ﰡ
____________________
* بعض نے اس کے معنی یا رجل یا انسان کے کئے ہیں۔ بعض نے اسے نبی (صلى الله عليه وسلم) کے نام اور بعض نے اسے اللہ کے اسمائے حسنیٰ میں سے بتلایا ہے۔ لیکن یہ سب اقوال بلا دلیل ہیں۔ یہ بھی ان حروف مقطعات میں سے ہی ہے۔ جن کا معنی ومفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
____________________
* یا قرآن محکم کی، جو نظم ومعنی کے لحاظ سے محکم یعنی پختہ ہے۔ واو قسم کے لئے ہے۔ آگے جواب قسم ہے۔
____________________
* مشرکین نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت میں شک کرتے تھے، اس لئے آپ (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت کا انکار کرتے اور کہتے تھے، لَسْتَ مُرْسَلا (الرعد: 43) ”تو تو پیغمبر ہی نہیں ہے“۔ اللہ نے ان کے جواب میں قرآن حکیم کی قسم کھا کر کہا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) یقیناً اس کے پیغمبروں میں سے ہیں۔ اس میں آپ (صلى الله عليه وسلم) کے شرف وفضل کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی رسول کی رسالت کے لئے قسم نہیں کھائی یہ بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) کے امتیازات اور خصائص میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت کے اثبات کے لئے قسم کھائی۔
____________________
* یہ إِنَّكَ کی دوسری خبر ہے۔ یعنی آپ (صلى الله عليه وسلم) ان پیغمبروں کے راستے پر ہیں جو پہلے گزرچکے ہیں۔ یا ایسے راستے پر ہیں جو سیدھا اور مطلوب منزل (جنت) تک پہنچانے والا ہے۔
____________________
* یعنی اس اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جو عزیز ہے یعنی اس کا انکار اور اس کے رسول کی تکذیب کرنے والے سے انتقام لینے پر قادر ہے رحیم ہے یعنی جو اس پر ایمان لائے گا اور اس کا بندہ بن کر رہے گا، اس کے لئے نہایت مہربان ہے۔
____________________
* یعنی آپ (صلى الله عليه وسلم) کو رسول اس لئے بنایا ہے اور یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے تاکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) اس قوم کو ڈرائیں جن میں آپ (صلى الله عليه وسلم) سے پہلے کوئی ڈرانے والانہیں آیا، اس لئے ایک مدت سے یہ لوگ دین حق سے بےخبر ہیں۔ یہ مضمون پہلے بھی کئی جگہ گزرچکا ہے کہ عربوں میں حضرت اسماعیل (عليه السلام) کے بعد، نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) سے پہلے براہ راست کوئی نبی نہیں آیا۔ یہاں بھی اسی چیز کو بیان کیا گیا ہے۔
____________________
* جیسے ابوجہل، عتبہ، شیبہ وغیرہ۔ بات ثابت ہونے کا مطلب، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ ”میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا“۔ (الم السجدۃ: 13) شیطان سے بھی خطاب کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا تھا ”میں جہنم کو تجھ سے اور تیرے پیروکاروں سے بھر دوں گا“۔ (ص: 84) یعنی ان لوگوں نے شیطان کے پیچھے لگ کر اپنےآپ کو جہنم کا مستحق قرار دے لیا، کیونکہ اللہ نے تو ان کو اختیار وحریت ارادہ سے نوازا تھا، لیکن انہوں نے اس کا استعمال غلط کیا اور یوں جہنم کا ایندھن بن گئے۔ یہ نہیں کہ اللہ نے جبراً ان کو ایمان سے محروم رکھا، کیونکہ جبر کی صورت میں تو وہ عذاب کے مستحق ہی قرار نہ پاتے۔
____________________
* جس کی وجہ سے وہ ادھر ادھر دیکھ سکتے ہیں، نہ سر جھکا سکتے ہیں، بلکہ وہ سر اوپر اٹھائے اور نگاہیں نیچی کئے ہوئے ہیں۔ یہ ان کے عدم قبول حق کی اور عدم انفاق کی تمثیل ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ان کی سزائے جہنم کی کیفیت کا بیان ہو۔ (ایسرالتفاسیر)۔
____________________
* یعنی دنیا کی زندگی ان کے لئے مزین کر دی گئی، یہ گویا ان کے سامنے کی آڑ ہے، جس کی وجہ سے وہ لذائذ دنیا کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتے اور یہی چیز ان کے اور ایمان کے درمیان مانع اور حجاب ہے اور آخر کا تصور ان کے ذہنوں میں ناممکن الوقوع کردیا گیا، یہ گویا ان کے پیچھے کی آڑ ہے جس کی وجہ سے وہ توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں، کیونکہ آخرت کا کوئی خوف ہی ان کے دلوں میں نہیں ہے۔
