ﰡ
____________________
* جس وقت یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) چادر اوڑھے ہوئے تھے اللہ نے آپ کی اسی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا مطلب یہ ہے کہ اب چادر چھوڑ دیں اور رات کو تھوڑا قیام کریں یعنی نماز تہجد پڑھیں کہا جاتا ہے کہ اس حکم کی بناء پر تہجد آپ کے لیے واجب تھی۔ (ابن کثیر)
____________________
* یہ قلیلا سے بدل ہے، یعنی یہ قیام نصف رات سے کچھ کم (ثلث) یا کچھ زیادہ (دو ثلث) ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
**- چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ آپ کی قرأت ترتیل کے ساتھ ہی تھی اور آپ نے اپنی امت کو بھی ترتیل کے ساتھ، یعنی ٹھہر ٹھہر پڑھنے کی تلقین کی ہے۔
____________________
* رات کا قیام چونکہ نفس انسانی کے لئے بالعموم گراں ہے، اس لئے یہ جملہ خاص طور پر فرمایا کہ ہم اس سے بھی بھاری بات تجھ پر نازل کریں گے، یعنی، قرآن، جس کے احکام و فرائض پر عمل، اس کی حدود کی پابندی اور اس کی تبلیغ اور دعوت، ایک بھاری جانفسانی کا عمل ہے۔ بعض نے ثقالت سے وہ بوجھ مراد لیا ہے جو وحی کے وقت نبی (صلى الله عليه وسلم) پر پڑتا تھا جس سے سخت سردی میں بھی آپ پسینے سے شرابور ہو جاتے تھے۔(ابن کثیر)
____________________
* اس کا دوسرا مفہوم ہے کہ رات کی تنہائیوں میں کان معانی قرآن کے فہم میں دل کے ساتھ زیادہ موافقت کرتے ہیں جو ایک نمازی تہجد میں پڑھتا ہے۔
**- دوسرا مفہوم یہ ہے کہ دن کے مقابلے میں رات کو قرآن زیادہ واضح اور حضور قلب کے لئے زیادہ موثر ہے، اس لئے کہ اس وقت دوسری آوازیں خاموش ہوتی ہیں۔ فضا میں سکون غالب ہوتا ہے اس وقت نمازی جو پڑھتا ہے وہ آوازوں کے شور اور دنیا کے ہنگاموں کے نذر نہیں ہوتا بلکہ نمازی اس سے خوب محفوظ ہوتا اور اس کی اثر آفرینی کو محسوس کرتا ہے۔
____________________
* سَبْحٌ کے معنی ہیں الْجَرْيُ وَالدَّوَرَان (چلنا اور پھرنا)یعنی دن کے وقت دنیاوی مصروفیتوں کا ہجوم رہتا ہے ۔یہ پہلی بات ہی کی تائید ہے ۔یعنی رات کو نماز اور تلاوت زیادہ مفید اور موثر ہے ۔یعنی اس پر مداومت کر دن ہو یا رات اللہ کی تسبیح و تحمید اور تکبر و تحلیل کرتا رہ۔
____________________
* تَبَتُّلٌ کے معنی انْقِطَاعٌ اور علیحد گی کے ہیں، یعنی اللہ کی عبادت اور اس سے دعا و مناجات کے لیے یکسو اور ہمہ تن اس کی طرف متوجہ ہو جانا، یہ رہبانیت سے مختلف چیز ہے رہبانیت تو تجرد اور ترک دنیا ہے جو اسلام میں ناپسندیدہ ہےچیز ہے۔ اور تبث کا مطلب ہے امور دنیاوی کی ادائیگی کے ساتھ عبادت میں اشتغال، خشوع، خضوع اور اللہ کی طرف یکسوئی یہ محمود و مطلوب ہے۔
____________________
* انکال، نکل کی جمع ہے قیود (بیڑیاں) اور بعض نے اغلال کے معنی میں لیا ہے ۔یعنی طوق، جحیما 'بھڑکتی آگ ذَا غُصَّةٍ حلق میں اٹک جانے والا، نہ حلق سے نیچے اترے اور نہ باہر نکلے۔ یہ زَ قُّوْم کا کھانا ہوگا۔ ضَرِیْع ایک کانٹے دار جھاڑی ہے جو سخت بدبو دار اور زہریلی ہوتی ہے۔
____________________
* یعنی یہ عذاب اس دن ہوگا جس دن زمین پہاڑ بھونچال سے تہ وبالا ہو جائیں گے اور بڑے بڑے پر ہیبت پہاڑ ریت کے ٹیلوں کی طرح بےحثییت ہو جائیں گے۔ کثیب ریت کا ٹیلا، مھیلا کا معنی بھربھری پیروں کے نچیے سے نکل جانے والی ریت۔
