ﰡ
____________________
* یعنی اللہ کے حکم اور اس کی ہیبت سےپھٹ جائے گا اور فرشتے نیچے اتر آئیں گے۔
____________________
* اور سب کا پانی ایک ہی سمندر میں جمع ہو جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ پچھمی ہوا بھیجے گا۔ جو اس میں آگ بھڑ کا دے گی جس سے فلک شگاف شعلے بلند ہوں گے۔
____________________
* یعنی قبروں سے مردے زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے۔ بُعْثِرَتْ، اکھیڑ دی جائیں گی، یا ان کی مٹی پلٹ دی جائے گی۔
____________________
* یعنی جب مذکورہ امور واقع ہوں گے تو انسان کو اپنے تمام کیے دھرے کا علم ہو جائے گا، جو بھی اچھا یا برا عمل اس نے کیا ہوگا، وہ سامنے آجائے گا، پیچھے چھوڑےہوئے عمل سے مراد اپنے کردار وعمل کے اچھی یا برے نمونے ہیں جو دنیا میں وہ چھوڑ آیا اور لوگ ان نمونوں پر عمل کرتے ہیں۔ یہ نمونے اگر اچھے ہیں تو اس کےمرنے کے بعد ان نمونوں پر جو لوگ بھی عمل کریں گے، اس کا ثواب اسے بھی پہنچتا رہے گا اور اگر برے نمونے اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے تو جو جو بھی اسے اپنائے گا، ان کا گناہ بھی اس شخص کو پہنچتا رہے گا، جس کی مساعی سے وہ برا طریقہ یا کام رائج ہوا ۔
____________________
* یعنی کس چیز نےتجھے دھوکے اور فریب میں مبتلا کر دیا کہ تو نے اس رب کے ساتھ کفر کیا، جس نے تجھ پر احسان کیا اور تجھے وجود بخشا، تجھے عقل وفہم عطا کی اور اسباب حیات تیرے لئے مہیا کئے۔
____________________
* یعنی حقیر نطفے سے، جب کہ اسے پہلے تیرا وجود نہیں تھا۔
**- یعنی تجھے ایک کامل انسان بنا دیا، تو سنتا ہے، دیکھتا ہے اور عقل وفہم رکھتا ہے۔
***- تجھے معتدل، کھڑا اور حسن صورت والا بنایا، یا تیری دونوں آنکھوں، دونوں کانوں، دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں کو برابر بنایا۔ اگر تیرےاعضا میں یہ برابری مناسبت نہ ہوتی تو تیرے وجود میں حسن کے بجائے بےڈھب پن ہو جاتا۔ اسی تخلیق کو دوسرےمقام پر أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ سےتعبیر فرمایا، لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ۔
____________________
* اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ اللہ بچے کو جس کے چاہے مشابہ بنا دے۔ باپ کے، ماں کے یا ماموں اور چچا کے۔ دوسرا مطلب ہے کہ وہ جس شکل میں چاہے، ڈھال دے، حتیٰ کہ قبیح ترین جانور کی شکل میں بھی پیدا کر سکتا ہے لیکن یہ اس کا لطف وکرم اور مہربانی ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتا اور بہترین انسانی شکل میں ہی پیدا فرماتا ہے۔
____________________
* كَلا، حَقًّا کے معنی میں بھی ہو سکتا ہے۔ اور کافروں کےاس طرز عمل کی نفی بھی جو اللہ کریم کی رافت ورحمت سے دھوکے میں مبتلا ہونے پر مبنی ہے یعنی اس فریب نفس میں مبتلا ہونےکا کوئی جواز نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تمہارے دلوں میں اس بات پر یقین نہیں ہے کہ قیامت ہوگی اور وہاں جزا وسزا ہوگی۔
____________________
* یعنی تم جو جزا وسزا کے منکر ہو، لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تمہارا ہر قول اور ہر فعل نوٹ ہو رہا ہے۔ اللہ کی طرف سے فرشتے تم پر بطور نگران مقرر ہیں جو تمہاری ہر اس بات کو جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔ یہ گویا انسانون کو تنبیہ ہے کہ ہر عمل اور بات سے پہلےسوچ لو کہ وہ غلط تو نہیں۔ یہ وہی بات ہے جو پہلے گزر چکی ہے مثلاً عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ * مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ ( سورة ق، 17۔ 18) یعنی (ایک فرشتہ اس کے دائیں اور دوسرا اس کے بائیں جانب بیٹھا ہوا ہے، انسان جو بولتا ہے، اس کے پاس نگران، تیار اور حاضر ہے) یعنی لکھنے کے لئے۔ کہتے ہیں ایک فرشتہ نیکی اور دوسرا بدی لکھتا ہے۔ اور احادیث وآثار سے معلوم ہوتا ہے کہ دن کے دو فرشتے الگ اور رات کے دو فرشتے الگ ہیں۔ آگے نیکوں اور بدوں، دونوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
____________________
* جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا، فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ (الشورى:7) ۔
____________________
* یعنی جس جزا وسزا کے دن کا وہ انکار کرتے تھے اسی دن جہنم میں اپنے اعمال کی پاداش میں داخل ہوں گے۔
____________________
* یعنی کبھی اس سے جدا نہیں ہوں گے اور اس سے غائب نہیں ہوں گے۔ بلکہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔
____________________
* تکرار، اس کی عظمت وضخامت اور اس دن کی ہولناکیوں کی وضاحت کے لئے ہے۔
____________________
* یعنی دنیا میں تو اللہ نے عارضی طور پر، آزمانے کے لئے، انسانوں کو کم وبیش کے کچھ فرق کے ساتھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ لیکن قیامت والےدن تمام اختیارات کلیتاً صرف اور صرف اللہ کےپاس ہوں گے۔ جیسے فرمایا لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ۔ ( سورۂ مؤمن:16 ) چنانچہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے اپنی پھوپھی حضرت صفیہ (رضی الله عنها) اور اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ (رضی الله عنها) کو فرما دیا تھا، ”لا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللهِ شَيْئًا“ (صحيح مسلم، كتاب الإيمان) اور بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کو بھی متنبہ فرما دیا، ”أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، وَاللهِ لا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللهِ شَيْئًا“ (مسلم، كتاب مذكور، بخاري، سورة الشعراء ) ۔