ﰡ
____________________
* سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ «اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ» ہے اس کے بعد وحی میں وقفہ ہوگیا اور نبی (صلى الله عليه وسلم) سخت مضطرب اور پریشان رہتے۔ ایک روز اچانک پھر وہی فرشتہ، جو غار حرا میں پہلی مرتبہ وحی لے کر آیا تھا۔ آپ نے دیکھا کہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، جس سے آپ پر ایک خوف سا طاری ہوگیا اور گھر جاکر گھر والوں سے کہا کہ مجھے کوئی کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے جسم پر ایک کپڑا ڈال دیا، اسی حالت میں وحی نازل ہوئی۔ (صحيح البخاري، ومسلم، سورة المدثر وكتاب الإيمان) اس اعتبار سے یہ دوسری وحی اور احکام کے حساب سے پہلی وحی ہے۔
____________________
* یعنی اہل مکہ کو ڈرا، اگر وہ ایمان نہ لائیں۔
____________________
* یعنی قلب اور نیت کے ساتھ کپڑے بھی پاک رکھ۔ یہ حکم اس لئے دیا گیا کہ مشرکین مکہ طہارت کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔
____________________
* یعنی بتوں کی عبادت چھوڑ دے۔ یہ دراصل لوگوں کو آپ کے ذریعے سے حکم دیا جا رہا ہے۔
____________________
* یعنی احسان کرکے یہ خواہش نہ کر کہ بدلے میں اس سے زیادہ ملے گا۔
____________________
* یعنی قیامت کا دن کافروں پر بھاری ہوگا کیونکہ اس روز کفر کا نتیجہ انہیں بھگتنا ہوگا، جو جرم وہ دنیا میں کرتے رہے ہونگے۔
____________________
* یہ کلمہ وعید و تہدید ہے کہ اسے، جسے میں نے ماں کے پیٹ میں اکیلا پیدا کیا، اس کے پاس مال تھا نہ اولاد، اور مجھے اکیلا چھوڑ دو، یعنی میں خود ہی اس سے نمٹ لوں گا، کہتے ہیں کہ یہ ولید بن مغیرہ کی طرف اشارہ ہے۔ یہ کفر و طغیان میں بہت بڑھا ہوا تھا، اس لئے اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے۔ واللہ عالم۔
____________________
* اسے اللہ نے اولاد سے نوازا تھا اور وہ ہر وقت اس کے پاس ہی رہتے تھے، گھر میں دولت کی فروانی تھی، اس لئے بیٹوں کو تجارت و کاروبار کے لئے باہر جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی بعض کہتے ہیں کہ اس کے تین بیٹے مسلمان ہوگئے تھے، خالد، ہشام اور ولید بن ولید (فتح القدیر)
____________________
* یعنی مال و دولت میں ریاست و سرداری میں اور درازی عمر میں۔
____________________
* یعنی کفرو معصیت کے باوجود، اس کی خواہش ہے کہ میں اسے زیادہ دوں۔
____________________
* یعنی میں اسے زیادہ نہیں دونگا۔
**- یہ کلا کی علت ہے۔ عنید اس شخص کو کہتے ہیں جو جاننے کے باوجود حق کی مخالفت کرے اور اس کو رد کرے۔
____________________
* یعنی ایسے عذاب میں مبتلا کروں گا جس کا برداشت کرنا نہایت سخت ہوگا، بعض کہتے ہیں، جہنم میں آگ کا پہاڑ ہوگا جس پر اس کو چڑھایا جائے گا۔ ارھاق کے معنی ہیں۔ انسان پر بھاری چیز لاد دینا۔ (فتح القدیر)
____________________
* یعنی قرآن اور نبی (صلى الله عليه وسلم) کا پیغام سن کر، اس نے اس امر پر غور کیا کہ میں اس کا جواب دوں؟ اور اپنے جی میں اس نے وہ تیار کیا۔