**- یا ان کی آنکھوں کو ڈھانک دیا یعنی رسول (صلى الله عليه وسلم) سے عداوت اور اس کی دعوت حق سے نفرت نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی، یا انہیں اندھا کردیا ہے جس سے وہ دیکھ نہیں سکتے۔ یہ ان کے حال کی دوسری تمثیل ہے۔
____________________
* یعنی جو اپنے کرتوتوں کی وجہ سے گمراہی کے اس مقام پر پہنچ جائیں، ان کے لئے انذار بےفائدہ رہتا ہے۔
____________________
* یعنی انذار سے صرف اس کو فائدہ پہنچتا ہے۔
____________________
* یعنی قیامت والے دن۔ یہاں احیائے موتی کے ذکر سے یہ اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں میں سے جس کا دل چاہتا ہے، زندہ کردیتا ہے جو کفروضلالت کی وجہ سے مردہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ پس وہ ہدایت اور ایمان کو اپنا لیتے ہیں۔
**- مَا قَدَّمُوا سے وہ اعمال مراد ہیں جو انسان خود اپنی زندگی میں کرتا ہے اور آثَارَهُمْ سے وہ اعمال جن کے عملی نمونے (اچھے یا برے) وہ دنیا میں چھوڑ جاتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کی اقتدا میں لوگ وہ اعمال بجا لاتے ہیں۔ جس طرح حدیث میں ہے ”جس نےاسلام میں کوئی نیک طریقہ جاری کیا، اس کے لئے اس کا اجر بھی ہے اور اس کا بھی ہے جو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا۔ بغیر اس کے کہ ان میں سے کسی کے اجر میں کمی ہو اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا، اس پر اس کے اپنے گناہ کا بھی بوجھ ہوگا اور اس کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا، بغیر اس کے کہ ان میں کسی کے بوجھ میں کمی ہو“۔ (صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب الحث على الصدقة ولو بشق تمرة) اسی طرح یہ حدیث ہے ”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔ سوائے تین چیزوں کے۔ ایک علم، جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں (2) نیک اولاد جو مرنے والے کے لئے دعا کرے (3) یا صدقہ جاریہ، جس سے اس کے مرنے کے بعد بھی لوگ فیض یاب ہوں“۔ (صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته) دوسرا مطلب آثَارَهُمْ کا نشانات قدم ہے۔ یعنی انسان نیکی یا بدی کے لئے جو سفر کرتا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو قدموں کے یہ نشانات بھی لکھے جاتے ہیں۔ جیسے عہد رسالت میں مسجد نبوی کے قریب کچھ جگہ خالی تھی تو بنوسلمہ نے ادھر منتقل ہونے کا ارادہ کیا، جب نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے علم میں یہ بات آئی تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے انہیں مسجد کے قریب منتقل ہونے سے روک دیا اور فرمایا :«دَيَاركُمْ تُكْتَبْ آثَارُكُمْ» (دو مرتبہ فرمایا) یعنی تمہارے گھر اگرچہ دور ہیں، لیکن وہیں رہو، جتنے قدم تم چل کر آتے ہو، وہ لکھے جاتے ہیں۔ (صحيح مسلم، كتاب المساجد، باب فضل كثرة الخطى إلى المساجد) امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ دونوں مفہوم اپنی جگہ صحیح ہیں، ان کے درمیان منافات نہیں ہے۔ بلکہ اس دوسرے مفہوم میں سخت تنبیہ ہے، اس لئے کہ جب قدموں کے نشانات تک لکھے جاتے ہیں، تو انسان جو اچھا یا برا نمونہ چھوڑ جائے جس کی لوگ بعد میں پیروی کریں تو وہ بطریق ادنیٰ لکھے جائیں گے۔
***- اس سے مراد لوح محفوظ ہے اور بعض نے صحائف اعمال مراد لئے ہیں۔
____________________
* تاکہ اہل مکہ یہ سمجھ لیں کہ آپ کوئی انوکھے رسول نہیں ہیں، بلکہ رسالت ونبوت کا یہ سلسلہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔
____________________
* یہ تین رسول کون تھے؟ مفسرین نے ان کے مختلف نام بیان کئے ہیں، لیکن نام مستند ذریعے سے ثابت نہیں ہیں۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے فرستادہ تھے، جو انہوں نے اللہ کے حکم سے ایک بستی میں تبلیغ ودعوت کے لئے بھیجے تھے۔ بستی کا نام انطاکیہ تھا۔
