ﰡ
____________________
* حضرت نوح (عليه السلام) جلیل القدر پیغمبروں میں سے ہیں، صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث شفاعت میں ہے کہ یہ پہلے رسول ہیں، نیز کہا جاتا ہے کہ انہی کی قوم سے شرک کا آغاز ہوا، چنانچہ اللہ تعالٰی نے انہیں اپنی قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا۔
**- قیامت کے دن عذاب یا دنیا میں عذاب آنے سے قبل، جیسے اس قوم پر طوفان آیا۔
____________________
* اللہ کے عذاب سے اگر تم ایمان نہ لائے اسی لیے عذاب سے نجات کا نسخہ تمہیں بتلانے آیا ہوں جو آگے بیان ہو رہا ہے۔
____________________
* اور شرک چھوڑ دو، صرف اسی کی عبادت کرو۔
**- اللہ کی نافرمانیوں سے اجتناب کرو، جن سے تم عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا سکتے ہو،
***- یعنی میں تمہیں جن باتوں کا حکم دوں اس میں میری اطاعت کرو، اس لئے کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول اور اس کا نمائندہ بن کر آیا ہوں۔
____________________
* اس کے معنی یہ کیے گیے ہیں کہ ایمان لانے کی صورت میں تمہاری موت کی جو مدت مقرر ہے اس کو مؤخر کرکے تمہیں مذید مہلت عمر عطا فرمائے گا اور وہ عذاب تم سے دور کردے گا جو عدم ایمان کی صورت میں تمہارے لیے مقدر تھا۔ چنانچہ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اطاعت، نیکی اور صلۂ رحمی سے عمر میں حقیقتاً اضافہ ہوتا ہے۔ حدیث میں بھی ہے: « صِلَةُ الرَّحِمِ تَزِيدُ فِي الْعُمُرِ »، «صلۂ رحمی، اضافہ عمر کا باعث ہے»۔ (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں، تاخیر کا مطلب برکت ہے، ایمان سے عمر میں برکت ہوگی۔ ایمان نہیں لاؤگے تو اس برکت سے محروم رہوگے۔
**- بلکہ لامحالہ واقع ہو کر رہنا ہے اسی لیے تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ ایمان واطاعت کا راستہ فورا اپنا لو تاخیر خطرہ ہے کہ وعدہ عذاب الہی کی لپیٹ میں نہ آجاؤ۔
***- یعنی اگر تمہیں علم ہوتا تو تم اسے اپنانے میں جلدی کرتے جس کا میں تمہیں حکم دے رہا ہوں یا اگر تم یہ بات جانتے ہوتے کہ اللہ کا عذاب جب آجاتا ہے تو ٹلتا نہیں ہے۔
____________________
* یعنی تیرے حکم کی تعمیل میں، بغیر کسی کوتاہی کے رات دن میں نے تیرا پیغام اپنی قوم کو پہنچایا ہے۔
____________________
* یعنی میری پکار سے یہ ایمان سے اور زیادہ دور ہوگئے ہیں۔ جب کوئی قوم گمراہی کے آخری کنارے پر پہنچ جائے تو پھر اس کا یہی حال ہوتا ہے، اسے جتنا اللہ کی طرف بلاؤ، وہ اتنا ہی دور بھاگتی ہے۔
____________________
* یعنی ایمان اور اطاعت کی طرف، جو سبب مغفرت ہے۔
**- تاکہ میری آواز سن سکیں۔
***- تاکہ میرا چہرہ نہ دیکھ سکیں یا اپنے سروں پر کپڑے ڈال دیے تاکہ میرا کلام نہ سن سکیں، یہ ان کی طرف سے شدت عداوت کا اور وعظ و نصیحت سے بے نیازی کا اظہار ہے۔ بعض کہتے ہیں، اپنے کپڑوں سے ڈھانک لینے کا مقصد یہ تھا کہ پیغمبر ان کو پہچان نہ سکے اور انہیں قبولیت دعوت کے لئے مجبور نہ کرے۔
****- یعنی کفر پر مصر رہے، اس سے باز نہ آئے اور توبہ نہیں کی۔
*****- قبول حق اور امتثال امر سے انہوں نے سخت تکبر کیا۔
____________________
* یعنی مختلف انداز اور طریقوں سے انہیں دعوت دی۔ بعض کہتے ہیں، کہ اجتماعات اور مجلسوں میں بھی انہیں دعوت دی اور گھروں میں فرساً فرداً بھی تیرا پیغام پہنچایا۔
