ترجمة سورة الأنعام

الترجمة الأردية
ترجمة معاني سورة الأنعام باللغة الأردية من كتاب الترجمة الأردية .
من تأليف: محمد إبراهيم جوناكري .

تمام تعریفیں اللہ ہی کے ﻻئق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور نور کو بنایا* پھر بھی کافر لوگ (غیر اللہ کو) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں۔**
____________________
* ظلمات سے رات کی تاریکی اور نور سے دن کی روشنی یا کفر کی تاریکی اور ایمان کی روشنی مراد ہے۔ نور کے مقابلے میں ظلمات کو جمع ذکر کیا گیا ہے، اس لئے کہ ظلمات کے اسباب بھی بہت سے ہیں اور اس کی انواع بھی متعدد ہیں اور نور کا ذکر بطور جنس ہے جو اپنی تمام انواع کو شامل ہے۔ (فتح القدیر) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ ہدایت اور ایمان کا راستہ ایک ہی ہے، چار یا پانچ یا متعدد نہیں ہیں، اس لئے نور کو واحد ذکر کیا گیا ہے۔
**- یعنی اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔
وه ایسا ہے جس نے تم کو مٹی سے بنایا* پھر ایک وقت معین کیا** اور (دوسرا) معین وقت خاص اللہ ہی کے نزدیک ہے*** پھر بھی تم شک رکھتے ہو۔****
____________________
* یعنی تمہارے باپ آدم (عليه السلام) کو، جو تمہاری اصل ہیں اور جن سے تم سب نکلے ہو۔ اس کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم جو خوارک اور غذائیں کھاتے ہو، سب زمین سے پیدا ہوتی ہیں اور انہی غذاؤں سے نطفہ بنتا ہے جو رحم مادر میں جاکر تخلیق انسانی کا باعث بنتا ہے۔ اس لحاظ سے گویا تمہاری پیدائش مٹی سے ہوئی۔
**- یعنی موت کا وقت۔
***- یعنی آخرت کا وقت، اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ گویا پہلی اجل سے مراد پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی عمر ہے اور دوسری اجل مسمیٰ ہے۔ مراد انسان کی موت سے لے کر وقوع قیامت تک دنیا کی کل عمر ہے، جس کے بعد وہ زوال وفنا سے دوچار ہوجائے گی اور ایک دوسری دنیا یعنی آخرت کی زندگی کاآغاز ہوجائے گا۔
****- یعنی قیامت کے وقوع میں جیسا کہ کفارومشرکین کہا کرتے تھے کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے تو کس طرح ہمیں دوبارہ زندہ کیا جاسکے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا دوبارہ بھی وہی اللہ تمہیں زندہ کرے گا“ (سورۃ یٰسین)
اور وہی ہے معبود برحق آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، وه تمہارے پوشیده احوال کو بھی اور تمہارے ﻇاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے۔*
____________________
* اہل سنت یعنی سلف کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود تو عرش پر ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے لیکن اپنے علم کے لحاظ سے ہر جگہ ہے یعنی اس کے علم وخبر سے کوئی چیز باہر نہیں۔ البتہ بعض گمراہ فرقے اللہ تعالیٰ کو عرش پر نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور وہ اس آیت سے اپنے اس عقیدے کا اثبات کرتے ہیں۔ لیکن یہ عقیدہ جس طرح غلط ہے یہ استدلال بھی صحیح نہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جس کو آسمانوں اور زمین میں اللہ کہہ کر پکارا جاتا ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کی حکمرانی ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس معبود برحق سمجھا اور مانا جاتا ہے، وہ اللہ تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو، سب کو جانتا ہے۔ (فتح القدیر) اس کی اور بھی بعض توجیہات کی گئی ہیں جنہیں اہل علم تفسیروں میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ مثلاً تفسیر طبری وابن کثیر وغیرہ۔
اور ان کے پاس کوئی نشانی بھی ان کے رب کی نشانیوں میں نہیں آتی مگر وه اس سے اعراض ہی کرتے ہیں۔
انہوں نے اس سچی کتاب کو بھی جھٹلایا جب کہ وه ان کے پاس پہنچی، سو جلدی ہی ان کو خبر مل جائے گی اس چیز کی جس کے ساتھ یہ لوگ استہزا کیا کرتے تھے۔*
____________________
* یعنی اس اعراض اور تکذیب کا وبال انہیں پہنچے گا اس وقت انہیں احساس ہوگا کہ کاش! ہم اس کتاب برحق کی تکذیب اور اس کا استہزانہ کرتے۔
کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم ان سے پہلے کتنی جماعتوں کو ہلاک کرچکے ہیں جن کو ہم نے دنیا میں ایسی قوت دی تھی کہ تم کو وه قوت نہیں دی اور ہم نے ان پر خوب بارشیں برسائیں اور ہم نے ان کے نیچے سے نہریں جاری کیں۔ پھر ہم نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر ڈاﻻ* اور ان کے بعد دوسری جماعتوں کو پیدا کر دیا۔**
____________________
* یعنی جب گناہوں کی پاداش میں تم سے پہلی امتوں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں درآں حالیکہ وہ طاقت وقوت میں بھی تم سے کہیں زیادہ تھیں اور خوش حالی اور وسائل رزق کی فراوانی میں بھی تم سے بہت بڑھ کر تھیں، تو تمہیں ہلاک کرنا ہمارے لئے کیا مشکل ہے؟ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی قوم کی محض مادی ترقی اور خوش حالی سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ بہت کامیاب وکامران ہے۔ یہ استدراج وامہال کی وہ صورتیں ہیں جو بطور امتحان اللہ تعالیٰ قوموں کو عطا فرماتا ہے۔ لیکن جب یہ مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے تو پھر یہ ساری ترقیاں اور خوش حالیاں انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوتیں۔
**- تاکہ انہیں بھی پچھلی قوموں کی طرح آزمائیں۔
اور اگر ہم کاغذ پر لکھا ہوا کوئی نوشتہ آپ پر نازل فرماتے پھر اس کو یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے تب بھی یہ کافر لوگ یہی کہتے کہ یہ کچھ بھی نہیں مگر صریح جادو ہے۔
____________________
* یہ ان کے عناد وجحود اور مکابرہ کا اظہار ہے کہ اتنے واضح نوشتۂ الٰہی کے باوجود وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گے اور اسے ایک ساحرانہ کرتب قرار دیں گے۔ جیسے قرآن مجید کے دوسری مقام پر فرمایا گیا ہے۔ «وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ * لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ» (الحجر: 14،15) ”اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس میں چڑھنے بھی لگ جائیں تب بھی کہیں گے ہماری آنکھیں متوالی ہوگئی ہیں بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے“، «وَإِنْ يَرَوْا كِسْفًا مِنَ السَّمَاءِ سَاقِطًا يَقُولُوا سَحَابٌ مَرْكُومٌ» (الطور: 44) ”اور اگر وہ آسمان سے گرتا ہوا ٹکڑا بھی دیکھ لیں تو کہیں گے کہ تہہ بہ تہہ بادل ہیں“۔ یعنی عذاب الٰہی کی کوئی نہ کوئی ایسی توجیہ کرلیں گے کہ جس میں مشیت الٰہی کا کوئی دخل انہیں تسلیم کرنا نہ پڑے۔ حالانکہ کائنات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی مشیت سے ہوتا ہے۔
اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا اور اگر ہم کوئی فرشتہ بھیج دیتے تو سارا قصہ ہی ختم ہوجاتا۔ پھر ان کو ذرا مہلت نہ دی جاتی۔
____________________
* اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ہدایت ورہنمائی کے لئے جتنے بھی انبیا ورسل بھیجے وہ انسانوں میں سے ہی تھے اور ہر قوم میں اسی کے ایک فرد کو وحی ورسالت سے نواز دیا جاتا تھا۔ یہ اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی رسول فریضۂ تبلیغ ودعوت ادا ہی نہیں کرسکتا تھا، مثلاً اگر فرشتوں کو اللہ تعالیٰ رسول بنا کر بھیجتا تو ایک تو وہ انسانی زبان میں گفتگو ہی نہ کر پاتے دوسرے وہ انسانی جذبات سے عاری ہونے کی وجہ سے انسان کے مختلف حالات میں مختلف کیفیات وجذبات کے سمجھنے سے بھی قاصر رہتے۔ ایسی صورت میں ہدایت ورہنمائی کا فریضہ کس طرح انجام دے سکتے تھے؟ اس لئے اللہ تعالیٰ کا انسانوں پر ایک بڑا احسان ہے کہ اس نے انسانوں کو ہی نبی اور رسول بنایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے بطور احسان ہی قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے «لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولا مِنْ أَنْفُسِهِمْ» (آل عمران: 164) ”اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر احسان فرمایا جب کہ انہی کی جانوں میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا“۔ لیکن پیغمبروں کی بشریت کافروں کے لئے حیرت واستعجاب کا باعث رہی۔ وہ سمجھتے تھے کہ رسول انسانوں میں سے نہیں، فرشتوں میں سے ہونا چاہیئے گویا ان کے نزدیک بشریت رسالت کے شایان شان نہیں تھی۔ جیسا کہ آج کل کے اہل بدعت بھی یہی سمجھتے ہیں۔ «تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ» اہل کفر وشرک، رسولوں کی بشریت کا تو انکار کر نہیں سکتے تھے، کیونکہ وہ ان کے خاندان، حسب نسب ہر چیز سے واقف ہوتے تھے لیکن رسالت کا وہ انکار کردیتے رہے۔ جبکہ آج کل کے اہل بدعت رسالت کا انکار تو نہیں کرتے لیکن بشریت کو رسالت کے منافی سمجھنے کی وجہ سے رسولوں کی بشریت کا انکار کرتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرما رہا ہے کہ اگر ہم کافروں کے مطالبے پر کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے یا اس رسول کی تصدیق کے لئے ہم کوئی فرشتہ نازل کردیتے (جیسا کہ یہاں یہی بات بیان کی گئی ہے) اور پھر وہ اس پر ایمان نہ لاتے توانہیں مہلت دیئے بغیر ہلاک کردیا جاتا۔
اور اگر ہم اس کو فرشتہ تجویز کرتے تو ہم اس کو آدمی ہی بناتے اور ہمارے اس فعل سے پھر ان پر وہی اشکال ہوتا جو اب اشکال کر رہے ہیں۔*
____________________
* یعنی اگر ہم فرشتے ہی کو رسول (صلى الله عليه وسلم) بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کرتے تو ظاہر بات ہے کہ وہ فرشتے کی اصل شکل میں تو آ نہیں سکتا تھا، کیونکہ اس طرح انسان اس سے خوف زدہ ہونے اور قریب ومانوس ہونے کے بجائے، دور بھاگتے اس لئے ناگزیر تھا کہ اسے انسانی شکل میں بھیجا جاتا۔ لیکن یہ تمہارے لیڈر پھر یہی اعتراض اور شبہ پیش کرتے کہ یہ تو انسان ہی ہے، جو اس وقت بھی وہ رسول کی بشریت کے حوالے سے پیش کر رہے ہیں تو پھر فرشتے کے بھیجنے کا بھی کیا فائدہ؟
اور واقعی آپ سے پہلے جو پیغمبر ہوئے ہیں ان کے ساتھ بھی استہزا کیا گیا ہے۔ پھر جن لوگوں نے ان سے مذاق کیا تھا ان کو اس عذاب نے آ گھیرا جس کا تمسخر اڑاتے تھے۔
آپ فرما دیجئے کہ ذرا زمین میں چلو پھرو پھر دیکھ لو کہ تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔
آپ کہئے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجود ہے یہ سب کس کی ملکیت ہے، آپ کہہ دیجئے کہ سب اللہ ہی کی ملکیت ہے، اللہ نے مہربانی فرمانا اپنے اوپر ﻻزم فرما لیا ہے* تم کو اللہ قیامت کے روز جمع کرے گا، اس میں کوئی شک نہیں، جن لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈاﻻ ہے سو وه ایمان نہیں ﻻئیں گے۔
____________________
* جس طرح حدیث میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو عرش پر یہ لکھ دیا «إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي» یقیناً میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے“۔ (صحيح بخاري، كتاب التوحيد، وبدء الخلق، مسلم كتاب التوبة)، لیکن یہ رحمت قیامت والے دن صرف اہل ایمان کے لئے ہوگی، کافروں کے لئے رب سخت غضب ناک ہوگا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو اس کی رحمت یقیناً عام ہے، جس سے مومن اور کافر نیک اور بد، فرماں برداراور نافرمان سب ہی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کی بھی روزی نافرمانی کرنے کی وجہ سے بند نہیں کرتا، لیکن اس کی رحمت کا یہ عموم صرف دنیا کی حد تک ہے۔ آخرت میں جو کہ دارالجزا ہے، وہاں اللہ کی صفت عدل کا کامل ظہور ہوگا، جس کے نتیجے میں اہل ایمان امان رحمت میں جگہ پائیں گے اور اہل کفر وفسق جہنم کے دائمی عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ اسی لئے قرآن میں فرمایا گیا ہے «وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ» (الأعراف: 156) ”اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے»۔ تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکٰوۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں“۔
اور اللہ ہی کی ملک ہیں وه سب کچھ جو رات میں اور دن میں رہتی ہیں اور وہی بڑا سننے واﻻ بڑا جاننے واﻻ ہے۔
آپ کہیے کہ کیا اللہ کے سوا، جو کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے واﻻ ہے اور جو کہ کھانے کو دیتا ہے اور اس کو کوئی کھانے کو نہیں دیتا، اور کسی کو معبود قرار دوں*، آپ فرما دیجئے کہ مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے میں اسلام قبول کروں اور تو مشرکین میں ہرگز نہ ہونا۔
____________________
* ”وَلِيٌّ“ سے مراد یہاں معبود ہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے ورنہ دوست بنانا تو جائز ہے۔
آپ کہہ دیجئے کہ میں اگر اپنے رب کا کہنا نہ مانوں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔*
____________________
* یعنی اگر میں نے بھی رب کی نافرمانی کرتے ہوئے، اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لیا تو میں بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکوں گا۔
جس شخص سے اس روز وه عذاب ہٹا دیا جائے تو اس پر اللہ نے بڑا رحم کیا اور یہ صریح کامیابی ہے۔
____________________
* جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا :«فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ» (آل عمران: 185 ) ”جو آگ سے دور اور جنت میں داخل کر دیا گیا، وہ کامیاب ہوگیا“، اس لئے کہ کامیابی، خسارے سے بچ جانے اور نفع حاصل کرلینے کا نام ہے۔ اور جنت سے بڑھ کر نفع کیا ہوگا؟
اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے واﻻ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں۔ اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی نفع پہنچائے تو وه ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے واﻻ ہے۔*
____________________
* یعنی نفع وضرر کا مالک، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے والا صرف اللہ ہے اور اس کے حکم وقضا کو کوئی رد کرنےوالا نہیں ہے۔ ایک حدیث میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے «اللَّهُمَّ لا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ»(صحيح بخاري، كتاب الاعتصام والقدر والدعوات- مسلم كتاب الصلاة والمساجد)۔ ”جس کو تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں، اور جس سے تو روک لے اس کو کوئی دینے والا نہیں اور کسی صاحب حیثیت کو اس کی حیثیت تیرے مقابلے میں نفع نہیں پہنچاسکتی“، نبی (صلى الله عليه وسلم) ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔
اور وہی اللہ اپنے بندوں کے اوپر غالب ہے برتر ہے* اور وہی بڑی حکمت واﻻ اور پوری خبر رکھنے واﻻ ہے۔
____________________
* یعنی تمام گردنیں اس کے سامنے جھکی ہوئی ہیں، بڑے بڑے جابر لوگ اس کے سامنے بےبس ہیں، وہ ہر چیز پر غالب ہے اور تمام کائنات اس کی مطیع ہے وہ اپنے ہر کام میں حکیم ہے اور ہر چیز سے باخبر ہے، پس اسے معلوم ہے کہ اس کے احسان وعطا کا کون مستحق ہے اور کون غیر مستحق۔
آپ کہئے کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لئے کون ہے، آپ کہئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواه ہے* اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعے سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں** کیا تم سچ مچ یہی گواہی دو گے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میں تو گواہی نہیں دیتا۔ آپ فرما دیجئے کہ بس وه تو ایک ہی معبود ہے اور بےشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔
____________________
* یعنی اللہ تعالیٰ ہی اپنی وحدانیت اور ربوبیت کا سب سے بڑا گواہ ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی گواہ نہیں۔
**- ربیع بن انس (رضي الله عنه) کہتے ہیں کہ اب جس کے پاس بھی یہ قرآن پہنچ جائے۔ اگر وہ سچا متبع رسول ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی لوگوں کو اللہ کی طرف اسی طرح بلائے جس طرح رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے لوگوں کو دعوت دی اور اس طرح ڈرائے جس طرح آپ (صلى الله عليه وسلم) نے لوگوں کو ڈرایا۔ (ابن کثیر)
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وه لوگ رسول کو پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہنچانتے ہیں۔ جن لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈاﻻ ہے سو وه ایمان نہیں ﻻئیں گے۔
____________________
* ”يَعْرِفُونَهُ“ میں ضمیر کا مرجع رسول (صلى الله عليه وسلم) ہیں یعنی اہل کتاب آپ (صلى الله عليه وسلم) کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں کیونکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی صفات ان کتابوں میں بیان کی گئی تھیں اور ان صفات کی وجہ سے وہ آخری نبی کے منتظر بھی تھے۔ اس لئے اب ان میں سے ایمان نہ لانے والے سخت خسارے میں ہیں کیونکہ یہ علم رکھتے ہوئے بھی انکار کر رہے ہیں۔
فَإِنْ كُنْتَ لا تَدْرِي فَتِلْكَ مُصِيبَةٌ وَإِنْ كُنْتَ تَدْرِي فَالْمُصِيبَةُ أَعْظَمُ
”اگر تجھے علم نہیں ہے تو یہ بھی اگرچہ مصیبت ہی ہے تاہم اگر علم ہے تو پھر زیادہ بڑی مصیبت ہے“۔
اور اس سے زیاده بےانصاف کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اللہ کی آیات کو جھوٹا بتلائے* ایسے بےانصافوں کو کامیابی نہ ہوگی۔**
____________________
* یعنی جس طرح اللہ پر جھوٹ گھڑنے والا (یعنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والا) سب سے بڑا ظالم ہے، اسی طرح وہ بھی بڑا ظالم ہے جو اللہ کی آیات اور اس کے سچے رسول کی تکذیب کرے۔ جھوٹے دعوائے نبوت پر اتنی سخت وعید کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ متعدد لوگوں نے ہر دور میں نبوت کے جھوٹے دعوے کئے ہیں اور یوں یقیناً نبی (صلى الله عليه وسلم) کی یہ پیش گوئی پوری ہوگئی کی تیس جھوٹے دجال ہوں گے۔ ہر ایک کا دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے۔ گذشتہ صدی میں بھی قادیان کے ایک شحض نے نبوت کا دعویٰ کیا اور آج اس کے پیروکار اسے اس لئے سچا نبی اوربعض مسیح موعود مانتے ہیں کہ اسے ایک قلیل تعداد نبی مانتی ہے۔ حالانکہ کچھ لوگوں کا کسی جھوٹے کو سچا مان لینا، اس کی سچائی کی دلیل نہیں بن سکتا۔ صداقت کے لئے تو قرآن وحدیث کے واضح دلائل کی ضرورت ہے۔
**- جب یہ دونوں ہی ظالم ہیں تو نہ مفتری (جھوٹ گھڑنے والا) کامیاب ہوگا اور نہ مکذب (جھٹلانے والا) اس لئے ضروری ہے کہ ہر ایک اپنے انجام پر اچھی طرح غور کرلے۔
اور وه وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جس روز ہم ان تمام خلائق کو جمع کریں گے، پھر ہم مشرکین سے کہیں گے کہ تمہارے وه شرکا، جن کے معبود ہونے کا تم دعویٰ کرتے تھے، کہاں گئے؟
پھر ان کے شرک کا انجام اس کے سوا اور کچھ بھی نہ ہوگا کہ وه یوں کہیں گے کہ قسم اللہ کی اپنے پروردگار کی ہم مشرک نہ تھے۔*
____________________
* فتنہ کے ایک معنی حجت اور ایک معنی معذرت کے کئے گئے ہیں۔ بالآخر یہ حجت یا معذرت پیش کرکے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے۔ اور امام ابن جریر نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں «ثُمَّ لَمْ يَكُنْ قِيلُهُمْ عِنْدَ فِتْنَتِنَا إِيَّاهُمْ اعْتِذَارًا مِمَّا سَلَفَ مِنْهُمْ مِنَ الشِّرْكِ بِاللهِ»۔ ”جب ہم انہیں سوال کی بھٹی میں جھونکیں گے تو دنیا میں انہوں نے جو شرک کیا، اس کی معذرت کے لئے یہ کہے بغیر ان کے لئے چارہ نہیں ہوگا کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے“ یہاں یہ اشکال پیش نہ آئے کہ وہاں تو انسانوں کے ہاتھ پیر گواہی دیں گے اور زبانوں پر تو مہریں لگا دی جائیں گی، پھر یہ انکار کس طرح کریں گے؟ اس کا جواب حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) نے یہ دیا ہے کہ جب مشرکین دیکھیں کے کہ اہل توحید مسلمان جنت میں جا رہے ہیں تو یہ باہم مشورہ کرکے اپنے شرک کرنے سے ہی انکار کردیں گے تب اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ پاؤ ں جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا اس کی گواہی دیں گے اور پھر یہ اللہ سے کوئی بات چھپانے پر قادر نہ ہوسکیں گے۔ (ابن کثیر)
ذرا دیکھو تو انہوں نے کس طرح جھوٹ بوﻻ اپنی جانوں پر اور جن چیزوں کو وه جھوٹ موٹ تراشا کرتے تھے وه سب غائب ہوگئے۔*
____________________
* لیکن وہاں اس کذب صریح کا کوئی فائدہ انہیں نہیں ہوگا، جس طرح بعض دفعہ دنیا میں انسان ایسا محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح ان کے معبودان باطل بھی، جن کو وہ اللہ کا شریک اپنا حمایتی ومددگار سمجھتے تھے، غائب ہوں گے اور وہاں ان پر شرکا کی حقیقت واضح ہوگی، لیکن وہاں اس کے ازالے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔
اور ان میں بعض ایسے ہیں کہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں* اور ہم نے ان کے دلوں پر پرده ڈال رکھا ہے اس سے کہ وه اس کو سمجھیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ دے رکھی ہے** اور اگر وه لوگ تمام دﻻئل کو دیکھ لیں تو بھی ان پر کبھی ایمان نہ ﻻئیں، یہاں تک کہ جب یہ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے خواه مخواه جھگڑتے ہیں، یہ لوگ جو کافر ہیں یوں کہتے ہیں کہ یہ تو کچھ بھی نہیں صرف بے سند باتیں ہیں جو پہلوں سے چلی آ رہی ہیں۔***
____________________
* یعنی یہ مشرکین آپ کے پاس آکر قرآن تو سنتے ہیں لیکن چونکہ مقصد طلب ہدایت نہیں، اس لئے بےفائدہ ہے۔
**- علاوہ ازیں مُجَازَاةً عَلَى كُفْرِهِمْ ان کے نتیجے میں ان کے دلوں پر بھی ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں اور ان کے کانوﮞ میں ڈاٹ جس کی وجہ سے ان کے دل حق بات سمجھنے سے قاصراور ان کے کان حق کو سننےسے عاجز ہیں۔
***- اب وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں کہ بڑے سے بڑا معجزہ بھی دیکھ لیں، تب بھی ایمان لانے کی توفیق سے محروم رہیں گے اور ان کا عناد وجحود اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کو پہلے لوگوں کی بے سند کہانیاں کہتے ہیں۔
اور یہ لوگ اس سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دور دور رہتے ہیں* اور یہ لوگ اپنے ہی کو تباه کر رہے ہیں اور کچھ خبر نہیں رکھتے۔**
