ﰡ
____________________
* ظلمات سے رات کی تاریکی اور نور سے دن کی روشنی یا کفر کی تاریکی اور ایمان کی روشنی مراد ہے۔ نور کے مقابلے میں ظلمات کو جمع ذکر کیا گیا ہے، اس لئے کہ ظلمات کے اسباب بھی بہت سے ہیں اور اس کی انواع بھی متعدد ہیں اور نور کا ذکر بطور جنس ہے جو اپنی تمام انواع کو شامل ہے۔ (فتح القدیر) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ ہدایت اور ایمان کا راستہ ایک ہی ہے، چار یا پانچ یا متعدد نہیں ہیں، اس لئے نور کو واحد ذکر کیا گیا ہے۔
**- یعنی اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔
____________________
* یعنی تمہارے باپ آدم (عليه السلام) کو، جو تمہاری اصل ہیں اور جن سے تم سب نکلے ہو۔ اس کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم جو خوارک اور غذائیں کھاتے ہو، سب زمین سے پیدا ہوتی ہیں اور انہی غذاؤں سے نطفہ بنتا ہے جو رحم مادر میں جاکر تخلیق انسانی کا باعث بنتا ہے۔ اس لحاظ سے گویا تمہاری پیدائش مٹی سے ہوئی۔
**- یعنی موت کا وقت۔
***- یعنی آخرت کا وقت، اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ گویا پہلی اجل سے مراد پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی عمر ہے اور دوسری اجل مسمیٰ ہے۔ مراد انسان کی موت سے لے کر وقوع قیامت تک دنیا کی کل عمر ہے، جس کے بعد وہ زوال وفنا سے دوچار ہوجائے گی اور ایک دوسری دنیا یعنی آخرت کی زندگی کاآغاز ہوجائے گا۔
****- یعنی قیامت کے وقوع میں جیسا کہ کفارومشرکین کہا کرتے تھے کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے تو کس طرح ہمیں دوبارہ زندہ کیا جاسکے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا دوبارہ بھی وہی اللہ تمہیں زندہ کرے گا“ (سورۃ یٰسین)
____________________
* اہل سنت یعنی سلف کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود تو عرش پر ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے لیکن اپنے علم کے لحاظ سے ہر جگہ ہے یعنی اس کے علم وخبر سے کوئی چیز باہر نہیں۔ البتہ بعض گمراہ فرقے اللہ تعالیٰ کو عرش پر نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور وہ اس آیت سے اپنے اس عقیدے کا اثبات کرتے ہیں۔ لیکن یہ عقیدہ جس طرح غلط ہے یہ استدلال بھی صحیح نہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جس کو آسمانوں اور زمین میں اللہ کہہ کر پکارا جاتا ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کی حکمرانی ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس معبود برحق سمجھا اور مانا جاتا ہے، وہ اللہ تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو، سب کو جانتا ہے۔ (فتح القدیر) اس کی اور بھی بعض توجیہات کی گئی ہیں جنہیں اہل علم تفسیروں میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ مثلاً تفسیر طبری وابن کثیر وغیرہ۔
____________________
* یعنی اس اعراض اور تکذیب کا وبال انہیں پہنچے گا اس وقت انہیں احساس ہوگا کہ کاش! ہم اس کتاب برحق کی تکذیب اور اس کا استہزانہ کرتے۔
____________________
* یعنی جب گناہوں کی پاداش میں تم سے پہلی امتوں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں درآں حالیکہ وہ طاقت وقوت میں بھی تم سے کہیں زیادہ تھیں اور خوش حالی اور وسائل رزق کی فراوانی میں بھی تم سے بہت بڑھ کر تھیں، تو تمہیں ہلاک کرنا ہمارے لئے کیا مشکل ہے؟ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی قوم کی محض مادی ترقی اور خوش حالی سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ بہت کامیاب وکامران ہے۔ یہ استدراج وامہال کی وہ صورتیں ہیں جو بطور امتحان اللہ تعالیٰ قوموں کو عطا فرماتا ہے۔ لیکن جب یہ مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے تو پھر یہ ساری ترقیاں اور خوش حالیاں انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوتیں۔
**- تاکہ انہیں بھی پچھلی قوموں کی طرح آزمائیں۔
____________________
* یہ ان کے عناد وجحود اور مکابرہ کا اظہار ہے کہ اتنے واضح نوشتۂ الٰہی کے باوجود وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گے اور اسے ایک ساحرانہ کرتب قرار دیں گے۔ جیسے قرآن مجید کے دوسری مقام پر فرمایا گیا ہے۔ «وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ * لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ» (الحجر: 14،15) ”اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس میں چڑھنے بھی لگ جائیں تب بھی کہیں گے ہماری آنکھیں متوالی ہوگئی ہیں بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے“، «وَإِنْ يَرَوْا كِسْفًا مِنَ السَّمَاءِ سَاقِطًا يَقُولُوا سَحَابٌ مَرْكُومٌ» (الطور: 44) ”اور اگر وہ آسمان سے گرتا ہوا ٹکڑا بھی دیکھ لیں تو کہیں گے کہ تہہ بہ تہہ بادل ہیں“۔ یعنی عذاب الٰہی کی کوئی نہ کوئی ایسی توجیہ کرلیں گے کہ جس میں مشیت الٰہی کا کوئی دخل انہیں تسلیم کرنا نہ پڑے۔ حالانکہ کائنات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی مشیت سے ہوتا ہے۔
____________________
* اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ہدایت ورہنمائی کے لئے جتنے بھی انبیا ورسل بھیجے وہ انسانوں میں سے ہی تھے اور ہر قوم میں اسی کے ایک فرد کو وحی ورسالت سے نواز دیا جاتا تھا۔ یہ اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی رسول فریضۂ تبلیغ ودعوت ادا ہی نہیں کرسکتا تھا، مثلاً اگر فرشتوں کو اللہ تعالیٰ رسول بنا کر بھیجتا تو ایک تو وہ انسانی زبان میں گفتگو ہی نہ کر پاتے دوسرے وہ انسانی جذبات سے عاری ہونے کی وجہ سے انسان کے مختلف حالات میں مختلف کیفیات وجذبات کے سمجھنے سے بھی قاصر رہتے۔ ایسی صورت میں ہدایت ورہنمائی کا فریضہ کس طرح انجام دے سکتے تھے؟ اس لئے اللہ تعالیٰ کا انسانوں پر ایک بڑا احسان ہے کہ اس نے انسانوں کو ہی نبی اور رسول بنایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے بطور احسان ہی قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے «لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولا مِنْ أَنْفُسِهِمْ» (آل عمران: 164) ”اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر احسان فرمایا جب کہ انہی کی جانوں میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا“۔ لیکن پیغمبروں کی بشریت کافروں کے لئے حیرت واستعجاب کا باعث رہی۔ وہ سمجھتے تھے کہ رسول انسانوں میں سے نہیں، فرشتوں میں سے ہونا چاہیئے گویا ان کے نزدیک بشریت رسالت کے شایان شان نہیں تھی۔ جیسا کہ آج کل کے اہل بدعت بھی یہی سمجھتے ہیں۔ «تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ» اہل کفر وشرک، رسولوں کی بشریت کا تو انکار کر نہیں سکتے تھے، کیونکہ وہ ان کے خاندان، حسب نسب ہر چیز سے واقف ہوتے تھے لیکن رسالت کا وہ انکار کردیتے رہے۔ جبکہ آج کل کے اہل بدعت رسالت کا انکار تو نہیں کرتے لیکن بشریت کو رسالت کے منافی سمجھنے کی وجہ سے رسولوں کی بشریت کا انکار کرتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرما رہا ہے کہ اگر ہم کافروں کے مطالبے پر کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے یا اس رسول کی تصدیق کے لئے ہم کوئی فرشتہ نازل کردیتے (جیسا کہ یہاں یہی بات بیان کی گئی ہے) اور پھر وہ اس پر ایمان نہ لاتے توانہیں مہلت دیئے بغیر ہلاک کردیا جاتا۔
____________________
* یعنی اگر ہم فرشتے ہی کو رسول (صلى الله عليه وسلم) بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کرتے تو ظاہر بات ہے کہ وہ فرشتے کی اصل شکل میں تو آ نہیں سکتا تھا، کیونکہ اس طرح انسان اس سے خوف زدہ ہونے اور قریب ومانوس ہونے کے بجائے، دور بھاگتے اس لئے ناگزیر تھا کہ اسے انسانی شکل میں بھیجا جاتا۔ لیکن یہ تمہارے لیڈر پھر یہی اعتراض اور شبہ پیش کرتے کہ یہ تو انسان ہی ہے، جو اس وقت بھی وہ رسول کی بشریت کے حوالے سے پیش کر رہے ہیں تو پھر فرشتے کے بھیجنے کا بھی کیا فائدہ؟
____________________
* جس طرح حدیث میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو عرش پر یہ لکھ دیا «إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي» یقیناً میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے“۔ (صحيح بخاري، كتاب التوحيد، وبدء الخلق، مسلم كتاب التوبة)، لیکن یہ رحمت قیامت والے دن صرف اہل ایمان کے لئے ہوگی، کافروں کے لئے رب سخت غضب ناک ہوگا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو اس کی رحمت یقیناً عام ہے، جس سے مومن اور کافر نیک اور بد، فرماں برداراور نافرمان سب ہی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کی بھی روزی نافرمانی کرنے کی وجہ سے بند نہیں کرتا، لیکن اس کی رحمت کا یہ عموم صرف دنیا کی حد تک ہے۔ آخرت میں جو کہ دارالجزا ہے، وہاں اللہ کی صفت عدل کا کامل ظہور ہوگا، جس کے نتیجے میں اہل ایمان امان رحمت میں جگہ پائیں گے اور اہل کفر وفسق جہنم کے دائمی عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ اسی لئے قرآن میں فرمایا گیا ہے «وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ» (الأعراف: 156) ”اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے»۔ تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکٰوۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں“۔
____________________
* ”وَلِيٌّ“ سے مراد یہاں معبود ہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے ورنہ دوست بنانا تو جائز ہے۔
____________________
* یعنی اگر میں نے بھی رب کی نافرمانی کرتے ہوئے، اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لیا تو میں بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکوں گا۔
____________________
* جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا :«فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ» (آل عمران: 185 ) ”جو آگ سے دور اور جنت میں داخل کر دیا گیا، وہ کامیاب ہوگیا“، اس لئے کہ کامیابی، خسارے سے بچ جانے اور نفع حاصل کرلینے کا نام ہے۔ اور جنت سے بڑھ کر نفع کیا ہوگا؟
____________________
* یعنی نفع وضرر کا مالک، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے والا صرف اللہ ہے اور اس کے حکم وقضا کو کوئی رد کرنےوالا نہیں ہے۔ ایک حدیث میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے «اللَّهُمَّ لا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ»(صحيح بخاري، كتاب الاعتصام والقدر والدعوات- مسلم كتاب الصلاة والمساجد)۔ ”جس کو تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں، اور جس سے تو روک لے اس کو کوئی دینے والا نہیں اور کسی صاحب حیثیت کو اس کی حیثیت تیرے مقابلے میں نفع نہیں پہنچاسکتی“، نبی (صلى الله عليه وسلم) ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔
____________________
* یعنی تمام گردنیں اس کے سامنے جھکی ہوئی ہیں، بڑے بڑے جابر لوگ اس کے سامنے بےبس ہیں، وہ ہر چیز پر غالب ہے اور تمام کائنات اس کی مطیع ہے وہ اپنے ہر کام میں حکیم ہے اور ہر چیز سے باخبر ہے، پس اسے معلوم ہے کہ اس کے احسان وعطا کا کون مستحق ہے اور کون غیر مستحق۔
____________________
* یعنی اللہ تعالیٰ ہی اپنی وحدانیت اور ربوبیت کا سب سے بڑا گواہ ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی گواہ نہیں۔
**- ربیع بن انس (رضي الله عنه) کہتے ہیں کہ اب جس کے پاس بھی یہ قرآن پہنچ جائے۔ اگر وہ سچا متبع رسول ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی لوگوں کو اللہ کی طرف اسی طرح بلائے جس طرح رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے لوگوں کو دعوت دی اور اس طرح ڈرائے جس طرح آپ (صلى الله عليه وسلم) نے لوگوں کو ڈرایا۔ (ابن کثیر)
____________________
* ”يَعْرِفُونَهُ“ میں ضمیر کا مرجع رسول (صلى الله عليه وسلم) ہیں یعنی اہل کتاب آپ (صلى الله عليه وسلم) کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں کیونکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی صفات ان کتابوں میں بیان کی گئی تھیں اور ان صفات کی وجہ سے وہ آخری نبی کے منتظر بھی تھے۔ اس لئے اب ان میں سے ایمان نہ لانے والے سخت خسارے میں ہیں کیونکہ یہ علم رکھتے ہوئے بھی انکار کر رہے ہیں۔
فَإِنْ كُنْتَ لا تَدْرِي فَتِلْكَ مُصِيبَةٌ وَإِنْ كُنْتَ تَدْرِي فَالْمُصِيبَةُ أَعْظَمُ
”اگر تجھے علم نہیں ہے تو یہ بھی اگرچہ مصیبت ہی ہے تاہم اگر علم ہے تو پھر زیادہ بڑی مصیبت ہے“۔
____________________
* یعنی جس طرح اللہ پر جھوٹ گھڑنے والا (یعنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والا) سب سے بڑا ظالم ہے، اسی طرح وہ بھی بڑا ظالم ہے جو اللہ کی آیات اور اس کے سچے رسول کی تکذیب کرے۔ جھوٹے دعوائے نبوت پر اتنی سخت وعید کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ متعدد لوگوں نے ہر دور میں نبوت کے جھوٹے دعوے کئے ہیں اور یوں یقیناً نبی (صلى الله عليه وسلم) کی یہ پیش گوئی پوری ہوگئی کی تیس جھوٹے دجال ہوں گے۔ ہر ایک کا دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے۔ گذشتہ صدی میں بھی قادیان کے ایک شحض نے نبوت کا دعویٰ کیا اور آج اس کے پیروکار اسے اس لئے سچا نبی اوربعض مسیح موعود مانتے ہیں کہ اسے ایک قلیل تعداد نبی مانتی ہے۔ حالانکہ کچھ لوگوں کا کسی جھوٹے کو سچا مان لینا، اس کی سچائی کی دلیل نہیں بن سکتا۔ صداقت کے لئے تو قرآن وحدیث کے واضح دلائل کی ضرورت ہے۔
**- جب یہ دونوں ہی ظالم ہیں تو نہ مفتری (جھوٹ گھڑنے والا) کامیاب ہوگا اور نہ مکذب (جھٹلانے والا) اس لئے ضروری ہے کہ ہر ایک اپنے انجام پر اچھی طرح غور کرلے۔
____________________
* فتنہ کے ایک معنی حجت اور ایک معنی معذرت کے کئے گئے ہیں۔ بالآخر یہ حجت یا معذرت پیش کرکے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے۔ اور امام ابن جریر نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں «ثُمَّ لَمْ يَكُنْ قِيلُهُمْ عِنْدَ فِتْنَتِنَا إِيَّاهُمْ اعْتِذَارًا مِمَّا سَلَفَ مِنْهُمْ مِنَ الشِّرْكِ بِاللهِ»۔ ”جب ہم انہیں سوال کی بھٹی میں جھونکیں گے تو دنیا میں انہوں نے جو شرک کیا، اس کی معذرت کے لئے یہ کہے بغیر ان کے لئے چارہ نہیں ہوگا کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے“ یہاں یہ اشکال پیش نہ آئے کہ وہاں تو انسانوں کے ہاتھ پیر گواہی دیں گے اور زبانوں پر تو مہریں لگا دی جائیں گی، پھر یہ انکار کس طرح کریں گے؟ اس کا جواب حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) نے یہ دیا ہے کہ جب مشرکین دیکھیں کے کہ اہل توحید مسلمان جنت میں جا رہے ہیں تو یہ باہم مشورہ کرکے اپنے شرک کرنے سے ہی انکار کردیں گے تب اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ پاؤ ں جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا اس کی گواہی دیں گے اور پھر یہ اللہ سے کوئی بات چھپانے پر قادر نہ ہوسکیں گے۔ (ابن کثیر)
____________________
* لیکن وہاں اس کذب صریح کا کوئی فائدہ انہیں نہیں ہوگا، جس طرح بعض دفعہ دنیا میں انسان ایسا محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح ان کے معبودان باطل بھی، جن کو وہ اللہ کا شریک اپنا حمایتی ومددگار سمجھتے تھے، غائب ہوں گے اور وہاں ان پر شرکا کی حقیقت واضح ہوگی، لیکن وہاں اس کے ازالے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔
____________________
* یعنی یہ مشرکین آپ کے پاس آکر قرآن تو سنتے ہیں لیکن چونکہ مقصد طلب ہدایت نہیں، اس لئے بےفائدہ ہے۔
**- علاوہ ازیں مُجَازَاةً عَلَى كُفْرِهِمْ ان کے نتیجے میں ان کے دلوں پر بھی ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں اور ان کے کانوﮞ میں ڈاٹ جس کی وجہ سے ان کے دل حق بات سمجھنے سے قاصراور ان کے کان حق کو سننےسے عاجز ہیں۔
***- اب وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں کہ بڑے سے بڑا معجزہ بھی دیکھ لیں، تب بھی ایمان لانے کی توفیق سے محروم رہیں گے اور ان کا عناد وجحود اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کو پہلے لوگوں کی بے سند کہانیاں کہتے ہیں۔
____________________
* یعنی عام لوگوں کو آپ (صلى الله عليه وسلم) سے اور قرآن سے روکتے ہیں تاکہ وہ ایمان نہ لائیں اور خود بھی دور دور رہتے ہیں۔
**- لیکن لوگوں کو روکنا اور خود بھی دور رہنا، اس سے ہمارا یا ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا بگڑے گا؟ اس طرح کے کام کرکے وہ خود ہی بےشعوری میں اپنی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں۔
____________________
* یہاں ”لَوْ“ کا جواب محذوف ہے تقدیری عبارت یوں ہو گی طتو آپ کو ہولناک منظر نظر آئے گا“۔
