عمل غافل مشو
گندم از گندم بروید جو از جو
____________________
* تَنَادِي کے معنی ہیں۔ ایک دوسرے کو پکارنا، قیامت کو ”يَوْمَ التَّنَادِ“ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس دن ایک دوسرے کو پکاریں گے۔ اہل جنت اہل نار کو اور اہل نار اہل جنت کو ندائیں دیں گے۔ (الاعراف: 49-48) بعض کہتے ہیں کہ میزان کے پاس ایک فرشتہ ہوگا، جس کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا، اس کی بدبختی کا یہ فرشتہ چیخ کر اعلان کرے گا، بعض کہتےہیں کہ عملوں کے مطابق لوگوں کوپکارا جائےگا، جیسے اہل جنت کو اے جنتیو! اور اہل جہنم کو اے جہنمیو! امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ امام بغوی کا یہ قول بہت اچھا ہے کہ ان تمام باتوں ہی کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا ہے۔
____________________
* یعنی موقف (میدان محشر) سے جہنم کی طرف جاؤ گے، یا حساب کے بعد وہاں سے بھاگو گے۔
**- جو اسے ہدایت کا راستہ بتا سکے یعنی اس پر چلا سکے۔
____________________
* یعنی اے اہل مصر! حضرت موسیٰ (عليه السلام) سے قبل تمہارے اسی علاقے میں، جس میں تم آباد ہو، حضرت یوسف (عليه السلام) بھی دلائل و براہین کے ساتھ آئےتھے۔ جس میں تمہارے آباواجداد کو ایمان کی دعوت دی گئی تھی یعنی جَاءَكُمْ سےمراد جَاءَ إِلَى آبَائِكُمْ ہے یعنی تمہارے آباواجدادکےپاس آئے۔
**- لیکن تم ان پر بھی ایمان نہیں لائے اور ان کی دعوت میں شک و شبہ ہی کرتے رہے۔
***- یعنی یوسف (عليه السلام) پیغمبر کی وفات ہو گئی۔
****- یعنی تمہارا شیوہ چونکہ ہر پیغمبرکی تکذیب اورمخالفت ہی رہا ہے، اس لیے سمجھتے تھے کہ اب کوئی رسول ہی نہیں آئے گا، یا یہ مطلب ہے کہ رسول کا آنا یا نہ آنا، تمہارے لیے برابر ہے یا یہ مطلوب ہے کہ ایسا باعظمت انسان کہاں پیدا ہو سکتا ہے جورسالت سے سرفراز ہو۔ گویا بعد از مرگ حضرت یوسف (عليه السلام) کی عظمت کا اعتراف تھا۔ اور بہت سے لوگ ہر اہم ترین انسان کی وفات کے بعد یہی کہتے ہیں۔
*****- یعنی اس واضح گمراہی کی طرح، جس میں تم مبتلا ہو، اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو بھی گمراہ کرتا ہے جو نہایت کثرت سے گناہوں کا ارتکاب کرتا اور اللہ کے دین، اس کی وحدانیت اور اس کے وعدوں وعیدوں میں شک کرتا ہے۔
____________________
* یعنی اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے، اس کے باوجود اللہ کی توحید اور اس کے احکام میں جھگڑتے ہیں، جیساکہ ہر دور کے اہل باطن کا وطیرہ رہا ہے۔
**- یعنی ان کی اس حرکت شنیعہ سے اللہ تعالیٰ ہی ناراض نہیں ہوتا، اہل ایمان بھی اس کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔
***- یعنی جس طرح ان مجادلین کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے، اسی طرح ہر اس شخص کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے، جو اللہ کی آیتوں کے مقابلے میں تکبر اور سرکشی کا اظہار کرتا ہے، جس کے بعد معروف، ان کو معروف اور منکر، منکر نظر نہیں آتا بلکہ بعض دفعہ منکر، ان کے ہاں معروف اورمعروف، منکر قرار پاتا ہے۔
____________________
* یہ فرعون کی سرکشی اور تمرد کا بیان ہے کہ اس نے اپنے وزیر ہامان کو ایک بلند عمارت بنانے کا حکم دیا تاکہ اس کے ذریعے سے وہ آسمان کے دروازوں تک پہنچ جائے۔ اسباب کے معنی دروازے، یا راستے کے ہیں۔ مزید دیکھیے القصص، آیت 28۔
____________________
* یعنی دیکھوں کہ آسمانوں پر کیاواقعی کوئی الہٰ ہے؟
