ﰡ
____________________
* فرقان کے معنی ہیں حق وباطل، توحید وشرک اور عدل وظلم کے درمیان فرق کرنے والا، اس قرآن نے کھول کر ان امور کی وضاحت کردی ہے، اس لئے اسے فرقان سے تعبیر کیا۔
**- اس سے بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی نبوت عالم گیر ہے اور آپ تمام انسانوں اور جنوں کے لئے ہادی ورہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا «قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا» (الأعراف - 158) اور حدیث میں بھی فرمایا «بُعِثْتُ إِلَى الأَحْمَرِ وَالأَسْوَدِ» (صحيح مسلم، كتاب المساجد) «كَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً» (صحيح بخاري، كتاب التيمم ومسلم كتاب المساجد) ”مجھے احمر واسود سب کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ پہلے نبی کسی ایک قوم کی طرف معبوث ہوتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں“۔ رسالت ونبوت کے بعد، توحید کا بیان کیا جا رہا ہے۔ یہاں اللہ کی چار صفات بیان کی گئی ہیں۔
____________________
* یہ پہلی صفت ہے یعنی کائنات میں متصرف صرف وہی ہے، کوئی اور نہیں۔
**- اس میں نصاریٰ، یہود اور بعض ان عرب قبائل کا رد ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔
***- اس میں صنم پرست مشرکین اور ثنویت (دو خداؤں شر اور خیر، ظلمت اور نور کے خالق) کے قائلین کا رد ہے۔
****- ہر چیز کا خالق صرف وہی ہے اور اپنی حکمت ومشیت کے مطابق اس نے اپنی مخلوقات کو ہر وہ چیز بھی مہیا کی ہے جواس کے مناسب حال ہے یا ہر چیز کی موت اور روزی اس نے پہلے سے ہی مقرر کردی ہے۔
____________________
* لیکن ظالموں نے ایسے ہمہ صفات موصوف رب کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو رب بنا لیا ہے جو اپنے بارے میں بھی کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے چہ جائیکہ وہ کسی اور کے لئے کچھ کرسکنے کے اختیارات سے بہرہ ور ہوں۔ اس کے بعد منکرین ثبوت کے شہبات کا ازالہ کیا جا رہا ہے۔
____________________
* مشرکین کہتے تھے کہ محمد ( (صلى الله عليه وسلم) ) نے یہ کتاب گھڑنے میں یہود سے یا ان کے بعض موالی (مثلاً ابوفکیہہ یسار، عداس اور جبروغیرہم) سے مدد لی ہے۔ جیسا کہ سورۃ النحل، آیت 103 میں اس کی ضروری تفصیل گزرچکی ہے۔ یہاں قرآن نے اس الزام کو ظلم اور جھوٹ سے تعبیر کیا ہے، بھلا ایک امی شخص دوسروں کی مدد سے ایسی کتاب پیش کر سکتا ہے جو فصاحت و بلاغت اور اعجاز کلام میں بےمثال ہو، حقائق ومعارف بیانی میں بھی معجزنگار ہو، انسانی زندگی کے لئے احکام وقوانین کی تفصیلات میں بھی لاجواب ہو اور اخبار ماضیہ اور مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی نشاندہی اور وضاحت میں بھی اس کی صداقت مسلم ہو۔
____________________
* یہ ان کے جھوٹ اور افترا کے جواب میں کہا کہ قرآن کو تو دیکھو، اس میں کیا ہے؟ کیا اس کی کوئی بات غلط اور خلاف واقعہ ہے؟ یقیناً نہیں ہے۔ بلکہ ہر بات بالکل صحیح اور سچی ہے، اس لئے کہ اس کو اتارنے والی ذات وہ ہے جو آسمان وزمین کی ہر پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔
**- اس لئے وہ عفو ودرگزر سے کام لیتا ہے۔ ورنہ ان کا قرآن سازی بڑا سخت ہے جس پر وہ فوری طور پرعذاب الٰہی کی گرفت میں آسکتے ہیں۔
____________________
* قرآن پر طعن کرنے کے بعد رسول پر طعن کیا جا رہا ہے اور یہ طعن رسول کی بشریت پر ہے۔ کیوں کہ ان کے خیال میں بشریت، عظمت رسالت کی متحمل نہیں۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ یہ تو کھاتا پیتا اور بازاروں میں آتا جاتا ہے۔ اور ہمارے ہی جیسا بشر ہے۔ حالانکہ رسول کو تو بشر نہیں ہونا چاہیئے۔
**- مذکورہ اعتراض سے نیچے اتر کر کہا جا رہا ہے کہ چلو کچھ اور نہیں تو ایک فرشتہ ہی اس کے ساتھ ہو جو اس کا معاون اور مصدق ہو۔
____________________
* تاکہ طلب رزق سے وہ بےنیاز ہوتا۔
**- تاکہ اس کی حیثیت تو ہم سے کچھ ممتاز ہوجاتی۔
***- یعنی جس کی عقل و فہم سحر زدہ اور مختل ہے۔
____________________
* یعنی اے پیغمبر ! آپ کی نسبت یہ اس قسم کی باتیں اور بہتان تراشی کرتے ہیں، کبھی ساحر کہتے ہیں، کبھی مسحورومجنون اور کبھی کذاب وشاعر۔ حالانکہ یہ ساری باتیں باطل ہیں اور جن کے پاس ذرہ برابر بھی عقل وفہم ہے، وہ ان کا جھوٹا ہونا جانتے ہیں، پس یہ ایسی باتیں کرکے خود ہی راہ ہدایت سے دور ہوجاتے ہیں، انہیں راہ راست کس طرح نصیب ہوسکتی ہے؟
____________________
* یعنی یہ آپ کے لئے جو مطالبے کرتے ہیں، اللہ کے لئے ان کا کردینا کوئی مشکل نہیں ہے، وہ چاہے تو ان سے بہتر باغات اور محلات دنیا میں آپ کو عطا کرسکتا ہے جو ان کے دماغوں میں ہیں۔ لیکن ان کے مطالبے تو تکذیب وعنادکے طور پر ہیں نہ کہ طلب ہدایت اور تلاش نجات کے لئے۔