____________________
* جو قیامت والے دن تمہارے اعمال کی گواہی دے گا۔
____________________
* اس میں اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ تمہارا حشر بھی وہی ہو سکتا ہے۔ جو فرعون کا موسیٰ (عليه السلام) کی تکذیب کی وجہ سے ہوا۔
____________________
* شیب، أشیب کی جمع ہے قیامت والے دن کی ہولناکی بیان کی کہ واقع اس دن بچے بوڑھے ہوجائیں گے یا تمثیل کے طور پر کہا گیا۔حدیث میں بھی آتا ہے کہ قیامت والے دن اللہ آدم (عليه السلام) کو کہے گا اپنی اولاد میں سے 999۔اس وقت حمل والی عورتوں کا حمل گر جائے گا اور بچے بوڑھے ہو جائیں گے، یہ بات صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کو بہت شاق گزری اور ان کے چہرے فق ہو گئے۔تو نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ قوم یاجوج وماجوج میں 999 ہوں گے اور تم سے ایک اللہ کی رحمت سےمجھے امید ہے کہ تمام جنتیوں میں سے آدھا تم ہم لوگ ہوں گے۔(الحدیث البخاري، تفسير سورة الحج)
____________________
* یہ یوم کی دوسری صفت ہے اس دن ہولناکی سے آسمان پھٹ جائے گا۔
**- یعنی اللہ نے جو بعث بعد الموت، حساب کتاب اور جنت دوزخ کا وعدہ کیا ہوا ہے یہ یقینا لامحالہ ہو کر رہنا ہے۔
____________________
* جب سورت کے آغاز میں نصف رات یا اس سے کم یا زیادہ قیام کا حکم دیا گیا تو نبی (صلى الله عليه وسلم) اور آپ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت رات کو قیام کرتی کبھی دو تہائی سے کم یا زیادہ کبھی نصف رات کبھی ثلث رات جیسا کہ یہاں ذکر ہے۔ لیکن ایک تو رات کا یہ قیام نہایت گراں تھا دوسرے وقت کا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ یہ نصف رات ہوئی یا ثلث اس لیے اللہ نے اس آیت میں تخفیف کا حکم نازل فرمایا جس میں فرمایا کہ بعض کے نزدیک ترک قیام کی اجازت ہے۔ اور بعض کے نزدیک یہ ہے کہ اس کے فرض کو استحباب میں بدل دیا گیا ۔اب یہ نہ امت کے لئے فرض ہے نہ نبی (صلى الله عليه وسلم)کے لئے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ تخفیف صرف امت کے لئے ہے نبی (صلى الله عليه وسلم)کے لئے اس کا پڑھنا ضروری تھا۔
**- یعنی اللہ تورات کی گھڑیاں گن سکتا ہے کتنی گزر گئی ہیں اور کتنی باقی ہیں تمہارے لیے یہ اندازہ لگانا ناممکن ہے۔
***- جب تمہارے لئے رات کے گزرنے کا صحیح اندازہ ممکن ہی نہیں، تو تم مقررہ اوقات تک نماز تہجد میں مشغول بھی کس طرح رہ سکتے ہو؟
****- یعنی اللہ نے قیام الیل کا حکم منسوخ کر دیا اور اب صرف اس کا استحباب باقی رہ گیا ہے اور وہ بھی وقت کی پابندی کے بغیر، نصف شب یا ثلث شب یا دو ثلث کی پابندی بھی ضتوتی نہیں ۔اگر تم تھوڑا سا وقت صرف کر کے دو رکعت بھی ہڑھ لو گے تو عنداللہ قیام الیل کے اجر کے مستحق قرار پاؤگے، تاہم اگر کوئی شحص آٹھ رکعات تہجد کا اہتمام کرے گا جیسا کہ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کا معمول تھا، تو زیادہ بہتر ہو گا اور نبی (صلى الله عليه وسلم) کا تبع قرار پائے گا۔