**- اس بات میں کہ آسمان پر اللہ ہےجو آسمان و زمین کا خالق اور ان کا مدبر ہے۔ یااس بات میں کہ وہ اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہے۔
***- یعنی شیطان نے اس طرح اسے گمراہ کیے رکھا اور اس کے برے عمل اسے اچھے نظر آتے رہے۔
****- یعنی حق اور صواب (درست) راستے سے اسے روک دیا گیا اور وہ گمراہیوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہا۔
*****- تَبَابٌ۔ خسارہ، ہلاکت۔ یعنی فرعون نے جو تدبیراختیارکی، اس کا نتیجہ اس کے حق میں برا ہی نکلا۔ اور بالآخر اپنے لشکر سمیت پانی میں ڈبو دیا گیا۔
____________________
* فرعون کی قوم میں سے ایمان لانے والا پھر بولا۔ اور کہا کہ دعویٰ تو فرعون بھی کرتا ہے کہ میں تمہیں سیدھے راستے پرچلا رہا ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فرعون بھٹکا ﮨوا ہے، میں جس راستے کی نشاندہی کر رہا ہوں، وہ سیدھا راستہ ہے اوروہ وہی راستہ ہے، جس کی طرف تمہیں حضرت موسیٰ (عليه السلام) دعوت دے رہے ہیں۔
____________________
* جس کی زندگی چند روزہ ہے اور وہ بھی آخرت کے مقابلے میں صبح یا شام کی ایک گھڑی کے برابر۔
**- جس کو زوال اور فنا نہیں، نہ وہاں سے انتقال اورکوچ ہوگا۔ کوئی جنت میں جائے یا جہنم میں، دونوں کی زندگیاں ابدی ہوں گی۔ ایک راحت اور آرام کی زندگی۔ دوسری، شقاوت اور عذاب کی زندگی. موت اہل جنت کو آئے گی نہ اہل جہنم کو۔
____________________
* یعنی برائی کی مثل ہی جزاہو گی، زیادہ نہیں۔ اوراس کے مطابق ہی عذاب ہوگا۔ جو عدل وانصاف کا آئینہ دار ہوگا۔
**- یعنی وہ جو ایمان دار بھی ہوں گے اور اعمال صالحہ کے پابند بھی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اعمال صالحہ کے بغیر محض ایمان یا ایمان کے بغیر اعمال صالحہ کی حیثیت اللہ کےہاں کچھ نہیں ہوگی، عنداللہ کامیابی کے لیے ایمان کے ساتھ عمل صالح اور عمل صالح کے ساتھ ایمان ضروری ہے۔
***- یعنی بغیر اندازے اور حساب کے نعمتیں ملیں گی اور ان کے ختم ہونے کابﮭی کوئی اندیشہ نہیں ہوگا۔
____________________
* اور وہ یہ کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو جس کاکوئی شریک نہیں ہے اوراس کے اس رسول کی تصدیق کرو، جو اس نے تمہاری ہدایت اور رہنمائی کے لیے بھیجا ہے۔
**- یعنی توحید کے بجائے شرک کی دعوت دے رہے ہو جو انسان کو جہنم میں لےجانے والا ہے، جیساکہ اگلی آیت میں وضاحت ہے۔
____________________
* عَزِيزٌ (غالب) جوکافروں سے انتقام لینے اور ان کو عذاب دینے پر قادر ہے۔ غَفَّارٌ اپنے ماننے والوں کی غلطیوں، کوتاہیوں کو معاف کر دینے والا اور ان کی پردہ پوشی کرنے والا۔ جب کہ تم جن کی عبادت کرنے کی طرف مجھے بلا رہے ہو، وہ بالکل حقیر اور کم تر چیزیں ہیں، نہ وہ سن سکتی ہیں نہ جواب دے سکتی ہیں، کسی کو نفع پہنچانے پرقادر ہیں نہ نقصان پہنچانے پر۔
____________________
* لا جَرَمَ یہ بات یقینی ہے، یا اس میں جھوٹ نہیں ہے۔
**- یعنی وہ کسی کی پکار سننے کی استعداد ہی نہیں رکھتے کہ کسی کونفع پہنچا سکیں یا الوہیت کا استحقاق انہیں حاصل ہو۔ اس کا تقریباً وہی مفہوم ہے جو اس آیت اور اس جیسی دیگر متعدد آیات میں بیان کیا گیا ہے، وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ (الأحقاف: 5) إِنْ تَدْعُوهُمْ لا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ (فاطر: 14) اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر بالفرض سن بھی لیں تو قبول نہیں کر سکتے۔
***- یعنی آخرت میں ہی وہ پکار سن کر کسی کو عذاب سے چھڑانے پر یا شفاعت ہی کرنے پر قادر ہوں؟ یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ ایسی چیزیں بھلا اس لائق ہو سکتی ہیں کہ وہ معبود بنیں اور ان کی عبادت کی جائے؟
****- جہاں ہر ایک کا حساب ہوگا اور عمل کے مطابق اچھی یا بری جزا دی جائےگی۔
*****- یعنی کافر و مشرک، جو اللہ کی نافرمانی میں ہرحد سے تجاوز کر جاتے ہیں، اس طرح جو بہت زیادہ گناہ گار مسلمان ہوں گے، جن کی نافرمانیاں اسراف کی حد تک پہنچی ہوئی ہوں گی، انہیں بھی کچھ عرصہ جہنم کی سزا بھگتنی ہوگی۔ تاہم بعدمیں شفاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا اللہ کی مشیت سے ان کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائےگا۔
____________________
* عنقریب وہ وقت آئے گا جب میری باتوں کی صداقت، اور جن باتوں سےروکتا تھا، ان کی شناعت تم پر واضح ہو جائےگی، پھر تم ندامت کا اظہار کرو گے، مگر وہ وقت ایسا ہوگا کہ ندامت بھی کوئی فائدہ نہیں دےگی۔