____________________
* ممکن ہے کچھ لوگ ایمان لے آئے ہوں اور ان کی وجہ سے قوم دو گروہوں میں بٹ گئی ہو، جس کو انہوں نے رسولوں کی نَعُوذُ بِالله ِ نحوست قرار دیا۔ یا بارش کا سلسلہ موقوف رہا، تو وہ سمجھے ہوں کہ یہ ان رسولوں کی نحوست ہے۔ نَعُوذُ بِالله ِ مِنْ ذَلِكَ، جیسے آج کل بھی بد نہاد اور دین و شریعت سے بےبہرہ لوگ، اہل ایمان وتقویٰ کو ہی (منحوس) سمجھتے ہیں۔
____________________
* یعنی وہ تو تمہارے اپنے اعمال بد کا نتیجہ ہے جو تمہارے ساتھ ہی ہے نہ کہ ہمارے ساتھ۔
____________________
* یہ شخص مسلمان تھا، جب اسے پتہ چلا کہ قوم پیغمبروں کی دعوت کو نہیں اپنا رہی ہے، تو اس نے آکر رسولوں کی حمایت اور ان کے اتباع کی ترغیب دی۔
____________________
* اپنے مسلک توحید کی وضاحت کی، جس سے مقصد اپنی قوم کی خیر خواہی اور ان کی صحیح رہنمائی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی قوم نے اس سے کہا ہو کہ کیا تو بھی اس معبود کی عبادت کرتا ہے، جس کی طرف یہ مرسلین ہمیں بلا رہےہیں اور ہمارے معبودوں کو تو بھی چھوڑ بیٹھا ہے؟ جس کے جواب میں اس نے یہ کہا۔ مفسرین نے اس شخص کانام حبیب نجار بتلایا ہے، واللہ اعلم۔
____________________
* یہ ان معبودان باطلہ کی بے بسی کی وضاحت ہے جن کی عبادت اس کی قوم کرتی تھی اور شرک کی اس گمراہی سے نکالنے کے لئے رسول ان کی طرف بھیجے گئے تھے۔ نہ بچا سکیں کا مطلب ہے کہ اللہ اگر مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو یہ بچا نہیں سکتے۔
____________________
* یعنی اگر میں بھی تمہاری طرح، اللہ کو چھوڑ کر ایسے بے اختیار اور بےبس معبودوں کی عبادت شروع کردوں، تو میں بھی کھلی گمراہی میں جا گروں گا۔ یا ضلال، یہاں خسران کےمعنی میں ہے، یعنی یہ تو نہایت واضح خسارے کا سودا ہے۔
____________________
* اس کی دعوت توحید اور اقرار توحید کے جواب میں قوم نے اسے قتل کرنا چاہا تو اس نے پیغمبروں سے خطاب کرکے یہ کہا، مقصد اپنے ایمان پر ان پیغمبروں کو گواہ بنانا تھا۔ یا اپنی قوم سے خطاب کرکے کہا جس سے مقصود دین حق پر اپنی صلابت اور استقامت کا اظہار تھا کہ تم جو چاہو کر لو، لیکن اچھی طرح سن لو کہ میرا ایمان اسی رب پر ہے، جو تمہارا بھی رب ہے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس کو مار ڈالا اور کسی نے ان کو اس سے نہیں روکا۔ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى۔
____________________
* یعنی جس ایمان اور توحید کی وجہ سے مجھے رب نے بخش دیا، کاش میری قوم اس بات کو جان لے تاکہ وہ بھی ایمان وتوحید کو اپنا کر اللہ کی مغفرت اور اس کی نعمتوں کی مستحق ہو جائے۔ اس طرح اس شخص نے مرنے کے بعد بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی۔ ایک مومن صادق کو ایسا ہی ہونا چاہئے کہ وہ ہر وقت لوگوں کی خیر خواہی ہی کرے، بدخواہی نہ کرے۔ ان کی صحیح رہنمائی کرے، گمراہ نہ کرے، بیشک لوگ اسے جو چاہے کہیں اور جس قسم کا سلوک چاہیں کریں، حتیٰ کہ اسے مار ڈالیں۔
____________________
* یعنی حبیب نجار کےقتل کے بعد ہم نے ان کی ہلاکت کے لئے آسمان سے فرشتوں کا کوئی لشکر نہیں اتارا۔ یہ اس قوم کی تحقیر شان کی طرف اشارہ ہے۔
**- یعنی جس قوم کی ہلاکت کسی دوسرے طریقے سے لکھی جاتی ہے تو وہاں ہم فرشتے نازل بھی نہیں کرتے۔
____________________
* کہتے ہیں کہ جبرائیل (عليه السلام) نے ایک چیخ ماری، جس سے سب کے جسموں سے روحیں نکل گئیں اور وہ بجھی آگ کی طرح ہوگئے۔ گویا زندگی، شعلۂ فروزاں ہے اور موت، اس کا بجھ کر راکھ کا ڈھیر ہو جانا۔
____________________
* حسرت وندامت کا یہ اظہار خود اپنے نفسوں پر، قیامت والے دن، عذاب دیکھنے کے بعد کریں گے کہ کاش انہوں نے اللہ کے بارے میں کوتاہی نہ کی ہوتی یا اللہ تعالیٰ بندوں کے رویے پر افسوس کر رہا ہے کہ ان کے پاس جب بھی کوئی رسول آیا انہوں نے اس کے ساتھ استہزا ہی کیا۔