____________________
* قیامت کا یہ جھٹلانا ہی تکذیب رسالت کا بھی باعث ہے۔
____________________
* یعنی جہنم ان کافروں کو دور سے میدان محشر میں دیکھ کر ہی غصے سے کھول اٹھے گی اور ان کو اپنے دامن غضب میں لینے کے لئے چلائے گی اور جھنجھلائے گی، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: «إِذَا أُلْقُوا فِيهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا وَهِيَ تَفُورُ * تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ» (سورة الملك - 7،8) (جب جہنمی، جہنم میں ڈالے جائیں گے تو اس کا دھاڑنا سنیں گے اور وہ (جوش غضب سے) اچھلتی ہوگی، ایسے لگے گا کہ وہ غصے سے پھٹ پڑےگی)۔ جہنم کا دیکھنا اور چلانا، ایک حقیقت ہے، استعارہ نہیں۔ اللہ کے لئے اس کے اندر احساس و ادراک کی قوت پیدا کردینا، مشکل نہیں ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ آخر قوت گویائی بھی تو اللہ تعالیٰ اسے عطا فرمائے گا اور وہ «هَلْ مِنْ مَزِيدٍ»کی صدا بلند کرے گی (سورۂ ق: 30)
____________________
* یعنی جہنمی جب جہنم کے عذاب سے تنگ آکر آرزو کریں گے کہ کاش انہیں موت آجائے، وہ فنا کے گھاٹ اتر جائیں، تو ان سے کہا جائے گا کہ اب ایک موت نہیں کئی موتوں کو پکارو۔ مطلب یہ ہے کہ اب تمہاری قسمت میں ہمیشہ کے لئے انواع واقسام کے عذاب ہیں یعنی موتیں ہی موتیں ہیں، تم کہاں تک موت کا مطالبہ کرو گے!
____________________
* (یہ) اشارہ ہے جہنم کے مذکورہ عذابوں کی طرف، جن میں جہنمی جکڑ بند ہو کر مبتلا ہوں گے۔ کہ یہ بہتر ہے جوکفر و شرک کا بدلہ ہے یا وہ جنت، جس کا وعدہ متقین سے ان کے تقویٰ واطاعت الٰہی پر کیا گیا ہے۔ یہ سوال جہنم میں کیا جائے گا لیکن اسے یہاں اس لئے نقل کیا گیا ہے کہ شاید جہنمیوں کے اس انجام سے عبرت پکڑ کر لوگ تقویٰ واطاعت کا راستہ اختیار کرلیں اور اس انجام بد سے بچ جائیں، جس کا نقشہ یہاں کھینچا گیا ہے۔
____________________
* یعنی ایسا وعدہ، جو یقیناً پورا ہو کر رہے گا، جیسے قرض کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ نے اپنے ذمے یہ وعدہ واجب کرلیا ہے جس کا اہل ایمان اس سے مطالبہ کرسکتے ہیں۔ یہ محض اس کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اہل ایمان کے لئے اس حسن جزا کو اپنے واسطے ضروری قرار دے لیا ہے۔
____________________
* دنیا میں اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی ہے اور کی جاتی رہے گی۔ ان میں جمادات (پتھر، لکڑی اور دیگر دھاتوں کی بنی ہوئی مورتیاں) بھی ہیں، جو غیر عاقل ہیں اور اللہ کے نیک بندے بھی ہیں جو عاقل ہیں مثلاً حضرت عزیر، حضرت مسیح علیہما السلام اور دیگر بہت سے نیک بندے۔ اسی طرح فرشتے اور جنات کے پجاری بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ غیر عاقل جمادات کو بھی شعوروادراک اور گویائی کی قوت عطا فرمائے گا۔ اور ان سب معبودین سے پوچھے گا کہ بتلاؤ! تم نے میرے بندوں کو ا پنی عبادت کرنے کا حکم دیا تھا یا یہ اپنی مرضی سے تمہاری عبادت کرکے گمراہ ہوئے تھے؟
____________________
* یعنی جب ہم خود تیرے سوا کسی کو کارساز نہیں سمجھتے تھے تو پھر ہم اپنی بابت کس طرح لوگوں کو کہہ سکتے تھے کہ تم اللہ کے بجائے ہمیں اپنا ولی اور کارسازسمجھو۔
**- یہ شرک کی علت ہے کہ دنیا کے مال واسباب کی فراوانی نے انہیں تیری یاد سے غافل کردیا اور ہلاکت و تباہی ان کا مقدر بن گئی۔
____________________
* یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے جو مشرکین سے مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تم جن کو اپنا معبود گمان کرتے تھے، انہوں نے تو تمہیں تمہاری باتوں میں جھوٹا قرار دے دیا ہے اور تم نے دیکھ لیا ہے کہ انہوں نے تم سے براءت کا اعلان کردیا ہے۔ گویا جن کو تم اپنا مددگار سمجھتے تھے، وہ مددگار ثابت نہیں ہوئے۔ اب کیا تمہارے اندر یہ طاقت ہے کہ تم میرے عذاب کو اپنے سے پھیر سکو اور اپنی مدد کرسکو؟
**- ظلم سے مراد وہی شرک ہے، جیسا کہ سیاق سے بھی واضح ہے اور قرآن میں دوسرے مقام پر شرک کو ظلم عظیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ «إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ» (لقمان: 13)۔
____________________
* یعنی وہ انسان تھے اور غذا کے محتاج۔