*****- فَاقْرَءُوا کا مطلب ہے فصلو 'اور اور قرآن سے مراد الصلوۃ ہے، قیام الیل میں چوں کہ قیام لمبا ہوتا ہے اور قرآن زیادہ پڑھا جاتا ہے اس لئے نماز تہجد کو ہی قرآن سے تعبیر کر دیا گیا ہے جیسے نماز میں سور فاتحہ نہایت ضروری ہے 'اس لئے اللہ تعالیٰ نے حدیث قدسی میں 'جو سورہ فاتحہ میں گزر چکی ہے 'سورہ فاتحہ کو نماز سے تعبیر فرمایا ہے «قَسَمْتُ الصَّلاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي» (الحدیث) اس لئے ”جتنا قرآن پڑھنا آسان ہو پڑھ لو“ کا مطلب ہے رات کو جتنی نماز پڑھ سکتے ہو 'پڑھ لو۔ اس کے لئے نہ وقت کی پابندی ہے اور نہ رکعات کی ۔اس آیت سے بعض لوگ اسدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنی ضروری نہیں ہے جتنا کسی کے لئے آسان ہو'پڑھ لے اگر کوئی ایک آیت بھی کہیں سے پڑھ لے گا تو نماز ہو جائے گی ۔لیکن اول تو یہاں قراءت بمعنی نماز ہے 'جیسا کہ ہم نے بیان کیا ۔اس لئےآیت کا تعلق اس بات سے نہیں ہے کہ نماز میں کتنی قراءت ضروری ہے ؟دوسرے اگر اس کا تعلق قراءت سے ہی مان لیا جائے تب بھی یہ استدلال اپنی اندر کوئی قوت نہیں رکھتا ۔کیوں کہ ما تیسر کی تفسیر خود نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمادی ہے کہ وہ کم سے کم قراءت، جس کے بغیر نماز نہیں ہو گی وہ سورۃ ھاتحہ ہے اس لئے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ہے کہ یہ ضروری پڑھو جیسا کہ صحیح اور نہایت قوی اور واضح احادیث میں یہ حکم ہے اس تفسیر نبوی (صلى الله عليه وسلم)کے خلاف یہ کہنا کہ نماز میں سورۃ فاتحہ ضروری نہیں بلکہ کوئی سی بھی ایک آیت پڑھ لو نماز ہو جائے گی ۔بڑی جسارت اور نبی(صلى الله عليه وسلم) کی احادیث سے بے اعتناعی اکا مظاہرہ ہے ۔نیزائمی کے اقوال کے بھی خلاف ہے جو انہوں نے اصول فقیہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس آیت سے ترک فاتحہ خلف امام پر استدلال جائز نہیں ' اس لئے کہ وہ آیتیں متعارض ہیں ۔البتہ اگر کوئی شخص جہری نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہ پڑھے تو بعض احادیث کی رو سے بعض ائمہ نے اسے جائز کہا ہے اور بعض نے نہ پڑھنے ہی کو ترجیح دی ہے ۔(تفصیل کے لئے فرضیت فاتحہ خلف امام پر تحریر کردہ کتب ملاحظہ فرمائیں )
******- یعنی تجارت اور کاروبار کے لئے سفر کرنا اور ایک شہر سے دوسرے شہر میں یا ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانا پڑے گا۔
*******- اسی طرح جہاد میں بھی پُر مشقت سفر اور مشقتیں کرنی پڑتی ہیں، اور یہ تینوں چیزیں، بیماری، سفر اور جہاد نوبت بہ نوبت ہر ایک کو لاحق ہوتی ہیں اس لیے اللہ نے قیام اللیل کے حکم میں تخفیف کردی ہے کیونکہ تینوں حالتوں میں یہ نہایت مشکل اور بڑا صبر آزما کام ہے۔
********- اسباب تخفیف کے ساتھ تخفیف کا یہ حکم دوبارہ بطور تاکید بیان کر دیا گیا۔
*********- یعنی پانچوں نمازوں کی جو فرض ہیں۔
**********- یعنی اللہ کی راہ میں حسب ضرورت و توفیق خرچ کرو، اسے قرض حسنہ سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ اللہ تعالٰی اس کے بدلے میں سات سو گنا بلکہ اس سے زیادہ تک اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔
11- یعنی نفلی نمازیں، صدقات و خیرات اور دیگر نیکیاں جو بھی کرو گے اللہ کے ہاں ان کا بہترین اجر پاؤ گے اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا نصف حصہ مکی اور نصف حصہ مدنی ہے۔(ایسر التفاسیر)