____________________
* یعنی عام لوگوں کو آپ (صلى الله عليه وسلم) سے اور قرآن سے روکتے ہیں تاکہ وہ ایمان نہ لائیں اور خود بھی دور دور رہتے ہیں۔
**- لیکن لوگوں کو روکنا اور خود بھی دور رہنا، اس سے ہمارا یا ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا بگڑے گا؟ اس طرح کے کام کرکے وہ خود ہی بےشعوری میں اپنی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں۔
اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں* تو کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم پھر واپس بھیج دیئے جائیں اور اگر ایسا ہو جائے تو ہم اپنے رب کی آیات کو جھوٹا نہ بتلائیں اور ہم ایمان والوں میں سے ہو جائیں۔**
____________________
* یہاں ”لَوْ“ کا جواب محذوف ہے تقدیری عبارت یوں ہو گی طتو آپ کو ہولناک منظر نظر آئے گا“۔
**- لیکن وہاں سے دوبارہ دنیا میں آنا ممکن ہی نہیں ہوگا کہ وہ اپنی اس آرزو کی تکمیل کرسکیں۔ کافروں کی اس آرزو کا قرآن نے متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے۔ مثلاً«رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ، قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلا تُكَلِّمُونِ» (المؤمنون: 107، 108) ”اے ہمارے رب! ہمیں اس جہنم سے نکال لے اگر ہم دوبارہ تیری نافرمانی کریں تو یقیناً ظالم ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اسی میں ذلیل وخوار پڑے رہو، مجھ سے بات نہ کرو“۔ «رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ»(الم السجدة: 12) ”اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا، پس ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، اب ہمیں یقین آگیا ہے“۔
بلکہ جس چیز کو اس کے قبل چھپایا کرتے تھے وه ان کے سامنے آگئی ہے1 اور اگر یہ لوگ پھر واپس بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کام کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور یقیناً یہ بالکل جھوٹے ہیں۔**
____________________
* بَلْ جو إِضْرَاب ( یعنی پہلی بات سے گریز کرنے) کے لئے آتا ہے۔ اس کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ ان کے لئے وہ کفر اور عناد وتکذیب ظاہر ہوجائے گی، جو اس سے قبل وہ دنیا یا آخرت میں چھپاتے تھے۔ یعنی جس کا انکارکرتے تھے، جیسے وہاں بھی ابتداءً کہیں گے مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ (ہم تو مشرک ہی نہ تھے) یا رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) اور قرآن کریم کی صداقت کا علم جو ان کے دلوں میں تھا، لیکن اپنے پیروکاروں سے چھپاتے تھے۔ وہاں ظاہر ہوجائے گا۔ یا منافقین کا وہ نفاق وہاں ظاہر ہوجائے گا جسے وہ دنیا میں اہل ایمان سے چھپاتے تھے۔ (تفسیر ابن کثیر)
**- یعنی دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش ایمان لانے کے لئے نہیں، صرف عذاب سے بچنے کے لئے ہے، جو ان پر قیامت کے دن ظاہر ہوجائے گا اور جس کا وہ معائنہ کرلیں گے ورنہ اگر یہ دنیا میں دوبارہ بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔
اور یہ کہتے ہیں کہ صرف یہی دنیاوی زندگی ہماری زندگی ہے اور ہم زنده نہ کئے جائیں گے۔*
____________________
* یہ بَعْث بَعْد الْمَوْتِ (مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے) کا انکار ہے جو ہر کافر کرتا ہے اور اس حقیقت سے انکار ہی دراصل ان کے کفر وعصیان کی سب سے بڑی وجہ ہے ورنہ اگر انسان کے دل میں صحیح معنوں میں اس عقیدۂ آخرت کی صداقت راسخ ہوجائے تو کفر وعصیان کے راستے سے فوراً تائب ہو جائے۔
اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے۔ اللہ فرمائے گا کہ کیا یہ امر واقعی نہیں ہے؟ وه کہیں گے بےشک قسم اپنے رب کی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اب اپنے کفر کے عوض عذاب چکھو۔*
____________________
*- یعنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلینے کے بعد تو وہ اعتراف کرلیں گے کہ آخرت کی زندگی واقعی برحق ہے۔ لیکن وہاں اس اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ اب تو اپنے کفر کے بدلے میں عذاب کا مزہ چکھو۔
بےشک خساره میں پڑے وه لوگ جنہوں نے اللہ سے ملنے کی تکذیب کی، یہاں تک کہ جب وه معین وقت ان پر دفعتاً آ پہنچے گا، کہیں گے کہ ہائے افسوس ہماری کوتاہی پر جو اس کے بارے میں ہوئی، اور حالت ان کی یہ ہوگی کہ وه اپنے بار اپنی پیٹھوں پر ﻻدے ہوں گے، خوب سن لو کہ بری ہوگی وه چیز جس کو وه ﻻدیں گے۔*
____________________
* اللہ کی ملاقات کی تکذیب کرنے والے جس خسارے اور نامرادی سے دوچار ہوں گے اپنی کوتاہیوں پر جس طرح نادم ہوں گے اور برے اعمال کا جو بوجھ اپنے اوپر لادے ہوں گے آیت میں اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے ”فَرَّطْنَا فِيهَا“ میں ضمیر ”الساعۃ“ کی طرف راجع ہے یعنی قیامت کی تیاری اور تصدیق کے معاملے میں جو کوتاہی ہم سے ہوئی۔ یا ”الصَّفْقَةُ“ (سودا) کی طرف راجع ہے، جو اگرچہ عبارت میں موجود نہیں ہے لیکن سیاق اس پر دلالت کناں ہے۔ اس لئے کہ نقصان سودے میں ہی ہوتا ہے اور مراد اس سودے سے وہ ہے جو ایمان کے بدلے کفر خرید کر انہوں نے کیا۔ یعنی یہ سودا کرکے ہم نے سخت کوتاہی کی، یا حیاۃ کی طرف راجع ہے یعنی ہم نے اپنی زندگی میں برائیوں اور کفر وشرک کا ارتکاب کرکے جو کوتاہیاں کیں۔ (فتح القدیر )
اور دنیاوی زندگانی تو کچھ بھی نہیں بجز لہو ولعب کے۔ اور دار آخرت متقیوں کے لئے بہتر ہے۔ کیا تم سوچتے سمجھتے نہیں ہو۔
ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کو ان کے اقوال مغموم کرتے ہیں، سو یہ لوگ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے لیکن یہ ﻇالم تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔*
____________________
* نبی (صلى الله عليه وسلم) کو کفار کی طرف اپنی تکذیب کی وجہ سے جو غم وحزن پہنچتا، اس کے ازالے اور آپ کی تسلی کے لئے فرمایا جارہا ہے کہ یہ تکذیب آپ کی نہیں۔ (آپ کو تو وہ صادق وامین مانتے ہیں) دراصل یہ آیات الٰہی کی تکذیب ہے اوریہ ایک ظلم ہے۔ جس کا وہ ارتکاب کر رہے ہیں۔ ترمذی وغیرہ کی ایک روایات میں ہے کہ ابوجہل نے ایک بار رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سے کہا اے محمد! ہم تم کو نہیں بلکہ جو کچھ تم لے کر آئے ہو اس کو جھٹلاتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ترمذی کی یہ راویت اگرچہ سنداً ضعیف ہے لیکن دوسری صحیح روایات سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ کفار مکہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی امانت ودیانت اور صداقت کے قائل تھے، لیکن اس کے باوجود وہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے سے گریزاں رہے۔ آج بھی جو لوگ نبی (صلى الله عليه وسلم) کے حسن اخلاق، رفعت کردار اور امانت وصداقت کو تو خوب جھوم جھوم کر بیان کرتے اور اس موضوع پر فصاحت وبلاغت کے دریا بہاتے ہیں لیکن اتباع رسول (صلى الله عليه وسلم) میں وہ انقباض محسوس کرتے آپ کی بات کے مقابلے میں فقہ وقیاس اور اقوال ائمہ کو ترجیح دیتے ہیں، انہیں سوچنا چاہیئے کہ یہ کس کا کردار ہے جسے انہوں نے اپنایا ہوا ہے؟
اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جا چکی ہے سو انہوں نے اس پر صبر ہی کیا، ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ہماری امداد ان کو پہنچی* اور اللہ کی باتوں کا کوئی بدلنے واﻻ نہیں** اور آپ کے پاس بعض پیغمبروں کی بعض خبریں پہنچ چکی ہیں۔***
____________________
* نبی (صلى الله عليه وسلم) کی مزید تسلی کے لئے کہا جا رہاہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ کافر اللہ کے پیغمبر کا انکار کر رہے ہیں بلکہ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرچکے ہیں جن کی تکذیب کی جاتی رہی ہے۔ پس آپ بھی ان کی اقتدا کرتے ہوئے اسی طرح صبر اور حوصلے سے کام لیں جس طرح انہوں نے تکذیب اور ایذا پر صبر سے کام لیا، حتیٰ کہ آپ کے پاس بھی اسی طرح ہمار ی مدد آجائے، جس طرح پہلے رسولوں کی ہم نے مدد کی اور ہم اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتے۔ ہم نے وعدہ کیا ہوا ہے «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا» (المؤمن: 51) ”یقیناً ہم اپنے پیغمبروں اور اہل ایمان کی مدد کریں گے“۔ «كَتَبَ اللَّهُ لأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي» (المجادلة: 21) ”اللہ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے“، وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ. (مثلا الصافات: 171، 172)
**- بلکہ اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا کہ آپ کافروں پر غالب ومنصور رہیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
***- جن سے واضح ہے کہ ابتدا میں گو ان کی قوموں نے انہیں جھٹلایا، انہیں ایذائیں پہنچائیں اور ان کے لئے عرصۂ حیات تنگ کردیا، لیکن بالآخر اللہ کی نصرت سے کامیابی وکامرانی اور نجات ابدی انہی کا مقدر بنی۔
اور اگر آپ کو ان کا اعراض گراں گزرتا ہے تو اگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ لو پھر کوئی معجزه لے آؤ تو کرو اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ان سب کو راه راست پر جمع کر دیتا* سو آپ نادانوں میں سے نہ ہوجائیے۔**
____________________
* نبی (صلى الله عليه وسلم) کو معاندین وکافرین کی تکذیب سے جو گرانی اور مشقت ہوتی تھی، اسی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر سے ہونا ہی تھا اور اللہ کے حکم کے بغیر آپ ان کو قبول اسلام پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ حتیٰ کہ اگر آپ کوئی سرنگ کھود کر یا آسمان پر سیڑھی لگاکر بھی کوئی نشانی ان کو لا کر دکھا دیں، تو اول آپ کے لئے ایسا کرنا محال ہے اور اگر بالفرض آپ ایسا کر دکھائیں بھی تو یہ ایمان لانے کے نہیں۔ کیوں کہ ان کا ایمان نہ لانا، اللہ کی حکمت ومشیت کے تحت ہے جس کا مکمل احاطہ انسانی عقل وفہم نہیں کرسکتے۔ البتہ جس کی ایک ظاہری حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اختیار وارادے کی آزادی دے کر آزما رہا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے لئے تمام انسانوں کو ہدایت کے ایک راستے پر لگا دینا مشکل کام نہ تھا، اس کے لئے لفظ ”كُنْ“ سے پلک جھپکتے میں یہ کام ہوسکتا ہے۔
**- یعنی آپ ان کے کفر پر زیادہ حسرت وافسوس نہ کریں کیونکہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت وتقدیر سے ہے، اس لئے اسے اللہ ہی کے سپرد کردیں، وہی اس کی حکمت ومصلحت کو بہتر سمجھتا ہے۔
وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں*۔ اور مُردوں کو اللہ زنده کر کے اٹھائے گا پھر سب اللہ ہی کی طرف ﻻئے جائیں گے۔
____________________
* اور ان کافروں کی حیثیت تو ایسی ہے جیسے مردوں کی ہوتی ہے جس طرح وہ سننے اور سمجھنے کی قدرت سے محروم ہیں، یہ بھی چونکہ اپنی عقل وفہم سے حق کو سمجھنے کا کام نہیں لیتے، اس لئے یہ بھی مردہ ہی ہیں۔
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان پر کوئی معجزه کیوں نہیں نازل کیا گیا ان کے رب کی طرف سے آپ فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ کو بےشک پوری قدرت ہے اس پر کہ وه معجزه نازل فرمادے*۔ لیکن ان میں اکثر بےخبر ہیں۔**
____________________
* یعنی ایسا معجزہ، جو ان کو ایمان لانے پر مجبور کردے، جیسے ان کی آنکھوں کے سامنے فرشتہ اترے، یا پہاڑ ان پر اٹھا کر بلند کر دیا جائے، جس طرح بنی اسرائیل پر کیا گیا۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ تو یقینًا ایسا کرسکتا ہے لیکن اس نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ پھر انسانوں کے ابتلا کا مسئلہ ختم ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں ان کے مطالبے پر اگر کوئی معجزہ دکھلایا جاتا اور پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے تو پھر فوراً انہیں اسی دنیا میں سخت سزا دے دی جاتی۔ یوں گویا اللہ کی اس حکمت میں بھی انہی کا دنیاوی فائدہ ہے۔
**- جو اللہ کے حکم ومشیت کی حکمت بالغہ کا ادراک نہیں کرسکتے۔
اور جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح کے گروه نہ ہوں*، ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی** پھر سب اپنے پروردگار کے پاس جمع کئے جائیں گے۔***
____________________
* یعنی انہیں بھی اللہ نے اسی طرح پیدا فرمایا جس طرح تمہیں پیدا کیا، اسی طرح انہیں روزی دیتا ہے جس طرح تمہیں دیتا ہے اور تمہاری ہی طرح وہ بھی اس کی قدرت وعلم کے تحت داخل ہیں۔
**- کتاب (دفتر) سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی وہاں ہر چیز درج ہے یا مراد قرآن ہے جس میں اجمالاً یا تفصیلاً دین کے ہر معاملے پر روشنی ڈالی گئی ہے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا «وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ» (النحل: 89) ”ہم نے آپ پر ایسی کتاب اتاری ہے جس میں ہر چیز کا بیان ہے“۔ یہاں پر سیاق کے لحاظ سے پہلا معنی اقرب ہے۔
***- یعنی تمام مذکورہ گروہ اکٹھے کئے جائیں گے۔ اس سے علماء کے ایک گروہ نے استدلال کیا ہے کہ جس طرح تمام انسانوں کو زندہ کرکے ان کا حساب کتاب لیا جائے گا، جانوروں اور دیگر تمام مخلوقات کو بھی زندہ کرکے ان کا بھی حساب کتاب ہوگا۔ جس طرح ایک حدیث میں بھی نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: ”کسی سینگ والی بکری نے اگر بغیر سینگ والی بکری پر کوئی زیادتی کی ہوگی تو قیامت والے دن سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا“۔ (صحيح مسلم-نمبر 1997) بعض علماء نے حشر سے مراد صرف موت لی ہے۔ یعنی سب کو موت آئے گی۔ اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہاں حشر سے مراد کفار کا حشر ہے۔ اور درمیان میں مزید جو باتیں آئی ہیں، وہ جملہ معترضہ کے طور پر ہیں۔ اور حدیث مذکور (جس میں بکری سے بدلہ لئے جانے کا ذکر ہے) بطور تمثیل ہے جس سے مقصد قیامت کے حساب وکتاب کی اہمیت وعظمت کو واضح کرنا ہے۔ یا یہ کہ حیوانات میں سے صرف ظالم اور مظلوم کو زندہ کرکے ظالم سے مظلوم کا بدلہ دلا دیا جائے گا۔ پھر دونوں معدوم کر دیئے جائیں گے۔ (فتح القدیر وغیرہ) اس کی تائید بعض احادیث سے بھی ہوتی ہے۔
اور جو لوگ ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں وه تو طرح طرح کی ﻇلمتوں میں بہرے گونگے ہو رہے ہیں، اللہ جس کو چاہے بے راه کردے اور وه جس کو چاہے سیدھی راه پر لگا دے۔*
____________________
* آیات الٰہی کی تکذیب کرنے والے چونکہ اپنے کانوﮞ سے حق بات سنتے نہیں اور اپنی زبانوں سے حق بات بولتے نہیں، اس لئے وہ ایسے ہی ہیں جیسے گونگے اور بہرے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ کفر وضلالت کی تاریکیوں میں بھی گھرے ہوئے ہیں۔ اس لئے انہیں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی جس سے ان کی اصلاح ہوسکے۔ پس ان کے حواس گویا مسلوب ہوگئے جن سے کسی حال میں وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ پھر فرمایا: تمام اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ جسے چاہے گمراہ کردے اور جسے چاہے سیدھی راہ پر لگا دے۔ لیکن اس کا یہ فیصلہ یوں ہی الل ٹپ نہیں ہوجاتا بلکہ عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے، گمراہ اسی کو کرتا ہے جو خود گمراہی میں پھنسا ہوتا ہے اور اس سے نکلنے کی وہ سعی کرتا ہے نہ نکلنے کو وہ پسند ہی کرتا ہے۔ (مزید دیکھیے سورۂ بقرۃ آیت 26 کا حاشیہ)
آپ کہیے کہ اپنا حال تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آ پڑے یا تم پر قیامت ہی آ پہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے۔ اگر تم سچے ہو۔
بلکہ خاص اسی کو پکارو گے، پھر جس کے لئے تم پکارو گے اگر وه چاہے تو اس کو ہٹا بھی دے اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ان سب کو بھول بھال جاؤ گے۔*
____________________
* ”أَرَأيْتَكُمْ“ میں کاف اور میم خطاب کے لئے ہے اس کے معنی ”أَخْبِرُونِي“ (مجھے بتلاؤ یا خبر دو) کے ہیں۔ اس مضمون کو بھی قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ (دیکھیے سورۂ بقرہ آیت 165 کا حاشیہ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ توحید انسانی فطرت کی آواز ہے۔ انسانی ماحول، یا آبا واجداد کی تقلید نا سدید میں مشرکانہ عقائد واعمال میں مبتلا رہتا ہے اور غیر اللہ کو اپنا حاجت روا ومشکل کشا سمجھتا رہتا ہے، نذر ونیاز بھی انہی کے نام کی نکالتا ہے، لیکن جب کسی ابتلا سے دوچار ہوتا ہے تو پھر یہ سب بھول جاتا ہے اور فطرت ان سب پر غالب آجاتی ہے اور بےاختیار انسان پھر اسی ذات کو پکارتا ہے جس کو پکارنا چاہیے۔ کاش! لوگ اسی فطرت پر قائم رہیں کہ نجات اخروی تو مکمل طور پر اسی صدائے فطرت یعنی توحید کے اختیار کرنے میں ہی ہے۔
اور ہم نے اور امتوں کی طرف بھی جو کہ آپ سے پہلے گزر چکی ہیں پیغمبر بھیجے تھے، سو ہم نے ان کو تنگدستی اور بیماری سے پکڑا تاکہ وه اﻇہار عجز کرسکیں۔
سو جب ان کو ہماری سزا پہنچی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں نہیں اختیار کی؟ لیکن ان کے قلوب سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کردیا۔*
____________________
* قومیں جب اخلاق وکردار کی پستی میں مبتلا ہو کر ا پنے دلوں کو زنگ آلود کرلیتی ہیں تو اس وقت اللہ کے عذاب بھی انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے اور جھنجھوڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر ان کے ہاتھ طلب مغفرت کے لئے اللہ کے سامنے نہیں اٹھتے، ان کے دل اس کی بارگاہ میں نہیں جھکتے اور ان کے رخ اصلاح کی طرف نہیں مڑتے۔ بلکہ اپنی بداعمالیوں پر تاویلات وتوجیہات کے حسین غلاف چڑھا کر اپنے دل کو مطمئن کرلیتی ہیں۔ اس آیت میں ایسی ہی قوموں کا وہ کردار بیان کیا گیا ہے جسے شیطان نے ان کے لئے خوبصورت بنا دیا ہوتا ہے۔
پھر جب وه لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشاده کردئے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وه خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وه بالکل مایوس ہوگئے۔
پھر ﻇالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔*
____________________
* اس میں خدا فراموش قوموں کی بابت اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ہم بعض دفعہ وقتی طور پر ایسی قوموں پر دنیا کی آسائشوں اور فراوانیوں کے دروازے کھول دیتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ اس میں خوب مگن ہوجاتی ہیں اور اپنی مادی خوش حالی و ترقی پر اترانے لگ جاتی ہیں تو پھر ہم اچانک انہیں اپنے مواخذے کی گرفت میں لے لیتے ہیں اور ان کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ حدیث میں بھی آتا ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ ”جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نافرمانیوں کے باوجود کسی کو اس کی خواہشات کے مطابق دنیا دے رہا ہے تو یہ استدراج (دھیل دینا) ہے۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔“ (مسند أحمد، جلد 4، صفحة 145) قرآن کریم کی اس آیت اور حدیث نبوی (صلى الله عليه وسلم) سے معلوم ہوا کہ دنیوی ترقی اور خوش حالی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ جس فرد یا قوم کو یہ حاصل ہو تو وہ اللہ کی چہیتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے، جیسا کہ بعض لوگ ایسا سمجھتے ہیں بلکہ بعض تو انہیں «أَنَّ الأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ» (الأنبياء: 105) کا مصداق قرار دے کر انہیں (اللہ کے نیک بندے) تک قرار دیتے ہیں۔ ایسا سمجھنا اور کہنا غلط ہے، گمراہ قوموں یا افراد کی دنیوی خوش حالی، ابتلا اور مہلت کے طور پر ہے نہ کہ یہ ان کے کفر ومعاصی کا صلہ ہے۔
آپ کہئے کہ یہ بتلاؤ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری سماعت اور بصارت بالکل لے لے اور تمہارے دلوں پر مہر کردے تو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود ہے کہ یہ تم کو پھر دے دے۔ آپ دیکھئے تو ہم کس طرح دﻻئل کو مختلف پہلوؤں سے پیش کر رہے ہیں پھر بھی یہ اعراض کرتے ہیں۔*
____________________
* آنکھیں، کان اور دل، یہ انسان کے نہایت اہم اعضاء وجوارح ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا کہ اگر وہ چاہے تو ان کی وہ خصوصیات سلب کرلے جو اللہ نے ان کے اندر رکھی ہیں یعنی سننے، دیکھنے اور سمجھنے کی خصوصیات، جس طرح کافروں کے یہ اعضاء ان خصوصیات سے محروم ہوتے ہیں۔ یا اگر وہ چاہے تو اعضاء کو ویسے ہی ختم کردے، وہ دونوں ہی باتوں پر قادر ہے، اس کی گرفت سے کوئی بچ نہیں سکتا، مگر یہ کہ وہ خود کسی کو بچانا چاہے۔ آیات کو مختلف پہلوؤں سے پیش کرنے کا مطلب ہے کہ کبھی انذار وتبشیر اور ترغیب وترہیب کے ذریعے سے، اور کبھی کسی اور ذریعے سے۔
آپ کہئے کہ یہ بتلاؤ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آ پڑے خواه اچانک یا اعلانیہ تو کیا بجز ﻇالم لوگوں کے اور بھی کوئی ہلاک کیا جائے گا۔*
____________________
* ”بَغْتَةً“ (بےخبری) سے مراد رات اور ”جَهْرَةً“ (خبرداری) سے دن مراد ہے، جسے سورۂ یونس میں بَيَاتًا أَوْ نَهَارًا (سورة يونس: 50) سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی دن کو عذاب آجائے یا رات کو۔ یا پھربَغْتَةً وہ عذاب ہے جو اچانک بغیر تمہید اور مقدمات کے آجائے اورجَهْرَةً وہ عذاب جو تمہید اور مقدمات کے بعد آئے۔ یہ عذاب جو قوموں کی ہلاکت کے لئے آتا ہے۔ ان ہی پر آتا ہے جو ظالم ہوتی ہیں یعنی کفر وطغیان اور معصیت الٰہی میں حد سے تجاوز کرجاتی ہیں۔
اور ہم پیغمبروں کو صرف اس واسطے بھیجا کرتے ہیں کہ وه بشارت دیں اور ڈرائیں* پھر جو ایمان لے آئے اور درستی کرلے سو ان لوگوں پر کوئی اندیشہ نہیں اور نہ وه مغموم ہوں گے۔**
____________________
* وہ اطاعت گزاروں کو ان نعمتوں اور اجر جزیل کی خوشخبری دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے جنت کی صورت میں ان کے لئے تیار کر رکھا ہے اور نافرمانوں کو ان عذابوں سے ڈراتے ہیں جو اللہ نے ان کے لئے جہنم کی صورت میں تیار کئے ہوئے ہیں۔
