ﰡ
____________________
* اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے قرآن اس لئے نہیں اتارا کہ تو ان کے کفر پر کثرت افسوس اور ان کے عدم ایمان پر حسرت سے اپنے آپ کو مشقت میں ڈال لے اور غم میں پڑ جائے جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے۔ «فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا» (الكهف ۔6) ”پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے“، بلکہ ہم نے تو قرآن کو نصیحت اور یاد دہانی کے لیے اتارا ہے تاکہ ہر انسان کے تحت الشعور میں ہماری توحید کا جو جذبہ چھپا ہوا ہے۔ واضح اور نمایاں ہو جائے گویا یہاں شَقَاءٌ عَنَاءٌ اور تَعَبٌ کے معنی میں ہے یعنی تکلیف اور تھکاوٹ۔
____________________
* بغیر کسی حد بندی اور کیفیت بیان کرنے کے، جس طرح کہ اس کی شان کے لائق ہے یعنی اللہ تعالٰی عرش پر قائم ہے، لیکن کس طرح اور کیسے؟ یہ کیفیت کسی کو معلوم نہیں۔
____________________
* ثَرَى ٰ کے معنی ہیں اسفل السافلین یعنی زمین کا سب سے نچلا حصہ۔
____________________
* یعنی اللہ کا ذکر یا اس سے دعا اونچی آواز میں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی جانتا ہے یا أَخْفَىٰ کے معنی ہیں کہ اللہ تو ان باتوں کو بھی جانتا ہے جن کو اس نے تقدیر میں لکھ دیا اور ابھی تک لوگوں سے مخفی رکھا ہے۔ یعنی قیامت تک وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا اسے علم ہے۔
____________________
* یعنی معبود وہی ہے جو مذکورہ صفات سے متصف ہے اور بہترین نام بھی اسی کے ہیں جن سے اس کو پکارا جاتا ہے۔ نہ معبود اس کے سوا کوئی اور ہے اور نہ اس کے اسمائے حسنٰی ہی کسی کے ہیں۔ پس اسی کی صحیح معرفت حاصل کر کے اُسی سے ڈرایا جائے، اسی سے محبت رکھی جائے، اسی پر ایمان لایا جائے اور اسی کی اطاعت کی جائے۔ تاکہ انسان جب اس کی بارگاہ میں واپس جائے تو وہاں شرمسار نہ ہو بلکہ اس کی رحمت و مغفرت سے شاد کام اور اس کی رضا سے سعادت مند ہو۔
____________________
* یہ اس وقت کا واقعہ ہے۔ جب موسیٰ (عليه السلام) مدین سے اپنی بیوی کے ہمراہ (جو ایک قول کے مطابق حضرت شعیب عليه السلام کی دختر نیک اختر تھیں) اپنی والدہ کی طرف سے واپس جا رہے تھے، اندھیری رات تھی اور راستہ بھی نامعلوم۔ بعض مفسرین کے بقول بیوی کی زچگی کا وقت بالکل قریب تھا اور انہیں حرارت کی ضرورت تھی۔ یا سردی کی وجہ سے گرمی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اتنے میں دور سے انہیں آگ کے شعلے بلند ہوتے ہوئے نظر آئے۔ گھر والوں سے یعنی بیوی سے (یا بعض کہتے ہیں خادم اور بچہ بھی تھا اس لئے جمع کا لفظ استعمال فرمایا) کہا تم یہاں ٹھہرو! شاید میں آگ کا کوئی انگارا وہاں سے لے آؤں یا کم از کم وہاں سے راستے کی نشان دہی ہو جائے۔
____________________
* موسیٰ (عليه السلام) جب آگ والی جگہ پہنچے تو وہاں ایک درخت سے (جیسا کہ سورہ قصص: 30 میں صراحت ہے) آواز آئی۔
____________________
* جوتیاں اتارنے کا حکم اس لئے دیا کہ اس میں تواضع کا اظہار اور شرف و تکریم کا پہلو زیادہ ہے، بعض کہتے ہیں کہ وہ ایسے گدھے کی کھال کی بنی ہوئی تھی جو غیر مدبوغ تھی۔ کیوں کہ جانور کی کھال دباغت کے بعد ہی پاک ہوتی ہے، مگر یہ قول محل نظر ہے۔ دباغت کے بغیر جوتیاں کیوں کر بن سکتی ہیں؟ یا وادی کی پاکیزگی اس کا سبب تھا، جیسا کہ قرآن کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے۔ تاہم اس کے دو پہلو ہیں۔ یہ حکم وادی کی تعظیم کے لئے تھا یا اس لئے کہ وادی کی پاکیزگی کے اثرات ننگے پیر ہونے کی صورت میں موسیٰ (عليه السلام) کے اندر زیادہ جذب ہو سکیں۔ واللہ اعلم۔
**- طُوًى وادی کا نام ہے، اسے بعض نے منصرف اور بعض نے غیر منصرف کہا ہے (فتح القدیر)
____________________
* یعنی نبوت و رسالت اور ہم کلامی کے لئے۔
____________________
* یعنی تکلیفات میں سب سے پہلا اور سب سے اہم حکم ہے جس کا ہر انسان پر تکلف ہی ہے۔ علاوہ ازیں جب الوہیت کا مستحق بھی وہی ہے تو عبادت بھی صرف اسی کا حق ہے۔
**- عبادت کے بعد نماز کا خصوصی حکم دیا۔ حالانکہ عبادت میں نماز بھی شامل تھی، تاکہ اس کی وہ اہمیت واضح ہو جائے جیسے کہ اس کی ہے۔ لِذِكْرِي کا ایک مطلب یہ ہے کہ تو مجھے یاد کرے، اسلئے یاد کرنے کا طریقہ عبادت ہے اور عبادت میں نماز کو خصوصی اہمیت وفضیلت حاصل ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی میں تجھے یاد آ جاؤں نماز پڑھ، یعنی اگر کسی وقت غفلت یا نیند کا غلبہ ہو تو اس کیفیت سے نکلتے ہی اور میری یاد آتے ہی نماز پڑھ۔ جس طرح کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”جو نماز سے سو جائے یا بھول جائے، تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی اسے یاد آئے پڑھ لے“۔ (صحيح بخاري، كتاب المواقيت، باب من نسي صلاة فليصل إذا ذكرها، ومسلم، كتاب المساجد باب قضاء الصلاة الفائتة)
____________________
* اس لئے کہ آخرت پر یقین کرنے سے یا اس کے ذکر و مراقبے سے گریز، دونوں ہی باتیں ہلاکت کا باعث ہیں۔
____________________
* یہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) کو معجزہ عطا کیا گیا جو عصائے موسیٰ (عليه السلام) کے نام سے مشہور ہے۔
____________________
- بغیر عیب اور روگ کے، کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ کا اس طرح سفید اور چمک دار ہو کر نکلنا، کسی بیماری کی وجہ سے نہیں ہے جیسا کہ برص کے مریض کی چمڑی سفید ہو جاتی ہے۔ بلکہ یہ دوسرا معجزہ ہے، جو ہم تجھے عطا کر رہے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر ان دونوں معجزوں کا ذکر فرمایا «فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِنْ رَبِّكَ إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ» (القصص ۔32)، «پس یہ دو دلیلیں ہیں تیرے پروردگار کی طرف سے، فرعون اور اس کے سرداروں کے لئے »۔
____________________
* فرعون کا ذکر اس لئے کیا کہ اس نے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اور اس پر طرح طرح کے ظلم روا رکھتا تھا۔ علاوہ ازیں اس کی سرکشی و طغیانی بھی بہت بڑھ گئی تھی حتٰی کہ وہ دعویٰ کرنے لگا تھا «اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى» (النازعات:24) «”یں تمہارا بلند تر رب ہوں“۔
