ﰡ
____________________
* اس سے مراد ہوائیں ہیں جو مٹی کو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں۔
____________________
* وَقْرٌ ہر وہ بوجھ جسے کوئی جاندار لے کر چلے، حاملات سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو اٹھائے ہوئے ہیں، یاپھر وہ بادل ہیں جو پانی کا بوجھ اٹھائے ہوتے ہیں جیسےچوپائے، حمل کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
____________________
* جَارِيَاتٌ، پانی میں چلنے والی کشتیاں، يُسْرًا آسانی سے۔
____________________
* مُقَسِّمَاتٌ اس سےمراد وہ فرشتے ہیں جو کاموں کو تقسیم کر لیتے ہیں۔ کوئی رحمت کا فرشتہ ہے تو کوئی عذاب کا، کوئی پانی کا ہے تو کوئی سختی (قحط سالی وغیرہ) کا، کوئی ہواؤں کا فرشتہ ہے تو کوئی موت اور حوادث کا۔ بعض نے ان سب سے صرف ہوائیں مراد لی ہیں اور ان سب کو ہواؤں کی صفت بنایا ہے، جیسے فاضل مترجم نے بھی اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ لیکن ہم نے امام ابن کثیر اور امام شوکانی کی تفسیر کے مطابق تشریح کی ہے۔ قسم سے مقصد مقسم علیہ کی سچائی کو بیان کرنا ہوتا ہے یا بعض دفعہ صرف تاکید مقصود ہوتی ہے اور بعض دفعہ مقسم علیہ کو دلیل کے طور پر پیش کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یہاں قسم کی یہی تیسری قسم ہے۔ آگے جواب قسم یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم سے جو وعدے کیے جاتے ہیں یقیناً وہ سچے ہیں اور قیامت برپا ہو کر رہے گی جس میں انصاف کیا جائے گا۔ یہ ہواؤں کا چلنا، بادلوں کا پانی کو اٹھانا، سمندروں میں کشتیوں اور فرشتوں کا مختلف امور کو سرانجام دینا، قیامت کے وقوع پر دلیل ہے، کیونکہ جو ذات یہ سارےکام کرتی ہے جو بظاہر نہایت مشکل اور اسباب عادیہ کےخلاف ہیں، وہی ذات قیامت والے دن تمام انسانون کو دوبارہ زندہ بھی کر سکتی ہے۔
____________________
* دوسرا ترجمہ، حسن وجمال اور زینت ورونق والا کیا گیا ہے، چاند، سورج، کواکب وسیارات، روشن ستارے، اس کی بلندی اور وسعت، یہ سب چیزیں آسمان کی رونق وزینت اور خوب صورتی کا باعث ہیں۔
____________________
* یعنی اے اہل مکہ ! تمہارا کسی بات میں آپس میں اتفاق نہیں ہے۔ ہمارے پیغمبر کو تم میں سے کوئی جادوگر، کوئی شاعر، کوئی کاﮨﻦ اور کوئی کذاب کہتا ہے۔ اسی طرح کوئی قیامت کی بالکل نفی کرتاہے، کوئی شک کا اظہار، علاوہ ازیں ایک طرف اللہ کے خالق اور رازق ہونے کا اعتراف کرتے ہو، دوسری طرف دوسروں کو بھی معبود بنا رکھا ہے۔
____________________
* یعنی نبی (صلى الله عليه وسلم) پر ایمان لانے سے، یا حق سےیعنی بعث وتوحید سے یا مطلب ہے مذکورہ اختلاف سے وہ شخص پھیر دیا گیا جسے اللہ نے اپنی توفیق سے پھیر دیا، پہلے مفہوم میں ذم ہے۔ دوسرے میں مدح۔
____________________
* يُفْتَنُونَ کے معنی ہیں يُحَرَّقُونَ وَيُعَذَّبُونَ، جس طرح سونے کو آگ میں ڈال کر جانچا پرکھا جاتا ہے، اسی طرح یہ آگ میں ڈالے جائیں گے۔
____________________
* فِتْنَةٌ، بمعنی عذاب یا آگ میں جلنا۔