**- یعنی اسی پر بھروسہ کرتا اور اسی سے ہر وقت استعانت کرتا ہوں اور تم سے بیزاری اور قطع تعلق کا اعلان کرتاہوں۔
***- وہ انہیں دیکھ رہا ہے۔ پس وہ مستحق ہدایت کو ہدایت سے نوازتا اور ضلالت کا استحقاق رکھنے والے کو ضلالت سے ہمکنار کرتا ہے۔ ان امور میں جو حکمتیں ہیں، ان کو وہی خوب جانتا ہے۔
____________________
* یعنی اس کی قوم قبط نے اس مومن کے اظہارکی وجہ سے اس کےخلاف جو تدبیریں اور سازشیں سوچ رکھی تھیں، ان سب کو ناکام بنا دیا اور اسے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے ساتھ نجات دے دی۔ اور آخرت میں اس کاگﮭر جنت ہوگا۔
**- یعنی دنیا میں انہیں سمندر میں غرق کر دیا گیا اور آخرت میں ان کےلیے جہنم کا سخت ترین عذاب ہے۔
____________________
* اس آگ پر برزخ میں یعنی قبروں میں وہ لوگ روزانہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں، جس سے عذاب قبرکا اثبات ہوتا ہے۔ جس کا بعض لوگ انکار کرتےہیں۔ احادیث میں تو بڑی وضاحت سے عذاب قبرپرروشنی ڈالی گئی ہے۔ مثلاً حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کے سوال کےجواب میں نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ (صحيح بخاري، كتاب الجنائز، باب ما جاء في عذاب القبر) ہاں قبر کا عذاب حق ہے اسی طرح ایک اور حدیث میں فرمایا گیا جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو (قبر میں) اس پر صبح و شام اس کی جگہ پیش کی جاتی ہے یعنی اگر وہ جنتی ہے تو جنت اور جہنمی ہے تو جہنم اس کے سامنےپیش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ تیری اصل جگہ ہے، جہاں قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تجھے بھیجے گا۔ (صحيح بخاري، باب الميت يعرض عليه مقعده بالغداة والعشي - مسلم، كتاب الجنة، باب عرض مقعد الميت) اس کا مطلب ہے کہ منکرین عذاب قبر قرآن و حدیث دونوں کی صراحتوں کو تسلیم نہیں کرتے۔
**- اس سے بالکل واضح ہے کہ عرض علی النار کا معاملہ، جو صبح و شام ہوتا ہے، قیامت سے پہلے کا ہے اور قیامت سے پہلے برزخ اور قبر ہی کی زندگی ہے۔ قیامت والے دن ان کو قبر سے نکال کر سخت ترین عذاب یعنی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ آل فرعون سےمراد فرعون، اس کی قوم اور اس کےسارے پیروکار ہیں۔ یہ کہناکہ ہمیں تو قبر میں مردہ آرام سے پڑا نظر آتا ہے، اسے اگر عذاب ہو تو اس طرح نظر نہ آئے لغو ہے کیونکہ عذاب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ہمیں نظر بھی آئے۔ اللہ تعالیٰ ہرطرح عذاب دینےپر قادر ہے۔ کیا ہم دیکھتے نہیں کہ خواب میں ایک شخص نہایت المناک مناظر دیکھ کر سخت کرب و اذیت محسوس کرتا ہے لیکن دیکھنے والوں کوذرا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ خوابیدہ شخص شدید تکلیف سے دوچار ہے۔ اس کے باوجود عذاب قبرکا انکار، محض ہٹ دھرمی اور بے جا تحکم ہے۔ بلکہ بیداری میں بھی انسان کو جو تکالیف ہوتی ہیں وہ خود ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ صرف انسان کا تڑپنا اور تلملانا ظاہرہوتا ہے۔ اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ وہ تڑپے اور تلملائے۔
____________________
* ہم ایسےلوگوں کےحق میں اس سے کیوں کر کچھ کہہ سکتے یں جن کے پاس اللہ کے پیغمبر دلائل و معجزات لےکر آئے لیکن انہوں نے پروا نہیں کی؟