**- یعنی رزق حلال کی فراہمی کے لئے کسب وتجارت بھی کرتے تھے۔ مطلب اس سے یہ ہے کہ یہ چیزیں منصب نبوت کے منافی نہیں، جس طرح کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔
***- یعنی ہم نے ا ن انبیا کی اور ان کے ذریعے سے ان پر ایمان لانے والوں کی بھی آزمائش کی، تاکہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہو جائے، جنہوں نے آزمائش میں صبر کا دامن پکڑے رکھا، وہ کامیاب اور دوسرے ناکام رہے۔ اسی لئے آگے فرمایا (کیا تم صبر کرو گے)؟
****- یعنی وہ جانتا ہے کہ وحی ورسالت کا مستحق کون ہے اور کون نہیں؟ «اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ» (الأنعام: 124) حدیث میں بھی آتا ہے رسول کریم (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا کہ بادشاہ نبی بنوں یا بندہ رسول؟ میں نے بندہ رسول بننا پسند کیا (ابن کثیر)۔
____________________
* یعنی کسی انسان کو رسول بنا کر بھیجنے کے بجائے، کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجا جاتا۔ یا یہ مطلب ہے کہ پیغمبر کے ساتھ فرشتے بھی نازل ہوتے، جنہیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور وہ اس بشر رسول کی تصدیق کرتے۔
**- یعنی رب آکر ہمیں کہتا کہ محمد (صلى الله عليه وسلم) میرا رسول ہے اور اس پر ایمان لانا تمارے لیے ضروری ہے۔
***- اسی استکبار اور سرکشی کا نتیجہ ہے کہ وہ اس قسم کے مطالبے کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے خلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو ایمان بالغیب کے ذریعے سے انسانوں کو آزماتا ہے۔ اگر وہ فرشتوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے اتار دے یا آپ خود زمین پر نزول فرمالے تو اس کے بعد ان کی آزمائش کا پہلو ہی ختم ہو جائے اس لیے اللہ تعالیٰ ایسا کام کیوں کر کر سکتا ہے جو اس کی حکمت تخلیق اور مشیت تکوینی کے خلاف ہے؟
____________________
* اس دن سے مراد موت کا دن ہے یعنی یہ کافر فرشتوں کو دیکھنے کی آرزو تو کرتے ہیں لیکن موت کے وقت جب یہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان کے لیے کوئی خوشی اور مسرت نہیں ہوگی، اس لیے کہ فرشتے انہیں اس موقع پر عذاب جہنم کی وعید سناتے ہیں اورکہتے ہیں اے خبیث روح خبیث جسم سےنکل، جسم سے روح دوڑتی اور بھاگتی ہے، جس پر فرشتے اسے مارتے اور کوٹتے ہیں جیسا کہ سورۃ الانفال: 50 سورۃ الانعام:93 میں ہے۔ اس کے برعکس مومن کا حال وقت احتضار (جان کنی کے وقت) یہ ہوتا ہے کہ فرشتے اسے جنت اور اس کی نعمتوں کو نوید جاں فزا سناتے ہیں۔ جیسا کہ سورۂ حم السجدۃ:30۔ 32 میں ہے اور حدیث میں بھی آتا ہے کہ (فرشتے مومن کی روح سے کہتے ہیں، اے پاک روح، جو پاک جسم میں تھی، نکل! اور ایسی جگہ چل جہاں اللہ کی نعمتیں ہیں اور وہ رب ہے جو تجھ سے راضی ہے)۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے مسند احمد2 / 364۔ 365 ابن ماجه، كتاب الزهد، باب ذكر الموت) بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد قیامت کاﺩن ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دونوں ہی قول صحیح ہیں۔ اس لیے کہ دونوں ہی دن ایسے ہیں کہ فرشتے مومن اور کافر دونوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں۔ مومنوں کو رحمت و رضوان الٰہی کی خوش خبری اور کافروں کو ہلاکت و خسران کی خبر دیتے ہیں۔
**- حِجْرٌ کے اصل معنی ہیں منع کرنا، روک دینا۔ جس طرح قاضی کسی کو اس کیے بے وقوفی یا صغر سنی کی وجہ سے اس کے اپنے مال میں تصرف کرنے سے روک دےتو کہتے ہیں حَجَرَ الْقَاضِي عَلَى فُلانٍ کو تصرف کرنے سے روک دیا ہے۔ اسی مفہوم میں خانہ کعبہ کے اس حصے (حطیم) کو حجر کہا جاتا ہے جسے قریش مکہ نے خانہ کعبہ میں شامل نہیں کیا تھا۔ اس لیے طواف کرنے والوں کے لیے اس کے اندر سے طواف کرنا منع ہے۔ طواف کرتے وقت، اس کے بیرونی حصے سے گزرنا چاہیے جسے دیوار سےممتاز کردیاگیا ہے۔ اور عقل کو بھی حجر کہا جاتا ہے، اس لیے کہ عقل بھی انسانوں کو ایسے کاموں سے روکتی ہے جو انسانوں کے لائق نہیں ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ فرشتے کافروں کو کہتے ہیں کہ تم ان چیزوں سے محروم ہو جن کی خوش خبری متقین کو دی جاتی ہے۔ یعنی یہ حَرَامًا مُحَرَّمًا عَلَيْكُمْ کے معنی میں ہے۔ آج جنت الفردوس اور اس کی نعمتیں تم پرحرام ہیں، اس کے مستحق صرف اہل ایمان و تقویٰ ہوں گے۔
____________________
* هَبَاءً ان باریک ذروں کو کہتے ہیں جو کسی سوراخ سے گھر کےاندر داخل ہونےوالی سورج کی کرن میں محسوس ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی انہیں ہاتھ میں پکڑنا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ کافروں کے عمل بھی قیامت والے دن ان ہی ذروں کی طرح بے حیثیت ہوں گے۔ کیوں کہ وہ ایمان و اخلاص سے بھی خالی ہوں گے اور موافقت شریعت سے بھی عاری۔ جب کہ عنداللہ قبولیت کےلیے دونوں شرطیں ضروری ہیں۔ ایمان و اخلاص بھی اور شریعت اسلامیہ کی مطابقت بھی۔ یہاں کافروں کے اعمال کو جس طرح بے حیثیت ذروں کی مثل کہا گیا ہے۔ اسی طرح دوسرے مقامات پر کہیں راکھ سے، کہیں سراب سے اور کہیں صاف چکنے پتھر سے تعبیر کیاگیا ہے۔ یہ ساری تمثیلات پہلے گزر چکی ہیں ملاحظہ ہو سورۃ البقرۃ: 264، سورۃ ابراہیم: 18 اور سورۃ النور:29۔