____________________
* هُجُوعٌ کے معنی ہیں، رات کو سونا، مَا يَهْجَعُونَ میں ما تاکید کے لئے ہے۔ وہ رات کو کم سوتے تھے، مطلب ہے ساری رات سو کر غفلت اور عیش وعشرت میں نہیں گزار دیتے تھے۔ بلکہ رات کا کچھ حصہ اللہ کی یاد میں اور اس کی بارگاہ میں گڑگڑاتے ہوئے گزارتے تھے۔ جیسا کہ احادیث میں بھی قیام اللیل کی تاکید ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں فرمایا ”لوگو ! لوگوں کو کھانا کھلاؤ، صلۂ رحمی کرو، سلام پھیلاؤ اور رات کو اٹھ کر نماز پڑھو، جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے“۔ (مسند احمد 5/ 451)۔
____________________
* وقت سحر، قبولیت دعا کے بہترین اوقات میں سے ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ (جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور ندا دیتا ہے کہ کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ میں اس کی توبہ قبول کروں؟ کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسےبخش دوں، کوئی سائل ہے کہ میں اس کے سوال کو پورا کر دوں۔ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔ (صحيح مسلم، كتاب صلاة المسافرين، باب الترغيب في الدعاء والذكر في آخر الليل والإجابة فيه)۔
____________________
* محروم سے مراد، وہ ضرورت مند ہے جو سوال سے اجتناب کرتا ہے۔ چنانچہ مستحق ہونے کے باوجود لوگ اسے نہیں دیتے۔ یا وہ شخص ہے جس کا سب کچھ، آفت ارضی وسماوی میں، تباہ ہو جائے۔
____________________
* یعنی بارش بھی آسمان سے ہوتی ہے جس سے تمہارا رزق پیدا ہوتا ہے اور جنت دوزخ ثواب وعتاب بھی آسمانوں میں ہے جن کا وعدہ کیا جاتا ہے۔
____________________
* إِنَّهُ میں ضمیر کا مرجع (یہ) وہ امور وآیات ہیں جو مذکور ہوئیں۔
____________________
* هَلْ استفہام کے لئے ہے جس میں نبی (صلى الله عليه وسلم) کو یہ تنبیہ ہے کہ اس قصے کا تجھے علم نہیں، بلکہ ہم تجھے وحی کے ذریعے سے مطلع کر رہے ہیں۔
____________________
* یہ اپنے جی میں کہا، ان سے خطاب کرکے نہیں کہا۔
____________________
* یعنی سامنے رکھنےکے باوجود انہوں نے کھانے کی طرف ہاتھ ہی نہیں بڑھایا تو پوچھا۔
____________________
* ڈر اس لئے محسوس کیا کہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) سمجھے، یہ کھانا نہیں کھا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آنے والے کسی خیر کی نیت سے نہیں بلکہ شر کی نیت سے آئے ہیں۔
**- حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے چہرے پر خو ف کے آثار دیکھ کر فرشتوں نے کہا۔
____________________
* صَرَّةٍ کے دوسرے معنی ہیں چیخ وپکار، یعنی چیختے ہوئے کہا۔
____________________
* یعنی جس طرح ہم نے تجھے کہا ہے، یہ ہم نے اپنی طرف سے نہیں کہا ہے، بلکہ تیرے رب نے اسی طرح کہا ہے جس کی ہم تجھے اطلاع دے رہے ہیں، اس لئے اس پر تعجب کی ضرورت ہے نہ شک کرنے کی، اس لئے کہ اللہ جو چاہتا ہے وہ لامحالہ ہو کر رہتا ہے۔
____________________
* خَطْبٌ شان قصہ۔ یعنی اس بشارت کے علاوہ تمہارا اورکیا کام اور مقصد ہے جس کے لیے تمہیں بھیجا گیا ہے۔