____________________
* یعنی ایمان اور اطاعت کا راستہ اپنالو، اور اپنے رب سے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگ لو۔
**- وہ توبہ کرنے والوں کے لئے بڑا رحیم و غفار ہے۔
____________________
* بعض علماء اسی آیت کی وجہ سے نماز استسقاء میں سورہ نوح کے پڑھنے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ مروی ہے کہ حضرت عمر سبھی ایک مرتبہ نماز استسقاء کے لئے منبر پر چڑھے تو صرف آیات استغفار (جن میں یہ آیت بھی تھی) پڑھ کر منبر سے اتر آئے۔ اور فرمایا کہ میں نے بارش کو، بارش کے ان راستوں سے طلب کیا ہے جو آسمانوں میں ہیں جن سے بارش زمین پر اترتی ہے (ابن کثیر) حضرت حسن بصری کے متعلق مروی ہے کہ ان سے آکر کسی نے قحط سالی کی شکایت کی تو انہوں نے اسے استغفار کی تلقین کی، کسی دوسرے شخص نے فقرو فاقہ کی شکایت کی، اسے بھی انہوں نے یہی نسخہ بتلایا۔ ایک اور شخص نے اپنے باغ کے خشک ہونے کا شکوہ کیا، اسے بھی فرمایا، استغفار کر۔ ایک شخص نے کہا، میرے گھر اولاد نہیں ہوتی، اسے بھی کہا اپنے رب سے استغفار کر۔ کسی نے جب ان سے کہا کہ آپ نے استغفار ہی کی تلقین کیوں کی؟ تو آپ نے یہی آیت تلاوت کرکے فرمایا، کہ میں نے اپنے پاس سے یہ بات نہیں کی، یہ وہ نسخہ ہے جو ان سب باتوں کے لئے اللہ نے بتلایا ہے۔ (السیر التفاسیر)
____________________
* یعنی ایمان و اطاعت سے تمہیں اخروی نعمتیں ملیں گی بلکہ دنیاوی مال ودولت اور بیٹوں کی کثرت سے بھی نوازے جاؤ گے۔
____________________
* وقار، توقیر سے ہے، بمعنی عظمت اور رجاء خوف کے معنی میں ہے، یعنی جس طرح اس کی عظمت کا حق ہے تم اس سے ڈرتے کیوں نہیں ہو؟ اور اس کو ایک کیوں نہیں مانتے اور اس کی اطاعت کیوں نہیں کرتے؟۔
____________________
* پہلے نطفہ، پھر علقہ، پھر مضغہ، پھر عظام اور لحم اور پھر خلق تام، جیسا کہ (الانبیاء:5)، (المؤمنون:14) اور (المؤمن: 67) وغیرھا میں تفصیل گزری۔
____________________
* جو اس کی قدرت اور کمال صناعت پر دلالت کرتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عبادت کے لائق صرف وہی ایک اللہ ہے۔
____________________
* جو روئے زمین کو منور کرنے والا اور اس کے ماتھے کا جھومر ہے۔
**- تاکہ اس کی روشنی میں انسان معاش کے لیے جو انسانوں کی انتہائی ناگزیر ضرورت ہے کسب و محنت کر سکے۔
____________________
* یعنی تمہارے باپ آدم (عليه السلام) کو، جنہیں مٹی سے بنایا گیا اور پھر اس میں اللہ نے روح پھونکی۔ یا اگر تمام انسانوں کو مخاطب سمجھا جائے، تو مطلب ہوگا کہ تم جس نطفے سے پیدا ہوتے ہو وہ اسی خوراک سے بنتا ہے جو زمین سے حاصل ہوتی ہے، اس اعتبار سے سب کی پیدائش کی اصل زمین ہی قرار پاتی ہے۔
____________________
* یعنی مر کر، پھر اسی مٹی میں دفن ہونا ہے اور پھر قیامت والے دن اسی زمین سے تمہیں زندہ کرکے نکالا جائے گا۔
____________________
* یعنی اسے فرش کی طرح بچھا دیا ہے تم اس پر اسی طرح چلتے پھرتے ہو جیسے اپنے گھر میں بچھے ہوئے فرش پر چلتے اور اٹھتے بیٹھتے ہو۔