____________________
* اس میں اہل مکہ کے لئے تنبیہ ہے کہ تکذیب رسالت کی وجہ سے جس طرح پچھلی قومیں تباہ ہوئیں یہ بھی تباہ ہو سکتے ہیں۔
____________________
* اس میں إِنْ نافیہ ہے اور لَمَّا، إِلا کے معنی میں۔ مطلب یہ ہے کہ تمام لوگ گزشتہ بھی اور آئندہ آنے والے بھی، سب اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے جہاں ان کا حساب کتاب ہوگا۔
____________________
* یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی قدرت تامہ اور مردوں کو دوبارہ زندہ کرنےپر نشانی۔
____________________
* یعنی مردہ زمین کو زندہ کر کے ہم اس سے ان کی خوراک کے لئے صرف غلہ ہی نہیں اگاتے، بلکہ ان کے کام ودہن کی لذت کے لئے انواع واقسام کے پھل بھی کثرت سے پیدا کرتے ہیں، یہاں صرف دو پھلوں کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ یہ کثیر المنافع بھی ہیں اور عربوں کو مرغوب بھی، نیز ان کی پیداوار بھی عرب میں زیادہ ہے۔ پھر غلے کا ذکر پہلے کیا کیونکہ اس کی پیداوار بھی زیادہ ہے اور خوراک کی حیثیت سے اس کی اہمیت بھی مسلمہ۔ جب تک انسان روٹی یا چاول وغیرہ خوراک سے اپنا پیٹ نہیں بھرتا، محض پھل فروٹ سےاس کی غذائی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔
____________________
* یعنی بعض جگہ بھی چشمے جاری کرتے ہیں، جس کے پانی سے پیداہونے والے پھل لوگ کھائیں۔
**- امام ابن جریر کے نزدیک یہاں ما نافیہ ہے یعنی غلوں اور پھلوں کی یہ پیداوار، اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے جو وہ اپنے بندوں پر کرتا ہے۔ اس میں ان کی سعی ومحنت، کدوکاوش اور تصرف کا دخل نہیں ہے۔ پھر بھی یہ اللہ کی ان نعمتوں پر اس کا شکر کیوں نہیں کرتے؟ اور بعض کے نزدیک (مَا) موصولہ ہےجو الَّذِي کے معنی میں ہے یعنی تاکہ وہ اس کا پھل کھائیں اور ان چیزوں کو جن کو ان کے ہاتھوں نے بنایا۔ ہاتھوں کا عمل ہے، زمین کو ہموار کرکے بیج بونا، اسی طرح پھلوں کے کھانے کے مختلف طریقے ہیں، مثلاً انہیں نچوڑ کر ان کا رس پینا، مختلف فروٹوں کو ملاکر چاٹ بنانا، وغیرہ۔
____________________
* یعنی انسانوں کی طرح زمین کی ہر پیداوار میں بھی ہم نے نر اور مادہ دونوں پیدا کیے ہیں۔ علاوہ ازیں آسمانوں میں اور زمین کی گہرائیوں میں بھی جو چیزیں تم سے غائب ہیں، جن کا علم تم نہیں رکھتے، ان میں بھی زوجیت (نر اور مادہ) کا یہ نظام ہم نے رکھا ہے، پس تمام مخلوق جوڑا جوڑا ہے، نباتات میں بھی نر اور مادے کا یہی نظام ہے۔ حتیٰ کہ آخرت کی زندگی، دنیا کی زندگی کے لئے بمنزلۂ زوج ہے اور یہ حیات آخرت کے لئے ایک عقلی دلیل بھی ہے۔ صرف ایک اللہ کی ذات ہے جو مخلوق کی اس صفت سے اور دیگر تمام کوتاہیوں سے پاک ہے۔ وہ وتر (فرد) ہے، زوج نہیں۔
____________________
* یعنی اللہ کی قدرت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ دن کو رات سے الگ کر دیتا ہے، جس سے فوراً اندھیرا چھا جاتا ہے۔ سلخ کےمعنی ہوتے ہیں جانور کی کھال کا اس کے جسم سے علیحدہ کرنا، جس سے اس کا گوشت ظاہر ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اللہ دن کو رات سے الگ کر دیتا ہے۔ أَظْلَمَ کے معنی ہیں، اندھیرے میں داخل ہونا۔ جیسے أَصْبحَ اور أَمْسَى ٰ اور أَظْهَر َ کے معنی ہیں، صبح، شام اور ظہر کے وقت میں داخل ہونا۔
____________________
* یعنی اپنے اس مدار (فلک) پر چلتا رہتاہے، جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کر دیا ہے، اسی سے اپنی سیر کا آغاز کرتا ہے اور وہیں پر ختم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے ذرا ادھر ادھر نہیں ہوتا، کہ کسی دوسرے سیارے سے ٹکرا جائے۔ دوسرے معنی ہیں (اپنے ٹھہرنے کی جگہ تک) اور اس کا یہ مقام قرار عرش کے نیچے ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے جو صفحہ 916 (سورۃ الحج، آیت 18 کا حاشیہ) پر گزر چکی ہے کہ سورج روزانہ غروب کے بعد عرش کے نیچے جا کر سجدہ کرتا ہے اور پھر وہاں سے طلوع ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے (صحیح بخاری، تفسیر سورۂ یسں) دونوں مفہوم کے اعتبار سے لِمُسْتقَرٍّ میں لام، علت کے لئے ہے۔ أي: لأجل مُسْتقَرٍّ لَّهَا بعض کہتے ہیں کہ لام، الٰی کے معنی میں ہے، پھر مستقر یوم قیامت ہوگا۔ یعنی سورج کا یہ چلنا قیامت کے دن تک ہے، قیامت والے دن اس کی حرکت ختم ہو جائے گی۔ یہ تینوں مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔
____________________
* چاند کی 28 منزلیں ہیں، روزانہ ایک منزل طے کرتا ہے، پھر دو راتیں غائب رہ کر تیسری رات کو نکل آتا ہے۔
**- یعنی جب آخری منزل پر پہنچتا ہے تو بالکل باریک اور چھوٹا ہو جاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی ہو، جو سوکھ کر ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔چاند کی انہی گردشوں سے سکان ارض اپنے دنوں، مہینوں اور سالوں کا حساب اور اپنے اوقات عبادات کا تعین کرتے ہیں۔
____________________
* یعنی سورج کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے جس سے اس کی روشنی ختم ہو جائے بلکہ دونوں کا اپنا اپنا راستہ اور الگ الگ حد ہے۔ سورج دن ہی کو اور چاند رات ہی کو طلوع ہوتا ہے اس کے برعکس کبھی نہیں ہوا، جو ایک مدبر کائنات کے وجود پر ایک بہت بڑی دلیل ہے۔
**- بلکہ یہ بھی ایک نظام میں بندھےہوئے ہیں اور ایک، دوسرے کے بعد آتے ہیں۔
***- كُلٌّ سے سورج، چاند یا اس کےدوسرے کواکب مراد ہیں، سب اپنے اپنے مدار پر گھومتے ہیں، ان کا باہمی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔
____________________
* اس میں اللہ تعالیٰ اپنے اس احسان کا تذکرہ فرما رہا ہے کہ اس نے تمہارے لئے سمندر میں کشتیوں کا چلنا آسان فرما دیا، حتیٰ کہ تم اپنے ساتھ بھری ہوئی کشتیوں میں اپنے بچوں کو بھی لے جاتے ہو۔ دوسرے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ ذُرِّيَّةٌ سے مقصود آبائے ذریت ہیں۔ اور کشتی سے مراد کشتی ﺀ نوح (عليه السلام) ہے۔ یعنی سفینۂ نوح (عليه السلام) میں ان لوگوں کو بٹھایا جن سے بعد میں نسل انسانی چلی۔ گویا نسل انسانی کے آبا اس میں سوار تھے۔
____________________
* اس سے مراد ایسی سواریاں ہیں جو کشتی کی طرح انسانوں اور سامان تجارت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں، اس میں قیامت تک پیدا ہونے والی چیزیں آگئیں۔ جیسے ہوائی جہاز، بحری جہاز، ریلیں، بسیں، کاریں اور دیگر نقل وحمل کی اشیا۔
____________________
* یعنی توحید اور صداقت رسول کی جو نشانی بھی ان کے سامنے آتی ہے، اس میں یہ غور ہی نہیں کرتے کہ جس سے ان کوفائدہ ہو، ہر نشانی سے اعراض ان کاشیوہ ہے۔
____________________
* یعنی غربا ومساکین اور ضرورت مندوں کو دو۔
**- یعنی اللہ چاہتا تو ان کو غریب ہی نہ کرتا، ہم ان کو دے کر اللہ کی مشیت کے خلاف کیوں کریں۔
***- یعنی یہ کہہ کر کہ، غربا کی مدد کرو، کھلی غلطی کا مظاہرہ کر رہے ہو۔ یہ بات تو ان کی صحیح تھی کہ غربت وناداری اللہ کی مشیت ہی سے تھی، لیکن اس کو اللہ کے حکم سے اعراض کا جواز بنا لینا غلط تھا، آخر ان کی امداد کرنےکا حکم دینے والا بھی تو اللہ ہی تھا، اس لئے اس کی رضا تو اسی میں ہے کہ غربا ومساکین کی امداد کی جائے۔ اس لئے کہ مشیت اور چیز ہے اور رضا اور چیز۔ مشیت کا تعلق امور تکوینی سے ہے جس کے تحت جو کچھ بھی ہوتاہے، اس کی حکمت ومصلحت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور رضا کا تعلق امور تشریعی سے ہے، جن کو بجا لانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے تاکہ ہمیں اس کی رضا حاصل ہو۔
____________________
* یعنی لوگ بازاروں میں خریدوفروخت اور حسب عادت بحث وتکرار میں مصروف ہوں گے کہ اچانک صور پھونک دیا جائے گا اور قیامت برپا ہوجائے گی یہ نفخۂ اولیٰ ہوگا جسے نفخۂ فزع بھی کہتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد دوسرا نفخہ ہوگا۔ نَفْخَةُ الصَّعْقِ جس سے اللہ تعالیٰ کے سوا، سب موت کی آغوش میں چلے جائیں گے۔