**- لیکن وہاں سے دوبارہ دنیا میں آنا ممکن ہی نہیں ہوگا کہ وہ اپنی اس آرزو کی تکمیل کرسکیں۔ کافروں کی اس آرزو کا قرآن نے متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے۔ مثلاً«رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ، قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلا تُكَلِّمُونِ» (المؤمنون: 107، 108) ”اے ہمارے رب! ہمیں اس جہنم سے نکال لے اگر ہم دوبارہ تیری نافرمانی کریں تو یقیناً ظالم ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اسی میں ذلیل وخوار پڑے رہو، مجھ سے بات نہ کرو“۔ «رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ»(الم السجدة: 12) ”اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا، پس ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، اب ہمیں یقین آگیا ہے“۔
____________________
* بَلْ جو إِضْرَاب ( یعنی پہلی بات سے گریز کرنے) کے لئے آتا ہے۔ اس کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ ان کے لئے وہ کفر اور عناد وتکذیب ظاہر ہوجائے گی، جو اس سے قبل وہ دنیا یا آخرت میں چھپاتے تھے۔ یعنی جس کا انکارکرتے تھے، جیسے وہاں بھی ابتداءً کہیں گے مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ (ہم تو مشرک ہی نہ تھے) یا رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) اور قرآن کریم کی صداقت کا علم جو ان کے دلوں میں تھا، لیکن اپنے پیروکاروں سے چھپاتے تھے۔ وہاں ظاہر ہوجائے گا۔ یا منافقین کا وہ نفاق وہاں ظاہر ہوجائے گا جسے وہ دنیا میں اہل ایمان سے چھپاتے تھے۔ (تفسیر ابن کثیر)
**- یعنی دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش ایمان لانے کے لئے نہیں، صرف عذاب سے بچنے کے لئے ہے، جو ان پر قیامت کے دن ظاہر ہوجائے گا اور جس کا وہ معائنہ کرلیں گے ورنہ اگر یہ دنیا میں دوبارہ بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔
____________________
* یہ بَعْث بَعْد الْمَوْتِ (مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے) کا انکار ہے جو ہر کافر کرتا ہے اور اس حقیقت سے انکار ہی دراصل ان کے کفر وعصیان کی سب سے بڑی وجہ ہے ورنہ اگر انسان کے دل میں صحیح معنوں میں اس عقیدۂ آخرت کی صداقت راسخ ہوجائے تو کفر وعصیان کے راستے سے فوراً تائب ہو جائے۔
____________________
*- یعنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلینے کے بعد تو وہ اعتراف کرلیں گے کہ آخرت کی زندگی واقعی برحق ہے۔ لیکن وہاں اس اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ اب تو اپنے کفر کے بدلے میں عذاب کا مزہ چکھو۔
____________________
* اللہ کی ملاقات کی تکذیب کرنے والے جس خسارے اور نامرادی سے دوچار ہوں گے اپنی کوتاہیوں پر جس طرح نادم ہوں گے اور برے اعمال کا جو بوجھ اپنے اوپر لادے ہوں گے آیت میں اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے ”فَرَّطْنَا فِيهَا“ میں ضمیر ”الساعۃ“ کی طرف راجع ہے یعنی قیامت کی تیاری اور تصدیق کے معاملے میں جو کوتاہی ہم سے ہوئی۔ یا ”الصَّفْقَةُ“ (سودا) کی طرف راجع ہے، جو اگرچہ عبارت میں موجود نہیں ہے لیکن سیاق اس پر دلالت کناں ہے۔ اس لئے کہ نقصان سودے میں ہی ہوتا ہے اور مراد اس سودے سے وہ ہے جو ایمان کے بدلے کفر خرید کر انہوں نے کیا۔ یعنی یہ سودا کرکے ہم نے سخت کوتاہی کی، یا حیاۃ کی طرف راجع ہے یعنی ہم نے اپنی زندگی میں برائیوں اور کفر وشرک کا ارتکاب کرکے جو کوتاہیاں کیں۔ (فتح القدیر )
____________________
* نبی (صلى الله عليه وسلم) کو کفار کی طرف اپنی تکذیب کی وجہ سے جو غم وحزن پہنچتا، اس کے ازالے اور آپ کی تسلی کے لئے فرمایا جارہا ہے کہ یہ تکذیب آپ کی نہیں۔ (آپ کو تو وہ صادق وامین مانتے ہیں) دراصل یہ آیات الٰہی کی تکذیب ہے اوریہ ایک ظلم ہے۔ جس کا وہ ارتکاب کر رہے ہیں۔ ترمذی وغیرہ کی ایک روایات میں ہے کہ ابوجہل نے ایک بار رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سے کہا اے محمد! ہم تم کو نہیں بلکہ جو کچھ تم لے کر آئے ہو اس کو جھٹلاتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ترمذی کی یہ راویت اگرچہ سنداً ضعیف ہے لیکن دوسری صحیح روایات سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ کفار مکہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی امانت ودیانت اور صداقت کے قائل تھے، لیکن اس کے باوجود وہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے سے گریزاں رہے۔ آج بھی جو لوگ نبی (صلى الله عليه وسلم) کے حسن اخلاق، رفعت کردار اور امانت وصداقت کو تو خوب جھوم جھوم کر بیان کرتے اور اس موضوع پر فصاحت وبلاغت کے دریا بہاتے ہیں لیکن اتباع رسول (صلى الله عليه وسلم) میں وہ انقباض محسوس کرتے آپ کی بات کے مقابلے میں فقہ وقیاس اور اقوال ائمہ کو ترجیح دیتے ہیں، انہیں سوچنا چاہیئے کہ یہ کس کا کردار ہے جسے انہوں نے اپنایا ہوا ہے؟
____________________
* نبی (صلى الله عليه وسلم) کی مزید تسلی کے لئے کہا جا رہاہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ کافر اللہ کے پیغمبر کا انکار کر رہے ہیں بلکہ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرچکے ہیں جن کی تکذیب کی جاتی رہی ہے۔ پس آپ بھی ان کی اقتدا کرتے ہوئے اسی طرح صبر اور حوصلے سے کام لیں جس طرح انہوں نے تکذیب اور ایذا پر صبر سے کام لیا، حتیٰ کہ آپ کے پاس بھی اسی طرح ہمار ی مدد آجائے، جس طرح پہلے رسولوں کی ہم نے مدد کی اور ہم اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتے۔ ہم نے وعدہ کیا ہوا ہے «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا» (المؤمن: 51) ”یقیناً ہم اپنے پیغمبروں اور اہل ایمان کی مدد کریں گے“۔ «كَتَبَ اللَّهُ لأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي» (المجادلة: 21) ”اللہ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے“، وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ. (مثلا الصافات: 171، 172)
**- بلکہ اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا کہ آپ کافروں پر غالب ومنصور رہیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
***- جن سے واضح ہے کہ ابتدا میں گو ان کی قوموں نے انہیں جھٹلایا، انہیں ایذائیں پہنچائیں اور ان کے لئے عرصۂ حیات تنگ کردیا، لیکن بالآخر اللہ کی نصرت سے کامیابی وکامرانی اور نجات ابدی انہی کا مقدر بنی۔
____________________
* نبی (صلى الله عليه وسلم) کو معاندین وکافرین کی تکذیب سے جو گرانی اور مشقت ہوتی تھی، اسی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر سے ہونا ہی تھا اور اللہ کے حکم کے بغیر آپ ان کو قبول اسلام پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ حتیٰ کہ اگر آپ کوئی سرنگ کھود کر یا آسمان پر سیڑھی لگاکر بھی کوئی نشانی ان کو لا کر دکھا دیں، تو اول آپ کے لئے ایسا کرنا محال ہے اور اگر بالفرض آپ ایسا کر دکھائیں بھی تو یہ ایمان لانے کے نہیں۔ کیوں کہ ان کا ایمان نہ لانا، اللہ کی حکمت ومشیت کے تحت ہے جس کا مکمل احاطہ انسانی عقل وفہم نہیں کرسکتے۔ البتہ جس کی ایک ظاہری حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اختیار وارادے کی آزادی دے کر آزما رہا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے لئے تمام انسانوں کو ہدایت کے ایک راستے پر لگا دینا مشکل کام نہ تھا، اس کے لئے لفظ ”كُنْ“ سے پلک جھپکتے میں یہ کام ہوسکتا ہے۔
**- یعنی آپ ان کے کفر پر زیادہ حسرت وافسوس نہ کریں کیونکہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت وتقدیر سے ہے، اس لئے اسے اللہ ہی کے سپرد کردیں، وہی اس کی حکمت ومصلحت کو بہتر سمجھتا ہے۔
____________________
* اور ان کافروں کی حیثیت تو ایسی ہے جیسے مردوں کی ہوتی ہے جس طرح وہ سننے اور سمجھنے کی قدرت سے محروم ہیں، یہ بھی چونکہ اپنی عقل وفہم سے حق کو سمجھنے کا کام نہیں لیتے، اس لئے یہ بھی مردہ ہی ہیں۔
____________________
* یعنی ایسا معجزہ، جو ان کو ایمان لانے پر مجبور کردے، جیسے ان کی آنکھوں کے سامنے فرشتہ اترے، یا پہاڑ ان پر اٹھا کر بلند کر دیا جائے، جس طرح بنی اسرائیل پر کیا گیا۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ تو یقینًا ایسا کرسکتا ہے لیکن اس نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ پھر انسانوں کے ابتلا کا مسئلہ ختم ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں ان کے مطالبے پر اگر کوئی معجزہ دکھلایا جاتا اور پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے تو پھر فوراً انہیں اسی دنیا میں سخت سزا دے دی جاتی۔ یوں گویا اللہ کی اس حکمت میں بھی انہی کا دنیاوی فائدہ ہے۔
**- جو اللہ کے حکم ومشیت کی حکمت بالغہ کا ادراک نہیں کرسکتے۔
____________________
* یعنی انہیں بھی اللہ نے اسی طرح پیدا فرمایا جس طرح تمہیں پیدا کیا، اسی طرح انہیں روزی دیتا ہے جس طرح تمہیں دیتا ہے اور تمہاری ہی طرح وہ بھی اس کی قدرت وعلم کے تحت داخل ہیں۔
**- کتاب (دفتر) سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی وہاں ہر چیز درج ہے یا مراد قرآن ہے جس میں اجمالاً یا تفصیلاً دین کے ہر معاملے پر روشنی ڈالی گئی ہے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا «وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ» (النحل: 89) ”ہم نے آپ پر ایسی کتاب اتاری ہے جس میں ہر چیز کا بیان ہے“۔ یہاں پر سیاق کے لحاظ سے پہلا معنی اقرب ہے۔
***- یعنی تمام مذکورہ گروہ اکٹھے کئے جائیں گے۔ اس سے علماء کے ایک گروہ نے استدلال کیا ہے کہ جس طرح تمام انسانوں کو زندہ کرکے ان کا حساب کتاب لیا جائے گا، جانوروں اور دیگر تمام مخلوقات کو بھی زندہ کرکے ان کا بھی حساب کتاب ہوگا۔ جس طرح ایک حدیث میں بھی نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: ”کسی سینگ والی بکری نے اگر بغیر سینگ والی بکری پر کوئی زیادتی کی ہوگی تو قیامت والے دن سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا“۔ (صحيح مسلم-نمبر 1997) بعض علماء نے حشر سے مراد صرف موت لی ہے۔ یعنی سب کو موت آئے گی۔ اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہاں حشر سے مراد کفار کا حشر ہے۔ اور درمیان میں مزید جو باتیں آئی ہیں، وہ جملہ معترضہ کے طور پر ہیں۔ اور حدیث مذکور (جس میں بکری سے بدلہ لئے جانے کا ذکر ہے) بطور تمثیل ہے جس سے مقصد قیامت کے حساب وکتاب کی اہمیت وعظمت کو واضح کرنا ہے۔ یا یہ کہ حیوانات میں سے صرف ظالم اور مظلوم کو زندہ کرکے ظالم سے مظلوم کا بدلہ دلا دیا جائے گا۔ پھر دونوں معدوم کر دیئے جائیں گے۔ (فتح القدیر وغیرہ) اس کی تائید بعض احادیث سے بھی ہوتی ہے۔
____________________
* آیات الٰہی کی تکذیب کرنے والے چونکہ اپنے کانوﮞ سے حق بات سنتے نہیں اور اپنی زبانوں سے حق بات بولتے نہیں، اس لئے وہ ایسے ہی ہیں جیسے گونگے اور بہرے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ کفر وضلالت کی تاریکیوں میں بھی گھرے ہوئے ہیں۔ اس لئے انہیں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی جس سے ان کی اصلاح ہوسکے۔ پس ان کے حواس گویا مسلوب ہوگئے جن سے کسی حال میں وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ پھر فرمایا: تمام اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ جسے چاہے گمراہ کردے اور جسے چاہے سیدھی راہ پر لگا دے۔ لیکن اس کا یہ فیصلہ یوں ہی الل ٹپ نہیں ہوجاتا بلکہ عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے، گمراہ اسی کو کرتا ہے جو خود گمراہی میں پھنسا ہوتا ہے اور اس سے نکلنے کی وہ سعی کرتا ہے نہ نکلنے کو وہ پسند ہی کرتا ہے۔ (مزید دیکھیے سورۂ بقرۃ آیت 26 کا حاشیہ)
____________________
* ”أَرَأيْتَكُمْ“ میں کاف اور میم خطاب کے لئے ہے اس کے معنی ”أَخْبِرُونِي“ (مجھے بتلاؤ یا خبر دو) کے ہیں۔ اس مضمون کو بھی قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ (دیکھیے سورۂ بقرہ آیت 165 کا حاشیہ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ توحید انسانی فطرت کی آواز ہے۔ انسانی ماحول، یا آبا واجداد کی تقلید نا سدید میں مشرکانہ عقائد واعمال میں مبتلا رہتا ہے اور غیر اللہ کو اپنا حاجت روا ومشکل کشا سمجھتا رہتا ہے، نذر ونیاز بھی انہی کے نام کی نکالتا ہے، لیکن جب کسی ابتلا سے دوچار ہوتا ہے تو پھر یہ سب بھول جاتا ہے اور فطرت ان سب پر غالب آجاتی ہے اور بےاختیار انسان پھر اسی ذات کو پکارتا ہے جس کو پکارنا چاہیے۔ کاش! لوگ اسی فطرت پر قائم رہیں کہ نجات اخروی تو مکمل طور پر اسی صدائے فطرت یعنی توحید کے اختیار کرنے میں ہی ہے۔
____________________
* قومیں جب اخلاق وکردار کی پستی میں مبتلا ہو کر ا پنے دلوں کو زنگ آلود کرلیتی ہیں تو اس وقت اللہ کے عذاب بھی انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے اور جھنجھوڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر ان کے ہاتھ طلب مغفرت کے لئے اللہ کے سامنے نہیں اٹھتے، ان کے دل اس کی بارگاہ میں نہیں جھکتے اور ان کے رخ اصلاح کی طرف نہیں مڑتے۔ بلکہ اپنی بداعمالیوں پر تاویلات وتوجیہات کے حسین غلاف چڑھا کر اپنے دل کو مطمئن کرلیتی ہیں۔ اس آیت میں ایسی ہی قوموں کا وہ کردار بیان کیا گیا ہے جسے شیطان نے ان کے لئے خوبصورت بنا دیا ہوتا ہے۔
____________________
* اس میں خدا فراموش قوموں کی بابت اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ہم بعض دفعہ وقتی طور پر ایسی قوموں پر دنیا کی آسائشوں اور فراوانیوں کے دروازے کھول دیتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ اس میں خوب مگن ہوجاتی ہیں اور اپنی مادی خوش حالی و ترقی پر اترانے لگ جاتی ہیں تو پھر ہم اچانک انہیں اپنے مواخذے کی گرفت میں لے لیتے ہیں اور ان کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ حدیث میں بھی آتا ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ ”جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نافرمانیوں کے باوجود کسی کو اس کی خواہشات کے مطابق دنیا دے رہا ہے تو یہ استدراج (دھیل دینا) ہے۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔“ (مسند أحمد، جلد 4، صفحة 145) قرآن کریم کی اس آیت اور حدیث نبوی (صلى الله عليه وسلم) سے معلوم ہوا کہ دنیوی ترقی اور خوش حالی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ جس فرد یا قوم کو یہ حاصل ہو تو وہ اللہ کی چہیتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے، جیسا کہ بعض لوگ ایسا سمجھتے ہیں بلکہ بعض تو انہیں «أَنَّ الأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ» (الأنبياء: 105) کا مصداق قرار دے کر انہیں (اللہ کے نیک بندے) تک قرار دیتے ہیں۔ ایسا سمجھنا اور کہنا غلط ہے، گمراہ قوموں یا افراد کی دنیوی خوش حالی، ابتلا اور مہلت کے طور پر ہے نہ کہ یہ ان کے کفر ومعاصی کا صلہ ہے۔
____________________
* آنکھیں، کان اور دل، یہ انسان کے نہایت اہم اعضاء وجوارح ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا کہ اگر وہ چاہے تو ان کی وہ خصوصیات سلب کرلے جو اللہ نے ان کے اندر رکھی ہیں یعنی سننے، دیکھنے اور سمجھنے کی خصوصیات، جس طرح کافروں کے یہ اعضاء ان خصوصیات سے محروم ہوتے ہیں۔ یا اگر وہ چاہے تو اعضاء کو ویسے ہی ختم کردے، وہ دونوں ہی باتوں پر قادر ہے، اس کی گرفت سے کوئی بچ نہیں سکتا، مگر یہ کہ وہ خود کسی کو بچانا چاہے۔ آیات کو مختلف پہلوؤں سے پیش کرنے کا مطلب ہے کہ کبھی انذار وتبشیر اور ترغیب وترہیب کے ذریعے سے، اور کبھی کسی اور ذریعے سے۔
____________________
* ”بَغْتَةً“ (بےخبری) سے مراد رات اور ”جَهْرَةً“ (خبرداری) سے دن مراد ہے، جسے سورۂ یونس میں بَيَاتًا أَوْ نَهَارًا (سورة يونس: 50) سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی دن کو عذاب آجائے یا رات کو۔ یا پھربَغْتَةً وہ عذاب ہے جو اچانک بغیر تمہید اور مقدمات کے آجائے اورجَهْرَةً وہ عذاب جو تمہید اور مقدمات کے بعد آئے۔ یہ عذاب جو قوموں کی ہلاکت کے لئے آتا ہے۔ ان ہی پر آتا ہے جو ظالم ہوتی ہیں یعنی کفر وطغیان اور معصیت الٰہی میں حد سے تجاوز کرجاتی ہیں۔
____________________
* وہ اطاعت گزاروں کو ان نعمتوں اور اجر جزیل کی خوشخبری دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے جنت کی صورت میں ان کے لئے تیار کر رکھا ہے اور نافرمانوں کو ان عذابوں سے ڈراتے ہیں جو اللہ نے ان کے لئے جہنم کی صورت میں تیار کئے ہوئے ہیں۔
