ﰡ
____________________
* واقعہ بھی قیامت کے ناموں میں سے ہے، کیونکہ یہ لامحالہ واقع ہونے والی ہے، اس لیے اس کا یہ نام بھی ہے۔
____________________
* پستی اور بلندی سے مطلب ذلت اور عزت ہے۔ یعنی اللہ کے اطاعت گزار بندوں کو یہ بلند اور نافرمانوں کو پست کرے گی، چاہےدنیا میں معاملہ اس کے برعکس ہو۔ اہل ایمان وہاں معزز و مکرم ہوں گےاور اہل کفر و عصیان ذلیل و خوار۔
____________________
* رَجًّا کے معنی حرکت واضطراب (زلزلہ) اور بس کے معنی ریزہ ریزہ ہو جانے کے ہیں۔
____________________
* أَزْوَاجًا: أَصْنَافًا کے معنی میں ہے۔
____________________
* اس سے عام مومنین مراد ہیں جن کو ان کے اعمال نامے دائیں ہاتھوں میں دیئے جائیں گے جو ان کی خوش بختی کی علامت ہوگی۔
____________________
* اس سے مراد کافر ہیں جن کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھوں میں پکڑائے جائیں گے۔
____________________
* ان سےمراد خواص مومنین ہیں، یہ تیسری قسم ہے جوایمان قبول کرنے میں سبقت کرنے اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو قرب خاص سےنوازے گا، یہ ترکیب ایسے ہی ہے، جیسے کہتے ہیں، تو تو ہے اور زید زید، اس میں گویا زید کی اہمیت اور فضیلت کا بیان ہے۔
____________________
* ثُلَّةٌ، اس بڑے گروہ کو کہا جاتا ہے جس کا گننا ناممکن ہو۔ کہا جاتا ہے کہ اولین سےمراد حضرت آدم (عليه السلام) سے لے کر نبی ﹲ تک کی امت کےلوگ ہیں اور آخرین سے امت محمدیہ کے افراد۔ مطلب یہ ہے کہ پچھلی امتوں میں سابقین کا ایک بڑا گروہ ہے، کیونکہ ان کا زمانہ بہت لمبا ہے جس میں ہزاروں انبیا کے سابقین شامل ہیں ان کے مقابلے میں امت محمدیہ کا زمانہ (قیامت تک) تھوڑا ہے، اس لیے ان میں سابقین بھی بہ نسبت گزشتہ امتوں کے تھوڑے ہوں گے۔ اور ایک حدیث میں آتا ہے۔ جس میں نبی ﹲ نے فرمایا ہے کہ مجھے امید ہے کہ تم جنتیوں کا نصف ہو گے (صحیح مسلم، نمبر 200) تو یہ آیت کے مذکورہ مفہوم کےمخالف نہیں۔ کیونکہ امت محمدیہ کہ سابقین اور عام مومنین ملا کر باقی تمام امتوں سے جنت میں جانے والوں کا نصف ہو جائیں گے، اس لیے محض سابقین کی کثرت (سابقہ امتوں میں) سے حدیث میں بیان کردہ تعداد کی نفی نہیں ہو گی۔ مگریہ قول محل نظر ہے اور بعض نے اولین وآخرین سے اسی امت محمدیہ کے افراد مراد لیے ہیں۔ یعنی اس کے پہلے لوگوں میں سابقین کی تعداد زیادہ اور پچھلے لوگوں میں تھوڑی ہوگی۔ امام ابن کثیر نے اسی دوسرے قول کو ترجیح دی ہے۔ اوریہی زیادہ درست معلوم ہوتا ہے یہ جملہ معترضہ ہے، فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ اور عَلَى سُرُرٍ مَوْضُونَةٍ کے درمیان۔
____________________
* مَوْضُونَةٌ بنے ہوئے جڑےہوئے۔ یعنی مذکورہ جنتی سونے کے تاروں سے بنے اور سونے جواہر سے جڑے ہوئے تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے یعنی رو در رو ہوں گے نہ کہ پشت بہ پشت۔