**- یعنی بالآخروہ تو خود ہی اللہ سے فریادکریں گے لیکن اس فریاد کی وہاں شنوائی نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ دنیا میں ان پر حجت تمام کی جاچکی تھی۔ اب آخرت تو، ایمان، توبہ اور عمل کی جگہ نہیں، وہ تو دارالجزا ہے، دنیا میں جو کچھ کیا ہوگا، اس کا نتیجہ وہاں بھگتنا ہوگا۔
____________________
* یعنی ان کےدشمن کو ذلیل اور ان کو غالب کریں گے۔ بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ بعض نبی قتل کردیئے گئے، جیسے حضرت یحیٰی و زکریا علیہما السلام وغیر ھما ا ور بعض ہجرت پر مجبور ہو گئے، جیسے ابراہیم (عليه السلام) اور ہمارے پیغمبر ﹲ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین، وعدہ امداد کے باوجود ایسا کیوں ہوا؟ دراصل وہ وعدہ غالب حالات اور اکثریت کے اعتبار سے ہے، اس لیے بعض حالتوں میں اور بعض اشخاص پر کافروں کا غلبہ اس کے منافی نہیں۔ یا مطلب یہ ہے کہ عارضی طور پر بعض دفعہ اللہ کی حکمت و مشیت کے تحت کافروں کو غلبہ عطا فرما دیا جاتا ہے۔ لیکن بالآخر اہل ایمان ہی غالب اور سرخ رو ہوتے ہیں۔ جیسے حضرت یحیٰی و زکریا علیہما السلام کے قاتلین پر بعد میں اللہ تعالی نے ان کے دشمنوں کو مسلط فرما دیا، جنہوں نے ان کے خون سے اپنی پیاس بجھائی اور انہیں ذلیل و خوار کیا، جن یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو سولی دےکر مارنا چاہا، اللہ نے ان یہودیوں پر رومیوں کو ایسا غلبہ دیا کہ انھوں نے یہودیوں کوخوب ذلت کا عذاب چکھایا۔ پیغمبر اسلام ﹲ اور ان کے رفقا یقیناً ہجرت پرمجبور ہوئے لیکن اس کےبعد جنگ بدر، احد، احزاب، غزوۂ خیبراور پھر فتح مکہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے جس طرح مسلمانوں کی مدد فرمائی اور اپنے پیغمبر اور اہل ایمان کو جس طرح غلبہ عطا فرمایا، اس کے بعد اللہ کی مدد کرنےمیں کیا شبہ رہ جاتا ہے؟ (ابن کثیر)۔
**- أَشْهَادٌ، شَهِيدٌ (گواہ) کی جمع ہے۔ جیسے شریف کی جمع اشراف ہے۔ قیامت والے دن فرشتے اور انبیا علہیم السلام گواہی دیں گے۔ یا فرشتے اس بات کی گواہی دیں گے کہ یااللہ پیغمبروں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا لیکن ان کی امتوں نے ان کی تکذیب کی۔ علاوہ ازیں امت محمدیہ اور نبی کریم ﹲ بھی گواہی دیں گے۔ جیساکہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے۔ اس لیے قیامت کو گواہوں کےکھڑا ہونے کاﺩن کہا گیاہے۔ اس دن اہل ایمان کی مدد کرنے کامطلب ہے ان کو ان کے اچھے اعمال کی جزا دی جائے گی اور انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔
____________________
* یعنی اللہ کی رحمت سے دوری اور پھٹکار۔ اورمعذرت کا فائدہ اس لیے نہیں ہوگا کہ وہ معذرت کی جگہ نہیں، اس لیے یہ معذرت، معذرت باطلہ ہوگی۔
____________________
* یعنی نبوت اور تورات عطاکی۔ جیسےفرمایا، «إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ» (المائدة: 44)۔
**- یعنی تورات، حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے بعد بھی باقی رہی، جس کے نسلاً بعد نسل وہ وارث ہوتے رہے۔ یا کتاب سےمراد وہ تمام کتابیں ہیں جو انبیائے بنی اسرائیل پر نازل ہوئیں، ان سب کتابوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنایا۔
____________________
* هُدًى وَذِكْرَى مصدر ہیں اور حال کی جگہ واقع ہیں، اس لیے منصوب ہیں۔ بمعنی هَادٍ اور مُذَكِّرٍ ہدایت دینےوالی اور نصیحت کرنے والی۔ عقل مندوں سےمراد عقل سلیم کے مالک ہیں۔ کیونکہ وہی آسمانی کتابوں سے فائدہ اٹھاتےاور ہدایت و نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ تو گدھوں کی طرح ہیں جن کتابوں کا بوجھ تو لدا ہوتا ہے لیکن وہ اس سے بےخبر ہوتے ہیں کہ ان کتابوں میں کیا ہے؟