____________________
* اس سےمراد قوم لوط ہے جن کا سب سے بڑا جرم لواطت تھا۔
____________________
* برسائیں کا مطلب ہے، ان کنکریوں سے انہیں رجم کردیں۔ یہ کنکریاں خالص پتھر کی تھیں نہ آسمانی اولے تھے، بلکہ مٹی کی بنی ہوئی تھیں۔
____________________
- مُسَوَّمَةً (نامزد یا نشان زدہ) ان کی مخصوص علامت تھی جن سے انہیں پہچان لیا جاتا تھا، یا وہ عذاب کےلیے مخصوص تھیں، بعض کہتے ہیں کہ جس کنکری سے جس کی موت واقع ہونی تھی، اس پر اس کا نام لکھا ہوتا تھا مُسْرِفِينَ جو شرک و ضلالت میں بڑھے ہوئے اور فسق و فجور میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔
____________________
* یعنی عذاب آنے سے قبل ہم نے ان کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا تھا تاکہ وہ عذاب سے محفوظ رہیں۔
____________________
* اور یہ اللہ کے پیغمبر حضرت لوط (عليه السلام) کاگﮭر تھا، جس میں ان کی دو بیٹیاں اور کچھ ان پر ایمان لانے والے تھے۔ کہتے ہیں یہ کل تیرہ آدمی تھے ان میں حضرت لوط (عليه السلام) کی بیوی شامل نہیں تھی۔ بلکہ وہ اپنی قوم کے ساتھ عذاب سے ہلاک ہونے والوں میں سے تھی۔ (ایسر التفاسیر) اسلام کے معنی ہیں، اطاعت و انقیاد۔ اللہ کے حکموں پر سر اطاعت خم کر دینے والا مسلم ہے، اس اعتبار سے ہر مومن، مسلمان ہے۔ اسی لیےپہلے ان کے لیے مومن کا لفظ استعمال کیا، اور پھر ان ہی کے لیے مسلم کا لفظ بولا گیا ہے۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ ان کے مصداق میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جیساکہ بعض لوگ مومن اور مسلم کے درمیان کرتے ہیں۔ قرآن نے جو کہیں مومن اور کہیں مسلم کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ ان معانی کے اعتبار سے ہے جو عربی لغت کی رو سے ان کے درمیان ہے۔ اس لیےلغوی استعمال کے مقابلے میں حقیقت شرعیہ کا اعتبار زیادہ ضروری ہے اور حقیقت شرعیہ کے اعتبارسےان کے درمیان صرف وہی فرق ہے جو حدیث جبرائیل (عليه السلام) سے ثابت ہے۔ جب نبی (صلى الله عليه وسلم) سے پوچھا گیا کہ اسلام کیا ہے۔ تو آپ نے فرمایا، لا الہٰ الا اللہ کی شہادت، اقامت صلوۃ، ایتائے زکوٰۃ، حج اور صیام رمضان۔ اور جب ایمان کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا؟ ”اللہ پر ایمان لانا، اس کے ملائکہ، کتابوں، رسولوں اور تقدیر (خیر وشر کے من جانب اللہ ہونے) پر ایمان رکھنا“ یعنی دل سے ان چیزوں پر یقین رکھنا ایمان اور احکام و فرائض کی ادائیگی اسلام ہے۔ اس لحاظ سے ہر مومن، مسلمان اورہر مسلمان مومن ہے (فتح القدیر) اور جو مومن اورمسلم کے درمیان فرق کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہےکہ یہاں قرآن نے ایک ہی گروہ کے لیے مومن اور مسلم کے الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن ان کے درمیان جو فرق ہے اس کی رو سےہر مومن، مسلم بھی ہے، تاہم ہرمسلم کا مومن ہونا ضروری نہیں (ابن کثیر) بہرحال یہ ایک علمی بحث ہے فریقین کے پاس اپنے اپنے موقف پر استدلال کےلیے دلائل موجود ہیں۔