____________________
* کہتے ہیں کہ موسیٰ (عليه السلام) جب فرعون کے شاہی محل میں زیر پرورش تھے تو کھجور یا موتی کی بجائے آگ کا انگارا منہ میں ڈال لیا تھا جس سے ان کی زبان جل گئی اور اس میں لکنت پیدا ہوگئی (ابن کثیر) جب اللہ تعالٰی نے انہیں حکم دیا کہ فرعون کے پاس جا کر میرا پیغام پہنچاؤ تو حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے دل میں دو باتیں آئیں ایک تو یہ کہ وہ بڑا جابر اور متکبر بادشاہ ہے بلکہ رب ہونے تک کا دعویدار ہے دوسرا یہ کہ موسیٰ (عليه السلام) کے ہاتھوں اس کی قوم کا ایک آدمی مارا گیا تھا اور جس کی وجہ سے موسیٰ کو اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے نکلنا پڑا تھا یعنی ایک فرعون کی عظمت وجباریت کا خوف اور دوسرا اپنے ہاتھوں ہونے والے واقعہ کا اندیشہ اور ان دونوں پر زائد تیسری بات زبان میں لکنت۔ حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے دعا فرمائی کہ یا اللہ! میرا سینہ کھول دے تاکہ میں رسالت کا بوجھ اٹھا سکوں میرے کام کو آسان فرما دے یعنی جو مہم مجھے درپیش ہے اس میں میری مدد فرما اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ فرعون کے سامنے میں پوری وضاحت سے تیرا پیغام پہنچا سکوں اور اگر ضرورت پیش آئے تو اپنا دفاع بھی کر سکوں۔ اس کے ساتھ یہ دعا بھی کی کہ میرے بھائی ہارون (عليه السلام) کو (کہتے ہیں کہ یہ عمر میں موسیٰ عليه السلام سے بڑے تھے) بطور معین اور مددگار، میرا وزیر اور شریک کار بنا دے۔ وَزِيرٌ مُوَازِرٌ کے معنی میں ہے یعنی بوجھ اٹھانے والا جس طرح ایک وزیر بادشاہ کا بوجھ اٹھاتا ہے اور امور مملکت میں اسکا مشیر ہوتا ہے اسی طرح ہارون (عليه السلام) میرا مشیر اور بوجھ اٹھانے والا ساتھی ہو۔
____________________
* یہ دعاؤں کی علت بیان کی کہ اس طرح ہم تبلیغ رسالت کے ساتھ ساتھ تیری تسبیح اور تیرا ذکر بھی زیادہ کر سکیں۔
____________________
- یعنی تجھے سارے حالات کا علم ہے اور بچپن میں جس طرح تو نے ہم پر احسان کئے، اب بھی اپنے احسانات سے ہمیں محروم نہ رکھ۔
____________________
* اس سے معلوم ہوتا ہے کہ، اللہ تعالٰی نے زبان کی لکنت کو بھی دور فرما دیا ہوگا۔ اس لئے یہ کہنا صحیح نہیں کہ موسیٰ (عليه السلام) نے چونکہ پوری لکنت دور کرنے کی دعا نہیں کی تھی، اس لئے کچھ باقی رہ گئی تھی۔ باقی رہا فرعون کا یہ کہنا «وَلا يَكَادُ يُبِينُ» (الزخرف:52) ”یہ تو صاف بول بھی نہیں سکتا“، یہ ان کی تنقیص گزشتہ کیفیت کے اعتبار سے ہے۔ (ایسر التفاسیر)
____________________
* قبولیت دعا کی خوشخبری کے ساتھ مزید تسلی اور حوصلے کے لئے اللہ تعالٰی بچپن کے اس احسان کا ذکر فرما رہا ہے، جب موسیٰ (عليه السلام) کی ماں نے قتل کے اندیشے سے اللہ کے حکم سے،(یعنی القائے الٰہی) سے انہیں، جب وہ شیر خوار بچے تھے تابوت میں ڈل کر دریا کے سپرد کر دیا تھا۔
____________________
* مراد فرعون ہے جو اللہ کا بھی دشمن اور حضرت موسیٰ (عليه السلام) کا بھی دشمن تھا۔ یعنی لکڑی کا وہ تابوت تیرتا ہواجب شاہی محل کے کنارے پہنچا تو اسے باہر نکال کر دیکھا گیا، تو اس میں ایک معصوم بچہ تھا، فرعون نے اپنی بیوی کی خواہش پر پرورش کے لئے شاہی محل میں رکھ لیا۔
**- یعنی فرعون کے دل میں ڈال دی یا عام لوگوں کے دلوں میں تیری محبت ڈال دی۔
***- چنانچہ اللہ کی قدرت کا اور اس کی حفاظت و نگہبانی کا کمال اور کرشمہ دیکھئے کہ جس بچے کی خاطر، فرعون بیشمار بچوں کو قتل کروا چکا، تاکہ وہ زندہ نہ رہے، اسی بچے کو اللہ تعالٰی اس کی گود میں پلوا رہا ہے، اور ماں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے، لیکن اس کی اجرت بھی اسی دشمن موسیٰ (عليه السلام) سے وصول کر رہی ہے۔ (فَسُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ)
____________________
* یہ اس وقت ہوا، جب ماں نے تابوت دریا میں پھینک دیا تو بیٹی سے کہا، ذرا دیکھتی رہو، یہ کہاں کنارے لگتا ہے اور اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے؟ جب اللہ کی مشیت سے موسیٰ (عليه السلام) فرعون کے محل میں پہنچ گئے، شیرخوارگی کا عالم تھا، چنانچہ دودھ پلانے والی عورتوں اور آیاؤں کو بلایا گیا لیکن موسیٰ (عليه السلام) کسی کا دودھ نہ پیتے موسیٰ (عليه السلام) کی بہن خاموشی سے سارا منظر دیکھ رہی تھی، بالآخر اس نے کہا میں تمہیں ایسی عورت بتاتی ہوں جو تمہاری یہ مشکل دور کر دے گی، انہوں نے کہا ٹھیک ہے، چنانچہ وہ اپنی ماں کو، جو موسیٰ (عليه السلام) کی بھی ماں تھی، بلا لائی، جب ماں نے بیٹے کو چھاتی سے لگایا تو موسیٰ (عليه السلام) نے اللہ کی تدبیر و مشیت سے غٹا غٹ دودھ پینا شروع کر دیا۔
**- یہ ایک دوسرے احسان کا ذکر ہے، جب موسیٰ (عليه السلام) سے غیر ارادی طور پر ایک فرعونی کو صرف گھونسہ مارنے سے مر گیا، جس کا ذکر سورہ قصص میں آئے گا۔
***- فُتُونٌ دخول اور خروج کی طرح مصدر ہے یعنی ابْتَلَيْنَاكَ ابْتِلاء ً یعنی ہم نے تجھے خوب آزمایا۔ یا یہ جمع ہے فتنہ کی جیسے حُجْرَةٌ کی حُجُورٌاور بَدْرٌ کی بُدُورٌکی جمع ہے یعنی ہم نے تجھے کئی مرتبہ یا بار بار آزمایا یا آزمائشوں سے نکالا مثلا جو سال بچوں کے قتل کا تھا تجھے پیدا کیا تیری ماں نے تجھے سمندر کی موجوں کے سپرد کر دیا تمام دایاؤں کا دودھ تجھ پر حرام کر دیا تو نے فرعون کی داڑھی پکڑ لی تھی جس پر اس نے تیرے قتل کا ارادہ کر لیا تھا تیرے ہاتھوں قبطی کا قتل ہوگیا وغیرہ ان تمام مواقع آزمائش میں ہم ہی تیری مدد اور چارہ سازی کرتے رہے۔
****- یعنی فرعونی کے غیر ارادی قتل کے بعد تو یہاں سے نکل کر مدین چلا گیا اور وہاں کئی سال رہا۔
*****- یعنی ایسے وقت میں تو آیا جو وقت میں نے اپنے فیصلے اور تقدیر میں تجھ سے ہم کلامی اور نبوت کے لئے لکھا ہوا تھا۔ یا قَدَرٍ سے مراد، عمر ہے یعنی عمر کے اس مرحلے میں آیا جو نبوت کے لئے موزوں ہے۔ یعنی چالیس سال کی عمر میں۔
____________________
* اس میں داعیان الی اللہ کے لئے بڑا سبق ہے کہ انہیں کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا چاہئے۔
____________________
* یہ وصف بھی داعیان کے لئے بہت ضروری ہے۔ کیونکہ سختی سے لوگ بدکتے ہیں اور دور بھاگتے ہیں اور نرمی سے قریب آتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں اگر وہ ہدایت قبول کرنے والے ہوتے ہیں۔
____________________
* تم فرعون کو جا کر کہو گے اور اس کے جواب میں جو کہے گا، میں وہ سنتا اور تمہارے اور اس کے طرز عمل کو دیکھتا رہوں گا۔ اس کے مطابق میں تمہاری مدد اور اس کی چالوں کو ناکام کروں گا، اس لئے اس کے پاس جاؤ، تردد کی کوئی ضرورت نہیں۔