____________________
* گناہ سے مراد وہ چھوٹی چھوٹی لغزشیں ہیں، جو بہ تقاضائے بشریت سرزد ہوجاتی ہیں۔ جن کی اصلاح بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کر دی جاتی ہے۔ یا استغفار بھی ایک عبادت ہی ہے۔ اجر وثواب کی زیادتی کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا ہے، یا مقصد امت کی رہنمائی ہے کہ وہ استغفار سے بےنیاز نہ ہوں۔
**- عَشِيٌّ سے، دن کا آخری اور رات کا ابتدائی حصہ اور أَبْكَارٌ سے رات کا آخری اور دن کا ابتدائی حصہ مراد ہے۔
____________________
* یعنی وہ لوگ جو بغیر آسمانی دلیل کے بحث و حجت کرتے ہیں، یہ محض تکبر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں، تاہم اس سے جو ان کامﻘﺼﺪ ہے کہ حق کمزور اور باطل مضبوط ہو، وہ ان کو حاصل نہیں ہوگا۔
____________________
* یعنی پھر یہ کیوں اس بات سے انکار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا؟ جب کہ یہ کام آسمان و زمین کی تخلیق سے بہت آسان ہے۔
____________________
* مطلب ہے جس طرح بینا اور نابینا برابر نہیں، اسی طرح مومن و کافر اور نیکوکار اور بدکار برابر نہیں، بلکہ قیامت کے دن ان کے درمیان جو عظیم فرق ہوگا، وہ بالکل واضح ہو کر سامنے آئے گا۔
____________________
* گزشتہ آیت میں جب اللہ نے وقوع قیامت کا تذکرہ فرمایا، تو اب اس آیت میں ایسی رہنمائی دی جارہی ہے، جسے اختیار کر کے انسان آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہو سکے۔ اس آیت میں دعا سے اکثر مفسرین نے عبادت مراد لی ہے۔ یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ جیسا کہ حدیث میں بھی دعا کو عبادت بلکہ عبادت کامﻐﺰ قرار دیا گیا ہے۔ الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ اور الدَّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ (مسند أحمد 4/271 مشكاة الدعوات) علاوہ ازیں اس کے بعد يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي کے الفاظ سے بھی واضح ہے کہ مراد عبادت ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ دعا سے مراد دعا ہی ہے یعنی اللہ سے جلب نفع اور دفع ضرر کا سوال کرنا، کیونکہ دعا کے شرعی اورحقیقی معنی مطلب کرنے کے ہیں، دوسرےمفہوم میں اس کا استعمال مجازی ہے علاوہ ازیں دعا بھی اپنے حقیقی معنی کی اعتبار سے اور حدیث مذکور کی رو سے بھی عبادت ہی ہے، کیونکہ مافوق الاسباب طریقے سےکسی سے کوئی چیز مانگنا اور اس سے سوال کرنا، یہ اس کی عبادت ہی ہے۔ (فتح القدیر) مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو طلب حاجات اور مدد کے لیے پکارنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس طرح مافو ق الاسباب طریقے سے کسی کو حاجت روائی کے لیے پکارنا اس کی عبادت ہے اور عبادت اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں۔
**- یہ اللہ کی عبادت سے انکار و اعراض یا اس میں دوسروں کو بھی شریک کرنے والوں کا انجام ہے۔
____________________
* یعنی رات کو تاریک بنایا، تاکہ کاروبار زندگی معطل ہو جائیں اور لوگ امن و سکون سے سو سکیں۔
**- یعنی روشن بنایا تاکہ معاشی محنت اور تگ و دو میں تکلیف نہ ہو۔
***- اللہ کی نعمتوں کا، اور نہ ان کا اعتراف ہی کرتے ہیں۔ یا تو کفر وجحود کی وجہ سے، جیساکہ کافروں کا شیوہ ہے۔ یا منعم کے واجبات شکر سے اہمال و غفلت کی وجہ سے جیسا کہ جاہلوں کا شعار ہے۔
____________________
* یعنی پھر تم اس کی عبادت سے کیوں بدکتےہو اور اس کی توحید سے کیوں پھرتے اور اینٹھتے ہو۔
____________________
* آگے نعمتوں کی کچھ قسمیں بیان کی جارہی ہیں تاکہ اللہ کی قدرت کاملہ بھی واضح ہو جائے اور اس کا بلاشرکت غیرے معبود ہونا بھی۔