**- مستقبل (یعنی آخرت) میں پیش آنے والے حالات کا انہیں اندیشہ نہیں اور اپنے پیچھے دنیا میں جو کچھ چھوڑ آئے یا دنیا کی جو آسودگیاں وہ حاصل نہ کرسکے، اس پر وہ مغموم نہیں ہوں گے کیونکہ دونوں جہانوں میں ان کا ولی اور کارساز وہ رب ہے جو دونوں ہی جہانوں کا رب ہے۔
____________________
* یعنی ان کو عذاب اس لئے پہنچے گا کہ انہوں نے تکفیر وتکذیب کا راستہ اختیار کیا، اللہ کی اطاعت اور اس کے اوامر کی پرواہ نہیں کی اور اس کے محارم ومناہی کا ارتکاب بلکہ اس کی حرمتوں کو پامال کیا۔
____________________
* میرے پاس اللہ کے خزانے بھی نہیں (جس سے مراد ہر طرح کی قدرت وطاقت ہے) کہ میں تمہیں اللہ کے اذن ومشیت کے بغیر کوئی ایسا بڑا معجزہ صادر کرکے دکھا سکوں، جیسا کہ تم چاہتے ہو، جسے دیکھ کر تمہیں میری صداقت کا یقین ہوجائے۔ میرے پاس غیب کا علم بھی نہیں کہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات میں تمہیں مطلع کر دو، مجھے فرشتہ ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کہ تم مجھے ایسے خرق عادات امور پر مجبور کرو جو انسانی طاقت سے بالا ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کا پیرو ہوں جو مجھ پر نازل ہوتی ہے اور اس میں حدیث بھی شامل ہے، جیسا کہ آپ نے فرمایا: ”أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ“ مجھے قرآن کے ساتھ اس کی مثل بھی دیا گیا یہ مثل حدیث رسول (صلى الله عليه وسلم) ہی ہے۔
**- یہ استفہام انکار کے لئے ہے یعنی اندھا اور بینا، گمراہ اور ہدایت یافتہ اور مومن وکافر برابر نہیں ہوسکتے۔
____________________
* یعنی انذار کا فائدہ ایسی ہی لوگوں کو ہوسکتا ہے، ورنہ جو بعث بعد الموت اور حشر ونشر پر یقین ہی نہیں رکھتے، وہ اپنے کفر وجحود پر ہی قائم رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں ان اہل کتاب اور کافروں اور مشرکوں کا رد بھی ہے جو اپنے آبا اور اپنے بتوں کو اپنا سفارشی سمجھتے تھے۔ نیز کارساز اور سفارشی نہیں ہوگا کا مطلب، یعنی ان کے لئے جو عذاب جہنم کے مستحق قرار پاچکے ہوں گے۔ ورنہ مومنوں کے لئے تو اللہ کے نیک بندے، اللہ کے حکم سے سفارش کریں گے۔ یعنی شفاعت کی نفی اہل کفر وشرک کے لئے ہے اور اس کا اثبات ان کے لئے جو گناہ گار مومن وموحد ہوں گے، اسی طرح دونوں قسم کی آیات میں کوئی تعارض بھی نہیں رہتا۔
____________________
* یعنی یہ بےسہارا اور غریب مسلمان، جو بڑے اخلاص سے رات دن اپنے رب کو پکارتے ہیں یعنی اس کی عبادت کرتے ہیں، آپ مشرکین کے اس طعن یا مطالبہ سے کہ اے محمد! (صلى الله عليه وسلم) تمہارے اردگرد توغربا وفقرا کا ہی ہجوم رہتا ہے ذرا انہیں ہٹاو تو ہم بھی تمہارے ساتھ بیٹھیں، ان غربا کو اپنے سے دور نہ کرنا، بالخصوص جب کہ آپ کا کوئی حساب ان کے متعلق نہیں اور ان کا آپ کے متعلق نہیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو یہ ظلم ہوگا جو آپ کے شایان شان نہیں۔ مقصد امت کو سمجھانا ہے کہ بےوسائل لوگوں کو حقیر سمجھنا یا ان کی صحبت سے گریز کرنا اور ان سے وابستگی نہ رکھنا، یہ نادانوں کا کام ہے۔ اہل ایمان کا نہیں۔ اہل ایمان تو اہل ایمان سے محبت رکھتے ہیں چاہے وہ غریب اور مسکین ہی کیوں نہ ہوں۔
____________________
* ابتدا میں اکثر غریب، غلام قسم کے لوگ ہی مسلمان ہوئے تھے۔ اس لئے یہی چیز روءسائے کفار کی آزمائش کا ذریعہ بن گئی اور وہ ان غریبوں کا مذاق بھی اڑاتے اور جن پر ان کا بس چلتا، انہیں تعذیب واذیت سے بھی دوچار کرتے اور کہتے کہ کیا یہی لوگ جن پراللہ نے احسان فرمایا ہے؟ مقصد ان کا یہ تھا کہ ایمان اور اسلام اگر واقعی اللہ کا احسان ہوتا تو یہ سب سے پہلے ہم پر ہوتا، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ”لَوْ كَانَ خَيْرًا مَا سَبَقُونَا إِلَيْهِ“ (الأحقاف: 11) ”اگر یہ بہتر چیز ہوتی تو اس کے قبول کرنے میں یہ ہم سے سبقت نہ کرتے“ یعنی ان ضعفا کے مقابلے میں ہم پہلے مسلمان ہوتے۔
**- یعنی اللہ تعالیٰ ظاہری چمک دمک، ٹھاٹھ باٹھ اور رئیسانہ کروفر وغیرہ نہیں دیکھتا، وہ تو دلوں کی کیفیت کو دیکھتا ہے اور اس اعتبار سے وہ جانتا ہے کہ اس کے شکرگزار بندے اور حق شناس کون ہیں؟ پس اس نے جن کے اندر شکرگزاری کی خوبی دیکھی، انہیں ایمان کی سعادت سے سرفراز کردیا جس طرح حدیث میں آتا ہے۔ ”اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا، وہ تو تمہارے دل اور تمہارے عمل دیکھتا ہے۔“ (صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم ظلم المسلم وخذله واحتقاره ودمه وعرضه)
____________________
* یعنی ان پر سلام کرکے یا ان کے سلام کا جواب دے کر ان کی تکریم اور قدرافزائی کریں۔
**- اور انہیں خوشخبری دیں کہ تفضل واحسان کے طور پر اللہ تعالی نے اپنے شکرگزار بندوں پر اپنی رحمت کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تخلیق کائنات سے فارغ ہوگیا تو اس نے عرش پر لکھ دیا ”إنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي“ (صحيح بخاري ومسلم) ”میری رحمت، میرے غضب پر غالب ہے“۔
***- اس میں بھی اہل ایمان کے لئے بشارت ہے کیونکہ ان ہی کی یہ صفت ہے کہ اگر نادانی سے یا بہ تقاضائے بشریت کسی گناہ کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں تو پھر فوراً توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیتے ہیں۔ گناہ پر اصرار اور دوام اور توبہ وانابت سے اعراض نہیں کرتے۔
____________________
* یعنی اگر میں بھی تمہاری طرح اللہ کی عبادت کرنے کے بجائے، تمہاری خواہشات کے مطابق غیر اللہ کی عبادت شروع کر دوں تو یقیناً میں بھی گمراہ ہوجاؤں گا۔ مطلب یہ ہے کہ غیر اللہ کی عبادت وپرستش، سب سے بڑی گمراہی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ گمراہی اتنی ہی عام بھی ہے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد اس میں مبتلا ہے۔هَدَاهُمُ اللهُ تَعَالَى-
____________________
* مراد وہ شریعت ہے جو وحی کے ذریعے سے آپ (صلى الله عليه وسلم) پر نازل کی گئی، جس میں توحید کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ ”إِنَّ اللهَ لا يَنْظُرُ إِلَى صِوَرِكُمْ وَلا إِلى أَلْوَانِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ“ (صحيح مسلم ومسند أحمد / 539،85۔ابن ماجه، كتاب الزهد، باب القناعة)
**- تمام کائنات پر اللہ ہی کا حکم چلتا ہے اور تمام معاملات اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لئے تم جو چاہتے ہو کہ جلد ہی اللہ کا عذاب تم پر آجائے تاکہ تمہیں میری صداقت یا کذب کا پتہ چل جائے، تو یہ بھی اللہ ہی کے اختیار میں ہے، وہ اگر چاہے تو تمہاری خواہش کے مطابق جلدی عذاب بھیج کر تمہیں متنبہ یا تباہ کردے اور چاہے تو اس وقت تک تمہیں مہلت دے جب تک اس کی حکمت اس کی مقتضی ہو۔
***- ”يَقُصُّ“ ”قَصَصٌ“ سے ہے یعنی يَقُصُّ قَصَصَ الْحَقّ (حق باتیں بیان کرتا یا بتلاتا ہے) یا قَصَّ أَثَرَهُ (کسی کے پیچھے، پیروی کرنا) سے ہے یعنی يَتَّبِعُ الْحَقَّ فِيمَا يَحْكُمُ بِهِ (اپنے فیصلوں میں وہ حق کی پیروی کرتا ہے یعنی حق کے مطابق فیصلے کرتا ہے)۔ (فتح القدیر )
____________________
* یعنی اگر اللہ تعالیٰ میرے طلب کرنے پر فوراً عذاب بھیج دیتا یا اللہ تعالیٰ میرے اختیار میں یہ چیز دے دیتا تو پھر تمہاری خواہش کے مطابق عذاب بھیج کر جلد ہی فیصلہ کردیا جاتا۔ لیکن یہ معاملہ چونکہ کلیتاً اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، اس لئے اس نے مجھے اس کا اختیار دیا ہے اور نہ ہی ممکن ہے کہ میری درخواست پر فوراً عذاب نازل فرما دے۔
ضروری وضاحت: حدیث میں جو آتا ہے کہ ایک موقعے پر اللہ کے حکم سے پہاڑوں کا فرشتہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کے خدمت میں آیا اور اس نے کہا کہ اگر آپ (صلى الله عليه وسلم) حکم دیں تو میں ساری آبادی کو دونوں پہاڑوں کے درمیان کچل دوں آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے اللہ کی عبادت کرنے والا پیدا فرمائے گا، جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے“ (صحيح بخاري، كتاب بدء الخلق، باب إذا قال أحدكم آمين والملائكة في السماء... وصحيح مسلم، كتاب الجهاد باب ما لقي النبي من أذى المشركين) یہ حدیث آیت زیرِ وضاحت کے خلاف نہیں ہے، جیسا کہ بظاہر معلوم ہوتی ہے، اس لئے کہ آیت میں عذاب طلب کرنے پر عذاب دینے کا اظہار ہے جب کہ اس حدیث میں مشرکین کے طلب کئے بغیر صرف ان کی ایذا دہی کی وجہ سے ان پر عذاب بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے جسے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے پسند نہیں فرمایا۔
____________________
* ”كِتَابٌ مُبِينٌ“ سے مراد لوح محفوظ ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے غیب کے سارے خزانے اسی کے پاس ہیں، اس لئے کفار ومشرکین اور معاندین کو کب عذاب دیا جائے؟ اس کا علم بھی صرف اسی کو ہے اور وہی اپنی حکمت کے مطابق اس کا فیصلہ کرنے والا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ مفاتح الغیب پانچ ہیں قیامت کا علم، بارش کا نزول، رحم مادر میں پلنے والا بچہ، آئندہ کل میں پیش آنے والے واقعات، اور موت کہاں آئے گی۔ ان پانچوں امور کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ (صحيح بخاري تفسير سورة الأنعام)
____________________
* یہاں نیند کو وفات سے تعبیر کیا گیا ہے، اسی لئےاسے وفات اصغر اور موت کو وفات اکبر کہا جاتا ہے۔ (وفات کی وضاحت کے لئے دیکھیئے آل عمران کی آیت 55 کا حاشیہ)
**- یعنی دن کے وقت روح واپس لوٹا کر زندہ کر دیتا ہے۔
***- یعنی یہ سلسلہ شب وروز اور وفات اصغر سے ہمکنار ہو کر دن کو پھر اٹھ کھڑے ہونے کا معمول، انسان کی وفات اکبر تک جاری رہے گا۔
****- یعنی پھر قیامت والے دن زندہ ہو کر سب کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔
____________________
* یعنی اپنے اس مفوضہ کام میں اور روح کی حفاظت میں بلکہ وہ فرشتہ، مرنے والا اگر نیک ہوتا ہے تو اس کی روح عِلِّيِّينَ میں اور اگر بد ہوتا ہے توسِجِّينٌ میں، بھیج دیتا ہے۔
____________________
* آیت میں ”رُدُّوْا“ (لوٹائے جائیں گے) کا مرجع بعض نے فرشتوں کو قرار دیا ہے یعنی قبض روح کے بعد فرشتے اللہ کی بارگاہ میں لوٹ جاتے ہیں۔ اور بعض نے اس کا مرجع تمام لوگوں کو بنایا ہے۔ یعنی سب لوگ حشر کے بعد اللہ کی بارگاہ میں لوٹائے جائیں گے (پیش کئے جائیں گے) اور پھر وہ سب کا فیصلہ فرمائے گا۔ آیت میں روح قبض کرنے والے فرشتوں کو رسل (جمع کے صیغے کے ساتھ) بیان کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روح قبض کرنے والا فرشتہ ایک نہیں متعدد ہیں۔ اس کی توجیہ بعض مفسرین نے اس طرح کی ہے کہ قرآن مجید میں روح قبض کرنے کی نسبت اللہ کی طرف بھی ہے۔ ”اللَّهُ يَتَوَفَّى الأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا“ (الزمر: 42) اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے، اور اس کی نسبت ایک فرشتے (ملک الموت) کی طرف بھی کی گئی ہے۔ ”قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ“ (الم السجدة: 11) کہہ دو تمہاری روحیں وہ فرشتۂ موت قبض کرتا ہے جو تمہارے لئے مقرر کیا گیا ہے، اور اس کی نسبت متعدد فرشتوں کی طرف بھی کی گئی ہے، جیسا کہ اس مقام پر ہے اور اسی طرح سورۂ نساء آیت 97 اور الانعام آیت 93 میں بھی ہے۔ اس لئے اللہ کی طرف اس کی نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہی اصل آمر (حکم دینے والا) بلکہ فاعل حقیقی ہے۔ متعدد فرشتوں کی طرف نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہ ملک الموت کے مددگار ہیں، وہ رگوں، شریانوں، پٹھوں سے روح نکالنے اور اس کا تعلق ان تمام چیزوں سے کاﭨنے کا کام کرتے ہیں اور ملک الموت کی طرف نسبت کے معنی یہ ہیں کہ پھر آخر میں وہ روح قبض کرکے آسمانوں کی طرف لے جاتا ہے۔ (تفسير روح المعاني جلد 5، صفحة 5) حافظ ابن کثیر، امام شوکاﻧﯽ اور جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ ملک الموت ایک ہی ہے جیسا کہ سورۂ الم السجدۃ کی آیت سے اور مسند احمد (جلد 4، صفحہ 287) میں حضرت براء بن عازب (رضي الله عنه) کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے اور جہاں جمع کے صیغے میں ان کا ذکر ہے تو وہ اس کے اعوان وانصار ہیں۔ اور بعض آثار میں ملک الموت کا نام عزرائیل بتلایا گیا ہے۔ (تفسير ابن كثير - الم السجدة )- والله أعلم-
____________________
* یعنی آسمان سے، جیسے بارش کی کثرت، یا ہوا، پتھر کے ذریعے سے عذاب۔ یا امرا وحکام کی طرف سے ظلم وستم۔
**- جیسے دھنسایا جانا، طوفانی سیلاب، جس میں سب کچھ غرق ہوجائے۔ یا مراد ہے ماتحتوں، غلاموں اور نوکروں چاکروں کی طرف سے عذاب کہ وہ بددیانت اور خائن ہوجائیں۔
***- ”يَلْبِسَكُمْ“ أَيْ يَخْلُطَ أَمْرَكُمْ تمہارے معاملے کو غلط ملط یا مشتبہ کردے جس کی وجہ سے تم گروہوں اور جماعتوں میں بٹ جاوء۔ ”وَيُذِيقَ“: أَيْ يَقْتلُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَتُذِيقَ كُلُّ طَائِفَةٍ الأُخْرَى أَلَمَ الْحَرْبِ۔ تمہارا ایک، دوسرے کو قتل کرے۔ اس طرح ہر گروہ دوسرے گروہ کو لڑائی کا مزہ چکھائے (ایسرالتفاسیر) حدیث میں آتا ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں۔۔ میری امت غرق کے ذریعے ہلاک نہ کی جائے۔ 2۔ قحط عام کے ذریعے اس کی تباہی نہ ہو۔ 3۔ آپس میں ان کی لڑائی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی دو دعائیں قبول فرمالیں۔ اور تیسری دعا سے مجھے روک دیا۔ (صحیح مسلم، نمبر 2216) یعنی اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ امت محمدیہ میں اختلاف وَانْشِقاق واقع ہوگا اور اس کی وجہ اللہ کی نافرمانی اور قرآن وحدیث سے اعراض ہوگا جس کے نتیجے میں عذاب کی اس صورت سے امت محمدیہ بھی محفوظ نہ رہ سکے گی۔ گویا اس کا تعلق اس سنت اللہ سے ہے جو قوموں کے اخلاق وکردار کے بارے میں ہمیشہ رہی ہے۔ جس میں تبدیلی ممکن نہیں ”فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلا، وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَحْوِيلا“ (فاطر: 43)
____________________
* ”به“ کا مرجع قرآن ہے یا عذاب (فتح القدیر )
**- یعنی مجھے اس امر کا مکلف نہیں کیا گیا ہے کہ میں تمہیں ہدایت کے راستے پر لگا کر ہی چھوڑوں۔ بلکہ میرا کام صرف دعوت وتبلیغ ہے ”فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ“ (الكهف: 9)
____________________
* آیت میں خطاب اگرچہ نبی (صلى الله عليه وسلم) سے ہے لیکن مخاطب امت مسلمہ کا ہر فرد ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک تاکیدی حکم ہے جسے قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ نساء آیت نمبر 140 میں بھی یہ مضمون گزرچکا ہے۔ اس سے ہر وہ مجلس مراد ہے جہاں اللہ رسول کے احکام کا مذاق اڑایا جارہا ہو یا عملاً ان کا استخفاف کیا جا رہا ہو یا اہل بدعت واہل زیغ اپنی تاویلات رکیکہ اور توجیہات نحیفہ کے ذریعے سے آیات الٰہی کو توڑ مروڑ رہے ہوں۔ ایسی مجالس میں غلط باتوں پر تنقید کرنے اور کلمہ حق بلند کرنے کی نیت سے تو شرکت جائز ہے، بصورت دیگر سخت گناہ اور غضب الٰہی کا باعث ہے۔
____________________
* ”مِنْ حِسَابِهِمْ“ کا تعلق آیات الٰہی کا استہزا کرنے والوں سے ہے۔ یعنی جو لوگ ایسی مجالس سے اجتناب کریں گے، تو استہزا بآیات اللہ کا جو گناہ، استہزا کرنے والوں کو ملے گا، وہ اس گناہ سے محفوظ رہیں گے۔
**- یعنی اجتناب وعلیحدگی کے باوجود وعظ ونصیحت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ حتی المقدور ادا کرتے رہیں۔ شاید وہ بھی اپنی اس حرکت سے باز آجائیں۔
____________________
* ”تُبْسَلَ“ أي: لِئَلاَّ تُبْسَلَ، بَسَلٌ کے اصل معنی تو منع کے ہیں، اسی سے ہے شُجَاعٌ بَاسِلٌ لیکن یہاں اس کے مختلف معنی کئے گئے ہیں۔ (1) تُسَلَّمُ (سونپ دیئے جائیں) (2) تُفْضَحُ (رسوا کردیا جائے) (3) تُؤَاخَذُ (مواخذہ کیا جائے) (4) تُجَازَى (بدلہ دیا جائے)۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سب کے معنی قریب قریب ایک ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ انہیں اس قرآن کے ذریعے سے نصیحت کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نفس کو، جو اس نے کمایا، اس کے بدلے ہلاکت کے سپرد کردیاجائے۔ یا رسوائی اس کا مقدر بن جائے یا وہ مواخذہ اور مجازات کی گرفت میں آجائے۔ ان تمام مفہوم کو فاضل مترجم نے (پھنس نہ جائے) سے تعبیر کیا ہے۔