____________________
* یہ سلام تحیہ نہیں ہے، بلکہ امن و سلامتی کی طرف دعوت ہے۔ جیسے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام مکتوب میں لکھا تھا، ”أَسْلِمْ تَسْلَمْ“ (اسلام قبول کر لے، سلامتی میں رہے گا) اس طرح مکتوب کے شروع میں آپ نے ”وَالسَّلامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى“ بھی تحریر فرمایا، (ابن کثیر) اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو مکتوب یا مجلس میں مخاطب کرنا ہو تو اسے انہی الفاظ میں سلام کہا جائے، جو مشروط ہے ہدایت کے اپنانے کے ساتھ۔
____________________
* مثلاً جو شکل صورت انسان کے مناسب حال تھی، وہ اسے، جو جانوروں کے مطابق تھی وہ جانوروں کو عطا فرمائی ”راہ سجھائی“ کا مطلب ہر مخلوق کو اس کی طبعی ضروریات کے مطابق رہن سہن، کھانے پینے اور بود و باش کا طریقہ سمجھا دیا، اس کے مطابق ہر مخلوق کا سامان زندگی فراہم کرتی اور حیات مستعار کے دن گزارتی ہے۔
____________________
* فرعون نے بات کا رخ دوسری طرف پھیرنے کے لئے یہ سوال کیا، یعنی پہلے لوگ جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہوئے دنیا سے چلے گئے، ان کا حال کیا ہوگا؟۔
____________________
* حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے جواب میں فرمایا، ان کا علم نہ تجھے ہے نہ مجھے۔ البتہ ان کا علم میرے رب کو ہے، جو اس کے پاس کتاب میں موجود ہے وہ اس کے مطابق جزا و سزا دے گا، پھر اس کا علم اس طرح ہرچیز کو محیط ہے کہ اس کی نظر سے کوئی چھوٹی بڑی چیز اوجھل نہیں ہو سکتی، نہ اسے بھول ہی لا حق ہو سکتی ہے۔ جب کہ مخلوق کے علم میں دونوں نقص موجود ہیں۔ ایک تو ان کا علم محیط کل نہیں، بلکہ ناقص ہے۔ دوسرا علم کے بعد وہ بھول بھی سکتے ہیں، میرا رب ان دونوں نقصوں سے پاک ہے۔ آگے، رب کی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں۔
____________________
* یعنی ان انواع و اقسام کی پیداوار میں کچھ چیزیں تمہاری خوراک اور لذت اور راحت کا سامان ہیں اور کچھ تمہارے چوپاؤں اور جانوروں کے لئے ہیں۔
**- نُهَى، نُهْيَةٌ کی جمع ہے، بمعنی عقل، أُولُو النُّهَى عقل والے۔ عقل کو نُهْيَةٌ اور عقلمند کو ذُو نُهْيَةٍ، اس لئے کہا جاتا ہے کہ بالآخر انہی کی رائے پر معاملہ انتہا پذیر ہوتا ہے، یا اس لئے کہ یہ نفس کو گناہوں سے روکتے ہیں، يَنْهَوْنَ النَّفْسَ عَنِ الْقَبَائِحِ (فتح القدیر)
____________________
* بعض روایات میں دفنانے کے بعد تین مٹھیاں (یا بکے) مٹی ڈالتے وقت اس آیت کا پڑھنا نبی (صلى الله عليه وسلم) سے منقول ہے، لیکن سنداً یہ روایات ضعیف ہیں۔ تاہم آیت کے بغیر تین لپیں ڈالنے والی روایت، جو ابن ماجہ میں ہے، صحیح ہے، اس لئے دفنانے کے بعد دونوں ہاتھوں سے تین تین مرتبہ مٹی ڈالنے کو علماء نے مستحب قرارا دیا ہے۔ ملاحظہ ہو کتاب الجنائر صفحہ 152۔ وارواء الغلیل، نمبر، 251، ج3۔ ص200، ( كلاهما للألباني )
____________________
* جب فرعون کو دلائل واضحہ کے ساتھ وہ معجزات بھی دکھلائے گئے، جو عصا اور ید بیضا کی صورت میں حضرت موسیٰ (عليه السلام) کو عطا کئے گئے تھے، تو فرعون نے اسے جادو کا کرتب سمجھا اور کہنے لگا اچھا تو ہمیں اس جادو کے زور سے ہماری زمین سے نکالنا چاہتا ہے؟۔
____________________
- مَوْعِدٌ مصدر ہے یا اگر ظرف ہے تو زمان اور مکان دونوں مراد ہو سکتے ہیں کوئی جگہ اور دن مقرر کر لے۔
**- مَكَانًا سُوًى۔ صاف ہموار جگہ، جہاں ہونے والے مقابلے کو ہر شخص آسانی سے دیکھ سکے یا ایسی برابر کی جگہ، جہاں فریقین سہولت سے پہنچ سکیں۔
____________________
* اس سے مراد نو روز یا کوئی اور سالانہ میلے یا جشن کا دن ہے جسے وہ عید کے طور پر مناتے تھے۔
____________________
* یعنی مختلف شہروں سے ماہر جادو گروں کو جمع کر کے اجتماع گاہ میں آ گیا۔
____________________
* جب فرعون اجتماع گاہ میں جادو گروں کو مقابلہ کی ترغیب دے رہا تھا اور ان کو انعامات اور قرب خصوصی سے نواز نے کا اظہار کر رہا تھا تو حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے بھی مقابلے سے پہلے انہیں وعظ کیا اور ان کے موجودہ رویے پر انہیں عذاب الٰہی سے ڈرایا۔
____________________
* حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے وعظ سے ان میں باہم کچھ اختلاف ہوا اور بعض چپکے چپکے کہنے لگے کہ یہ واقعی اللہ کا نبی ہی نہ ہو، اس کی گفتگو تو جادو گروں والی نہیں پیغمبرانہ لگتی ہے۔ بعض نے اس کے برعکس رائے کا اظہار کیا۔
____________________
* مُثْلَى، طَرِيقَةٌ کی صفت ہے یہ أَمْثَلُ کی تانیث ہے افضل کے معنی میں مطلب یہ ہے کہ اگر یہ دونوں بھائی اپنے ”جادو“ کے زور سے غالب آ گئے، تو سادات و اشراف اس کی طرف مائل ہو جائیں گے، جس سے ہمارا اقتدار خطرے میں اور ان کے اقتدار کا امکان بڑھ جائے گا۔ علاوہ ازیں ہمارا بہترین طریقہ یا مذہب، اسے بھی یہ ختم کر دیں گے۔ یعنی اپنے مشرکانہ مذہب کو بھی انہوں نے ”بہترین“ قرار دیا جیسا کہ آج بھی ہر باطل مذہب اور فرقے کے پیروکار اسی زعم فاسد میں مبتلا ہیں سچ فرمایا اللہ نے «كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ» ( الروم ۔32) «ہر فرقہ جو اس کے پاس ہے اس پر ریجھ رہا ہے»۔
____________________
* حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے انہیں پہلے اپنا کرتب دکھانے کے لئے کہا، تاکہ ان پر یہ واضح ہو جائے کہ وہ جادو گروں کی اتنی بڑی تعداد سے، جو فرعون جمع کر کے لے آیا ہے، اسی طرح ان کے ساحرانہ کمال اور کرتبوں سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ دوسرا ان کی ساحرانہ شعبدہ بازیاں، جب معجزہ الٰہی سے چشم زدن میں هَبَاءً مَنْثُورًا ہو جائیں گی، تو اس کا بہت اچھا اثر پڑے گا اور جادوگر یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ جادو نہیں ہے، واقعی اسے اللہ کی تائید حاصل ہے کہ آن واحد میں اس کی ایک لاٹھی ہمارے سارے کرتبوں کو نگل گئی۔