____________________
* یعنی وہ بڑے نہیں ہوں گے کہ بوڑھے ہو جائیں نہ ان کے خدوخال اور قدوقامت میں کوئی تغیر واقع ہوگا، بلکہ ایک ہی عمر اور ایک ہی حالت پر رہیں گے، جیسےنوعمر لڑکےہوتے ہیں۔
____________________
* صُدَاعٌ، ایسے سر درد کو کہتے ہیں جو شراب کےنشے اور خمار کی وجہ سے ہو اور إِنْزَافٌ کے معنی، وہ فتور عقل جو مدہوشی کی بنیاد پر ہو۔ دنیا کی شراب کے نتیجے میں یہ دونوں چیزیں ہوتی ہیں، آخرت کی شراب میں سرور اور لذت تو یقیناً ہو گی لیکن یہ خرابیاں نہیں ہوں گی۔ معین، چشمہ جاری جو خشک نہ ہو۔
____________________
* مَكْنُونٌ، جسے چھپا کر رکھا گیا، اس کو کسی کے ہاتھ لگے ہوں نہ گردوغبار اسے پہنچا ہو۔ ایسی چیز بالکل صاف ستھری اور اصلی حالت میں رہتی ہے۔
____________________
* یعنی دنیامیں تو باہم لڑائی جھگڑے ہی ہوتے ہیں، حتیٰ کہ بہن بھائی بھی اس سے محفوظ نہیں، اس اختلاف و نزاع سے دلوں میں کدورتیں اور بغض و عنادپیدا ہوتا ہے جو ایک دوسرےکے خلاف بدزبانی، سب وشتم، غیبت اور چغل خوری وغیرہ پر انسان کو آمادہ کرتا ہے۔ جنت ان تمام اخلاقی گندگیوں اور بےہودگیوں سے نہ صرف پاک ہوگی، بلکہ وہاں سلام ہی سلام کی آوازیں سننے میں آئیں گی، فرشتوں کی طرف سے بھی اور آپس میں اہل جنت کی طرف سے بھی۔ جس کا مطلب ہے کہ وہاں سلام و تحیہ توہو گا۔ لیکن دل اور زبان کی وہ خرابیاں نہیں ہوں گی جو دنیامیں عام ہیں حتیٰ کہ بڑے بڑے دین دار بھی ان سے محفوظ نہیں۔
____________________
* اب تک سابقین (مُقَرَّبِينَ) کا ذکر تھا، أَصْحَابُ الْيَمِينِ سے اب عام مومنین کا ذکر ہورہا ہے۔
____________________
* جیسے ایک حدیث میں ہے کہ (جنت کے ایک درخت کے سائے تلے ایک گھوڑ سوار سو سال تک چلتا رہے گا، تب بھی، وہ سایہ ختم نہیں ہوگا)۔ (صحيح بخاري، تفسير سورة الواقعة، مسلم، كتاب الجنة، باب إن في الجنة شجرة....)۔
____________________
* یعنی یہ پھل موسمی نہیں ہوں گے کہ موسم گزر گیا تو یہ پھل بھی آئندہ فصل تک ناپید ہو جائیں، یہ پھل اس طرح فصل گل ولالہ کے پابند نہیں ہوں گے، بلکہ بہار و خزاں اور گرمی و سردی ہر موسم میں دستیاب ہوں گے۔ اس طرح ان کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔
____________________
* بعض نے فرشوں سے بیویوں اور مرفوعہ سےبلند مرتبہ کا مفہوم مراد لیاہے۔
____________________
* أَنْشَأْنَاهُنَّ کا مرجع اگرچہ قریب میں نہیں ہے لیکن سیاق کلام اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد اہل جنت کو ملنے والی بیویاں اور حور عین ہیں۔ حوریں، ولادت کے عام طریقے سے پیدا شدہ نہیں ہوں گی، بلکہ اللہ تعالیٰ خاص طور پر انہیں جنت میں اپنی قدرت خاص سے بنائے گا، اور جو دنیاوی عورتیں ہوں گی، تو و ہ بھی حوروں کے علاوہ اہل جنت کو بیویوں کے طور پر ملیں گی، ان میں بوڑھی، کالی، بدشکل، جس طرح کی بھی ہوں گی، سب کو اللہ تعالی ﺀ جنت میں جوانی اور حسن وجمال سے نواز دے گا، نہ کوئی بوڑھی، بوڑھی رہے گی، نہ کوئی بدشکل، بدشکل بلکہ سب باکرہ (کنواری) کی حیثیت میں ہوں گی۔
