ﰡ
____________________
* جس طرح دوسرے مقام پر بھی اللہ نے فرمایا '«هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰي عَبْدِهٖٓ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ»(سورہ الحدید:9) ۔« وہی ذات ہے جو اپنے بندے پر واضح آیات نازل فرماتی ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے »۔ «اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ» ( البقرۃ:257)۔ ”اللہ ایمان داروں کا دوست ہے، وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے“۔
**- یعنی پیغمبر کا کام ہدایت کا راستہ دکھانا ہے۔ لیکن اگر کوئی اس راستے کو اختیار کر لیتا ہے تو یہ صرف اللہ کے حکم اور مشیت سے ہوتا ہے کیونکہ اصل ہادی وہی ہے۔ اس کی مشیت اگر نہ ہو، تو پیغمبر کتنا بھی واعظ و نصیحت کر لے، لوگ ہدایت کا راستہ اپنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے، جس کی متعدد مثالیں انبیائے سابقین میں موجود ہیں اور خود نبی (صلى الله عليه وسلم) باوجود شدید خواہش کے اپنے مہربان چچا ابو طالب کو مسلمان نہ کر سکے۔
____________________
* اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں لوگوں کو بدظن کرنے کے لئے مین میکھ نکالتے اور انہیں مسخ کر کے پیش کرتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی اغراض و خواہشات کے مطابق اس میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔
**- اس لئے کہ ان میں مزکورہ متعدد خرابیاں جمع ہوگئی ہیں۔ مثلاً آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینا، اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا اور اسلام میں کجی تلاش کرنا۔
____________________
* پھر جب اللہ تعالٰی نے اہل دنیا پر یہ احسان فرمایا کہ ان کی ہدایت کے لئے کتابیں نازل کیں اور رسول بھیجے، تو اس احسان کی تکمیل اس طرح فرمائی کہ ہر رسول کو قومی زبان میں بھیجا تاکہ کسی کو ہدایت کا راستہ سمجھنے میں دقت نہ ہو۔
**- لیکن اس بیان و تشریح کے باوجود ہدایت اسے ملے گی جسے اللہ چاہے گا۔
____________________
* یعنی جس طرح اے محمد (صلى الله عليه وسلم) ہم نے آپ کو اپنی قوم کی طرف بھیجا اور کتاب نازل کی تاکہ آپ اپنی قوم کو کفر اور شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لائیں۔ اسی طرح ہم نے موسیٰ (عليه السلام) کو معجزات و دلائل دے کر ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ تاکہ وہ انہیں کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی عطا کریں۔ آیات سے مراد وہ معجزات ہیں جو موسیٰ (عليه السلام) کو عطا کئے گئے تھے، یا وہ نو معجزات ہیں جن کا ذکر سورہ بنی اسرائیل میں کیا گیا ہے۔
**- اَ یَّامَ اللّٰہِ سے مراد اللہ کے وہ احسنات ہیں جو بنی اسرائیل پر کئے گئے جن کی تفصیل پہلے کئی مرتبہ گزر چکی ہے۔ یا ایام وقائع کے معنی میں ہے، یعنی وہ واقعات ان کو یاد دلا جن سے وہ گزر چکے ہیں جن میں ان پر اللہ تعالٰی کے خصوصی انعامات ہوئے۔ جن میں سے بعض کا تذکرہ یہاں بھی آرہا ہے۔
***- صبر اور شکر یہ دو بڑی خوبیاں ہیں اور ایمان کا مدار ان پر ہے، اس لئے یہاں صرف ان دو کا تذکرہ کیا گیا ہے دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ صبار، بہت صبر کرنے والا، شکور، بہت شکر کرنے والا اور صبر کو شکر پر مقدم کیا ہے اس لئے کہ شکر، صبر ہی کا نتیجہ ہے۔ حدیث میں ہے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا "مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اللہ تعالٰی اس کے لئے جس امر کا بھی فیصلہ کرے، وہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، اگر اسے تکلیف پہنچے اور وہ صبر کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے اور اگر اسے کوئی خوشی پہنچے، وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے "۔(صحيح مسلم، كتاب الزهد، باب المؤمن أمره كله خير)
____________________
* یعنی جس طرح یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی اسی طرح اس سے نجات اللہ کا بہت بڑا احسان تھا، اسی لئے بعض مترجمین نے بَلَاَء کا ترجمہ آزمائش اور بعض نے احسان کیا ہے۔