**- قرآن کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسیاں اور لاٹھیاں حقیقتاً سانپ نہیں بنی تھیں، بلکہ جادو کے زور سے ایسا محسوس ہوتا تھا، جیسے مسمریزم کے ذریعے سے نظر بندی کر دی جاتی ہے۔ تاہم اس کا اثر یہ ضرور ہوتا ہے کہ عارضی اور وقتی طور پر دیکھنے والوں پر ایک دہشت طاری ہو جاتی ہے، گو شے کی حقیقت تبدیل نہ ہو۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جادو کتنا بھی اونچے درجے کا ہو، وہ شے کی حقیقت تبدیل نہیں کر سکتا۔
____________________
* اس دہشت ناک منظر کو دیکھ کر اگر حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے خوف محسوس کیا، تو یہ ایک طبعی چیز تھی، جو کمال نبوت کے منافی ہے نہ عصمت کے۔ کیونکہ نبی بھی بشر ہی ہوتا ہے اور بشریت کے طبعی تقاضوں سے نہ وہ بالا ہوتا ہے نہ ہو سکتا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح انبیاءکو دیگر انسانی عوارض لاحق ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں، اسی طرح وہ جادو سے بھی متاثر ہوسکتے ہیں، جس طرح نبی (صلى الله عليه وسلم) پر بھی یہودیوں نے جادو کیا تھا، جس کے کچھ اثرات آپ محسوس کرتے تھے، اسے بھی منصب نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا، کیوں کہ اس سے کار نبوت متاثر نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ نبی کی حفاظت فرماتا ہے اور جادو سے وحی یا فریضہ رسالت کی ادائیگی کو متاثر نہیں ہونے دیتا۔ اور ممکن ہے کہ یہ خوف اس لئے ہو کہ میری لاٹھی ڈالنے سے قبل ہی کہیں لوگ ان کرتبوں اور شعبدہ بازیوں سے متاثر نہ ہوجائیں، لیکن اغلب ہے کہ یہ خوف اس لئے ہوا کہ ان جادوگروں نے بھی جو کرتب دکھایا، وہ لاٹھیوں کے ذریعے سے ہی دکھایا، جب کہ موسیٰ (عليه السلام) کے پاس بھی لاٹھی ہی تھی جسے انہیں زمین پر پھینکنا تھا، موسیٰ (عليه السلام) کے دل میں یہ خیال آیا کہ دیکھنے والے اس سے شبہے اور مغالطے میں نہ پڑ جائیں اور وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ دونوں نے ایک ہی قسم کا جادو پیش کیا، اس لئے یہ فیصلہ کیسے ہو کہ کون سا جادو ہے اور کون سے معجزہ؟ کون غالب ہے کون مغلوب؟ گویا جادو اور معجزے کا جو فرق واضح کرنا مقصود ہے، وہ مذکورہ مغالطے کی وجہ سے حاصل نہ ہوسکے گا، اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کو بسا اوقات یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ ان کے ہاتھ پر کس نوعیت کا معجزہ ظہور پذیر ہونے والا ہے۔ خود معجزہ کو ظاہر کرنے پر قدرت تو دور کی بات ہے، یہ تو محض اللہ کا کام ہے کہ وہ انبیاء کے ہاتھ پر معجزات ظاہر فرمائے، بہرحال موسیٰ (عليه السلام) کے اندیشے اور خوف کو دور کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے فرمایا: موسیٰ! کسی بھی لحاظ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، تو ہی غالب رہے گا، اس جملے سے طبعی خوف اور دیگر اندیشوں، سب کا ہی ازالہ فرما دیا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جیسا کہ اگلی آیات میں ہے۔
____________________
* مِنْ خِلافٍ (الٹے سیدھے) کا مطلب ہے سیدھا ہاتھ تو بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ تو سیدھا پاؤں۔
____________________
* یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب وَالَّذِي فَطَرَنَا کا عطف مَا جَاءَنَا پر ہو اور یہ بھی صحیح ہے تاہم بعض مفسرین نے اسے قسم قرار دیا ہے۔ یعنی قسم ہے اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا، ہم تجھے ان دلیلوں پر ترجیح نہیں دیں گے جو ہمارے سامنے آ چکیں۔
**- یعنی تیرے بس میں جو کچھ ہے وہ کر لے ہمیں معلوم ہے کہ تیرا بس صرف اس دنیا میں ہی چل سکتا ہے جب کہ ہم جس پروردگار پر ایمان لائے ہیں اس کی حکمرانی تو دنیا وآخرت دونوں جگہوں پر ہے مرنے کے بعد ہم تیری حکمرانی اور تیرے ظلم وستم سے تو بچ جائیں گے، کیونکہ جسموں سے روح کے نکل جانے کے بعد تیرا اختیار ختم ہو جائے گا۔ لیکن اگر ہم اپنے رب کے نافرمان رہے، تو ہم مرنے کے بعد بھی رب کے اختیار سے باہر نہیں نکل سکتے، وہ ہمیں سخت عذاب دینے پر قادر ہے۔ رب پر ایمان لانے کے بعد ایک مومن کی زندگی میں جو عظیم انقلاب آنا اور دنیا کی بےثباتی اور آخرت کی دائمی زندگی پر جس طرح یقین ہونا چاہیے اور پھر اس عقیدہ وایمان پر جو تکلیفیں آئیں، انہیں جس حوصلہ وصبر اور عزم و استقامت سے برداشت کرنا چاہیے، جادو گروں نے اس کا ایک بہترین نمونہ پیش کیا کہ ایمان لانے سے قبل کس طرح وہ فرعون سے انعامات اور دنیاوی جاہ ومنصب کے طالب تھے لیکن ایمان لانے کے بعد کوئی ترغیب وتحریض انہیں متزلزل کر سکی نہ تشدید وتعذیب کی دھمکیاں انہیں ایمان سے منحرف کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔
____________________
* دوسرا ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ”ہماری وہ غلطیاں بھی معاف فرما دے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں تیرے مجبور کرنے پر ہم نے عمل جادو کی صورت میں کیں“۔ اس صورت میں مَا اَکْرَھْتَنَا کا عطف خَطَایانا پر ہوگا۔
**- یہ فرعون کے الفاظ، «وَلَتَعْلَمُنَّ اَيُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰي» (طہ:71) کا جواب ہے کہ اے فرعون! تو جو سخت ترین عذاب کی ہمیں دھمکی دے رہا ہے، اللہ تعالٰی کے ہاں ہمیں اجر و ثواب ملے گا، وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر اور پائیدار ہے۔
____________________
* یعنی عذاب سے تنگ آ کر موت کی آرزو کریں گے، تو موت نہیں آئے گی اور رات دن عذاب میں مبتلا رہنا، کھانے پینے کو زقوم جیسا تلخ درخت اور جہنمیوں کے جسموں سے نچڑا ہوا خون اور پیپ ملنا، یہ کوئی زندگی ہوگی؟۔ اللَّهُمَّ أَجِرْنَا مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ
____________________
* جہنمیوں کے مقابلے میں اہل ایمان کو جو جنت کی پر آسائش زندگی ملے گی، اس کا ذکر فرمایا اور واضح کر دیا کہ اس کے مستحق وہ لوگ ہونگے جو ایمان لانے کے بعد اس کے تقاضے پورے کریں گے۔ یعنی اعمال صالح اختیار اور اپنے نفس کو گناہوں کی آلودگی سے پاک کریں گے۔ اس لئے کہ ایمان زبان سے صرف چند کلمات ادا کر دینے کا نام نہیں ہے بلکہ عقیدہ و عمل کے مجموعے کا نام ہے۔
____________________
* جب فرعون ایمان بھی نہیں لایا اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کرنے پر آمادہ نہیں ہوا، تو اللہ تعالٰی نے موسیٰ (عليه السلام) کو یہ حکم دیا۔
**- اس کی تفصیل سورۃ الشعرا میں آئے گی کہ موسیٰ (عليه السلام) نے اللہ کے حکم سے سمندر میں لاٹھی ماری، جس سے سمندر میں گزرنے کے لئے خشک راستہ بن گیا۔
***- خطرہ فرعون اور اس کے لشکر کا اور ڈر پانی میں ڈوبنے کا۔
____________________
* یعنی اس خشک راستے پر جب فرعون اور اس کا لشکر چلنے لگا، تو اللہ نے سمندر کو حکم دیا کہ حسب سابق رواں دواں ہو جا، چنانچہ وہ خشک راستہ چشم زدن پانی کی موجوں میں تبدیل ہوگیا اور فرعون سمیت سارا لشکر غرق ہوگیا۔ غَشِيَهُمْ، کے معنی ہیں عَلاهُمْ وَأَصَابَهُمْ سمندر کا پانی ان پر غالب آ گیا۔ مَا غَشِيَهُمْ یہ تکرار تعظیم وتہویل یعنی ہولناکی کے بیان کے لیے ہے یا اس کے معنی ہیں”جو کہ مشہور ومعروف ہے“۔