**- دنیا میں انسان عام طور پر کسی دوست کی مدد یا کسی سفارش سے یا مالی معاوضہ دے کرچھوٹ جاتا ہے۔ لیکن آخرت میں یہ تینوں ذریعے کام نہیں آئیں گے۔ وہاں کافروں کا کوئی دوست نہ ہوگا جو انہیں اللہ کی گرفت سے بچا لے، نہ کوئی سفارشی ہو گا جو انہیں عذاب الٰہی سے نجات دلا دے اور نہ کسی کے پاس معاوضہ دینے کے لئے کچھ ہوگا، اگر بالفرض ہو بھی تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا کہ وہ دے کر چھوٹ جائے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔
____________________
* یہ ان لوگوں کی مثال بیان فرمائی ہے جو ایمان کے بعد کفر اور توحید کے بعد شرک کی طرف لوٹ جائیں۔ ان کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک شخص اپنے ان ساتھیوں سے بچھڑ جائے جو سیدھے راستے پر جارہے ہوں۔ اور بچھڑ جانے والا جنگلوں میں حیران وپریشان بھٹکتا پھر رہا ہو، ساتھی اسے بلا رہے ہوں لیکن حیرانی میں اسے کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو۔ یا جنات کے نرغے میں پھنس جانے کے باعث صحیح راستے کی طرف مراجعت اس کے لئے ممکن نہ رہی ہو۔
**- مطلب یہ ہے کہ کفر وشرک اختیار کرکے جو گمراہ ہوگیا ہے، وہ بھٹکے ہوئے راہی کی طرح ہدایت کی طرف نہیں آسکتا۔ ہاں البتہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ہدایت مقدر کردی ہے تو یقیناً اللہ کی توفیق سے وہ راہ یاب ہوجائے گا۔ کیونکہ ہدایت پر چلا دینا، اسی کا کام ہے۔ جیسے دوسرے مقامات پر فرمایا گیا ”فَإِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ يُضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ“ (النحل: 37) ”اگر تو ان کی ہدایت کی خواہش رکھتا ہے (تو کیا ؟) بےشک اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا، جس کو وہ گمراہ کر دے، اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔“ لیکن یہ ہدایت اور گمراہی اسی اصول کے تحت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے بنایا ہوا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ یوں ہی جسے چاہے گمراہ اور جسے چاہے راہ یاب کرے۔ جیسا کہ اس کی وضاحت متعدد جگہ کی جاچکی ہے۔
____________________
* ”وَأَنْ أَقِيمُوا“ کا عطف لِنُسْلِمَ پر ہے یعنی ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم رب العالمین کے مطیع ہوجائیں اور یہ کہ ہم نماز قائم کریں اور اس سے ڈریں۔ تسلیم وانقیاد الٰہی کے بعد سب سے پہلا حکم اقامت صلوۃ کا دیا گیا ہے جس سے نماز کی اہمیت واضح ہے اور اس کے بعد تقویٰ کا حکم ہے کہ نماز کی پابندی تقویٰ اور خشوع کے بغیر ممکن نہیں ”وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلا عَلَى الْخَاشِعِينَ“ (البقرة: 45 )
____________________
* حق کے ساتھ یا بافائدہ پیدا کیا، یعنی ان کو عبث اور بےفائدہ (کھیل کود کے طور پر) پیدا نہیں کیا، بلکہ ایک خاﺹ مقصد کے لئے کائنات کی تخلیق فرمائی ہے اور وہ یہ کہ اس اللہ کو یاد رکھا اور اس کا شکر ادا کیا جائے جس نے یہ سب کچھ بنایا۔
**- ”يَوْمَ“ فعل محذوف وَاذْكُر یا وَاتَّقُوا کی وجہ سے منصوب ہے۔ یعنی اس دن کو یاد کرو یا اس دن سے ڈرو! کہ اس کے لفظ کن (ہوجا) سے وہ جو چاہے گا، ہوجائے گا۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حساب کتاب کے کٹھن مراحل بھی بڑی سرعت کے ساتھ طے ہوجائیں گے۔ لیکن کن کے لئے؟ ایمان داروں کے لئے۔ دوسروں کو تو یہ دن ہزار سال یا پچاس ہزار سال کی طرح بھاری لگے گا۔
***- ”صُورٌ“ سے مراد وہ نرسنگا یا بگل ہے جس کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ ”اسرافیل اسے منہ میں لئے اور اپنی پیشانی جھکائے، حکم الہیٰ کے منتظر کھڑے ہیں کہ جب انہیں کہا جائے تو اس میں پھونک دیں“۔ (ابن کثیر) ابوداود اور ترمذی میں ہے ”الصور قرن ينفخ فيه“ (نمبر 474۔ 4030، 344) ”صور ایک قرن (نرسنگا) ہے جس میں پھونکا جائے گا“ بعض علماء کے نزدیک تین نفخے ہوں گے، نَفْخَةُ الصَّعْقِ (جس سے تمام لوگ بےہوش ہو جائیں گے) نَفْخَةُ الفَنَاءِ جس سے تمام لوگ فنا ہوجائیں گے۔ نَفْخَةُ الإِنْشَاءِ جس سے تمام انسان دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔ بعض علماء آخری دو نفخوں کے ہی قائل ہیں۔
____________________
* مورخین حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے باپ کے دو نام ذکر کرتے ہیں، آزر اور تارخ۔ ممکن ہے دوسرا نام لقب ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ آزر آپ کے چچا کا نام تھا۔ لیکن یہ صحیح نہیں، اس لئے کہ قرآن نے آزر کو حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے باپ کے طور پر ذکر کیا ہے، لہٰذا یہی صحیح ہے۔
____________________
* ”مَلَكُوتٌ“ مبالغہ کا صیغہ ہے جیسے رغبہ سے رَغَبُوتٌ اور رَهْبَةٌ سے رَهَبُوتٌ اس سے مراد مخلوقات ہے، جیسا کہ ترجمہ میں یہی مفہوم اختیار کیا گیا ہے۔ یا ربوبیت والوہیت ہے یعنی ہم نے اس کو یہ دکھلائی اور اس کی معرفت کی توفیق دی۔ یا یہ مطلب ہے کہ عرش سے لے کر اسفل ارض تک کا ہم نے ابراہیم (عليه السلام) کو مکاشفہ ومشاہدہ کرایا۔ (فتح القدیر)
____________________
* یعنی غروب ہونے والے معبودوں کو پسند نہیں کرتا، اس لئے کہ غروب، تغیر حال پر دلالت کرتا ہے جو حادث ہونے کی دلیل ہے اور جو حادث ہو معبود نہیں ہوسکتا۔
____________________
* ”شَمْسٌ“ (سورج) عربی میں مونث ہے۔ لیکن اسم اشارہ مذکر ہے۔ مراد الطالع ہے یعنی یہ طلوع ہونے والا سورج، میرا رب ہے۔ کیونکہ یہ سب سے بڑا ہے۔ جس طرح کہ سورﺝ پرستوں کو مغالطہ لگا اور وہ اس کی پرستش کرتے ہیں۔ (اجرام سماویہ میں سورج سب سے بڑا اور سب سے زیادہ روشن ہے اور انسانی زندگی کے بقا ووجود کے لئے اس کی اہمیت وافادیت محتاج وضاحت نہیں۔ اسی لئے مظاہر پرستوں میں سورج کی پرستش عام رہی ہے حضرت ابراہیم (عليه السلام) نے نہایت لطیف پیرائے میں چاند سورج کے پجاریوں پر ان کے معبودوں کی بے حیثیتی کو واضح فرمایا۔
**- یعنی ان تمام چیزوں سے، جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو، میں بیزار ہوں۔ اس لئے کہ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے، کبھی طلوع ہوتے، کبھی غروب ہوتے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مخلوق ہیں اور ان کا خالق کوئی اور ہے جس کے حکم کے یہ تابع ہیں۔ جب یہ خود مخلوق اور کسی کے تابع ہیں تو کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر کس طرح قادر ہوسکتے ہیں؟ مشہور ہے کہ اس وقت کے بادشاہ نمرود نے اپنے ایک خواب اور کاہنوں کی تعبیر کی وجہ سے نو مولود لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا، حضرت ابراہیم (عليه السلام) بھی ان ہی ایام میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے انہیں ایک غار میں رکھا گیا تاکہ نمرود اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جائیں۔ وہیں غار میں جب کچھ شعور آیا اور چاند سورﺝ دیکھے تو یہ تاثرات ظاہر فرمائے، لیکن یہ غار والی بات مستند نہیں ہے۔ قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سے گفتگو اور مکالمے کے وقت حضرت ابراہیم (عليه السلام) نے یہ باتیں کی ہیں، اسی لئے آخر میں قوم سے خطاب کرکے فرمایا کہ میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے بیزار ہوں۔ اور مقصد اس مکالمے سے معبودان باطل کی اصل حقیقت کی وضاحت تھی۔
____________________
* رخ یا چہرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ چہرے سے ہی انسان کی اصل شناخت ہوتی ہے، مراد اس سے شخص ہی ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میری عبادت اور توحید سے مقصود، اللہ عزوجل ہے جو آسمان وزمین کا خالق ہے۔
____________________
* جب قوم نے توحید کا یہ وعظ سنا جس میں ان کے خود ساختہ معبودوں کی تردید بھی تھی تو انہوں نے بھی اپنے دلائل دینے شروع کئے۔ جس سے معلوم ہوا کہ مشرکین نے بھی اپنے شرک کے لئے کچھ نے کچھ دلائل تراش رکھے تھے۔ جس کا مشاہدہ آﺝ بھی کیا جاسکتا ہے۔ جتنے بھی مشرکانہ عقائد رکھنے والے گروہ ہیں، سب نے اپنے اپنے عوام کو مطمئن کرنے اور رکھنے کے لئے ایسے (سہارے) تلاش کر رکھے ہیں جن کو وہ (دلائل) سمجھتے ہیں یا جن سے کم از کم دام تزویر میں پھنسے ہوئے عوام کو جال میں پھنسائے رکھا جاسکتا ہے۔
____________________
* یعنی مومن اور مشرک میں سے؟ مومن کے پاس تو توحید کے بھرپور دلائل ہیں، جب کہ مشرک کے پاس اللہ کی اتاری ہوئی دلیل کوئی نہیں، صرف اوہام باطلہ ہیں یا دور ازکار تاویلات۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امن اور نجات کا مستحق کون ہوگا؟
____________________
* آیت میں یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ (رضي الله عنهم) نے ظلم کا عام مطلب (کوتاہی، غلطی، گناہ، زیادتی وغیرہ) سمجھا، جس سے وہ پریشان ہوگئے اور رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں آ کر کہنے لگے أَيُّنَا لَمْ يَظْلِمْ نَفْسَه ہم میں سے کون شخص ایسا ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا اس سے وہ ظلم مراد نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ اس سے مراد شرک ہے۔ جس طرح حضرت لقمان (عليه السلام) نے اپنے بیٹے کو کہا تھا ”إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ“ (لقمان: 13) ”یقیناً شرک ظلم عظیم ہے“۔ (صحيح بخاري، تفسير سورة الأنعام)۔
____________________
* یعنی توحید الٰہی پر ایسی حجت اور دلیل، جس کا کوئی جواب ابراہیم (عليه السلام) کی قوم سے نہ بن پڑا۔ اور وہ بعض کے نزدیک یہ قول تھا، ”وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالأَمْنِ“ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے اس قول کی تصدیق فرمائی اور کہا «الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ»۔
____________________
* یعنی بڑھاپے میں، جب کہ وہ اولاد سے ناامید ہوگئے تھے، جیسا کہ سورۂ ہود، آیت 73،72 میں ہے، پھر بیٹے کے ساتھ ایسے پوتے کی بھی بشارت دی جو یعقوب (عليه السلام) ہوگا، جس کے معنی میں یہ مفہوم شامل ہے کہ اس کے بعد ان کی اولاد کا سلسلہ چلے گا، اس لئے کہ یہ عقب (پیچھے) سے مشتق ہے۔
**- ”ذُرِّيَّتِهِ“ میں ضمیر کا مرجع بعض مفسرین نے حضرت نوح (عليه السلام) کو قرار دیا ہے کیونکہ وہی اقرب ہیں۔ یعنی حضرت نوح (عليه السلام) کی اولاد میں سے داود اور سلیمان علیہما السلام کو۔ اور بعض نے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کو۔ اس لئے کہ ساری گفتگو ان ہی کے ضمن میں ہو رہی ہے۔ لیکن اس صورت میں یہ اشکال پیش آتا ہے کہ پھر لوط (عليه السلام) کا ذکر اس فہرست میں نہیں آنا چاہیئے تھا کیونکہ وہ ذریت ابراہیم (عليه السلام) میں سے نہیں ہیں۔ وہ ان کے بھائی ہاران بن آزر کے بیٹے یعنی ابراہیم (عليه السلام) کے بھتیجے ہیں۔ اور ابراہیم (عليه السلام)، لوط (عليه السلام) کے باپ نہیں، چچا ہیں۔ لیکن بطور تغلیب انہیں بھی ذریت ابراہیم (عليه السلام) میں شمار کر لیا گیا ہے۔ اس کی ایک اور مثال قرآن مجید میں ہے۔ جہاں حضرت اسماعیل (عليه السلام) کو اولاد یعقوب (عليه السلام) کے آبا میں شمار کیا گیا ہے جب کہ وہ ان کے چچا تھے۔ (دیکھیے سورۂ بقرۃ آیت 133)
____________________
* عیسیٰ (عليه السلام) کا ذکر حضرت نوح (عليه السلام) یا حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی اولاد میں اس لئے کیا گیا ہے (حالانکہ ان کا باپ نہیں تھا) کہ لڑکی کی اولاد بھی ذریت رجال میں ہی شمار ہوتی ہے۔ جس طرح نبی (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت حسن (رضي الله عنه) (اپنی بیٹی حضرت فاطمہ (رضی الله عنها) کے صاحبزادے) کو اپنا بیٹا فرمایا ”إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللهَ أنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ، مِنَ الْمُسْلِمِينَ“ صحيح بخاري، كتاب الصلح، باب قول النبي للحسن بن علي، ابني هذا سيد ( تفصیل کے لئے دیکھیئے تفسیر ابن کثیر)
____________________
آباء سے اصول اور ذریات سے فروع مراد ہیں۔ یعنی ان کے اصول وفروع اور اخوان میں سے بھی بہت سوں کو ہم نے مقام اجتبا اور ہدایت سے نوازا اجْتِبَاءٌ کے معنی ہیں چن لینا اور اپنے خاﺹ بندوں میں شمار کرنا اور ان کے ساتھ ملا لینا۔ یہجَبَيْتُ الْمَاءَ فِي الحَوْضِ( میں نے حوض میں پانی جمع کرلیا) سے مشتق ہے۔ پس اجْتِبَاءٌکا مطلب ہوا اپنے خاص بندوں میں ملا لینا۔اصْطِفَاءٌتخلیص اور اختیار بھی اسی معنی میں مستعمل ہے۔ جس کا مفعول مصطفیٰ (مجتبیٰ) مخلص اور مختار ہے۔ (فتح القدیر)
____________________
* اٹھارہ انبیاء کے اسمائے گرامی ذکر کرکے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے، اگر یہ حضرات بھی شرک کا ارتکاب کرلیتے تو ان کے سارے اعمال برباد ہوجاتے۔ جس طرح دوسرے مقام پر نبی (صلى الله عليه وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ“ (الزمر: 65) ”اے پیغمبر! اگر تو نے بھی شرک کیا تو تیرے سارے عمل برباد ہوجائیں گے“۔ حالانکہ پیغمبروں سے شرک کا صدور ممکن نہیں۔ مقصد امتوں کو شرک کی خطرناکی اور ہلاکت خیزی سے آگاہ کرنا ہے۔
____________________
* اس سے مراد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے مخالفین، مشرکین اور کفار ہیں۔
**- اس سے مراد مہاجرین وانصار اور قیامت تک آنے والے ایماندار ہیں۔
____________________
* اس سے مراد انبیا مذکورین ہیں۔ ان کی اقتدا کا حکم مسئلہ توحید میں اور ان احکام وشرائع میں ہے جو منسوخ نہیں ہوئے۔ (فتح القدیر) کیونکہ اصول دین تمام شریعتوں میں ایک ہی رہے ہیں، گو شرائع اور مناہج میں کچھ کچھ اختلاف رہا۔ جیسا کہ آیت ”شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا“ (الشورى: 3) سے واضح ہے۔
**- یعنی تبلیغ ودعوت کا، کیونکہ مجھے اس کا وہ صلہ ہی کافی ہے جو آخرت میں عنداللہ ملے گا۔
***- جہان والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ پس یہ قرآن انہیں کفر وشرک کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی عطا کرے گا اور ضلالت کی پگڈنڈیوں سے نکال کر ایمان کی صراط مستقیم پر گامزن کردے گا۔ بشرطیکہ کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہے، ورنہ ع دیدۂ کور کو کیا نظر آئے کیا دیکھیے۔ والا معاملہ ہوگا۔
____________________
* قَدَرٌکے معنی اندازہ کرنے کے ہیں اور یہ کسی چیز کی اصل حقیقت جاننے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ مشرکین مکہ ارسال رسل اور انزال کتب کا انکار کرتے ہیں، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ انہیں اللہ کی صحیح معرفت ہی حاصل نہیں ورنہ وہ ان چیزوں کا انکار نہ کرتے۔ علاوہ ازیں اسی عدم معرفت الٰہی کی وجہ سے وہ نبوت و رسالت کی معرفت سے بھی قاصر رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ کسی انسان پر اللہ کا کلام کس طرح نازل ہوسکتا ہے؟ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا «أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ» (يونس:20) ”کیا یہ بات لوگوں کے لئے باعث تعجب ہے کہ ہم نے ان ہی میں سے ایک آدمی پر وحی نازل کرکے اسے لوگوں کو ڈرانے پر مامور کر دیا ہے؟“ دوسرے مقام پر فرمایا «وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَسُولا» (بني إسرائيل: 94) ”ہدایت آجانے کے بعد لوگ اسے قبول کرنے سے اس لئے رک گئے کہ انہوں نے کہا کہ کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا ہے؟“ اس کی کچھ تفصیل اس سے قبل آیت نمبر 8 کے حاشیے میں بھی گزرچکی ہے۔ آیت زیر وضاحت میں بھی انہوں نے اپنے اسی خیال کی بنیاد پر اس بات کی نفی کی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی کتاب نازل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ایسی بات ہے تو ان سے پوچھو! موسیٰ (عليه السلام) پر تورات کس نے نازل کی تھی؟ (جس کو یہ بھی مانتے ہیں)
**- آیت کی مذکورہ تفسیر کے مطابق اب یہود سے خطاب کرکے کہا جا رہا ہے کہ تم اس کتاب کو متفرق اوراق میں رکھتے ہو جن میں سے جس کو چاہتے ہو، ظاہر کردیتے ہو اور جن کو چاہتے ہو، چھپا لیتے ہو۔ جیسے رجم کا مسئلہ یا نبی (صلى الله عليه وسلم) کی صفات کا مسئلہ ہے۔ حافظ ابن کثیر اور امام ابن جریر طبری وغیرہ نے: ”يَجْعَلُونَهُ“، اور ”يُبْدُونَهَا“ صیغہ غائب کے ساتھ والی قرات کو ترجیح دی ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ یہ مکی آیت ہے، اس میں یہود سے خطاب کس طرح ہوسکتا ہے؟ اور بعض مفسرین نے پوری آیت کو ہی یہود سے متعلق قرار دیا ہے اور اس میں سرے سے نبوت ورسالت کا جو انکار ہے اسے یہود کی ہٹ دھرمی، ضد اور عناد پر مبنی قول قرار دیا ہے۔ گویا اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی تین رائے ہیں۔ ایک پوری آیت کو یہود سے، دوسرے پوری آیت کو مشرکین سے متعلق اور تیسرے آیت کے ابتدائی حصے کو مشرکین سے متعلق اور ”تَجْعَلُونَهُ“ سے یہود سے متعلق قرار دیتے ہیں۔وَاللهُ أَعْلَمُ.