____________________
* یہ اس کے حق میں بد دعائیہ کلمے ہیں، کہ ہلاک ہو، مارا جائے، کیا بات اس نے سوچی ہے؟
____________________
* یعنی پھر غور کیا کہ قرآن کا رو کس طرح ممکن ہے۔
____________________
* یعنی جواب سوچتے وقت چہرے کی سلوٹیں بدلیں، اور منہ بسورا، جیسا کہ عمومًا کسی مشکل بات پر غور کرتے وقت آدمی ایسا کرتا ہے۔
____________________
* یعنی حق سے اعرض کیا اور ایمان لانے سے تکبر کیا۔
____________________
* یعنی کسی سے یہ سیکھ آیا ہے اور وہاں سے نقل کر لایا ہے اور دعویٰ کر دیا کہ اللہ کا نازل کردہ ہے۔
____________________
* دوزخ کے ناموں یا درجات ایک کا نام سَقَرُ بھی ہے۔
____________________
* ان کے جسموں پر گوشت چھوڑے گی نہ ہڈی، یا مطلب ہے جہنمیوں کو زندہ چھوڑے گی نہ مردہ'لا یموت فیھا و لا یحیٰ
____________________
* یعنی جہنم پر بطور دربان ١٩ فرشتے مقرر ہیں
____________________
* یہ مشرکین قریش کا رد ہے، جب جہنم کے دروغوں کا اللہ نے ذکر فرمایا تو ابو جہل نے جماعت قریش کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کیا تم میں سے ہر دس آدمیوں کا گروپ، ایک ایک فرشتے کے لئے کافی نہیں ہوگا، بعض کہتے ہیں کہ کالدہ نامی شخص نے اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا، کہا، تم سب صرف دو فرشتے سنبھال لینا، ١٧ فرشتوں کو تو میں اکیلا ہی کافی ہوں۔ کہتے ہیں اس نے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کو کشتی کا بھی کئی مرتبہ چلینج دیا اور ہر مرتبہ شکست کھائی مگر ایمان نہیں لایا، کہتے ہیں اس کے علاوہ رکانہ بن عبد یزید کے ساتھ بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) نے کشتی لڑی تھی لیکن وہ شکست کھا کر مسلمان ہوگئے تھے (ابن کثیر) مطلب یہ کہ یہ تعداد بھی ان کے مذاق یا آزمائش کا سبب بن گئی۔
**- یعنی جان لیں کہ رسول برحق ہے اور اس نے وہی بات کی ہے جو پچھلی کتابوں میں بھی درج ہے۔
***- کہ اہل کتاب نے ان کے پیغمبر کی بات کی تصدیق کی ہے ۔
****- بیمار دلوں سے مراد منافقین ہیں یا پھر وہ جن کے دلوں میں شکوک تھے کیونکہ مکہ میں منافقین نہیں تھے۔ یعنی یہ پوچھیں گے کہ اس تعداد کو یہاں ذکر کرنے میں اللہ کی کیا حکمت ہے؟
*****- یعنی گذشتہ گمراہی کی طرح جسے چاہتا ہے گمراہ اور جسے چاہتا ہے، راہ یاب کر دیتا ہے، اس میں حکمت بالغہ ہوتی ہے اسے صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
******- یعنی کفار و مشرکین سمجھتے ہیں کہ جہنم میں 19 فرشتے ہی تو ہیں، جن پر قابو پانا کون سا مشکل کام ہے؟ لیکن ان کو معلوم نہیں کہ رب کے لشکر تو اتنے ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہی نہیں۔ صرف فرشتے ہی اتنی تعداد میں ہیں کہ 70 ہزار فرشتے روزانہ اللہ کی عبادت کے لئے بیت المعمور میں داخل ہوتے ہیں، پھر قیامت تک ان کی باری نہیں آئے گی۔ (صحیح بخاری)
*******- یعنی یہ جہنم اور اس پر مقرر فرشتے، انسانوں کی پند و نصیحت کے لئے ہیں کہ شاید وہ نافرمانیوں سے باز آجائیں۔
____________________
* کلا یہ اہل مکہ کے خیالات کی نفی ہے یعنی جو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم فرشتوں کو مغلوب کر لیں گے ہر گز ایسا نہیں ہوگا۔