____________________
* اس لئے کہ سمندر میں غرق ہونا ان کا مقدر تھا۔
____________________
* وَوَاعَدْنَاكُمْ میں ضمیر جمع مخاطب کی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (عليه السلام) کوہ طور پر تمہیں یعنی تمہارے نمائندے بھی ساتھ لے کر آئیں تاکہ تمہارے سامنے ہی ہم موسیٰ (عليه السلام) سے ہم کلام ہوں، یا ضمیر جمع اس لئے لائی گئی کہ کوہ طور پر موسیٰ (عليه السلام) کو بلانا، بنی اسرائیل ہی کی خاطر اور انہی کی ہدایت و رہنمائی کے لئے تھا۔
**- مَنٌّ وَسَلْوَى کے نزول کا واقعہ، سورہ بقرہ کے آغاز میں گزر چکا ہے۔ مَنٌّ کوئی میٹھی چیز تھی جو آسمان سے نازل ہوئی تھی اور سَلْوَىٰ سے مراد بٹیر پرندے ہیں جو کثرت سے ان کے پاس آتے اور وہ حسب ضرورت انہیں پکڑ کر پکاتے اور کھا لیتے۔ (ابن کثیر)
____________________
* طُغْيَانٌ کے معنی ہیں تجاوز کرنا، یعنی حلال اور جائز چیزوں کو چھوڑ کر حرام اور ناجائز چیزوں کی طرف تجاوز مت کرو، یا اللہ کی نعمتوں کا انکار کر کے یا کفر ان نعمت کا ارتکاب کر کے اور نافرمانی کر کے حد سے تجاوز نہ کرو، ان تمام مفہومات پر طغیان کا لفظ صادق آتا ہے اور بعض نے کہا کہ طغیان کا مفہوم ہے، ضرورت و حاجت سے زیادہ پرندے پکڑنا یعنی حاجت کے مطابق پرندے پکڑو اور اس سے تجاوز مت کرو۔
**- دوسرے معنی یہ بیان کئے گئے ہیں کہ وہ ہاویہ یعنی جہنم میں گرا۔ ہاویہ جہنم کا نچلا حصہ ہے، یعنی جہنم کی گہرائی والے حصے کا مستحق ہوگیا۔
____________________
* یعنی مغفرت الٰہی کا مستحق بننے کے لئے چار چیزیں ضروری ہیں۔ کفر و شرک اور معاصی سے توبہ، ایمان، عمل صالح اور راہ راست پر چلتے رہنا یعنی استقلال حتٰی کہ ایمان ہی پر اسے موت آئے، ورنہ ظاہر بات ہے کہ توبہ و ایمان کے بعد اگر اس نے پھر شرک کا راستہ اختیار کر لیا، حتٰی کہ موت بھی اسے کفر و شرک پر ہی آئے تو مغفرت الٰہی کے بجائے عذاب کا مستحق ہوگا۔
____________________
* سمندر پار کرنے کے بعد موسیٰ (عليه السلام) اسرائیل کے سربرآوردہ لوگوں کو ساتھ لے کر کوہ طور کی طرف چلے، لیکن رب کے شوق ملاقات میں تیز رفتاری سے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر اکیلے ہی طور پر پہنچ گئے، سوال کرنے پر جواب دیا، مجھے تو تیری رضا کی طلب اور اس کی جلدی تھی۔ وہ لوگ میرے پیچھے ہی آ رہے ہیں۔ بعض کہتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرے پیچھے آ رہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ میرے پیچھے کوہ طور کے قریب ہی ہیں اور وہاں میری واپسی کے منتظر ہیں۔
____________________
* حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے بعد سامری نامی شخص نے بنی اسرائیل کو بچھڑا پوجنے پر لگا دیا، جس کی اطلاع اللہ تعالٰی نے طور پر موسیٰ (عليه السلام) کو دی کہ سامری نے تیری قوم کو گمراہ کر دیا ہے، فتنے میں ڈالنے کی نسبت اللہ نے اپنی طرف باحیثیت خالق کے کی ہے، ورنہ اس گمراہی کا سبب تو سامری ہی تھا۔ جیسا کہ أَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ سے واضح ہے۔
____________________
* اس سے مراد جنت کا یا فتح و ظفر کا وعدہ ہے اگر وہ دین پر قائم رہے یا تورات عطا کرنے کا وعدہ ہے، جس کے لئے طور پر انہیں بلایا گیا تھا۔
**- کیا اس عہد کو مدت دراز گزر گئی تھی کہ تم بھول گئے، اور بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔
***- قوم نے موسیٰ (عليه السلام) سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی طور سے واپسی تک وہ اللہ کی اطاعت و عبادت پر قائم رہیں گے، یا یہ وعدہ تھا کہ ہم بھی طور پر آپ کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں لیکن راستے میں ہی رک کر انہوں نے گو سالہ پرستی شروع کر دی۔
____________________
* یعنی ہم نے اپنے اختیار سے یہ کام نہیں کیا بلکہ غلطی ہم سے اضطراری طور پر ہوگئی، آگے اس کی وجہ بیان کی۔
____________________
* زِينَةٌ سے زیورات اور الْقَوْمِ سے قوم فرعون مراد ہے۔ کہتے ہیں یہ زیورات انہوں نے فرعونیوں سے عاریتًا لئے تھے، اسی لئے انہیں أَوْزَارٌ وِزْرٌ ( بوجھ) کی جمع، کہا گیاہے، کیونکہ یہ ان کے لئے جائز نہیں تھے، چنانچہ انہیں جمع کر کے ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا، سامری نے بھی (جو مسلمانوں کے بعض گمراہ فرقوں کی طرح) گمراہ تھا، کچھ ڈالا، (اور وہ مٹی تھی جیسا کہ آگے صراحت ہے) پھر اس نے تمام زیورات کو تپا کر ایک طرح بچھڑا بنا دیا کہ جس میں ہوا کے اندر باہر آنے جانے سے ایک قسم کی آواز پیدا ہوتی تھی۔ اس آواز سے اس نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا کہ موسیٰ (عليه السلام) تو گمراہ ہوگئے ہیں کہ وہ اللہ سے ملنے کے لئے طور پر گئے ہیں، جبکہ تمہارا اور موسیٰ (عليه السلام) کا معبود تو یہ ہے۔
____________________
* اللہ تعالٰی نے ان کی جہالت و نادنی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان عقل کے اندھوں کو اتنا بھی نہیں پتہ چلا کہ یہ بچھڑا کوئی جواب دے سکتا ہے۔ نہ نفع نقصان پہنچانے پر قادر ہے۔ جب کہ معبود تو وہی ہو سکتا ہے جو ہر ایک کی فریاد سننے پر، نفع و نقصان پہنچانے پر اور حاجت برآوری پر قادر ہو۔
____________________
* حضرت ہارون (عليه السلام) نے یہ اس وقت کہا جب یہ قوم سامری کے پیچھے لگ کر بچھڑے کی عبادت میں لگ گئی۔
**- اسرائیلیوں کو یہ گو سالہ اتنا اچھا لگا کہ ہارون (عليه السلام) کی بات کی بھی پروا نہیں کی اور اس کی تعظیم وعبادت چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
____________________
* یعنی اگر انہوں نے تیری بات ماننے سے انکار کر دیا تھا، تو تجھ کو فوراً میرے پیچھے کوہ طور پر آ کر مجھے بتلانا چاہیے تھا تو نے بھی میرے حکم کی پروا نہ کی۔ یعنی جانشینی کا صحیح حق ادا نہیں کیا۔
____________________
* حضرت موسیٰ (عليه السلام) قوم کو شرک کی گمراہی میں دیکھ کر سخت غضب ناک تھے اور سمجھتے تھے کہ شاید اس میں ان کے بھائی ہارون (عليه السلام) کی، جن کو وہ اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے، مداہنت کا بھی دخل ہو، اس لئے سخت غصے میں ہارون (عليه السلام) کی داڑھی اور سر پکڑ کر انہیں جھنجھوڑنا اور پوچھنا شروع کیا، جس پر حضرت ہارون (عليه السلام) نے انہیں اتنا سخت رویہ اپنانے سے روکا۔