____________________
* سُبُلٌ، سَبِیلٌ کی جمع ہے اور فِجَاجٌ، فَجٌّ (کشادہ راستہ) کی جمع ہے۔ یعنی اس زمین پر اللہ تعالٰی نے بڑے بڑے کشادہ راستے بنا دیے ہیں تاکہ انسان آسانی کے ساتھ ایک دوسری جگہ، ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاسکے اس لیے یہ راستے بھی انسان کی کاروباری اور تمدنی ضرورت ہے جس کا انتظام کرکے اللہ نے انسانوں پر احسان عظیم کیا ہے۔
____________________
* یعنی میری نافرمانی پر اڑے ہوئے ہیں اور میری دعوت پر لبیک نہیں کہہ رہے ہیں ۔
**- یعنی ان کے اصاغر نے اپنے بڑوں اور صاحب ثروت ہی کی پیروی کی جن کے مال و اولاد نے انہیں دنیا اور آخرت کے خسارے میں ہی بڑھایا ہے۔
____________________
* یہ مکر یا فریب کیا تھا ؟بعض کہتے ہیں ان کا بعض لوگوں کو حضرت نوح (عليه السلام) کے قتل پر ابھارنا تھا بعض کہتے ہیں کہ مال واولاد کی وجہ سے جس فریب نفس کا وہ شکار ہوئے حتی کہ بعض نے کہا کہ اگر یہ حق پر نہ ہوتے تو ان کو یہ نعمتیں کیوں میسر آتیں؟ اور بعض کے نزدیک ان کے بڑوں کا یہ کہنا تھا کہ تم اپنے معبودوں کی عبادت مت چھوڑنا، بعض کے نزدیک ان کا کفر ہی، بڑا مکر تھا۔
____________________
* یہ قوم نوح (عليه السلام) کے وہ لوگ تھے جن کی وہ عبادت کرتے تھے اور ان کی اتنی شہرت ہوئی کہ عرب میں بھی ان کی پوجا ہوتی رہی، چنانچہ ود دومة الجندل میں قبیلہ کلب کا، سواع ساحل بحر کے قبیلہ ھذیل کا، یغوث سبا کے قریب جرف جگہ میں مراد اور بنی غطیف کا، یعوق، ہمدان قبیلے کا اور نسر، حمیر قبیلہ ذوالکلاع کا معبود رہا۔ (ابن کثیرو فتح القدیر) یہ پانچوں قوم نوح (عليه السلام) کے نیک آدمیوں کے نام تھے، جب یہ مر گئے تو شیطان نے ان کے عقیدت مندوں کو کہا کہ ان کی تصوریں بنا کر تم اپنے گھروں اور دکانوں میں رکھ لو تاکہ ان کی یاد تازہ رہے اور ان کے تصور سے تم بھی ان کی طرح نیکیاں کرتے رہو، جب یہ تصویریں بنا کر رکھنے والے فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی نسلوں کو یہ کہہ کر کہ شرک میں ملوث کر دیا کہ تمہارے آباء تو ان کی عبادت کرتے تھے جن کی تصویریں تمہارے گھروں میں لٹک رہی ہیں چنانچہ انہوں نے ان کی پوجا شروع کر دی (صحیح بخاری، تفسیر سورة نوح)
____________________
* أَضَلُّوا کا فاعل (مرجع) قوم نوح کے رؤسا ہیں۔ یعنی انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا اور اس کا مرجع یہی مذکورہ پانچ بت ہیں، اس کا مطلب ہوگا کہ ان کے سبب بہت سے لوگ گمراہی میں مبتلا ہوئے۔ جیسے ابراہیم (عليه السلام) نے بھی کہا تھا۔«رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ» (ابراھیم: 36)
____________________
* مِمَّا میں ما زائد ہے، مِنْ خَطِيئَاتِهِمْ، ائ: مِنْ أجْلِها وبِسَبَبِهَا أغْرِقُوا بالطُوفَانِ (فتح القدیر)
____________________
* یہ بد دعا اس وقت کی جب حضرت نوح (عليه السلام) ان کے ایمان لانے سے بالکل نا امید ہوگئے اور اللہ نے بھی اطلاع کر دی کہ اب ان میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا (ھود:36) دیار، فیعال کے وزن پر دیوار ہے۔ واؤ کو یا سے بدل کر ادغام مکردیا گیا، من یسکن الدیار، مطلب ہے کسی کو باقی نہ چھوڑ۔
____________________
* کافروں کے لیے بدعا کی تو مومنین کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔
**- یہ بددعا قیامت تک آنے والے ظالموں کے لئے ہے جس طرح مذکورہ دعا تمام مومن مردوں اور تمام مومن عورتوں کے لئے ہے۔