____________________
* عُرُبٌ عَرُوبَةٌ کی جمع ہے۔ ایسی عورت جو اپنے حسن وجمال اور دیگر محاسن کی وجہ سے خاوند کو نہایت محبوب ہو۔ أَتْرَابٌ تِرْبٌ کی جمع ہے۔ ہم عمر، یعنی سب عورتیں جو اہل جنت کو ملیں گی، ایک ہی عمر کی ہوں گی، جیساکہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ سب جنتی 33 سال کی عمر کےہوں گے، (سنن ترمذي، باب ما جاء في سن أهل الجنة) یا مطلب ہےکہ خاوندوں کی ہم عمر ہوں گی۔ مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے۔
____________________
* یعنی آدم (عليه السلام) سے لے کر نبی کریم ﹲ تک کےلوگوں میں سے یا خود امت محمدیہ کے اگلوں میں سے۔
____________________
* یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے یا آپ کی امت کے پچھلوں میں سے۔
____________________
* اس سے مراد اہل جہنم ہیں، جن کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے، جو ان کی مقدر شدہ شقاوت کی علامت ہو گی۔
____________________
* سَمُومٍ، آگ کی حرارت یاگرم ہوا جو مسام بدن میں گھس جائے۔ حَمِيمٍ، کھولتا ہوا پانی، يَحْمُومٍ، حِمَمَةٌ سے ہے، بمعنی سیاہ، اور احم بہت زیادہ سیاہ چیز ہو تو کہا جاتا ہے، يَحْمُومٍ کے معنی سخت کالا دھواں مطلب یہ ہے کہ جہنم کے عذاب سے تنگ آ کر وہ ایک سائے کی طرف دوڑیں گے، لیکن جب وہاں پہنچیں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ سایہ نہیں ہے، جہنم ہی کی آگ کا سخت سیاہ دھواں ہے۔ بعض کہتےہیں کہ یہ حَمٌّ سے ہے جو اس چربی کو کہتے ہیں جوآ گ میں جل جل کر سیاہ ہو گئی ہو۔ بعض کہتے ہیں، یہ حِمَمٌ سے ہے، جو کوئلے کےمعنی میں ہے۔ اسی لیے امام ضحاک فرماتے ہیں۔ آگ بھی سیاہ ہے، اہل نار بھی سیاہ رو ہوں گے۔ اور جہنم میں جو کچھ بھی ہوگا۔، سیاہ ہی ہو گا۔ اللَّهُمَّ أَجِرْنَا مِنَ النَّارِ۔
____________________
* یعنی سایہ ٹھنڈا ہوتا ہے، لیکن یہ جس کو سایہ سمجھ رہےہوں گے، وہ سایہ ہی نہیں ہوگا، جوٹھنڈا ہو، وہ تو جہنم کا دھواں ہوگا، وَلا كَرِيمٍ، جس میں کوئی حسن منظر یا خیر نہیں۔ یا حلاوت نہیں۔
____________________
* یعنی دنیا میں آخرت سے غافل ہو کر عیش و عشرت کی زندگی میں ڈوبے ہوئے تھے۔
____________________
* اس سے معلوم ہوا کہ عقیدۂ آخرت کا انکار ہی کفر وشرک اور معاصی میں ڈوبے رہنےکا بنیادی سبب ہے. یہی وجہ ہے کہ جب آخرت کاتصور، اس کے ماننے والوں کے ذہنوں میں دھندلا جاتا ہے، تو ان میں بھی فسق و فجور عام ہو جاتا ہے۔ جیسے آج کل عام مسلمانوں کاحال ہے۔
____________________
* یعنی اس کریہ المنظر اور نہایت بدذائقہ اور تلخ درخت کا کھانا تمہیں اگرچہ سخت ناگوار ہوگا، لیکن بھوک کی شدت سےتمہیں اسی سے اپنا پیٹ بھرنا ہوگا۔
____________________
* هِيمٌ، أَهْيَمُ کی جمع ہے، ان پیاسے اونٹوں کو کہا جاتا ہے جو ایک خاص بیماری کی وجہ سے پانی پر پانی پیئے جاتے ہیں لیکن ان کی پیاس نہیں بجھتی۔ مطلب یہ ہے کہ زقوم کھانے کے بعد بھی اس طرح نہیں پیو گے جس طرح عام معمول ہوتا ہے، بلکہ ایک تو بطور عذاب کے تمہیں پینے کےلیے کھولتاہوا پانی ملے گا۔ دوسرا تم اسے پیاسے اونٹوں کی طرح پیئے جاؤ گے لیکن تمہاری پیاس دور نہیں ہوگی۔