**- سورہ اعراف میں حضرت ہارون (عليه السلام) کا جواب یہ نقل ہوا ہے کہ ”قوم نے مجھے کمزور خیال کیا اور میرے قتل کے درپے ہوگئی“ (آیت: ۱4۲) جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ہارون (عليه السلام) نے اپنی ذمے داری پوری طرح نبھائی اور انہیں سمجھا نے اور گو سالہ پرستی سے روکنے میں مداہنت اور کوتاہی نہیں کی۔ لیکن معاملے کو اس حد تک نہیں جانے دیا کہ خانہ جنگی شروع ہو جائے کیونکہ ہارون (عليه السلام) کے قتل کا مطلب پھر ان کے حامیوں اور مخالفوں میں آپس میں خونی تصادم ہوتا اور بنی اسرائیل واضح طور پر دو گروہوں میں بٹ جاتے جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے۔ حضرت موسیٰ (عليه السلام) چوں کہ خود وہاں موجود نہ تھے اس لیے صورت حال کی نزاکت سے بے خبر تھے اسی بنا پر حضرت ہارون (عليه السلام) کو انہوں نے سخت سست کہا ۔لیکن پھر وضاحت پر وہ اصل مجرم کی طرف متوجہ ہوئے اس لیے یہ استدلال صحیح نہیں (جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں) کہ مسلمانوں کے اتحاد واتفاق کی خاطر شرکیہ امور اور باطل چیزوں کو بھی برداشت کر لینا چاہیے کیونکہ حضرت ہارون (عليه السلام) نے نہ ایسا کیا ہی ہے نہ ان کے قول کا یہ مطلب ہی ہے۔
____________________
* جمہور مفسرین نے الرَّسُولِ سے مراد جبرائیل (عليه السلام) لئے ہیں اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جبرائیل (عليه السلام) کے گھوڑے کو گزرتے ہوئے سامری نے دیکھا اور اس کے قدموں کے نیچے کی مٹی اس نے سنبھال رکھ لی، جس میں کچھ کرامات کے اثرات تھے۔ اس مٹی کی مٹھی اس نے پگھلے ہوئے زیورات یا بچھڑے میں ڈالی تو اس میں سے ایک قسم کی آواز نکلنی شروع ہوگئی جو ان کے فتنے کا باعث بن گئی۔
____________________
* یعنی عمر بھر تو یہی کہتا رہے گا کہ مجھ سے دور رہو، مجھے نہ چھونا، اس لئے کہ اسے چھو تے ہی چھونے والا بھی اور یہ سامری بھی دونوں بخار میں مبتلا ہو جاتے۔ اس لئے جب کسی انسان کو دیکھتا تو فوراً چیخ اٹھتا لا مِسَاسَ۔ کہا جاتا ہے کہ پھر یہ انسانوں کی بستی سے نکل کر جنگل میں چلا گیا، جہاں جانوروں کے ساتھ اس کی زندگی گزری اور یوں عبرت کا نمونہ بنا رہا، گویا لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے جو شخص جتنا زیادہ حیلہ و فن اور مکر و فریب اختیار کرے گا، دنیا اور آخرت میں اس کی سزا بھی اسی حساب سے شدید تر اور نہایت عبرت ناک ہوگی۔
**- یعنی آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے جو ہرصورت بھگتنا پڑے گا۔
***- اس سے معلوم ہوا کہ شرک کے آثار ختم کرنا بلکہ ان کا نام ونشان تک مٹا ڈالنا چاہیے ان کی نسبت کتنی ہی مقدس ہستیوں کی طرف ہو، توہین نہیں، جیسا کہ اہل بدعت، قبر پرست اور تعزیہ پرست باور کراتے ہیں بلکہ یہ توحید کا منشا اور دینی غیرت کا تقاضا ہے جیسے اس واقعے میں اس أَثَرِ الرَّسُولِ کو نہیں دیکھا گیا جس سے ظاہری طور پر روحانی برکات کا مشاہدہ بھی کیا گیا اس کے باوجود اس کی پروا نہیں کی گئی اس لیے کہ وہ شرک کا ذریعہ بن گیا تھا۔
____________________
* یعنی جس طرح ہم نے فرعون و موسیٰ (عليه السلام) کا قصہ بیان کیا، اسی طرح انبیاء کے حالات ہم آپ پر بیان کر رہے ہیں تاکہ آپ ان سے باخبر ہوں، اور ان میں عبرت کے پہلو ہوں، انہیں لوگوں کے سامنے نمایاں کریں تاکہ لوگ اس کی روشنی میں صحیح رویہ اختیار کریں۔
**- نصیحت (ذکر) سے مراد قرآن عظیم ہے۔ جس سے بندہ اپنے رب کو یاد کرتا، ہدایت اختیار کرتا اور نجات و سعادت کا راستہ اپناتا ہے۔
____________________
* یعنی اس پر ایمان نہیں لائے گا اور اس میں جو کچھ درج ہے، اس پر عمل نہیں کرے گا۔
**- یعنی گناہ عظیم اس لئے کہ اس کا نامہ اعمال، نیکیوں سے خالی اور برائیوں سے پر ہوگا۔
____________________
* جس سے وہ بچ نہ سکے گا، نہ ہی بھاگ سکے گا۔
____________________
* صُورٌ سے مراد وہ قَرْنٌ (نرسنگا) ہے، جس میں اسرافیل (عليه السلام) اللہ کے حکم سے پھونک ماریں گے تو قیامت برپا ہو جائے گی (مسند احمد: 2/191)، ایک اور حدیث میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: ”اسرافیل (عليه السلام) نے قرن کالقمہ بنایا ہوا ہے، (یعنی اسے منہ سے لگائے کھڑا ہے) پیشانی جھکائی یا موڑی ہوئی ہے، رب کے حکم کے انتظار میں ہے کہ کب اسے حکم دیا جائے اور وہ اس میں پھونک مار دے“۔ ( ترمذي، باب صفة القيامة، باب ما جاء في الصور) حضرت اسرافیل (عليه السلام) کے پہلے نفخے سے سب پر موت طاری ہو جائیگی، اور دوسرے نفخے سے بحکم الٰہی سب زندہ اور میدان محشر میں جمع ہو جائیں گے۔ آیت میں یہی دوسرا نفخہ مراد ہے۔
____________________
* شدت ہول اور دہشت کی وجہ سے ایک دوسرے سے چپکے چپکے باتیں کریں گے۔
____________________
* یعنی سب سے زیادہ عاقل اور سمجھدار۔ یعنی دنیا کی زندگی انہیں چند دن بلکہ گھڑی دو گھڑی کی محسوس ہوگی۔ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے فرمایا «وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَيْرَ سَاعَةٍ» (الروم:55) ”جس دن قیامت برپا ہوگی کافر قسمیں کھا کر کہیں گے کہ وہ (دنیا میں ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے“ یہی مضمون اور بھی متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلا سورہ فاطر: ۳۷، سورۃ المؤمنون: ۱۱۲۔۱۱4، سورۃ النازعات وغیرہ۔ مطلب یہی ہے فانی زندگی کو باقی رہنے والی زندگی پر ترجیح نہ دی جائے۔
____________________
* یعنی جس دن اونچے نیچے پہاڑ، وادیاں، فلک بوس عمارتیں، سب صاف ہو جائیں گی، سمندر اور دریا خشک ہو جائیں گے، اور ساری زمین صاف چٹیل میدان ہو جائی گی۔ پھر ایک آواز آئیگی، جس کے پیچھے سارے لوگ لگ جائیں گے یعنی جس طرف وہ داعی بلائے گا، جائیں گے۔
**- یعنی اس داعی سے ادھر ادھر نہیں ہو نگے۔
***- یعنی مکمل سناٹا ہوگا سوائے قدموں کی آہٹ اور کھسر پھسر کے کچھ سنائی نہیں دے گا۔
____________________
* یعنی اس دن کسی کی سفارش کسی کو فائدہ نہیں پہنچائے گی، سوائے ان کے جن کو رحمٰن شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، اور وہ بھی ہر کسی کی سفارش نہیں کریں گے بلکہ صرف ان کی سفارش کریں گے جن کی بابت سفارش کو اللہ پسند فرمائے گا اور یہ کون لوگ ہونگے؟ صرف اہل توحید، جن کے حق میں اللہ تعالٰی سفارش کرنے کی اجازت دے گا۔ یہ مضمون قرآن میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلا سورہ نجم:26، سورہ انبیاء: ۲۸، سورہ سباء: ۲۳، سورہ النباء: ۳۸ اور آیت الکرسی۔
