ﰡ
____________________
* اس کا مطلب ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہ کرو نہ اپنی سمجھ اور رائے کو ترجیح دو، بلکہ اللہ اور رسول ﹲ کی اطاعت کرو۔ اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بدعات کی ایجاد، اللہ اور رسول ﹲ سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہےجو کسی بھی صاحب ایمان کے لائق نہیں۔ اسی طرح کوئی فتویٰ، قرآن وحدیث میں غور وفکر کے بغیر نہ دیا جائے اور دینے کے بعد اگر اس کا نص شرعی کے خلاف ہونا واضح ہو جائے تو اس پر اصرار بھی اس آیت میں دیئے گئے حکم کے منافی ہے۔ مومن کی شان تو اللہ ورسول ﹲ کے احکام کے سامنے سرتسلیم واطاعت خم کر دینا ہے نہ کہ ان کے مقابلے میں اپنی بات پر یا کسی امام کی رائے پر اڑے رہنا۔
____________________
* اس میں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے لئے اس ادب وتعظیم اور احترام وتکریم کا بیان ہے جو ہر مسلمان سے مطلوب ہے، پہلا ادب یہ ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی موجودگی میں جب تم آپس میں گفتگو کرو تو تمہاری آوازیں نبی (صلى الله عليه وسلم) کی آواز سے بلند نہ ہو۔ دوسرا ادب، جب خود نبی(صلى الله عليه وسلم) سے کلام کرو تو نہایت وقار اور سکون سےکرو، اس طرح اونچی اونچی آواز سے نہ کرو جس طرح تم آپس میں بےتکلفی سےایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو۔ بعض نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا محمد، یا احمد نہ کہو بلکہ ادب سے یا رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کہہ کر خطاب کرو اگر ادب واحترام کے ان تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھو گے تو بےادبی کا احتمال ہے جس سے بے شعوری میں تمہارے عمل برباد ہو سکتے ہیں اس آیت کی شان نزول کے لئے دیکھئے صحیح بخاری، تفسیر سورۃ الحجرات، تاہم حکم کے اعتبار سے یہ عام ہے
____________________
* اس میں ان لوگوں کی تعریف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وجلالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی آوازیں پست رکھتے تھے۔
____________________
* یہ آیت قبیلہ بنو تمیم کے بعض اعرابیوں (گنوار قسم کے لوگوں) کے بارے میں نازل ہوئی، جنہوں نے ایک روز دوپہر کےوقت، جو کہ نبی ﹲ (صلى الله عليه وسلم) کےقیلولے کا وقت تھا، حجرے سےباہر کھڑے ہو کر عامیانہ انداز سے یا محمد یا محمد کی آوازیں لگائیں تاکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) باہر تشریف لے ائیں۔ (مسند احمد3 / 488۔ 6 / 394) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ان کی اکثریت بے عقل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی جلالت شان اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کےادب واحترام کے تقاضوں کا خیال نہ رکھنا، بے عقلی ہے۔
____________________
* یعنی آپ ﹲ کے نکلنے کا انتظار کرتے اور آپ ﹲ کو ندا دینے میں جلد بازی نہ کرتے تو دین ودنیا دونوں لحاظ سے بہتر ہوتا۔
**- اس لئے مواخذہ نہیں فرمایا بلکہ آئندہ کے لئے ادب وتعظیم کی تاکید فرما دی۔
____________________
* یہ آیت اکثر مفسرین کےنزدیک حضرت ولید بن عقبہ (رضي الله عنه) کےبارے میں نازل ہوئی ہے، جنہیں رسول اللہ ﹲ (صلى الله عليه وسلم)نے بنو المصطلق کےصدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ لیکن انہوں نے آکر یوں ہی رپورٹ دے دی کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے جس پر آپ ﹲ (صلى الله عليه وسلم) نے ان کے خلاف فوج کشی کا ارادہ فرما لیا، تاہم پھر پتہ لگ گیا کہ یہ بات غلط تھی اور ولید (رضي الله عنه) تو وہاں گئے ہی نہیں۔ لیکن سند اور امر واقعہ دونوں اعتبار سے یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ اس لئے اسے ایک صحابئ رسول (صلى الله عليه وسلم)ﹲ پر چسپاں کرنا صحیح نہیں ہے۔ تاہم شان نزول کی بحث سے قطع نظر اس میں ایک نہایت ہی اہم اصول بیان فرمایا گیا ہے جس کی انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر نہایت اہمیت ہے۔ ہر فرد اور ہر حکومت کی یہ ذمہ داری ہےکہ اس کے پاس جو بھی خبر یا اطلاع آئے بالخصوص بدکردار، فاسق اور مفسد قسم کے لوگوں کی طرف سے، تو پہلے اس کی تحقیق کی جائے تاکہ غلط فہمی میں کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہو۔
____________________
* جس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی تعظیم اور اطاعت کرو، اس لے کہ وہ تمہارے مصالح زیادہ بہتر جانتے ہیں، کیونکہ ان پر وحی اترتی ہے۔ پس تم ان کے پیچھے چلو، ان کو اپنے پیچھے چلانے کی کوشش مت کرو۔ اس لئے کہ اگر وہ تمہارے پسند کی باتیں ماننا شروع کر دیں تو اس سے تم خود ہی زیادہ مشقت میں پڑ جاؤ گے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: «وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ» (المؤمنون: 71)۔
____________________
* یہ آیت بھی صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کی فضیلت، ان کے ایمان اور ان کے رشد وہدایت پر ہونے کی واضح دلیل ہے۔ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ۔
____________________
* اور اس صلح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں قرآن وحدیث کی طرف بلایا جائے یعنی ان کی روشنی میں ان کےاختلاف کا حل تلاش کیا جائے۔
**- یعنی اللہ اور رسول ﹲ کے احکام کے مطابق اپنا اختلاف دور کرنے پر آمادہ نہ ہو، بلکہ بغاوت کی روش اختیار کرے تو دوسرے مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ سب مل کر بغاوت کرنےوالے گروہ سے لڑائی کریں تا آنکہ وہ اللہ کے حکم کو ماننے کے لئے تیار ہو جائے۔
***- یعنی باغی گروہ، بغاوت سے باز اجائے تو پھر عدل کے ساتھ یعنی قرآن وحدیث کی روشنی میں دونوں گروہوں کے درمیان صلح کرا دی جائے۔
****- اور ہر معاملے میں انصاف کرو، اس لئےکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے اور اس کی یہ پسند اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ انصاف کرنے والوں کو بہترین جزا سے نوازے گا۔
____________________
* یہ پچھلے حکم کی ہی تاکید ہے۔ یعنی جب مومن سب آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو ان سب کی اصل ایمان ہوئی۔ اس لئے اس اصل کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایک ہی دین پر ایمان رکھنے والے آپس میں نہ لڑیں بلکہ ایک دوسرےکے دست وبازو، ہمدرد وغم گسار اور مونس وخیر خواہ بن کر رہیں۔ اور کبھی غلط فہمی سے ان کے درمیان بعد اور نفرت پیدا ہو جائے تو اسے دور کرکے انہیں آپس میں دوبارہ جوڑ دیا جائے۔ (مزید دیکھئے سورۂ توبہ، آیت 71 کا حاشیہ)۔
**- اور ہر معاملے میں اللہ سے ڈرو، شاید اس کی وجہ سے تم اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پا جاؤ۔ ترجی (امید والی بات) مخاطب کے اعتبار سے ہے۔ ورنہ اللہ کی رحمت تو اہل ایمان وتقوی کے لئےیقینی ہے۔
اس آیت میں باغی گروہ سے قتال کا حکم ہے دراں حالیکہ حدیث میں مسلمان سے قتال کو کفر کہا گیا ہے۔ تو یہ کفر اس وقت ہوگا جب بلا وجہ مسلمان سے قتال کیا جائے۔ لیکن اس قتال کی بنیاد اگر بغاوت ہے تو یہ قتال نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کا حکم دیا گیا ہے جو تاکید واستحباب پر ڈال ہے۔ اسی طرح باغی گروہ کو قرآن نے مومن ہی قرار دیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف بغاوت سے، جو کبیرہ گناہ ہے، وہ گروہ ایمان سے خارج نہیں ہوگا۔ جیسا کہ خوارج اوربعض معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ مرتکب کبائر ایمان سے خارج ہو جاتا ہے۔ اب بعض نہایت اہم اخلاقی ہدایت مسلمانوں کو دی جارہی ہیں۔