____________________
* تَأَذَّنَ کے معنی أَعْلَمَكُمْ بِوَعْدِهِ لَكُمْ، اس نے تمہیں اپنے وعدے سے تمہیں آگاہ اور خبردار کر دیا ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ قسم کے معنی میں ہو یعنی جب تمہارے رب نے اپنی عزت و جلال اور کبریائی کی قسم کھا کر کہا (ابن کثیر)
**- نعمت پر شکر کرنے پر مزید انعامات سے نوازوں گا۔
***- اس کا مطلب یہ ہوا کہ کفران نعمت (ناشکری) اللہ کو ناپسند ہے، جس پر اس نے سخت عذاب کی وعید بیان فرمائی ہے، اس لئے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی فرمایا کہ عورتوں کی اکثریت اپنے خاوندوں کی ناشکری کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گی (صحيح مسلم، العيدين أوائل كتاب الصلاة)
____________________
* مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کی شکر گزاری کرے گا تو اس میں اسی کا فائدہ ہے۔ ناشکری کرے گا تو اللہ کا اس میں کیا نقصان ہے؟ وہ تو بےنیاز ہے سارا جہان ناشکرگزار ہو جائے تو اس کا کیا بگڑے گا جس طرح حدیث قدسی میں آتا ہے اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ۔ «يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ، كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ مِنْكُمْ، مَا زَادَ ذَلِكَ فِي مُلْكِي شَيْئًا، يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ، كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ , مَا نَقَصَ ذَلِكَ فِي مُلْكِي شَيْئًا، يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ، ، قَامُوا فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِي فَأَعْطَيْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي شَيْئًا إِلا كَمَا يُنْقِصُ الْمِخْيَطُ إِذَا أُدْخِلَ فِي الْبَحْرِ»۔(صحيح مسلم كتاب البر، باب تحريم الظلم) ”اے میرے بندو! اگر تمہارے اوّل اور آخر اور اسی طرح تمام انسان اور جن، اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں، جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پرہزگار ہو، (یعنی کوئی بھی نافرمان نہ رہے) تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں اضافہ نہیں ہوگا اے میرے بندو! اگر تمہارے اول و آخر اور تمام انسان اور جن ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں، جو تم میں سب سے بڑا نافرمان اور فاجر ہو تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور آخر اور انسان و جن، سب ایک میدان میں جمع ہوجائیں اور مجھ سے سوال کریں، پس میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کر دوں تو اس سے میرے خزانے اور بادشاہی میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے“۔ فَسُبْحَانَهُ وَتعَالَى الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ۔
____________________
* مفسرین نے اس کے مختلف معانی بیان کئے ہیں مثلاً (1)انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہوں میں رکھ لئے اور کہا ہمارا تو صرف ایک ہی جواب ہے کہ ہم تمہاری رسالت کے منکر ہیں، (2)۔ انہوں نے اپنی انگلیوں سے اپنے مونہوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ خاموش رہو اور یہ جو پیغام لے کر آئے ہیں ان کی طرف توجہ مت کرو،(3)۔ انہوں نے اپنے ہاتھ رسولوں کے مونہوں پر استہزاءً اور تعجب کے طور پر رکھ لیے جس طرح کوئی شخص ہنسی ضبط کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ (4)۔ انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے رسولوں کے مونہوں پر رکھ کر کہا خاموش رہو، ۔(5)۔ بطور غیظ وغضب کے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں لے لیے جس طرح منافقین کی بابت دوسرے مقام پر آتا ہے«عَضُّوا عَلَيْكُمُ الأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ» (آل عمران:119)۔ ”وہ تم پر اپنی انگلیاں غیظ وغضب سے کاٹتے ہیں“۔ امام شوکانی اور امام طبری نے اسی آخری معنی کو ترجیح دی ہے۔