____________________
* یہ بطور استہزا اور تہکم کے فرمایا، ورنہ مہمانی تو وہ ہوتی ہے جو مہمان کی عزت کے لیےتیار کی جاتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہےجیسے بعض مقام پر فرمایا: «فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ» (آل عمران: 21) ”ان کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دیجیئے“۔
____________________
* یعنی تم جانتے ہو کہ تمہیں پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے، پھر تم اس کو مانتے کیوں نہیں ہو؟ یا دوبارہ زندہ کرنے پر یقین کیوں نہیں کرتے؟
____________________
* یعنی تمہارے بیویوں سےمباشرت کرنے کے نتیجے میں تمہارے جو قطرات منی عورتوں کے رحموں میں جاتے ہیں، ان سے انسانی شکل وصورت بنانے والے ہم ہیں یا تم؟
____________________
* یعنی ہر شخص کی موت کا وقت مقرر کر دیا ہے، جس سے کوئی تجاوز نہیں کر سکتا۔ چنانچہ کوئی بچپن میں، کوئی جوانی میں اور کوئی بڑھاپے میں فوت ہوتا ہے۔
**- یا مغلوب اور عاجز نہیں ہیں، بلکہ قادر ہیں۔
____________________
* یعنی تمہاری صورتیں مسخ کر کے تمہیں بندر اور خنزیر بنادیں اور تمہاری جگہ تمہاری شکل و صورت کی کوئی اور مخلوق پیداکردیں۔
____________________
* یعنی کیوں یہ نہیں سمجھتے کہ جس طرح اس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا (جس کا تمہیں علم ہے) وہ دوبارہ بھی پیدا کر سکتا ہے۔
____________________
* یعنی زمین میں تم جو بیج بوتے ہو، اس سے ایک درخت زمین کے اوپر نمودار ہو جاتا ہے۔ غلے کے ایک بےجان دانے کوپھاڑ کر اور زمین کے سینے کو چیر کو اس طرح درخت اگانے والا کون ہے؟ یہ بھی منی کے قطرے سے انسان بنا دینے کی طرح ہماری ہی قدرت کا شاہکار ہے۔ یا تمہارے کسی ہنر یا چھو منتر کانتیجہ ہے؟
____________________
* یعنی کھیتی کو سرسبز وشاداب کرنےکے بعد، جب وہ پکنے کے قریب ہو جائے توہم اگر چاہیں تو اسے خشک کر کے ریزہ ریزہ کردیں اور تم حیرت سے منہ ہی تکتے رہ جاؤ۔ تَفَكُّهٌ اضداد میں سے ہے اس کے معنی نعمت وخوش حالی بھی ہیں اور حزن ویاس بھی۔ یہاں دوسرے معنی مراد ہیں، اس کے مختلف معانی کیے گئے ہیں، تُنَوِّعُونَ كَلامَكُمْ، تَنْدَمُونَ، تَحْزَنُونَ، تَعْجَبُونَ، تَلاوَمُونَ، اور تَفْجَعُونَ وغیرہ۔ ظَلْتُمْ، اصل میں ظَلَلْتُم بمعنی صِرْتُمْ اور تَفَكَّهُونَ، تَتَفَكَّهُونَ ہے۔
____________________
* یعنی ہم نے پہلے زمین پر ہل چلا کر اسے ٹھیک کیا پھر بیج ڈالا، پھر اسے پانی دیتے رہے، لیکن جب فصل کے پکنے کا وقت آیا تو وہ خشک ہو گئی، اور ہمیں کچھ بھی نہ ملا یعنی یہ سارا خرچ اور محنت، ایک تاوان ہی ہوا جو ہمیں برداشت کرنا پڑا۔ تاوان کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ انسان کو اس کے مال یا محنت کامعاوضہ نہ ملے، بلکہ وہ یوں ہی ضائع ہو جائے یا زبردستی اس سے کچھ موصول کر لیا جائے۔ اور اس کےبدلے میں اسے کچھ نہ دیا جائے۔