***- یہود سے متعلق ماننے کی صورت میں اس کی تفسیر ہوگی کہ تورات کے ذریعے سے تمہیں بتائی گئیں، بصورت دیگر قرآن کے ذریعے سے۔
****- یہ ”مَنْ أَنْزَلَ“ (کس نے اتارا) کا جواب ہے۔
____________________
* ظالم سے مراد ہر ظالم ہے اور اس میں کتاب الٰہی کا انکار کرنے والے اور جھوٹے مدعیان نبوت سب سے پہلے شامل ہیں۔ غَمَرَاتٌ سے موت کی سختیاں مراد ہیں۔ ”فرشتے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے“ یعنی جان نکالنے کے لئے۔ الْيَوْمَ (آﺝ) سے مراد قبض روح کا دن ہے اور یہی عذاب کے آغاز کا وقت بھی ہے جس کا مبدا قبر ہے۔ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب قبر برحق ہے۔ ورنہ ہاتھ پھیلانے اور جان نکالنے کا حکم دینے کے ساتھ اس بات کے کہنے کے کوئی معنی نہیں کہ آﺝ تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ خیال رہے قبر سے مراد برزخ کی زندگی ہے۔ یعنی دنیا کی زندگی کے بعد اور آخرت کی زندگی سے قبل، یہ ایک درمیان کی زندگی ہے جس کا عرصہ انسان کی موت سے قیامت کے وقوع تک ہے۔ یہ برزخی زندگی کہلاتی ہے. چاہے اسے کسی درندے نے کھا لیا ہو، اس کی لاش سمندر کی موجوں کی نذر ہوگئی ہو یا اسے جلا کر راکھ بنا دیا گیا یا قبر میں دفنا دیا گیا ہو۔ یہ برزخ کی زندگی ہے جس میں عذاب دینے پر اللہ تعالیٰ قادر ہے۔
**- اللہ کے ذمے جھوٹی باتیں لگانے میں انزال کتب اور ارسال رسل کا انکار بھی ہے اور جھوٹا دعوائے نبوت بھی ہے۔ اسی طرح نبوت ورسالت کا انکار واستکبار ہے۔ ان دنوں وجوہ سے انہیں ذلت ورسوائی کا عذاب دیا جائے گا۔
____________________
* فُرَادَى فَرْدٌ کی جمع ہے جس طرح سُكَارَى سَكْرَانٌ کی اور كُسَالَى كَسْلانٌ کی جمع ہے۔ مطلب ہے کہ تم علیحدہ علیحدہ ایک ایک کرکے میرے پاس آؤ گے۔ تمہارے ساتھ نہ مال ہوگا نہ اولاد اور نہ وہ معبود، جن کو تم نے اللہ کا شریک اور اپنا مددگار سمجھ رکھا تھا۔ یعنی ان میں سے کوئی چیز بھی تمہیں فائدہ پہنچانے پر قادر نہ ہوگی۔ اگلے جملوں میں ان ہی امور کی مزید وضاحت ہے۔
____________________
* یہاں سے اللہ تعالیٰ کی بےمثل قدرت اور کاریگری کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ فرمایا: ۔ اللہ تعالیٰ دانے (حب) اور گٹھلی (نواة، جمع نوى) کو، جسے کاشت کار زمین کی تہہ میں دبا دیتا ہے، پھاڑ کر اس سے انواع واقسام کے درخت پیدا فرماتا ہے۔ زمین ایک ہوتی ہے، پانی بھی، جس سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں، ایک ہی ہوتا ہے، لیکن جس جس چیز کے وہ دانے یا گٹھلیاں ہوتی ہیں۔ اس کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ مختلف قسم کے غلوں اور پھلوں کے درخت ان سے پیدا فرما دیتا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا بھی، کوئی ہے، جو یہ کام کرتا ہو یا کرسکتا ہو؟
**- یعنی دانے اور گٹھلیوں سے درخت اگا دیتا ہے جس میں زندگی ہوتی ہے اور وہ بڑھتا، پھیلتا اور پھل یا غلہ دیتا ہے یا وہ خوشبودار، رنگ برنگ کے پھول ہوتے ہیں جن کو دیکھ یا سونگھ کر انسان فرحت وانبساط محسوس کرتا یا نطفے اور انڈے سے انسان اور حیوانات پیدا کرتا ہے۔
***- یعنی حیوانات سے انڈے، جو مردہ کے حکم میں ہیں۔ حی اور میت کی تعبیر مومن اور کافر سے بھی کی گئی ہے، یعنی مومن کے گھر میں کافر اور کافر کے گھر میں مومن پیدا کردیتا ہے۔
____________________
* اندھیرے اور روشنی کا خالق بھی وہی ہے۔ وہ رات کی تاریکی سے صبح روشن پیدا کرتا ہے جس سے ہر چیز روشن ہوجاتی ہے۔
**- یعنی رات کو تاریکیوں میں بدل دیتا ہے تاکہ لوگ روشنی کی تمام مصروفیات ترک کرکے آرام کرسکیں۔
***- یعنی دونوں کے لئے ایک حساب بھی مقدر ہے جس میں کوئی تغیر واضطراب نہیں ہوتا، بلکہ دونوں کی اپنی اپنی منزلیں ہیں، جن پر وہ گرمی اور سردی میں رواں رہتے ہیں، جس کی بنیاد پر سردی میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی اور گرمی میں اس کے برعکس دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہوجاتی ہیں۔ جس کی تفصیل سورۂ یونس 5، سورۃ یٰسین 40 اور سورۂ اعراف 54 میں بھی بیان کی گئی ہے۔
____________________
* ستاروں کا یہاں یہ ایک اور فائدہ اور مقصد بیان کیا گیا ہے، ان کے دو مقصد اور ہیں جو دوسرے مقام پر بیان کئے گئے ہیں۔ آسمانوں کی زینت اور شیطانوں کی مرمت۔ رُجُمًا للشَّيَاطِينِ۔ یعنی شیطان آسمان پر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ان پر شعلہ بن کر گرتے ہیں۔ بعض سلف کا قول ہے ”مَن اعْتَقَدَ فِي هَذِهِ النُّجُومِ غَيْرَ ثَلاثِ، فقد أَخْطَأَ وكَذَبَ عَلَى اللهِ“ ان تین باتوں کے علاوہ ان ستاروں کے بارےمیں اگر کوئی شخص کوئی اور عقیدہ رکھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں جو علم نجوم کا چرچا ہے جس میں ستاروں کے ذریعے سے مستقبل کے حالات اور انسانی زندگی یا کائنات میں ان کے اثرات بتانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ بے بنیاد بھی ہے اور شریعت کے خلاف بھی۔ چنانچہ ایک حدیث میں اسے جادو ہی کا ایک شعبہ (حصہ) بتلایا گیا ہے۔ ”مَنِ اقْتَبَسَ عِلْمَاً مِنَ النُّجُومِ اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ“ (حسنه الألباني صحيح أبي داود رقم 3905)
____________________
* اکثر مفسرین کے نزدیک مُسْتَقَرٌّسے رحم مادر اور مُسْتَوْدَعٌ سے صلب پدر مراد ہے۔ (فتح القدیر، ابن کثیر)
____________________
* یہاں سے اس کی ایک اور عجیب صنعت (کاریگری) کا بیان ہو رہا ہے یعنی بارش کا پانی۔ جس سے وہ ہر قسم کے درخت پیدا فرماتا ہے۔
**- اس سے مراد وہ سبز شاخیں اور کونپلیں ہیں جو زمین میں دبے ہوئے دانے سے اللہ تعالیٰ زمین کے اوپر ظاہر فرماتا ہے، پھر وہ پودا یا درخت نشوونما پاتا ہے۔
***- یعنی ان سبز شاخوں سے ہم اوپر تلے دانے چڑھے ہوئے نکالتے ہیں۔ جس طرح گندم اور چاول کی بالیاں ہوتی ہیں۔ مراد یہ سب غلہ جات ہیں مثلاً جو، جوار، باجرہ، مکئی، گندم اور چاول وغیرہ۔
****- قِنْوَانٌ قِنْوٌ کی جمع ہے جیسے صِنْوٌ اورصِنْوَانٌ ہے۔ مراد خوشے ہیں۔ طَلْعٌ وہ گابھا یا گپھا ہے جو کھجور کی ابتدائی شکل ہے، یہی بڑھ کر خوشہ بنتا ہے اور پھر وہ رطب کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ دَانِيَةٌ سے مراد وہ خوشے ہیں جو قریب ہوں۔ اور کچھ خوشے دور بھی ہوتے ہیں جن تک ہاتھ نہیں پہنچتے۔ بطور امتنان دانية کا ذکر فرما دیا ہے، مطلب ہے۔ مِنْهَا دَانِيَةٌ وَمِنْهَا بَعِيدَةٌ (کچھ خوشے قریب ہیں اور کچھ دور) بَعِيدَةٌ حذوف ہے۔ (فتح القدیر )
*****- جنات زیتون اور رمان یہ سب منصوب ہیں، جن کا عطف نبات پر ہے۔ یعنی فَأَخْرَجْنَا بِهِ جَنَّاتٍ یعنی بارش کے پانی سے ہم نے انگوروں کے باغات اور زیتوں اور انار پیدا کئے۔
******- یعنی بعض اوصاف میں یہ باہم ملتے جلتے ہیں اور بعض میں ملتے جلتے نہیں ہیں۔ یا ان کے پتے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ پھل نہیں ملتے، یا شکل میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں لیکن مزے اور ذائقے میں باہم مختلف ہیں۔
*******- یعنی مذکورہ تمام چیزوں میں خالق کائنات کے کمال قدرت اور اس کی حکمت ورحمت کے دلائل ہیں۔
____________________
* یعنی جس طرح اللہ تعالی ان تمام چیزوں کے پیدا کرنےمیں واحد ہے، کوئی اس کا شریک نہیں۔ اسی طرح وہ اس لائق ہے کہ اس اکیلے کی عبادت کی جائے، عبادت میں کسی اور کو شریک نہ بنایا جائے۔ لیکن لوگوں نے اس ذات واحد کو چھوڑ کر جنوں کو اس کا شریک بنا رکھا ہے، حالانکہ وہ خود اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ مشرکین عبادت تو بتوں کی یا قبروں میں مدفون اشخاﺹ کی کرتے ہیں لیکن یہاں کہا گیا ہے کہ انہوں نے جنات کو اللہ کا شریک بنایا ہوا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جنات سے مراد شیاطین ہیں اور شیاطین کے کہنے سے ہی شرک کیا جاتا ہے اس لئے گویا شیطان ہی کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے مثلا سورۂ نساء: 117، سورۂ مریم: 44، سورۂ یٰسین: 60، سورۂ سبا: 41۔
____________________
* أَبْصَارٌ بَصَرَةٌ (نگاہ) کی جمع ہے یعنی انسان کی آنکھیں اللہ کی حقیقت کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اور اگر اس سے مراد رؤیت بصری ہو تو اس کا تعلق دنیا سے ہوگا یعنی دنیا کی آنکھ سے کوئی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ تاہم یہ صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے کہ قیامت والے دن اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی اس کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ اس لئے معتزلہ کا اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا، دنیا میں نہ آخرت میں، صحیح نہیں، کیونکہ اس نفی کا تعلق صرف دنیا سے ہے۔ اسی لئے حضرت عائشہ (رضی الله عنها) بھی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتی تھیں، ”جس شخص نے بھی دعویٰ کیا کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے (شب معراﺝ میں) اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے، اس نے قطعاً جھوٹ بولا ہے“۔ (صحيح بخاري، تفسير سورة الأنعام) کیونکہ اس آیت کی رو سے پیغمبر سمیت کوئی بھی اللہ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہے۔ البتہ آخرت کی زندگی میں یہ دیدار ممکن ہوگا۔ جیسے دوسرے مقام پر قرآن نے اس کا اثبات فرمایا۔ «وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ، إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ» (القيامة) ”کئی چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔“
____________________
* بَصَائِرُ بَصِيرَةٌ کی جمع ہے۔ جو اصل میں دل کی روشنی کا نام ہے۔ یہاں مراد وہ دلائل وبراہین ہیں جو قرآن نے جگہ جگہ اور بار بار بیان کئے ہیں اور جنہیں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی ان احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ جو ان دلائل کو دیکھ کر ہدایت کا راستہ اپنالے گا، اس میں اسی کا فائدہ ہے، نہیں اپنائے گا، تو اسی کا نقصان ہے۔ جیسے فرمایا «مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا» ( بنی اسرائیل: 15) اس کا مطلب بھی وہی ہے جو زیروضاحت آیت کا ہے۔
**- بلکہ صرف مبلغ، داعی اور بشیر ونذیر ہوں۔ راہ دکھلانا میرا کام ہے، راہ پر چلا دینا یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔
____________________
* یعنی ہم توحید اور اس کے دلائل کو اس طرح کھول کھول کر اور مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں کہ مشرکین یہ کہنے لگتے ہیں کہ محمد (صلى الله عليه وسلم) کہیں سے پڑھ کر اور سیکھ کر آیا ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: «وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا، وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا» (الفرقان: 4۔ 5) ”کافروں نے کہا، یہ قرآن تو اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، جس پر دوسروں نے بھی اس کی مدد کی ہے۔ یہ لوگ ایسا دعویٰ کرکے ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں۔ نیز انہوں نے کہا کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، جس کو اس نے لکھ رکھا ہے“۔ حالانکہ بات یہ نہیں ہے، جس طرح یہ سمجھتے یا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ مقصد اس تفصیل سے سمجھ دار لوگوں کے لئے تبیین وتشریح ہے تاکہ ان پر حجت پوری ہوجائے۔
____________________
* اس نکتے کی وضاحت پہلے کی جاچکی ہے کہ اللہ کی مشیت اور چیز ہے اور اس کی رضا اور، اس کی رضا تو اسی میں ہے کہ اس کے ساتھ شرک نہ کیا جائے۔ تاہم اس نے اس پر انسانوں کو مجبور نہیں کیا کیونکہ جبر کی صورت میں انسان کی آزمائش نہ ہوتی، ورنہ اللہ تعالیٰ کے پاس تو ایسے اختیارات ہیں کہ وہ چاہے تو کوئی انسان شرک کرنے پر قادر ہی نہ ہو سکے۔ (مزید دیکھیئے سورہ بقرۃ آیت 253 اور سورۃ الانعام آیت 35 کا حاشیہ)
**- یہ مضمون بھی قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مقصد نبی (صلى الله عليه وسلم) کی داعیانہ اور مبلغانہ حیثیت کی وضاحت ہے جو منصب رسالت کا تقاضا ہے اور آپ صرف اسی حد تک مکلف تھے۔ اس سے زیادہ آپ کے پاس اگر اختیارات ہوتے تو آپ اپنے محسن چچا ابوطالب کو ضرورمسلمان کرلیتے، جن کے قبول اسلام کی آپ شدید خواہش رکھتے تھے۔
____________________
* یہ سد ذریعہ کے اس اصول پر مبنی ہے کہ اگر ایک مباح کام، اس سے بھی زیادہ بڑی خرابی کا سبب بنتا ہو تو وہاں اس مباح کام کا ترک راجح اور بہتر ہے۔ اسی طرح نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی فرمایا ہے کہ ”تم کسی کے ماں باپ کو گالی مت دو کہ اس طرح تم خود اپنے والدین کے لئے گالی کا سبب بن جاوء گے“۔ (صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب بيان الكبائر وأكبرها) امام شوکانی لکھتے ہیں یہ آیت سد ذرائع کےلئے اصل اصیل ہے۔ (فتح القدیر)
____________________
* جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ، أَيْ: حَلَفُوا أَيْمَانًا مُؤَكَّدَةً۔ بڑی تاکید سے قسمیں کھائیں۔
**- یعنی کوئی بڑا معجزہ جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، جیسے عصائے موسیٰ (عليه السلام)، احیائے موتی اور ناقۂ ثمود وغیرہ جیسا۔
***- ان کا یہ مطالبۂ خرق عادت تعنت وعناد کے طور پر ہے، طلب ہدایت کی نیت سے نہیں ہے۔ تاہم ان نشانیوں کا ظہور تمام تر اللہ کے اختیار میں ہے، وہ چاہے تو ان کا مطالبہ پورا کردے۔ بعض مرسل روایات میں ہے کہ کفار مکہ نے مطالبہ کیا تھا کہ صفا پہاڑ سونے کا بنا دیا جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے، جس پر جبریل (عليه السلام) نے آکر کہا کہ اگر اس کے بعد بھی یہ ایمان نہ لائے تو پھرانہیں ہلاک کردیا جائے گا، جسے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے پسند نہیں فرمایا۔ (ابن کثیر )۔
____________________
* اس کا مطلب ہے کہ جب پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے تو اس کا وبال ان پر اس طرح پڑا کہ آئندہ بھی ان کے ایمان لانے کا امکان ختم ہوگیا۔ دلوں اور نگاہوں کو پھیر دینے کا یہی مفہوم ہے۔ (ابن کثیر)
____________________
* جیسا کہ وہ بار بار اس کا مطالبہ ہمارے پیغمبر سے کرتے ہیں۔