____________________
* گزشتہ آیت میں شفاعت کے لیے جو اصول بیان فرمایا گیا ہے اس میں اس کی وجہ اور علت بیان کر دی گئی ہے کہ چونکہ اللہ کے سوا کسی کو بھی کسی کی بابت پورا علم نہیں ہے کہ کون کتنا بڑا مجرم ہے؟ اور وہ اس بات کا مستحق ہے بھی یا نہیں کہ اس کی سفارش کی جا سکے؟ اس لیے اس بات کا فیصلہ بھی اللہ تعالٰی ہی فرمائے گا کہ کون کون لوگ انبیاء وصلحا کی سفارش کے مستحق ہیں؟ کیونکہ ہر شخص کے جرائم کی نوعیت وکیفیت کو اس کے سواء کوئی نہیں جانتا اور نہ جان ہی سکتا ہے۔
____________________
* - اس لئے کہ اس روز اللہ تعالٰی مکمل انصاف فرمائے گا اور ہر صاحب حق کو اس کا حق دلائے گا۔ حتٰی کہ اگر ایک سینگ والی بکری نے بغیر سینگ والی بکری پر ظلم کیا ہوگا، تو اس کا بھی بدلہ دلایا جائے گا۔ (صحيح مسلم، كتاب البر، مسند أحمد، ج 2، ص235)، اسی لئے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے اسی حدیث میں یہ بھی فرمایا «لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إِلَى أَهْلِهَا»، ”ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دو ورنہ قیامت کو دینا پڑے گا“۔ دوسری حدیث میں فرمایا «إِيَّاكُمْ وَالظُّلْمَ؛ فَإِنَّ الظُّلْمَ؛ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» ( صحيح مسلم، كتاب مذكور، باب تحريم الظلم )، ”ظلم سے بچو اس لئے کہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہوگا“، سب سے نامراد وہ شخص ہوگا جس نے شرک کا بوجھ بھی لاد رکھا ہوگا، اس لئے کہ شرک ظلم عظیم بھی ہے اور ناقابل معافی بھی۔
____________________
* بے انصافی یہ ہے کہ اس پر دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی ڈال دیا جائے اور حق تلفی یہ ہے کہ نیکیوں کا اجر کم دیا جائے۔ یہ دونوں باتیں وہاں نہیں ہونگی۔
____________________
* یعنی گناہ، محرمات اور فواحش کے ارتکاب سے باز آ جائیں۔
**- یعنی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا شوق یا پچھلی امتوں کے حالات و واقعات سے عبرت حاصل کرنے کا جذبہ ان کے اندر پیدا کر دے۔
____________________
* جس کا وعدہ اور وعید حق ہے، جنت دوزخ حق ہے اور اس کی ہر بات حق ہے۔
**- جبرائیل (عليه السلام) جب وحی لے کر آتے اور سناتے تو نبی (صلى الله عليه وسلم) بھی جلدی جلدی ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے، کہ کہیں کچھ بھول نہ جائیں، اللہ تعالٰی نے اس سے منع فرمایا اور تاکید کی کہ غور سے، پہلے وحی کو سنیں، اس کو یاد کرانا اور دل میں بٹھا دینا ہمارا کام ہے۔ جیسا کہ سورۃ القيامۃ میں آئے گا۔
***- یعنی اللہ تعالٰی سے زیادتی علم کی دعا فرماتے رہیں۔ اس میں علماء کے لئے بھی نصیحت ہے کہ وہ فتوٰی میں پوری تحقیق اور غور سے کام لیں، جلد بازی سے بچیں اور علم میں اضافہ کی صورتیں اختیار کرنے میں کوتاہی نہ کریں علاوہ ازیں علم سے مراد قرآن و حدیث کا علم ہے۔ قرآن میں اسی کو علم سے تعبیر کیا گیا اور ان کے حاملین کو علماء دیگر چیزوں کا علم، جو انسان کسب معاش کے لئے حاصل کرتا ہے، وہ سب فن ہیں، ہنر ہیں اور صنعت وحرفت ہیں۔ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) جس علم کے لئے دعا فرماتے تھے، وہ وحی و رسالت ہی کا علم ہے جو قرآن و حدیث میں محفوظ ہے، جس سے انسان کا ربط و تعلق اللہ تعالٰی کے ساتھ قائم ہوتا ہے، اس کے اخلاق و کردار کی اصلاح ہوتی اور اللہ کی رضا و عدم رضا کا پتہ چلتا ہے ایسی دعاؤں میں ایک دعا یہ ہے جو آپ پڑھا کرتے تھے۔ «اللَّهُمَّ انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي، وَعَلِّمْنِي مَا يَنْفَعُنِي، وَزِدْنِي عِلْمًا، وَالْحَمْدُ للهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ»۔ ( ابن ماجه، باب الانتفاع بالعلم والعمل المقدمة)
____________________
* نسیان، (بھول جانا) ہر انسان کی سرشت میں داخل ہے اور ارادے کی کمزوری یعنی فقدان عزم۔ یہ بھی انسانی خصلت میں بالعموم پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں کمزوریاں ہی شیطان کے وسوسوں میں پھنس جانے کا باعث بنتی ہیں۔ اگر ان کمزوریوں میں اللہ کے حکم سے بغاوت و سرکشی کا جذبہ اور اللہ کی نافرمانی کا عزم مصمم شامل نہ ہو، تو بھول اور ضعف ارادہ سے ہونے والی غلطی عصمت و کمال نبوت کے منافی نہیں، کیونکہ اس کے بعد انسان فوراً نادم ہو کر اللہ کی بارگاہ میں جھک جاتا اور توبہ و استفغار میں مصروف ہو جاتا ہے۔ (جیسا کہ حضرت آدم (عليه السلام) نے کیا) حضرت آدم (عليه السلام) کو اللہ نے سمجھایا تھا کہ شیطان تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے، یہ تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے گا۔ یہی وہ بات ہے جسے یہاں عہد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آدم (عليه السلام) اس عہد کو بھول گئے اور اللہ تعالٰی نے حضرت آدم (عليه السلام) کو ایک درخت کے قریب جانے یعنی اس سے کچھ کھانے سے منع فرمایا تھا۔ حضرت آدم (عليه السلام) کے دل میں یہ بات تھی کہ وہ اس درخت کے قریب نہیں جائیں گے۔ لیکن جب شیطان نے اللہ کی قسمیں کھا کر انہیں یہ باور کرایا کہ اس کا پھل تو یہ تاثیر رکھتا ہے کہ جو کھا لیتا ہے، اسے زندگی جاوداں اور دائمی بادشاہت مل جاتی ہے۔ تو ارادے پر قائم نہ رہ سکے اور اس فقدان عزم کی وجہ سے شیطانی وسوسے کا شکار ہوگئے۔
____________________
* یہ شقا، محنت ومشقت کے معنی میں ہے، یعنی جنت میں کھانے پینے، لباس اور مسکن جو سہولتیں بغیر کسی محنت کے حاصل ہیں۔ جنت سے نکل جانے کی صورت میں ان چاروں چیزوں کے لئے محنت و مشقت کرنی پڑے گی، جس طرح کہ ہر انسان کو دنیا میں ان بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ علاوہ ازیں صرف آدم (عليه السلام) سے کہا گیا کہ محنت مشقت میں پڑ جائیگا۔ دونوں کو نہیں کہا گیا حالانکہ درخت کا پھل کھانے والے آدم (عليه السلام) و حوا دونوں ہی تھے۔ اس لئے اصل مخاطب آدم ہی تھے۔ نیز بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی مرد ہی کی ذمہ داری ہے عورت کی نہیں۔ اللہ تعالٰی نے عورت کو اس محنت و مشقت سے بچا کر گھر کی ملکہ کا اعزاز عطا فرمایا ہے۔ لیکن آج عورت کو یہ ”اعزاز الہٰی“ ”طوق غلامی“ نظر آتا ہے جس سے آزاد ہونے کے لیے وہ بے قرار اور مصروف جہد ہے آہ! اغوائے شیطانی بھی کتنا موثر اور اس کا جال بھی کتنا حسین اور دلفریب ہے۔