**- مستقبل (یعنی آخرت) میں پیش آنے والے حالات کا انہیں اندیشہ نہیں اور اپنے پیچھے دنیا میں جو کچھ چھوڑ آئے یا دنیا کی جو آسودگیاں وہ حاصل نہ کرسکے، اس پر وہ مغموم نہیں ہوں گے کیونکہ دونوں جہانوں میں ان کا ولی اور کارساز وہ رب ہے جو دونوں ہی جہانوں کا رب ہے۔
اور جو لوگ ہماری آیتوں کو جھوٹا بتلائیں ان کو عذاب پہنچے گا بوجہ اس کے کہ وه نافرمانی کرتے ہیں۔*
____________________
* یعنی ان کو عذاب اس لئے پہنچے گا کہ انہوں نے تکفیر وتکذیب کا راستہ اختیار کیا، اللہ کی اطاعت اور اس کے اوامر کی پرواہ نہیں کی اور اس کے محارم ومناہی کا ارتکاب بلکہ اس کی حرمتوں کو پامال کیا۔
آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہو*ں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہوسکتا ہے**۔ سو کیا تم غور نہیں کرتے؟
____________________
* میرے پاس اللہ کے خزانے بھی نہیں (جس سے مراد ہر طرح کی قدرت وطاقت ہے) کہ میں تمہیں اللہ کے اذن ومشیت کے بغیر کوئی ایسا بڑا معجزہ صادر کرکے دکھا سکوں، جیسا کہ تم چاہتے ہو، جسے دیکھ کر تمہیں میری صداقت کا یقین ہوجائے۔ میرے پاس غیب کا علم بھی نہیں کہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات میں تمہیں مطلع کر دو، مجھے فرشتہ ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کہ تم مجھے ایسے خرق عادات امور پر مجبور کرو جو انسانی طاقت سے بالا ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کا پیرو ہوں جو مجھ پر نازل ہوتی ہے اور اس میں حدیث بھی شامل ہے، جیسا کہ آپ نے فرمایا: ”أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ“ مجھے قرآن کے ساتھ اس کی مثل بھی دیا گیا یہ مثل حدیث رسول (صلى الله عليه وسلم) ہی ہے۔
**- یہ استفہام انکار کے لئے ہے یعنی اندھا اور بینا، گمراہ اور ہدایت یافتہ اور مومن وکافر برابر نہیں ہوسکتے۔
اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کئے جائیں گے کہ جتنے غیر اللہ ہیں نہ کوئی ان کا مددگار ہوگا اور نہ کوئی شفیع، اس امید پر کہ وه ڈر جائیں۔*
____________________
* یعنی انذار کا فائدہ ایسی ہی لوگوں کو ہوسکتا ہے، ورنہ جو بعث بعد الموت اور حشر ونشر پر یقین ہی نہیں رکھتے، وہ اپنے کفر وجحود پر ہی قائم رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں ان اہل کتاب اور کافروں اور مشرکوں کا رد بھی ہے جو اپنے آبا اور اپنے بتوں کو اپنا سفارشی سمجھتے تھے۔ نیز کارساز اور سفارشی نہیں ہوگا کا مطلب، یعنی ان کے لئے جو عذاب جہنم کے مستحق قرار پاچکے ہوں گے۔ ورنہ مومنوں کے لئے تو اللہ کے نیک بندے، اللہ کے حکم سے سفارش کریں گے۔ یعنی شفاعت کی نفی اہل کفر وشرک کے لئے ہے اور اس کا اثبات ان کے لئے جو گناہ گار مومن وموحد ہوں گے، اسی طرح دونوں قسم کی آیات میں کوئی تعارض بھی نہیں رہتا۔
اور ان لوگوں کو نہ نکالیے جو صبح وشام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں، خاص اسی کی رضامندی کا قصد رکھتے ہیں۔ ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں۔ ورنہ آپ ﻇلم کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے۔*
____________________
* یعنی یہ بےسہارا اور غریب مسلمان، جو بڑے اخلاص سے رات دن اپنے رب کو پکارتے ہیں یعنی اس کی عبادت کرتے ہیں، آپ مشرکین کے اس طعن یا مطالبہ سے کہ اے محمد! (صلى الله عليه وسلم) تمہارے اردگرد توغربا وفقرا کا ہی ہجوم رہتا ہے ذرا انہیں ہٹاو تو ہم بھی تمہارے ساتھ بیٹھیں، ان غربا کو اپنے سے دور نہ کرنا، بالخصوص جب کہ آپ کا کوئی حساب ان کے متعلق نہیں اور ان کا آپ کے متعلق نہیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو یہ ظلم ہوگا جو آپ کے شایان شان نہیں۔ مقصد امت کو سمجھانا ہے کہ بےوسائل لوگوں کو حقیر سمجھنا یا ان کی صحبت سے گریز کرنا اور ان سے وابستگی نہ رکھنا، یہ نادانوں کا کام ہے۔ اہل ایمان کا نہیں۔ اہل ایمان تو اہل ایمان سے محبت رکھتے ہیں چاہے وہ غریب اور مسکین ہی کیوں نہ ہوں۔
اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈال رکھا ہے تاکہ یہ لوگ کہا کریں، کیا یہ لوگ ہیں کہ ہم سب میں سے ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے*۔ کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو خوب جانتا ہے۔**
____________________
* ابتدا میں اکثر غریب، غلام قسم کے لوگ ہی مسلمان ہوئے تھے۔ اس لئے یہی چیز روءسائے کفار کی آزمائش کا ذریعہ بن گئی اور وہ ان غریبوں کا مذاق بھی اڑاتے اور جن پر ان کا بس چلتا، انہیں تعذیب واذیت سے بھی دوچار کرتے اور کہتے کہ کیا یہی لوگ جن پراللہ نے احسان فرمایا ہے؟ مقصد ان کا یہ تھا کہ ایمان اور اسلام اگر واقعی اللہ کا احسان ہوتا تو یہ سب سے پہلے ہم پر ہوتا، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ”لَوْ كَانَ خَيْرًا مَا سَبَقُونَا إِلَيْهِ“ (الأحقاف: 11) ”اگر یہ بہتر چیز ہوتی تو اس کے قبول کرنے میں یہ ہم سے سبقت نہ کرتے“ یعنی ان ضعفا کے مقابلے میں ہم پہلے مسلمان ہوتے۔
**- یعنی اللہ تعالیٰ ظاہری چمک دمک، ٹھاٹھ باٹھ اور رئیسانہ کروفر وغیرہ نہیں دیکھتا، وہ تو دلوں کی کیفیت کو دیکھتا ہے اور اس اعتبار سے وہ جانتا ہے کہ اس کے شکرگزار بندے اور حق شناس کون ہیں؟ پس اس نے جن کے اندر شکرگزاری کی خوبی دیکھی، انہیں ایمان کی سعادت سے سرفراز کردیا جس طرح حدیث میں آتا ہے۔ ”اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا، وہ تو تمہارے دل اور تمہارے عمل دیکھتا ہے۔“ (صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم ظلم المسلم وخذله واحتقاره ودمه وعرضه)
اور یہ لوگ جب آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو (یوں) کہہ دیجیئے کہ تم پر سلامتی ہے* تمہارے رب نے مہربانی فرمانا اپنے ذمہ مقرر کرلیا ہے** کہ جو شخص تم میں سے برا کام کر بیٹھے جہالت سے پھر وه اس کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح رکھے تو اللہ (کی یہ شان ہے کہ وه) بڑی مغفرت کرنے واﻻ ہے بڑی رحمت واﻻ ہے۔***
____________________
* یعنی ان پر سلام کرکے یا ان کے سلام کا جواب دے کر ان کی تکریم اور قدرافزائی کریں۔
**- اور انہیں خوشخبری دیں کہ تفضل واحسان کے طور پر اللہ تعالی نے اپنے شکرگزار بندوں پر اپنی رحمت کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تخلیق کائنات سے فارغ ہوگیا تو اس نے عرش پر لکھ دیا ”إنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي“ (صحيح بخاري ومسلم) ”میری رحمت، میرے غضب پر غالب ہے“۔
***- اس میں بھی اہل ایمان کے لئے بشارت ہے کیونکہ ان ہی کی یہ صفت ہے کہ اگر نادانی سے یا بہ تقاضائے بشریت کسی گناہ کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں تو پھر فوراً توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیتے ہیں۔ گناہ پر اصرار اور دوام اور توبہ وانابت سے اعراض نہیں کرتے۔
اسی طرح ہم آیات کی تفصیل کرتے رہتے ہیں اور تاکہ مجرمین کا طریقہ ﻇاہر ہوجائے۔
آپ کہہ دیجئے کہ مجھ کو اس سے ممانعت کی گئی ہے کہ ان کی عبادت کروں جن کو تم لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پکارتے ہو۔ آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہاری خواہشات کی اتباع نہ کروں گا کیوں کہ اس حالت میں تو میں بے راه ہوجاؤں گا اور راه راست پر چلنے والوں میں نہ رہوں گا۔
____________________
* یعنی اگر میں بھی تمہاری طرح اللہ کی عبادت کرنے کے بجائے، تمہاری خواہشات کے مطابق غیر اللہ کی عبادت شروع کر دوں تو یقیناً میں بھی گمراہ ہوجاؤں گا۔ مطلب یہ ہے کہ غیر اللہ کی عبادت وپرستش، سب سے بڑی گمراہی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ گمراہی اتنی ہی عام بھی ہے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد اس میں مبتلا ہے۔هَدَاهُمُ اللهُ تَعَالَى-
آپ کہہ دیجئے کہ میرے پاس تو ایک دلیل ہے میرے رب کی طرف سے* اور تم اس کی تکذیب کرتے ہو، جس چیز کی تم جلدبازی کر رہے ہو وه میرے پاس نہیں۔ حکم کسی کا نہیں بجز اللہ تعالیٰ کے** اللہ تعالیٰ واقعی بات کو بتلا دیتا ہے*** اور سب سے اچھا فیصلہ کرنے واﻻ وہی ہے۔
____________________
* مراد وہ شریعت ہے جو وحی کے ذریعے سے آپ (صلى الله عليه وسلم) پر نازل کی گئی، جس میں توحید کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ ”إِنَّ اللهَ لا يَنْظُرُ إِلَى صِوَرِكُمْ وَلا إِلى أَلْوَانِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ“ (صحيح مسلم ومسند أحمد / 539،85۔ابن ماجه، كتاب الزهد، باب القناعة)
**- تمام کائنات پر اللہ ہی کا حکم چلتا ہے اور تمام معاملات اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لئے تم جو چاہتے ہو کہ جلد ہی اللہ کا عذاب تم پر آجائے تاکہ تمہیں میری صداقت یا کذب کا پتہ چل جائے، تو یہ بھی اللہ ہی کے اختیار میں ہے، وہ اگر چاہے تو تمہاری خواہش کے مطابق جلدی عذاب بھیج کر تمہیں متنبہ یا تباہ کردے اور چاہے تو اس وقت تک تمہیں مہلت دے جب تک اس کی حکمت اس کی مقتضی ہو۔
***- ”يَقُصُّ“ ”قَصَصٌ“ سے ہے یعنی يَقُصُّ قَصَصَ الْحَقّ (حق باتیں بیان کرتا یا بتلاتا ہے) یا قَصَّ أَثَرَهُ (کسی کے پیچھے، پیروی کرنا) سے ہے یعنی يَتَّبِعُ الْحَقَّ فِيمَا يَحْكُمُ بِهِ (اپنے فیصلوں میں وہ حق کی پیروی کرتا ہے یعنی حق کے مطابق فیصلے کرتا ہے)۔ (فتح القدیر )
آپ کہہ دیجئے کہ اگر میرے پاس وه چیز ہوتی جس کا تم تقاضا کر رہے ہو تو میرا اور تمہارا باہمی قصہٴ فیصل* ہوچکا ہوتا اور ﻇالموں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔
____________________
* یعنی اگر اللہ تعالیٰ میرے طلب کرنے پر فوراً عذاب بھیج دیتا یا اللہ تعالیٰ میرے اختیار میں یہ چیز دے دیتا تو پھر تمہاری خواہش کے مطابق عذاب بھیج کر جلد ہی فیصلہ کردیا جاتا۔ لیکن یہ معاملہ چونکہ کلیتاً اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، اس لئے اس نے مجھے اس کا اختیار دیا ہے اور نہ ہی ممکن ہے کہ میری درخواست پر فوراً عذاب نازل فرما دے۔
ضروری وضاحت: حدیث میں جو آتا ہے کہ ایک موقعے پر اللہ کے حکم سے پہاڑوں کا فرشتہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کے خدمت میں آیا اور اس نے کہا کہ اگر آپ (صلى الله عليه وسلم) حکم دیں تو میں ساری آبادی کو دونوں پہاڑوں کے درمیان کچل دوں آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے اللہ کی عبادت کرنے والا پیدا فرمائے گا، جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے“ (صحيح بخاري، كتاب بدء الخلق، باب إذا قال أحدكم آمين والملائكة في السماء... وصحيح مسلم، كتاب الجهاد باب ما لقي النبي من أذى المشركين) یہ حدیث آیت زیرِ وضاحت کے خلاف نہیں ہے، جیسا کہ بظاہر معلوم ہوتی ہے، اس لئے کہ آیت میں عذاب طلب کرنے پر عذاب دینے کا اظہار ہے جب کہ اس حدیث میں مشرکین کے طلب کئے بغیر صرف ان کی ایذا دہی کی وجہ سے ان پر عذاب بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے جسے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے پسند نہیں فرمایا۔
اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں، (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے۔ اور وه تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وه اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں۔*
____________________
* ”كِتَابٌ مُبِينٌ“ سے مراد لوح محفوظ ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے غیب کے سارے خزانے اسی کے پاس ہیں، اس لئے کفار ومشرکین اور معاندین کو کب عذاب دیا جائے؟ اس کا علم بھی صرف اسی کو ہے اور وہی اپنی حکمت کے مطابق اس کا فیصلہ کرنے والا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ مفاتح الغیب پانچ ہیں قیامت کا علم، بارش کا نزول، رحم مادر میں پلنے والا بچہ، آئندہ کل میں پیش آنے والے واقعات، اور موت کہاں آئے گی۔ ان پانچوں امور کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ (صحيح بخاري تفسير سورة الأنعام)
اور وه ایسا ہے کہ رات میں تمہاری روح کو (ایک گونہ) قبض کردیتا ہے* اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کو جانتا ہے پھر تم کو جگا اٹھاتا ہے** تاکہ میعاد معین تمام کر دی جائے*** پھر اسی کی طرف تم کو جانا ہے**** پھر تم کو بتلائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
____________________
* یہاں نیند کو وفات سے تعبیر کیا گیا ہے، اسی لئےاسے وفات اصغر اور موت کو وفات اکبر کہا جاتا ہے۔ (وفات کی وضاحت کے لئے دیکھیئے آل عمران کی آیت 55 کا حاشیہ)
**- یعنی دن کے وقت روح واپس لوٹا کر زندہ کر دیتا ہے۔
***- یعنی یہ سلسلہ شب وروز اور وفات اصغر سے ہمکنار ہو کر دن کو پھر اٹھ کھڑے ہونے کا معمول، انسان کی وفات اکبر تک جاری رہے گا۔
****- یعنی پھر قیامت والے دن زندہ ہو کر سب کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔
اور وہی اپنے بندوں کے اوپر غالب ہے برتر ہے اور تم پر نگہداشت رکھنے والے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچتی ہے، اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کرلیتے ہیں اور وه ذرا کوتاہی نہیں کرتے۔*
____________________
* یعنی اپنے اس مفوضہ کام میں اور روح کی حفاظت میں بلکہ وہ فرشتہ، مرنے والا اگر نیک ہوتا ہے تو اس کی روح عِلِّيِّينَ میں اور اگر بد ہوتا ہے توسِجِّينٌ میں، بھیج دیتا ہے۔
پھر سب اپنے مالک حقیقی کے پاس ﻻئے جائیں گے*۔ خوب سن لو فیصلہ اللہ ہی کا ہوگا اور وه بہت جلد حساب لے گا۔
____________________
* آیت میں ”رُدُّوْا“ (لوٹائے جائیں گے) کا مرجع بعض نے فرشتوں کو قرار دیا ہے یعنی قبض روح کے بعد فرشتے اللہ کی بارگاہ میں لوٹ جاتے ہیں۔ اور بعض نے اس کا مرجع تمام لوگوں کو بنایا ہے۔ یعنی سب لوگ حشر کے بعد اللہ کی بارگاہ میں لوٹائے جائیں گے (پیش کئے جائیں گے) اور پھر وہ سب کا فیصلہ فرمائے گا۔ آیت میں روح قبض کرنے والے فرشتوں کو رسل (جمع کے صیغے کے ساتھ) بیان کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روح قبض کرنے والا فرشتہ ایک نہیں متعدد ہیں۔ اس کی توجیہ بعض مفسرین نے اس طرح کی ہے کہ قرآن مجید میں روح قبض کرنے کی نسبت اللہ کی طرف بھی ہے۔ ”اللَّهُ يَتَوَفَّى الأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا“ (الزمر: 42) اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے، اور اس کی نسبت ایک فرشتے (ملک الموت) کی طرف بھی کی گئی ہے۔ ”قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ“ (الم السجدة: 11) کہہ دو تمہاری روحیں وہ فرشتۂ موت قبض کرتا ہے جو تمہارے لئے مقرر کیا گیا ہے، اور اس کی نسبت متعدد فرشتوں کی طرف بھی کی گئی ہے، جیسا کہ اس مقام پر ہے اور اسی طرح سورۂ نساء آیت 97 اور الانعام آیت 93 میں بھی ہے۔ اس لئے اللہ کی طرف اس کی نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہی اصل آمر (حکم دینے والا) بلکہ فاعل حقیقی ہے۔ متعدد فرشتوں کی طرف نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہ ملک الموت کے مددگار ہیں، وہ رگوں، شریانوں، پٹھوں سے روح نکالنے اور اس کا تعلق ان تمام چیزوں سے کاﭨنے کا کام کرتے ہیں اور ملک الموت کی طرف نسبت کے معنی یہ ہیں کہ پھر آخر میں وہ روح قبض کرکے آسمانوں کی طرف لے جاتا ہے۔ (تفسير روح المعاني جلد 5، صفحة 5) حافظ ابن کثیر، امام شوکاﻧﯽ اور جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ ملک الموت ایک ہی ہے جیسا کہ سورۂ الم السجدۃ کی آیت سے اور مسند احمد (جلد 4، صفحہ 287) میں حضرت براء بن عازب (رضي الله عنه) کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے اور جہاں جمع کے صیغے میں ان کا ذکر ہے تو وہ اس کے اعوان وانصار ہیں۔ اور بعض آثار میں ملک الموت کا نام عزرائیل بتلایا گیا ہے۔ (تفسير ابن كثير - الم السجدة )- والله أعلم-
آپ کہئے کہ وه کون ہے جو تم کو خشکی اور دریا کی ﻇلمات سے نجات دیتا ہے۔ تم اس کو پکارتے ہو گڑگڑا کر چپکے چپکے، کہ اگر تو ہم کو ان سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی تم کو ان سے نجات دیتا ہے اور ہر غم سے، تم پھر بھی شرک کرنے لگتے ہو۔
آپ کہئے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے* یا تمہارے پاؤں تلے سے** یا کہ تم کو گروه گروه کرکے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھا دے***۔ آپ دیکھیے تو سہی ہم کس طرح دﻻئل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں شاید وه سمجھ جائیں۔
____________________
* یعنی آسمان سے، جیسے بارش کی کثرت، یا ہوا، پتھر کے ذریعے سے عذاب۔ یا امرا وحکام کی طرف سے ظلم وستم۔
**- جیسے دھنسایا جانا، طوفانی سیلاب، جس میں سب کچھ غرق ہوجائے۔ یا مراد ہے ماتحتوں، غلاموں اور نوکروں چاکروں کی طرف سے عذاب کہ وہ بددیانت اور خائن ہوجائیں۔
***- ”يَلْبِسَكُمْ“ أَيْ يَخْلُطَ أَمْرَكُمْ تمہارے معاملے کو غلط ملط یا مشتبہ کردے جس کی وجہ سے تم گروہوں اور جماعتوں میں بٹ جاوء۔ ”وَيُذِيقَ“: أَيْ يَقْتلُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَتُذِيقَ كُلُّ طَائِفَةٍ الأُخْرَى أَلَمَ الْحَرْبِ۔ تمہارا ایک، دوسرے کو قتل کرے۔ اس طرح ہر گروہ دوسرے گروہ کو لڑائی کا مزہ چکھائے (ایسرالتفاسیر) حدیث میں آتا ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں۔۔ میری امت غرق کے ذریعے ہلاک نہ کی جائے۔ 2۔ قحط عام کے ذریعے اس کی تباہی نہ ہو۔ 3۔ آپس میں ان کی لڑائی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی دو دعائیں قبول فرمالیں۔ اور تیسری دعا سے مجھے روک دیا۔ (صحیح مسلم، نمبر 2216) یعنی اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ امت محمدیہ میں اختلاف وَانْشِقاق واقع ہوگا اور اس کی وجہ اللہ کی نافرمانی اور قرآن وحدیث سے اعراض ہوگا جس کے نتیجے میں عذاب کی اس صورت سے امت محمدیہ بھی محفوظ نہ رہ سکے گی۔ گویا اس کا تعلق اس سنت اللہ سے ہے جو قوموں کے اخلاق وکردار کے بارے میں ہمیشہ رہی ہے۔ جس میں تبدیلی ممکن نہیں ”فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلا، وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَحْوِيلا“ (فاطر: 43)
اور آپ کی قوم* اس کی تکذیب کرتی ہے حاﻻنکہ وه یقینی ہے۔ آپ کہہ دیجئے کہ میں تم پر تعینات نہیں کیا گیا ہوں۔**
____________________
* ”به“ کا مرجع قرآن ہے یا عذاب (فتح القدیر )
**- یعنی مجھے اس امر کا مکلف نہیں کیا گیا ہے کہ میں تمہیں ہدایت کے راستے پر لگا کر ہی چھوڑوں۔ بلکہ میرا کام صرف دعوت وتبلیغ ہے ”فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ“ (الكهف: 9)
ہر خبر (کے وقوع) کا ایک وقت ہے اور جلد ہی تم کو معلوم ہوجائے گا۔
اور جب آپ ان کو لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کر رہے ہیں تو ان لوگوں سے کناره کش ہوجائیں یہاں تک کہ وه کسی اور بات میں لگ جائیں اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ﻇالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں۔*
____________________
* آیت میں خطاب اگرچہ نبی (صلى الله عليه وسلم) سے ہے لیکن مخاطب امت مسلمہ کا ہر فرد ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک تاکیدی حکم ہے جسے قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ نساء آیت نمبر 140 میں بھی یہ مضمون گزرچکا ہے۔ اس سے ہر وہ مجلس مراد ہے جہاں اللہ رسول کے احکام کا مذاق اڑایا جارہا ہو یا عملاً ان کا استخفاف کیا جا رہا ہو یا اہل بدعت واہل زیغ اپنی تاویلات رکیکہ اور توجیہات نحیفہ کے ذریعے سے آیات الٰہی کو توڑ مروڑ رہے ہوں۔ ایسی مجالس میں غلط باتوں پر تنقید کرنے اور کلمہ حق بلند کرنے کی نیت سے تو شرکت جائز ہے، بصورت دیگر سخت گناہ اور غضب الٰہی کا باعث ہے۔
اور جو لوگ پرہیزگار ہیں ان پر ان کی باز پرس کا کوئی اﺛر نہ پہنچے گا* اور لیکن ان کے ذمہ نصیحت کردینا ہے شاید وه تقویٰ اختیار کریں۔**
____________________
* ”مِنْ حِسَابِهِمْ“ کا تعلق آیات الٰہی کا استہزا کرنے والوں سے ہے۔ یعنی جو لوگ ایسی مجالس سے اجتناب کریں گے، تو استہزا بآیات اللہ کا جو گناہ، استہزا کرنے والوں کو ملے گا، وہ اس گناہ سے محفوظ رہیں گے۔
**- یعنی اجتناب وعلیحدگی کے باوجود وعظ ونصیحت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ حتی المقدور ادا کرتے رہیں۔ شاید وہ بھی اپنی اس حرکت سے باز آجائیں۔
اور ایسے لوگوں سے بالکل کناره کش رہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے اور دنیوی زندگی نے انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے اور اس قرآن کے ذریعہ سے نصیحت بھی کرتے رہیں تاکہ کوئی شخص اپنے کردار کے سبب (اس طرح) نہ پھنس جائے* کہ کوئی غیر اللہ اس کا نہ مددگار ہو اور نہ سفارشی اور یہ کیفیت ہو کہ اگر دنیا بھر کا معاوضہ بھی دے ڈالے تب بھی اس سے نہ لیا جائے**۔ ایسے ہی ہیں کہ اپنے کردار کے سبب پھنس گئے، ان کے لئے نہایت تیز گرم پانی پینے کے لئے ہوگا اور دردناک سزا ہوگی اپنے کفر کے سبب۔
____________________
* ”تُبْسَلَ“ أي: لِئَلاَّ تُبْسَلَ، بَسَلٌ کے اصل معنی تو منع کے ہیں، اسی سے ہے شُجَاعٌ بَاسِلٌ لیکن یہاں اس کے مختلف معنی کئے گئے ہیں۔ (1) تُسَلَّمُ (سونپ دیئے جائیں) (2) تُفْضَحُ (رسوا کردیا جائے) (3) تُؤَاخَذُ (مواخذہ کیا جائے) (4) تُجَازَى (بدلہ دیا جائے)۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سب کے معنی قریب قریب ایک ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ انہیں اس قرآن کے ذریعے سے نصیحت کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نفس کو، جو اس نے کمایا، اس کے بدلے ہلاکت کے سپرد کردیاجائے۔ یا رسوائی اس کا مقدر بن جائے یا وہ مواخذہ اور مجازات کی گرفت میں آجائے۔ ان تمام مفہوم کو فاضل مترجم نے (پھنس نہ جائے) سے تعبیر کیا ہے۔