____________________
* بعض نے اس سے یہ استدلال بھی کیا ہےکہ اہل ایمان کے لیے قیامت کا یہ ہولناک دن اتنا مختصر اوران کا حساب اتنا آسان ہوگا کہ قیلولے کے وقت تک یہ فارغ ہوجائیں گے اورجنت میں یہ اپنے اہل خاندان اور حورعین کےساتھ دوپہر کو استراحت فرما ہوں گے، جس طرح حدیث میں ہے کہ مومن کے لیے یہ دن اتنا ہلکا ہوگا کہ جتنے میں دنیا میں ایک فرض نماز ادا کرلینا۔ (مسند احمد 4 / 75)
____________________
* اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان پھٹ جائے گا اور بادل سایہ فگن ہوجائیں گے، اللہ تعالیٰ فرشتوں کےجلو میں، میدان محشرمیں، جہاں ساری مخلوق جمع ہوگی، حساب کتاب کے لیے جلوہ فرما ہوگا، جیسا کہ سورۂ بقرۃ آیت، 210 سے بھی واضح ہے۔
____________________
* اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نافرمانوں سے دوستی اور وابستگی نہیں رکھنی چاہیے، اس لیے کہ صحبت صالح سے انسان اچھا اور صحبت طالح سے انسان برا بنتا ہے۔ اکثر لوگوں کی گمراہی کی وجہ غلط دوستوں کاانتﺨاب اور صحبت بد کا اختیار کرنا ہی ہے۔ اسی لیے حدیث میں بھی صالحین کی صحبت کی تاکید اوربری صحبت سےاجتناب کو ایک بہترین مثال سے واضح کیاگیا ہے۔ (ملاحظہ ہو مسلم، كتاب البر والصلة، باب استحباب مجالسة الصالحين...)۔
____________________
* مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جاسکے، یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا اور عمل نہ کرنا بھی ہجران ہے، اس پر غوروفکر نہ کرنا اور اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے۔ اسی طرح اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا، یہ بھی ہجران ہے یعنی قرآن کاﺗرﻙ اور اس کا چھوڑ دینا ہے، جس کےخلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے۔
____________________
* یعنی جس طرح اے محمد! (صلى الله عليه وسلم) تیری قوم میں سے وہ لوگ تیرے دشمن ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا، اسی طرح گزشتہ امتوں میں بھی تھا، یعنی ہر نبی کے دشمن وہ لوگ ہوتے تھے جو گناہ گار تھے، وہ لوگوں کو گمراہی کی طرف بلاتے تھے سورۃ الانعام آیت 112 میں بھی یہ مضمون بیان کیاگیا ہے۔
**- یعنی یہ کافر گو لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں لیکن تیرا رب جس کو ہدایت دے، اس کو ہدایت سے کون روک سکتا ہے؟ اصل ہادی اور مددگار تو تیرا رب ہی ہے۔
____________________
* جس طرح تورات، انجیل اور زبور وغیرہ کتابیں بیک مرتبہ نازل ہوئیں۔
**- اللہ نے جواب میں فرمایا کہ ہم نے حالات و ضروریات کے مطابق اس قرآن کو 23 سال میں تھوڑ تھوڑا کرکے اتارا تاکہ اے پیغمبر ! تیرا اور اہل ایمان کاﺩل مضبوط ہو اور ان کے خوب ذہن نشین ہوجائے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: «وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَـزَّلْنَاهُ تَنْـزِيلا» (سورة بني إسرائيل: 106) ”اور قرآن، اس کو ہم نےجدا جداکیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر رک رک کر پڑھے اور ہم نے اس کو وقفے وقفے سے اتارا“ اس قرآن کی مثال بارش کی طرح ہے۔ بارش جب بھی نازل ہوتی ہے، مردہ زمین میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور یہ فائدہ بالعموم اسی وقت ہوتا ہے جب بارش وقتاً فوقتاً نازل ہو، نہ کہ ایک ہی مرتبہ ساری بارش کے نزول سے۔
____________________
* یہ قرآن کے وقفے وقفے سے اتارے جانے کی حکمت و علت بیان کی جارہی ہے کہ یہ مشرکین جب بھی کوئی مثال یا اعتراض اور شبہ پیش کریں گے تو قرآن کے ذریعے سے ہم اس کا جواب یا وضاحت پیش کردیں گے اور یوں انہیں لوگوں کو گمراہ کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔
____________________
* رَسٌّ کے معنی کنویں کے ہیں أَصْحَابُ الرَّسِّ، کنویں والے۔ اس کی تعیین میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، امام ابن جریر طبری نے کہا ہے کہ اس سےمراد اصحاب الاخدود ہیں جن کا ذکر سورۃ البروج میں ہے (ابن کثیر)۔
**- قَرْنٌ کے صحیح معنی ہیں، ہم عصر لوگوں کا ایک گروہ۔ جب ایک نسل کے لوگ ختم ہوجائیں تو دوسری نسل دوسرا قرن کہلائے گی۔ (ابن کثیر)، اس معنی میں ہر نبی کی امت بھی ایک قرن ہوسکتی ہے۔
____________________
* یعنی دلائل کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کردی۔
**- یعنی اتمام حجت کے بعد۔
____________________
* بستی سے، قوم لوط کی بستیاں سدوم اور عمورہ وغیرہما مراد ہیں اوربری بارش سےپتھروں کی بارش مراد ہے۔ ان بستیوں کوالٹ دیاگیا تھا اور اس کےبعد ان پر کھنگر پتھروں کی بارش کی گئی تھی جیسا کہ سورۂ ہود۔ 82 میں بیان کیاگیا ہے۔ یہ بستیاں شام و فلسطین کے راستے میں پڑتی ہیں، جن سے گزر کر ہی اہل مکہ آتے جاتے تھے۔