**- اور وہ حضرت محمد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت کی تصدیق کردیتے۔
***- دوسرا مفہوم اس کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو نشانیاں وہ طلب کرتے ہیں، وہ سب ان کے روبرو پیش کردیتے۔ اور ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر چیز جمع ہوکر گروہ در گروہ یہ گواہی دے کہ پیغمبروں کا سلسلہ برحق ہے تو ان تمام نشانیوں اور مطالبوں کے پورا کردینے کے باوجود یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ مگر جس کو اللہ چاہے۔ اسی مفہوم کی یہ آیت بھی ہے«إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ، وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الأَلِيمَ» (سورۃ یونس: 96۔ 97) ”جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوگئی ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آجائے یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں“۔
****- اور یہ جہالت کی باتیں ہی ان کے اور حق قبول کرنے کے درمیان حائل ہیں۔ اگر جہالت کا پردہ اٹھ جائے تو شاید حق ان کی سمجھ میں آجائے اور پھر اللہ کی مشیت سے حق کو اپنا بھی لیں۔
____________________
* یہ وہی بات ہے جو مختلف انداز میں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی تسلی کے لیے فرمائی گئی ہے کہ آپ سے پہلے جتنے بھی انبیا گزرے، ان کی تکذیب کی گئی، انہیں ایذائیں دی گئیں وغیرہ وغیرہ۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے صبر اور حوصلے سے کام لیا، آپ بھی ان دشمنان حق کے مقابلے میں صبرواستقامت کا مظاہرہ فرمائیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شیطان کے پیروکار جنوں میں سے بھی ہیں اور انسانوں میں سے بھی۔ اور یہ وہ ہیں جو دونوں گروہوں میں سے سرکش، باغی، اور متکبر قسم کے ہیں۔
**- وَحْيٌ خفیہ بات کو کہتے ہیں یعنی انسانوں اور جنوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو چالبازیاں اور حیلے سکھاتے ہیں تاکہ لوگوں کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کرسکیں۔ یہ بات عام مشاہدے میں بھی آئی ہے کہ شیطانی کاموں میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ خوب بڑھ چڑھ کر تعاون کرتے ہیں جس کی وجہ سے برائی بہت جلدی فروغ پاجاتی ہے۔
***- یعنی اللہ تعالیٰ تو ان شیطانی ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے پر قادر ہے لیکن وہ بالجبر ایسا نہیں کرے گا کیونکہ ایسا کرنا اس کے نظام اور اصول کے خلاف ہے جو اس نے اپنی مشیت کے تحت اختیار کیا ہے، جس کی حکمتیں وہ بہتر جانتا ہے۔
____________________
* یعنی شیطانی وساوس کا شکار وہی لوگ ہوتے ہیں اور وہی اسے پسند کرتے اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جس حساب سے لوگوں کے اندر عقیدۂ آخرت کے بارے میں ضعف پیدا ہورہا ہے، اسی حساب سے لوگ شیطانی جال میں پھنس رہے ہیں۔
____________________
* آپ کو خطاب کرکے دراصل امت کو تعلیم دی جارہی ہے۔
____________________
* اخبار و واقعات کے لحاظ سے سچا ہے اور احکام ومسائل کے اعتبار سے عادل ہے یعنی اس کا ہر امر اور نہی عدل وانصاف پر مبنی ہے۔ کیونکہ اس نے انہی باتوں کا حکم دیا ہے جن میں انسانوں کا فائدہ ہے اور انہی چیزوں سے روکا ہے جن میں نقصان اور فساد ہے۔ گو انسان اپنی نادانی یا اغوائے شیطانی کی وجہ سے اس حقیقت کو نہ سمجھ سکیں۔
**- یعنی کوئی ایسا نہیں جو رب کے کسی حکم میں تبدیلی کردے، کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی طاقتور نہیں۔
***- یعنی بندوں کے اقوال سننے والا اور ان کی ایک ایک حرکت و ادا کو جاننے والا ہے اور وہ اس کے مطابق ہر ایک کوجزا دے گا۔
____________________
* قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا بھی، واقعے کے طور پر ہر دور میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا «وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ» (سورۃ یوسف: 103) ”آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں“۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق وصداقت کے راستے پر چلنے والے لوگ ہمیشہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ جس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ حق وباطل کا معیار، دلائل وبراہین ہیں، لوگوں کی اکثریت واقلیت نہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جس بات کو اکثریت نے اختیار کیا ہوا ہو، وہ حق ہو اور اقلیت میں رہنے والے باطل پر ہوں۔ بلکہ مذکورہ حقیقت قرآنی کی رو سے یہ زیادہ ممکن ہے کہ اہل حق تعداد کے لحاظ سے اقلیت میں ہوں اور اہل باطل اکثریت میں۔ جس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ہے کہ ”میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، جن میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا، باقی سب جہنمی۔ اور اس جنتی فرقے کی نشانی آپ (صلى الله عليه وسلم) نے یہ بیان فرمائی کہ جو«مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي» میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہوگا“ (أبو داود كتاب السنة، باب شرح السنة، نمبر 4596، ترمذي، كتاب الإيمان، باب ما جاء في افتراق هذه الأمة، وقد حسنه الترمذي في بعض النسخ وأقره الألباني في الطحاوية، حديث نمبر263)
____________________
* یعنی جس جانور پر شکار کرتے وقت یا ذبح یا نحر کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے، اسے کھالو بشرطیکہ وہ ان جانوروں میں سے ہوں جن کا کھانا مباح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس جانور پر عمداً ان موقعوں پر اللہ کا نام نہ لیا جائے وہ حلال وطیب نہیں البتہ اس سے ایسی صورت مستثنیٰ ہے کہ جس میں یہ التباس ہو کہ ذبح کے وقت ذبح کرنے والے نے اللہ کا نام لیا یا نہیں، اس میں حکم یہ ہے کہ اللہ کا نام لے کر اسے کھالو۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) نے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سے پوچھا کہ کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں (اس سے مراد وہ اعرابی تھے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور اسلامی تعلیم وتربیت سے پوری طرح بہرہ ور بھی نہیں تھے) ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا یا نہیں ؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا«سَمُّوا عَلَيْهِ أَنْتُمْ وَكُلُوا»(صحيح بخاري- باب ذبيحة الأعراب نمبر5507) تم اللہ کا نام لے کر اسے کھالو یعنی التباس (شبہ) کی صورت میں یہ رخصت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر قسم کے جانور کا گوشت بسم اللہ پڑھ لینے سے حلال ہوجائے گا۔ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی منڈیوں اور دکانوں پر ملنے والا گوشت حلال ہے۔ ہاں اگر کسی کو وہم اور التباس ہو تو وہ کھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لے۔
____________________
* جس کی تفصیل اسی سورت میں آگے آرہی ہے، اس کے علاوہ بھی اور سورتوں نیز احادیث میں محرمات کی تفصیل بیان کردی گئی ہے۔ ان کے علاوہ باقی حلال ہیں اور حرام جانور بھی عندالاضطرار سد رمق کی حد تک جائز ہیں۔
____________________
* یعنی عمداً اللہ کا نام جس جانور پر نہ لیا گیا، اس کا کھانا فسق اور ناجائز ہے۔ حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) نے اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بھول جانے والے کو فاسق نہیں کہا جاتا اور امام بخاری کا رجحان بھی یہی ہے اور یہی احناف کا مسلک ہے تاہم امام شافعی کامسلک یہ ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ دونوں صورتوں میں حلال ہے چاہے وہ اللہ کا نام لے یا عمداً چھوڑ دے اور وہ ”وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ“ کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کئے گئے جانور سے متعلق قرار دیتے ہیں۔
**- شیطان نے اپنے ساتھیوں کے ذریعے سے یہ بات پھیلائی کہ یہ مسلمان اللہ کے ذبح کئے ہوئے جانور (یعنی مردہ) کو تو حرام اور اپنے ہاتھ سے ذبح شدہ کو حلال قرار دیتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کو ماننے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان اور اس کے دوستوں کے وسوسوں کے پیچھے مت لگو، جو جانور مردہ ہے یعنی بغیر ذبح کئے مر گیا (سوائے سمندری میتہ کے کہ وہ حلال ہے) اس پر چونکہ اللہ کا نام نہیں لیا گیا، اس لئے اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔
____________________
* اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافر کو میت (مردہ) اور مومن کو حی (زندہ) قرار دیا ہے۔ اس لئے کہ کافر کفر وضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے اور اس سے نکل ہی نہیں پاتا جس کانتیجہ ہلاکت وبربادی ہے اور مومن کے دل کو اللہ تعالیٰ ایمان کے ذریعے سے زندہ فرما دیتا ہے جس سے زندگی کی راہیں اس کے لئے روشن ہوجاتی ہیں اور وہ ایمان و ہدایت کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے، جس کا نتیجہ کامیابی وکامرانی ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو حسب ذیل آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ «اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ» (سورة البقرة: 257)،«مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالأَعْمَى وَالأَصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلا» (سورة هود:24) اور «وَمَا يَسْتَوِي الأَعْمَى وَالْبَصِيرُ، وَلا الظُّلُمَاتُ وَلا النُّورُ، وَلا الظِّلُّ وَلا الْحَرُورُ، وَمَا يَسْتَوِي الأَحْيَاءُ وَلا الأَمْوَاتُ» (سورة فاطر: 19۔ 22)
____________________
* أَكَابِرَ، أَكْبَرُ کی جمع ہے، مراد کافروں اور فاسقوں کے سرغنے اور کھڑپینچ ہیں کیونکہ یہی انبیاء اور داعیان حق کی مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں اور عام لوگ تو صرف ان کے پیچھے لگنے والے ہوتے ہیں، اس لئے ان کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ علاوہ ازیں ایسے لوگ عام طور پر دنیاوی دولت اور خاندانی وجاہت کے اعتبار سے بھی نمایاں ہوتے ہیں، اس لئے مخالفت حق میں بھی ممتاز ہوتے ہیں (یہی مضمون سورۂ سبا کی آیات 31 تا 33، سورۂ زخرف 23، سورۂ نوح 22 وغیرھا میں بھی بیان کیا گیا ہے )۔
**- یعنی ان کی اپنی شرارت کا وبال اور اسی طرح ان کے پیچھے لگنے والے لوگوں کا وبال، انہی پر پڑے گا (مزید دیکھئے سورۂ عنکبوت 13، سورۂ نحل 25)
____________________
* یعنی ان کے پاس بھی فرشتے وحی لے کر آئیں اور ان کے سروں پر بھی نبوت ورسالت کا تاج رکھا جائے۔
**- یعنی یہ فیصلہ کرنا کہ کس کو نبی بنایا جائے ؟ یہ تو اللہ ہی کا کام ہے کیونکہ وہی ہر بات کی حکمت ومصلحت کو جانتا ہے اور اسے ہی معلوم ہے کہ کون اس منصب کا اہل ہے؟ مکہ کا کوئی چودھری ورئیس یا جناب عبداللہ وحضرت آمنہ کا دریتیم؟
____________________
* یعنی جس طرح زور لگا کر آسمان پر چڑھنا ممکن نہیں ہے، اسی طرح جس شخص کے سینے کو اللہ تعالیٰ تنگ کردے اس میں توحید اور ایمان کا داخلہ ممکن نہیں ہے۔ الا یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کا سینہ اس کے لیے کھول دے۔
**- یعنی جس طرح سینہ تنگ کردیتا ہے اسی طرح رجس میں مبتلا کر دیتا ہے۔ رجس سے مراد پلیدی یا عذاب یا شیطان کا تسلط ہے۔
____________________
* یعنی جس طرح دنیا میں اہل ایمان کفر وضلالت کے کج راستوں سے بچ کر ایمان وہدایت کی صراط مستقیم پر گامزن رہے، اب آخرت میں بھی ان کے لئے سلامتی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کا، ان کے نیک عملوں کی وجہ سے دوست اور کارساز ہے۔
____________________
* یعنی انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو تم نے گمراہ کرکے اپنا پیروکار بنالیا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے سورۂ یٰسین میں فرمایا: ”اے بنی آدم کیا میں نے تمہیں خبردار نہیں کردیا تھا کہ تم شیطان کی پوجا مت کرنا، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ تم صرف میری عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے اور اس شیطان نے تمہاری ایک بہت بڑی تعداد کو گمراہ کردیا ہے کیا پس تم نہیں سمجھتے؟“ (یاسین: 60 / 62)
**- جنوں اور انسانوں نے ایک دوسرے سے کیا فائدہ حاصل کیا ؟ اس کے دو مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ جنوں کا انسانوں سے فائدہ اٹھانا ان کو اپنا پیروکار بناکر ان سے تلذذ حاصل کرنا ہے اور انسانوں کا جنوں سے فائدہ اٹھانا یہ ہے کہ شیطانوں نے گناہوں کو ان کے لئے خوبصورت بنادیا جسے انہوں نے قبول کیا اور گناہوں کی لذت میں پھنسے رہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انسان ان غیبی خبروں کی تصدیق کرتے رہے جو شیاطین وجنات کی طرف سے کہانت کے طور پر پھیلائی جاتی تھیں۔ یہ گویا جنات نے انسانوں کو بےوقوف بناکر فائدہ اٹھایا اور انسانوں کا فائدہ اٹھانا یہ ہے کہ انسان جنات کی بیان کردہ جھوٹی یا اٹکل پچو باتوں سے لطف اندوز ہوتے اور کاہن قسم کے لوگ ان سے دنیاوی مفادات حاصل کرتے رہے۔
***- یعنی قیامت واقع ہوگئی جسے ہم دنیا میں نہیں مانتے تھے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب جہنم تمہارا دائمی ٹھکانہ ہے۔
****- اور اللہ کی مشیت کفار کے لیے جہنم کا دائمی عذاب ہی ہے جس کی اس نے بار بار قرآن کریم میں وضاحت کی ہے۔ بنابریں اس سے کسی کو مغالطے کا شکار نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ یہ استثنا اللہ تعالیٰ کے مطلق ارادہ کے بیان کے لئے ہے جسے کسی چیز کے ساتھ مقید نہیں کیا جاسکتا اس لئے اگر وہ کفار کو جہنم سے نکالنا چاہے تو نکاﻝ سکتا ہے اس سے نہ وہ عاجز ہے نہ کوئی دوسرا روکنے والا۔ (ایسر التفاسیر )
____________________
* یعنی جہنم میں جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ہم نے انسانوں اور جنوں کو ایک دوسرے کا ساتھی اور مددگار بنایا (جیسا کہ گذشتہ آیت میں گذرا) اسی طرح ہم ظالموں کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں ایک ظالم کو دوسرے ظالم پر ہم مسلط کردیتے ہیں اس طرح ایک ظالم دوسرے ظالم کو ہلاک و تباہ کرتا ہے اور ایک ظالم کا انتقام دوسرے ظالم سے لے لیتے ہیں۔
____________________
* رسالت ونبوت کے معاملے میں جنات انسانوں کے ہی تابع ہیں ورنہ جنات میں الگ نبی نہیں آئے البتہ رسولوں کا پیغام پہنچانے والے اور منذرین جنات میں ہوتے رہے ہیں جو اپنی قوم کے جنوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے رہے ہیں اور دیتے ہیں۔ لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کہ چونکہ جنات کا وجود انسان کے پہلے سے ہی ہے تو ان کی ہدایت کے لیے انھیں میں سے کوئی نبی آیا ہوگا پھر آدم علیہ السلام کے وجود کے بعد ہوسکتا ہے وہ انسانی نبیوں کے تابع رہے ہوں، البتہ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت بہرحال تمام جن وانس کے لئے ہے اس میں کوئی شبہ نہیں۔
**- میدان حشر میں کافر مختلف پینترے بدلیں گے، کبھی اپنے مشرک ہونے کا انکار کریں گے (الانعام: 23) اور کبھی اقرار کئے بغیر چارہ نہیں ہوگا، جیسے یہاں ان کا اقرار نقل کیا گیا ہے۔
____________________
* یعنی رسولوں کے ذریعے سے جب تک اپنی حجت قائم نہیں کردیتا، ہلاک نہیں کرتا جیسا کہ یہی بات سورۂ فاطر آیت 24، سورۂ نحل 26، سورۂ بنی اسرائیل 15 اور سورۂ ملک 8، 9 وغیرہا میں بیان کی گئی ہے۔