**- دنیا میں انسان عام طور پر کسی دوست کی مدد یا کسی سفارش سے یا مالی معاوضہ دے کرچھوٹ جاتا ہے۔ لیکن آخرت میں یہ تینوں ذریعے کام نہیں آئیں گے۔ وہاں کافروں کا کوئی دوست نہ ہوگا جو انہیں اللہ کی گرفت سے بچا لے، نہ کوئی سفارشی ہو گا جو انہیں عذاب الٰہی سے نجات دلا دے اور نہ کسی کے پاس معاوضہ دینے کے لئے کچھ ہوگا، اگر بالفرض ہو بھی تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا کہ وہ دے کر چھوٹ جائے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔
آپ کہہ دیجئے کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی چیز کو پکاریں کہ نہ وه ہم کو نفع پہنچائے اور نہ ہم کو نقصان پہنچائے اور کیا ہم الٹے پھر جائیں اس کے بعد کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کردی ہے، جیسے کوئی شخص ہو کہ اس کو شیطانوں نے کہیں جنگل میں بےراه کردیا ہو اور وه بھٹکتا پھرتا ہو، اس کے کچھ ساتھی بھی ہوں کہ وه اس کو ٹھیک راستہ کی طرف بلا رہے ہوں کہ ہمارے پاس آ*۔ آپ کہہ دیجئے کہ یقینی بات ہے کہ راه راست وه خاص اللہ ہی کی راه ہے** اور ہم کو یہ حکم ہوا ہے کہ ہم پروردگار عالم کے پورے مطیع ہوجائیں۔
____________________
* یہ ان لوگوں کی مثال بیان فرمائی ہے جو ایمان کے بعد کفر اور توحید کے بعد شرک کی طرف لوٹ جائیں۔ ان کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک شخص اپنے ان ساتھیوں سے بچھڑ جائے جو سیدھے راستے پر جارہے ہوں۔ اور بچھڑ جانے والا جنگلوں میں حیران وپریشان بھٹکتا پھر رہا ہو، ساتھی اسے بلا رہے ہوں لیکن حیرانی میں اسے کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو۔ یا جنات کے نرغے میں پھنس جانے کے باعث صحیح راستے کی طرف مراجعت اس کے لئے ممکن نہ رہی ہو۔
**- مطلب یہ ہے کہ کفر وشرک اختیار کرکے جو گمراہ ہوگیا ہے، وہ بھٹکے ہوئے راہی کی طرح ہدایت کی طرف نہیں آسکتا۔ ہاں البتہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ہدایت مقدر کردی ہے تو یقیناً اللہ کی توفیق سے وہ راہ یاب ہوجائے گا۔ کیونکہ ہدایت پر چلا دینا، اسی کا کام ہے۔ جیسے دوسرے مقامات پر فرمایا گیا ”فَإِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ يُضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ“ (النحل: 37) ”اگر تو ان کی ہدایت کی خواہش رکھتا ہے (تو کیا ؟) بےشک اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا، جس کو وہ گمراہ کر دے، اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔“ لیکن یہ ہدایت اور گمراہی اسی اصول کے تحت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے بنایا ہوا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ یوں ہی جسے چاہے گمراہ اور جسے چاہے راہ یاب کرے۔ جیسا کہ اس کی وضاحت متعدد جگہ کی جاچکی ہے۔
اور یہ کہ نماز کی پابندی کرو اور اس سے ڈرو* اور وہی ہے جس کے پاس تم سب جمع کئے جاؤ گے۔
____________________
* ”وَأَنْ أَقِيمُوا“ کا عطف لِنُسْلِمَ پر ہے یعنی ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم رب العالمین کے مطیع ہوجائیں اور یہ کہ ہم نماز قائم کریں اور اس سے ڈریں۔ تسلیم وانقیاد الٰہی کے بعد سب سے پہلا حکم اقامت صلوۃ کا دیا گیا ہے جس سے نماز کی اہمیت واضح ہے اور اس کے بعد تقویٰ کا حکم ہے کہ نماز کی پابندی تقویٰ اور خشوع کے بغیر ممکن نہیں ”وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلا عَلَى الْخَاشِعِينَ“ (البقرة: 45 )
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا* اور** جس وقت اللہ تعالیٰ اتنا کہہ دے گا تو ہوجا بس وه ہو پڑے گا۔ اس کا کہنا حق اور بااﺛر ہے۔ اور ساری حکومت خاص اسی کی ہوگی جب کہ صُور میں پھونک ماری جائے گی*** وه جاننے واﻻ ہے پوشیده چیزوں کا اور ﻇاہر چیزوں کا اور وہی ہے بڑی حکمت واﻻ پوری خبر رکھنے واﻻ۔
____________________
* حق کے ساتھ یا بافائدہ پیدا کیا، یعنی ان کو عبث اور بےفائدہ (کھیل کود کے طور پر) پیدا نہیں کیا، بلکہ ایک خاﺹ مقصد کے لئے کائنات کی تخلیق فرمائی ہے اور وہ یہ کہ اس اللہ کو یاد رکھا اور اس کا شکر ادا کیا جائے جس نے یہ سب کچھ بنایا۔
**- ”يَوْمَ“ فعل محذوف وَاذْكُر یا وَاتَّقُوا کی وجہ سے منصوب ہے۔ یعنی اس دن کو یاد کرو یا اس دن سے ڈرو! کہ اس کے لفظ کن (ہوجا) سے وہ جو چاہے گا، ہوجائے گا۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حساب کتاب کے کٹھن مراحل بھی بڑی سرعت کے ساتھ طے ہوجائیں گے۔ لیکن کن کے لئے؟ ایمان داروں کے لئے۔ دوسروں کو تو یہ دن ہزار سال یا پچاس ہزار سال کی طرح بھاری لگے گا۔
***- ”صُورٌ“ سے مراد وہ نرسنگا یا بگل ہے جس کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ ”اسرافیل اسے منہ میں لئے اور اپنی پیشانی جھکائے، حکم الہیٰ کے منتظر کھڑے ہیں کہ جب انہیں کہا جائے تو اس میں پھونک دیں“۔ (ابن کثیر) ابوداود اور ترمذی میں ہے ”الصور قرن ينفخ فيه“ (نمبر 474۔ 4030، 344) ”صور ایک قرن (نرسنگا) ہے جس میں پھونکا جائے گا“ بعض علماء کے نزدیک تین نفخے ہوں گے، نَفْخَةُ الصَّعْقِ (جس سے تمام لوگ بےہوش ہو جائیں گے) نَفْخَةُ الفَنَاءِ جس سے تمام لوگ فنا ہوجائیں گے۔ نَفْخَةُ الإِنْشَاءِ جس سے تمام انسان دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔ بعض علماء آخری دو نفخوں کے ہی قائل ہیں۔
اور وه وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر* سے فرمایا کہ کیا تو بتوں کو معبود قرار دیتا ہے؟ بےشک میں تجھ کو اور تیری ساری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھتا ہوں۔
____________________
* مورخین حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے باپ کے دو نام ذکر کرتے ہیں، آزر اور تارخ۔ ممکن ہے دوسرا نام لقب ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ آزر آپ کے چچا کا نام تھا۔ لیکن یہ صحیح نہیں، اس لئے کہ قرآن نے آزر کو حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے باپ کے طور پر ذکر کیا ہے، لہٰذا یہی صحیح ہے۔
اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھلائیں اور تاکہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔*
____________________
* ”مَلَكُوتٌ“ مبالغہ کا صیغہ ہے جیسے رغبہ سے رَغَبُوتٌ اور رَهْبَةٌ سے رَهَبُوتٌ اس سے مراد مخلوقات ہے، جیسا کہ ترجمہ میں یہی مفہوم اختیار کیا گیا ہے۔ یا ربوبیت والوہیت ہے یعنی ہم نے اس کو یہ دکھلائی اور اس کی معرفت کی توفیق دی۔ یا یہ مطلب ہے کہ عرش سے لے کر اسفل ارض تک کا ہم نے ابراہیم (عليه السلام) کو مکاشفہ ومشاہدہ کرایا۔ (فتح القدیر)
پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستاره دیکھا آپ نے فرمایا کہ یہ میرا رب ہے مگر جب وه غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ میں غروب ہوجانے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔*
____________________
* یعنی غروب ہونے والے معبودوں کو پسند نہیں کرتا، اس لئے کہ غروب، تغیر حال پر دلالت کرتا ہے جو حادث ہونے کی دلیل ہے اور جو حادث ہو معبود نہیں ہوسکتا۔
پھر جب چاند کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے لیکن جب وه غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھ کو میرے رب نے ہدایت نہ کی تو میں گمراه لوگوں میں شامل ہوجاؤں گا۔
پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ* یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وه بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا بےشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔**
____________________
* ”شَمْسٌ“ (سورج) عربی میں مونث ہے۔ لیکن اسم اشارہ مذکر ہے۔ مراد الطالع ہے یعنی یہ طلوع ہونے والا سورج، میرا رب ہے۔ کیونکہ یہ سب سے بڑا ہے۔ جس طرح کہ سورﺝ پرستوں کو مغالطہ لگا اور وہ اس کی پرستش کرتے ہیں۔ (اجرام سماویہ میں سورج سب سے بڑا اور سب سے زیادہ روشن ہے اور انسانی زندگی کے بقا ووجود کے لئے اس کی اہمیت وافادیت محتاج وضاحت نہیں۔ اسی لئے مظاہر پرستوں میں سورج کی پرستش عام رہی ہے حضرت ابراہیم (عليه السلام) نے نہایت لطیف پیرائے میں چاند سورج کے پجاریوں پر ان کے معبودوں کی بے حیثیتی کو واضح فرمایا۔
**- یعنی ان تمام چیزوں سے، جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو، میں بیزار ہوں۔ اس لئے کہ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے، کبھی طلوع ہوتے، کبھی غروب ہوتے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مخلوق ہیں اور ان کا خالق کوئی اور ہے جس کے حکم کے یہ تابع ہیں۔ جب یہ خود مخلوق اور کسی کے تابع ہیں تو کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر کس طرح قادر ہوسکتے ہیں؟ مشہور ہے کہ اس وقت کے بادشاہ نمرود نے اپنے ایک خواب اور کاہنوں کی تعبیر کی وجہ سے نو مولود لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا، حضرت ابراہیم (عليه السلام) بھی ان ہی ایام میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے انہیں ایک غار میں رکھا گیا تاکہ نمرود اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جائیں۔ وہیں غار میں جب کچھ شعور آیا اور چاند سورﺝ دیکھے تو یہ تاثرات ظاہر فرمائے، لیکن یہ غار والی بات مستند نہیں ہے۔ قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سے گفتگو اور مکالمے کے وقت حضرت ابراہیم (عليه السلام) نے یہ باتیں کی ہیں، اسی لئے آخر میں قوم سے خطاب کرکے فرمایا کہ میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے بیزار ہوں۔ اور مقصد اس مکالمے سے معبودان باطل کی اصل حقیقت کی وضاحت تھی۔
میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں* جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
____________________
* رخ یا چہرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ چہرے سے ہی انسان کی اصل شناخت ہوتی ہے، مراد اس سے شخص ہی ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میری عبادت اور توحید سے مقصود، اللہ عزوجل ہے جو آسمان وزمین کا خالق ہے۔
اور ان سے ان کی قوم نے حجت کرنا شروع کیا*، آپ نے فرمایا کیا تم اللہ کے معاملہ میں مجھ سے حجت کرتے ہو حاﻻنکہ اس نے مجھ کو طریقہ بتلا دیا ہے اور میں ان چیزوں سے جن کو تم اللہ کے ساتھ شریک بناتے ہو نہیں ڈرتا ہاں اگر میرا پروردگار ہی کوئی امر چاہے میرا پروردگار ہر چیز کو اپنے علم میں گھیرے ہوئے ہے، کیا تم پھر بھی خیال نہیں کرتے۔
____________________
* جب قوم نے توحید کا یہ وعظ سنا جس میں ان کے خود ساختہ معبودوں کی تردید بھی تھی تو انہوں نے بھی اپنے دلائل دینے شروع کئے۔ جس سے معلوم ہوا کہ مشرکین نے بھی اپنے شرک کے لئے کچھ نے کچھ دلائل تراش رکھے تھے۔ جس کا مشاہدہ آﺝ بھی کیا جاسکتا ہے۔ جتنے بھی مشرکانہ عقائد رکھنے والے گروہ ہیں، سب نے اپنے اپنے عوام کو مطمئن کرنے اور رکھنے کے لئے ایسے (سہارے) تلاش کر رکھے ہیں جن کو وہ (دلائل) سمجھتے ہیں یا جن سے کم از کم دام تزویر میں پھنسے ہوئے عوام کو جال میں پھنسائے رکھا جاسکتا ہے۔
اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے حاﻻنکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی، سو ان دو جماعتوں میں سے امن کا زیاده مستحق کون ہے* اگر تم خبر رکھتے ہو۔
____________________
* یعنی مومن اور مشرک میں سے؟ مومن کے پاس تو توحید کے بھرپور دلائل ہیں، جب کہ مشرک کے پاس اللہ کی اتاری ہوئی دلیل کوئی نہیں، صرف اوہام باطلہ ہیں یا دور ازکار تاویلات۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امن اور نجات کا مستحق کون ہوگا؟
جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے، ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راه راست پر چل رہے ہیں۔*
____________________
* آیت میں یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ (رضي الله عنهم) نے ظلم کا عام مطلب (کوتاہی، غلطی، گناہ، زیادتی وغیرہ) سمجھا، جس سے وہ پریشان ہوگئے اور رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں آ کر کہنے لگے أَيُّنَا لَمْ يَظْلِمْ نَفْسَه ہم میں سے کون شخص ایسا ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا اس سے وہ ظلم مراد نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ اس سے مراد شرک ہے۔ جس طرح حضرت لقمان (عليه السلام) نے اپنے بیٹے کو کہا تھا ”إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ“ (لقمان: 13) ”یقیناً شرک ظلم عظیم ہے“۔ (صحيح بخاري، تفسير سورة الأنعام)۔
اور یہ ہماری حجت تھی وه ہم نے ابراہیم* (علیہ السلام) کو ان کی قوم کے مقابلے میں دی تھی ہم جس کو چاہتے ہیں مرتبوں میں بڑھا دیتے ہیں۔ بےشک آپ کا رب بڑا حکمت واﻻ بڑا علم واﻻ ہے۔
____________________
* یعنی توحید الٰہی پر ایسی حجت اور دلیل، جس کا کوئی جواب ابراہیم (عليه السلام) کی قوم سے نہ بن پڑا۔ اور وہ بعض کے نزدیک یہ قول تھا، ”وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالأَمْنِ“ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے اس قول کی تصدیق فرمائی اور کہا «الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ»۔
اور ہم نے ان کو اسحاق دیا اور یعقوب* ہر ایک کو ہم نے ہدایت کی اور پہلے زمانہ میں ہم نے نوح کو ہدایت کی اور ان کی اوﻻد میں سے** داؤد کو اور سلیمان کو اور ایوب کو اور یوسف کو اور موسیٰ کو اور ہارون کو اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔
____________________
* یعنی بڑھاپے میں، جب کہ وہ اولاد سے ناامید ہوگئے تھے، جیسا کہ سورۂ ہود، آیت 73،72 میں ہے، پھر بیٹے کے ساتھ ایسے پوتے کی بھی بشارت دی جو یعقوب (عليه السلام) ہوگا، جس کے معنی میں یہ مفہوم شامل ہے کہ اس کے بعد ان کی اولاد کا سلسلہ چلے گا، اس لئے کہ یہ عقب (پیچھے) سے مشتق ہے۔
**- ”ذُرِّيَّتِهِ“ میں ضمیر کا مرجع بعض مفسرین نے حضرت نوح (عليه السلام) کو قرار دیا ہے کیونکہ وہی اقرب ہیں۔ یعنی حضرت نوح (عليه السلام) کی اولاد میں سے داود اور سلیمان علیہما السلام کو۔ اور بعض نے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کو۔ اس لئے کہ ساری گفتگو ان ہی کے ضمن میں ہو رہی ہے۔ لیکن اس صورت میں یہ اشکال پیش آتا ہے کہ پھر لوط (عليه السلام) کا ذکر اس فہرست میں نہیں آنا چاہیئے تھا کیونکہ وہ ذریت ابراہیم (عليه السلام) میں سے نہیں ہیں۔ وہ ان کے بھائی ہاران بن آزر کے بیٹے یعنی ابراہیم (عليه السلام) کے بھتیجے ہیں۔ اور ابراہیم (عليه السلام)، لوط (عليه السلام) کے باپ نہیں، چچا ہیں۔ لیکن بطور تغلیب انہیں بھی ذریت ابراہیم (عليه السلام) میں شمار کر لیا گیا ہے۔ اس کی ایک اور مثال قرآن مجید میں ہے۔ جہاں حضرت اسماعیل (عليه السلام) کو اولاد یعقوب (عليه السلام) کے آبا میں شمار کیا گیا ہے جب کہ وہ ان کے چچا تھے۔ (دیکھیے سورۂ بقرۃ آیت 133)
اور (نیز) زکریا کو اور یحيٰ کو اور عیسیٰ* کو اور الیاس کو، سب نیک لوگوں میں سے تھے۔
____________________
* عیسیٰ (عليه السلام) کا ذکر حضرت نوح (عليه السلام) یا حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی اولاد میں اس لئے کیا گیا ہے (حالانکہ ان کا باپ نہیں تھا) کہ لڑکی کی اولاد بھی ذریت رجال میں ہی شمار ہوتی ہے۔ جس طرح نبی (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت حسن (رضي الله عنه) (اپنی بیٹی حضرت فاطمہ (رضی الله عنها) کے صاحبزادے) کو اپنا بیٹا فرمایا ”إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللهَ أنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ، مِنَ الْمُسْلِمِينَ“ صحيح بخاري، كتاب الصلح، باب قول النبي للحسن بن علي، ابني هذا سيد ( تفصیل کے لئے دیکھیئے تفسیر ابن کثیر)
اور نیز اسماعیل کو اور یسع کو اور یونس کو اور لوط کو اور ہر ایک کو تمام جہان والوں پر ہم نے فضیلت دی۔
اور نیز ان کے کچھ باپ دادوں کو اور کچھ اوﻻد کو اور کچھ بھائیوں کو*، اور ہم نے ان کو مقبول بنایا اور ہم نے ان کو راه راست کی ہدایت کی۔
____________________
آباء سے اصول اور ذریات سے فروع مراد ہیں۔ یعنی ان کے اصول وفروع اور اخوان میں سے بھی بہت سوں کو ہم نے مقام اجتبا اور ہدایت سے نوازا اجْتِبَاءٌ کے معنی ہیں چن لینا اور اپنے خاﺹ بندوں میں شمار کرنا اور ان کے ساتھ ملا لینا۔ یہجَبَيْتُ الْمَاءَ فِي الحَوْضِ( میں نے حوض میں پانی جمع کرلیا) سے مشتق ہے۔ پس اجْتِبَاءٌکا مطلب ہوا اپنے خاص بندوں میں ملا لینا۔اصْطِفَاءٌتخلیص اور اختیار بھی اسی معنی میں مستعمل ہے۔ جس کا مفعول مصطفیٰ (مجتبیٰ) مخلص اور مختار ہے۔ (فتح القدیر)
اللہ کی ہدایت ہی ہے جس کے ذریعے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس کی ہدایت کرتا ہے اور اگر فرضاً یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وه سب اکارت ہوجاتے۔*
____________________
* اٹھارہ انبیاء کے اسمائے گرامی ذکر کرکے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے، اگر یہ حضرات بھی شرک کا ارتکاب کرلیتے تو ان کے سارے اعمال برباد ہوجاتے۔ جس طرح دوسرے مقام پر نبی (صلى الله عليه وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ“ (الزمر: 65) ”اے پیغمبر! اگر تو نے بھی شرک کیا تو تیرے سارے عمل برباد ہوجائیں گے“۔ حالانکہ پیغمبروں سے شرک کا صدور ممکن نہیں۔ مقصد امتوں کو شرک کی خطرناکی اور ہلاکت خیزی سے آگاہ کرنا ہے۔
یہ لوگ ایسے تھے کہ ہم نے ان کو کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی تھی سو اگر یہ لوگ نبوت کا انکار کریں* تو ہم نے اس کے لئے ایسے بہت سے لوگ مقرر کردیئے ہیں جو اس کے منکر نہیں ہیں۔*
____________________
* اس سے مراد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے مخالفین، مشرکین اور کفار ہیں۔
**- اس سے مراد مہاجرین وانصار اور قیامت تک آنے والے ایماندار ہیں۔
یہی لوگ ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی، سو آپ بھی ان ہی کے طریق پر چلیئے* آپ کہہ دیجیئے کہ میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں چاہتا** یہ تو صرف تمام جہان والوں کے واسطے ایک نصیحت ہے۔***
____________________
* اس سے مراد انبیا مذکورین ہیں۔ ان کی اقتدا کا حکم مسئلہ توحید میں اور ان احکام وشرائع میں ہے جو منسوخ نہیں ہوئے۔ (فتح القدیر) کیونکہ اصول دین تمام شریعتوں میں ایک ہی رہے ہیں، گو شرائع اور مناہج میں کچھ کچھ اختلاف رہا۔ جیسا کہ آیت ”شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا“ (الشورى: 3) سے واضح ہے۔
**- یعنی تبلیغ ودعوت کا، کیونکہ مجھے اس کا وہ صلہ ہی کافی ہے جو آخرت میں عنداللہ ملے گا۔
***- جہان والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ پس یہ قرآن انہیں کفر وشرک کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی عطا کرے گا اور ضلالت کی پگڈنڈیوں سے نکال کر ایمان کی صراط مستقیم پر گامزن کردے گا۔ بشرطیکہ کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہے، ورنہ ع دیدۂ کور کو کیا نظر آئے کیا دیکھیے۔ والا معاملہ ہوگا۔
اور ان لوگوں نے، اللہ کی جیسی قدر کرنا واجب تھی ویسی قدر نہ کی جب کہ یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی* آپ یہ کہیئے کہ وه کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ ﻻئے تھے جس کی کیفیت یہ ہے کہ وه نور ہے اور لوگوں کے لئے وه ہدایت ہے جس کو تم نے ان متفرق اوراق میں رکھ چھوڑا** ہے جن کو ﻇاہر کرتے ہو اور بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو اور تم کو بہت سی ایسی باتیں بتائی گئی ہیں جن کو تم نہ جانتے تھے اور نہ تمہارے بڑے***۔ آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ نے نازل فرمایا ہے**** پھر ان کو ان کے خرافات میں کھیلتے رہنے دیجیئے۔
____________________
* قَدَرٌکے معنی اندازہ کرنے کے ہیں اور یہ کسی چیز کی اصل حقیقت جاننے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ مشرکین مکہ ارسال رسل اور انزال کتب کا انکار کرتے ہیں، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ انہیں اللہ کی صحیح معرفت ہی حاصل نہیں ورنہ وہ ان چیزوں کا انکار نہ کرتے۔ علاوہ ازیں اسی عدم معرفت الٰہی کی وجہ سے وہ نبوت و رسالت کی معرفت سے بھی قاصر رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ کسی انسان پر اللہ کا کلام کس طرح نازل ہوسکتا ہے؟ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا «أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ» (يونس:20) ”کیا یہ بات لوگوں کے لئے باعث تعجب ہے کہ ہم نے ان ہی میں سے ایک آدمی پر وحی نازل کرکے اسے لوگوں کو ڈرانے پر مامور کر دیا ہے؟“ دوسرے مقام پر فرمایا «وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَسُولا» (بني إسرائيل: 94) ”ہدایت آجانے کے بعد لوگ اسے قبول کرنے سے اس لئے رک گئے کہ انہوں نے کہا کہ کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا ہے؟“ اس کی کچھ تفصیل اس سے قبل آیت نمبر 8 کے حاشیے میں بھی گزرچکی ہے۔ آیت زیر وضاحت میں بھی انہوں نے اپنے اسی خیال کی بنیاد پر اس بات کی نفی کی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی کتاب نازل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ایسی بات ہے تو ان سے پوچھو! موسیٰ (عليه السلام) پر تورات کس نے نازل کی تھی؟ (جس کو یہ بھی مانتے ہیں)
**- آیت کی مذکورہ تفسیر کے مطابق اب یہود سے خطاب کرکے کہا جا رہا ہے کہ تم اس کتاب کو متفرق اوراق میں رکھتے ہو جن میں سے جس کو چاہتے ہو، ظاہر کردیتے ہو اور جن کو چاہتے ہو، چھپا لیتے ہو۔ جیسے رجم کا مسئلہ یا نبی (صلى الله عليه وسلم) کی صفات کا مسئلہ ہے۔ حافظ ابن کثیر اور امام ابن جریر طبری وغیرہ نے: ”يَجْعَلُونَهُ“، اور ”يُبْدُونَهَا“ صیغہ غائب کے ساتھ والی قرات کو ترجیح دی ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ یہ مکی آیت ہے، اس میں یہود سے خطاب کس طرح ہوسکتا ہے؟ اور بعض مفسرین نے پوری آیت کو ہی یہود سے متعلق قرار دیا ہے اور اس میں سرے سے نبوت ورسالت کا جو انکار ہے اسے یہود کی ہٹ دھرمی، ضد اور عناد پر مبنی قول قرار دیا ہے۔ گویا اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی تین رائے ہیں۔ ایک پوری آیت کو یہود سے، دوسرے پوری آیت کو مشرکین سے متعلق اور تیسرے آیت کے ابتدائی حصے کو مشرکین سے متعلق اور ”تَجْعَلُونَهُ“ سے یہود سے متعلق قرار دیتے ہیں۔وَاللهُ أَعْلَمُ.