**- اس لیےان تباہ شدہ بستیوں اوران کے کھنڈرات دیکھنے کےباوجود عبرت نہیں پکڑتے۔ اورآیات الٰہی اور اللہ کے رسول کی تکذیب سے باز نہیں آتے۔
____________________
* دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا: «أَهَذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ» (الأنبياء:36) ”کیا یہی وہ شحص ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے؟“ یعنیٰ ان کی بابت کہتا ہے کہ وہ کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ اس حقیقت کااظہار ہی مشرکین کے نزدیک ان کےمعبودوں کی توہین تھی، جیسے آج بھی قبر پرستوں کو کہاجائے کہ قبروں میں مدفون بزرگ کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، تو کہتے ہیں کہ یہ اولیاء اللہ کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں۔
____________________
* یعنی ہم ہی اپنے آباو اجداد کی تقلید اور روایتی مذہب سے وابستگی کی وجہ سے غیراللہ کی عبادت سے باز نہیں آئے ورنہ اس پیغمبر (صلى الله عليه وسلم) نے تو ہمیں گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کا یہ قول نقل فرمایا کہ کس طرح وہ شرک پر جمے ہوئے ہیں کہ اس پر فخر کر رہے ہیں۔
**- یعنی اس دنیا میں تو ان مشرکین اور غیراللہ کے پجاریوں کو اہل توحید گمراہ نظر آتے ہیں لیکن یہ اللہ کی بارگاہ میں پہنچیں گے اور وہاں انہیں شرک کی وجہ سے عذاب الٰہی سے دوچار ہونا پڑے گا تو پتہ لگے گا کہ گمراہ کون تھا؟ ایک اللہ کی عبادت کرنے والے یا دردرپر اپنی جبینیں جھکانے والے؟
____________________
* یعنی جو چیز اس کے نفس کواچھی لگی، اسی کو اپنا دین و مذہب بنالیا، کیا ایسے شخص کو تو راہ یاب کرسکتا ہے یا اللہ کے عذاب سے چھڑا سکے گا؟ اس کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا (کیا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل مزین کردیا گیا، پس وہ اسے اچھا سمجھتا ہے، پس اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اورجسے چاہتا ہے راہ یاب۔ پس تو ان پر حسرت و افسوس نہ کر) (فاطر۔ 8) حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں آدمی ایک عرصےتک سفید پتھر کی عبادت کرتا رہتا، جب اسے اس سے اچھا پتھر نظر آجاتا تو وہ پہلے پتھر کو چھوڑ کر دوسرے پتھر کی پوجا شروع کردیتا (ابن کثیر) مطلب یہ ہے کہ ایسے اشخاص، جو عقل و فہم سے اس طرح عاری اورمحض خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہیں۔ اے پیغمبر کیا تو ان کو ہدایت کےراستے پر لگا سکتا ہے؟ یعنی نہیں لگا سکتا۔
____________________
* یعنی یہ چوپائے جس مقصد کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، اسے وہ سمجھتے ہیں۔ لیکن انسان، جسے صرف ایک اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کیاگیاتھا، وہ رسولوں کی یاد دہانی کے باوجود اللہ کے ساتھ شرک کاارﺗکاب کرتا اور دردر پر اپنا ماتھا ٹیکتا پھرتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ یقیناً چوپائے سے بھی زیادہ بد تر اور گمراہ ہے۔
____________________
* یہاں سے پھر توحید کے دلائل کا آغاز ہو رہا ہے۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے کائنات میں کس طرح سایہ پھیلایا ہے، جو صبح صادق کے بعد سے سورج کے طلوع ہونے تک رہتا ہے۔ یعنی اس وقت دھوپ نہیں ہوتی، دھوپ کے ساتھ یہ سمٹنا اور سکڑنا شروع ہو جاتا ہے۔
**- یعنی ہمیشہ سایہ ہی رہتا، سورج کی دھوپ سائے کوختم ہی نہ کرتی۔
***- یعنی دھوپ سے ہی سائے کا پتہ چلتا ہے کہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ اگر سورج نہ ہوتا، تو سائے سے بھی لوگ متعارف نہ ہوتے۔
____________________
* یعنی وہ سایہ آہستہ آہستہ ہم اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور اس کی جگہ رات کا گمبھیر اندھیرا چھا جاتا ہے۔
____________________
* یعنی لباس، جس طرح لباس انسانی دھانچے کو چھپالیتا ہے، اسی طرح رات تمہیں اپنی تاریکی میں چھپالیتی ہے۔