____________________
* ایک شخص، دوسرے کسی شخص کا استہزا یعنی اس سے مسخرا پن اسی وقت کرتا ہے، جب وہ اپنے کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے۔ حالانکہ اللہ کے ہاں ایمان وعمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور کون نہیں؟ اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ اس لئے اپنےکوبہتر اور دوسرےکو کم تر سمجھنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ بنابریں آیت میں اس سے منع فرما دیا گیا ہے اور کہتے ہیں کہ عورتوں میں یہ اخلاقی بیماری زیادہ ہوتی ہے، اس لئے عورتوں کا الگ ذکر کرکے انہیں بھی بطور خاص اس سے روک دیا گیا ہے۔ اور حدیث رسول (صلى الله عليه وسلم) میں لوگوں کے حقیر سمجھنے کو کبر سے تعبیر کیا گیا ہے الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وغَمْطُ النَّاسِ (أبو داود، كتاب اللباس باب ما جاء في الكبر) اور کبر اللہ کو نہایت ہی ناپسند ہے۔
**- یعنی ایک دوسرے پر طعنہ زنی مت کرو، مثلاً تو تو فلاں کا بیٹا ہے، تیری ماں ایسی ویسی ہے، تو فلاں خاندان کا ہے نا وغیرہ۔
***- یعنی اپنےطور پر استہزا اور تحقیر کے لئے لوگوں کے ایسی نام رکھ لینا جو انہیں ناپسند ہوں۔ یا اچھے بھلے ناموں کو بگاڑ کر بولنا، یہ تنابز بالا لقاب ہے، جس کی یہاں ممانعت کی گئی ہے
****- یعنی اس طرح نام بگاڑ کر یا برے نام تجویز کرکے بلانا یا قبول اسلام اور توبہ کےبعد اسے سابقہ دین یا گناہ کی طرف منسوب کرکے خطاب کرنا، مثلاً اے کافر، اے زانی یا شرابی وغیرہ، یہ بہت برا کام ہے۔ الاسْمُ یہاں الذِّكْرُ کے معنی میں ہے یعنی بِئْسَ الاسْمُ الَّذِي يُذْكَرُ بِالْفِسْقِ بَعْدَ دُخُولهِمْ فِي الإِيمَانِ (فتح القدیر) البتہ اس سے بعض وہ صفاتی نام بعض حضرات کے نزدیک مستثنیٰ ہیں جو کسی کے لئےمشہور ہو جائیں اور وہ اس پر اپنے دل میں رنج بھی محسوس نہ کریں، جیسے لنگڑے پن کی وجہ سے کسی کا نام لنگڑا پڑ جائے، کالے رنگ کی بنا پر کالیا یا کالو مشہور ہو جائے۔ وغیرہ (القرطبی)۔
____________________
* ظَنَّ کے معنی ہیں گمان کرنا۔ مطلب ہے کہ اہل خیر واہل اصلاح وتقویٰ کے بارے میں ایسے گمان رکھنا جو بےاصل ہوں اور تہمت وافترا کے ضمن میں آتے ہوں اسی لئے اس کا ترجمہ بدگمانی کیا جاتا ہے۔ اور حدیث میں اس کو أَكْذَبُ الْحَدِيثِ (سب سے بڑا جھوٹ) کہہ کر اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ (البخاري، كتاب الأدب، باب يا أيها الذين آمنوا اجتنبوا كثيرا من الظن - صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم الظن والتجسس) ورنہ فسق وفجور میں مبتلا لوگوں سے ان کے گناہوں کی وجہ سے اور ان کے گناہوں پر بدگمانی رکھنا، یہ وہ بدگمانی نہیں ہے جسے یہاں گناہ کہا گیا ہے اور اس سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے «إِنَّ الظَّنَّ الْقَبِيحَ بِمَنْ ظَاهِرُهُ الْخَيْرُ، لا يَجُوزُ، وَإِنَّهُ لا حَرَجَ فِي الظَّنِّ الْقَبِيحِ بِمَنْ ظَاهِرُه الْقَبِيحُ» (القرطبي)۔
**- یعنی اس ٹوہ میں رہنا کہ کوئی خامی یا عیب معلوم ہو جائے تاکہ اسے بدنام کیا جائے، یہ تجسس ہے جو منع ہے اور حدیث میں بھی اس سے منع کیا گیا ہے۔ بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی کی خامی، کوتاہی تمہارے علم میں اجائے تو اس کی پردہ پوشی کرو۔ نہ کہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتے پھرو، بلکہ جستجو کرکے عیب تلاش کرو۔ آج کل حریت اور آزادی کا بڑا چرچا ہے۔ اسلام نے بھی تجسس سےروک کر انسان کی حریت اور آزادی کو تسلیم کیا ہے لیکن اس وقت تک، جب تک وہ کھلے عام بےحیائی کا ارتکاب نہ کرے یا جب تک دوسروں کے لئے ایذا کا باعث نہ ہو۔ مغرب نے مطلق آزادی کا درس دے کر لوگوں کو فساد عام کی اجازت دے دی ہے جس سے معاشرے کا تمام امن وسکون برباد ہو گیا ہے
***- غیبت کا مطلب یہ ہےکہ دوسرے لوگوں کے سامنےکسی کی برائیوں اور کوتاہیوں کا ذکر کیا جائے جسے وہ برا سمجھے اور اگر اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس کے اندر موجود ہی نہیں تو وہ بہتان ہے۔ اپنی اپنی جگہ دونوں ہی بڑے جرم ہیں۔
****- یعنی کسی مسلمان بھائی کی کسی کے سامنے برائی بیان کرنا ایسے ہی ہے جیسے مردار بھائی کا گوشت کھانا۔ مردار بھائی کا گوشت کھانا تو کوئی پسند نہیں کرتا۔ لیکن غیبت لوگوں کی نہایت مرغوب غذا ہے۔
____________________
* یعنی آدم وحوا علیہما السلام سے۔ یعنی تم سب کی اصل ایک ہی ہے ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو۔ مطلب ہے کسی کو محض خاندان اور نسب کی بنا پر فخر کرنےکا حق نہیں ہے، کیونکہ سب کا نسب حضرت آدم (عليه السلام) سے ہی جا کر ملتا ہے۔
**- شُعُوبٌ، شَعْبٌ کی جمع ہے۔ برادری یا بڑا قبیلہ شعب کے بعد قبیلہ، پھر عمارہ، پھر بطن، پھر فصیلہ اور پھر عشیرہ ہے (فتح القدیر) مطلب یہ ہے کہ مختلف خاندانوں، برادریوں اور قبیلوں کی تقسیم محض تعارف کے لئے ہے۔ تاکہ آپس میں صلۂ رحمی کر سکو۔ اس کا مقصد ایک دوسرے پر برتری کا اظہار نہیں ہے۔ جیسا کہ بدقسمتی سے حسب ونسب کو برتری کی بنیاد بنالیا گیا ہے۔ حالانکہ اسلام نے آکر اسے مٹایا تھا اور اسے جاہلیت سے تعبیر کیا تھا۔
***- یعنی اللہ کے ہاں برتری کا معیار خاندان، قبیلہ اور نسل ونسب نہیں ہے جو کسی انسان کےاختیار میں ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ معیار تقویٰ ہے جس کا اختیار کرنا انسان کے ارادہ واختیار میں ہے۔ یہی آیت ان علماء کی دلیل ہے جو نکاح میں کفائت نسب کو ضروری نہیں سمجھتے اور صرف دین کی بنیاد پر نکاح کو پسند کرتے ہیں (ابن کثیر)۔
____________________
* بعض مفسرین کے نزدیک ان اعراب سے مراد بنو اسد اور خزیمہ کے منافقین ہیں جنہوں نے قحط سالی میں محض صدقات کی وصولی کے لئے یا قتل ہونے اور قیدی بننے کے اندیشے کے پیش نظر زبان سےاسلام کا اظہار کیا تھا۔ ان کے دل ایمان، اعتقاد صحیح اور خلوص نیت سے خالی تھے (فتح القدیر) لیکن امام ابن کثیر کے نزدیک ان سے وہ اعراب (بادیہ نشین) مراد ہیں جو نئے مسلمان ہوئے تھےاور ایمان ابھی ان کے اندر پوری طرح راسخ نہیں ہوا تھا۔ لیکن دعویٰ انہوں نے اپنی اصل حیثیت سے بڑھ کر ایمان کا کیا تھا۔ جس پر انہیں یہ ادب سکھایا گیا کہ پہلے مرتبےپر ہی ایمان کا دعویٰ صحیح نہیں۔ آہستہ آہستہ ترقی کے بعد تم ایمان کے مرتبے پر پہنچو گے۔
____________________
* نہ کہ وہ جو صرف زبان سے اسلام کا اظہار کردیتے ہیں اور مذکورہ اعمال کا سرے سے کوئی اہتمام ہی نہیں کرتے۔
____________________
* تعلیم، یہاں اعلام اور اخبار کے معنی میں ہے۔ یعنی آمَنَّا کہہ کر تم اللہ کو اپنے دین وایمان سے آگاہ کر رہے ہو؟ یا اپنے دلوں کی کیفیت اللہ کو بتلا رہے ہو؟
**- تو کیا تمہارے دلوں کی کیفیت پر یا تمہارے ایمان کی حقیقت سے وہ آگاہ نہیں؟
____________________
* یہی اعراب نبی (صلى الله عليه وسلم) کو کہتے کہ دیکھو ہم مسلمان ہو گئے اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کی مدد کی، جب کہ دوسرے عرب آپ (صلى الله عليه وسلم) سے برسرپیکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرماتے ہوئے فرمایا، تم اللہ پر اسلام لانے کا احسان مت جتلاؤ اس لئے کہ اگر تم اخلاص سےمسلمان ہوئے ہو تو اس کا فائدہ تمہیں ہی ہوگا، نہ کہ اللہ کو۔ اس لئے یہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں قبول اسلام کی توفیق دے دی نہ کہ تمہارا احسان اللہ پر ہے۔