***- یہود سے متعلق ماننے کی صورت میں اس کی تفسیر ہوگی کہ تورات کے ذریعے سے تمہیں بتائی گئیں، بصورت دیگر قرآن کے ذریعے سے۔
****- یہ ”مَنْ أَنْزَلَ“ (کس نے اتارا) کا جواب ہے۔
اور یہ بھی ایسی ہی کتاب ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے جو بڑی برکت والی ہے، اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور تاکہ آپ مکہ والوں کو اور آس پاس والوں کو ڈرائیں۔ اور جو لوگ آخرت کا یقین رکھتے ہیں ایسے لوگ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور وه اپنی نماز پر مداومت رکھتے ہیں۔
اور اس شخص سے زیاده کون ﻇالم ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ تہمت لگائے یا یوں کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حاﻻنکہ اس کے پاس کسی بات کی بھی وحی نہیں آئی اور جو شخص یوں کہے کہ جیسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے اسی طرح کا میں بھی ﻻتا ہوں اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ﻇالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو۔ آج تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی* اس سبب سے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے، اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کرتے تھے۔**
____________________
* ظالم سے مراد ہر ظالم ہے اور اس میں کتاب الٰہی کا انکار کرنے والے اور جھوٹے مدعیان نبوت سب سے پہلے شامل ہیں۔ غَمَرَاتٌ سے موت کی سختیاں مراد ہیں۔ ”فرشتے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے“ یعنی جان نکالنے کے لئے۔ الْيَوْمَ (آﺝ) سے مراد قبض روح کا دن ہے اور یہی عذاب کے آغاز کا وقت بھی ہے جس کا مبدا قبر ہے۔ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب قبر برحق ہے۔ ورنہ ہاتھ پھیلانے اور جان نکالنے کا حکم دینے کے ساتھ اس بات کے کہنے کے کوئی معنی نہیں کہ آﺝ تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ خیال رہے قبر سے مراد برزخ کی زندگی ہے۔ یعنی دنیا کی زندگی کے بعد اور آخرت کی زندگی سے قبل، یہ ایک درمیان کی زندگی ہے جس کا عرصہ انسان کی موت سے قیامت کے وقوع تک ہے۔ یہ برزخی زندگی کہلاتی ہے. چاہے اسے کسی درندے نے کھا لیا ہو، اس کی لاش سمندر کی موجوں کی نذر ہوگئی ہو یا اسے جلا کر راکھ بنا دیا گیا یا قبر میں دفنا دیا گیا ہو۔ یہ برزخ کی زندگی ہے جس میں عذاب دینے پر اللہ تعالیٰ قادر ہے۔
**- اللہ کے ذمے جھوٹی باتیں لگانے میں انزال کتب اور ارسال رسل کا انکار بھی ہے اور جھوٹا دعوائے نبوت بھی ہے۔ اسی طرح نبوت ورسالت کا انکار واستکبار ہے۔ ان دنوں وجوہ سے انہیں ذلت ورسوائی کا عذاب دیا جائے گا۔
اور تم ہمارے پاس تنہا تنہا آگئے* جس طرح ہم نے اول بار تم کو پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا اس کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے اور ہم تو تمہارے ہمراه تمہارے ان شفاعت کرنے والوں کو نہیں دیکھتے جن کی نسبت تم دعویٰ رکھتے تھے کہ وه تمہارے معاملے میں شریک ہیں۔ واقعی تمہارے آپس میں تو قطع تعلق ہوگیا اور وه تمہارا دعویٰ سب تم سے گیا گزرا ہوا۔
____________________
* فُرَادَى فَرْدٌ کی جمع ہے جس طرح سُكَارَى سَكْرَانٌ کی اور كُسَالَى كَسْلانٌ کی جمع ہے۔ مطلب ہے کہ تم علیحدہ علیحدہ ایک ایک کرکے میرے پاس آؤ گے۔ تمہارے ساتھ نہ مال ہوگا نہ اولاد اور نہ وہ معبود، جن کو تم نے اللہ کا شریک اور اپنا مددگار سمجھ رکھا تھا۔ یعنی ان میں سے کوئی چیز بھی تمہیں فائدہ پہنچانے پر قادر نہ ہوگی۔ اگلے جملوں میں ان ہی امور کی مزید وضاحت ہے۔
بےشک اللہ تعالیٰ دانہ کو اور گٹھلیوں کو پھاڑنے واﻻ ہے*، وه جاندار کو بے جان سے نکال ﻻتا ہے** اور وه بے جان کو جاندار سے نکالنے واﻻ ہے*** اللہ تعالیٰ یہ ہے، سو تم کہاں الٹے چلے جا رہے ہو۔
____________________
* یہاں سے اللہ تعالیٰ کی بےمثل قدرت اور کاریگری کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ فرمایا: ۔ اللہ تعالیٰ دانے (حب) اور گٹھلی (نواة، جمع نوى) کو، جسے کاشت کار زمین کی تہہ میں دبا دیتا ہے، پھاڑ کر اس سے انواع واقسام کے درخت پیدا فرماتا ہے۔ زمین ایک ہوتی ہے، پانی بھی، جس سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں، ایک ہی ہوتا ہے، لیکن جس جس چیز کے وہ دانے یا گٹھلیاں ہوتی ہیں۔ اس کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ مختلف قسم کے غلوں اور پھلوں کے درخت ان سے پیدا فرما دیتا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا بھی، کوئی ہے، جو یہ کام کرتا ہو یا کرسکتا ہو؟
**- یعنی دانے اور گٹھلیوں سے درخت اگا دیتا ہے جس میں زندگی ہوتی ہے اور وہ بڑھتا، پھیلتا اور پھل یا غلہ دیتا ہے یا وہ خوشبودار، رنگ برنگ کے پھول ہوتے ہیں جن کو دیکھ یا سونگھ کر انسان فرحت وانبساط محسوس کرتا یا نطفے اور انڈے سے انسان اور حیوانات پیدا کرتا ہے۔
***- یعنی حیوانات سے انڈے، جو مردہ کے حکم میں ہیں۔ حی اور میت کی تعبیر مومن اور کافر سے بھی کی گئی ہے، یعنی مومن کے گھر میں کافر اور کافر کے گھر میں مومن پیدا کردیتا ہے۔
وه صبح کا نکالنے واﻻ ہے* اور اس نے رات کو راحت کی چیز بنا یا ہے** اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے***۔ یہ ٹھہرائی بات ہے ایسی ذات کی جو کہ قادر ہے بڑے علم واﻻ ہے۔
____________________
* اندھیرے اور روشنی کا خالق بھی وہی ہے۔ وہ رات کی تاریکی سے صبح روشن پیدا کرتا ہے جس سے ہر چیز روشن ہوجاتی ہے۔
**- یعنی رات کو تاریکیوں میں بدل دیتا ہے تاکہ لوگ روشنی کی تمام مصروفیات ترک کرکے آرام کرسکیں۔
***- یعنی دونوں کے لئے ایک حساب بھی مقدر ہے جس میں کوئی تغیر واضطراب نہیں ہوتا، بلکہ دونوں کی اپنی اپنی منزلیں ہیں، جن پر وہ گرمی اور سردی میں رواں رہتے ہیں، جس کی بنیاد پر سردی میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی اور گرمی میں اس کے برعکس دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہوجاتی ہیں۔ جس کی تفصیل سورۂ یونس 5، سورۃ یٰسین 40 اور سورۂ اعراف 54 میں بھی بیان کی گئی ہے۔
اور وه ایسا ہے جس نے تمہارے لئے ستاروں کو پیدا کیا، تاکہ تم ان کے ذریعہ سے اندھیروں میں، خشکی میں اور دریا میں بھی راستہ معلوم کرسکو*۔ بےشک ہم نے دﻻئل خوب کھول کھول کر بیان کردیئے ہیں ان لوگوں کے لئے جو خبر رکھتے ہیں۔
____________________
* ستاروں کا یہاں یہ ایک اور فائدہ اور مقصد بیان کیا گیا ہے، ان کے دو مقصد اور ہیں جو دوسرے مقام پر بیان کئے گئے ہیں۔ آسمانوں کی زینت اور شیطانوں کی مرمت۔ رُجُمًا للشَّيَاطِينِ۔ یعنی شیطان آسمان پر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ان پر شعلہ بن کر گرتے ہیں۔ بعض سلف کا قول ہے ”مَن اعْتَقَدَ فِي هَذِهِ النُّجُومِ غَيْرَ ثَلاثِ، فقد أَخْطَأَ وكَذَبَ عَلَى اللهِ“ ان تین باتوں کے علاوہ ان ستاروں کے بارےمیں اگر کوئی شخص کوئی اور عقیدہ رکھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں جو علم نجوم کا چرچا ہے جس میں ستاروں کے ذریعے سے مستقبل کے حالات اور انسانی زندگی یا کائنات میں ان کے اثرات بتانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ بے بنیاد بھی ہے اور شریعت کے خلاف بھی۔ چنانچہ ایک حدیث میں اسے جادو ہی کا ایک شعبہ (حصہ) بتلایا گیا ہے۔ ”مَنِ اقْتَبَسَ عِلْمَاً مِنَ النُّجُومِ اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ“ (حسنه الألباني صحيح أبي داود رقم 3905)
اور وه ایسا ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا پھر ایک جگہ زیاده رہنے کی ہے اور ایک جگہ چندے، رہنے کی* بےشک ہم نےدﻻئل خوب کھول کھول کر بیان کردیئے ان لوگوں کے لئے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔
____________________
* اکثر مفسرین کے نزدیک مُسْتَقَرٌّسے رحم مادر اور مُسْتَوْدَعٌ سے صلب پدر مراد ہے۔ (فتح القدیر، ابن کثیر)
اور وه ایسا ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہر قسم کے نبات کو نکالا* پھر ہم نے اس سے سبز شاخ نکالی** کہ اس سے ہم اوپر تلے دانے چڑھے ہوئے نکالتے ہیں*** اور کھجور کے درختوں سے یعنی ان کے گپھے میں سے، خوشے ہیں جو نیچے کو لٹکے جاتے ہیں**** اور انگوروں کے باغ اور زیتون***** اور انار کہ بعض ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوتے ہیں اور کچھ ایک دوسرے سے ملتے جلتے نہیں ہوتے******۔ ہر ایک کے پھل کو دیکھو جب وه پھلتا ہے اور اس کے پکنے کو دیکھو ان میں دﻻئل ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں۔*******
____________________
* یہاں سے اس کی ایک اور عجیب صنعت (کاریگری) کا بیان ہو رہا ہے یعنی بارش کا پانی۔ جس سے وہ ہر قسم کے درخت پیدا فرماتا ہے۔
**- اس سے مراد وہ سبز شاخیں اور کونپلیں ہیں جو زمین میں دبے ہوئے دانے سے اللہ تعالیٰ زمین کے اوپر ظاہر فرماتا ہے، پھر وہ پودا یا درخت نشوونما پاتا ہے۔
***- یعنی ان سبز شاخوں سے ہم اوپر تلے دانے چڑھے ہوئے نکالتے ہیں۔ جس طرح گندم اور چاول کی بالیاں ہوتی ہیں۔ مراد یہ سب غلہ جات ہیں مثلاً جو، جوار، باجرہ، مکئی، گندم اور چاول وغیرہ۔
****- قِنْوَانٌ قِنْوٌ کی جمع ہے جیسے صِنْوٌ اورصِنْوَانٌ ہے۔ مراد خوشے ہیں۔ طَلْعٌ وہ گابھا یا گپھا ہے جو کھجور کی ابتدائی شکل ہے، یہی بڑھ کر خوشہ بنتا ہے اور پھر وہ رطب کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ دَانِيَةٌ سے مراد وہ خوشے ہیں جو قریب ہوں۔ اور کچھ خوشے دور بھی ہوتے ہیں جن تک ہاتھ نہیں پہنچتے۔ بطور امتنان دانية کا ذکر فرما دیا ہے، مطلب ہے۔ مِنْهَا دَانِيَةٌ وَمِنْهَا بَعِيدَةٌ (کچھ خوشے قریب ہیں اور کچھ دور) بَعِيدَةٌ حذوف ہے۔ (فتح القدیر )
*****- جنات زیتون اور رمان یہ سب منصوب ہیں، جن کا عطف نبات پر ہے۔ یعنی فَأَخْرَجْنَا بِهِ جَنَّاتٍ یعنی بارش کے پانی سے ہم نے انگوروں کے باغات اور زیتوں اور انار پیدا کئے۔
******- یعنی بعض اوصاف میں یہ باہم ملتے جلتے ہیں اور بعض میں ملتے جلتے نہیں ہیں۔ یا ان کے پتے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ پھل نہیں ملتے، یا شکل میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں لیکن مزے اور ذائقے میں باہم مختلف ہیں۔
*******- یعنی مذکورہ تمام چیزوں میں خالق کائنات کے کمال قدرت اور اس کی حکمت ورحمت کے دلائل ہیں۔
اور لوگوں نے شیاطین کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دے رکھا ہے حاﻻنکہ ان لوگوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے اور ان لوگوں نے اللہ کے حق میں بیٹے اور بیٹیاں بلا سند تراش رکھی ہیں اور وه پاک اور برتر ہے ان باتوں سے جو یہ کرتے ہیں۔
وه آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اللہ تعالیٰ کے اوﻻد کہاں ہوسکتی ہے حاﻻنکہ اس کے کوئی بیوی تو ہے نہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا* اور وه ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔
____________________
* یعنی جس طرح اللہ تعالی ان تمام چیزوں کے پیدا کرنےمیں واحد ہے، کوئی اس کا شریک نہیں۔ اسی طرح وہ اس لائق ہے کہ اس اکیلے کی عبادت کی جائے، عبادت میں کسی اور کو شریک نہ بنایا جائے۔ لیکن لوگوں نے اس ذات واحد کو چھوڑ کر جنوں کو اس کا شریک بنا رکھا ہے، حالانکہ وہ خود اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ مشرکین عبادت تو بتوں کی یا قبروں میں مدفون اشخاﺹ کی کرتے ہیں لیکن یہاں کہا گیا ہے کہ انہوں نے جنات کو اللہ کا شریک بنایا ہوا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جنات سے مراد شیاطین ہیں اور شیاطین کے کہنے سے ہی شرک کیا جاتا ہے اس لئے گویا شیطان ہی کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے مثلا سورۂ نساء: 117، سورۂ مریم: 44، سورۂ یٰسین: 60، سورۂ سبا: 41۔
یہ ہے اللہ تعالیٰ تمہارا رب! اس کے سوا کوئی عبادت کے ﻻئق نہیں، ہر چیز کا پیدا کرنے واﻻ ہے، تو تم اس کی عبادت کرو اور وه ہر چیز کا کارساز ہے۔
اس کو تو کسی کی نگاه محیط نہیں ہوسکتی* اور وه سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے۔
____________________
* أَبْصَارٌ بَصَرَةٌ (نگاہ) کی جمع ہے یعنی انسان کی آنکھیں اللہ کی حقیقت کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اور اگر اس سے مراد رؤیت بصری ہو تو اس کا تعلق دنیا سے ہوگا یعنی دنیا کی آنکھ سے کوئی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ تاہم یہ صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے کہ قیامت والے دن اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی اس کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ اس لئے معتزلہ کا اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا، دنیا میں نہ آخرت میں، صحیح نہیں، کیونکہ اس نفی کا تعلق صرف دنیا سے ہے۔ اسی لئے حضرت عائشہ (رضی الله عنها) بھی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتی تھیں، ”جس شخص نے بھی دعویٰ کیا کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے (شب معراﺝ میں) اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے، اس نے قطعاً جھوٹ بولا ہے“۔ (صحيح بخاري، تفسير سورة الأنعام) کیونکہ اس آیت کی رو سے پیغمبر سمیت کوئی بھی اللہ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہے۔ البتہ آخرت کی زندگی میں یہ دیدار ممکن ہوگا۔ جیسے دوسرے مقام پر قرآن نے اس کا اثبات فرمایا۔ «وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ، إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ» (القيامة) ”کئی چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔“
اب بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق بینی کے ذرائع پہنچ چکے ہیں سو جو شخص دیکھ لے گا وه اپنا فائده کرے گا اور جو شخص اندھا رہے گا وه اپنا نقصان کرے گا*، اور میں تمہارا نگران نہیں ہوں۔**
____________________
* بَصَائِرُ بَصِيرَةٌ کی جمع ہے۔ جو اصل میں دل کی روشنی کا نام ہے۔ یہاں مراد وہ دلائل وبراہین ہیں جو قرآن نے جگہ جگہ اور بار بار بیان کئے ہیں اور جنہیں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی ان احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ جو ان دلائل کو دیکھ کر ہدایت کا راستہ اپنالے گا، اس میں اسی کا فائدہ ہے، نہیں اپنائے گا، تو اسی کا نقصان ہے۔ جیسے فرمایا «مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا» ( بنی اسرائیل: 15) اس کا مطلب بھی وہی ہے جو زیروضاحت آیت کا ہے۔
**- بلکہ صرف مبلغ، داعی اور بشیر ونذیر ہوں۔ راہ دکھلانا میرا کام ہے، راہ پر چلا دینا یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔
اور ہم اس طور پر دﻻئل کو مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں تاکہ یہ یوں کہیں کہ آپ نے کسی سے پڑھ لیا ہے* اور تاکہ ہم اس کو دانشمندوں کے لئے خوب ﻇاہر کردیں۔
____________________
* یعنی ہم توحید اور اس کے دلائل کو اس طرح کھول کھول کر اور مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں کہ مشرکین یہ کہنے لگتے ہیں کہ محمد (صلى الله عليه وسلم) کہیں سے پڑھ کر اور سیکھ کر آیا ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: «وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا، وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا» (الفرقان: 4۔ 5) ”کافروں نے کہا، یہ قرآن تو اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، جس پر دوسروں نے بھی اس کی مدد کی ہے۔ یہ لوگ ایسا دعویٰ کرکے ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں۔ نیز انہوں نے کہا کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، جس کو اس نے لکھ رکھا ہے“۔ حالانکہ بات یہ نہیں ہے، جس طرح یہ سمجھتے یا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ مقصد اس تفصیل سے سمجھ دار لوگوں کے لئے تبیین وتشریح ہے تاکہ ان پر حجت پوری ہوجائے۔
آپ خود اس طریق پر چلتے رہئے جس کی وحی آپ کے رب تعالیٰ کی طرف سے آپ کے پاس آئی ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ﻻئق عبادت نہیں اور مشرکین کی طرف خیال نہ کیجئے۔
اور اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو یہ شرک نہ کرتے* اور ہم نے آپ کو ان کا نگران نہیں بنایا۔ اور نہ آپ ان پر مختار ہیں!**
____________________
* اس نکتے کی وضاحت پہلے کی جاچکی ہے کہ اللہ کی مشیت اور چیز ہے اور اس کی رضا اور، اس کی رضا تو اسی میں ہے کہ اس کے ساتھ شرک نہ کیا جائے۔ تاہم اس نے اس پر انسانوں کو مجبور نہیں کیا کیونکہ جبر کی صورت میں انسان کی آزمائش نہ ہوتی، ورنہ اللہ تعالیٰ کے پاس تو ایسے اختیارات ہیں کہ وہ چاہے تو کوئی انسان شرک کرنے پر قادر ہی نہ ہو سکے۔ (مزید دیکھیئے سورہ بقرۃ آیت 253 اور سورۃ الانعام آیت 35 کا حاشیہ)
**- یہ مضمون بھی قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مقصد نبی (صلى الله عليه وسلم) کی داعیانہ اور مبلغانہ حیثیت کی وضاحت ہے جو منصب رسالت کا تقاضا ہے اور آپ صرف اسی حد تک مکلف تھے۔ اس سے زیادہ آپ کے پاس اگر اختیارات ہوتے تو آپ اپنے محسن چچا ابوطالب کو ضرورمسلمان کرلیتے، جن کے قبول اسلام کی آپ شدید خواہش رکھتے تھے۔
اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وه براه جہل حد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے* ہم نے اسی طرح ہر طریقہ والوں کو ان کا عمل مرغوب بنا رکھا ہے۔ پھر اپنے رب ہی کے پاس ان کو جانا ہے سو وه ان کو بتلا دے گا جو کچھ بھی وه کیا کرتے تھے۔
____________________
* یہ سد ذریعہ کے اس اصول پر مبنی ہے کہ اگر ایک مباح کام، اس سے بھی زیادہ بڑی خرابی کا سبب بنتا ہو تو وہاں اس مباح کام کا ترک راجح اور بہتر ہے۔ اسی طرح نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی فرمایا ہے کہ ”تم کسی کے ماں باپ کو گالی مت دو کہ اس طرح تم خود اپنے والدین کے لئے گالی کا سبب بن جاوء گے“۔ (صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب بيان الكبائر وأكبرها) امام شوکانی لکھتے ہیں یہ آیت سد ذرائع کےلئے اصل اصیل ہے۔ (فتح القدیر)
اور ان لوگوں نے قسموں میں بڑا زور لگا کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی کہ* اگر ان کے پاس کوئی نشانی آ جائے** تو وه ضرور ہی اس پر ایمان لے آئیں گے، آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں سب اللہ کے قبضے میں ہیں*** اور تم کو اس کی کیا خبر کہ وه نشانیاں جس وقت آجائیں گی یہ لوگ تب بھی ایمان نہ ﻻئیں گے۔
____________________
* جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ، أَيْ: حَلَفُوا أَيْمَانًا مُؤَكَّدَةً۔ بڑی تاکید سے قسمیں کھائیں۔
**- یعنی کوئی بڑا معجزہ جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، جیسے عصائے موسیٰ (عليه السلام)، احیائے موتی اور ناقۂ ثمود وغیرہ جیسا۔
***- ان کا یہ مطالبۂ خرق عادت تعنت وعناد کے طور پر ہے، طلب ہدایت کی نیت سے نہیں ہے۔ تاہم ان نشانیوں کا ظہور تمام تر اللہ کے اختیار میں ہے، وہ چاہے تو ان کا مطالبہ پورا کردے۔ بعض مرسل روایات میں ہے کہ کفار مکہ نے مطالبہ کیا تھا کہ صفا پہاڑ سونے کا بنا دیا جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے، جس پر جبریل (عليه السلام) نے آکر کہا کہ اگر اس کے بعد بھی یہ ایمان نہ لائے تو پھرانہیں ہلاک کردیا جائے گا، جسے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے پسند نہیں فرمایا۔ (ابن کثیر )۔
اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جیسا کہ یہ لوگ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں ﻻئے* اور ہم ان کو ان کی سرکشی میں حیران رہنے دیں گے۔
____________________
* اس کا مطلب ہے کہ جب پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے تو اس کا وبال ان پر اس طرح پڑا کہ آئندہ بھی ان کے ایمان لانے کا امکان ختم ہوگیا۔ دلوں اور نگاہوں کو پھیر دینے کا یہی مفہوم ہے۔ (ابن کثیر)
اور اگر ہم ان کے پاس فرشتوں کو بھیج دیتے* اور ان سے مردے باتیں کرنے لگتے** اور ہم تمام موجودات کو ان کے پاس ان کی آنکھوں کے روبرو ﻻ کر جمع کر دیتے ہیں*** تب بھی یہ لوگ ہرگز ایمان نہ ﻻتے ہاں اگر اللہ ہی چاہے تو اور بات ہے لیکن ان میں زیاده لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔****
____________________
* جیسا کہ وہ بار بار اس کا مطالبہ ہمارے پیغمبر سے کرتے ہیں۔