**- مُرِيبٌ یعنی ایسا شک، کہ جس سے نفس سخت قلق اور اضطراب میں مبتلا ہے۔
____________________
* یعنی تمہیں اللہ کے بارے میں شک ہے، جو آسمان و زمین کا خالق ہے۔ علاوہ ازیں وہ ایمان و توحید کی دعوت بھی صرف اس لئے دے رہا ہے کہ تمہیں گناہوں سے پاک کر دے۔ اس کے باوجود تم اس خالق ارض و سماء کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور اس کی دعوت سے تمہیں انکار ہے؟۔
**- یہ وہی اشکال ہے جو کافروں کو پیش آتا رہا کہ انسان ہو کر کس طرح کوئی وحی الٰہی اور نبوت و رسالت کا مستحق ہو سکتا ہے؟۔
***- یہ دوسری رکاوٹ ہے کہ ہم ان معبودوں کی عبادت کس طرح چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے آباء و اجداد کرتے رہے ہیں؟ جب کہ تمہارا مقصد ہمیں ان کی عبادت سے ہٹا کر اللہ واحد کی عبادت پر لگانا ہے۔
****- دلائل و معجزات تو ہر نبی کے ساتھ ہوتے تھے، اس سے مراد ایسی دلیل یا معجزہ ہے جس سے دیکھنے کے وہ آرزومند ہوتے تھے جیسے مشرکین مکہ نے حضور (صلى الله عليه وسلم) سے مختلف قسم کے معجزات طلب کئے تھے، جس کا تذکرہ بنی اسرائیل میں آئے گا۔
____________________
* رسولوں نے پہلے اشکال کا جواب دیا کہ یقینا ہم تمہارے جیسے بشر ہیں۔ لیکن تمہارا یہ سمجھنا غلط ہے کہ بشر رسول نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالٰی انسانوں کی ہدایت کے لئے انسانوں میں سے ہی بعض انسانوں کو وحی و رسالت کے لئے چن لیتا ہے اور تم سب میں سے یہ احسان اللہ نے ہم پر فرمایا ہے۔
**- ان کے حسب منشاء معجزے کے سلسلے میں رسولوں نے جواب دیا کہ معجزے کا صدور ہمارے اختیار میں نہیں، یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔
***- یہاں مومنیں سے مراد اولا خود انبیاء ہیں یعنی ہمیں سارا بھروسہ اللہ پر ہی رکھنا چاہیے جیسا کہ آگے فرمایا آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ رکھیں۔
____________________
* کہ وہی کفار کی شرارتوں اور سفاہتوں سے بچانے والا ہے۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہم سے معجزات طلب نہ کریں، اللہ پر توکل کریں، اس کی مشیت ہوگی تو معجزہ ظاہر فرما دے گا ورنہ نہیں۔
____________________
* جیسے اور بھی کئی مقامات پر اللہ تعالٰی نے فرمایا :«وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ * إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ * وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ» ( سورة الصافات: 171-173)۔ ”اور پہلے ہو چکا ہمارا حکم اپنے ان بندوں کے حق میں جو رسول ہیں کہ بیشک وہ منصور اور کامیاب ہونگے اور ہمارا لشکر بھی غالب ہوگا“ «كَتَبَ اللَّهُ لأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي» (المجادلة ۔21)۔ ”اور اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہونگے“۔
____________________
* یہ مضمون بھی اللہ نے کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے مثلاً، «وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ» (الأنبياء:105) ۔ ”ہم نے لکھ دیا زبور میں، نصیحت کے پیچھے کہ آخر زمین کے وارث ہوں گے میرے نیک بندے“۔ (مزید دیکھئے سورۃ الاعراف: 128، 137) چنانچہ اس کے مطابق اللہ تعالٰی نے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی مدد فرمائی، آپ کو با دل نخواستہ مکے سے نکلنا پڑا لیکن چند سالوں بعد ہی آپ فاتحانہ مکے میں داخل ہوئے اور آپ کو نکلنے پر مجبور کرنے والے ظالم مشرکین سر جھکائے، کھڑے آپ کے اشارہ ابرو کے منتظر تھے لیکن آپ (صلى الله عليه وسلم)نے خلق عظیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے «لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ» (یوسف:92) کہہ کر سب کو معاف فرما دیا۔ صَلَوَاتُ اللهِ وَسَلاَمُهُ عَلَيْهِ
**- جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔«وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى، فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى» ( النازعات: 40-41)۔ ”جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکے رکھا یقینا جنت اس کا ٹھکانہ ہے“۔ «وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ» (النازعات :46)۔ ”جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے دو جنتیں ہیں“۔
____________________
اس کا فاعل ظالم مشرک بھی ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے بالآخر اللہ سے فیصلہ طلب کیا۔ یعنی اگر یہ رسول سچے ہیں تو یا اللہ ہم کو اپنے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر دے جیسے مشرکین مکہ نے کہا «اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ» (الانفال:32) ”اور جب کہ ان لوگوں نے کہا، اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے“۔ جس طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین مکہ نے اس قسم کی آرزو کی تھی جس کا ذکر اللہ نے (انفال:19) میں کیا ہے یا اس کا فاعل رسول ہوں کہ انہوں نے اللہ سے فتح و نصرت کی دعائیں کیں، جنہیں اللہ نے قبول کیا۔
____________________
* صَدِیْد، پیپ اور خون جو جہنمیوں کے گوشت اور ان کی کھالوں سے بہا ہوگا۔ بعض احادیث میں اسے عُصَارَةُ أَهْلِ النَّارِ (ﻣﺴﻨﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﺟﻠﺪ ۔ ٥، ﺻﻔﺤﮧ ١٧١) (جہنمیوں کے جسم سے نچوڑا ہوا) اور بعض احادیث میں ہے یہ صدید اتنا گرم اور کھولتا ہوا ہوگا کہ ان کے منہ کے قریب پہنچتے ہی ان کے چہرے کی کھال جھلس کر گر پڑے گی اور اس کا ایک گھونٹ پیتے ہی ان کے پیٹ کی آنتیں پاخانے کے راستے باہر نکل پڑیں گی۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ
____________________
* یعنی انواع و اقسام کے عذاب چکھ چکھ کر وہ موت کی آرزو کرے گا۔ لیکن، موت وہاں کہاں؟ وہاں تو اسی طرح دائمی عذاب ہوگا۔
____________________
* قیامت والے دن کافروں کے عملوں کا بھی یہی حال ہوگا کہ اس کا کوئی اجر و ثواب انہیں نہیں ملے گا۔
____________________
* یعنی اگر تم نافرمانیوں سے باز نہ آئے تو اللہ تعالٰی اس پر قادر ہے کہ وہ تمہیں ہلاک کر کے، تمہاری جگہ نئی مخلوق پیدا کر دے۔
____________________
* یعنی سب میدان محشر میں اللہ کے ربرو ہوں گے، کوئی کہیں چھپ نہ سکے گا۔
**- بعض کہتے ہیں کہ جہنمی آپس میں کہیں گے کہ جنتیوں کو جنت اس لئے ملی کہ وہ اللہ کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے تھے، آؤ ہم بھی اللہ کی بارگاہ میں آہو زاری کریں چنانچہ وہ روئیں گے اور خوب آہو زاری کریں گے۔ لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، پھر کہیں گے کہ جنتیوں کو جنت ان کے صبر کرنے کی وجہ سے ملی، چلو ہم بھی صبر کرتے ہیں، وہ صبر کا بھرپور مظاہرہ کریں گے، لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا، پس اس وقت کہیں گے ہم صبر کریں یا جزع و فزع، اب چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں۔ یہ ان کی باہمی گفتگو جہنم کے اندر ہوگی۔ قرآن کریم میں اس کو اور بھی کئی جگہ بیان کیا گیا ہے مثلاً سورہ مؤمن (48-47) سورہ اعراف (39-38) سورہ الاحزاب (68-66) اس کے علاوہ آپس میں جھگڑیں گے بھی اور ایک دوسرے پر گمراہ کرنے کا الزام دھریں گے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ جھگڑا میدان محشر میں ہوگا۔ اس کی مزید تفصیل اللہ تعالٰی نے سورہ سبا (31 ۔ 33) میں بیان فرمائی ہے۔
____________________
* یعنی اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر و شرک جہنم میں چلے جائیں گے تو شیطان جہنمیوں سے کہے گا۔