____________________
* یعنی اس احسان پر ہماری اطاعت کر کے ہمارا عملی شکر اداکیوں نہیں کرتے؟
____________________
* کہتے ہیں عرب میں دو درخت ہیں، مرخ اور عفار، ان دونوں سے ٹہنیاں لے کر، ان کو آپس میں رگڑا جائے تو اس سےآگ کے شرارے نکلتے ہیں۔
____________________
* کہ اس کے اثرات اور فوائد حیرت انگیز ہیں اور دنیاکی بےشمار چیزوں کی تیاری کے لیے اسے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ جو ہماری قدرت عظیمہ کی نشانی ہے، پھر ہم نے جس طرح دنیامیں یہ آگ پیدا کی ہے، ہم آخرت میں بھی پیدا کرنے پر قادر ہیں۔ جو اس سے 69 درجہ حرارت میں زیادہ ہو گی۔ (كَمَا فِي الْحَدِيثِ)۔
**- مُقْوِينَ، مُقْوٍ کی جمع ہے، قَوَاءٌ یعنی خالی صحرا میں داخل ہونے والا، مراد مسافر ہے۔ یعنی مسافر صحراؤں اور جنگلوں میں ان درختوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس سے روشنی، گرمی اور ایندھن حاصل کرتے ہیں۔ بعض نے مُقْوٍ سے وہ فقرا مراد لیےہیں جو بھوک کی وجہ سے خالی پیٹ ہوں۔ بعض نے اس کی معنی مُسْتَمْتِعِينَ (فائدہ اٹھانے والے) کیے ہیں۔ اس میں امیر، غریب، مقیم اور مسافر سب آ جاتے ہیں اور سب ہی آگ سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی لیے حدیث میں جن تین چیزوں کو عام رکھنے کا اوران سے کسی کو نہ روکنے کا حکم دیا گیا ہے، ان میں پانی اورگھاس کے علاوہ آگ بھی ہے، (أبو داود، كتاب البيوع، باب في منع الماء، وسنن ابن ماجه، كتاب الرهون، باب المسلمون شركاء في ثلاث) امام ابن کثیر نے اس مفہوم کو زیادہ پسندکیا ہے۔
____________________
* فَلا أُقْسِمُ میں ”لا“ زائد ہے جو تاکید کے لیے ہے۔ یا یہ زائد نہیں ہے۔ بلکہ ماقبل کی کسی چیز کی نفی کےلیے ہے۔ یعنی یہ قرآن کہانت یا شاعری نہیں ہے بلکہ میں ستاروں کے گرنے کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ قرآن عزت والا ہے... مَوَاقِعُ النُّجُومِ سے مراد ستاروں کے طلوع و غروب کی جگہیں اور ان کی منزلیں اور مدارہیں، بعض نے ترجمہ کیا ہے ”قسم کھاتا ہوں آیتوں کے اترنے کی پیغمبروں کے دلوں میں“ (موضح القرآن) یعنی نجوم، قرآن کی آیات اور مواقع، قلوب انبیا۔ بعض نے اس کا مطلب قرآن کا آہستہ آہستہ بتدریج اترنا اور بعض نے قیامت والے ستاروں کا جھڑنا مراد لیا ہے۔ (ابن کثیر)۔
____________________
* یہ جواب قسم ہے۔
____________________
* یعنی لوح محفوظ ہیں۔
____________________
* لا يَمَسُّهُ، میں ضمیر کا مرجع لوح محفوط ہے اور پاک لوگوں سے مراد فرشتے، بعض نے اس کا مرجع، قرآن کریم کو بنایا ہے یعنی اس قرآن کو فرشتے ہی چھوتےہیں، یعنی آسمانوں پر فرشتوں کے علاوہ کسی کی بھی رسائی اس قرآن تک نہیں ہوتی۔ مطلب مشرکین کی تردید ہے جو کہتے تھے کہ قرآن شیاطین لے کر اترتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا یہ کیونکر ممکن ہے یہ قرآن تو شیطانی اثرات سے بالکل محفوظ ہے۔