**- جس میں تم رہتے ہو، چلتے پھرتے، کاروبار کرتے اور زندگی گزارتے ہو، پھر بالآخر موت سے ہمکنار ہو کر قیامت تک کے لیے اسی میں آسودۂ خواب رہتے ہو۔
***- یعنی قائم اور ثابت رہنے والی چھت۔ اگر اس کے گرنے کا اندیشہ رہتا توکوئی شخص آرام کی نیند سو سکتا تھا نہ کسی کے لیے کاروبار حیات کرنا ممکن ہوتا۔
****- جتنے بھی روئے زمین پر حیوانات ہیں، ان سب میں (تم) انسانوں کو سب سے زیادہ خوش شکل اور متناسب الأعضا بنایا ہے۔
*****- یعنی اقسام و انواع کے کھانے تمہارے لیے مہیا کیے، جو لذیذ بھی ہیں اور قوت بخش بھی۔
____________________
* یعنی جب سب کچھ کرنے والا اور دینے والا وہی ہے۔ دوسرا کوئی، بنانے میں شریک ہے نہ اختیارات میں۔ تو پھر عبادت کامﺴتﺤﻖ بھی صرف ایک اللہ ہی ہے، دوسرا کوئی اس میں شریک نہیں ہو سکتا۔ استمداد واستغاثہ بھی اسی سے کرو کہ و ہی سب کی فریادیں اور التجائیں سننے پر قادر ہے۔ دوسرا کوئی بھی مافوق الاسباب طریقے سے کسی کی بات سننے پر قادر ہی نہیں ہے، جب یہ بات ہے تو دوسرے مشکل کشائی اور حاجت روائی کس طرح کرسکتے ہیں؟
____________________
* چاہے وہ پتھر کی مورتیاں ہوں، انبیاء علہیم السلام اور صلحاء ہوں اور قبروں میں مدفون اشخاص ہوں. مدد کے لیے کسی کو مت پکارو، ان کے ناموں کی نذر نیاز مت دو، ان کےوردنہ کرو، ان سے خوف مت کھاؤ اور ان سے امیدیں وابستہ نہ کرو۔ کیونکہ یہ سب عبادت کی قسمیں ہیں جو صرف ایک اللہ کا حق ہے۔
**- یہ وہی عقلی اور نقلی دلائل ہیں جن سے اللہ کی توحید یعنی اللہ کے واحد الہٰ اور رب ہونے کا اثبات ہوتا ہے، جو قرآن میں جا بجا ذکر کیے گئے ہیں اسلام کے معنی ہیں اطاعت و انقیاد کے لیے جھک جانا، سر اطاعت خم کر دینا۔ یعنی اللہ کے احکام کے سامنے جھک جاؤں، ان سے سرتابی نہ کروں۔ آگے پھر توحید کے کچھ دلائل بیان کیے جارہے ہیں۔
____________________
* یعنی تمہارے باپ آدم (عليه السلام) کو مٹی سے بنایا جو ان کی تمام اولاد کے مٹی سے پیدا ہونے کو مستلزم ہے۔ پھر اس کے بعد نسل انسانی کے تسلسل اور اس کی بقا و تحفظ کے لیے انسانی تخلیق کو نطفے سےوابستہ کردیا۔ اب ہر انسان اس نطفے سے پیدا ہوتا ہے۔ جو صلب پدر سے رحم مادر میں جا کر قرار پکڑتا ہے۔ سوائے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے، کہ ان کی پیدائش معجزانہ طور پر بغیر باپ کے ہوئی۔ جیساکہ قرآن کریم کی بیان کردہ تفصیلات سے واضح ہے اور جس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔
**- یعنی ان تمام کیفیتوں اور اطوار سے گزارنے والا وہی اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔
***- یعنی رحم مادر میں مختلف ادوار سے گزر کر باہر آنے سے پہلے ہی ماں کے پیٹ میں، بعض بچپن میں، بعض جوانی میں اور بعض بڑھاپے سے قبل کہولت میں فوت ہو جاتے ہیں۔
****- یعنی اللہ تعالیٰ یہ اس لیے کرتا ہے تاکہ جس کی جتنی عمر اللہ نے لکھ دی ہے، وہ اس کو پہنچ جائے اور اتنی زندگی دنیا میں گزار لے۔
____________________
* زندہ کرنا اور مارنا، اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ ایک بےجان نطفے کو مختلف اطوار سے گزار کر ایک زندہ انسان کے روپ میں ڈھال دیتا ہے۔ اور پھر ایک وقت مقرر کے بعد اس زندہ انسان کو مار کر موت کی وادیوں میں سلا دیتا ہے۔
**- اس کی قدرت کا یہ حال ہے کہ اس کےلفظ كن (ہوجا) سے وہ چیز معرض وجود میں آجاتی ہے، جس کا وہ ارادہ کرے۔
____________________
* انکار و تکذیب کے لیے یا اس کے رد وابطال کے لیے۔
**- یعنی ظہور دلائل اور وضوح حق کے باوجود وہ کسی طرح حق کو نہیں مانتے۔ یہ تعجب کا اظہار ہے۔
____________________
* یہ وہ نقشہ ہے جو جہنم میں ان مکذبین کا ہوگا۔