____________________
* پہلے قول کی بنا پر یہ نفخۂ ثانیہ اور دوسرےقول کی بنا پر یہ نفخۂ ثالثہ ہوگا، جسے نَفْخَةُ الْبَعْثِ وَالنُّشُورِ کہتے ہیں، اس سے لوگ قبروں سےزندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ (ابن کثیر)۔
____________________
- قبر کو خواب گاہ سے تعبیر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قبر میں ان کو عذاب نہیں ہوگا، بلکہ بعد میں جو ہولناک مناظر اور عذاب کی شدت دیکھیں گے، اس کے مقابلے میں انہیں قبر کی زندگی ایک خواب ہی محسوس ہوگی۔
____________________
* فَاكِهُونَ کے معنی ہیں فَرِحُونَ خوش، مسرت بکنار۔
____________________
* اللہ کا یہ سلام، فرشتے اہل جنت کو پہنچائیں گے۔ بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود سلام سے نوازے گا۔
____________________
* یعنی اہل ایمان سے الگ ہو کر کھڑے ہو۔ یعنی میدان محشر میں اہل ایمان واطاعت اور اہل کفر ومعصیت الگ الگ کر دیئے جائیں گے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا «وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَتَفَرَّقُونَ» (الروم: 14) «يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ» (الروم: 43) أي: يَصِيرُونَ صِدْعَينِ فِرْقَتَيْنِ (اس دن لوگ دو گروہوں میں بٹ جائیں گے)۔ دوسرا مطلب ہے کہ مجرمین ہی کو مختلف گروہوں میں الگ الگ کر دیا جائے گا۔ مثلاً یہودیوں کا گروہ، عیسائیوں کا گروہ، صابئین اور مجوسیوں کا گروہ، زانیوں کا، شرابیوں کا گروہ وغیرہ وغیرہ۔
____________________
* اس سے مراد عہد الست ہے جو حضرت آدم (عليه السلام) کی پشت سے نکالنے کے وقت لیا گیا تھا یا وہ وصیت ہے جو پیغمبروں کی زبان لوگوں کو کی جاتی رہی۔ اور بعض کے نزدیک وہ دلائل عقلیہ ہیں جو آسمان وزمین میں اللہ نےقائم کیے ہیں۔ (فتح القدیر)۔
**- یہ اس کی علت ہے کہ تمہیں شیطان کی عبادت اور اس کے وسوسے قبول کرنے سے اس لئے روکا گیا تھا کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور اس نے تمہیں ہر طرح گمراہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔
____________________
* یعنی یہ بھی عہد لیا تھا کہ تمہیں صرف میری ہی عبادت کرنی ہے، میری عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرنا۔
**- یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا، یہی وہ سیدھا راستہ ہے، جس کی طرف تمام انبیا لوگوں کو بلاتے رہے اور یہی منزل مقصود یعنی جنت تک پہنچانے والا ہے۔
____________________
* یعنی اتنی عقل بھی تمہارے اندر نہیں کہ شیطان تمہارا دشمن ہے، اس کی اطاعت نہیں کرنی چاہئے۔ اور میں تمہارا رب ہوں، میں ہی تمہیں روزی دیتا ہوں اور میں ہی تمہاری رات دن حفاظت کرتا ہوں لہٰذا تمہیں میری نافرمانی نہیں کرنی چاہئے۔ تم شیطان کی عداوت کو اور میرے حق عبادت کو نہ سمجھ کر نہایت بےعقلی اور نادانی کا مظاہرہ کر رہے ہو۔
____________________
* یعنی اب اس بے عقلی کا نتیجہ بھگتو اور اپنے کفر کے سبب سے جہنم کی سختیوں کا مزہ چکھو۔
____________________
* یہ مہر لگانے کی ضرورت اس لئے پیش آئے گی کہ ابتداﺀً مشرکین قیامت والے دن بھی جھوٹ بولیں گے اور کہیں گے «وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ» (الأنعام: 23) ”اللہ کی قسم، جو ہمارا رب ہے، ہم مشرک نہیں تھے“۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا، جس سے وہ خود توبولنے کی طاقت سے محروم ہو جائیں گے، البتہ اللہ تعالیٰ اعضائے انسانی کو قوت گویائی عطا فرمائے گا، ہاتھ بولیں گے کہ ہم سے اس نے فلاں فلاں کام کیا تھا اور پاؤں اس پر گواہی دیں گے۔ یوں گویا اقرار اور شہادت، دونوں مرحلے طے ہو جائیں گے۔ علاوہ ازیں ناطق کے مقابلے میں غیر ناطق چیزوں کا بول کر گواہی دینا، حجت واستدلال میں زیادہ بلیغ ہے کہ اس میں ایک اعجازی شان پائی جاتی ہے۔ (فتح القدیر) اس مضمون کو احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو صحیح مسلم، کتاب الزھد)۔