**- اور وہ حضرت محمد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت کی تصدیق کردیتے۔
***- دوسرا مفہوم اس کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو نشانیاں وہ طلب کرتے ہیں، وہ سب ان کے روبرو پیش کردیتے۔ اور ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر چیز جمع ہوکر گروہ در گروہ یہ گواہی دے کہ پیغمبروں کا سلسلہ برحق ہے تو ان تمام نشانیوں اور مطالبوں کے پورا کردینے کے باوجود یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ مگر جس کو اللہ چاہے۔ اسی مفہوم کی یہ آیت بھی ہے«إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ، وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الأَلِيمَ» (سورۃ یونس: 96۔ 97) ”جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوگئی ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آجائے یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں“۔
****- اور یہ جہالت کی باتیں ہی ان کے اور حق قبول کرنے کے درمیان حائل ہیں۔ اگر جہالت کا پردہ اٹھ جائے تو شاید حق ان کی سمجھ میں آجائے اور پھر اللہ کی مشیت سے حق کو اپنا بھی لیں۔
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن*، جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں** اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کرسکتے*** سو ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ افترا پردازی کر رہے ہیں اس کو آپ رہنے دیجئے۔
____________________
* یہ وہی بات ہے جو مختلف انداز میں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی تسلی کے لیے فرمائی گئی ہے کہ آپ سے پہلے جتنے بھی انبیا گزرے، ان کی تکذیب کی گئی، انہیں ایذائیں دی گئیں وغیرہ وغیرہ۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے صبر اور حوصلے سے کام لیا، آپ بھی ان دشمنان حق کے مقابلے میں صبرواستقامت کا مظاہرہ فرمائیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شیطان کے پیروکار جنوں میں سے بھی ہیں اور انسانوں میں سے بھی۔ اور یہ وہ ہیں جو دونوں گروہوں میں سے سرکش، باغی، اور متکبر قسم کے ہیں۔
**- وَحْيٌ خفیہ بات کو کہتے ہیں یعنی انسانوں اور جنوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو چالبازیاں اور حیلے سکھاتے ہیں تاکہ لوگوں کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کرسکیں۔ یہ بات عام مشاہدے میں بھی آئی ہے کہ شیطانی کاموں میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ خوب بڑھ چڑھ کر تعاون کرتے ہیں جس کی وجہ سے برائی بہت جلدی فروغ پاجاتی ہے۔
***- یعنی اللہ تعالیٰ تو ان شیطانی ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے پر قادر ہے لیکن وہ بالجبر ایسا نہیں کرے گا کیونکہ ایسا کرنا اس کے نظام اور اصول کے خلاف ہے جو اس نے اپنی مشیت کے تحت اختیار کیا ہے، جس کی حکمتیں وہ بہتر جانتا ہے۔
اور تاکہ اس کی طرف ان لوگوں کے قلوب مائل ہوجائیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور تاکہ اس کو پسند کرلیں اور تاکہ مرتکب ہوجائیں ان امور کے جن کے وه مرتکب ہوتے تھے۔*
____________________
* یعنی شیطانی وساوس کا شکار وہی لوگ ہوتے ہیں اور وہی اسے پسند کرتے اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جس حساب سے لوگوں کے اندر عقیدۂ آخرت کے بارے میں ضعف پیدا ہورہا ہے، اسی حساب سے لوگ شیطانی جال میں پھنس رہے ہیں۔
تو کیا اللہ کے سوا کسی اور فیصلہ کرنے والے کو تلاش کروں حاﻻنکہ وه ایسا ہے کہ اس نے ایک کتاب کامل تمہارے پاس بھیج دی ہے، اس کے مضامین خوب صاف صاف بیان کئے گئے ہیں اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وه اس بات کو یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ یہ آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ بھیجی گئی ہے، سو آپ شبہ کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔*
____________________
* آپ کو خطاب کرکے دراصل امت کو تعلیم دی جارہی ہے۔
آپ کے رب کا کلام سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے*، اس کے کلام کا کوئی بدلنے واﻻ نہیں** اور وه خوب سننے واﻻ خوب جاننے واﻻ ہے۔***
____________________
* اخبار و واقعات کے لحاظ سے سچا ہے اور احکام ومسائل کے اعتبار سے عادل ہے یعنی اس کا ہر امر اور نہی عدل وانصاف پر مبنی ہے۔ کیونکہ اس نے انہی باتوں کا حکم دیا ہے جن میں انسانوں کا فائدہ ہے اور انہی چیزوں سے روکا ہے جن میں نقصان اور فساد ہے۔ گو انسان اپنی نادانی یا اغوائے شیطانی کی وجہ سے اس حقیقت کو نہ سمجھ سکیں۔
**- یعنی کوئی ایسا نہیں جو رب کے کسی حکم میں تبدیلی کردے، کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی طاقتور نہیں۔
***- یعنی بندوں کے اقوال سننے والا اور ان کی ایک ایک حرکت و ادا کو جاننے والا ہے اور وہ اس کے مطابق ہر ایک کوجزا دے گا۔
اور دنیا میں زیاده لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وه آپ کو اللہ کی راه سے بے راه کردیں وه محض بے اصل خیاﻻت پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں۔*
____________________
* قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا بھی، واقعے کے طور پر ہر دور میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا «وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ» (سورۃ یوسف: 103) ”آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں“۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق وصداقت کے راستے پر چلنے والے لوگ ہمیشہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ جس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ حق وباطل کا معیار، دلائل وبراہین ہیں، لوگوں کی اکثریت واقلیت نہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جس بات کو اکثریت نے اختیار کیا ہوا ہو، وہ حق ہو اور اقلیت میں رہنے والے باطل پر ہوں۔ بلکہ مذکورہ حقیقت قرآنی کی رو سے یہ زیادہ ممکن ہے کہ اہل حق تعداد کے لحاظ سے اقلیت میں ہوں اور اہل باطل اکثریت میں۔ جس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ہے کہ ”میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، جن میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا، باقی سب جہنمی۔ اور اس جنتی فرقے کی نشانی آپ (صلى الله عليه وسلم) نے یہ بیان فرمائی کہ جو«مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي» میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہوگا“ (أبو داود كتاب السنة، باب شرح السنة، نمبر 4596، ترمذي، كتاب الإيمان، باب ما جاء في افتراق هذه الأمة، وقد حسنه الترمذي في بعض النسخ وأقره الألباني في الطحاوية، حديث نمبر263)
بالیقین آپ کا رب ان کو خوب جانتا ہے جو اس کی راه سے بے راه ہوجاتا ہے۔ اور وه ان کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راه پر چلتے ہیں۔
سو جس جانور پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے اس میں سے کھاؤ! اگر تم اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہو۔*
____________________
* یعنی جس جانور پر شکار کرتے وقت یا ذبح یا نحر کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے، اسے کھالو بشرطیکہ وہ ان جانوروں میں سے ہوں جن کا کھانا مباح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس جانور پر عمداً ان موقعوں پر اللہ کا نام نہ لیا جائے وہ حلال وطیب نہیں البتہ اس سے ایسی صورت مستثنیٰ ہے کہ جس میں یہ التباس ہو کہ ذبح کے وقت ذبح کرنے والے نے اللہ کا نام لیا یا نہیں، اس میں حکم یہ ہے کہ اللہ کا نام لے کر اسے کھالو۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) نے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سے پوچھا کہ کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں (اس سے مراد وہ اعرابی تھے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور اسلامی تعلیم وتربیت سے پوری طرح بہرہ ور بھی نہیں تھے) ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا یا نہیں ؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا«سَمُّوا عَلَيْهِ أَنْتُمْ وَكُلُوا»(صحيح بخاري- باب ذبيحة الأعراب نمبر5507) تم اللہ کا نام لے کر اسے کھالو یعنی التباس (شبہ) کی صورت میں یہ رخصت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر قسم کے جانور کا گوشت بسم اللہ پڑھ لینے سے حلال ہوجائے گا۔ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی منڈیوں اور دکانوں پر ملنے والا گوشت حلال ہے۔ ہاں اگر کسی کو وہم اور التباس ہو تو وہ کھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لے۔
اور آخر کیا وجہ ہے کہ تم ایسے جانور میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو حاﻻنکہ اللہ تعالیٰ نے ان سب جانوروں کی تفصیل بتادی ہے جن کو تم پر حرام کیا ہے*، مگر وه بھی جب تم کو سخت ضرورت پڑجائے تو حلال ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ بہت سے آدمی اپنے خیاﻻت پر بلا کسی سند کے گمراه کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ حد سے نکل جانے والوں کو خوب جانتا ہے۔
____________________
* جس کی تفصیل اسی سورت میں آگے آرہی ہے، اس کے علاوہ بھی اور سورتوں نیز احادیث میں محرمات کی تفصیل بیان کردی گئی ہے۔ ان کے علاوہ باقی حلال ہیں اور حرام جانور بھی عندالاضطرار سد رمق کی حد تک جائز ہیں۔
اور تم ﻇاہری گناه کو بھی چھوڑ دو اور باطنی گناه کو بھی چھوڑ دو۔ بلاشبہ جو لوگ گناه کررہے ہیں ان کو ان کے کئے کی عنقریب سزا ملے گی۔
اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کام نافرمانی کا ہے* اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں** اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہوجاؤ گے۔
____________________
* یعنی عمداً اللہ کا نام جس جانور پر نہ لیا گیا، اس کا کھانا فسق اور ناجائز ہے۔ حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) نے اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بھول جانے والے کو فاسق نہیں کہا جاتا اور امام بخاری کا رجحان بھی یہی ہے اور یہی احناف کا مسلک ہے تاہم امام شافعی کامسلک یہ ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ دونوں صورتوں میں حلال ہے چاہے وہ اللہ کا نام لے یا عمداً چھوڑ دے اور وہ ”وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ“ کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کئے گئے جانور سے متعلق قرار دیتے ہیں۔
**- شیطان نے اپنے ساتھیوں کے ذریعے سے یہ بات پھیلائی کہ یہ مسلمان اللہ کے ذبح کئے ہوئے جانور (یعنی مردہ) کو تو حرام اور اپنے ہاتھ سے ذبح شدہ کو حلال قرار دیتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کو ماننے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان اور اس کے دوستوں کے وسوسوں کے پیچھے مت لگو، جو جانور مردہ ہے یعنی بغیر ذبح کئے مر گیا (سوائے سمندری میتہ کے کہ وہ حلال ہے) اس پر چونکہ اللہ کا نام نہیں لیا گیا، اس لئے اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔
ایسا شخص جو پہلے مرده تھا پھر ہم نے اس کو زنده کردیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دے دیا کہ وه اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے۔ کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے؟ جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا*۔ اسی طرح کافروں کو ان کے اعمال خوش نما معلوم ہوا کرتے ہیں۔
____________________
* اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافر کو میت (مردہ) اور مومن کو حی (زندہ) قرار دیا ہے۔ اس لئے کہ کافر کفر وضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے اور اس سے نکل ہی نہیں پاتا جس کانتیجہ ہلاکت وبربادی ہے اور مومن کے دل کو اللہ تعالیٰ ایمان کے ذریعے سے زندہ فرما دیتا ہے جس سے زندگی کی راہیں اس کے لئے روشن ہوجاتی ہیں اور وہ ایمان و ہدایت کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے، جس کا نتیجہ کامیابی وکامرانی ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو حسب ذیل آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ «اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ» (سورة البقرة: 257)،«مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالأَعْمَى وَالأَصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلا» (سورة هود:24) اور «وَمَا يَسْتَوِي الأَعْمَى وَالْبَصِيرُ، وَلا الظُّلُمَاتُ وَلا النُّورُ، وَلا الظِّلُّ وَلا الْحَرُورُ، وَمَا يَسْتَوِي الأَحْيَاءُ وَلا الأَمْوَاتُ» (سورة فاطر: 19۔ 22)
اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے رئیسوں ہی کو جرائم کا مرتکب بنایا تاکہ وه لوگ وہاں فریب کریں*۔ اور وه لوگ اپنے ہی ساتھ فریب کررہے ہیں اور ان کو ذرا خبر نہیں۔**
____________________
* أَكَابِرَ، أَكْبَرُ کی جمع ہے، مراد کافروں اور فاسقوں کے سرغنے اور کھڑپینچ ہیں کیونکہ یہی انبیاء اور داعیان حق کی مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں اور عام لوگ تو صرف ان کے پیچھے لگنے والے ہوتے ہیں، اس لئے ان کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ علاوہ ازیں ایسے لوگ عام طور پر دنیاوی دولت اور خاندانی وجاہت کے اعتبار سے بھی نمایاں ہوتے ہیں، اس لئے مخالفت حق میں بھی ممتاز ہوتے ہیں (یہی مضمون سورۂ سبا کی آیات 31 تا 33، سورۂ زخرف 23، سورۂ نوح 22 وغیرھا میں بھی بیان کیا گیا ہے )۔
**- یعنی ان کی اپنی شرارت کا وبال اور اسی طرح ان کے پیچھے لگنے والے لوگوں کا وبال، انہی پر پڑے گا (مزید دیکھئے سورۂ عنکبوت 13، سورۂ نحل 25)
اور جب ان کو کوئی آیت پہنچتی ہے تو یوں کہتے ہیں کہ ہم ہرگز ایمان نہ ﻻئیں گے جب تک کہ ہم کو بھی ایسی ہی چیز نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی جاتی ہے*، اس موقع کو تو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وه اپنی پیغمبری رکھے؟** عنقریب ان لوگوں کو جنہوں نے جرم کیا ہے اللہ کے پاس پہنچ کر ذلت پہنچے گی اور ان کی شرارتوں کے مقابلے میں سخت سزائیں۔
____________________
* یعنی ان کے پاس بھی فرشتے وحی لے کر آئیں اور ان کے سروں پر بھی نبوت ورسالت کا تاج رکھا جائے۔
**- یعنی یہ فیصلہ کرنا کہ کس کو نبی بنایا جائے ؟ یہ تو اللہ ہی کا کام ہے کیونکہ وہی ہر بات کی حکمت ومصلحت کو جانتا ہے اور اسے ہی معلوم ہے کہ کون اس منصب کا اہل ہے؟ مکہ کا کوئی چودھری ورئیس یا جناب عبداللہ وحضرت آمنہ کا دریتیم؟
سو جس شخص کو اللہ تعالیٰ راستہ پر ڈالنا چاہے اس کے سینہ کو اسلام کے لیے کشاده کر دیتا ہے اور جس کو بے راه رکھنا چاہے اس کے سینہ کو بہت تنگ کردیتا ہے جیسے کوئی آسمان میں چڑھتا ہے*، اسی طرح اللہ تعالیٰ ایمان نہ ﻻنے والوں پر ناپاکی مسلط کردیتا ہے۔**
____________________
* یعنی جس طرح زور لگا کر آسمان پر چڑھنا ممکن نہیں ہے، اسی طرح جس شخص کے سینے کو اللہ تعالیٰ تنگ کردے اس میں توحید اور ایمان کا داخلہ ممکن نہیں ہے۔ الا یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کا سینہ اس کے لیے کھول دے۔
**- یعنی جس طرح سینہ تنگ کردیتا ہے اسی طرح رجس میں مبتلا کر دیتا ہے۔ رجس سے مراد پلیدی یا عذاب یا شیطان کا تسلط ہے۔
اور یہی تیرے رب کا سیدھا راستہ ہے۔ ہم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کے واسطے ان آیتوں کو صاف صاف بیان کردیا۔
ان لوگوں کے واسطے ان کے رب کے پاس سلامتی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے ان کے اعمال کی وجہ سے۔*
____________________
* یعنی جس طرح دنیا میں اہل ایمان کفر وضلالت کے کج راستوں سے بچ کر ایمان وہدایت کی صراط مستقیم پر گامزن رہے، اب آخرت میں بھی ان کے لئے سلامتی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کا، ان کے نیک عملوں کی وجہ سے دوست اور کارساز ہے۔
اور جس روز اللہ تعالیٰ تمام خلائق کو جمع کرے گا، (کہے گا) اے جماعت جنات کی! تم نے انسانوں میں سے بہت سے اپنا لیے* جو انسان ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وه کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم میں ایک نے دوسرے سے فائده حاصل کیا تھا** اور ہم اپنی اس معین میعاد تک آپہنچے جو تونے ہمارے لئے معین فرمائی***، اللہ فرمائے گا کہ تم سب کا ٹھکانہ دوزخ ہے جس میں ہمیشہ رہو گے، ہاں اگر اللہ ہی کو منظور ہو تو دوسری بات ہے****۔ بے شک آپ کا رب بڑی حکمت واﻻ بڑا علم واﻻ ہے۔
____________________
* یعنی انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو تم نے گمراہ کرکے اپنا پیروکار بنالیا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے سورۂ یٰسین میں فرمایا: ”اے بنی آدم کیا میں نے تمہیں خبردار نہیں کردیا تھا کہ تم شیطان کی پوجا مت کرنا، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ تم صرف میری عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے اور اس شیطان نے تمہاری ایک بہت بڑی تعداد کو گمراہ کردیا ہے کیا پس تم نہیں سمجھتے؟“ (یاسین: 60 / 62)
**- جنوں اور انسانوں نے ایک دوسرے سے کیا فائدہ حاصل کیا ؟ اس کے دو مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ جنوں کا انسانوں سے فائدہ اٹھانا ان کو اپنا پیروکار بناکر ان سے تلذذ حاصل کرنا ہے اور انسانوں کا جنوں سے فائدہ اٹھانا یہ ہے کہ شیطانوں نے گناہوں کو ان کے لئے خوبصورت بنادیا جسے انہوں نے قبول کیا اور گناہوں کی لذت میں پھنسے رہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انسان ان غیبی خبروں کی تصدیق کرتے رہے جو شیاطین وجنات کی طرف سے کہانت کے طور پر پھیلائی جاتی تھیں۔ یہ گویا جنات نے انسانوں کو بےوقوف بناکر فائدہ اٹھایا اور انسانوں کا فائدہ اٹھانا یہ ہے کہ انسان جنات کی بیان کردہ جھوٹی یا اٹکل پچو باتوں سے لطف اندوز ہوتے اور کاہن قسم کے لوگ ان سے دنیاوی مفادات حاصل کرتے رہے۔
***- یعنی قیامت واقع ہوگئی جسے ہم دنیا میں نہیں مانتے تھے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب جہنم تمہارا دائمی ٹھکانہ ہے۔
****- اور اللہ کی مشیت کفار کے لیے جہنم کا دائمی عذاب ہی ہے جس کی اس نے بار بار قرآن کریم میں وضاحت کی ہے۔ بنابریں اس سے کسی کو مغالطے کا شکار نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ یہ استثنا اللہ تعالیٰ کے مطلق ارادہ کے بیان کے لئے ہے جسے کسی چیز کے ساتھ مقید نہیں کیا جاسکتا اس لئے اگر وہ کفار کو جہنم سے نکالنا چاہے تو نکاﻝ سکتا ہے اس سے نہ وہ عاجز ہے نہ کوئی دوسرا روکنے والا۔ (ایسر التفاسیر )
اور اسی طرح ہم بعض کفار کو بعض کے قریب رکھیں گے ان کے اعمال کے سبب۔*
____________________
* یعنی جہنم میں جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ہم نے انسانوں اور جنوں کو ایک دوسرے کا ساتھی اور مددگار بنایا (جیسا کہ گذشتہ آیت میں گذرا) اسی طرح ہم ظالموں کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں ایک ظالم کو دوسرے ظالم پر ہم مسلط کردیتے ہیں اس طرح ایک ظالم دوسرے ظالم کو ہلاک و تباہ کرتا ہے اور ایک ظالم کا انتقام دوسرے ظالم سے لے لیتے ہیں۔
اے جنات اور انسانوں کی جماعت! کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی پیغمبر نہیں آئے تھے*، جو تم سے میرے احکام بیان کرتے اور تم کو اس آج کے دن کی خبر دیتے؟ وه سب عرض کریں گے کہ ہم اپنے اوپر اقرار کرتے ہیں اور ان کو دنیاوی زندگی نے بھول میں ڈالے رکھا اور یہ لوگ اقرار کرنے والے ہوں گے کہ وه کافر تھے۔**
____________________
* رسالت ونبوت کے معاملے میں جنات انسانوں کے ہی تابع ہیں ورنہ جنات میں الگ نبی نہیں آئے البتہ رسولوں کا پیغام پہنچانے والے اور منذرین جنات میں ہوتے رہے ہیں جو اپنی قوم کے جنوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے رہے ہیں اور دیتے ہیں۔ لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کہ چونکہ جنات کا وجود انسان کے پہلے سے ہی ہے تو ان کی ہدایت کے لیے انھیں میں سے کوئی نبی آیا ہوگا پھر آدم علیہ السلام کے وجود کے بعد ہوسکتا ہے وہ انسانی نبیوں کے تابع رہے ہوں، البتہ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت بہرحال تمام جن وانس کے لئے ہے اس میں کوئی شبہ نہیں۔