____________________
* مجاہد اور مقاتل کا قول ہے کہ ان کے ذریعے سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی، یعنی یہ لوگ اس کا ایندھن بنے ہوں گے۔
____________________
* کیا وہ آج تمہاری مدد کر سکتے ہیں؟
**- یعنی پتہ نہیں، کہاں چلے گئےہیں، وہ ہماری مددکیا کریں گے؟
***- اقرار کرنے کے بعد، پھر ان کی عبادت کا ہی انکار کردیں گے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ (الأنعام:23) ”اللہ کی قسم! ہم تو کسی کی شریک ٹھہراتے ہی نہیں تھے“۔ کہتے ہیں کہ یہ بتوں کے وجود اور ان کی عبادت کا انکار نہیں ہے بلکہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کی عبادت باطل تھی کیونکہ وہاں ان پر واضح ہوجائے گا کہ وہ ایسی چیزوں کی عبادت کرتے رہے جو سن سکتی تھیں، نہ دیکھ سکتی تھیں اور نقصان پہنچا سکتی تھیں نہ نفع۔ (فتح القدیر) اور اس کا دوسرا معنی واضح ہے اور یہ کہ وہ شرک کا سرے سے انکار ہی کریں گے۔
****- یعنی ان مکذبین ہی کی طرح، اللہ تعالیٰ کافروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مسلسل تکذیب اور کفر، یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن سے انسانوں کےدل سیاہ اور زنگ آلودہ ہو جاتےہیں اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے قبول حق کی توفیق سےمحروم ہو جاتے ہیں۔
____________________
* یعنی تمہاری یہ گمراہی اس بات کا نتیجہ ہے کہ تم کفر و تکذیب اور فسق وفجور میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ ان پر تم خوش ہوتے اور اتراتے تھے۔ اترانے میں مزید خوشی کا اظہار ہے جو تکبر کو مستلزم ہے۔
____________________
* یہ جہنم پر مقرر فرشتے، اہل جہنم کو کہیں گے.
____________________
* کہ ہم کافروں سے انتقام لیں گے۔ یہ وعدہ جلدی بھی پورا ہو سکتا ہے یعنی دنیا میں ہی ہم ان کی گرفت کرلیں یا حسب مشیت الٰہی تاخیر بھی ہو سکتی ہے، یعنی قیامت والے دن ہم انہیں سزا دیں۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ یہ اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتے۔
**- یعنی آپ کی زندگی میں ان کو مبتلائے عذاب کر دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اللہ نے کافروں سے انتقام لے کر مسلمانوں کی آنکھوں کوٹھنڈا کیا، جنگ بدرمیں ستر کافر مارے گئے، 8 ہجری میں مکہ فتح ہو گیا اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی پورا جزیرۂ عرب مسلمانوں کے زیر نگیں آ گیا۔
***- یعنی اگر کافر دنیوی مواخذہ و عذاب سے بچ بھی گئے تو آخر جائیں گے کہاں؟ آخر میرے پاس ہی آئینگے، جہاں ان کے لیے سخت عذاب تیار ہے۔
____________________
* اور یہ تعداد میں، بہ نسبت ان کے جن کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ بہت زیادہ ہیں۔ اس لیے کہ قرآن کریم میں تو صرف 25، انبیا ورسل کا ذکر اور ان کی قوموں کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔
**- آیت سے مراد یہاں معجزہ اور خرق عادت واقعہ ہے، جو پیغمبر کی صداقت پر دلالت کرے۔ کفار، پیغمبروں سے مطالبے کرتے رہے کہ ہمیں فلاں فلاں چیز دکھاؤ، جیسے خود نبی کریم ﹲ سےکفار مکہ نے کئی چیزوں کا مطالبہ کیا، جس کی تفصیل سورۂ بنی اسرائیل 90- 93 میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ کسی پیغمبر کے اختیار میں یہ نہیں تھا۔ کہ وہ اپنی قوموں کے مطالبے پر ان کوکوئی معجزہ صادر کر کے دکھلا دے۔ یہ صرف ہمارے اختیار میں تھا، بعض نبیوں کو تو ابتدا ہی سے معجزے دے دیے گئے تھے۔ بعض قوموں کو ان کے مطالبے پرمعجزہ دکھلاگیا گیا اور بعض کو مطالبے کے باوجود نہیں دکھلایا گیا۔ ہماری مشیت کے مطابق اس کا فیصلہ ہوتا تھا۔ کسی نبی کے ہاتھ میں یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ جب چاہتا، معجزہ صادر کر کے دکھلا دیتا۔ اس سے ان لوگوں کی واضح تردید ہوتی ہے، جو بعض اولیا کی طرف یہ باتیں منسوب کرتےہیں کہ وہ جب چاہتے ہیں اور جس طرح چاہتے، خرق عادت امور (کرامات) کا اظہار کر دیتے تھے۔ جیسے شیخ عبدالقادر جیلانی کے لیے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ سب من گھڑت قصے کہانیاں ہیں، جب اللہ نے پیغمبروں کو یہ اختیار نہیں دیا، جن کو اپنی صداقت کے ثبوت کےلیے، اس کی ضرورت بھی تھی تو کسی ولی کو یہ اختیار کیونکرمل سکتا ہے؟ بالخصوص جب کہ ولی کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے، اس لیے معجزہ ان کی ضرورت تھی۔ لیکن اللہ کی حکمت و مشیت اس کی مقتضی نہ تھی، اس لیے یہ قوت کسی نبی کو نہیں دی گئی۔ ولی کی ولایت پر ایمان رکھنا ضروری نہیں ہے، اس لیے انہیں معجزے اور کرامات کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ یہ اختیار بلا ضرورت کیوں عطا کر سکتا ہے؟
***- یعنی دنیا یا آخرت میں جب ان کے عذاب کا وقت معین آ جائے گا۔
****- یعنی ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اہل حق کو نجات اور اہل باطل کو عذاب۔
____________________
* اللہ تعالیٰ اپنی ان گنت نعمتوں میں سےبعض نعمتوں کا تذکرہ فرما رہا ہے چوپائے سے مراد اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ ہے، یہ نر، مادہ مل کر آٹھ ہیں جیساکہ سورۃ الانعام: 143- 144 میں ہے۔
**- یہ سواری کےکام میں بھی آتےہیں، ان کادودھ بھی پیا جاتا ہے، (جیسے بکری، گائے اور اوٹنی کا دودھ) ان کا گوشت انسان کی مرغوب ترین غذا ہے اور باربرادری کا کام بھی ان سے لیا جاتا ہے۔
____________________
* جیسے ان سب کے اون اور بالوں سے اور ان کی کھالوں سے کئی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ ان کے دودھ سے گھی، مکھن، پنیر وغیرہ بھی بنتی ہیں۔
**- ان سے مراد بچے اور عورتیں ہیں جنہیں ہودج سمیت اونٹ وغیرہ پر بٹھا دیا جاتا تھا۔
____________________
* جو اس کی قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ نشانیاں آفاق میں ہی نہیں تمہارے نفسوں کے اندر بھی ہیں۔
**- یعنی یہ اتنی واضح، عام اور کثیر ہیں جن کا کوئی منکر انکار کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ یہ استہفام انکار کے لیے ہے۔
____________________
* یعنی جن قوموں نے اللہ کی نافرمانی اور اس کے رسولوں کی تکذیب کی، یہ ان کی بستیوں کے آثار اور کھنڈرات تو دیکھیں جو ان کے علاقوں میں ہی ہیں کہ ان کا کیا انجام ہوا؟
**- یعنی عمارتوں، کارخانوں اور کھیتیوں کی شکل میں، ان کے کھنڈرات واضح کرتے ہیں کہ وہ کاریگری کےمیدان میں بھی تم سے بڑھ کر تھے۔
***- فَمَا أَغْنَى میں مَا استفہامیہ بھی ہو سکتا ہے اور نافیہ بھی۔ نافیہ کامﻔہوم تو ترجمے سے واضح ہے۔ کہ استفہامیہ کی رو سے مطلب ہوگا۔ ان کوکیا فائدہ پہنچایا؟ مطلب وہی ہے کہ ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہیں آئی۔
____________________
* علم سے مراد ان کے خود ساختہ مزعومات، توہمات، شبہات اور باطل دعوے ہیں۔ انہیں علم سے بطور استہزا تعبیر فرمایا وہ چونکہ انہیں علمی دلائل سمجھتے تھے، ان کے خیال کے مطابق ایسا کہا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی باتوں کے مقابلے میں یہ اپنے مزعومات و توہمات پر اتراتے اورفخر کرتے رہے۔ یا علم سےمراد دنیوی باتوں کا علم ہے، یہ احکام و فرائض الٰہی کے مقابلے میں انہی کو ترجیح دیتے رہے۔
____________________
* یعنی اللہ کا یہ معمول چلا آرہا ہے کہ عذاب دیکھنے کےبعد توبہ اور ایمان مقبول نہیں۔ یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان ہوا ہے۔
**- یعنی معاینہ عذاب کے بعد ان پر واضح ہو گیا کہ اب سوائے خسارے اور ہلاکت کے ہمارے مقدر میں کچھ نہیں۔