**- سبات کے معنی کاٹنےکے ہوتے ہیں۔ نیند انسان کے جسم کو عمل سے کاﭦ دیتی ہے، جس سےاس کو راحت میسر آتی ہے۔ بعض کےنزدیک سبات کے معنی تمدد پھیلنے کے ہیں۔ نیند میں بھی انسان دراز ہو جاتا ہے، اس لیے اسے سبات کہا (ایسرالتفاسیرو فتح القدیر)۔
***- یعنی نیند، جو موت کی بہن ہے، دن کو انسان اس نیند سے بیدار ہو کر کاروبار اور تجارت کے لیےپھراٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) صبح بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے۔ «الْحَمْدِ للهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَمَا أَمَاتَنَا وَإِلَيهِ النُّشُورُ» (رواه البخاري- مشكاة، كتاب الدعوات) ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اکٹھے ہونا ہے“۔
____________________
* طَهُورٌ (بِفَتْحِ الطَّاءِ) فعول کے وزن پر آلے کے معنی میں ہے یعنی ایسی چیز جس سے پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے۔ جیسے وضو کے پانی کو وضو اورایندھن کو وقود کہا جاتا ہے، اس معنی میں پانی طاہر (خود بھی پاک) اور مطہر (دوسروں کو پاک کرنے والا) بھی ہے۔ حدیث میں بھی ہے «إِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ لا يُنَجِّسُه شَيْءٌ» (أبو داود والترمذي ـ نمبر 66 النسائي و ابن ماجه وصححه الألباني في السنن) ”پانی پاک ہے، اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی“ ہاں اگر اس کا رنگ یابو یاذائقہ بدل جائے تو ایسا پانی ناپاک ہے۔ كَمَا فِي الحَدِيثِ۔
____________________
* یعنی قرآن کریم کو۔ اور بعض نے صَرَّفْنَاه ُ ہ میں ھا کا مرجع بارش قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ بارش کو ہم پھیر پھیر کر برساتے ہیں یعنی کبھی ایک علاقے میں، کبھی دوسرے علاقے میں۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی ایک ہی شہر کے ایک حصے میں بارش ہوتی ہے، دوسروں میں نہیں ہوتی اور کبھی دوسرے حصوں میں ہوتی ہے، پہلے حصے میں نہیں ہوتی یہ اللہ کی حکمت و مشیت ہے، وہ جس طرح چاہتا ہے، کہیں بارش برساتا ہے اور کہیں نہیں اور کبھی کسی علاقے میں اور کبھی کسی اور علاقے میں۔
**- اور ایک کفر اور ناشکری یہ بھی ہے کہ بارش کو مشیت الٰہی کی بجائے ستاروں کی گردش کا نتیجہ قرار دیا جائے، جیسا کہ اہل جاہلیت کہا کرتے تھے۔ کما فی الحدیث۔
____________________
* لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اور صرف آپ کو ہی تمام بستیوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے نذیر بنا کر بھیجا ہے۔
____________________
* جَاهِدْهُمْ بِهِ میں ”ھا“ کا مرجع قرآن ہے یعنی اس قرآن کے ذریعے سے جہاد کریں، یہ آیت مکی ہے، ابھی جہاد کا حکم نہیں ملا تھا۔ اس لیے مطلب یہ ہوا کہ قرآن کے اوامرونواہی کھول کھول کر بیان کریں اور اہل کفر کے لیے جو زجر وتوبیخ اور وعیدیں ہیں، وہ واضح کریں۔
____________________
* آب شیریں کو فُرَاتٌ کہتے ہیں، فرات کے معنی ہیں کاﭦ دینا، توڑ دینا، میٹھا پانی پیاس کو کاٹ دیتا ہے یعنی ختم کردیتا ہے۔ أُجَاجٌ سخت کھاری یا کڑوا۔
**- جوایک دوسرے سےملنے نہیں دیتی۔ بعض نے حِجْرًا مَحْجُورًا کےمعنی کیے ہیں حَرَامًا مُحَرَّمًا، ان پر حرام کردیاگیا ہےکہ میٹھا پانی کھاری یا کھاری پانی میٹھا ہوجائے۔ اوربعض مفسرین نے مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ کا ترجمہ کیا ہے، خَلَقَ الْمَاءَيْنِ، دوپانی پیدا کیے، ایک میٹھا اور دوسرا کھاری۔ میٹھا پانی تو وہ ہے جو نہروں، چشموں اور کنوؤں کی شکل میں آبادیوں کے درمیان پایا جاتا ہے جس کو انسان اپنی ضروریات کے لیے استعمال کرتا ہے اور کھاری پانی وہ ہے جو مشرق و مغرب میں پھیلے ہوئے بڑے بڑے سمندروں میں ہے، جو کہتے ہیں کہ زمین کا تین چوتھائی حصہ ہیں اورایک چوتھائی حصہ خشکی کا ہے جس میں انسانوں اور حیوانوں کا بسیرا ہے۔ یہ سمندر ساکن ہیں۔ البتہ ان میں مدوجزر ہوتا رہتا اور موجوں کا تلاطم جاری رہتا ہے۔ سمندری پانی کے کھاری رکھنے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمت ہے۔ میٹھا پانی زیادہ دیر تک کہیں ٹھہرا رہے تو وہ خراب ہو جاتا ہے، اس کے ذائقے، رنگ یا بو میں تبدیلی آجاتی ہے۔ کھاری پانی خراب نہیں ہوتا، نہ اس کا ذائقہ بدلتا ہے نہ رنگ اور بو۔ اگر ان ساکن سمندروں کا پانی بھی میٹھا ہوتا، تو اس میں بدبو پیدا ہوجاتی، جس سے انسانوں اورحیوانوں کاﺯمیﻦ میں رہنا مشکل ہو جاتا۔ اس میں مرنے والے جانوروں کی سڑاند اس پر مستزاد۔ اللہ کی حکمت تو یہ ہے کہ ہزاروں برس سے یہ سمندر موجود ہیں اور ان میں ہزاروں جانور مرتے ہیں اور انہی میں گل سڑجاتے ہیں۔ لیکن اللہ نے ان میں ملاحت (نمکیات) کی اتنی مقدار رکھ دی ہے کہ وہ اس کے پانی میں ذرا بھی بدبو پیدا نہیں ہونے دیتی۔ ان سے اٹھنے والی ہوائیں بھی صحیح ہیں اور ان کا پانی بھی پاک ہے حتیٰ کہ ان کا مردار بھی حلال ہے۔ کما فی الحدیث۔ (موطأ إمام مالك، ابن ماجه، أبو داود، الترمذي، كتاب الطهارة، النسائي، كتاب المياه) تفسير ابن كثير۔
____________________
* نسب سےمراد وہ رشتے داریاں ہیں جو باپ یا ماں کی طرف سے ہوں اورصھر سے مراد وہ قرابت مندی ہے جو شادی کے بعد بیوی کی طرف سے ہو، جس کو ہماری زبان میں سسرالی رشتے کہا جاتا ہے۔ ان دونوں رشتے داریوں کی تفصیل آیت حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ (النساء۔ 23) اور«وَلا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ» (النساء ۔ 23) میں بیان کردی گئی ہے۔ اور رضاعی رشتے داریاں حدیث کی رو سے نسبی رشتوں میں شامل ہے۔ جیسا کہ فرمایا «يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاِع مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ»(البخاري ـ نمبر 2645 - ومسلم، نمبر 1070)۔