____________________
* یعنی ہر انسان اور جن کے، ان کے باہمی درجات میں، عملوں کے مطابق، فرق وتفاوت ہوگا، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنات بھی انسانوں کی طرح جنتی اور جہنمی ہوں گے۔
____________________
* وہ غنی (بے نیاز) ہے اپنی مخلوقات سے۔ ان کا محتاج ہے نہ ان کی عبادتوں کا ضرورت مند ہے، ان کا ایمان اس کے لئے نفع مند ہے نہ ان کا کفر اس کے لئے ضرر رساں لیکن اس شان غنا کے ساتھ وہ اپنی مخلوق کے لئے رحیم بھی ہے۔ اس کی بے نیازی اپنی مخلوق پر رحمت کرنے میں مانع نہیں ہے۔
**- یہ اس کی بے پناہ قوت اور غیرمحدود قدرت کا اظہار ہے۔ جس طرح پچھلی کئی قوموں کو اس نے حرف غلط کی طرح مٹادیا اور ان کی جگہ نئی قوموں کو اٹھا کھڑا کیا، وہ اب بھی اس بات پر قادر ہے کہ جب چاہے تمہیں نیست ونابود کردے اور تمہاری جگہ ایسی قوم پیدا کردے جو تم جیسی نہ ہو۔ (مزید ملاحظہ ہو سورۂ نساء: 133، سورۂ ابراہیم: 20، سورۂ فاطر: 15۔ 17، سورۂ محمد: 38)
____________________
* اس سے مراد قیامت ہے۔ (اور تم عاجز نہیں کرسکتے) کا مطلب ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے چاہے تم مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ ہوچکے ہو۔
____________________
* یہ کفر اور معصیت پر قائم رہنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ سخت وعید ہے جیسا کہ اگلے الفاظ سے بھی واضح ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: «وَقُلْ لِلَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ، وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ» (سورة هود: 121۔122) ”جو ایمان نہیں لاتے، ان سے کہہ دیجئے! کہ تم اپنی جگہ عمل کیے جاوء ہم بھی عمل کرتے ہیں اور انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں“۔
**- جیسا کہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ سچا کر دکھایا، 8 / ہجری میں مکہ فتح ہوگیا اور اس کے فتح کے بعد عرب قبائل فوج در فوج مسلمان ہونا شروع ہوگئے اور پورا جزیرۂ عرب مسلمانوں کے زیرنگیں آگیا اور یہ دائرہ پھر پھیلتا اور بڑھتا ہی چلا گیا۔
____________________
* اس آیت میں مشرکوں کے اس عقیدہ وعمل کا ایک نمونہ بتلایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر گھڑ رکھے تھے۔ وہ زمینی پیداوار اور مال مویشیوں میں سے کچھ حصہ اللہ کے لئے اور کچھ اپنے خود ساختہ معبودوں کے لیے مقرر کرلیتے۔ اللہ کے حصے کو مہمانوں، فقراء اور صلہ رحمی پر خرﭺ کرتے اور بتوں کے حصے کو بتوں کے مجاورین اور ان کی ضروریات پر خرﭺ کرتے۔ پھر اگر بتوں کے مقررہ حصے میں توقع کے مطابق پیداوار نہ ہوتی تو اللہ کے حصے میں سے نکاﻝ کر اس میں شامل کرلیتے اور اس کے برعکس معاملہ ہوتا تو بتوں کے حصے میں سے نہ نکالتے اور کہتے کہ اللہ تو غنی ہے۔
**- یعنی اللہ کے حصے میں کمی کی صورت میں بتوں کے مقررہ حصے میں سے تو صدقات وخیرات نہ کرتے۔
***- ہاں اگر بتوں کے مقررہ حصے میں کمی ہوجاتی تو اللہ کے مقررہ حصے سے لے کر بتوں کے مصالح اور ضروریات پر خرﭺ کرلیتے۔ یعنی اللہ کے مقابلے میں بتوں کی عظمت اور ان کا خوف ان کے دلوں میں زیادہ تھا جس کا مشاہدہ آﺝ کے مشرکین کے رویے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
____________________
* یہ اشارہ ہے ان کے بچیوں کے زندہ درگور کر دینے یا بتوں کی بھینٹ چڑھانے کی طرف۔
**- یعنی ان کے دین میں شرک کی آمیزش کردیں۔
***- یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اختیارات اور قدرت سے، ان کے ارادہ و اختیار کی آزادی کو سلب کرلیتا، تو پھر یقیناً یہ وہ کام نہ کرتے جو مذکور ہوئے لیکن ایسا کرنا چونکہ جبر ہوتا، جس میں انسان کی آزمائش نہیں ہوسکتی تھی، جب کہ اللہ تعالیٰ انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر آزمانا چاہتا ہے، اس لئے اللہ نے جبر نہیں فرمایا۔
____________________
* اس میں ان کی جاہلی شریعت اور اباطیل کی تین صورتیں اور بیان فرمائی ہیں۔ حِجْرٌ( بمعنی منع) اگرچہ مصدر ہے لیکن مفعول یعنی مَحْجُورٌ( ممنوع) کے معنی میں ہے۔ یہ پہلی صورت ہے کہ یہ جانور یا فلاں کھیت کی پیداوار، ان کا استعمال ممنوع ہے۔ اسے صرف وہی کھائے گا جسے ہم اجازت دیں گے۔ یہ اجازت بتوں کے خادم اور مجاورین ہی کے لئے ہوتی۔
**- یہ دوسری صورت ہے کہ وہ مختلف قسم کے جانوروں کو اپنے بتوں کے نام آزاد چھوڑ دیتے جن سے وہ بار برداری یا سواری کا کام نہ لیتے۔ جیسے بَحِيرَة، سَائِبَة وغیرہ کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے۔
***- یہ تیسری صورت ہے کہ وہ ذبح کرتے وقت صرف اپنے بتوں کا نام لیتے، اللہ کا نام نہ لیتے۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ان جانوروں پر بیٹھ کر وہ حج کے لئے نہ جاتے۔ بہرحال یہ ساری صورتیں گھڑی ہوئی تو ان کی اپنی تھیں لیکن وہ اللہ پر افترا باندھتے یعنی یہ باور کراتے کہ اللہ کے حکم سے ہی ہم سب کچھ کررہے ہیں۔
____________________
* یہ ایک اور شکل ہے کہ جو جانور وہ اپنے بتوں کے نام وقف کرتے، ان میں سے بعض کے بارے میں کہتے کہ ان کا دودﮪ اور ان کے پیٹ سے پیدا ہونے والا زندہ بچہ صرف ہمارے مردوں کے لئے حلال ہے، عورتوں کے لئے حرام ہے۔ ہاں اگر بچہ مردہ پیدا ہوتا تو پھر اس کے کھانے میں مرد وعورت برابر ہیں۔
**- اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جو غلط بیانی کرتے ہیں اور اللہ پر افترا باندھتے ہیں، ان پر عنقریب اللہ تعالیٰ انہیں سزا دے گا۔ وہ اپنے فیصلوں میں حکیم ہے اور اپنے بندوں کے بارے میں پوری طرح علم رکھنے والا ہے اور اپنے علم وحکمت کے مطابق وہ جزا و سزا کا اہتمام فرمائے گا۔
____________________
* مَعْرُوشَاتٍ کا مادہ عَرْشٌ ہے جس کے معنی بلند کرنے اور اٹھانے کے ہیں۔ معروشات سے مراد بعض درختوں کی وہ بیلیں ہیں جو ٹٹیوں (چھپروں، منڈیروں وغیرہ) پر چڑھائی جاتی ہیں، جیسے انگور اور بعض ترکاریوں کی بیلیں ہیں۔ اور غیرمعروشات، وہ درخت ہیں جن کی بیلیں اوپر نہیں چڑھائی جاتیں بلکہ زمین پر ہی پھیلتی ہیں، جیسے خربوزہ اور تربوز وغیرہ کی بیلیں ہیں یا وہ تنے دار درخت ہیں جو بیل کی شکل میں نہیں ہوتے۔ یہ تمام بیلیں، درخت اور کھجور کے درخت اور کھیتیاں، جن کے ذائقے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور زیتون وانار، ان سب کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔
**- اس کے لئے دیکھئے آیت 99 کا حاشیہ۔
***- یعنی جب کھیتی سے غلہ کاٹ کر صاف کرلو اور پھل درختوں سے توڑ لو، تو اس کا حق ادا کرو۔ اس حق سے مراد بعض علماء کے نزدیک نفلی صدقہ ہے اور بعض کے نزدیک صدقۂ واجبہ یعنی عُشر، دسواں حصہ (اگر زمین بارانی ہو) یا نصف عُشر یعنی بیسواں حصہ (اگر زمین کنویں، ٹیوب ویل یا نہری پانی سے سیراب کی جاتی ہو )
****- یعنی صدقہ وخیرات میں بھی حد سے تجاوز نہ کرو، ایسا نہ ہو کہ کل کو تم ضرورت مند ہوجاؤ۔ بعض کہتے ہیں اس کا تعلق حکام سے ہے یعنی صدقات وزکوٰۃ کی وصولی میں حد سے تجاوز نہ کرو اور امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سیاق آیت کی رو سے زیادہ صحیح یہ بات لگتی ہے کہ کھانے میں اسراف مت کرو، کیونکہ بسیار خوری عقل اور جسم دونوں کے لئے مضر ہے۔ اسراف کے یہ سارے ہی مفہوم اپنی اپنی جگہ درست ہیں، اس لئے سارے ہی مفہوم مراد ہوسکتے ہیں۔ دوسرے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے میں بھی اسراف سے منع فرمایا ہے، جس سے واضح ہے کہ کھانے پینے میں بھی اعتدال بہت ضروری اور اس سے تجاوز اللہ کی نافرمانی ہے۔ آج کل مسلمانوں نے اس اسراف کو اپنی امارت کے اظہار کی علامت بنالیا ہے۔فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
*****- اس لئے اسراف کسی چیز میں بھی پسندیدہ نہیں ہے، صدقہ وخیرات دینے میں نہ کسی اور چیز میں۔ ہر چیز میں اعتدال اور میانہ روی مطلوب ومحبوب ہے اور اسی کی تاکید کی گئی ہے۔
____________________
* حُمُولَةً (بوجھ اٹھانے والے) سے مراد، اونٹ، بیل، گدھا، خچر وغیرہ ہیں، جو باربرداری کے کام میں آتے ہیں اورفَرْشًا سے مراد زمین سے لگے ہوئے جانور۔ جیسے بکری وغیرہ جس کا تم دودھ پیتے یا گوشت کھاتے ہو۔
**- یعنی پھلوں، کھیتوں اور چوپایوں سے۔ ان سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور ان کو تمہارے لئے خوراک بنایا ہے۔
***- جس طرح مشرکین اس کے پیچھے لگ گئے اور حلال جانوروں کو بھی اپنے اوپر حرام کرلیا گویا اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام یا حرام کو حلال کرلینا، یہ شیطان کی پیروی ہے۔
____________________
* یعنی أَنْشَأَ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ (اسی اللہ نے آٹھ زوﺝ پیدا کئے ) أَزْوَاجٌ، زَوْجٌ کی جمع ہے۔ ایک ہی جنس کے نر اور مادہ کو زوﺝ (جوڑا) کہا جاتا ہے اور ان دونوں کے ایک ایک فرد کو بھی زوﺝ کہہ لیا جاتا ہے کیونکہ ہر ایک دوسرے کے لئے زوﺝ ہوتا ہے۔ قرآن کے اس مقام پر بھی ازواﺝ، افراد ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی 8 افراد اللہ نے پیدا کئے۔ جو باہم ایک دوسرے کا جوڑا ہیں۔ یہ نہیں کہ زوﺝ (معنی جوڑے) پیدا کئے کیوں کہ اس طرح تعداد 8 کے بجائے 16ہوجائے گی جو آیت کے اگلے حصہ کے مطابق نہیں ہے۔
**- یہ ثَمَانِيَةَ سے بدل ہے اور مراد دو قسم سے نر اور مادہ ہے یعنی بھیڑ سے نر اور مادہ اور بکری سے نر اور مادہ پیدا کئے (بھیڑ میں ہی دنبہ چھترا بھی شامل ہے )۔
***- مشرکین جو بعض جانوروں کو اپنے طور پر ہی حرام کرلیتے تھے، اس کے حوالے سے اللہ تعالیٰ پوچھ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نروں کو حرام کیا ہے یا ماداؤں کو یا اس بچے کو جو دونوں ماداؤں کے پیٹ میں ہیں؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو کسی کو بھی حرام نہیں کیا ہے۔
****- تمہارے پاس حرام قرار دینے کی کوئی یقینی دلیل ہے تو پیش کرو کہ بَحِيرَةٌ، سَائِبَةٍ، وَصِيلَةٍ اورحَامٍ وغیرہ اس دلیل کی بنیاد پر حرام ہیں۔
____________________
* یہ بھی ثَمَانِيَةَ سے بدل ہے اور یہاں بھی دو دو قسم سے دونوں کے نر اور مادہ مراد ہیں اور یوں یہ آٹھ قسمیں پوری ہوگئیں۔
**- یعنی تم جو بعض جانوروں کو حرام قرار دیتے ہو، کیا جب اللہ نے ان کی حرمت کا حکم دیا تو تم اس کے پاس موجود تھے؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو ان کی حرمت کا کوئی حکم ہی نہیں دیا۔ یہ سب تمہارا افترا ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھتے ہو۔
***- یعنی یہی سب سے بڑا ظالم ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ میں نے عمرو بن لحی کو جہنم میں اپنی انتڑیاں کھینچتے ہوئے دیکھا، اس نے سب سے پہلے بتوں کے نام پر وصیلہ اور حام وغیرہ جانور چھوڑنے کا سلسلہ شروع کیا تھا (صحيح بخاري سورة المائدة- صحيح مسلم، كتاب الجنة، باب النار يدخلها الجبارون والجنة... يدخلها الضعفاء) امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ عمرو بن لحی، خزاعہ قبیلے کے سرداروں میں سے تھا جو جرہم قبیلے کے بعد خانہ کعبہ کا والی بنا تھا، اس نے سب سے پہلے دین ابراہیمی میں تبدیلی کی اور حجاز میں بت قائم کرکے لوگوں کو ان کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور مشرکانہ رسمیں جاری کیں (ابن کثیر) بہرحال مقصود آیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آٹھ قسم کے جانور پیدا کرکے بندوں پر احسان فرمایا ہے، ان میں سے بعض جانوروں کو اپنی طرف سے حرام کرلینا، اللہ کے احسان کو رد کرنا بھی ہے اور شرک کا ارتکاب بھی۔
____________________
* اس آیت میں جن چار محرمات کا ذکر ہے، اس کی ضروری تفصیل سورۂ بقرہ 173 کے حاشیے میں گذر چکی ہے۔ یہاں یہ نکتہ مزید قابل وضاحت ہے کہ ان چار محرمات کا ذکر کلمۂ حصر سے کیا گیا ہے، جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان چار قسموں کے علاوہ باقی تمام جانور حلال ہیں۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ ان چار کے علاوہ اور جانور بھی شریعت میں حرام ہیں، پھر یہاں حصر کیوں کیا گیا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ اس سے قبل مشرکین کے جاہلانہ طریقوں اور ان کے رد کا بیان چلا آرہا ہے۔ ان ہی میں بعض جانوروں کا بھی ذکر آیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر حرام کررکھے تھے، اس سیاق اور ضمن میں یہ کہا جارہا ہے کہ مجھ پر جو وحی کی گئی ہے اس میں تو اس سے مقصود مشرکین کے حرام کردہ جانوروں کی حلت ہے یعنی وہ حرام نہیں ہیں کیونکہ اللہ نے جن محرمات کا ذکر کیا ہے ان میں تو وہ شامل ہی نہیں ہیں۔ اگر وہ حرام ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کا بھی ذکر ضرور کرتا۔ امام شوکانی نے اس کی توجیہ اس طرح کی ہے کہ اگر یہ آیت مکی نہ ہوتی تو پھر یقینًا محرمات کا حصر قابل تسلیم تھا لیکن چونکہ اس کے بعد خود قرآن نے المائدہ میں بعض اور محرمات کا ذکر کیا ہے اور نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی کچھ محرمات بیان فرمائیں ہیں، تو اب وہ بھی ان میں شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے پرندوں اور درندوں کے حلت وحرمت معلوم کرنے کے لئے دو اصول بیان فرما دیئے ہیں جن کی وضاحت بھی مذکورہ محولہ حاشیہ میں موجود ہے۔ ”او فِسْقًا“ کا عطف ”لَحْمَ خِنْزِيرٍ“ پر ہے۔ اس لئے منصوب ہے، معنی ہیں أَيْ: ذُبِحَ عَلَى الأَصْنَامِ، (وہ جانور جو بتوں کے نام پر ان کے تھانوں پر ان کا تقرب حاصل کرنے کے لئے ذبح کئے جائیں) یعنی ایسے جانوروں پر گو عند الذبح اللہ کا نام لیا جائے، تب بھی حرام ہوں گے کیونکہ ان سے اللہ کا تقرب نہیں، غیراللہ کا تقرب حاصل کرنا مقصود ہے۔ فسق رب کی اطاعت سے خروﺝ کا نام ہے۔ رب نے حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جانور ذبح کیا جائے اور صرف اسی کے تقرب ونیاز کے لئے کیا جائے، اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو یہی فسق اور شرک ہے۔
____________________
* ناخن والے جانور سے مراد وہ ہاتھ والے جانور ہیں جن کی انگلیاں پھٹی ہوئی یعنی جدا جدا نہ ہوں۔ جیسے اونٹ، شترمرغ، بطخ، قاز، گائے اور بکری وغیرہ۔ ایسے سب چرند پرند حرام تھے۔ گویا صرف وہ جانور اور پرندے ان کے لئے حلال تھے جن کے پنجے کھلے ہوں۔
**- یعنی جو چربی گائے یا بکری کی پشت پر ہو (یا دنبے کی چکتی ہو) یا انتڑیوں (یا اوجھ) یا ہڈیوں کے ساتھ ملی ہوئی ہو۔ چربی کی یہ مقدار حلال تھی۔
***- یہ چیزیں ہم نے بطور سزا ان پر حرام کی تھیں یعنی یہود کا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ یہ چیزیں حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے اوپر حرام کی ہوئی تھیں اور ہم تو ان کے اتباع میں ان کو حرام سمجھتے ہیں۔
****- اس کا مطلب یہ ہے کہ یہود یقینًا اپنے مذکورہ دعوے میں جھوٹے ہیں۔
____________________
* اس لئے تکذیب کے باوجود عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا۔