**- میدان حشر میں کافر مختلف پینترے بدلیں گے، کبھی اپنے مشرک ہونے کا انکار کریں گے (الانعام: 23) اور کبھی اقرار کئے بغیر چارہ نہیں ہوگا، جیسے یہاں ان کا اقرار نقل کیا گیا ہے۔
یہ اس وجہ سے ہے کہ آپ کا رب کسی بستی والوں کو کفر کے سبب ایسی حالت میں ہلاک نہیں کرتا کہ اس بستی کے رہنے والے* بے خبر ہوں۔
____________________
* یعنی رسولوں کے ذریعے سے جب تک اپنی حجت قائم نہیں کردیتا، ہلاک نہیں کرتا جیسا کہ یہی بات سورۂ فاطر آیت 24، سورۂ نحل 26، سورۂ بنی اسرائیل 15 اور سورۂ ملک 8، 9 وغیرہا میں بیان کی گئی ہے۔
اور ہر ایک کے لئے ان کے اعمال کے سبب درجے ملیں گے اور آپ کا رب* ان کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔
____________________
* یعنی ہر انسان اور جن کے، ان کے باہمی درجات میں، عملوں کے مطابق، فرق وتفاوت ہوگا، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنات بھی انسانوں کی طرح جنتی اور جہنمی ہوں گے۔
اور آپ کا رب بالکل غنی ہے رحمت واﻻ ہے*۔ اگر وه چاہے تو تم سب کو اٹھا لے اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہاری جگہ آباد کردے جیسا کہ تم کو ایک دوسری قوم کی نسل سے پیدا کیا ہے۔**
____________________
* وہ غنی (بے نیاز) ہے اپنی مخلوقات سے۔ ان کا محتاج ہے نہ ان کی عبادتوں کا ضرورت مند ہے، ان کا ایمان اس کے لئے نفع مند ہے نہ ان کا کفر اس کے لئے ضرر رساں لیکن اس شان غنا کے ساتھ وہ اپنی مخلوق کے لئے رحیم بھی ہے۔ اس کی بے نیازی اپنی مخلوق پر رحمت کرنے میں مانع نہیں ہے۔
**- یہ اس کی بے پناہ قوت اور غیرمحدود قدرت کا اظہار ہے۔ جس طرح پچھلی کئی قوموں کو اس نے حرف غلط کی طرح مٹادیا اور ان کی جگہ نئی قوموں کو اٹھا کھڑا کیا، وہ اب بھی اس بات پر قادر ہے کہ جب چاہے تمہیں نیست ونابود کردے اور تمہاری جگہ ایسی قوم پیدا کردے جو تم جیسی نہ ہو۔ (مزید ملاحظہ ہو سورۂ نساء: 133، سورۂ ابراہیم: 20، سورۂ فاطر: 15۔ 17، سورۂ محمد: 38)
جس چیز کا تم سے وعده کیا جاتا ہے وه بے شک آنے والی چیز ہے اور تم عاجز نہیں کرسکتے۔*
____________________
* اس سے مراد قیامت ہے۔ (اور تم عاجز نہیں کرسکتے) کا مطلب ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے چاہے تم مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ ہوچکے ہو۔
آپ یہ فرما دیجئے کہ اے میری قوم! تم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو میں بھی عمل کررہا ہوں*، سو اب جلد ہی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ اس عالم کا انجام کار کس کے لیے نافع ہوگا۔ یہ یقینی بات ہے کہ حق تلفی کرنے والوں کو کبھی فلاح نہ ہوگی۔**
____________________
* یہ کفر اور معصیت پر قائم رہنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ سخت وعید ہے جیسا کہ اگلے الفاظ سے بھی واضح ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: «وَقُلْ لِلَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ، وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ» (سورة هود: 121۔122) ”جو ایمان نہیں لاتے، ان سے کہہ دیجئے! کہ تم اپنی جگہ عمل کیے جاوء ہم بھی عمل کرتے ہیں اور انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں“۔
**- جیسا کہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ سچا کر دکھایا، 8 / ہجری میں مکہ فتح ہوگیا اور اس کے فتح کے بعد عرب قبائل فوج در فوج مسلمان ہونا شروع ہوگئے اور پورا جزیرۂ عرب مسلمانوں کے زیرنگیں آگیا اور یہ دائرہ پھر پھیلتا اور بڑھتا ہی چلا گیا۔
اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مواشی پیدا کیے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا اور بزعم خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے*، پھر جو چیز ان کے معبودوں کی ہوتی ہے وه تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتی** اور جو چیز اللہ کی ہوتی ہے وه ان کے معبودوں کی طرف پہنچ جاتی ہے** کیا برا فیصلہ وه کرتے ہیں۔
____________________
* اس آیت میں مشرکوں کے اس عقیدہ وعمل کا ایک نمونہ بتلایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر گھڑ رکھے تھے۔ وہ زمینی پیداوار اور مال مویشیوں میں سے کچھ حصہ اللہ کے لئے اور کچھ اپنے خود ساختہ معبودوں کے لیے مقرر کرلیتے۔ اللہ کے حصے کو مہمانوں، فقراء اور صلہ رحمی پر خرﭺ کرتے اور بتوں کے حصے کو بتوں کے مجاورین اور ان کی ضروریات پر خرﭺ کرتے۔ پھر اگر بتوں کے مقررہ حصے میں توقع کے مطابق پیداوار نہ ہوتی تو اللہ کے حصے میں سے نکاﻝ کر اس میں شامل کرلیتے اور اس کے برعکس معاملہ ہوتا تو بتوں کے حصے میں سے نہ نکالتے اور کہتے کہ اللہ تو غنی ہے۔
**- یعنی اللہ کے حصے میں کمی کی صورت میں بتوں کے مقررہ حصے میں سے تو صدقات وخیرات نہ کرتے۔
***- ہاں اگر بتوں کے مقررہ حصے میں کمی ہوجاتی تو اللہ کے مقررہ حصے سے لے کر بتوں کے مصالح اور ضروریات پر خرﭺ کرلیتے۔ یعنی اللہ کے مقابلے میں بتوں کی عظمت اور ان کا خوف ان کے دلوں میں زیادہ تھا جس کا مشاہدہ آﺝ کے مشرکین کے رویے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
اور اسی طرح بہت سے مشرکین کے خیال میں ان کے معبودوں نے ان کی اوﻻد کے قتل کرنے کو مستحسن بنا رکھا ہے* تاکہ وه ان کو برباد کریں اور تاکہ ان کے دین کو ان پر مشتبہ کردیں** اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو یہ ایسا کام نہ کرتے*** تو آپ ان کو اور جو کچھ یہ غلط باتیں بنا رہے ہیں یونہی رہنے دیجئے۔
____________________
* یہ اشارہ ہے ان کے بچیوں کے زندہ درگور کر دینے یا بتوں کی بھینٹ چڑھانے کی طرف۔
**- یعنی ان کے دین میں شرک کی آمیزش کردیں۔
***- یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اختیارات اور قدرت سے، ان کے ارادہ و اختیار کی آزادی کو سلب کرلیتا، تو پھر یقیناً یہ وہ کام نہ کرتے جو مذکور ہوئے لیکن ایسا کرنا چونکہ جبر ہوتا، جس میں انسان کی آزمائش نہیں ہوسکتی تھی، جب کہ اللہ تعالیٰ انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر آزمانا چاہتا ہے، اس لئے اللہ نے جبر نہیں فرمایا۔
اور وه اپنے خیال پر یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کچھ مواشی ہیں اور کھیت ہیں جن کا استعمال ہر شخص کو جائز نہیں ان کو کوئی نہیں کھا سکتا سوائے ان کے جن کو ہم چاہیں* اور مواشی ہیں جن پر سواری یا باربرداری حرام کردی گئی* اور کچھ مواشی ہیں جن پر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتے محض اللہ پر افترا باندھنے کے طور پر***۔عنقریب اللہ تعالیٰ انہیں ان کے افترا کی سزا دے گا۔
____________________
* اس میں ان کی جاہلی شریعت اور اباطیل کی تین صورتیں اور بیان فرمائی ہیں۔ حِجْرٌ( بمعنی منع) اگرچہ مصدر ہے لیکن مفعول یعنی مَحْجُورٌ( ممنوع) کے معنی میں ہے۔ یہ پہلی صورت ہے کہ یہ جانور یا فلاں کھیت کی پیداوار، ان کا استعمال ممنوع ہے۔ اسے صرف وہی کھائے گا جسے ہم اجازت دیں گے۔ یہ اجازت بتوں کے خادم اور مجاورین ہی کے لئے ہوتی۔
**- یہ دوسری صورت ہے کہ وہ مختلف قسم کے جانوروں کو اپنے بتوں کے نام آزاد چھوڑ دیتے جن سے وہ بار برداری یا سواری کا کام نہ لیتے۔ جیسے بَحِيرَة، سَائِبَة وغیرہ کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے۔
***- یہ تیسری صورت ہے کہ وہ ذبح کرتے وقت صرف اپنے بتوں کا نام لیتے، اللہ کا نام نہ لیتے۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ان جانوروں پر بیٹھ کر وہ حج کے لئے نہ جاتے۔ بہرحال یہ ساری صورتیں گھڑی ہوئی تو ان کی اپنی تھیں لیکن وہ اللہ پر افترا باندھتے یعنی یہ باور کراتے کہ اللہ کے حکم سے ہی ہم سب کچھ کررہے ہیں۔
اور وه کہتے ہیں کہ جو چیز ان مواشی کے پیٹ میں ہے وه خالص ہمارے مردوں کے لئے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے۔ اور اگر وه مرده ہے تو اس میں سب برابر ہیں*۔ ابھی اللہ ان کو ان کی غلط بیانی کی سزا دیئے دیتا ہے** بلاشبہ وه حکمت واﻻ ہے اور وه بڑا علم واﻻ ہے۔
____________________
* یہ ایک اور شکل ہے کہ جو جانور وہ اپنے بتوں کے نام وقف کرتے، ان میں سے بعض کے بارے میں کہتے کہ ان کا دودﮪ اور ان کے پیٹ سے پیدا ہونے والا زندہ بچہ صرف ہمارے مردوں کے لئے حلال ہے، عورتوں کے لئے حرام ہے۔ ہاں اگر بچہ مردہ پیدا ہوتا تو پھر اس کے کھانے میں مرد وعورت برابر ہیں۔
**- اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جو غلط بیانی کرتے ہیں اور اللہ پر افترا باندھتے ہیں، ان پر عنقریب اللہ تعالیٰ انہیں سزا دے گا۔ وہ اپنے فیصلوں میں حکیم ہے اور اپنے بندوں کے بارے میں پوری طرح علم رکھنے والا ہے اور اپنے علم وحکمت کے مطابق وہ جزا و سزا کا اہتمام فرمائے گا۔
واقعی خرابی میں پڑ گئے وه لوگ جنہوں نے اپنی اوﻻد کو محض براه حماقت بلا کسی سند کے قتل کر ڈاﻻ اور جو چیزیں ان کو اللہ نے کھانے پینے کو دی تھیں ان کو حرام کرلیا محض اللہ پر افترا باندھنے کے طور پر۔ بے شک یہ لوگ گمراہی میں پڑگئے اور کبھی راه راست پر چلنے والے نہیں ہوئے۔
اور وہی ہے جس نے باغات پیدا کئے وه بھی جو ٹٹیوں پر چڑھائے جاتے ہیں اور وه بھی جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت اور کھیتی جن میں کھانے کی چیزیں مختلف طور کی ہوتی ہیں* اور زیتون اور انار جو باہم ایک دوسرے کے مشابہ بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے مشابہ نہیں بھی ہوتے**، ان سب کے پھلوں میں سے کھاؤ جب وه نکل آئے اور اس میں جو حق واجب ہے وه اس کے کاٹنے کے دن دیا کرو*** اور حد سے مت گزرو یقیناً وه حد سے گزرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔****
____________________
* مَعْرُوشَاتٍ کا مادہ عَرْشٌ ہے جس کے معنی بلند کرنے اور اٹھانے کے ہیں۔ معروشات سے مراد بعض درختوں کی وہ بیلیں ہیں جو ٹٹیوں (چھپروں، منڈیروں وغیرہ) پر چڑھائی جاتی ہیں، جیسے انگور اور بعض ترکاریوں کی بیلیں ہیں۔ اور غیرمعروشات، وہ درخت ہیں جن کی بیلیں اوپر نہیں چڑھائی جاتیں بلکہ زمین پر ہی پھیلتی ہیں، جیسے خربوزہ اور تربوز وغیرہ کی بیلیں ہیں یا وہ تنے دار درخت ہیں جو بیل کی شکل میں نہیں ہوتے۔ یہ تمام بیلیں، درخت اور کھجور کے درخت اور کھیتیاں، جن کے ذائقے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور زیتون وانار، ان سب کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔
**- اس کے لئے دیکھئے آیت 99 کا حاشیہ۔
***- یعنی جب کھیتی سے غلہ کاٹ کر صاف کرلو اور پھل درختوں سے توڑ لو، تو اس کا حق ادا کرو۔ اس حق سے مراد بعض علماء کے نزدیک نفلی صدقہ ہے اور بعض کے نزدیک صدقۂ واجبہ یعنی عُشر، دسواں حصہ (اگر زمین بارانی ہو) یا نصف عُشر یعنی بیسواں حصہ (اگر زمین کنویں، ٹیوب ویل یا نہری پانی سے سیراب کی جاتی ہو )
****- یعنی صدقہ وخیرات میں بھی حد سے تجاوز نہ کرو، ایسا نہ ہو کہ کل کو تم ضرورت مند ہوجاؤ۔ بعض کہتے ہیں اس کا تعلق حکام سے ہے یعنی صدقات وزکوٰۃ کی وصولی میں حد سے تجاوز نہ کرو اور امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سیاق آیت کی رو سے زیادہ صحیح یہ بات لگتی ہے کہ کھانے میں اسراف مت کرو، کیونکہ بسیار خوری عقل اور جسم دونوں کے لئے مضر ہے۔ اسراف کے یہ سارے ہی مفہوم اپنی اپنی جگہ درست ہیں، اس لئے سارے ہی مفہوم مراد ہوسکتے ہیں۔ دوسرے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے میں بھی اسراف سے منع فرمایا ہے، جس سے واضح ہے کہ کھانے پینے میں بھی اعتدال بہت ضروری اور اس سے تجاوز اللہ کی نافرمانی ہے۔ آج کل مسلمانوں نے اس اسراف کو اپنی امارت کے اظہار کی علامت بنالیا ہے۔فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
*****- اس لئے اسراف کسی چیز میں بھی پسندیدہ نہیں ہے، صدقہ وخیرات دینے میں نہ کسی اور چیز میں۔ ہر چیز میں اعتدال اور میانہ روی مطلوب ومحبوب ہے اور اسی کی تاکید کی گئی ہے۔
اور مواشی میں اونچے قد کے اور چھوٹے قد کے* (پیدا کیے)، جو کچھ اللہ نے تم کو دیا ہے کھاؤ** اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو***، بلاشک وه تمہارا صریح دشمن ہے۔
____________________
* حُمُولَةً (بوجھ اٹھانے والے) سے مراد، اونٹ، بیل، گدھا، خچر وغیرہ ہیں، جو باربرداری کے کام میں آتے ہیں اورفَرْشًا سے مراد زمین سے لگے ہوئے جانور۔ جیسے بکری وغیرہ جس کا تم دودھ پیتے یا گوشت کھاتے ہو۔
**- یعنی پھلوں، کھیتوں اور چوپایوں سے۔ ان سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور ان کو تمہارے لئے خوراک بنایا ہے۔
***- جس طرح مشرکین اس کے پیچھے لگ گئے اور حلال جانوروں کو بھی اپنے اوپر حرام کرلیا گویا اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام یا حرام کو حلال کرلینا، یہ شیطان کی پیروی ہے۔
(پیدا کیے) آٹھ نر و ماده* یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم** آپ کہیے کہ کیا اللہ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ماده کو؟ یا اس کو جس کو دونوں ماده پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟*** تم مجھ کو کسی دلیل سے تو بتاؤ اگر سچے ہو۔****
____________________
* یعنی أَنْشَأَ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ (اسی اللہ نے آٹھ زوﺝ پیدا کئے ) أَزْوَاجٌ، زَوْجٌ کی جمع ہے۔ ایک ہی جنس کے نر اور مادہ کو زوﺝ (جوڑا) کہا جاتا ہے اور ان دونوں کے ایک ایک فرد کو بھی زوﺝ کہہ لیا جاتا ہے کیونکہ ہر ایک دوسرے کے لئے زوﺝ ہوتا ہے۔ قرآن کے اس مقام پر بھی ازواﺝ، افراد ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی 8 افراد اللہ نے پیدا کئے۔ جو باہم ایک دوسرے کا جوڑا ہیں۔ یہ نہیں کہ زوﺝ (معنی جوڑے) پیدا کئے کیوں کہ اس طرح تعداد 8 کے بجائے 16ہوجائے گی جو آیت کے اگلے حصہ کے مطابق نہیں ہے۔
**- یہ ثَمَانِيَةَ سے بدل ہے اور مراد دو قسم سے نر اور مادہ ہے یعنی بھیڑ سے نر اور مادہ اور بکری سے نر اور مادہ پیدا کئے (بھیڑ میں ہی دنبہ چھترا بھی شامل ہے )۔
***- مشرکین جو بعض جانوروں کو اپنے طور پر ہی حرام کرلیتے تھے، اس کے حوالے سے اللہ تعالیٰ پوچھ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نروں کو حرام کیا ہے یا ماداؤں کو یا اس بچے کو جو دونوں ماداؤں کے پیٹ میں ہیں؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو کسی کو بھی حرام نہیں کیا ہے۔
****- تمہارے پاس حرام قرار دینے کی کوئی یقینی دلیل ہے تو پیش کرو کہ بَحِيرَةٌ، سَائِبَةٍ، وَصِيلَةٍ اورحَامٍ وغیرہ اس دلیل کی بنیاد پر حرام ہیں۔
اور اونٹ میں دو قسم اور گائے میں دو قسم* آپ کہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ماده کو؟ یا اس کو جس کو دونوں ماده پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟ کیا تم حاضر تھے جس وقت اللہ تعالیٰ نے تم کو اس کا حکم دیا؟** تو اس سے زیاده کون ﻇالم ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر بلا دلیل جھوٹی تہمت لگائے***، تاکہ لوگوں کو گمراه کرے یقیناً اللہ تعالیٰ ﻇالم لوگوں کو راستہ نہیں دکھلاتا۔
____________________
* یہ بھی ثَمَانِيَةَ سے بدل ہے اور یہاں بھی دو دو قسم سے دونوں کے نر اور مادہ مراد ہیں اور یوں یہ آٹھ قسمیں پوری ہوگئیں۔
**- یعنی تم جو بعض جانوروں کو حرام قرار دیتے ہو، کیا جب اللہ نے ان کی حرمت کا حکم دیا تو تم اس کے پاس موجود تھے؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو ان کی حرمت کا کوئی حکم ہی نہیں دیا۔ یہ سب تمہارا افترا ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھتے ہو۔
***- یعنی یہی سب سے بڑا ظالم ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ میں نے عمرو بن لحی کو جہنم میں اپنی انتڑیاں کھینچتے ہوئے دیکھا، اس نے سب سے پہلے بتوں کے نام پر وصیلہ اور حام وغیرہ جانور چھوڑنے کا سلسلہ شروع کیا تھا (صحيح بخاري سورة المائدة- صحيح مسلم، كتاب الجنة، باب النار يدخلها الجبارون والجنة... يدخلها الضعفاء) امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ عمرو بن لحی، خزاعہ قبیلے کے سرداروں میں سے تھا جو جرہم قبیلے کے بعد خانہ کعبہ کا والی بنا تھا، اس نے سب سے پہلے دین ابراہیمی میں تبدیلی کی اور حجاز میں بت قائم کرکے لوگوں کو ان کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور مشرکانہ رسمیں جاری کیں (ابن کثیر) بہرحال مقصود آیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آٹھ قسم کے جانور پیدا کرکے بندوں پر احسان فرمایا ہے، ان میں سے بعض جانوروں کو اپنی طرف سے حرام کرلینا، اللہ کے احسان کو رد کرنا بھی ہے اور شرک کا ارتکاب بھی۔
آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ وه مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وه بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کہ غیراللہ کے لئے نامزد کردیا گیا ہو*۔ پھر جو شخص مجبور ہوجائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے واﻻ ہو تو واقعی آپ کا رب غفور و رحیم ہے۔
____________________
* اس آیت میں جن چار محرمات کا ذکر ہے، اس کی ضروری تفصیل سورۂ بقرہ 173 کے حاشیے میں گذر چکی ہے۔ یہاں یہ نکتہ مزید قابل وضاحت ہے کہ ان چار محرمات کا ذکر کلمۂ حصر سے کیا گیا ہے، جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان چار قسموں کے علاوہ باقی تمام جانور حلال ہیں۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ ان چار کے علاوہ اور جانور بھی شریعت میں حرام ہیں، پھر یہاں حصر کیوں کیا گیا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ اس سے قبل مشرکین کے جاہلانہ طریقوں اور ان کے رد کا بیان چلا آرہا ہے۔ ان ہی میں بعض جانوروں کا بھی ذکر آیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر حرام کررکھے تھے، اس سیاق اور ضمن میں یہ کہا جارہا ہے کہ مجھ پر جو وحی کی گئی ہے اس میں تو اس سے مقصود مشرکین کے حرام کردہ جانوروں کی حلت ہے یعنی وہ حرام نہیں ہیں کیونکہ اللہ نے جن محرمات کا ذکر کیا ہے ان میں تو وہ شامل ہی نہیں ہیں۔ اگر وہ حرام ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کا بھی ذکر ضرور کرتا۔ امام شوکانی نے اس کی توجیہ اس طرح کی ہے کہ اگر یہ آیت مکی نہ ہوتی تو پھر یقینًا محرمات کا حصر قابل تسلیم تھا لیکن چونکہ اس کے بعد خود قرآن نے المائدہ میں بعض اور محرمات کا ذکر کیا ہے اور نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی کچھ محرمات بیان فرمائیں ہیں، تو اب وہ بھی ان میں شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے پرندوں اور درندوں کے حلت وحرمت معلوم کرنے کے لئے دو اصول بیان فرما دیئے ہیں جن کی وضاحت بھی مذکورہ محولہ حاشیہ میں موجود ہے۔ ”او فِسْقًا“ کا عطف ”لَحْمَ خِنْزِيرٍ“ پر ہے۔ اس لئے منصوب ہے، معنی ہیں أَيْ: ذُبِحَ عَلَى الأَصْنَامِ، (وہ جانور جو بتوں کے نام پر ان کے تھانوں پر ان کا تقرب حاصل کرنے کے لئے ذبح کئے جائیں) یعنی ایسے جانوروں پر گو عند الذبح اللہ کا نام لیا جائے، تب بھی حرام ہوں گے کیونکہ ان سے اللہ کا تقرب نہیں، غیراللہ کا تقرب حاصل کرنا مقصود ہے۔ فسق رب کی اطاعت سے خروﺝ کا نام ہے۔ رب نے حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جانور ذبح کیا جائے اور صرف اسی کے تقرب ونیاز کے لئے کیا جائے، اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو یہی فسق اور شرک ہے۔
اور یہود پر ہم نے تمام ناخن والے جانور حرام کرد یئے تھے* اور گائے اور بکری میں سے ان دونوں کی چربیاں ان پر ہم نے حرام کردی تھیں مگر وه جو ان کی پشت پر یا انتڑیوں میں لگی ہو یا جو ہڈی سے ملی ہو**۔ ان کی شرارت کے سبب ہم نے ان کو یہ سزا دی*** اور ہم یقیناً سچے ہیں۔****
____________________
* ناخن والے جانور سے مراد وہ ہاتھ والے جانور ہیں جن کی انگلیاں پھٹی ہوئی یعنی جدا جدا نہ ہوں۔ جیسے اونٹ، شترمرغ، بطخ، قاز، گائے اور بکری وغیرہ۔ ایسے سب چرند پرند حرام تھے۔ گویا صرف وہ جانور اور پرندے ان کے لئے حلال تھے جن کے پنجے کھلے ہوں۔
**- یعنی جو چربی گائے یا بکری کی پشت پر ہو (یا دنبے کی چکتی ہو) یا انتڑیوں (یا اوجھ) یا ہڈیوں کے ساتھ ملی ہوئی ہو۔ چربی کی یہ مقدار حلال تھی۔
***- یہ چیزیں ہم نے بطور سزا ان پر حرام کی تھیں یعنی یہود کا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ یہ چیزیں حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے اوپر حرام کی ہوئی تھیں اور ہم تو ان کے اتباع میں ان کو حرام سمجھتے ہیں۔
****- اس کا مطلب یہ ہے کہ یہود یقینًا اپنے مذکورہ دعوے میں جھوٹے ہیں۔
پھر اگر یہ آپ کو کاذب کہیں تو آپ فرما دیجئے کہ تمہارا رب بڑی وسیع رحمت واﻻ ہے* اور اس کا عذاب مجرم لوگوں سے نہ ٹلے گا۔**