____________________
* یہ آیت یا کامل علامت وہ آثار عذاب ہیں جو ان ہلاک شدہ بستیوں میں ایک عرصے تک باقی رہے۔ اور یہ علامت بھی انہی کے لیے ہیں جو عذاب الٰہی سے ڈرنے والے ہیں، کیونکہ وعظ ونصیحت کا اثر بھی وہی قبول کرتے اور آیات میں غور وفکر بھی وہی کرتے ہیں۔
____________________
* جانب اقویٰ کو رکن کہتے ہیں۔ یہاں مراد اس کی اپنی قوت اور لشکر ہے۔
____________________
* یعنی اس کے کام ہی ایسے تھے کہ جن پر وہ ملامت کامﺴتﺤﻖ تھا۔
____________________
* أَيْ : تَرَكْنَا فِي قِصَّةِ عَادٍ آيَةً عاد کے قصے میں بھی ہم نے نشانی چھوڑی۔
**- الرِّيحَ الْعَقِيمَ (بانجھ ہوا) جس میں خیر وبرکت نہیں تھی، وہ ہوا درختوں کو ثمر آور کرنے والی تھی نہ بارش کی پیامبر، بلکہ صرف ہلاکت اور عذاب کی ہوا تھی۔
____________________
* یہ اس ہوا کی تاثیر تھی جو قوم عاد پر بطور عذاب بھیجی گئی تھی۔ یہ تند وتیز ہوا، سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی (الحاقة)۔
____________________
* یعنی جب انہوں نے اپنے ہی طلب کردہ معجزے اوٹنی کو قتل کر دیا، تو ان کو کہہ دیا گیا کہ اب تین دن اور تم دنیا کے مزے لوٹ لو، تین دن کے بعد تم ہلاک کر دیے جاؤ گے یہ اسی طرف اشارہ ہے۔ بعض نے اسےحضرت صالح (عليه السلام) کی ابتدائے نبوت کا قول قرار دیا ہے۔ الفاظ اس مفہوم کے بھی متحمل ہیں بلکہ سیاق سے یہی معنی زیادہ قریب ہیں۔
____________________
* یہ صَاعِقَةٌ (کڑاکا) آسمانی چیخ تھی اور اس کے ساتھ نیچے سے رَجْفَةٌ (زلزلہ) تھا جیساکہ سورۂ اعراف 78 میں ہے۔
____________________
* چہ جائیکہ وہ بھاگ سکیں۔
**- یعنی اللہ کے عذاب سے اپنےآپ کو نہیں بچا سکے۔
____________________
* قوم نوح، عاد، فرعون اور ثمود وغیرہ سے پہلے گزری ہے۔ اس نے بھی اطاعت الٰہی کے بجائے اس کی بغاوت کا راستہ اختیار کیا تھا۔ بالآخر طوفان میں ڈبو دیا گیا۔
____________________
* السَّمَاءَ منصوب ہے۔ بَنَيْنَا محذوف کی وجہ سے بَنَيْنَا السَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا۔
**- یعنی آسمان پہلے ہی بہت وسیع ہے لیکن ہم اس کو اس سے بھی زیادہ وسیع کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یا آسمان سےبارش برساکر روزی کشادہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں یا مُوسِعٌ کو وُسْعٌ سے قرار دیاجائے۔ (طاقت وقدرت رکھنے والے) تومطلب ہوگا کہ ہمارے اندر اس جیسے اور آسمان بنانے کی بھی طاقت موجودہے۔ ہم آسمان و زمین بناکر تھک نہیں گئے ہیں بلکہ ہماری قدرت و طاقت کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔
____________________
* یعنی فرش کی طرح اسےبچھا دیا۔
____________________
* یعنی ہر چیز کو جوڑا جوڑا، نر اور مادہ یا اس کی مقابل اور ضد کو بھی پیدا کیا ہے۔ جیسے روشنی اور اندھیرا، خشکی اور تری، چاند اور سورج، میٹھا اور کڑوا، رات اور دن، خیر اور شر، زندگی اور موت، ایمان اور کفر، شقاوت اور سعادت، جنت اور دوزخ، جن وانس وغیرہ، حتیٰ کہ حیوانات (جاندار) کے مقابل، جمادات (بے جان) اس لیے ضروری ہے کہ دنیاکا بھی جوڑا ہو یعنی آخرت، دنیا کے بالمقابل دوسری زندگی۔