**- اللہ نے جو وعدے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے کئے تھے کہ نجات میرے پیغمبروں پر ایمان لانے میں ہے۔ وہ حق پر تھے ان کے مقابلے میں میرے وعدے تو سراسر دھوکا اور فریب تھے۔ جس طرح اللہ نے فرمایا «يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلا غُرُورًا» ( النساء:120) ”شیطان ان سے وعدے کرتا ہے اور آرزوئیں دلاتا ہے لیکن شیطان کے یہ وعدے محض دھوکا ہیں“۔
***- دوسرا یہ کہ میری باتوں میں کوئی دلیل و حجت نہیں ہوتی تھی، نہ میرا کوئی دباؤ ہی تم پر تھا۔
****- ہاں میری دعوت اور پکار تھی، تم نے میری بےدلیل پکار کو مان لیا اور پیغمبروں کی دلیل و حجت سے بھرپور باتوں کو رد کر دیا۔
*****- اس لئے قصور سارا تمہارا اپنا ہی ہے تم نے عقل و شعور سے ذرا کام نہ لیا، دلائل واضحہ کو تم نے نظر انداز کر دیا، اور مجرد دعوے کے پیچھے لگ رہے، جس کی پشت پر کوئی دلیل نہیں۔
******- یعنی نہ میں تمہیں عذاب سے نکلوا سکتا ہوں جس میں تم مبتلا ہو اور نہ تم اس قہر و غضب سے مجھے بچا سکتے ہو جو اللہ کی طرف سے مجھ پر ہے۔
*******- مجھے اس بات سے بھی انکار ہے کہ میں اللہ کا شریک ہوں، اگر تم مجھے یا کسے اور کو اللہ کا شریک گردانتے رہے تو تمہاری اپنی غلطی اور نادانی تھی، جس اللہ نے ساری کائنات بنائی تھی اور اس کی تدبیر بھی وہی کرتا رہا، بھلا اس کا کوئی شریک کیونکر ہو سکتا تھا۔
********- بعض کہتے ہیں کہ یہ جملہ بھی شیطان ہی کا ہے اور یہ اس کے مذکورہ خطبے کا تتمہ ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ شیطان کا کلام مِنْ قَبْلُ پر ختم ہوگیا، یہ اللہ کا کلام ہے۔
____________________
* یہ اہل شقاوت و اہل کفر کے مقابلے میں اہل سعادت اور اہل ایمان کا تذکرہ ہے۔ ان کا ذکر ان کے ساتھ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کے اندر اہل ایمان والا کردار اپنانے کا شوق و رغبت پیدا ہو۔
**- یعنی آپس میں ان کا تحفہ ایک دوسرے کو سلام کرنا ہوگا۔ علاوہ ازیں فرشتے بھی ہر ہر دروازے سے داخل ہو ہو کر انہیں سلام عرض کریں گے۔
____________________
* اس کا مطلب ہے کہ مومن کی مثال اس درخت کی طرح ہے، جو گرمی ہو یا سردی ہر وقت پھل دیتا ہے۔ اسی طرح مومن کے اعمال صالحہ شب و روز کے لمحات میں ہر آن اور ہر گھڑی آسمان کی طرف لے جائے جاتے ہیں، كَلِمَةٌ طَيِّبَةٌسے اسلام، یا لا اِلٰہ الا اللہ اور شجرہ طیبہ سے کھجور کا درخت مراد ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ ( صحيح بخاري، كتاب العلم، باب الفهم في العلم، ومسلم، كتاب صفة القيامة، باب مثل المؤمن مثل النخلة)
____________________
* کلمئہ خبیثہ سے مراد کفر اور شجرہ خبیثہ سے حنظل (اندرائن) کا درخت مراد ہے۔ جس کی جڑ زمین کے اوپر ہی ہوتی ہے اور ذرا سے اشارے سے اکھڑ جاتی ہے۔ یعنی کافر کے اعمال بالکل بےحیثیت۔ نہ وہ آسمان پر چڑھتے ہیں، نہ اللہ کی بارگاہ میں وہ قبولیت کا درجہ پاتے ہیں۔
____________________
* اس کی تفسیر حدیث میں اس طرح آتی ہے کہ ”موت کے بعد قبر میں جب مسلمان سے سوال کیا جاتا ہے، تو وہ جواب میں اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلى الله عليه وسلم) اللہ کے رسول ہیں“۔ پس یہی مطلب ہے اللہ کے فرمان، «يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا» کا (صحيح بخاري، تفسير سورة إبراهيم، وصحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها، باب عرض مقعد الميت عليه وإثبات عذاب القبر) ایک اور حدیث میں ہے کہ ”جب بندے کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی چلے جاتے ہیں اور وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے۔ پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے اٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تیری کیا رائے ہے، وہ مومن ہوتا ہے تو جواب دیتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ فرشتے اسے جہنم کا ٹھکانا دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ نے اس کی جگہ تیرے لئے جنت میں ٹھکانا بنا دیا ہے۔ پس وہ دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے اور اس کی قبر ستر ہاتھ کشادہ کر دی جاتی ہے اور اس کی قبر کو قیامت تک نعمتوں سے بھر دیا جاتا ہے“۔ (صحیح مسلم، باب مذکور) ایک اثر میں ہے، اس سے پوچھا جاتا ہے «مَنْ رَبُّكَ؟ مَا دِينُكَ ؟ مَنْ نَبِيُّكَ؟»۔ ”تیرا رب کون ہے، تیرا دین کیا ہے اور تیرا پیغمبر کون ہے“؟ پس اللہ تعالٰی اسے ثابت قدمی عطا فرماتا ہے اور وہ جواب دیتا ہے رَبِّی اللّٰہُ (میرا رب اللہ ہے)، وَ دِیْنِیَ الاِ سْلَامُ (میرا دین اسلام ہے) وَ نَبِیِّی مُحَمَّد (اور میرے پیغمبر محمد صلى الله عليه وسلم ہیں) (تفسیر ابن کثیر)