____________________
* یہ جواب قسم ہے کُبَر، کُبْرَیٰ کی جمع ہے تین نہایت اہم چیزوں کی قسموں کے بعد اللہ نے جہنم کی بڑائی اور ہولناکی کو بیان کیا ہے جس سے اس کی بڑائی میں کوئی شک نہیں رہتا۔
____________________
* یعنی یہ جہنم ڈرانے والی ہے یا نذیر سے مراد نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) ہیں یا قرآن بھی اپنے بیان کردہ وعد و وعید کے اعتبار سے انسانوں کے لئے نذیر ہے۔
**- یعنی ایمان واطاعت میں آگے بڑھنا چاہیے یا اس سے پیچھے ہٹنا چاہیے مطلب ہے کہ انداز ہر ایک کے لیے ہے جو ایمان لائے یا کفر کرے۔
____________________
* رہن گروی کو کہتے ہیں یعنی ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہے، وہ عمل اسے عذاب سے چھڑا لے گا، (اگر نیک ہوگا) یا ہلاک کروا دے گا۔ (اگر برا ہے)
____________________
* یعنی وہ اپنے گناہوں کے اسیر نہیں ہوں گے بلکہ اپنے نیک اعمال کی وجہ سے آزاد ہونگے۔
____________________
* فی الجنات، اصحاب الیمین سے غال ہےاہل جنت بالاخانوں میں بیٹھے، جہنمیوں سے سوال کریں گے۔
____________________
* نماز حقوق اللہ میں سے اور مساکین کو کھانا کھلانا حقوق العباد میں سے ہے مطلب یہ ہوا کہ ہم نے اللہ کے حقوق ادا کیے نہ بندوں کے۔
____________________
* یعنی کج بحثی اور گمراہی کی حمایت میں سرگرمی سے حصہ لیتے تھے۔
____________________
* یقین کے معنی موت کے ہیں، جیسے دوسرے مقام پر ہے۔ واعبد ربک حتی یاتیک الیقین» (الحجر: 99)
____________________
* یعنی جو صفات مذکورہ کا حامل ہوگا، اسے کسی کی شفاعت بھی فائدہ نہیں پہنچائے گی، اس لئے کہ کفر کی وجہ سے محل شفاعت ہی نہیں ہوگا، شفاعت تو صرف ان کے لئے مفید ہوگی جو ایمان کی وجہ سے شفاعت کے قابل ہونگے۔اللہ کی طرف سے شفاعت کی اجازت بھی انہی کے لئے ملے گی نہ کہ ہر ایک کے لئے۔
____________________
* یعنی یہ حق سے نفرت اور اعراض کرنے میں ایسے ہیں جیسے وحشی، خوف زدہ گدھے، شیر سے بھاگتے ہیں جب وہ ان کا شکار کرنا چاہیے۔قسورۃ'بمعنی شیر بعض نے تئر انداز معنی بھی کئے ہیں ۔
____________________
* یعنی ہر ایک کے ہاتھ میں اللہ کی طرف سے ایک ایک کتاب مفتوح نازل ہو جس میں لکھا ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ بغیر عمل کے یہ عذاب سے چھٹکارہ چاہتے ہیں، یعنی ہر ایک کو پروانہ نجات مل جائے۔ (ابن کثیر)
____________________
* یعنی ان کے فساد کی وجہ سے ان کا آخرت پر عدم ایمان اور اس کی تکذیب ہے جس نے انہیں بےخوف کر دیا ہے۔
____________________
* لیکن اس کے لئے جو اس قرآن کے واعظ اور نصیحت سے عبرت حاصل کرنا چاہے۔
____________________
* یعنی اس قرآن سے ہدایت اور نصیحت اسے ہی حاصل ہوگی جسے اللہ چاہے گا۔
**- یعنی وہ اللہ ہی اس لائق ہے اس سے ڈرا جائے اور وہی معاف کرنے کے اختیارات رکھتا ہے۔ اس لئے وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اسکی نافرمانی سے بچا جائے تاکہ انسان اس کی مغفرت و رحمت کا سزاوار قرار پائے۔