**- یہ جان لو کہ ان سب کا پیدا کرنے والا صرف ایک اللہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
____________________
* یعنی کفر و معصیت سے توبہ کر کے فوراً بارگاہ الٰہی میں جھک جاؤ، اس میں تاخیر مت کرو۔
____________________
* یعنی میں تمہیں کھول کھول کر ڈرا رہا اور تمہاری خیرخواہی کر رہا ہوں کہ صرف ایک اللہ کی طرف رجوع کرو، اسی پر اعتماد اور بھروسہ کرو اور صرف اسی ایک کی عبادت کرو، اس کےساتھ دوسرے معبودوں کو شریک مت کرو۔ ایسا کرو گے تو یاد رکھنا، جنت کی نعمتوں سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاؤ گے۔
____________________
* یعنی ہر بعد میں آنے والی قوم نے اس طرح رسولوں کی تکذیب کی اور انہیں جادوگر اور دیوانہ قرار دیا، جیسے پچھلی قومیں بعد میں آنے والی قوموں کے لیے وصیت کر کے جاتی رہی ہیں۔ یکے بعد دیگرے ہر قوم نے یہی تکذیب کا راستہ اختیار کیا۔
____________________
* یعنی ایک دوسرے کو وصیت تو نہیں کی بلکہ ہر قوم ہی اپنی اپنی جگہ سرکش ہے، اس لیے ان سب کے دل بھی متشابہ ہیں اور ان کے طور اطوار بھی ملتے جلتے۔ اس لیے متاخرین نے بھی وہی کچھ کہا اور کیا جو متقدمین نے کہا اور کیا۔
____________________
* اس لیے کہ نصیحت سے فائدہ انہیں کو پہنچتا ہے۔ یا مطلب ہے کہ آپ نصیحت کرتے رہیں، اس نصیحت سے وہ لوگ یقیناً فائدہ اٹھائیں گے جن کی بابت اللہ کے علم میں ہے کہ وہ ایمان لائیں گے۔
____________________
* اس میں اللہ تعالیٰ کے اس ارادۂ شرعیہ تکلیفیہ کا اظہار ہے جو اس کو محبوب ومطلوب ہے کہ تمام انس وجن صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اطاعت بھی اسی ایک کی کریں۔ اگر اس کا تعلق ارادۂ تکوینی سے ہوتا، پھر تو کوئی انس وجن اللہ کی عبادت واطاعت سے انحراف کی طاقت ہی نہ رکھتا۔ یعنی اس میں انسانوں اور جنوں کو اس مقصد زندگی کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، جسے اگر انہوں نے فراموش کیے رکھا تو آخرت میں سخت بازپرس ہوگی اور وہ اس امتحان میں ناکام قرار پائیں گے جس میں اللہ نے ان کو ارادہ واختیار کی آزادی دے کر ڈالا ہے۔
____________________
* یعنی میری عبادت واطاعت سے میرا مقصود یہ نہیں ہے کہ یہ مجھے کما کر کھلائیں، جیساکہ دوسرے آقاؤں کا مقصود ہوتاہے، بلکہ رزق کےسارے خزانے تو خود میرے ہی پاس ہیں میری عبادت واطاعت سے تو خود ان ہی کو فائدہ ہو گا کہ ان کی آخرت سنور جائے گی نہ کہ مجھے کوئی فائدہ ہو گا۔
____________________
* ذَنُوبٌ کے معنی بھرے ڈول کےہیں۔ کنویں سے ڈول میں پانی نکالا کر تقسیم کیا جاتا ہے اس اعتبار سے یہاں ڈول کو حصے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ مطلب ہے کہ ظالموں کو عذاب سے حصہ پہنچے گا، جس طرح اس سے پہلے کفر وشرک کا ارتکاب کرنے والوں کو ان کے عذاب کا حصہ ملا تھا۔
**- لیکن یہ حصۂ عذاب انہیں کب پہنچے گا، یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، اس لیے طلب عذاب میں جلدی نہ کریں۔