____________________
* یعنی یہی میرا اجر ہے کہ رب کا راستہ اختیار کر لو۔
____________________
* رَحْمَن، رَحِيمٌ اللہ کی صفات اور اسمائے حسنٰی میں سے ہیں لیکن اہل جاہلت، اللہ کو ان ناموں سے نہیں پہچانتے تھے۔ جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقعے پر جب نبی (صلى الله عليه وسلم) نےمعاہدے کے آغاز پر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لکھوایا، تو مشرکین مکہ نے کہا، ہم رحمٰن و رحیم کو نہیں جانتے۔ بِاسْمكَ اللَّهُمَّ! لکھو۔ (سیرت ابن ہشام: 2 / 317) مزید دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل:110۔ الرعد:30۔ یہاں بھی ان کا رحمٰن کےنام سے بدکنے اور سجدہ کرنے سے گریز کرنے کا ذکر ہے۔
بابرکت ہے وه جس نے آسمان میں برج بنائے* اور اس میں آفتاب بنایا اور منور مہتاب بھی.
____________________
* بُرُوجٌ بُرْجٌ کی جمع ہے، سلف کی تفسیر میں بروج سے مراد بڑے بڑے ستارے لیے گئے ہیں۔ اور اسی مراد پر کلام کا نظم واضح ہے کہ بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں بڑے بڑے ستارے اور سورج اور چاند بنائے۔ بعد کے مفسرین نےاس سے اہل نجوم کے مصطلحہ بروج مراد لے لیے۔ اور یہ بارہ برج ہیں۔ حمل، ثور، جوزاء، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو اور حوت۔ اور یہ برج سات بڑے سیاروں کی منزلیں ہیں۔ جن کے نام ہیں۔ مریخ، زہرہ، عطارد، قمر، شمس، مشتری اورزحل۔ یہ کواکب (سیارے) ان برجوں میں اس طرح اترتے ہیں، جیسے یہ ان کے لیے عالی شان محل ہیں (ایسرالتفاسیر)۔
____________________
* یعنی رات جاتی ہے تو دن آجاتا ہے اور دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے۔ دونوں بیک وقت جمع نہیں ہوتے، اس کے فوائد و مصالح محتاج وضاحت نہیں۔ بعض نے خِلْفَة ً کے معنی ایک دوسرے کے مخالف کے کیے ہیں۔ یعنی رات تاریک ہے تو دن روشن۔
____________________
* سلام سے مراد یہاں اعراض اور ترک بحث و مجادلہ ہے۔ یعنی اہل ایمان، اہل جہالت و اہل سفاہت سے الجھتے نہیں ہیں بلکہ ایسے موقعوں پر اعراض و گریز کی پالیسی اختیار کرتے ہیں اور بے فائدہ بحث نہیں کرتے۔
____________________
* اس سے معلوم ہوا کہ رحمٰن کےبندے وہ ہیں جو ایک طرف راتوں کو اٹھ کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ ڈرتے بھی ہیں کہ کہیں کسی غلطی یا کوتاہی پر اللہ کی گرفت میں نہ آجائیں، اس لیے وہ عذاب جہنم سے بھی پناہ طلب کرتے ہیں۔ گویا اللہ کی عبادت و اطاعت کےباوجود اللہ کےعذاب اور اس کےمواخذے سے انسان کو بے خوف اور اپنی عبادات و طاعات الٰہی پر کسی غرور اور گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اسی مفہوم کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایاگیا ہے۔ «وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ» (المؤمنون: 60) ”اور وہ لوگ کہ جو کچھ دیتے ہیں۔ اور ان کے دل ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں“ ڈر صرف اسی بات کا نہیں کہ انہیں بارگاہ الٰہی میں حاضر ہونا ہے، بلکہ اس کے ساتھ، اس کا بھی کہ ان کا صدقہ و خیرات قبول ہوتا ہے یا نہیں؟ حدیث میں آیت کی تفسیر میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) نے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سے اس آیت کی بابت پوچھا کہ کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا، نہیں، اے ابوبکر کی بیٹی! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے، نماز پڑھتے اور صدقہ کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے یہ اعمال نامقبول نہ ہوجائیں۔ (الترمذي، كتاب التفسير، سورة المؤمنون)۔
____________________
* اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرنا اسراف اور اللہ کی اطاعت میں خرچ نہ کرنا بخیلی اور اللہ کے احکام و اطاعت کے مطابق خرچ کرنا قوام ہے (فتح القدیر) اسی طرح نفقات واجبہ اور مباحات میں حد اعتدال سےتجاوز بھی اسراف میں آسکتا ہے، اس لیے وہاں بھی احتیاط اور میانہ روی نہایت ضروری ہے۔
____________________
* اور حق کے ساتھ قتل کرنے کی تین صورتیں ہیں، اسلام کے بعد کوئی دوبارہ کفر اختیار کرے، جسے ارتداد کہتے ہیں، یا شادی شدہ ہو کر بدکاری کا ارتکاب کرے یا کسی کو قتل کردے۔ ان صورتوں میں قتل کیا جائے گا۔