____________________
* اس کی تفسیر صحیح بخاری میں ہے کہ اس سے مراد کفار مکہ ہیں، جنہوں نت رسالت محمدیہ کا انکار کر کے اور جنگ بدر میں مسلمانوں سے لڑ کر اپنے لوگوں کو ہلاک کروایا، تاہم اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ عام ہے اور مطلب یہ ہوگا کہ حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) کو اللہ تعالٰی نے رحمتہ للعالمین اور لوگوں کے لئے نعمت الٰہیہ بنا کر بھیجا، پس جس نے اس نعمت کی قدر کی، اسے قبول کیا، اس نے شکر ادا کیا، وہ جنتی ہوگیا اور جس نے اس نعمت کو رد کر دیا اور کفر اختیار کیے رکھا، وہ جہنمی قرار پایا۔
____________________
* یہ تہدید و توبیخ ہے کہ دنیا میں تم جو کچھ چاہو کر لو، مگر کب تک؟ بالآخر تمہارا ٹھکانا جہنم ہے۔
____________________
* نماز کو قائم کرنے کا مطلب ہے کہ اسے اپنے وقت پر اور نماز کو ٹھیک طریقہ کے ساتھ اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے، جس طرح کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی سنت ہے۔ انفاق کا مطلب ہے زکوۃ ادا کی جائے، اقارب کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے اور دیگر ضرورت مندوں پر احسان کیا جائے یہ نہیں کہ صرف اپنی ذات اور اپنی ضروریات پر تو بلا دریغ خوب خرچ کیا جائے۔ اور اللہ تعالٰی کی بتلائی ہوئی جگہوں پر خرچ کرنے سے گریز کیا جائے۔ قیامت کا دن ایسا ہوگا کہ جہاں نہ خرید و فروخت ممکن ہوگی نہ کوئی دوستی ہی کسی کام آئے گی۔
____________________
* اللہ تعالٰی نے مخلوقات پر جو انعامات کئے ہیں، ان میں بعض کا تذکرہ یہاں کیا جا رہا ہے۔ فرمایا آسمان کو چھت اور زمین کو بچھونا بنایا۔ آسمان سے بارش نازل فرما کر مختلف قسم کے درخت اور فصلیں اگائیں جن میں لذت و قوت کے لئے میوے اور فروٹ بھی ہیں اور انواع و اقسام کے غلے بھی جن کے رنگ اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ذائقے اور خوشبو اور فوائد بھی مختلف ہیں۔ کشتیوں اور جہازوں کو خدمت میں لگا دیا کہ وہ تلاطم خیز موجوں پر چلتے ہیں، انسانوں کو بھی ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچاتے ہیں اور سامان تجارت بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔ زمینوں اور پہاڑوں سے چشمے اور نہریں جاری کر دیں تاکہ تم بھی سیراب ہو اور اپنے کھیتوں کو بھی سیراب کرو۔
____________________
* یعنی مسلسل چلتے رہتے ہیں، کبھی ٹھرتے نہیں رات کو، نہ دن کو۔ علاوہ ازیں ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ہیں لیکن کبھی ان کا باہمی تصادم اور ٹکراؤ نہیں ہوتا۔
**- رات اور دن، ان کا باہمی تفاوت جاری رہتا ہے، کبھی رات، دن کا کچھ حصہ لے کر لمبی ہو جاتی ہے اور کبھی دن، رات کا کچھ حصہ لے کر لمبا ہو جاتا ہے۔ اور یہ سلسلہ ابتدائے کائنات سے چل رہا ہے، اس میں ایک رائی فرق نہیں آیا۔
____________________
* یعنی اس نے تمہاری ضرورت کی تمام چیزیں مہیا کیں جو تم اس سے طلب کرتے ہو، وہ بھی دیتا ہے اور جسے نہیں مانگتے، لیکن اسے پتہ ہے کہ وہ تمہاری ضرورت ہے، وہ بھی دے دیتا ہے۔ غرض تمہیں زندگی گزارنے کی تمام سہولتیں فراہم کرتا ہے۔
**- یعنی اللہ کی نعمتیں ان گنت ہیں انہیں کوئی شمار میں نہیں لا سکتا۔ چہجائیکہ کوئی ان نعمتوں کے شکر کا حق ادا کرسکے۔ ایک اثر میں حضرت داؤد (عليه السلام) کا قول نقل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ' اے رب! میں تیرا شکر کس طرح ادا کروں؟ جب کہ شکر بجائے خود تیری طرف سے مجھ پر ایک نعمت ہے ' اللہ تعالٰی نے فرمایا ' اے داؤد اب تو نے میرا شکر ادا کر دیا جب کہ تو نے اعتراف کر لیا کہ یا اللہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہوں ' (تفسیر ابن کثیر)
***- اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے سے غفلت کی وجہ سے انسان اپنے نفس کے ساتھ ظلم اور بے انصافی کرتا ہے۔ بالخصوص کافر، جو بالکل ہی اللہ سے غافل ہے۔
____________________
* ”اس شہر“ سے مراد مکہ ہے۔ دیگر دعاؤں سے قبل یہ دعا کی کہ اسے امن والا بنا دے، اس لئے کہ امن ہوگا تو لوگ دوسری نعمتوں سے بھی صحیح معنوں میں فائدہ اٹھا سکیں گے، ورنہ امن و سکون کے بغیر تمام آسائشوں اور سہولتوں کے باوجود، خوف اور دہشت کے سائے انسان کو مضطرب اور پریشان رکھتے ہیں۔ جیسے آجکل کے عام معاشروں کا حال ہے۔ سوائے سعودی عرب کے۔ وہاں اس دعا کی برکت سے اور اسلامی حدود کے نفاذ سے آج بھی ایک مثالی امن قائم ہے۔ صَانَهَا اللهُ عَنِ الشُّرُورِ وَالْفِتَنِ۔ یہاں انعامات الہیہ کے ضمن میں اسے بیان فرما کر اشارہ کر دیا کہ قریش جہاں اللہ کے دیگر انعامات سے غافل ہیں اس خصوصی انعام سے بھی غافل ہیں کہ اس نے انہیں مکہ جیسے امن والے شہر کا باشندہ بنایا۔
____________________
* گمراہ کرنے کی نسبت ان پتھروں کی مورتیوں کی طرف جن کی مشرکین عبادت کرتے تھے، باوجود اس بات کے کہ وہ غیر عاقل ہیں، کیونکہ وہ گمراہی کا باعث تھیں اور ہیں۔
____________________
* مِنْ ذُرِّیَّتِیْ میں مِن اولاد کے لئے ہے۔ یعنی بعض کہتے ہیں حضرت ابراہم (عليه السلام) کے آٹھ صلبی بیٹے تھے، جن میں سے صرف حضرت اسماعیل (عليه السلام) کو یہاں بسایا (فتح القدیر)
**- عبادت میں صرف نماز کا ذکر کیا، جس سے نماز کی اہمیت واضح ہے۔
***- یہاں بھی اولاد کے لئے ہے۔ کہ کچھ لوگ، مراد اس سے مسلمان ہیں۔ چنانچہ دیکھ لیجئے کہ کس طرح دنیا بھر کے مسلمان مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں اور حج کے علاوہ بھی سارا سال یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگر حضرت ابراہیم (عليه السلام) أَفْئِدَةَ النَّاس ِ (لوگوں کے دلوں) کہتے تو عیسائی، یہودی، مجوسی اور دیگر تمام لوگ مکہ پہنچتے۔ مِنَ النَّاسِ کے مِنْ نے اس دعا کو مسلمانوں تک محدود کر دیا (ابن کثیر)
****- اس دعا کی تاثیر بھی دیکھ لی جائے کہ مکہ جیسی بےآب و گیاہ سرزمین میں جہاں کوئی پھلدار درخت نہیں، دنیا بھر کے پھل اور میوے نہایت فراوانی کے ساتھ مہیا ہیں حج کے موقع پر بھی، جب لاکھوں افراد مزید وہاں پہنچ جاتے ہیں، پھلوں کی فراوانی میں کوئی کمی نہیں آتی، وَهَذَا مِنْ لُطْفِ اللهِ تَعَالَى وَكَرَمِهِ وَرَحْمَتِه وَبَرَكَتِهِ، اسْتِجَابَةً لِخَلِيلِهِ إِبْرَاهِيمَ - عَلَيْه السَّلام کہا جاتا ہے کہ یہ دعا خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد مانگی۔ جب کہ پہلی دعا اس وقت مانگی، جب اپنی اہلیہ اور شیر خوار بچے اسماعیل کو اللہ تعالٰی کے حکم پر وہاں چھوڑ کر چلے گئے (ابن کثیر)
____________________
* مطلب یہ ہے کہ میری دعا کے مقصد کو تو بخوبی جانتا ہے، اس شہر کے لئے دعا سے اصل مقصد تیری رضا ہے تو تو ہرچیز کی حقیقت کو خوب جانتا ہے، آسمان و زمین کی کوئی چیز تجھ سے پوشیدہ نہیں۔
____________________
* اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لئے بھی دعا مانگی، جیسے اس سے قبل بھی اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لئے بھی دعا مانگی کہ انہیں پتھر کی مورتیوں کو پوجنے سے بچا رکھنا۔ جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے دین کے داعیوں کو اپنے گھر والوں کی ہدایت اور ان کی دینی تعلیم و تربیت سے غافل نہیں رہنا چاہیے تبلیغ و دعوت میں انہیں اولیت دینی چاہیے جیسا کہ اللہ تعالٰی نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) کو بھی حکم دیا«وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ» (الشعراء:214) ”اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے“۔
____________________
* حضرت ابراہیم (عليه السلام) نے یہ دعا اس وقت کی جب کہ ابھی ان پر اپنے ماں باپ کا عَدُوُّ الله ِ ہونا واضح نہیں ہوا تھا، جب یہ واضح ہوگیا کہ میرا باپ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے اظہار سبکدوشی کر دیا۔ اس لئے کہ مشرکین کے لئے دعا کرنا جائز نہیں چاہے وہ قرابت قریبہ ہی کیوں نہ رکھتے ہوں۔