____________________
* یعنی بینائی سے محرومی کے بعد انہیں راستہ کس طرح دکھائی دیتا؟ لیکن یہ تو ہمارا حلم وکرم ہے کہ ہم نے ایسا نہیں کیا۔
____________________
* یعنی نہ آگے جا سکتے، نہ پیچھے لوٹ سکتے، بلکہ پتھر کی طرح ایک جگہ پڑے رہتے۔ مسخ کے معنی پیدائش میں تبدیلی کے ہیں، یعنی انسان سے پتھر یا جانور کی شکل میں تبدیل کر دینا۔
____________________
* یعنی جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں، اس کی پیدائش کو بدل کر برعکس حالت میں کر دیتے ہیں۔ یعنی جب وہ بچہ ہوتا ہے تو اس کی نشوونما جاری رہتی ہے اور اس کی عقلی اور بدنی قوتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ جوانی اور کہولت کو پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے برعکس اس کے قوائے عقلیہ وبدنیہ میں ضعف وانحطاط کا عمل شروع ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ ایک بچے کی طرح ہو جاتا ہے۔
**- کہ جو اللہ اس طرح کر سکتا ہے، کیا وہ دوبارہ انسانوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں؟
____________________
* مشرکین مکہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی تکذیب کے لئے مختلف قسم کی باتیں کہتے رہتے تھے، ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ شاعر ہیں اور یہ قرآن پاک آپ کی شاعرانہ تک بندی ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی فرمائی۔ کہ آپ شاعر ہیں اور نہ قرآن شعری کلام کا مجموعہ ہے بلکہ یہ تو صرف نصیحت اور موعظت ہے۔ شاعری میں بالعموم مبالغہ، افراط وتفریط اور محض تخیلات کی ندرت کاری ہوتی ہے، یوں گویا اس کی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں شاعر محض گفتار کے غازی ہوتے ہیں، کردار کے نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ اپنے پیغمبر کو شعر نہیں سکھلائے، نہ اشعار کی اس پر وحی کی، بلکہ اس کے مزاج وطبیعت کو ایسا بنایا کہ شعر سے اس کو کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کبھی کسی کا شعر پڑھتے تو اکثر صحیح نہ پڑھ پاتے اور اس کا وزن ٹوٹ جاتا۔ جس کی مثالیں احادیث میں موجود ہیں۔ یہ احتیاط اس لئے کی گئی کہ منکرین پر اتمام حجت اور ان کے شبہات کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ قرآن اس کی شاعرانہ تک بندی کا نتیجہ ہے، جس طرح آپ کی امیت بھی قطع شبہات کے لئے تھی تاکہ لوگ قرآن کی بابت یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ تو اس نےفلاں سے سیکھ پڑھ کر اس کو مرتب کر لیا ہے۔ البتہ بعض مواقع پر آپ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ کا نکل جانا، جو دو مصرعوں کی طرح ہوتے اور شعری اوزان وبحور کے بھی مطابق ہوتے، آپ کے شاعر ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے۔ کیونکہ ایسا آپ کے قصد وارادہ کے بغیر ہوا اور ان کا شعری قالب میں ڈھل جانا ایک اتفاق تھا، جس طرح حنین والے دن آپ کی زبان پر بے اختیار یہ رجز جاری ہوگیا:
أَنَا النَّبِيَّ لا كَذِبْ
أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب
ایک اور موقع پر آپ (صلى الله عليه وسلم) کی انگلی زخمی ہوگئی تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:
هَلْ أَنْتِ إِلا إِصْبَعٌ دَمِيتِ
وَفِي سَبِيلِ اللهِ مَا لَقِيتِ
(صحيح بخاري ومسلم، كتاب الجهاد)
____________________
* یعنی جس کا دل صحیح ہے، حق کو قبول کرتا اور باطل سے انکار کرتا ہے۔
**- یعنی جو کفر پر مصر ہو، اس پر عذاب والی بات ثابت ہو جائے۔ لِيُنْذِرَ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔
____________________
* اس سے غیروں کی شرکت کی نفی ہے، ان کو ہم نے اپنےہاتھوں سے بنایا ہے، کسی اور کا ان کے بنانے میں حصہ نہیں ہے۔