____________________
* یعنی درخت کا پھل کھا کر نافرمانی کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مطلوب یا راہ راست سے بہک گئے۔
____________________
* اس سے بعض لوگ استدال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم (عليه السلام) سے مذکورہ غلطیوں کا ہونا، نبوت سے قبل ہوا، اور نبوت سے اس کے بعد آپ کو نوازا گیا۔ لیکن ہم نے گزشتہ صفحے میں اس ”معصیت“ کی حقیقت بیان کی ہے، وہ عصمت کے منافی نہیں رہتی۔ کیونکہ ایسا سہو و نسیان، جس کا تعلق تبلیغ رسالت اور تشریع سے نہ ہو، بلکہ ذاتی افعال سے ہو اور اس میں بھی اس کا سبب ضعف ارادہ ہو تو یہ دراصل وہ معصیت ہی نہیں ہے، جس کی بناء پر انسان غضب الٰہی کا مستحق بنتا ہے۔ اس پر جو معصیت کا اطلاق کیا گیا ہے تو محض ان کی عظمت شان اور مقام بلند کی وجہ سے کہ بڑوں کی معمولی غلطی کو بھی بڑا سمجھ لیا جاتا ہے، اس لئے آیت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے اس کے بعد اسے نبوت کے لئے چن لیا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ندامت اور توبہ کے بعد ہم نے اسے پھر اسی مقام پر فائز کر دیا، جو پہلے انہیں حاصل تھا۔ ان کو زمین پر اتار نے کا فیصلہ، ہماری مشیت اور حکمت و مصلحت پر مبنی تھا، اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ ہمارا غضب ہے جو آدم پر نازل ہوا ہے۔
____________________
* اس تنگی سے بعض نے عذاب قبر اور بعض نے وہ، قلق واضطراب، بےچینی اور بے کلی مراد لی ہے جس میں اللہ کی یاد سے غافل بڑے بڑے دولت مند مبتلا رہتے ہیں۔
**- اس سے مراد فی الواقع آنکھوں سے اندھا ہونا ہے یا پھر بصیرت سے محرومی مراد ہے یعنی وہاں اس کو کوئی ایسی دلیل نہیں سوجھے گی جسے پیش کر کے وہ عذاب سے چھوٹ سکے۔
____________________
* یعنی یہ مکذبین اور مشرکین مکہ دیکھتے نہیں کہ ان سے پہلے کئی امتیں گزر چکی ہیں، جن کے جانشین ہیں اور ان کی رہائش گاہوں سے گزر کر آگے جاتے ہیں انہیں ہم اسکے جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کر چکے ہیں، جن کے عبرت ناک انجام میں اہل عقل و دانش کے لئے بڑی نشانیاں ہیں، لیکن اہل مکہ ان سے آنکھیں بند کئے ہوئے انہی کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر اللہ تعالٰی نے پہلے سے یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا کہ وہ تمام حجت کے بغیر اور اس مدت کے آنے سے پہلے جو وہ مہلت کے لئے کسی قوم کو عطا فرماتا ہے، کسی کو ہلاک نہیں کرتا۔ تو فورا انہیں عذاب الٰہی آ چمٹتا اور یہ ہلاکت سے دو چار ہو چکے ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ تکذیب رسالت کے باوجود اگر ان پر اب تک عذاب نہیں آیا تو یہ سمجھیں کہ آئندہ بھی نہیں آئے گا بلکہ ابھی ان کو اللہ کی طرف سے مہلت ملی ہوئی ہے، جیسا کہ وہ ہر قوم کو دیتا ہے۔ مہلت عمل ختم ہو جانے کے بعد ان کو عذاب الٰہی سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔
____________________
* بعض مفسرین کے نزدیک تسبیح سے مراد نماز ہے اور وہ اسے پانچ نمازوں سے مراد لیتے ہیں۔ طلوع شمس سے قبل فجر، ٖغروب سے قبل، عصر رات کی گھڑیوں سے مغرب و عشاء اور اطراف النھار سے ظہر کی نماز مراد ہے کیونکہ ظہر کا وقت، یہ نماز اول کا طرف آخر اور نہار آخر کا طرف اول ہے۔ اور بعض کے نزدیک ان اوقات میں ایسے ہی اللہ کی تسبیح و توحید ہے، جس میں نماز، تلاوت، ذکر اذکار، دعا مناجات اور نوافل سب داخل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ان مشرکین کی تکذیب سے بد دل نہ ہوں۔ اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے رہیں۔ اللہ تعالٰی جب چاہے گا، ان کی گرفت فرما لے گا۔
**- یہ متعلق ہے فَسَبِّحْ سے یعنی ان اوقات میں تسبیح کریں، یہ امید رکھتے ہوئے کہ اللہ کے ہاں آپ کو وہ مقام و درجہ حاصل ہو جائے گا جس سے آپ کا نفس راضی ہو جائے۔
____________________
* یہ وہی مضمون ہے جو اس سے قبل سورہ آل عمران: 196، 197، سورہ حجر: 87، 88 اور سورہ کہف: 7 وغیرہ میں بیان ہوا ہے۔
**- اس سے مراد آخرت کا اجر و ثواب ہے جو دنیا کے مال و اسباب سے بہتر بھی ہے اور اس کے مقابلے میں باقی رہنے والا بھی۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عمر، نبی (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ آپ ایک کھردری چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور بے سرو سامانی کا یہ عالم ہے، کہ گھر میں چمڑے کی دو چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ گئے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے پوچھا، عمر کیا بات ہے، روتے کیوں ہو؟ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیصرو کسرٰی، کس طرح آرام و راحت کی زندگی گزار رہے ہیں اور آپ کا، باوجود اس بات کے کہ آپ افضل الخلق ہیں، یہ حال ہے، فرمایا، عمر کیا تم اب تک شک میں ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کے آرام کی چیزیں دنیا میں ہی دے دی گئی ہیں۔ یعنی آخرت میں ان کے لئے کچھ نہیں ہوگا (بخاري، سورة التحريم- مسلم- باب الإيلاء)
____________________
* اس خطاب میں ساری امت نبی (صلى الله عليه وسلم) کے تابع ہے۔ یعنی مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی نماز کی پا بندی کرے اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز کی تاکید کرتا رہے۔
____________________
* یعنی ان کی خواہش کے مطابق نشانی، جیسے ثمود کے لئے اونٹنی ظاہر کی گئی۔
**- ان سے مراد تورات، انجیل اور زبور وغیرہ ہیں، یعنی کیا ان میں نبی (صلى الله عليه وسلم) کی صفات موجود نہیں، جن سے ان کی نبوت کی تصدیق ہوتی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ کیا ان کے پاس پچھلی قوموں کے حالات نہیں پہنچے کہ انہوں نے جب اپنی حسب خواہش معجزے کا مطالبہ کیا اور وہ انہیں دکھا دیا گیا لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے، تو انہیں ہلاک کر دیا گیا۔
____________________
* مراد آخر الزماں پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ہیں۔
____________________
* یعنی مسلمان اور کافر دونوں اس انتظار میں ہیں کہ دیکھو کفر غالب رہتا ہے یا اسلام غالب آتا ہے۔
**- اس کا علم تمہیں اس سے ہو جائے گا کہ اللہ کی مدد سے کامیاب اور سرخرو کون ہوتا ہے؟ چنانچہ یہ کامیابی مسلمانوں کے حصے میں آئی، جس سے واضح ہوگیا کہ اسلام ہی سیدھا راستہ اور اس کے حاملین ہی ہدایت یافتہ ہیں۔