**- یعنی مہلت دینے کا مطلب ہمیشہ کے لئے عذاب الٰہی سے محفوظ ہونا نہیں ہے۔ وہ جب بھی عذاب دینے کا فیصلہ کرے گا تو پھر اسے کوئی ٹال نہیں سکے گا۔
____________________
* یہ وہی مغالطہ ہے جو مشیت الٰہی اور رضائے الٰہی کو ہم معنی سمجھ لینے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جس کی وضاحت پہلے کی جاچکی ہے۔
**- اللہ تعالیٰ نے اس مغالطے کا ازالہ اس طرح فرمایا کہ اگر یہ شرک اللہ کی رضا کا مظہر تھا تو پھر ان پر عذاب کیوں آیا؟ عذاب الٰہی اس بات کی دلیل ہے کہ مشیت اور چیز ہے اور رضائے الٰہی اور چیز۔
***- یعنی اپنے دعوے پر تمہارے پاس دلیل ہے تو پیش کرو! لیکن ان کے پاس دلیل کہاں؟ وہاں تو صرف اوہام وظنون ہی ہیں۔
____________________
* یعنی وہ جانور، جن کو مشرکین حرام قرار دیئے ہوئے تھے۔
**- کیوں کہ ان کے پاس سوائے کذب وافترا کے کچھ نہیں۔
***- یعنی اس کا عدیل (برابر کا) ٹھہرا کر شرک کرتے ہیں۔
____________________
* یعنی حرام وہ نہیں ہیں جن کو تم نے بلا دلیل مَا أَنْزَلَ اللهُ، محض اپنے اوہام باطلہ اور ظنون فاسدہ کی بنیاد پر حرام قرار دے رکھا ہے۔ بلکہ حرام تو وہ چیزیں ہیں جن کو تمہارے رب نے حرام کیا ہے۔ تمہارا پیدا کرنے والا اور تمہارا پالنہار وہی ہے اور ہر چیز کا علم بھی اسی کے پاس ہے۔ اس لئے اسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال اور جس چیز کو چاہے حرام کرے۔ چنانچہ میں تمہیں ان باتوں کی تفصیل بتلاتا ہوں جن کی تاکید تمہارے رب نے کی ہے۔
**- أَلا تُشْرِكُوا سے پہلے أَوْصَاكُمْ محذوف ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو تم شریک مت ٹھہراؤ۔ شرک سب سے بڑا گناہ ہے، جس کے لئے معافی نہیں، مشرک پر جنت حرام اور دوزخ واجب ہے۔ قرآن مجید میں یہ ساری چیزیں مختلف انداز سے بار بار بیان ہوئی ہیں۔ اور نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے بھی احادیث میں ان کو تفصیل اور وضاحت سے بیان فرما دیا ہے اس کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ لوگ شیطان کے بہکاوﮮ میں آکر شرک کا عام ارتکاب کرتے ہیں۔
***- اللہ تعالیٰ کی توحید واطاعت کے بعد یہاں بھی (اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی) والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اطاعت رب کے بعد اطاعت والدین کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر کسی نے اس ربوبیت صغریٰ (والدین کی اطاعت اور ان سے حسن سلوک) کے تقاضے پورے نہیں کئے تو وہ ربوبیت کبریٰ کے تقاضے بھی پورے کرنے میں ناکام رہے گا۔
****- زمانۂ جاہلیت کا یہ فعل قبیح آﺝ کل ضبط ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے پوری دنیا میں زور وشور سے جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔
*****- یعنی قصاص کے طور پر، نہ صرف جائز ہے بلکہ اگر مقتول کے وارث معاف نہ کریں تو یہ قتل نہایت ضروری ہے۔ ”وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ“ ( البقرۃ: 79) ”قصاص میں تمہاری زندگی ہے“۔
____________________
* جس یتیم کی کفالت تمہاری ذمہ داری قرار پائے، تو اس کی ہر طرح خیر خواہی کرنا تمہارا فرض ہے۔ اس خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اگر اس کے اس مال سے یعنی وراثت میں سے اس کو حصہ ملا ہے، چاہے وہ نقدی کی صورت میں ہو یا زمین اور جائیداد کی صورت میں، تاہم ابھی وہ اس کی حفاظت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کے مال کی اس وقت تک پورے خلوﺹ سے حفاظت کی جائے جب تک وہ بلوغت اور شعور کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔ یہ نہ ہو کہ کفالت کے نام پر، اس کی عمر شعور سے پہلے ہی اس کے مال یا جائیداد کو ٹھکانے لگادیا جائے۔
**- ناپ تول میں کمی کرنا، لیتے وقت تو پورا ناپ یا تول کرلینا، مگر دیتے وقت ایسا نہ کرنا بلکہ ڈنڈی مار کر دوسرے کو کم دینا، یہ نہایت پست اور اخلاق سے گری ہوئی بات ہے۔ قوم شعیب میں یہی اخلاقی بیماری تھی جو ان کی تباہی کے من جملہ اسباب میں سے تھی۔
***- یہاں اس بات کے بیان سے یہ مقصد ہے کہ جن باتوں کی تاکید کررہے ہیں، یہ ایسے نہیں ہیں کہ جن پر عمل کرنا مشکل ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کا حکم ہی نہ دیتے۔ اس لئے کہ طاقت سے بڑھ کر ہم کسی کو مکلف ہی نہیں ٹھہراتے۔ اس لئے اگر نجات اخروی اور دنیا میں بھی عزت و سرفرازی چاہتے ہو تو ان احکام الٰہی پر عمل کرو اور ان سے گریز مت کرو۔
____________________
* هَذَا (یہ) سے مراد قرآن مجید یا دین اسلام یا وہ احکام ہیں جو بطور خاص اس سورت میں بیان کئے گئے ہیں اور وہ ہیں توحید، معاد اور رسالت۔ اور یہی اسلام کے اصول ثلاثہ ہیں جن کے گرد پورا دین گھومتا ہے۔ اس لئے جو بھی مراد لیا جائے مفہوم سب کا ایک ہی ہے۔
**- صراط مستقیم کو واحد کے صیغے سے بیان فرمایا کیونکہ اللہ کی، یا قرآن کی، یا رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی راہ ایک ہی ہے۔ ایک سے زیادہ نہیں۔ اس لئے پیروی صرف اسی ایک راہ کی کرنی ہے کسی اور کی نہیں۔ یہی ملت مسلمہ کی وحدت واجتماع کی بنیاد ہے جس سے ہٹ کر یہ امت مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئی ہے۔ حالانکہ اسے تاکید کی گئی ہے کہ ”دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی“۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ“ (الشورى) ”دین کو قائم رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو“ گویا اختلاف اور تفرقہ کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ اسی بات کو حدیث میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے اس طرح واضح فرمایا کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ ”یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے“۔ اور چند خطوط اس کی دائیں اور بائیں جانب کھینچے اور فرمایا ”یہ راستے ہیں جن پر شیطان بیٹھا ہوا ہے اور وہ ان کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے“۔ پھر آپ (صلى الله عليه وسلم) نے یہی آیت تلاوت فرمائی جو زیر وضاحت ہے۔ (مسنداحمد، جلد 1، ص 465،435۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے دیکھئے مسند احمد بہ تعلیق احمد شاکر نمبر 4142) بلکہ ابن ماجہ کی روایت میں صراحت ہے کہ دو دو خط داہنے اور بائیں کھینچے۔ یعنی کل چار خطوط کھینچے اور انہیں شیطان کا راستہ بتلایا۔
____________________
* قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے جو متعدد جگہ دہرایا گیا ہے کہ جہاں قرآن کا ذکر ہوتا ہے تو وہاں تورات کا اور جہاں تورات کا ذکر ہو وہاں قرآن کا ذکر کردیا جاتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں حافظ ابن کثیر نے نقل کی ہیں۔ اسی اسلوب کے مطابق یہاں تورات کا اور اس کے اس وصف کا بیان ہے کہ وہ بھی اپنے دور کی ایک جامع کتاب تھی جس میں ان کی دینی ضروریات کی تمام باتیں تفصیل سے بیان کی گئی تھیں اور وہ ہدایت ورحمت کا باعث تھی۔
____________________
* اس سے مراد قرآن مجید ہے جس میں دین و دنیا کی برکتیں اور بھلائیاں ہیں۔
____________________
* یعنی یہ قرآن اس لئے اتارا تاکہ تم یہ نہ کہو۔ دو فرقوں سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں۔
**- اس لئے کہ وہ ہماری زبان میں نہ تھی۔ چنانچہ اس عذر کو قرآن عربی میں اتار کر ختم کردیا۔
____________________
* گویا یہ عذر بھی تم نہیں کرسکتے۔
**- یعنی کتاب ہدایت ورحمت کے نزول کے بعد اب جو شخص ہدایت (اسلام) کا راستہ اختیار کرکے رحمت الٰہی کا مستحق نہیں بنتا، بلکہ تکذیب واعراض کا راستہ اپناتا ہے، تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے ؟صَدَفَ کے معنی اعراض کرنے کے بھی کئے گئے ہیں اور دوسروں کو روکنے کے بھی۔
____________________
* قرآن مجید کے نزول اور حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کردی ہے۔ اب بھی اگر یہ اپنی گمراہی سے باز نہیں آتے تو کیا یہ اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یعنی ان کی روحیں قبض کرنے کے لئے، اس وقت یہ ایمان لائیں گے؟ یا آپ کا رب ان کے پاس آئے، یعنی قیامت برپا ہوجائے اور وہ اللہ کے روبرو پیش کئے جائیں۔ اس وقت یہ ایمان لائیں گے؟ یا آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آئے۔ جیسے قیامت کے قریب سورﺝ مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ تو اس قسم کی بڑی نشانی دیکھ کر یہ ایمان لائیں گے؟ اگلے جملے میں وضاحت کی جارہی ہے کہ اگر یہ اس انتظار میں ہیں تو بہت ہی نادانی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ کیونکہ بڑی نشانی کے ظہور کے بعد کافر کا ایمان اور فاسق وفاجر شخص کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ صحیح حدیث ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ ”قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ سورﺝ (مشرق کے بجائے) مغرب سے طلوع ہو پس جب ایسا ہوگا اور لوگ اسے مغرب سے طلوع ہوتے دیکھیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے“ پھر آپ (صلى الله عليه وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی «لا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ» یعنی اس وقت ایمان لانا کسی کو نفع نہیں دے گا جو اس سے قبل ایمان نہ لایا ہوگا۔ (صحیح بخاری۔ تفسیر سورۃ الانعام )
**- یعنی کافر کا ایمان فائدہ مند، یعنی قبول نہیں ہوگا۔
***- اس کا مطلب ہے کہ کوئی گناہ گار مومن گناہوں سے توبہ کرے گا تو اس وقت اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی اور اس کے بعد عمل صالح غیرمقبول ہوگا۔ جیسا کہ احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔
****- یہ ایمان نہ لانے والوں اور توبہ نہ کرنے والوں کے لئے تہدید ووعید ہے۔ قرآن کریم میں یہی مضمون سورۂ محمد: 18 اور سورۂ مومن: 84، 85 میں بھی بیان کیا گیا ہے۔
____________________
* اس سے بعض لوگ یہود و نصاریٰ مراد لیتے ہیں جو مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ بعض مشرکین مراد لیتے ہیں کہ کچھ مشرک ملائکہ کی، کچھ ستاروں کی، کچھ مختلف بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ لیکن یہ آیت عام ہے کفار و مشرکین سمیت وہ سب لوگ اس میں داخل ہیں جو اللہ کے دین کو اور رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے دین یا دوسرے طریقے کو اختیار کرکے تفرق وتحزب کا راستہ اپناتے ہیں۔ ”شِيَعًا“ کے معنی فرقے اور گروہ، اور یہ بات ہر اس قوم پر صادق آتی ہے جو دین کے معاملے میں مجتمع تھی لیکن پھر ان کے مختلف افراد نے اپنے کسی بڑے کی رائے کو ہی مستند اور حرف آخر قرار دے کر اپنا راستہ الگ کرلیا، چاہے وہ رائے حق وصواب کے خلاف ہی ہو۔ (فتح القدیر)
____________________
* یہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل واحسان کا بیان ہے جو اہل ایمان کے ساتھ وہ کرے گا کہ ایک نیکی کا بدلہ دس نیکیوں کے برابر عطا فرمائے گا۔ یہ کم ازکم اجر ہے۔ ورنہ قرآن اور احادیث دونوں سے ثابت ہے کہ بعض نیکیوں کا اجر کئی کئی سو گنا بلکہ ہزاروں گنا تک ملے گا۔
**- یعنی جن گناہوں کی سزا مقرر نہیں ہے، اور اس کے ارتکاب کے بعد اس نے اس سے توبہ بھی نہیں کی یا اس کی نیکیاں اس کی برائیوں پر غالب نہ آئیں، یا اللہ نے اپنے فضل خاﺹ سے اسے معاف نہیں فرما دیا (کیونکہ ان تمام صورتوں میں مجازات کا قانون بروئے عمل نہیں آئے گا) تو پھر اللہ تعالیٰ ایسی برائی کی سزا دے گا اور اس کے برابر ہی دے گا۔
____________________
* توحید الوہیت کی یہی دعوت تمام انبیا نے دی، جس طرح یہاں آخری پیغمبر کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا کہ ”مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں“۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”ہم نےآپ سے پہلے جتنے بھی انبیا بھیجے، سب کو یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، تم میری ہی عبادت کرو“ (الانبیاء: 25) چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی یہ اعلان فرمایا «وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ» (يونس: 72) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ أَسْلِمْ (فرمانبردار ہوجا) تو انہوں نے فرمایا «أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ» (البقرة: 131) ”میں رب العالمین کے لئے مسلمان یعنی فرمانبردار ہوگیا“، حضرت ابراہیم السلام ویعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی «فَلا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ» (البقرة: 132) ”تمہیں موت اسلام پر آنی چاہیے“، حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی «تَوَفَّنِي مُسْلِمًا» (يوسف: 101) ”مجھے اسلام کی حالت میں دنیا سے اٹھانا“، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا «فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُسْلِمِينَ» (يونس: 84) ”اگر تم مسلمان ہو تو اسی اللہ پر بھروسہ کرو“، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے کہا «وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ» (المائدة: 111) اسی طرح اور بھی تمام انبیاء اور ان کے مخلص پیروکاروں نے اسی اسلام کو اپنایا جس میں توحید الوہیت کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ گو بعض بعض شرعی احکام ایک دوسرے سے مختلف تھے۔
____________________
* یہاں رب سے مراد وہی الٰہ ماننا ہے جس کا انکار مشرکین کرتے رہے ہیں اور جو اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے۔ لیکن مشرکین اس کی ربوبیت کو تو مانتے تھے۔ اور اس میں کسی کو شریک نہیں گردانتے تھے لیکن اس کی الوہیت میں شریک ٹھہراتے تھے۔
**- یعنی اللہ تعالیٰ عدل وانصاف کا پورا اہتمام فرمائے گا اور جس نے۔ اچھا یا برا۔ جو کچھ کیا ہوگا، اس کے مطابق جزا وسزا دے گا، نیکی پر اچھی جزا اور بدی پر سزا دے گا اور ایک کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالے گا۔
***- اس لیے اگر تم اس دعوت توحید کو نہیں مانتے جو تمام انبیاء کی مشترکہ دعوت رہی ہے تو تم اپنا کام کیے جاؤ، ہم اپنا کیے جاتے ہیں۔ قیامت والے دن اللہ کی بارگاہ میں ہی تمہارا فیصلہ ہوگا۔
____________________
* یعنی حکمران بناکر اختیارات سے نوازا۔ یا ایک کے بعد دوسرے کو اس کا وارث (خلیفہ) بنایا۔
**- یعنی فقر وغنا، علم وجہل، صحت اور بیماری، جس کو جو کچھ دیا ہے، اسی میں اس کی آزمائش ہے۔