**- حدیث میں ہے۔ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سے سوال کیاگیا، کون سا گناہ سب سےبڑا ہے؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا، یہ کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراے دراں حالیکہ اس نے تجھے پیدا کیا۔ اس نے کہا، اس کےبعد کون سا گناہ بڑا ہے؟ فرمایا، اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی، اس نے پوچھا، پھر کون سا؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا، یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے۔ پھر آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ ان باتوں کی تصدیق اس آیت سے ہوتی ہے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ (البخاري، تفسير سورة البقرة، مسلم، كتاب الإيمان، باب كون الشرك أقبح الذنوب)۔
____________________
* اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں خالص توبہ سے ہر گناہ معاف ہوسکتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو۔ اور سورۂ نساء کی آیت 93 میں جو مومن کے قتل کی سزا جہنم بتلائی گئی ہے، تو وہ اس صورت پر محمول ہوگی، جب قاتل نے توبہ نہ کی ہو اور بغیر توبہ کیے ہی فوت ہوگیا ہو۔ ورنہ حدیث میں آتا ہے کہ سو آدمی کے قاتل نےبھی خالص توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرمادیا۔ (صحيح مسلم، كتاب التوبة)۔
**- اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کا حال تبدیل فرمادیتا ہے، اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ برائیاں کرتا تھا، اب نیکیاں کرتا ہے، پہلے شرک کرتا تھا، اب صرف الہٰ واحد کی عبادت کرتا ہے، پہلےکافروں کےساتھ مل کرمسلمانوں سے لڑتاتھا، اب مسلمانوں کی طرف سے کافروں سے لڑتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ دوسرے معنی ہیں کہ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا جاتا ہے۔ اس کی تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”میں اس شخص کو جانتا ہوں، جو سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا اور سب سے آخر میں جہنم سے نکلنے والا ہوگا۔ یہ وہ آدمی ہوگا کہ قیامت کےدن اس پر اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کیے جائیں گے، بڑے گناہ ایک طرف رکھ دیئے جائیں گے۔ اس کو کہا جائے گا کہ تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کیا تھا؟ وہ اثبات میں جواب دے گا، انکار کی اسے طاقت نہ ہوگی، علاوہ ازیں اس بات سے بھی ڈر رہا ہوگا کہ ابھی تو بڑے گناہ بھی پیش کیے جائیں گے۔ کہ اتنے میں اس سے کہا جائے گا کہ جا، تیرے لیے ہر برائی کے بدلے ایک نیکی ہے۔ اللہ کی یہ مہربانی دیکھ کر وہ کہے گا، کہ ابھی تو میرے بہت سےاعمال ایسے ہیں کہ میں انہیں یہاں نہیں دیکھ رہا، یہ بیان کرکے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کےدانت ظاہر ہوگئے“ (صحيح مسلم كتاب الإيمان، باب أدنى أهل الجنة منزلة فيها)۔
____________________
* پہلی توبہ کا تعلق کفر وشرک سے ہے۔ اس توبہ کا تعلق دیگر معاصی اور کوتاہیوں سے ہے۔
____________________
* زور کے معنی جھوٹ کے ہیں۔ ہر باطل چیز بھی جھوٹ ہے، اس لیے جھوٹی گواہی سے لے کر کفر وشرک اور ہر طرح کی غلط چیزیں مثلاً لہوولعب، گانا اور دیگر بیہودہ جاہلانہ رسوم وافعال، سب اس میں شامل ہیں اورعبادالرحمٰن کی یہ صفت بھی ہےکہ وہ کسی بھی جھوٹ میں اور جھوٹ کی مجلسوں میں حاضر نہیں ہوتے۔
**- لَغْوٌ ہر وہ بات اور کام ہے، جس میں شرعًا کوئی فائدہ نہیں۔ یعنی ایسے کاموں اور باتوں میں بھی وہ شرکت نہیں کرتے بلکہ خاموشی کے ساتھ عزت ووقار سے گزر جاتے ہیں۔
____________________
* یعنی وہ ان سے اعراض و غفلت نہیں برتتے، جیسے وہ بہرے ہوں کہ سنیں ہی نہیں یا اندھے ہوں کہ دیکھیں ہی نہیں۔ بلکہ وہ غور اور توجہ سے سنتے اور انہیں آویزہ گوش اور حرزجان بناتے ہیں۔
____________________
* یعنی انہیں اپنا بھی فرماں بردار بنا اور ہمارا بھی اطاعت گزار، جس سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔
**- یعنی ایسا اچھا نمونہ کہ خیرمیں وہ ہماری اقتدا کریں۔ٍ
____________________
* دعا و التجا کا مطلب، اللہ کو پکارنا اور اس کی عبادت کرنا ہے اور مطلب یہ ہے کہ تمہارا مقصد تخلیق اللہ کی عبادت ہے، اگر یہ نہ ہو تو اللہ کو تمہاری کوئی پروا نہ ہو۔ یعنی اللہ کے ہاں انسان کی قدروقیمت، اس کے اللہ پر ایمان لانے اور اس کی عبادت کرنے کی وجہ سے ہے۔
**- اس میں کافروں سے خطاب ہےکہ تم نے اللہ کو جھٹلادیا ہے، سو اب اس کی سزا بھی لازماً تمہیں چکھنی ہے۔ چنانچہ دنیا میں یہ سزا بدر میں شکست کی صورت میں انہیں ملی اور آخرت میں جہنم کے دائمی عذاب سے بھی انہیں دوچار ہونا پڑے گا۔