____________________
* اس لئے تکذیب کے باوجود عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا۔
**- یعنی مہلت دینے کا مطلب ہمیشہ کے لئے عذاب الٰہی سے محفوظ ہونا نہیں ہے۔ وہ جب بھی عذاب دینے کا فیصلہ کرے گا تو پھر اسے کوئی ٹال نہیں سکے گا۔
یہ مشرکین (یوں) کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کہہ سکتے*۔ اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے ہوچکے ہیں انہوں نے بھی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کامزه چکھا**۔ آپ کہیے کہ کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو ہمارے روبرو ﻇاہر کرو***۔ تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل سے باتیں بناتے ہو۔
____________________
* یہ وہی مغالطہ ہے جو مشیت الٰہی اور رضائے الٰہی کو ہم معنی سمجھ لینے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جس کی وضاحت پہلے کی جاچکی ہے۔
**- اللہ تعالیٰ نے اس مغالطے کا ازالہ اس طرح فرمایا کہ اگر یہ شرک اللہ کی رضا کا مظہر تھا تو پھر ان پر عذاب کیوں آیا؟ عذاب الٰہی اس بات کی دلیل ہے کہ مشیت اور چیز ہے اور رضائے الٰہی اور چیز۔
***- یعنی اپنے دعوے پر تمہارے پاس دلیل ہے تو پیش کرو! لیکن ان کے پاس دلیل کہاں؟ وہاں تو صرف اوہام وظنون ہی ہیں۔
آپ کہیے کہ بس پوری حجت اللہ ہی کی رہی۔ پھر اگر وه چاہتا تو تم سب کو راه راست پر لے آتا۔
آپ کہیے کہ اپنے گواہوں کو لاؤ جو اس بات پر شہادت دیں کہ اللہ نے ان چیزوں کو حرام کردیا ہے*، پھر اگر وه گواہی دے دیں تو آپ اس کی شہادت** نہ دیجئے اور ایسے لوگوں کے باطل خیاﻻت کا اتباع مت کیجئے! جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں اور وه جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور وه اپنے رب کے برابر دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔***
____________________
* یعنی وہ جانور، جن کو مشرکین حرام قرار دیئے ہوئے تھے۔
**- کیوں کہ ان کے پاس سوائے کذب وافترا کے کچھ نہیں۔
***- یعنی اس کا عدیل (برابر کا) ٹھہرا کر شرک کرتے ہیں۔
آپ کہیے کہ آؤ میں تم کو وه چیزیں پڑھ کر سناؤں جن (یعنی جن کی مخالفت) کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرما دیا ہے*، وه یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ** اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو*** اور اپنی اوﻻد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو۔ ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں**** اور بے حیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ خواه علانیہ ہوں خواه پوشیده، اور جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے اس کو قتل مت کرو، ہاں مگر حق کے ساتھ***** ان کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو۔
____________________
* یعنی حرام وہ نہیں ہیں جن کو تم نے بلا دلیل مَا أَنْزَلَ اللهُ، محض اپنے اوہام باطلہ اور ظنون فاسدہ کی بنیاد پر حرام قرار دے رکھا ہے۔ بلکہ حرام تو وہ چیزیں ہیں جن کو تمہارے رب نے حرام کیا ہے۔ تمہارا پیدا کرنے والا اور تمہارا پالنہار وہی ہے اور ہر چیز کا علم بھی اسی کے پاس ہے۔ اس لئے اسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال اور جس چیز کو چاہے حرام کرے۔ چنانچہ میں تمہیں ان باتوں کی تفصیل بتلاتا ہوں جن کی تاکید تمہارے رب نے کی ہے۔
**- أَلا تُشْرِكُوا سے پہلے أَوْصَاكُمْ محذوف ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو تم شریک مت ٹھہراؤ۔ شرک سب سے بڑا گناہ ہے، جس کے لئے معافی نہیں، مشرک پر جنت حرام اور دوزخ واجب ہے۔ قرآن مجید میں یہ ساری چیزیں مختلف انداز سے بار بار بیان ہوئی ہیں۔ اور نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے بھی احادیث میں ان کو تفصیل اور وضاحت سے بیان فرما دیا ہے اس کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ لوگ شیطان کے بہکاوﮮ میں آکر شرک کا عام ارتکاب کرتے ہیں۔
***- اللہ تعالیٰ کی توحید واطاعت کے بعد یہاں بھی (اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی) والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اطاعت رب کے بعد اطاعت والدین کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر کسی نے اس ربوبیت صغریٰ (والدین کی اطاعت اور ان سے حسن سلوک) کے تقاضے پورے نہیں کئے تو وہ ربوبیت کبریٰ کے تقاضے بھی پورے کرنے میں ناکام رہے گا۔
****- زمانۂ جاہلیت کا یہ فعل قبیح آﺝ کل ضبط ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے پوری دنیا میں زور وشور سے جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔
*****- یعنی قصاص کے طور پر، نہ صرف جائز ہے بلکہ اگر مقتول کے وارث معاف نہ کریں تو یہ قتل نہایت ضروری ہے۔ ”وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ“ ( البقرۃ: 79) ”قصاص میں تمہاری زندگی ہے“۔
اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وه اپنے سن رشد کو پہنچ جائے* اور ناپ تول پوری پوری کرو، انصاف کے ساتھ**، ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیاده تکلیف نہیں دیتے***۔ اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو، گو وه شخص قرابت دار ہی ہو اور اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا اس کو پورا کرو، ان کا اللہ تعالیٰ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔
____________________
* جس یتیم کی کفالت تمہاری ذمہ داری قرار پائے، تو اس کی ہر طرح خیر خواہی کرنا تمہارا فرض ہے۔ اس خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اگر اس کے اس مال سے یعنی وراثت میں سے اس کو حصہ ملا ہے، چاہے وہ نقدی کی صورت میں ہو یا زمین اور جائیداد کی صورت میں، تاہم ابھی وہ اس کی حفاظت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کے مال کی اس وقت تک پورے خلوﺹ سے حفاظت کی جائے جب تک وہ بلوغت اور شعور کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔ یہ نہ ہو کہ کفالت کے نام پر، اس کی عمر شعور سے پہلے ہی اس کے مال یا جائیداد کو ٹھکانے لگادیا جائے۔
**- ناپ تول میں کمی کرنا، لیتے وقت تو پورا ناپ یا تول کرلینا، مگر دیتے وقت ایسا نہ کرنا بلکہ ڈنڈی مار کر دوسرے کو کم دینا، یہ نہایت پست اور اخلاق سے گری ہوئی بات ہے۔ قوم شعیب میں یہی اخلاقی بیماری تھی جو ان کی تباہی کے من جملہ اسباب میں سے تھی۔
***- یہاں اس بات کے بیان سے یہ مقصد ہے کہ جن باتوں کی تاکید کررہے ہیں، یہ ایسے نہیں ہیں کہ جن پر عمل کرنا مشکل ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کا حکم ہی نہ دیتے۔ اس لئے کہ طاقت سے بڑھ کر ہم کسی کو مکلف ہی نہیں ٹھہراتے۔ اس لئے اگر نجات اخروی اور دنیا میں بھی عزت و سرفرازی چاہتے ہو تو ان احکام الٰہی پر عمل کرو اور ان سے گریز مت کرو۔
اور یہ کہ یہ دین* میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راه پر چلو** اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وه راہیں تم کو اللہ کی راه سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔
____________________
* هَذَا (یہ) سے مراد قرآن مجید یا دین اسلام یا وہ احکام ہیں جو بطور خاص اس سورت میں بیان کئے گئے ہیں اور وہ ہیں توحید، معاد اور رسالت۔ اور یہی اسلام کے اصول ثلاثہ ہیں جن کے گرد پورا دین گھومتا ہے۔ اس لئے جو بھی مراد لیا جائے مفہوم سب کا ایک ہی ہے۔
**- صراط مستقیم کو واحد کے صیغے سے بیان فرمایا کیونکہ اللہ کی، یا قرآن کی، یا رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی راہ ایک ہی ہے۔ ایک سے زیادہ نہیں۔ اس لئے پیروی صرف اسی ایک راہ کی کرنی ہے کسی اور کی نہیں۔ یہی ملت مسلمہ کی وحدت واجتماع کی بنیاد ہے جس سے ہٹ کر یہ امت مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئی ہے۔ حالانکہ اسے تاکید کی گئی ہے کہ ”دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی“۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ“ (الشورى) ”دین کو قائم رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو“ گویا اختلاف اور تفرقہ کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ اسی بات کو حدیث میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے اس طرح واضح فرمایا کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ ”یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے“۔ اور چند خطوط اس کی دائیں اور بائیں جانب کھینچے اور فرمایا ”یہ راستے ہیں جن پر شیطان بیٹھا ہوا ہے اور وہ ان کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے“۔ پھر آپ (صلى الله عليه وسلم) نے یہی آیت تلاوت فرمائی جو زیر وضاحت ہے۔ (مسنداحمد، جلد 1، ص 465،435۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے دیکھئے مسند احمد بہ تعلیق احمد شاکر نمبر 4142) بلکہ ابن ماجہ کی روایت میں صراحت ہے کہ دو دو خط داہنے اور بائیں کھینچے۔ یعنی کل چار خطوط کھینچے اور انہیں شیطان کا راستہ بتلایا۔
پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی جس سے اچھی طرح عمل کرنے والوں پر نعمت پوری ہو اور سب احکام کی تفصیل ہوجائے اور رہنمائی ہو اور رحمت ہو* تاکہ وه لوگ اپنے رب کے ملنے پر یقین ﻻئیں۔
____________________
* قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے جو متعدد جگہ دہرایا گیا ہے کہ جہاں قرآن کا ذکر ہوتا ہے تو وہاں تورات کا اور جہاں تورات کا ذکر ہو وہاں قرآن کا ذکر کردیا جاتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں حافظ ابن کثیر نے نقل کی ہیں۔ اسی اسلوب کے مطابق یہاں تورات کا اور اس کے اس وصف کا بیان ہے کہ وہ بھی اپنے دور کی ایک جامع کتاب تھی جس میں ان کی دینی ضروریات کی تمام باتیں تفصیل سے بیان کی گئی تھیں اور وہ ہدایت ورحمت کا باعث تھی۔
اور یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیر وبرکت والی*، سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو۔
____________________
* اس سے مراد قرآن مجید ہے جس میں دین و دنیا کی برکتیں اور بھلائیاں ہیں۔
کہیں تم لوگ یوں* نہ کہو کہ کتاب تو صرف ہم سے پہلے جو دو فرقے تھے ان پر نازل ہوئی تھی، اور ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے محض بے خبر تھے۔**
____________________
* یعنی یہ قرآن اس لئے اتارا تاکہ تم یہ نہ کہو۔ دو فرقوں سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں۔
**- اس لئے کہ وہ ہماری زبان میں نہ تھی۔ چنانچہ اس عذر کو قرآن عربی میں اتار کر ختم کردیا۔
یا یوں نہ کہو کہ اگر ہم پر کوئی کتاب نازل ہوتی تو ہم ان سے بھی زیاده راه راست پر ہوتے۔ سو اب تمہارے پاس تمہارے رب کے پاس سے ایک کتاب واضح اور رہنمائی کا ذریعہ اور رحمت آچکی ہے*۔ اب اس شخص سے زیاده ﻇالم کون ہوگا جو ہماری ان آیتوں کو جھوٹا بتائے اور اس سے روکے**۔ ہم جلد ہی ان لوگوں کو جو کہ ہماری آیتوں سے روکتے ہیں ان کے اس روکنے کے سبب سخت سزا دیں گے۔
____________________
* گویا یہ عذر بھی تم نہیں کرسکتے۔
**- یعنی کتاب ہدایت ورحمت کے نزول کے بعد اب جو شخص ہدایت (اسلام) کا راستہ اختیار کرکے رحمت الٰہی کا مستحق نہیں بنتا، بلکہ تکذیب واعراض کا راستہ اپناتا ہے، تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے ؟صَدَفَ کے معنی اعراض کرنے کے بھی کئے گئے ہیں اور دوسروں کو روکنے کے بھی۔
کیا یہ لوگ صرف اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا ان کے پاس آپ کا رب آئے یا آپ کے رب کی کوئی (بڑی) نشانی آئے؟* جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی، کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا**۔ یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو**۔ آپ فرما دیجئے کہ تم منتظر رہو، ہم بھی منتظر ہیں۔****
____________________
* قرآن مجید کے نزول اور حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کردی ہے۔ اب بھی اگر یہ اپنی گمراہی سے باز نہیں آتے تو کیا یہ اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یعنی ان کی روحیں قبض کرنے کے لئے، اس وقت یہ ایمان لائیں گے؟ یا آپ کا رب ان کے پاس آئے، یعنی قیامت برپا ہوجائے اور وہ اللہ کے روبرو پیش کئے جائیں۔ اس وقت یہ ایمان لائیں گے؟ یا آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آئے۔ جیسے قیامت کے قریب سورﺝ مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ تو اس قسم کی بڑی نشانی دیکھ کر یہ ایمان لائیں گے؟ اگلے جملے میں وضاحت کی جارہی ہے کہ اگر یہ اس انتظار میں ہیں تو بہت ہی نادانی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ کیونکہ بڑی نشانی کے ظہور کے بعد کافر کا ایمان اور فاسق وفاجر شخص کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ صحیح حدیث ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ ”قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ سورﺝ (مشرق کے بجائے) مغرب سے طلوع ہو پس جب ایسا ہوگا اور لوگ اسے مغرب سے طلوع ہوتے دیکھیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے“ پھر آپ (صلى الله عليه وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی «لا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ» یعنی اس وقت ایمان لانا کسی کو نفع نہیں دے گا جو اس سے قبل ایمان نہ لایا ہوگا۔ (صحیح بخاری۔ تفسیر سورۃ الانعام )
**- یعنی کافر کا ایمان فائدہ مند، یعنی قبول نہیں ہوگا۔
***- اس کا مطلب ہے کہ کوئی گناہ گار مومن گناہوں سے توبہ کرے گا تو اس وقت اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی اور اس کے بعد عمل صالح غیرمقبول ہوگا۔ جیسا کہ احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔
****- یہ ایمان نہ لانے والوں اور توبہ نہ کرنے والوں کے لئے تہدید ووعید ہے۔ قرآن کریم میں یہی مضمون سورۂ محمد: 18 اور سورۂ مومن: 84، 85 میں بھی بیان کیا گیا ہے۔
بےشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا اور گروه گروه بن گئے*، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں بس ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔ پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلادیں گے۔
____________________
* اس سے بعض لوگ یہود و نصاریٰ مراد لیتے ہیں جو مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ بعض مشرکین مراد لیتے ہیں کہ کچھ مشرک ملائکہ کی، کچھ ستاروں کی، کچھ مختلف بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ لیکن یہ آیت عام ہے کفار و مشرکین سمیت وہ سب لوگ اس میں داخل ہیں جو اللہ کے دین کو اور رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے دین یا دوسرے طریقے کو اختیار کرکے تفرق وتحزب کا راستہ اپناتے ہیں۔ ”شِيَعًا“ کے معنی فرقے اور گروہ، اور یہ بات ہر اس قوم پر صادق آتی ہے جو دین کے معاملے میں مجتمع تھی لیکن پھر ان کے مختلف افراد نے اپنے کسی بڑے کی رائے کو ہی مستند اور حرف آخر قرار دے کر اپنا راستہ الگ کرلیا، چاہے وہ رائے حق وصواب کے خلاف ہی ہو۔ (فتح القدیر)
جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے* اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی** اور ان لوگوں پر ﻇلم نہ ہوگا۔
____________________
* یہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل واحسان کا بیان ہے جو اہل ایمان کے ساتھ وہ کرے گا کہ ایک نیکی کا بدلہ دس نیکیوں کے برابر عطا فرمائے گا۔ یہ کم ازکم اجر ہے۔ ورنہ قرآن اور احادیث دونوں سے ثابت ہے کہ بعض نیکیوں کا اجر کئی کئی سو گنا بلکہ ہزاروں گنا تک ملے گا۔
**- یعنی جن گناہوں کی سزا مقرر نہیں ہے، اور اس کے ارتکاب کے بعد اس نے اس سے توبہ بھی نہیں کی یا اس کی نیکیاں اس کی برائیوں پر غالب نہ آئیں، یا اللہ نے اپنے فضل خاﺹ سے اسے معاف نہیں فرما دیا (کیونکہ ان تمام صورتوں میں مجازات کا قانون بروئے عمل نہیں آئے گا) تو پھر اللہ تعالیٰ ایسی برائی کی سزا دے گا اور اس کے برابر ہی دے گا۔
آپ کہہ دیجئے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتادیا ہے کہ وه ایک دین مستحکم ہے جو طریقہ ہے ابراہیم (علیہ السلام) کا جو اللہ کی طرف یکسو تھے۔ اور وه شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔
آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔
اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں۔*
____________________
* توحید الوہیت کی یہی دعوت تمام انبیا نے دی، جس طرح یہاں آخری پیغمبر کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا کہ ”مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں“۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”ہم نےآپ سے پہلے جتنے بھی انبیا بھیجے، سب کو یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، تم میری ہی عبادت کرو“ (الانبیاء: 25) چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی یہ اعلان فرمایا «وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ» (يونس: 72) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ أَسْلِمْ (فرمانبردار ہوجا) تو انہوں نے فرمایا «أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ» (البقرة: 131) ”میں رب العالمین کے لئے مسلمان یعنی فرمانبردار ہوگیا“، حضرت ابراہیم السلام ویعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی «فَلا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ» (البقرة: 132) ”تمہیں موت اسلام پر آنی چاہیے“، حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی «تَوَفَّنِي مُسْلِمًا» (يوسف: 101) ”مجھے اسلام کی حالت میں دنیا سے اٹھانا“، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا «فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُسْلِمِينَ» (يونس: 84) ”اگر تم مسلمان ہو تو اسی اللہ پر بھروسہ کرو“، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے کہا «وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ» (المائدة: 111) اسی طرح اور بھی تمام انبیاء اور ان کے مخلص پیروکاروں نے اسی اسلام کو اپنایا جس میں توحید الوہیت کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ گو بعض بعض شرعی احکام ایک دوسرے سے مختلف تھے۔
آپ فرما دیجئے کہ کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو رب بنانے کے لئے تلاش کروں حاﻻنکہ وه مالک ہے ہر چیز کا* اور جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے وه اسی پر رہتا ہے اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا**۔ پھر تم سب کو اپنے رب کے پاس جانا ہوگا۔ پھر وه تم کو جتلائے گا جس جس چیز میں تم اختلاف کرتے تھے۔***
____________________
* یہاں رب سے مراد وہی الٰہ ماننا ہے جس کا انکار مشرکین کرتے رہے ہیں اور جو اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے۔ لیکن مشرکین اس کی ربوبیت کو تو مانتے تھے۔ اور اس میں کسی کو شریک نہیں گردانتے تھے لیکن اس کی الوہیت میں شریک ٹھہراتے تھے۔
**- یعنی اللہ تعالیٰ عدل وانصاف کا پورا اہتمام فرمائے گا اور جس نے۔ اچھا یا برا۔ جو کچھ کیا ہوگا، اس کے مطابق جزا وسزا دے گا، نیکی پر اچھی جزا اور بدی پر سزا دے گا اور ایک کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالے گا۔
***- اس لیے اگر تم اس دعوت توحید کو نہیں مانتے جو تمام انبیاء کی مشترکہ دعوت رہی ہے تو تم اپنا کام کیے جاؤ، ہم اپنا کیے جاتے ہیں۔ قیامت والے دن اللہ کی بارگاہ میں ہی تمہارا فیصلہ ہوگا۔
اور وه ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا* اور ایک کا دوسرے پر رتبہ بڑھایا تاکہ تم کو آزمائے ان چیزوں میں جو تم کو دی ہیں**۔ بالیقین آپ کا رب جلد سزا دینے واﻻ ہے اور بالیقین وه واقعی بڑی مغفرت کرنے واﻻ مہربانی کرنے واﻻ ہے۔
____________________
* یعنی حکمران بناکر اختیارات سے نوازا۔ یا ایک کے بعد دوسرے کو اس کا وارث (خلیفہ) بنایا۔
**- یعنی فقر وغنا، علم وجہل، صحت اور بیماری، جس کو جو کچھ دیا ہے، اسی میں اس کی آزمائش ہے۔
Icon