**- أَنْعَامٌ، نَعَمٌ کی جمع ہے۔ اس سےمراد چوپائے یعنی اونٹ، گائے، بکری (اور بھیڑ، دنبہ) ہیں۔
***- یعنی جس طرح چاہتے ہیں ان میں تصرف کرتے ہیں، اگر ہم ان کے اندر وحشی پن رکھ دیتے (جیسا کہ بعض جانوروں میں ہے) تو یہ چوپائے ان سے دور بھاگتے اور وہ ان کی ملکیت اور قبضے میں ہی نہ آسکتے۔
____________________
* یعنی ان جانوروں سے وہ جس طرح کا بھی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، وہ انکار نہیں کرتے، حتیٰ کہ وہ انہیں ذبح بھی کر دیتے ہیں اور چھوٹے بچے بھی انہیں کھینچے پھرتے ہیں۔
____________________
* یعنی سواری اور کھانے کے علاوہ بھی ان سے بہت سے فوائد حاصل کیے جاتے ہیں مثلاً ان کی اون اور بالوں سے کئی چیزیں بنتی ہیں، ان کی چربی سے تیل حاصل ہوتا ہے اور یہ بار برداری اور کھیتی باڑی کے بھی کام آتے ہیں۔
____________________
* یہ ان کے کفران نعمت کا اظہار ہے کہ مذکورہ نعمتیں، جن سے یہ فائدہ اٹھاتے ہیں، سب اللہ کی پیدا کردہ ہیں۔ لیکن یہ بجائے اس کے کہ یہ اللہ کی ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں یعنی ان کی عبادت واطاعت کریں، یہ غیروں سے امیدیں وابستہ کرتے اور انہیں معبود بناتے ہیں۔
____________________
* جُنْدٌ سےمراد بتوں کےحمایتی اور ان کی طرف سے مدافعت کرنے والے، مُحْضَرُونَ دنیا میں ان کے پاس حاضرہونے والے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ جن بتوں کو معبود سمجھتے ہیں، وہ ان کی مدد کیا کریں گے؟ وہ تو خود اپنی مدد کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ انہیں کوئی برا کہے، ان کی مذمت کرے، تو یہی ان کی حمایت ومدافعت میں سرگرم ہوتے ہیں، نہ کہ خود ان کے وہ معبود۔
____________________
* یعنی جو اللہ تعالیٰ انسان کو ایک حقیر نطفے سے پیدا کرتا ہے، وہ دوبارہ اس کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے؟ اس کی قدرت احیائے موتی کا ایک واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے مرتے وقت وصیت کی کہ مرنے کے بعد اسے جلا کر اس کی آدھی راکھ سمندر میں اور آدھی راکھ تیز ہوا والے دن خشکی میں اڑا دی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ساری راکھ جمع کرکے اسےزندہ فرمایا اور اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا، تیرےخوف سے، چنانچہ اللہ نے اسے معاف فرما دیا۔ (صحيح بخاري، الأنبياء والرقاق باب الخوف من الله)۔
____________________
* کہتے ہیں عرب میں دو درخت ہیں مرخ اور عفار۔ ان کی دو لکڑیاں آپس میں رگڑی جائیں تو آگ پیدا ہوتی ہے، سبز درخت سے آگ پیدا کرنے کے حوالے سے اسی طرف اشارہ مقصود ہے۔
____________________
* یعنی انسانوں جیسے۔ مطلب، انسانوں کا دوبارہ پیدا کرنا ہے جس طرح انہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا۔ آسمان وزمین کی پیدائش سے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر استدلال کیا ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا «لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ» (المؤمن:57) ”آسمان وزمین کی پیدائش (لوگوں کے نزدیک) انسانوں کی پیدائش سےزیادہ مشکل کام ہے“۔ سورۂ احقاف 33 میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔
____________________
* یعنی اس کی شان تو یہ ہے، پھر اس کے لئے سب انسانوں کا زندہ کر دینا کون سا مشکل معاملہ ہے؟
____________________
* ملک اور ملکوت دونوں کے ایک ہی معنی ہیں، بادشاہی، جیسے رَحْمَةٌ اور رَحَمُوتٌ رَهْبَةٌ اور رَهَبُوتٌ، جَبْرٌ اور جَبَرُوتٌ وغیرہ ہیں۔ (ابن کثیر) بعض اس کو مبالغے کا صیغہ قرار دیتے ہیں۔ (فتح القدیر) یعنی مَلَكُوتٌ مُلْكٌ کا مبالغہ ہے۔
**- یعنی یہ نہیں ہوگا کہ مٹی میں رل مل کر تمہارا وجود ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے، نہیں، بلکہ اسے دوبارہ وجود عطا کیا جائے گا۔ یہ بھی نہیں ہوگا کہ تم بھاگ کر کسی اور کے پاس پناہ طلب کر لو۔ تمہیں بہرحال اللہ ہی کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہوگا، جہاں وہ عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دے گا۔