____________________
* یعنی قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے۔ اگر دنیا میں اگر اللہ نے کسی کو زیادہ مہلت دے دی اور اس کے مرنے تک اس کا مواخذہ نہیں کیا تو قیامت کے دن تو وہ مواخذہ الٰہی سے نہیں بچ سکے گا، جو کافروں کے لئے اتنا ہولناک دن ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔
____________________
* مُهْطِعِينَ، تیزی سے دوڑ رہے ہونگے۔ دوسرے مقام پر فرمایا، مھطعین الی الداع۔ القمر بلانے والے کی طرف دوڑیں گے اور حیرت سے ان کے سر اٹھے ہوئے ہونگے۔
**- جو ہولناکیاں وہ دیکھیں گے اور جو فکر اور خوف اپنے بارے میں انہیں ہوگا، ان کے پیش نظر ان کی آنکھیں ایک لمحہ کے لئے بھی پست نہیں ہونگی اور کثرت خوف سے ان کے دل گرے ہوئے اور خالی ہونگے۔
____________________
* یعنی دنیا میں تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ کوئی حساب کتاب اور جنت دوزخ نہیں، دوبارہ کسے زندہ ہونا ہے۔
____________________
* یعنی عبرت کے لئے ہم نے تو ان کی پچھلی قوموں کے واقعات بیان کر دیئے ہیں، جن کے گھروں میں تم آباد ہو اور ان کے کھنڈرات بھی تمہیں دعوت غور و فکر دے رہے ہیں۔ اگر تم نے ان سے عبرت حاصل نہیں کی اور ان کے انجام سے بچنے کی فکر نہ کرو تو تمہاری مرضی۔ پھر تم بھی اسی انجام کے لئے تیار رہو۔
____________________
* یہ جملہ حالیہ ہے کہ ہم نے ان کے ساتھ جو کیا وہ کیا، درآنحالیکہ انہوں نے باطل کے اثبات اور حق کے رد کرنے کے لئے مقدور بھر حیلے اور مکر کیے اور اللہ کو ان تمام چالوں کا علم ہے یعنی اس کے پاس درج ہے جس کی وہ ان کو سزا دے گا۔
**- کیونکہ اگر پہاڑ ٹل گئے ہوتے تو اپنی جگہ برقرار نہ ہوتے، جب کہ سب پہاڑ اپنی اپنی جگہ ثابت اور برقرار ہیں۔ یہ ان نافیہ کی صورت میں ہے دوسرے معین ان مخففۃ من المثقلۃ کے لیے گئے ہیں یعنی یقینا ان کے مکر تو اتنے بڑے تھے کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جاتے یہ تو اللہ تعالٰی ہی ہے جس نے ان کے مکروں کو کامیاب نہیں ہوتے دیا جیسے مشریکن کے شرک کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا۔ «تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا * أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا» (سورة مريم: 90-91)۔ ”قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں اس بات پر کہ انہوں نے کہا اللہ رحمٰن کی اولاد ہے“۔
____________________
* یعنی اللہ نے اپنے رسولوں سے دنیا اور آخرت میں مدد کرنے کا جو وعدہ کیا ہے، وہ یقینا ایسا ہے، اس سے وعدہ خلافی ممکن نہیں۔
**- یعنی اپنے دوستوں کے لئے اپنے دشمنوں سے بدلہ لینے والا ہے۔
____________________
* امام شوکانی فرماتے ہیں کہ آیت میں دونوں احتمال ہیں کہ یہ تبدیلی صفات کے لحاظ سے ہو یا ذات کے لحاظ سے۔ یعنی یہ آسمان و زمین اپنے صفات کے اعتبار سے بدل جائیں گے یا ویسے ہی ذاتی طور پر یہ تبدیلی آئے گی، نہ زمین رہے گی اور نہ یہ آسمان۔ زمین بھی کوئی اور ہوگی اور آسمان بھی کوئی اور۔ حدیث میں آتا ہے، رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا :«يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى أَرْضٍ بَيْضَاءَ عَفْرَاءَ، كَقُرْصَةِ النَّقِيِّ لَيْس فِيهَا عَلَمٌ لأحَدٍ»۔ (صحيح مسلم، صفة القيامة، باب في البعث والنشور) « قیامت والے دن لوگ سفید بھوری زمین پر اکھٹے ہونگے جو میدہ کی روٹی کی طرح ہوگی۔ اس میں کسی کا کوئی جھنڈا (یا علامتی نشان) نہیں ہوگا»۔ حضرت عائشہ رضی اللہ نے پوچھا کہ جب یہ آسمان و زمین بدل دئیے جائیں گے تو پھر لوگ اس دن کہاں ہونگے؟ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”صراط پر“ یعنی پل صراط پر (حوالہ مذکور) ایک یہودی کے پوچھنے پر آپ نے فرمایا کہ ”لوگ اس دن پل کے قریب اندھیرے میں ہونگے“۔ (صحيح مسلم، كتاب الحيض، باب بيان صفة مني الرجل)
____________________
* جو آگ سے فوراً بھڑک اٹھتی ہے۔ علاوہ ازیں آگ نے ان کے چہروں کو بھی ڈھانپا ہوگا۔
____________________
* یہ اشارہ قرآن کی طرف ہے، یا پچھلی تفصیلات کی طرف جو «وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا» (ابراہیم: 42) سے بیان کی گئی ہیں۔