____________________
* حدیث سے مراد قرآن کریم ہے مُدَاهَنَةٌ، وہ نرمی جو کفر ونفاق کے مقابلے میں اختیار کی جائے۔ دراں حالیکہ ان کے مقابلے میں سخت تر رویے کی ضرورت ہے۔ یعنی اس قرآن کو اپنانے کے معاملےمیں تمام کافروں کو خوش کرنے کے لیے نرمی اور اعراض کا راستہ اختیار کر رہے ہو۔ حالانکہ یہ قرآن جو مذکورہ صفات کا حامل ہے، اس لائق ہے کہ اسے نہایت خوشی سے اپنایا جائے۔
____________________
* یعنی روح نکلتے ہوئے دیکھتے ہو لیکن اسے ٹال سکنے کی یا اسے کوئی فائدہ پہنچانےکی قدرت نہیں رکھتے۔
____________________
* یعنی مرنے والے کے ہم، تم سے بھی زیادہ قریب ہوتےہیں۔ اپنے علم، قدرت اور رؤیت کے اعتبار سے۔ یا ہم سے مراد اللہ کے کارندے یعنی موت کے فرشتے ہیں جو اس کی روح قبض کرتےہیں۔
**- یعنی اپنی جہالت کی وجہ سے تمہیں اس بات کا ادراک نہیں کہ اللہ تو تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے یا روح قبض کرنے والے فرشتوں کو تم دیکھ نہیں سکتے۔
____________________
* دَانَ يَدِينُ کے معنی ہیں، ماتحت ہونا، دوسرے معنی ہیں بدلہ دینا۔ یعنی اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ کوئی تمہارا آقا اور مالک نہیں جس کے تم زیرفرمان اور ماتحت ہو یاکوئی جزا سزا کا دن نہیں آئے گا، تو اس قبض کی ہوئی روح کو اپنی جگہ پر واپس لوٹا کر دکھاو اور اگرتم ایسا نہیں کر سکتے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تمہارا گمان باطل ہے۔ یقیناً تمہارا ایک آقا ہے اور یقیناً ایک دن آئے گا جس میں وہ آقا ہر ایک کو اس کے عمل کی جزادے گا۔
____________________
* سورت کے آغاز میں اعمال کےلحاظ سے انسانوں کی جو تین قسمیں بیان کی گئیں تھیں، ان کا پھر ذکر کیا جا رہا ہے۔ یہ ان کی پہلی قسم ہے جنہیں مقربین کے علاوہ سابقین بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ نیکی کے ہرکام میں آگے آگے ہوتے ہیں اور قبول ایمان میں بھی دوسروں سے سبقت کرتے ہیں اور اپنی اسی خوبی کی وجہ سے وہ مقربین بارگاہ الٰہی قرار پاتے ہیں۔
____________________
* یہ دوسری قسم ہے، عام مومنین۔ یہ بھی جہنم سے بچ کر جنت میں جائیں گے، تاہم درجات میں سابقین سے کم تر ہوں گے۔ موت کے وقت فرشتے ان کو بھی سلامتی کی خوش خبری دیتے ہیں۔
____________________
* یہ تیسری قسم ہے جنہیں آغازسورت میں أَصْحَابُ الْمَشْئَمَة ِکہا گیا تھا، بائیں ہاتھ والے یا حاملین نحوست۔ یہ اپنے کفر ونفاق کی سزا یا اس کی نحوست عذاب جہنم کی صورت میں بھگتیں گے۔
____________________
* حدیث میں آتا ہے کہ دو کلمے اللہ کو بہت محبوب ہیں، زباں پر ہلکے اور وزن میں بھاری۔ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِه سَبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ (صحيح بخاري آخری حدیث وصحيح مسلم كتاب الذكر، باب فضل التهليل والتسبيح والدعاء)۔